Powered By Blogger

جمعرات, نومبر 11, 2021

جانیے! : فتح پوری مسجد کیوں ہے ہندو ۔ مسلم اتحاد کی علامت ؟

جانیے! : فتح پوری مسجد کیوں ہے ہندو ۔ مسلم اتحاد کی علامت ؟

جا نیے! فتح پوری مسجد کیوں ہے ہندو ۔ مسلم اتحاد کی علامت ؟
جا نیے! فتح پوری مسجد کیوں ہے ہندو ۔ مسلم اتحاد کی علامت ؟

 

منصور الدین فریدی : اردو دنیا نیوز

فتح پوری مسجد محتاج تعارف نہیں،راجدھا نی کی دوسری بڑی اور تاریخی عبادت گاہ ،جو آج کل اپنی خستہ حالی کے سبب سرخیوں میں ہے۔ یہ خستہ حالی اس کی بنیادوں سے میناروں تک ہے مگر اس خستہ حال عبادت گاہ کی یادوں کے کچھ ایسے خزانے ہیں جو ملک کی فرقہ وارانہ  ہم آہنگی کی خوبصورتی کو اب بھی اجاگر کررہے ہیں بلکہ آج بھی اتحاد اور یک جہتی کا مضبوط پیغام دے رہے ہیں۔۔

در اصل اس سرخ پتھر والی مسجد کی تاریخ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک ایسی کہانی سمیٹے ہوئے ہے جو آج کے ماحول اور سوچ کو آئینہ دکھا رہی ہے۔بتا رہی ہے کہ اس ملک میں فرقہ وارانہ بھائی چارہ اور مذہبی رواداری سب سے بڑی طاقت ہے۔ جن کی بنیادوں کو ہلانا ممکن نہیں ہے۔

 فتح پوری مسجد بھی1857 کے غدر کے بعد دہلی کی سینکڑوں مساجد کے ساتھ سنسان اور ویران ہوگئی تھی۔ مسلمانوں پر غدر کے بعد انگریزوں کے بے انتہا مظالم نے انہیں شہر چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا اور جو بچے ہوئے تھے وہ گھروں تک محدود ہوگئے تھے۔خوف اور دہشت کا ماحول تھا۔عبادت گاہیں بند ہوگئی تھیں۔اذان اور نمازکی اجازت نہیں تھی۔

حد تو یہ ہوگئی تھی کہ1857کے غدر میں سرکاری جائداد اور املاک زبردست نقصان کے سبب انگریزوں نے متعدد جائدادوں اور املاک کو نیلام کردیا تھا ۔جن میں فتح پوری مسجد بھی شامل تھی۔ اصل کہانی اس نیلامی کے بعد ہی شروع ہوتی ہے۔ جس نے ملک میں ہندو مسلم اتحاد اور بھائی چارے کی مضبوط بنیادوں کے سبب فتحپوری مسجد کو ایک نازک وقت میں محفوظ رکھا بلکہ آج بھی سلامت ہے۔

نیلامی اور لالہ چنا مل

جب انگریزوں نے1870میں نیلام گھر سجایا تو فتح پوری مسجد کو خریدنے والا کوئی اور نہیں بلکہ چا ند نی چوک کا سب سے بڑا نام لالہ چنا مل تھا جو کہ اس وقت کپڑوں کے بہت بڑے تاجر تھے۔ ان کی تاریخی چنا مل حویلی اب بھی چاندنی چوک میں سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ جس کی تعمیر1864 میں ہوئی تھی ۔ ایک خالص کاروباری ہونے کے سبب اس وقت انہوں نے مسجد کے اردگر متعدد دکانوں کے پیش نظر یہ سودا کیا تھا۔ اس کے لیے انیس ہزار روپئے ادا کیے تھے۔

انگریزوں نے نیلامی اس لیے کی تھی کہ مسجد کو مہندم کرکے نئی دکانیں اور مکان تعمیر کیے جائیں گے۔ اہم بات یہ رہی کہ لالہ چنا مل نے مسجد کو حاصل کرنے کے بعد منہدم نہیں کیا تھا۔

قابل غور بات یہ ہے کہ اس وقت دہلی میں مسلمانوں کے داخلہ پر پابندی عائد تھی اور تمام عبادت گاہوں پر تالے پڑے تھے۔فتحپوری مسجد میں فوجی خیمہ زن تھے اور انگریزوں کے گھوڑے باندھے جاتے تھے۔ اس لیے لالہ چنا مل نے فتح پوری مسجد کوبند رکھا تھا،وہ وقت بدلنے کا انتظار کرتے رہے۔

شاہی دربار میں مسجد کا معاملہ

ایسا ہی ہوا اور وقت بدلا 1877 میں انگریزوں نے دہلی میں مسلمانوں کے داخلے (یا رہنے) پر پابندی ختم کر دی۔ یہ 1877 کے دہلی دربار کے وقت کیا گیا تھا ، جس میں ملکہ وکٹوریہ کو ہندوستان کی شہنشاہ قرار دیا گیا تھا۔ اس کے بعد ہی فتحپوری مسجد کو مسلمانوں کو واپس کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔

اس بارے میں فتح پوری مسجد کے موجودہ امام مولانا مفتی محمد مکرم احمد بتاتے ہیں کہ دہلی کے اہم شخصیات اور شرفا نے اس وقت لال قلعہ میں شاہی دربار میں شرکت کی تھی۔مسجد میں نماز بالکل بند تھی،مسلمانوں نے یہ درخواست کی تھی کہ مسجد کو کھول دیا جائے۔ غدر کا اثر کم ہوچکا تھا جس کے بعد اس مسجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت ملی تھی۔اس کے بعد مسجد کو انگریزوں نے حاصل کیا اور مسلمانوں کو نماز کے لیے دستیاب کرائی۔

مسجد کی مسلمانوں کے حوالے

اہم بات یہ ہے کہ نیلامی میں فتح پوری مسجد کو حاصل کرنے والے تاجر لالہ چنا مل نے اپنے کاروباری فائدے کو نظر انداز کرتے ہوئے مسجد کو مسلمانوں کے حوالے کردیا تھا۔

بقول پڑ پوتے سنیل موہن انگریزوں نے ہی فتح پوری مسجد کو واپس کرنے کے عوض میں لالہ چنا مل کو میوات میں دو گاوں دئیےتھے۔ اس وقت دہلی کے مسلمانوں میں بے حد بے چینی تھی کیونکہ نیلامی سے قبل انگریزوں نے فتح پوری مسجد کو چھاونی اور اصطبل بنا دیا تھا۔جس سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات یوں بھی مجروح ہورہے تھے۔ لالہ چنا مل نے دو گاوں خوشدلی سے قبول کئے اور مسلمانوں کو مسجد واپس کردی ۔

awaz

چنامل خاندان کے ساتھ رشتوں اور یادوں کو مولانا مفتی مکرم نے قیمتی قرار دیا 

چنامل خاندان رواداری کی علامت ۔ مفتی مکرم

فتح پوری مسجد اس وقت اپنی خستہ حالی کے لیے موضوع بحث ہے لیکن حقیقت ہے کہ ملک کی یک جہتی اور فرقہ وارانہ بھائی چارہ کی بڑی اور بے مثال کہانیوں کی گواہ ہے اور انہی پر قائم بھی ہے۔

فتح پوری مسجد کے امام مولانا مفتی محمد مکرم احمد کہتے ہیں کہ ۔۔ چنا مل خاندان بہت ہی روشن خیال اور روادار رہا ہے۔ غدر اور اس کے بعد جو کچھ ہوا تو تاریخ کا حصہ ہے لیکن ان کی جن نسلوں سے ہمارا تعلق رہا ہے وہ ایک ذاتی تجربہ ہے۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ چنا مل خاندان مذہبی رواداری کی مثال ہے،فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا علمبردار ہے۔ بھائی چارے پر یقین رکھتا ہے۔ دولت کے نشے اور گھمنڈ سے پاک رہا تھا یہ خاندان ۔کاروباری ہونے کے باوجود انسانی جذبات اور مذہبی فرائض کو اہمیت دیتا رہا یہ خاندان ۔ ان کے دادا مرحوم مفتی اعظم محمد مظہر اللہ کے اس خاندان کے ساتھ بہت گہرے رشتے رہے ۔لالہ چنا مل خاندان ان سے بہت عقیدت رکھتا تھا۔

نسل در نسل کی دوستی تھی

مولانا مفتی مکرم کہتے ہیں کہ میرے والد مرحوم مولانا مفتی محمد احمد ایک دندان ساز تھے وہ بلیماران میں مشہور و معروف ڈاکٹر یوسف کے معاون تھے ،انہیں سے کام سیکھا تھا اور اپنے ہلکے ہاتھ اور مہارت کے سبب مریضوں میں بہت مقبول تھے۔ساتھ ہی مسجد فتحپوری میں نائب امام بھی تھے۔جب انہوں نے اپنا کام شروع کیا تو ڈاکٹر یوسف کے متعدد پرانے مریض ان کے والد مرحوم کے کلینک آنے لگے تھے جن میں ان کے پوتے لالہ دوارکا ناتھ اور لالہ راجناتھ بھی شامل تھے۔

مولانا مفتی مکرم یادوں میں جھانکتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر تہوار خاص ہوا کرتا تھا۔کیا عید اور کیا ہولی۔ ہر تہوارکے موقع پر پکوانوں کی شکل میں محبت بانٹی جاتی تھی۔ سب مل کر بیٹھا کرتے تھے۔خوب محفلیں سجتی تھیں۔

عدالت میں گواہی بھی دی تھی

لالہ چنا مل کے دو وارث ان کے پوتے لالہ راجناتھ اور لالہ دوارکا ناتھ کا بھی فتح پوری مسجد سے بہت لگاو تھا۔ بقول مولانا مفتی مکرم میں انہیں اپنے بچپن میں دیکھا تھا ،وہ فتح پوری مسجد میں آیا کرتے تھے۔ میرے والد مرحوم سے بہت دوستی تھی۔ تہواروں میں بہت رونق رہتی تھی۔وہ بہت ملنسار اور روادار لوگ تھے۔

مولانا مفتی مکرم کہتے ہیں کہ ایک وقت ہمارے خاندان میں کچھ تنازعہ ہوگیا تھا ،میرے والد کے بڑے بھائی نے مقدمہ کردیا تھا ،مسئلہ مسجد کے کمرے کا تھا جس میں ہم رہا کرتے تھے۔ اس وقت میرے والد کے مقدمہ میں لالہ دوارکا ناتھ نے گواہ کے طور پر پیش ہوکر یہ گواہی دی تھی کہ اس کمرے میں شروع سے ہی ہمارا خاندان رہا کرتا تھا ۔جس کے بعد مقدمہ کا فیصلہ ہمارے حق میں ہوا۔

