منگل, نومبر 16, 2021
الہ آباد یونیورسٹی میں طلبا اور پولیس کے درمیان ہوئی چھڑپ : جانیں پورا معاملہ

حضرت مولانا مفتی محمد راشد اعظمی صاحب مدظلہ العالی (استاذ حدیث و نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند یوپی) تحفظ شریعت ٹرسٹ کی دعوت پر ایک روزہ حیدرآباد کے دورہ پر جمیع تلامذہ ومحبین سے استفادہ کی اپیل
حضرت مولانا مفتی محمد راشد اعظمی صاحب مدظلہ العالی (استاذ حدیث و نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند یوپی) تحفظ شریعت ٹرسٹ کی دعوت پر ایک روزہ حیدرآباد کے دورہ پر جمیع تلامذہ ومحبین سے استفادہ کی اپیل
حضرت مفتی صاحب مدظلہ بعد نماز ظہر (1:30) مسجد اکبری اکبر باغ سعیدآباد حیدرآباد میں منعقد ہونے والے تحفظ شریعت ٹرسٹ کے سالانہ اجلاس سے خصوصی صدارتی خطاب بعنوان فرق ضالہ کا تعاقب اور علماء کرام کی ذمہ داریاں جیسے اہم اور حساس موضوع پر فرمائیں گے؛ نیز اسی دن بعد نماز مغرب جمعیۃ علماء ملکاجگری/میڈچل کے تحت مولیٰ علی سکندرآباد (786 گارڈن) میں منعقد ہونے والے جلسہ رحمۃ للعالمینﷺ و اصلاح معاشرہ سے مخاطب ہوں گے۔جمعہ کے دن بعد نماز فجر دفتر تحفظ شریعت ٹرسٹ بالائی منزل مسجد صراط مستقیم آزاد نگر عنبرپیٹ کا جائزہ لیں گے؛ اور جامعہ اسلامیہ تجوید القرآن میں قیام فرمائیں گے۔

شراب بندی کو لے کر کچھ انداز میں نظر آئے وزیر اعلی نتیش کمار ، کہا کسی بھی طرح کی کوتاہی برداشت نہیں
شراب بندی کو لے کر کچھ انداز میں نظر آئے وزیر اعلی نتیش کمار ، کہا کسی بھی طرح کی کوتاہی برداشت نہیں
انہوں نے کہا کہ ہم دیکھیں گے کہ شراب بندی قانون کی خلاف ورزی پر کون پکڑا گیا ہے۔ منع کرنے سے پہلے اس بات پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ آج کل شراب کے کاروبار سے جڑے کون لوگ کام کر رہے ہیں۔ امتناع کو مزید مضبوطی سے نافذ کرنے کے لیے جو بھی ضروری اقدامات کیے جائیں گے، وہ مزید اٹھائے جائیں گے۔ لوگوں کو دوبارہ آگاہ کرنے کے لیے مہم چلانے سے لے کر قواعد کے مطابق غلطی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے تک بھی بحث کی جائے گی۔
فلم اداکارہ کنگنا رناوت کے آزادی کے بیان پر سوالوں کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ ہم حیران ہیں کہ ایسے لوگ کیسے شائع ہوتے ہیں۔ ان سب چیزوں کی کیا اہمیت ہے؟ آپ اس شخص کے بارے میں بھی نہیں کہہ سکتے جو کیا کہے گا۔ کیا کوئی ایسی باتوں پر توجہ دیتا ہے؟ کون نہیں جانتا کہ آزادی کب ملی۔ اس طرح کے بیانات کو کوئی اہمیت دیے بغیر طنز کرنا چاہیے تھا۔ کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے ہم ایسے لوگوں پر توجہ نہیں دیتے۔
راہل گاندھی کے ہندوتوا بیان پر پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ان سے پوچھیں، ساری بات بتا دیں گے۔ ان سب باتوں پر بحث کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کچھ لوگ کچھ کہہ کر بحث میں رہنا چاہتے ہیں۔ انہیں کام میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہم کام میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہمارا مذہب عوام کی خدمت ہے، ہم اسی میں لگے ہوئے ہیں۔ ہم کسی خاص شخص کے لیے نہیں مانگ رہے ہیں۔ اکثر لوگوں کے ذہن میں یہی رہتا ہے کہ کوئی نہ کوئی بیان بازی کرتے رہیں تاکہ پبلسٹی ہوتی رہے۔ بہار میں دیکھیں تو کچھ لوگ میرے خلاف بولتے ہیں تاکہ ان کو پبلسٹی ملے۔ وہ جانتے ہیں کہ میرے خلاف بولو ں گے تو پبلسٹی ملے گی۔
بہار میں بڑھتے ہوئے جرائم کے سوال پر وزیر اعلیٰ نے کہا کہ بہار میں جرائم کی تعداد پہلے کی نسبت کم ہوئی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ جب کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اس پر ایکشن لیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری انتظامیہ اور پولیس اس معاملے میں متحرک ہیں۔ جہاں کہیں کچھ ہو رہا ہے، کارروائی ہو رہی ہے۔ بعض چیزوں میں واقعہ مختلف نوعیت کا ہوتا ہے۔ اگر نکسلیوں کا معاملہ ایک جگہ آیا ہے تو اس کی مکمل جانچ ہو رہی ہے۔ ایک وقت میں ایک چیز دیکھی جا رہی ہے۔ یہ ایک اعداد و شمار ہے، ہر سال اعداد و شمار شائع ہوتے ہیں لیکن یہ کہنا کہ مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے، یہ نہیں کہا جا سکتا۔ جب سے ہم نے ممانعت کو نافذ کیا ہے، جرائم میں بھی کمی آئی ہے۔ اس سے قبل نشے میں ڈرائیونگ کی وجہ سے سڑک حادثات کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔ اب ملک بھر میں سڑک حادثات کے اعداد و شمار کو دیکھیں، اس میں بہار کی کیا حیثیت ہے۔ اگر کہیں کوئی واقعہ ہو جائے تو ہر واقعہ کی مکمل چھان بین کرکے کارروائی کی جاتی ہے۔ پولیس کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اگر کوئی حادثہ ہوتا ہے تو جو قانون ہے اس کے مطابق تحقیقات کریں اور اپنی ذمہ داری کے مطابق مناسب کارروائی کریں۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ چمپارن میں باپو کے آنے کے بعد ملک میں تحریک کتنی تیزی سے بڑھی اور تیس سال کے اندر ملک آزاد ہوا۔ بہار کے لوگوں کو لے کر غلط فہمیاں پیدا کی جاتی ہیں۔ بہار کے زیادہ تر لوگ ان تمام چیزوں کے بارے میں بہت اچھے خیال رکھتے ہیں۔ بہت کم لوگ گڑبڑ کریں گے، دنیا میں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ہر شخص ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ دنیا میں کہیں بھی دیکھ لیں، ہر آدمی ٹھیک نہیں ہو سکتا۔