مولانا مفتی مکرم کے مطابق ان کے چنامل کا خاندان ان کے والد سے دانتوں کا علاج کرانے کلینک میں آیا کرتا تھا۔ان کے والد مسجد کی رہائش گا ہ میں ہی پریکٹس کیا کرتے تھے ،جہاں وہ امام بھی تھے۔

حویلی اور وارث

چاندنی چوک میں آج ماضی کی عظمت کو بیان کرتی ہے چنامل حویلی موجود ہے۔ یقینا خستہ حال ہے لیکن یادوں کے خزانہ کے سبب انمول ہے۔ تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کی توجہ کا مرکز رہتی ہے۔ جس میں ان کی چھٹی نسل رہتی ہےجس کو آج بھی لالہ جی کے فیصلہ پر فخر ہے۔جسے وہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی مثال ہی مانتے ہیں ۔ لالہ چنا مل کے ایک پڑ پوتے سنیل موہن ہیں جو اس جائداد کے سب سے بڑے حصے کی دعویداری کرتے ہیں ۔باقاعدہ انٹر نیٹ پر اس حویلی کی تشہیر کررہے ہیں بلکہ پرانے واقعات کا ذکر بھی کرتے ہیں ۔

سنیل موہن کےترجمان امیت واہی نے ’آواز دی وائس ‘ کو بتایاکہ تاریخ یہی بتاتی ہےکہ لالہ جی نےفتح پوری مسجدکومسلمانوں کےحوالہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ مسلمانوں نےانہی اس کےعوض دوگاوں دئیےتھے۔یہ خاندان کی مذہبی رواداری کا ثبوت ہے کیونکہ لالہ چنا مل ایک کامیاب تاجر تھے انہوں نے کاروباری فائدے کے لیے ہی مسجد کو نیلامی میں خریدا تھا لیکن جب اس سے مسلمانوں کے جذباتی لگاو کو محسوس کیا تو یہ قدم اٹھایا۔

لالہ چنامل کے ایک اور پڑ پوتے انل پرشاد کا کہنا ہے کہ میں اس حویلی کبھی دور نہیں ہوسکتا۔یہ ہماری وراثت کی شان ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پرانی یادیں ہی ہمارے لیے خزانہ ہیں ۔جو آج بھی ہمارے لیے ایک مثبت پیغام دے رہی ہیں۔

awaz

چنامل خاندان کے وارثوں میں سے دائیں جانب سنیل موہن اور دائیں جانب انل پرشاد

عمارت کمزور مگر فرقہ وارانہ اتحاد کی مضبوط علامت 

بلا شبہ فتح پوری مسجدکو آثار قدیمہ نے حالانکہ قومی یاد گار کا درجہ نہیں دیا ہے لیکن اس کی تاریخی حیثیت اس کو توجہ کا مرکز بناتی ہے۔جس کو شاہ جہاں کی ایک بیگم فتح پوری نے 1650میں تعمیر کرایا تھا۔ دوسرا اس کا مقام جو کہ چاندنی چوک ہے جس کی اپنی ایک تاریخ ہے ۔اس کے ساتھ دوسری جانب لال قلعہ ہے جس پر ترنگا شان سے لہراتا ہے۔

بلاشبہ یہ مسجد آج اپنی کمزور بنیادوں کے سبب سرخیوں میں ہے ،لیکن اس سے جڑی یادوں میں ایسی کہانیاں ہیں جو ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو طاقت اور استحکام دیتی ہیں۔

ضرورت ہے جیسے چنا مل خاندان نے اپنی وراثت کو سنبھال کر رکھا ہے ویسے ہی فتح پوری مسجد کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی جائے کیونکہ یہ صرف ایک عبادت گاہ نہیں بلکہ ہندوستان میں مذہبی رواداری،بھائی چارے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا جیتا جاگتا نمونہ بھی ہے۔


بدھ, نومبر 10, 2021

ہم یہ بھی اعلان کرتے ہیں کہ ہم اسلام اور ہندوستان کے 150 ملین مسلمانوں کے احترام کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں،” انہوں نے کہا۔بحرین کے قانون ساز نے مسلم مخالف تشدد پر بھارت کے ساتھ تجارتی بائیکاٹ کی دھمکی دی : ویڈیو دیکھیں

ہم یہ بھی اعلان کرتے ہیں کہ ہم اسلام اور ہندوستان کے 150 ملین مسلمانوں کے احترام کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں،” انہوں نے کہا۔بحرین کے قانون ساز نے مسلم مخالف تشدد پر بھارت کے ساتھ تجارتی بائیکاٹ کی دھمکی دی : ویڈیو دیکھیں

بحرین کے قانون ساز عبدالرزاق حاطب (اسکرین گریب)

قانون ساز نے بھارت کو دھمکی دی کہ اگر اس نے مسلمانوں پر پابندیاں اور تشدد جاری رکھا تو اسے معاشی نتائج بھگتنا ہوں گے۔

بحرین کے قانون ساز، عبدالرزاق حاطب نے اپنی مسلم کمیونٹی کے ساتھ ہندوستان کے سلوک پر سخت تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ اگر ملک نے اپنا یہ عمل درست نہ کیا تو وہ ہندوستان کے خلاف تجارتی بائیکاٹ سمیت سخت کارروائی کریں گے۔

پارلیمنٹ میں ایک حالیہ تقریر میں، انہوں نے کہا کہ ہندوستان، خاص طور پر آسام اور کشمیر میں مسلمان تشدد، بدسلوکی اور منظم قتل و غارت گیری کا شکار ہیں۔ انہوں نے ہندوستان پر مسلمانوں کے حقوق، آزادی اور مذہبی روایات کو محدود کرنے اور ظلم و ستم کے طریقوں کو استعمال کرنے کا الزام لگایا۔

بحرینی قانون ساز نے کہا کہ "یہ طرز عمل بین الاقوامی قوانین اور مذاہب کے خلاف ہیں، اور یہ انسانیت اور اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے اور ان کے مذہب اور عقائد سے قطع نظر ان کی آزادی فراہم کرنے کے ملک کی ذمہ داری سے بھی متصادم ہیں۔”

"ہم یہ بھی اعلان کرتے ہیں کہ ہم اسلام اور ہندوستان کے 150 ملین مسلمانوں کے احترام کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں،” انہوں نے کہا۔

عبدالرزاق نے کہا کہ بحرین اور بھارت کے درمیان بین الاقوامی تجارت 105 بلین ڈالر سالانہ سے تجاوز کر گئی ہے اور انہوں نے بھارتی حکومت کو دھمکی دی کہ اگر اس نے مسلمانوں پر پابندیاں اور تشدد جاری رکھا تو اس کے معاشی نتائج برآمد ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اعلان کر رہے ہیں کہ ہم تجارتی بائیکاٹ سمیت سخت کارروائی سے گزریں گے۔

قانون ساز نے کہا، ’’ہم نے بحرین میں ہندوستانی سفیر سے ملاقات کی متعدد بار کوشش کی تاکہ ان کی حکومت کو ہمارا پیغام پہنچایا جائے، تاہم وہ بلاجواز بہانے بنا رہے تھے

امیرشریعت مولانا محمد ولی رحمانی اپنے افکار ونظریات کے آئینہ میں - مولانا احمد حسین قاسمی مدنی

امیرشریعت مولانا محمد ولی رحمانی اپنے افکار ونظریات کے آئینہ میں - مولانا احمد حسین قاسمی مدنی

معاون ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ہمیشہ دھوپ میں جائے گا کاروان جنوں
جو ہوشیار ہیں وہ سایے سایے جائیں گے
اللہ کی یہ سنت رہی ہے کہ وہ امت محمدیہ اور شریعت اسلامیہ کی حفاظت کا سامان ہر زمانے میں پید اکرتا رہاہے ، قرآن جو اساس دین ہے ، اس کی حفاظت کا اعلان بھی کیا اور اس کی حفاظت کے اسباب بھی پیدا فرمادیے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری ہے کہ'' ہم نے ہی قرآن نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ''(الحجر/۹)
چنانچہ رب ذو الجلال ابتداء سے ہی اپنے بندوں میں سے مخلصین کی ایک جماعت منتخب کرتا رہا ہے اور ان کے ذریعہ دین اور اس کے معانی و مقاصد کی حفاظت و صیانت کا کام لیتا رہا ، اور یہ سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا۔ بہت سعادت مند ہیں وہ لوگ جن کے حصہ میں خدمت دین کا کام آیا ، بڑی کامیاب اور قابل رشک ہے ان کی زندگی جنہوں نے شریعت کے تحفظ اور ملت کی حفاظت کے لیے اپنی ذات اور زندگی کو وقف کر دیا۔ع
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
انہیں سعادت مندوں اور خوش نصیبوں میں ایک با وقار اور مقتدر نام مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ امیر شریعت بہار ،اڈیشہ و جھارکھنڈ، جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ و سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر کا ہے ۔ یقینا آپ مسلمانان ہند کے حق میں اسم با مسمی ثابت ہوئے، اگر آپ کی قیادت و سیادت اور دینی خدمات کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے ، تو ماضی قریب میں آپ جیسی ہمہ جہت اور جامع شخصیت نظر نہیں آتی ۔آپ گوناگوں صفات کے مالک تھے ، ایسی کثیر الجہات شخصیتیں صدیوں میں پیدا ہو ا کرتی ہیں ، اللہ تعالیٰ کا اس امت پر ہمیشہ سے یہ بڑا فضل رہا ہے کہ اس نے امت محمدیہ کو زمانی و مکانی حالات کے مطابق رجال کار عطا کیے ، موجودہ وقت خاص کر ہندوستانی مسلمانوں کے لیے بڑا دشوار گزار اور صبر آزما ثابت ہوا ، سب واقف ہیں کہ خارجی سازشوں نے ہر چہار جانب سے اس ملت کو آ گھیرا ہے ، فرقہ وارانہ تشدد اور مذہبی منافرت کے اس جاں گسل ماحول میں آپ جیسا دلیر و بیباک اور جری قائد سے ملت اسلامیہ ہندیہ کو بڑی تقویت مل رہی تھی ،اگر یہ کہا جائے کہ آپ اپنے بنیادی افکار، اساسی نظریات اور تعلیمی رجحانات سے قوم و ملت کے سفینہ کی نا خدائی کر رہے تھے،تو یہ ہر گز مبالغہ نہ ہو گا ۔یہاں آپ کی زندگی کے فکری و نظریاتی پہلوؤں پر روشنی ڈالنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے ۔
راقم السطور نے آپ کی زندگی کے آخری ایام کو بہت قریب سے دیکھا ہے،جو اس کے لیے بڑی سعادت کی بات ہے ۔ بلا خوف تردید یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے تئیں آپ کی فکر مندی اور آپ کے خالص اسلامی نظریات ورجحانات بے مثال اور قابل تقلید ہیں۔ آپ کی آخری سانس بھی ملت کی سر بلندی کی جد و جہد میں گزری ۔
آپ کا تعلیمی نظریہ:
ایک عظیم قائد اور مقبول رہنماکے لئے جو صفات مطلوب ہیں اللہ نے حضرت امیر شریعت سابع ؒ کو ان تمام سے مالا مال فرمایا تھا، اور آپ کی سب سے ممتاز صفت جو خط امتیاز کھینچ کر آپ کی قائدانہ شخصیت کو بلند مقام عطا کرتی ہے ، وہ آپ کا تعلیمی نظریہ ہے ۔جس نے پورے ملک میں مسلمانوں کو وقار بخشا اور بہت کم مدت میں نئی نسل کے مستقبل کو کامیابی کی نئی سمت عطا کی ۔کوئی چھ سات سال پہلے کی بات ہے ، دربھنگہ کی ایک مجلس میں حضرت امیر شریعت ؒ کے سامنے بندے کو بھی حاضری کی سعادت ملی ، تعلیم پر بات چلی اور بات شاخ در شاخ ہو تی چلی گئی ، بالآخر رحمانی تھرٹی اور اس کی اولین کامیابی موضوع سخن قرار پائی، جب بات سے بات نکلی تو میڈیکل کی تیاری (Medical Preparation)کا نکتہ سامنے آیا ۔ شہر دربھنگہ کے سربر آوردہ منتخب افراد کی یہ خصوصی مجلس تھی ، بندہ نے دربھنگہ شہر کے طبی خدمات و رجحانات کا ذکر کیا اور اس کے میڈیکل ہب ہونے کے پس منظر میں دربھنگہ کے لیے رحمانی تھرٹی کے میڈیکل برانچ کی درخواست کر دی ، اسی کے ساتھ حاضرین مجلس خاموش ہو گئے، حضرتؒ نے بلا تأمل کہا کہ ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ رحمانی تھرٹی کے ذریعہ میڈیکل کی تیاری کا برانچ دربھنگہ میں ہو ، مجلس میں خاموشی مزید گہری ہو گئی ، معروف سماجی کارکن جناب زبیر عالم صاحب اور دربھنگہ کے مشہور سرجن ڈاکٹر عارف شہنواز صاحب وغیرہ کی جانب چشم و ابرو سے اشارہ بھی کیا گیا ، کہ ہم لوگ ہاں کر دیں ، مگر اس کام کی انفرادیت و نزاکت کے سبب حاضرین تردد کے شکار تھے ، جب سکوت ٹوٹا تو بندہ نے کہا کہ جب حضرت نے اپنی منشا ظاہر کر دی ہے تو ہمیں ان کی مضبوط سر پرستی حاصل ہو گئی ، اب ہمیں برضا و رغبت اس کام کے لیے تیار ہو جانا چاہئے ، جہاں تک اس کی راہ میں مشکلات کا مسئلہ ہیں تو وہ حضرت کی توجہ سے بآسانی حل ہو جائیں گی۔بالآخر حاضرین نے اسے قبول کر لیا اور حضرتؒ نے بھی اپنی مسکراہٹ سے اس فیصلہ پر اپنی مہر ثبت فرما دی کہ:
ہم ہیں اگر تو خون جگر کی کمی نہیں
جتنے چراغ بزم میں چاہو جلائے جاؤ
اس طرح بحمد اللہ رحمانی تھرٹی میڈیکل پریپریشن کا پہلا برانچ دربھنگہ میں قائم ہو گیا، اب وہی برانچ پولیس کالونی انیس آباد میں کامیابی کی شاہ راہ پر گامزن ہے ۔پہلے سال کے طلبہ کی نگرانی اور دینی تربیت حضرت کے حکم سے بندہ کے حصہ میں آئی ، یوں حضرت کی سرپرستی میں کام کرنے کا پہلا موقع میسر آیا، آپ کے اساسی نظریات میں مسلمانوں کے لیے معیاری تعلیم کا حصول تھا، ہندوستان جیسے ملک میں جہاں آزادی کے بعد سے ہی مسلسل اقلیتی طبقے کے ساتھ بھید بھاؤ اور تنگ نظری کا برتاؤ کیاجا رہا ہے ،حضرتؒ نے اس پس منظر میں معیاری عصری تعلیم کے حصول کو مسلمانوں کی با وقار زندگی کے لیے نا گزیر تصور کیا۔ ماضی قریب کے تمام بڑ ے علماء اور قائدین میں آپ اپنی اسی تعلیمی فکر کی بنا پر منفرد اور ممتاز مقام رکھتے ہیں ، آپ کے اس تعلیمی رجحان نے ملک کے طول و عرض میں مسلمانوں کی نئی نسل کے دلوں میں اعلیٰ تعلیم کی روح پھونک دی ، رحمانی فاؤنڈیشن کے ذریعہ ملک بھر میں رحمانی تھرٹی کا قیام دراصل آپ کے تعلیمی نظریات اور تعمیری فکر کا نتیجہ ہے ۔آپ نے اپنی نگاہ بصیرت سے پہلے ملک کی موجودہ اور آئندہ دونوں صورت حال کا تجزیہ کیا ، پھر تعلیم کے میدان میں جو ٹھوس قدم اٹھایا ہے اسی کے نقوش مختلف تعلیمی اداروں کی شکل میں ہمیں جا بجا ملتے ہیں ۔آپ کی ایک گفتگو سے متاثر ہوکر اور حوصلہ پا کر بندہ نے ۲۰۱۷ء؁ میں دربھنگہ شہر کے قلب میں نیو جنریشن اسلامک اکیڈمی کے نام سے ایک معیاری اسکول قائم کیا جو اینگلو اسلامک طرز پر سی بی ایس ای نصاب کی شاندار تعلیم دے رہا ہے۔ اور نہ جانے کتنے زندہ دلوں نے آپ کی تعلیمی تحریک سے متاثرہو کرملک بھر میں مختلف معیار کے تعلیمی ادارے قائم کیے ۔
معیاری تعلیم کا رجحان:
آپ فقط تعلیم کے خواہاں نہیں بلکہ معیاری تعلیم کے علم بردار تھے ، آپ کا شعور اس حوالہ سے بہت پختہ اور کامل تھا، آپ اپنے خطاب میں اکثر یہ فرمایا کرتے کہ اس ملک میں سرسری تعلیم سے آپ اپنی دال روٹی تو چلا سکتے ہیں ، لیکن اپنے خاندان اور اپنی قوم وملت کی سربلندی کے کام انجام نہیں دے سکتے۔ملک میں کاروان سیاست جس جانب چل چکا ہے اور مذہبی عصبیتیں جتنی گہری ہو چکی ہیں ، اور ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی جو آگ سلگا دی گئی ہے ، اس نے جنگل کے درختوں کی طرح ملک میں بسنے والوں کے دلوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ، اب آپ دوسروں کے رحم و کرم پر نہیں جی سکتے ، بلکہ ایک با وقار اور با عزت شہری بننے کے لیے آپ پر لازم ہے کہ تعلیم میں آپ اپنے حریف اور مد مقابل کے ہم پلہ ہوں ، یہی وہ شاہ کلید ہے جس سے آپ بند را ہوں کو اور اپنی کامیابی کے دروازوں کو با آسانی کھول سکتے ہیں ، ظاہر ہے ، ملک کی باگ ڈور جن ہاتھوں میں ہے اور ریاستوں میں رعایا کے تئیں فیصلے جن راہوں سے گزر کر عوام تک پہونچتے ہیں ، آپ ان راہوں میں جب تک نہیں ہو ں گے اپنی تقدیر اور قومی زندگی کے فیصلوں سے نا بلد رہیں گے، جس کے نتیجے میں نا گہانی صورتیں پیدا ہو تی رہیں گی ۔ آپ بارہا فرمایا کرتے کہ ابھی بھی برا وقت نہیں آیا ہے ، ہم اب بھی اگر Excellence کے معیاری ادارے زیادہ سے زیادہ قائم کریں اور اپنی نئی نسل کی تعلیم پر پوری توجہ دیں تو حالات بدلیں گے اور ضرور بالضرور بدلیں گے ، آپ جب تک اپنی شرح آبادی کے تناسب سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اس بلند مقام تک نہیں پہونچ جاتے جہاں سے فیصلے صادر ہوتے ہیں ، اس وقت تک حالات کے بدلنے کی تمنا چھوڑ دیں۔کامیابی و ناکامی ، بلندی و پستی ، ترقی و تنزلی، حاکم و محکوم میں بڑا واضح فرق اور نمایاں فاصلہ ہے، یہ بات ہمیشہ یاد رکھنے کی ہے کہ حالات کی تبدیلی رسمی تعلیم سے ممکن نہیں ہے ، اس کے لیے مقابلہ جاتی امتحانات میں ایک معتد بہ تعداد کا کامیاب ہونا ضروری ہے ۔
عظمت رفتہ کی تلاش:
آپ ؒ درحقیقت نئی نسل کو اسلامی تاریخ کے اس سنہرے دور کا مشاہدہ کرانا چاہتے تھے، جس سے روشنی پاکر اہل مغرب کو علم وسائنس کا ذوق نصیب ہوا اور جس کے نتیجہ میں اقوام عالم پر اکتشافات ویجادات اور تہذیب وتمدن کے دروازے کھلے اس حوالہ سے آپ کا تعلیمی نقطۂ نظر بڑا صاف و شفاف اور واضح تھا، آپ کی شخصیت چونکہ دونوں سرچشمۂ تعلیم سے سیراب ہوئی تھی اور آپ نے دینی علوم کی تکمیل کے بعد اعلیٰ عصری علوم بھی حاصل کیے ، جس نے آپ کے تمام تر فکری دریچوں کو وا کر دیا تھا، آپ کا تعلیمی نظریہ حد درجہ بلند اور وسیع تھا، علی گڑھ سے وابستگی اور اس کے وسیع تعلیمی پس منظر میں آپ نے ملک و بیرون ملک امت کے جیالوں کی جو حصولیابیاں کھلی آنکھوں دیکھیں ، اس نے آپ کے تعلیمی فکر کو مزید پختگی عطا کی ، حقیقت یہ ہے کہ تعلیمی تحریک آپ کو ورثہ میں ملی تھی، آپ کے جد امجد قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ نے دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی بنیاد ڈالی تھی، جس کا فیض بر صغیر سمیت پوری دنیا میں آج جاری و ساری ہے ، جامعہ رحمانی مونگیر نے دینی علوم کی ترویج و اشاعت کا جو غیر معمولی کارنامہ انجام دیا ہے وہ اہل نظر سے مخفی نہیں ہے ،اس کی نشأۃ ثانیہ آپ کے والد گرامی حضرت مولانا شاہ محمد منت اللہ رحمانی نور اللہ مرقدہ نے کی، جن کی تعلیمی خدمات سے ایک دنیا واقف ہے ، آپ اپنے والد ماجد کی تگ و دو میں کار اسماعیل سر انجام دینے والے عظیم باپ کے عظیم سپوت ثابت ہوئے ،آپ نے بدلتے ہندوستان کے سیاسی افق کا بڑی گہرائی کے ساتھ عملی طور پر شورش کے زمانے میں مشاہدہ کیا تھا، آپ نے یہاں کی اقلیتوں کے تئیں اکثریتی طبقہ کے تمام ناپاک عزائم اور ان کی اندرونی سازشوں کو اپنی نگاہ دور بیں سے دیکھ لیا تھا، اور یہ اپنی فراست ایمانی سے اچھی طرح محسوس کر لیا تھاکہ تعلیم کے بغیر امت کا مستقبل محفوظ نہیں اوریہ ان کے مشفق و مربی والد بزرگوار حضرت مولانا شاہ محمد منت اللہ رحمانی ؒ کی صحبت کیمیاگر کا اثر تھا، جس کے نتیجہ میں ملک کے بدلتے مزاج کے مطابق مسلم نئی نسل کی تعلیمی ترقی کے لیے اپنی فکری بلندی کا ثبوت پیش کیا اور ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والے اعلیٰ افسران اور مرکزی انتظامیہ کے لیے نوجوانوں کو تیار کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ اور ایسے کام کی بنیاد ڈالی جسے انجام دینا ہمارے حلقہ میں جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔مگر آپ کی تڑپ نے ہر قدم پر حوصلہ بخشا اور اللہ نے بڑی کامیابیوں سے ہم کنار فرمایا ، آپ در اصل اس تعلیمی تحریک سے ملت کا کھویا وقار دوبارہ واپس لانا چاہتے تھے کہ کسی طرح مسلمانوں کو اس ملک میں اس کا شاندار ماضی اور اس کی عظمت رفتہ نصیب ہوجائے۔
رحمانی فاؤنڈیشن:
حضرت ؒ نے اپنی ذہنی و فکری قوتوں کا استعمال زیادہ تر تعلیم کے میدان میں کیا ، چناں چہ ۱۹۹۶ء میں دینی تعلیم کے ارتقاء کے ساتھ آپ نے عصری میدان میں خصوصیت کے ساتھ اپنے تعلیمی نظریات کی تکمیل کے لیے رحمانی فاؤنڈیشن قائم کیا ، ''راٹن ہاؤس''جو مونگیر کے سرحدی علاقہ کی ایک قدیم اور وسیع عمارت تھی، جسے راٹن (ضلع کھگڑیا )کے نواب جناب صلاح الدین خان نے تعمیر کروائی تھی ، حسن اتفاق سے انہوں نے یہ وسیع و عریض احاطہ حضرت امیر شریعت ؒ کے نام وقف کر دیا اور حضرتؒ کی وسعت قلبی اور قوم و ملت کے تئیں فکر مندی دیکھئے کہ اس قیمتی اثاثہ کو نونہالان قوم و ملت کی تعلیمی خدمت کے لیے وقف کر دیا ، اس فاؤنڈیشن کے تحت نمایاں طور پر بی ایڈ کالج کے علاوہ عصری تعلیم کے کئی ذیلی اہم شعبے قائم ہیں اور اپنی تعلیمی کار کردگی سے نمایاں کامیابی حاصل کر رہے ہیں ، مولانا ظفر عبدالرؤف صاحب رحمانی جو حضرت امیر شریعت سابعؒ کے خاص تربیت یافتگان میں ہیں ، اس ادارہ کی ہمہ جہت ترقی کے لیے ہمہ وقت متحرک اور سرگرم کار رہتے ہیں ۔حضرت کے آخری ایام میں لڑکیوں کے لیے سی بی ایس ای کے طرز کا پلس ٹو اسکول کی بنیاد بھی ڈال دی گئی ہے ، جس کی تعمیر کی تکمیل ہوا چاہتی ہے ۔ اور اسی نہج پر آئی ٹی آئی ، ٹیکنیکل کالج کے ساتھ معیاری قسم کے اسکولوں کے قیام کا سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔
رحمانی تھرٹی:
حضرتؒ کے انہیں تعلیمی خوابوںکی حسین تعبیر اورآپ کے خاکوں کی عملی تصویر رحمانی تھرٹی ہے جس کو رحمانی فاؤنڈیشن کے تحت آپ نے ۲۰۰۸ء؁ میں قائم کیاتا کہ اس کے ذریعہ ہمارے نو جوان ملک وریاست میں مقابلہ جاتی امتحانات میں کامیاب ہو کر کلیدی اور شایان شان عہدے حاصل کر سکیں۔آپ نے رحمانی تھرٹی کے ذریعہ بھارت کے ان مسلمانوں کو حوصلہ بخشا، فکری توانائی عطا کی ، مشکل حالات میں راہیں نکالنے کا سلیقہ دیا، جنہوں نے سنگھ پریوار اوربرہمنی ذہن کی بالا دستی کو اپنی فکر کا حصہ بنا لیا تھا، احساس کمتری کا شکار ہو چکے تھے ، با وقار زندگی گزارنے کا حوصلہ کھو دیا تھا اور شکست و ہزیمت کو اپنے دلوں میں راہ دے بیٹھے تھے ، انہیں آپ نے اس تحریک کے ذریعہ گر کر اٹھنے کا درس دیا، سست گام کاروان عمل کو مہمیز دے کر برق رفتاری کا سبق پڑھایا ، دو قدم چل کر رک جانے والے قافلے کو ستاروں پر کمند ڈالنے کا ہنر سکھایا، آپ نے مسلمانوں کی تعلیمی عظمت رفتہ کی بحالی کے لیے جو طریقہ کار اور Road Mapتیار کیا اس نے بہت کم دنوں میں توقع سے بڑھ کر نمایاں کامیابی حاصل کی ، اور دیکھتے دیکھتے صوبۂ بہار سمیت کئی ریاستوں میں اس کے برانچز قائم ہو گئے ، جو شاندار اور خوش کن نتائج سے قوم و ملت کو سر بلندی عطا کر رہے ہیں ۔
دار الحکمۃ کا قیام:
آپ نے جامعہ رحمانی مونگیرکے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے دوسرے شعبوں کو بھی خوب وسعت دی ،اور نئے شعبے بھی قائم فرمائے، آپ نئی نسل کو جس علمی پیرہن میں دیکھنا چاہتے تھے ، اس کے لیے آپ نے نہ صرف یہ کہ اس کا خاکہ تیارکیا بلکہ عملی طور پربھی افراد سازی کے لیے ایسے تعلیمی نظام کو متعارف کرایا جہاں سے وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے والے افراد تیار ہوں ، کہنا چاہئے کہ دار الحکمہ در اصل مستقبل کے قائدین کا مرکز ہے ، جہاں طلبہ کو ان کی ابتدائی عمر سے ہی حفظ قرآن کے ساتھ عربی زبان بولنے ، لکھنے اور سمجھنے کی مشق کرائی جاتی ہے، ساتھ میں علوم عصریہ کا بنیادی نصاب بھی پڑھایا جاتا ہے ، جو اپنے نتیجے اور ماحصل کے لحاظ سے کافی کامیاب طریقۂ کار ہے ، یوں تو دار الحکمہ کا نظام ۲۰۰۹ء؁ کے اواخر میں ہی عمل میں آ چکا تھا، تا ہم اس کا باضابطہ آغاز مارچ ۲۰۱۲ء؁ میں حضرت امیر شریعت سابعؒ کے ہاتھوں ہوا۔حضرت نے شعبہ دارالحکمہ کے اغراض و مقاصد کے پیش نظر علوم عربیہ و شرعیہ کے ماہرین کی ایک با صلاحیت جماعت کو اکٹھا فرمایا ، تقریباً زانیس اساتذہ کرام اس شعبہ میں مصروف تدریس ہیں ۔ حضرت امیر شریعت کے تعلیمی مشن کو آگے بڑھانے اور ان کے اس حسین خواب کو شرمندۂ تعبیرکرنے میں ان کے فرزند ارجمند اور لائق جانشین جناب ڈاکٹر احمد ولی فیصل مد ظلہ سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر کا بڑا ہاتھ ہے ۔جن سے امید کی جا تی ہے کہ اپنے تعلیمی تجربات کی روشنی میں حضرت کی شروع کی ہوئی تعلیمی تحریک کو کامیابی کے ساتھ آگے بڑھائیں گے۔
امارت پبلک اسکول:
آپ نے اپنی مدت امارت میں جو اہم کام کیے ہیں ، ان میں ایک بڑا کام تعلیم کا ہے۔ آپ نے امارت شرعیہ کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں میں عصری تعلیم کے فروغ کی تحریک کو ایک نئی جہت عطا کی اور سی بی ایس ای طرز پر امارت پبلک اسکول کے نام سے معیاری اسکولوں کا ایک سلسلہ شروع کرنے کا فیصلہ کیاجس کی ابتدا رانچی اور گریڈیہہ میں اسکول قائم کرکے کی ۔آپ نے بڑی شدت کے ساتھ معیاری اسکول کے قیام پر زور دیا، معیاری قسم کے چھ اسکول شاندار طریقہ سے آپ کی نگرانی میں چل رہے تھے ، آپ نے اس جانب خصوصی توجہ دی تھی ، وفات سے چند دنوں قبل بھی آپ نے ریاست جھارکھنڈ کے اربا میں امارت انٹرنیشنل اسکول کی بنیاد اپنے ہاتھوں سے رکھی تھی ۔آپ کی یہ خواہش تھی کہ ہر ضلع میں کم از کم امارت کا ایک معیاری اسکول بطور نمونہ کے ضرور قائم ہوجائے تاکہ اس میدان میں کام کرنے والوں کو حوصلہ کے ساتھ کاموں کی صحیح جہت بھی نصیب ہو ۔آپ نے اپنے آخری ایام میں اس خاکہ میں رنگ بھرنے کے لیے دو ریاستوں کا دورہ بھی کرایا ، امارت شرعیہ کے کارواں نے بہار و جھارکھنڈ کے تما م اضلاع میں تعلیمی تحریک کے لیے ہفتہ برائے ترغیب تعلیم بھی منایا ۔ اس کے لیے باضابطہ ضلعی سطح پر تعلیمی کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے ، جو زمینی سطح پر اس تحریک کو عملی شکل عطا کرے گی۔
حضرت کا تربیتی نقطۂ نظر:
جنہوں نے آ پ کی سر پرستی میں ایک دن بھی کام کیا ہے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ حضرت کی نگاہ تربیت ارد گرد کے لوگوں اور کارکنان پر کتنی گہری ہوتی تھی ، ہر چھوٹی بڑی حرکت و عمل پر آپ کی پوری نظر رہتی تھی ، مداہنت سے کبھی کام نہیں لیتے ، غلطیوں پر بر ملا ٹوک دیتے ، آپ کے یہاں حکمت و دانائی کا مطلب حکمت و دانائی ہی تھا، مصلحت کوشی یا کسی منفی بات کا دور تک گزر نہ تھا، بڑ ے سے بڑا آدمی آ جائے ، وقت کا کتنا ہی مشہور ادیب و صحافی ہو یا صاحب علم و فضل اگر آپ ان میں کوئی خلاف ادب یا خلاف شرع کام دیکھ لیتے تو صاف انداز میں بلا جھجھک نکیر فرما دیتے، خاص طور پر اپنے ادارے کے علماء و فضلا ء کی تمام حرکات و سکنات پر تربیت کی نظر رکھتے، آن واحد میں اس کے داخل ہونے کے انداز ہی سے یہ محسوس کر لیتے کہ اس نووارد کی کس نوعیت سے تربیت نہیں ہو ئی ہے ، بولنے والا فقط ایک دو جملے بولتا اور آپ اپنی علمی فراست سے بھانپ لیتے کہ بولنے والا کہاں کہاں پر غلطی کرے گا ۔ خاص کر دوران گفتگو ہر شخص نے یہ محسوس کیا ہو گا کہ کسی کی مجال نہیں کہ وہ آپ کے سامنے کوئی غلط لفظ بول کر نکل جائے ۔آپ فوراً روک دیتے اور پہلے اس غلطی کی اصلاح پر توجہ فرماتے ، پھر موضوع آگے بڑھتا ۔آپ کسی کے سراپا پر نظر ڈالتے ہی نگاہ اولیں میں ٹوپی کی کجی اور جوتے کا پھٹن دیکھ لیتے ،اور بڑی محبت سے اصلاح حال کا مشورہ دیتے۔آ پ ظاہر کی اصلاح سے باطن کی اصلاح کی تاکید کرتے۔کیا مجال کہ کوئی ان کا شریک محفل ہو اور ادب کے خلاف کوئی کام کر گزرے، اگرکوئی بے ادبی سے کسی کا نام لیتاتو آپ سخت ناراض ہو تے ، کہتے کہ ان کا پورا نام ادب کے ساتھ لیجیے، امارت شرعیہ میں بارہا دیکھا کہ ہر شخص کی پوری تکریم کرتے اور کارکنوں کو بھی ایک دوسرے کے احترام کی تاکید فرماتے ۔کاموں میں صفائی اور ستھرائی کے ساتھ سلیقہ مندی کا اظہار چاہتے ،انہیں بھدا پن اور بے ترتیبی سے سخت نفرت تھی ، آپ فرماتے کہ ہم اپنے مذہب کی معاشرتی تعلیمات اور آداب زندگی کو اختیار نہیں کرتے ہیں ، جس سے ہم غیروں کے سامنے اپنا وقار کھو بیٹھتے ہیں ، جس کے نتیجے میںہماری تہذیبی کشش اور تمدنی خوبصورتی جا تی رہتی ہے ۔انسان کی بلندی انہیں چیزوں سے ظاہر ہوتی ہے ، آپ نے اپنی تربیت سے بہت کم دنوں میں رجال کار کی ایک بڑی جماعت تیار کر دی ، آپ کا یہ ماننا تھا کہ ہیرا بنانے کے لیے پتھروں کی فقط ہلکی تراش خراش مطلوب ہو تی ہے ، بعض کو تو صرف صیقل کرنا پڑتا ہے ، ذرا سا رگڑ دیجئے چیزیں اور ان کی اصل حقیقت نکھر کر سامنے آجائے گی ، تربیت میں آپ کا معمول برملا ٹوکنے کا تھا، دیر تک انتظار کرنے کو ضیاع کا سبب سمجھتے اور یہ فرماتے کہ اگر غلطیوں پر انسانوں کو بروقت ٹوکا نہ جائے تو ان کی طبیعت غلطیوں پر ہی پختہ ہوتی چلی جاتی ہے ، پھر بعد میں ہزار اصلاح کے جتن کیے جائیں مگر لائق انتفاع نہیں رہتی ۔جس کے نتیجے میں ہمارا سماج اچھے افراد سے محروم ہو تا جا رہا ہے ۔
مردم سازی کا رجحان:
اس مختصر زندگی میں عاجز کو بہت سے اکابر کی خدمت میں حاضری کا شرف حاصل ہو ا ، علماء و مشائخ کی تربیت کے انوکھے اور منفرد اقوال پڑھنے اور سننے کو ملے ، مگر حضرتؒ کا انداز تربیت سب سے الگ اور ممتاز پایا ، آپ کے والد ماجد اپنی نگاہ جوہر شناس سے جس طرح قیمتی پتھروں کو تراش کر انمول ہیرا بنا دیا کرتے ، آپ کی ذات میں بھی یہ وصف بڑا نمایا ں تھا، بہت سے ایسے نوجوان جن سے دنیا کا ایک چھوٹا سا خطہ بھی واقف نہیں تھا، آپ کی عظیم اور قیمتی مردم ساز تربیت نے انہیں ملک کی ممتاز اور نامور شخصیتوں میں شامل کر دیا ہے، جن میں بھی جو چھپا جوہر دیکھا انہیں اٹھایا اور گوہر نایاب بنا دیا، جن کے ناموں کی فہرست طویل ہے ، آپ کی ایک نگاہ نے اپنی ایمانی بصیرت سے بہتوں کو ملک کا مستقبل اور ملت کا قائد بنا دیا ۔ آپ کی یہ خوبی تھی کہ بہت کم وقت میں طلبہ کو تربیت کے مرحلوں سے گزار کر گوہر آبدار کردیتے اور تربیت کی بھٹی میں تپا کر کندن بنا دیتے ، جس کی مثال خانقاہ رحمانی مونگیر، رحمانی فاؤنڈیشن ، دار الحکمۃ، رحمانی تھرٹی ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ و جھارکھنڈ جیسے عظیم ادارے ہیں ۔ جہاں آپ کے تربیت یافتگان کی جماعتیں اداروں کو زندگی بخش رہی ہیں اور جو آپ کے چھوڑے ہوئے کاموں کو آگے بڑھا رہی ہیں ۔
مزاج میں استقامت و پختگی:
آپ کا یہ طریقہ تھا کہ کسی بھی بات پر پہلے خوب مدبرانہ غورکرتے ، پھر اپنی فکر و نظر کومنتخب الفاظ اورادیبانہ تعبیرات کے قالب میں ڈھال دیتے ، اس ہنر میں آپ یکتائے روزگاراور بے مثال جانے جاتے تھے ، آپ کے جملے کا ایک ایک حرف و لفظ ادب اور کھری زبان کے ترازو پر تولا ہوا اور ٹکسالی معلوم ہو تا ،آپ کی یہ ایک اچھی عادت تھی کہ آپ جلد فیصلہ نہیں لیتے اور نہ جلد کوئی بیان جاری کرتے ، حسب موقع اگر ضرورت پڑتی تو بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ لیتے ، پھر اس پر عزیمت و استقلال کے ساتھ جم جاتے ، حال یہ تھا کہ دنیا ادھر سے ادھر ہو جاتی، مگر آپ اپنی بات سے سر مو برابر انحراف نہیں کرتے، جس طرح آپ کی جرأت و بیباکی مثالی تھی ، اسی طرح آپ کی عزیمت و استقامت بھی عوام و خواص میں معروف تھی، بابری مسجد قضیہ کے آخری غیر منصفانہ فیصلے پر آپ نے جس جرأت و عزیمت کا اظہار کیااور عزم و حوصلہ سے بھر پور جو بیان جاری کیا ، اس نے بلا شبہ نفرت کے سوداگروں کے دلوں میں آگ لگا دی تھی، جس میں آپ نے ارباب حکومت کو بھی مخاطب کیا تھا اور نظام عدلیہ کے غیر منصفانہ رویہ پربھی نشتر لگایا تھا ، آپ کے اس بیان کومسلم پرسنل لا بورڈ کی آفیشیل آئی ڈی سے ٹوئیٹ بھی کیا گیا تھا، جس پر سنگھ پریوار اور شدت پسند ہندو تنظیموں نے بڑا واویلا مچایا ، شام میں خبر آئی کہ بورڈ کی آفیشیل آئی ڈی سے وہ ٹوئیٹ ڈلیٹ کر دی گئی ہے، میرے پاس بھی ایک صحافی کا فون آیا کہ کیا حضرت نے اپنا بیان واپس لے لیا ہے؟بندے کو کسی طرح اس پر یقین نہیں ہوا، پھر اضطراب کی حالت میں فون پر حضرت سے رابطہ کیا اور جو سوال تھا، حضر ت سے عرض کیا کہ کیا آپ نے اپنا بیان واپس لے لیا ہے؟آپ نے خلاف معمول تقریباً آدھا پون گھنٹہ بڑی تفصیل کے ساتھ انتہائی خوشگوار انداز میں گفتگو فرمائی جس میں پہلا جملہ یہ تھا کہ ''محمد ولی ایک تو بیان نہیں دیتا اور جب کوئی بیان دے دیتا ہے تو اسے واپس نہیں لیتا۔''حقیقت یہ ہے کہ آپ عواقب و نتائج ، حالات و پس منظر اور واقعہ کے تمام مثبت و منفی پہلوؤں پر اچھی طرح غور و فکر فرماتے تب جا کر قلم کو حرکت یا زبان کو جنبش دیتے ۔آپ نے کہا کہ میرے بیان کا انگریزی ترجمہ کس صاحب نے ،کس وجہ سے اور کس دباؤ میں حذف کیا ہے ،محمد ولی کو اس کا کوئی علم نہیں ، مگر میرا جو اصل بیان اردو میں تھا وہ اب تک اسی طرح آفیشیل پیج پر موجود ہے ، اور یہ سراسر غلط اور جھوٹ ہے کہ ہم نے اپنا دیا ہوا بیان واپس لے لیاہے۔اور پھر کہہ رہا ہوں کہ وہ بیان میں نے ہی دیا ہے اور میں اس پر پوری قوت کے ساتھ قائم ہوں ۔چاہے محمد ولی کے ساتھ ارباب اقتدار جو سلوک کریں ۔ یہ بال برابر بھی اپنے دیے گئے بیان کے ایک حرف سے دستبردار نہیں ہو گا۔نہ تو یہ میری تربیت کا حصہ ہے اور نہ یہ ہماری فطر ت میں شامل ہے۔ع
آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
منطقی اور قانونی رجحان:
آپ کی ذات وشخصیت کو جو خوبیاں دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں ، ان میں آپ کا Logicalاور منطقی رویہ تھا، آپ عقل سے بھر پور فائدہ اٹھاتے اور اس خداداد نعمت سے پورا پورا کام لیتے، اوروں کو بھی اس کی عملی ترغیب دیا کرتے ، وار دین و صادرین میں کا کوئی بھی فرد بلا سوچے سمجھے اگر کوئی بات کہہ دیتا تو سخت گرفت فرماتے اور انہیں اصلاح کا مشورہ دیتے،بارہا آپ کو یہ کہتے سنا کہ محترم پہلے خوب سمجھ لیجئے پھر میرے پاس تشریف لائیے۔عقل و خرد کو اہل جنوں نے کس طرح برتا ہے آپ اس کا ایک عملی نمونہ تھے۔بسا اوقات ایسا محسوس ہوتا کہ عقل آپ کی مجلس میں ہاتھ باندھے مؤدب کھڑی ہے اور خادمانہ آداب بجا لارہی ہے۔بندہ اس نتیجہ پر پہونچا تھا کہ ایک آدمی صرف آپ کی مجلس میں یا خلوت و جلوت کی کسی نشست میں چند روز بیٹھ جائے اورخموشی کو وہ اپنا شیوہ بنائے رہے، مگر ذہن و فکر کے تما م دروازوں کو کھلا رکھے تو فقط آپ کی مجلس سے مشاہدہ کے نتیجے میں اسے بصیرت کی دولت نصیب ہو جائے ۔اسی طرح آپ وہ منفرد عالم دین اور قائد و مصلح تھے جن کی قانونی باریکیوں پر بالغانہ نظر اور ماہرانہ گرفت تھی ، حکومت کی جملہ قانونی ترمیمات و تجویزات کو ہمیشہ قانونی نقطۂ نظر سے دیکھتے ،پھر قانون کے ہی ذریعہ اس کا حل بھی نکال لیتے ، بسا اوقات کسی مسئلہ میں جہاں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے سینئر وکلا کی نظر نہیں پہونچ پاتی آپ کی نظر بصیرت وہاں چلی جاتی ۔
آپ کا سیاسی نظریہ:
آپ اکابر علمائے دیوبنداور محرک امارت شرعیہ مولانا ابو الکلام آزاد کے سیاسی رجحان یہ چلے اور دوسراصحیح متبادل نہ ہونے کی صورت میں کانگریس کے ساتھ مل کر ملت کی سر بلندی ، شریعت کے تحفظ اور اسلام کے تشخص و امتیازات کی لڑائی لڑتے رہے اور ایک طویل عرصہ تک بہار قانون ساز کونسل میں اپنی دور بینی اور سیاسی بصیرت کا لوہا منواتے رہے ، آپ سات اپریل ۱۹۷۴ء؁ کو بہار قانون ساز کونسل کے رکن منتخب ہوئے اور ۲۲؍ سالوں (سات اپریل ۱۹۷۴ء؁ سے ۶؍ اپریل ۱۹۹۶ء؁)تک مسلسل اس کے سر گرم رکن رہے ، انہیں دو بار اس کونسل کے ڈپٹی چیرمین رہنے کا فخر بھی حاصل ہے ،آپ نے بڑی شان سے کونسل کی ذمہ داریوں کو احسن طریقہ پرادا کیا، اور اس درمیان قوم و ملت کے لیے کئی تاریخی فیصلے بھی کیے۔مگر در اصل نظریاتی طور آپ فکر ابو المحاسن اور روح سجاد کے ترجمان تھے ، اور بارہا مجلسوں میں حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد علیہ الرحمہ کے اس تاریخی جملے کو دہراتے: ''کہ ہمارا سیاسی نظریہ کانگریس میں ضم ہو کر رہنے کا نہیں بلکہ شراکت اور حصہ داری کاہے ۔ ''اس لیے کہ ضم ہونے میں کسی قوم کا وجود فنا ہو کر رہ جا تا ہے ، اور شراکت داری میں کسی قدر وجود کا تحفظ باقی رہتا ہے ۔ادھر چند سالوں سے وامن مشرام اور ان کی سیاسی پارٹی نے انہیں بارہا دعوت دی ، مگر آپ وہی کانگریس والا منفی رجحان ان میں بھی محسوس کیا تو صاف لہجہ میں ان سے شراکت اور حصہ داری کی بات کہہ دی ، جس پر وامن مشرام پیچھے ہٹ گئے جب کہ وہ ملک کا موجودہ سیاسی منظر نامہ جس طرح اقلیتوں کے حق میں مہیب اور تباہ کن ثابت ہو رہا ہے ، اس پس منظر میں مسلمان اور دلتوں کا ایک پرچم تلے اکٹھا ہو نا وقت کا اولین تقاضہ ہے ، اوریہ عمل اقلیتوں کی زندگی کی سلامتی کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ سانس لینے کے لیے ہوا،اے کاش اللہ اس کی کوئی سبیل ظاہر فرما دے۔ بہار کے صوبائی انتخاب کے موقع پر آپ ؒ نے اپنی رہائش گاہ پرذمہ داران امار ت شرعیہ کی ایک خاص مجلس بلائی تھی ، جس میں راقم الحروف بھی شامل تھا، آپ نے سوال کیا کہ کیا ہر ضلع کے انتخابی حلقہ میں آپ لوگوں نے ارباب دانش ، سیاسی شعور رکھنے والے اور جن کی زمینی سطح پر مضبوط گرفت ہو ایسے افراد تیار کیے ہیں؟اہل مجلس اس سوال پر خاموش رہے ، آپ نے انفرادی رائے بھی طلب کی مگر جواب نفی میں تھا، آپ نے زور دے کر کے کہا کہ آپ حضرات اس سمت میں بھی خصوصیت کے ساتھ محنت کریں اور یاد رکھیں کہ جب تک آپ حکومت بنانے اور گرانے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے ، نہ آپ سلامت رہ سکتے ہیں اور نہ ہی شریعت محفوظ رہ سکتی ہے ،اہل نظر کے لیے آپ کے اس جملے میں آپ کا واضح سیاسی عندیہ موجود ہے۔
اسلامی نقطۂ نظر اور اقامت دین کا رجحان:
آپ جس عظیم خانوادے کے چشم و چراغ تھے اس نے اس ملک میں بلا شبہ اسلام کی اشاعت و حفاظت کا بڑا مثالی کارنامہ انجام دیا ہے ، حضرت مولانا محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ اور ان کی دینی جد و جہد سے کون واقف نہیں ، رد قادیانیت میں آپ کا نام نمایاں طور پر آتا ہے ۔ آپ نے دار العلوم ندوۃ العلماء کی بنیاد رکھ کرملک ہی نہیں بر صغیر اور عالم اسلام میں دین و شریعت کے تحفظ کا سامان پیدا کر دیا،جس چشمۂ صافی سے بڑی تعداد میں تشنگان علوم نبوت اپنی پیاس بجھا رہے ہیں اوراس شمع ہدایت سے نہ جانے کتنے چراغ روشن ہیں ، جس کا اندازہ لگانا مشکل ہے ، آپ کے والد گرامی حضرت امیر شریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانی نور اللہ مرقدہ نے جامعہ رحمانی مونگیر کی اپنے خون جگر سے آبیاری کی ہے ۔جو صوبہ بہار کے مسلمانوں کی پیشانی کا ستارہ بنا ہوا ہے ۔ اور اللہ نے اسے ایک مرکزی حیثیت عطا کر رکھی ہے ، یہاں کے فضلا ء کی ایک خاصی تعداد ہے جو ملک بھر میں اپنی دینی وملی خدمات سے معروف ہے ۔حضرت امیر شریعت سابع رحمۃ اللہ علیہ بھی اپنے انہیں بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسی اسلامی نقطۂ نظر کے ترجمان بنے اور دین و شریعت کے محافظ ثابت ہوئے ۔آپ کی ہر آواز اسلام کے لیے بلند ہوئی ، اور آپ کا ہر قدم شریعت کے تحفظ کے لیے اٹھا، مسلم پرسنل لا بورڈ جو اس ملک میں دین و شریعت کے تحفظ کا ضامن ہے ، در اصل و ہ آپ کے والد محترم کی قربانیوں کا ہی ثمرہ ہے ۔ آپ نے تمام مکاتب فکر کے مسلمانوں کو اپنی جہد مسلسل سے ایک متحدہ پلیٹ فارم پر لا کھڑا کیا، اور پھر انہیں ایک شاندار ملی وفاق کا سایہ عطا کیا۔جس کی اہمیت کو پوری ملت اسلامیہ کے ساتھ ارباب اقتدار بھی محسوس کرتے ہیں ۔ اس مشن کی تکمیل میں حضرت رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد کے شانہ بشانہ بھاگ دوڑ کرنے والوں میں پیش پیش رہے ، جس کا مقصد اسلامی قوانین کی حفاظت اور مسلمانوں کو اسلامی تشخص فراہم کرنا تھا۔ ابتدائے عمر سے ہی آپ نے اسلامی تشخص کی حفاظت اور ملت کی سر بلندی کو اپنا واحد نظریہ اور غالب رجحان بنا لیاتھا، آپ نے اصلاح معاشرہ کی زبردست تحریک چلائی جو بہت کامیاب رہی ، مدارس اسلامیہ کو ارباب اقتدار کی زہریلی سیاست سے بچانے کے لیے جو تحفظ مدارس اسلامیہ کنونشن منعقد کیا اس نے دینی اداروں کو ایک نئی زندگی عطا کی ۔اگر یہ سوال کیا جائے کہ ایسے چند خاندان کی فہرست دی جائے جنہوں نے کئی نسلوں تک دین کی حفاظت کے لیے بے لوث ہو کر اپنے خانوادے کو وقف کر دیا تھا تو یہ بات یقین سے کہی جائے گی کہ مولانا محمد علی مونگیری علیہ الرحمہ کا خانوادہ اس فہرست کا ضرور حصہ ہو گا۔آپ نے امارت شرعیہ سے جس بنیادی دینی تعلیم کی تحریک شروع کی تھی ، اس کا مقصد بھی اقامت دین تھا، کہ تمام مسلم آبادیوں میں دینی مکاتب کا جال بچھا دیا جائے تاکہ ملت اسلامیہ کی نئی نسلوں کے دین و ایمان کا تحفظ یقینی ہو سکے۔خلاصہ یہ کہ آپ ایک صاحب عزیمت اور اہل نظر قائد تھے ، قیادت کی مطلوبہ صفات آپ کی ذات میں بدرجہ اتم موجودتھیں۔ آپ امت کے داخلی حالات کا ادراک و شعور رکھتے اور اس کے خارجی پہلوؤں پر بھی گہری نگاہ جمائے رہتے ، حالات کی ستم خیزیوں اور دشمنوں کی سازشوں کا پورا علم ہمہ وقت آپ کے ذہن و دماغ میں مستحضر رہتا ،اورجب بھی شریعت وملت پر کوئی حملہ ہوتاتوآپ سینہ سپر ہوجاتے۔دعا ہے کہ رب ذو الجلال ان اسلامی نظریات،دینی رجحانات اور قائدانہ صفات کا حامل پھر کوئی مرد قلند ر اس امت کو عطا کر دے۔
جس سے بے نور ہوئی جاتی ہے ساری دنیا
میری تقدیر کا وہ ٹوٹا ستارا دیدے


شادی اور نکاح کو آسان بنایا جائے : مولانا محمدسلمان بجنوری

شادی اور نکاح کو آسان بنایا جائے : مولانا محمدسلمان بجنوری

اللہ کی بندگی کے لیے اپنے اوقات کو زیادہ سے زیادہ وصول کریں:مفتی عفان منصورپوری

ملٹی میڈیا موبائل فون کے استعمال میں احتیاط کریں : مولانا علی حسن مظاہری

جمعیۃ علماء ہریانہ پنجاب ہماچل کے زیراہتمام مالیر کوٹلہ پنجاب میں ''اصلاحِ معاشرہ کانفرنس کا انعقاد ''

جمعیۃ علماء ہند کی مستقل تحریک ہے کہ پورے ملک میں معاشرہ کی اصلاح کے تعلق سے جگہ جگہ پروگرام منرقد کئے جائیں اور عوام میں دینی اصلاحی بیانات ہوں جس کی وجہ سے سماج اور معاشرہ میں مروج برائیوں اور گناہوں کی نشاندہی کی جائیں تاکہ عوامی سطح پر اس سلسلہ میں بیداری آئے اور اصلاحِ معاشرہ ہوسکے ،جمعیۃ علماء ہند کی اسی تحریک کے ضمن میں جمعیۃ علماء ہریانہ پنجاب ہماچل چنڈی کے زیر اہتمام پنجاب کے مالیر کوٹلہ میں ایک عظیم الشان اصلاح معاشرہ کانفرنس منعقد کی گئی جس کی صدارت جمعیۃ علماء ہریانہ پنجاب ہماچل چنڈی کے نومنتخب صدر مولانا علی حسن مظاہری نے کی ،مقرر خصوصی دارالعلوم دیوبند کے استاذ اور ماہنامہ دارالعلوم کے مدیر مولانا محمد سلمان بجنوری نے اپنے خطاب میں کہا کہ معاشرتی اصلاح کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے ،ہر آدمی کو اپنے احوال پر نظر رکھ کر پہلے اپنی اصلاح کرنی ضروری ہے ،خاص طور سے شادی اور نکاح کو انتہائی آسان اور سہل بنانے کی ضرورت ہے ،موجودہ دور میں غیر مذہب میں شادی عام ہوتی جارہی ہے جس سے ایمان ختم ہوجاتا ہے اور ایک مسلمان کے لئے سب سے بڑا نقصان ہے ،اسی طرح مولانا نے کہا کہ ہمیں ہروقت اپنے ایمان کی حفاظت کی فکر کرنی چاہیے اور اس کے ذرائع کو مضبوط سے مضبوط تر بنانا چاہئے ۔مولانا مفتی سید محمد عفان منصور پوری صدر دینی تعلیمی بورڈ صوبہ اتر پردیش نے اپنے خطاب میں نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ زندگی کے اوقات کو اللہ کی عبادت کے لئے زیادہ سے زیادہ وصول کرنا چاہئے ،خاص طور سے جاڑے کی راتوں میں اللہ سے خاص تعلق بنانے کا کافی وقت ملتا ہے اس لئے رات کے آخری پہر میں اٹھ کر اللہ کے حضور میں اپنے گناہوں سے معافی اور پوری امت کے لئے خیرخواہی کی دعا کرنی چاہیے ،مولانا منصور پوری نے اصلاح معاشرہ کے تعلق سے یہ بات بھی کہی کہ جب تک آدمی کا اپنا دل گناہوں سے پاک نہیں ہوگا اور گناہوں پر خود اس کی نظر نہیں ہوگی تب تک معاشرہ کی اصلاح ناممکن ہے ۔

اس پروگرام کی نظامت جمعیۃ علماء ضلع مالیر کوٹلہ کے صدر مفتی مرغوب الرحمن نے کی ،خطبہ صدارت مولانا علی حسن مظاہری کی طرف سے جمعیۃ علماء ہریانہ پنجاب ہماچل چنڈی کے نائب سکریٹری مولانا عبداللہ خالد قاسمی خیرآبادی نے پیش کیا جس میں معاشرتی اصلاح کے کئی اصول پر روشنی ڈالی گئی خاص طور سے ملٹی میڈیا موبائل کے غلط استعمال سے بچنے کی ترغیب دی گئی ،یہ خطبۂ صدارت بڑی تعداد میں لوگوں میں تقسیم کیا گیا ۔

مغرب بعد متصلاً اس پروگرام کا آغاز ہوا اور رات ساڑھے نو بجے مولانا محمد سلمان بجنوری کی دعا پر اختتام پذیر ہوا،آخر میں داعی اجلاس قاری محمد انس نائب صدر جمعیۃ علماء ہریانہ پنجاب ہماچل چنڈی نے تمام شرکاء کا منتظمین کا شکریہ ادا کیا ،اس کانفرنس میں شہر مالیر کوٹلہ کے علماء و عمائدین کے علاوہ پورے صوبہ پنجاب و ہریانہ کے سبھی ذمہ داران جمعیۃ علماء نے شرکت کی ۔

اس موقعہ پرمفتی عبداملک، مفتی محمد یوسف، حافظ محمد سالم، مولانا جاوید ندوی، صحافی مظہر عالم مظاہری ، ولی شمالی ندوی، قاری محمد فرقان ، قاری محمد صادق یزدانی، عرفان حقانی ،حافظ گل صنور ،ماسٹر عبدالمجید، قاری محمد خورشید،مولانا عبدالغفور ہوشیارپور ی وغیرہ موجود تھے۔

راجستھان:بس اور ٹرالی کے تصادم میں 5 افراد کی موت

راجستھان:بس اور ٹرالی کے تصادم میں 5 افراد کی موت

راجستھان:بس اور ٹرالی کے تصادم میں 5 افراد کی موت

 

جے پور: راجستھان میں بدھ کو بس اور ٹرالی کے تصادم میں 5 افراد کی موت ہو گئی۔

یہ واقعہ بارمیر ضلع کے پچ پدرا تھانہ علاقے کے تحت آنے والے جودھ پور نیشنل ہائی وے پر بھنڈیا واس گاؤں کا ہے۔

حادثے کے بعد بس میں آگ لگ گئی۔ اس میں 5 لوگوں کی موت ہو گئی۔ اطلاع ملتے ہی پولیس اور فائر بریگیڈ کی ٹیم موقع پر پہنچ گئی۔

آگ پر قابو پانے کی کوششیں جاری ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ بس میں 15 مسافر سوار ہیں۔

بس بلوترا سے جودھ پور جا رہی تھی۔ بھنڈیا واس گاؤں میں بس ٹرک سے ٹکرا گئی۔ جس کی وجہ سے بس میں زبردست آگ لگ گئی۔


آن لائن دینی تعلیم اور دارالعلوم دیوبند کا فتویٰاز: محمد برہان الدین قاسمی

آن لائن دینی تعلیم اور دارالعلوم دیوبند کا فتویٰاز: محمد برہان الدین قاسمیعلماۓکرام اور مفتیان عظام کو یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ مسائل پر از سر نو دینی احکام کادارومدارشرعی دلائل کے مد نظر ان مسائل کی اہمیت، نوعیت، زمان و مکان اور عوام پر مثبت یا منفی اثر انداز ہونے کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ اس لئے قابل اور تجربہ کار مفتیان کرام مسائل کی حساسیت اور مجموعی طور پر عوام میں جانے والے پیغام کا خیال کرتے ہوئے دلائل کی روشنی میں شریعت کے مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے پوچھے گئے سوالات کے جوابات ترتیب دیتے ہیں۔
حال ہی میں دارالعلوم دیوبند کا ایک فتویٰ مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر کے ابنائے قدیم کے ایک واٹس ایپ گروپ میں دیکھا جس پر گرما گرم بحث بھی جاری ہے۔ سوال کے متن اور پھر قابل مفتیان کرام کے جواب نے راقم الحروف کو بھی تبصرہ کرنے پر آمادہ کیا ورنہ عموماً واٹس ایپی بحث سے اجتناب کر تا ہوں۔ قارئین کی سہولت کے لئے استفتاء اور فتویٰ کے متن ذیل میں کاپی پیسٹ کئے دیتا ہوں:

"متفرقات >> دیگر
سوال نمبر: 606644
عنوان: آن لائن دینی تعلیم کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

سوال:
حضرت آج کل ایک نیا سلسلہ شروع ہواہے، اون لائن تعلیم کا جسے کچھ مدارس نے مجبورا وقتی طور پر اختیار کیا، پر کچھ حضرات نے جو مدارس سے ہٹ کر ہیں اپنا ذاتی یہ سلسلہ باقاعدگی سے شروع کر دیا ہے، اور اب تخصصات کی تعلیم بھی اونلائن شروع کر دی گئی ہے ،یہاں تک کہ اب اونلائن قاضی بنانے کا کورس بھی شروع ہو چکا ہے ،اور کچھ وقت تک قضات کی تعلیم اونلائن پڑھنے کے بعد پڑھنے والے کو قاضی کا لقب دے دیا جاتا ہے ، تو کیا تخصصات کی ایسے اونلائن تعلیم دینا صحیح ہے؟ کیا ایسے قاضی کی تعلیم اونلائن حاصل کرکے کوئی شخص قاضی بن سکتا ہے؟ کیا ایسے قضات کی تعلیم اونلائن دیکر قاضی بنانا،قضات کے عہدے کے ساتھ ناانصافی نہیں ہے؟ سوال کا جواب دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔
جواب نمبر: 606644
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 209-157/B=03/1443
 آن لائن کی دینی تعلیم دیانةً معتبر نہیں، شاگرد کا اپنے استاذ کے ساتھ رہنا اور استاذ کے سامنے بیٹھنا ضروری ہے۔ بہت سے مسائل کا آن لائن سمجھنا ممکن نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند 
(یہ فتویٰ 21 /اکتوبر 2021 کو www.darulifta-deoband.com میں اپلوڈ کیا گیا ہے۔) 

قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ مندرجہ بالا سوال میں سائل اصل میں آن لائن قاضی بنانے، کچھ دن آن لائن پڑھا کر قاضی کی سند دینے اور پھر اس طرح قاضی بننا معتبر ہے یا نہیں کے بارے میں دارالعلوم کے مفتیان کرام کا موقف جاننا چاہا ہے لیکن مستفتی نے اپنے مضمون کے شروع میں مدارس کی آن لائن تعلیم کا بھی ذکر کیا ہے نیز اس سوال و جواب کا عنوان "آن لائن دینی تعلیم کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟" لگایاگیا ہے۔ 
 
دارالعلوم دیوبند کے قابل مفتیان کرام نے جواب دیا کہ "آن لائن کی دینی تعلیم دیانۃ معتبر نہیں، شاگرد کا اپنے استاذ کے ساتھ رہنا اور سامنے بیٹھنا ضروری ہے... “
یہ جواب عمومی نوعیت کا ہے اور لگتا ہے معزز مفتیان کرام کے ذہن میں حالات اور موجودہ تقاضوں کے تمام صورتحال موجود نہیں تھے اس لئے یہ جواب مناسب نہیں لگ رہا ہے۔ سوال میں مذکور آن لائن قاضی بنانے والےخاص پہلو کو جواب میں جگہ ہی نہیں دی گئی جس کی وجہ سےجواب کمزور اور سطحی لگ رہا ہے، نیزدینی تعلیم کی تعبیر سوال میں موجود نہیں ہے جس کو جواب میں اضافہ کر کے پورے مسئلہ کو ہی پیچیدہ بنا دیا گیا ہے۔ جس سے دارالعلوم کے تعلق سے عوام میں غلط پیغام جارہا ہے اورامت کے لئے مزید مسائل پیدا ہورہا ہے. وضاحت کے لئے مندرجہ ذیل نکات پر غور فرمائیں!

1 - آن لائن دینی تعلیم میں چھوٹے بچوں کو قاعدہ بغدادی سے لیکر قرآن ناظرہ اور حفظ تک کی تعلیم کے ساتھ ساتھ مکتب اور مدارس کی بنیادی تعلیم شامل ہے جس پر کرونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن کے وقت کسی نہ کسی حد تک بشمول ہندوستان دنیا بھر میں عمل کیا گیا اورمزیدبرآں یہ کہ کچھ مغربی ممالک میں مختلف وجوہات کی بنا پر مسلمان بچوں کے لئے یہ نظام تعلیم کافی پہلے سے عام ہے۔ نیز آج دنیا بھر سے اور خاص کر مغربی ممالک سے ہزاروں لوگ جن میں مرد و خواتین شامل ہیں ڈائریکٹ یا پہلے سے رکارڈ شدہ آن لائن مواد سے دینی تعلیم یعنی قرآن کی سورتیں، نماز کے طریقے، دینی مسائل یہاں تک کہ دعوت دین کو قبول کر کے ہر ضروری دینی معلومات کو آن لائن ہی حاصل کر رہے ہیں۔ دنیا میں آج بہتوں کے پاس آن لائن دینی تعلیم کے علاوہ کوئی دوسرا معقول اور سہل ذریعہ ہی نہیں ہے۔ واضح رہے کہ آن لائن تعلیم میں ہر وہ چیز شامل ہے جس سے انسان علم حاصل کرسکتا ہے، چاہے وہ عبارت ہو، تصویر ہو، آواز ہو یا ویڈیو ہو، پہلے سے ریکارڈ اور اپلوڈ کیا ہوا ہو یا لائیو ہو۔ دارالعلوم کی فتوے والی ویب سائٹ خود آن لائن دینی تعلیم کا ایک پلیٹ فارم ہے جہاں سے لاکھوں صارفین دینی معلومات حاصل کرتے ہیں۔ اسی لئے مجموعی طور پر مفتیان کرام کا یہ کہنا کہ آن لائن دینی تعلیم دیانۃ معتبر نہیں درست نہیں لگتا۔

2- "شاگرد کا اپنے استاذ کے ساتھ ہونا اور سامنے بیٹھنا ضروری ہے" یہ بات بھی میری ناقص سمجھ سے بالاتر ہے۔ استاذ اور شاگرد کے جسمانی طور پر آمنے سامنے ہونا افہام و تفہیم کے لئے بہتر، تعلیم و تعلم کا اعلیٰ طریقہ ہے، یہ بات سمجھ میں تو آتی ہے لیکن کسی فتویٰ میں جب لفظ ضروری استعمال ہو تو اس کو اچھی طرح سمجھنا بھی ضروری ہے کہ آیا یہ شرعی طور پر ضروری ہے یا ضروری کا لفظ کسی اور معنی کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ اگر مذکورہ صورتیں شرعی طور پر ضروری ہیں تو پھر کیا اس کے علاوہ صورتوں میں انسان گناہ کا مرتکب سمجھا جائے گا؟

3 - یہ بات مسلم ہے کہ افتاء اور قضاء و غیرہ کی تعلیم بہت سنجیدہ، محنت کش اور عملی مشق نیز مسائل کو بار بار سمجھنے اور سمجھانے سے تعلق رکھتی ہے۔ مزید یہ کہ ان خصوصی علوم کے لئے مخصوص اور تجربہ کار اساتذہ کے ساتھ ساتھ بہترین اور محنتی طلباء کا بھی باقاعدہ مدارس میں ایک نظام کے تحت انتخاب کیا جاتا ہے، اس لئے ان اہم کورسیز کی تعلیم دنیا میں بہت سارے دوسرے علوم اور کورسیز کی طرح آن لائن نہ تو معقول ہے اور نہ مناسب۔ پریکٹیکل علوم کی تعلیم عموماً آن لائن ذرائع سے بہت مشکل ہے اور ان میں بہرحال کمی رہ جاتی ہے۔ کوئی شخص اگر محض پیسے یا نام کے لئے ہر چیز کو آن لائن ممکن کرنے کی کوشش کررہا ہے تو وہ شخص اس چیز کے ساتھ نا انصافی اور زیادتی کررہا ہے، نیز اس طرح کی چیزوں سے جو لوگ بھی کم پیسے اور کم محنت سے مستفید یا سند حاصل کر رہے ہیں وہ بھی آن لائن دھوکہ دہی اور چیٹنگ کے شکار ہورہے ہیں۔

4. تجربات، تحقیق اور نتائج سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ آن لائن تعلیم، آف لائن تعلیم کا متبادل یا برابر نہیں ہے۔ اگر سہولیات موجود ہوں تو بہر صورت مروجہ طریقہ تعلیم اور آف لائن کلاس سسٹم ہی بہتر اور کارآمد طریقہ تعلیم ہے. پندرہ سال سے کم عمر کے بچوں کے لئے آن لائن تعلیم صرف اس شکل میں جہاں آف لائن کی سہولت نہ ہو، بچوں کو علم کے ساتھ جوڑے رکھنے کی حد تک، کامیاب اور مفید ہے۔ البتہ سمجھدار بچوں اور بڑوں کے لئے کچھ مخصوص کورسیز، متعدد وجوہات کی بنا پر، آن لائن بہتر ثابت ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آن لائن کورسیز یا تعلیم کی اپنی مخصوص حیثیت اور افادیت ہے اور اس سے انکار کرنا ممکن نہیں۔ اس لئے محض ناواقفیت کی بنیاد پرآن لائن تعلیم یا آن لائن موجود علمی مواد سے استفادہ کو عموماً غلط کہنا امت کے ساتھ صریح نا انصافی ہوگی۔ البتہ کچھ لوگوں پراگر آن لائن، آن لائن کا بھوت سوار ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح انہوں نے آن لائن نکاح کو جائز کروا دیا اسی طرح آن لائن بچے بھی پیدا کروا دیں گے، تو یہ ان حضرات کی خام خیالی ہے، یہ ناممکن امر ہے اور یہ کسی جدید ٹیکنالوجی سے پاگل پن کی حد تک متاثر ہونے جیسی سوچ ہے۔
ڈیجیٹل موجودگی جسمانی موجودگی جیسی کبھی بھی نہیں ہوسکتی، یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ اسی لئے آن لائن کلاسیز، آف لائن کلاسیز جیسے کبھی بھی نہیں ہوسکتے، یہ ایک دوسرے کے متبادل نہیں بلکہ ایک دوسرے کے معاون ہیں۔ 
 
مادر علمی دارالعلوم دیوبند کی عظمت و مرتبت سر آنکھوں پر اور آج یہ حقیر جو کچھ بھی ہے اس میں والدین کے بعد اسی مادرعلمی کی تعلیمی، تعمیری اور تربیتی شخصیت سازی کارفرما ہے، اس کے باوجود دارالعلوم کے فتوے میں موجود تعبیر "آن لائن کی دینی تعلیم دیانۃ معتبر نہیں... " میرے خیال سے نظر ثانی کا متقاضی ہے

پنجاب کی کانگریس حکومت کا عوام کو بڑا تحفہ ، 36 ہزار ملازمین کو ریگولر کرنے کا بل منظور

پنجاب کی کانگریس حکومت کا عوام کو بڑا تحفہ ، 36 ہزار ملازمین کو ریگولر کرنے کا بل منظورچندی گڑھ: پنجاب کابینہ نے ایک بڑا فیصلہ کرتے ہوئے منگل کو 36 ہزار ملازمین کی خدمات کو ریگولر کرنے کے بل کی منظوری دے دی۔ یہ ملازمین مختلف سرکاری محکموں میں کنٹریکٹ، ایڈہاک، ڈیلی ویج اور عارضی بنیادوں پر کام کر رہے تھے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ چرنجیت سنگھ چنی کی زیر صدارت وزرا کی کونسل کے اجلاس میں ملازمین کی خدمات کو باقاعدہ بنانے کے لیے پنجاب پروٹیکشن اینڈ ریگولیشن آف کنٹریکٹیول ایمپلائز بل 2021 کی منظوری دی گئی۔ قانون سازی کے لیے اسمبلی میں بل پیش کیا جائے گا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...