چار دنوں کے چار واقعات بتاتے ہیں کہ یوپی میں مسلمانوں کی زندگی کتنی مشکل ہو گئی ہے !
چار دنوں کے چار واقعات بتاتے ہیں کہ یوپی میں مسلمانوں کی زندگی کتنی مشکل ہو گئی ہے !





پڑھیں آس محمد کیف کی یہ رپورٹ
اتر پردیش میں صرف چار دنوں کے اندر چار بڑے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ہر واقعہ ایک دوسرے سے زیادہ خوفناک ہے اور سماج میں انصاف اور حکومتی غیر جانبداری کے حوالے سے مایوسی پیدا کرتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس ریاست کی حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کی پروپیگنڈہ مہم مسلمانوں کے تئیں نفرت کو فروغ دیتی نظر آتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ آنے والے ایام میں اس طبقہ کے خلاف ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ ہو سکتا ہے اور اسے اکثریتی طبقہ کے ایک حصے کی طمانیت (تشٹی کرن) کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
کاس گنج کے نگلہ سید احرولی میں 21 سالہ نوجوان الطاف کی قبرستان میں تدفین ہو چکی ہے لیکن وہ اب بھی اس کے والد چاند میاں کے خواب میں نظر آ رہا ہے۔ چاند میاں بتاتے ہیں کہ آنکھیں بند کرتے ہی الطاف نظر آنے لگتا ہے اور پھر میری آنکھیں بالکل نہیں لگتی!چار روز کی مسلسل کوششوں کے بعد کل (ہفتہ) الطاف کے قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ پولیس نے الطاف کو 8 نومبر کو ان کے گھر سے بلایا تھا۔ اس پر ایک مقامی لڑکی کو ورغلانے کا الزام تھا۔ لڑکی کا تعلق اکثریتی طبقہ سے تھا اور اس کی بازیابی ابھی تک ممکن نہیں ہو سکی۔ الطاف کے اہل خانہ اور مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ لڑکی کسی اور لڑکے کے ساتھ فرار ہو گئی تھی۔ الطاف کی موت کاس گنج شہر کوتوالی میں واقع ہوئی تھی۔ پولیس نے بیان دیا ہے کہ الطاف نے بیت الخلا کی ٹونٹی سے لٹک کر خودکشی کی ہے، جبکہ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ الطاف کی موت پولیس کی پٹائی سے ہوئی ہے اور اسے جان بوجھ کر قتل کیا گیا ہے۔ اتر پردیش کی حزب اختلاف حراست میں ہونے والی اس موت کے حوالہ سے چراغ پا ہیں۔ سماج وادی پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے حکومت پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔
کاس گنج کے ہی رہائشی اور سماج وادی پارٹی کے ترجمان عبدالحفیظ گاندھی کا کہنا ہے کہ وہ پچھلے چار دنوں سے الطاف کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔ اس دوران الطاف کے والد کے مزاج کو سمجھنا مشکل ترین رہا ہے۔ میں نے ان کے درد کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ الطاف کے خاندان کی مالی حالت بہت کمزور ہے۔ ایسے گھرانوں میں جوان بیٹا بڑی امیدوں کا چراغ ہوتا ہے۔ گھر والوں کا خیال ہوتا ہے کہ وہ کمانے لگے گا تو گھر میں چراغ روشن ہوگا! ان کی موت کے بعد پولیس اہلکاروں کی طرف سے کاغذ پر سمجھوتہ لکھوانا اور الطاف کے والد کا انگوٹھا لگوانا اور بھی تکلیف دہ ہے۔ اس معاملے میں معاوضے کے حوالے سے بھی امتیازی سلوک دیکھا گیا ہے۔ واقعے کے چار روز بعد نامعلوم مقام پر مقدمہ درج کر لیا گیا جبکہ الطاف کے والد کو تاحال کوئی معاوضہ نہیں ملا ہے، یہ بات اس سے پہلے کی حراستی موت کے مقدمات سے مختلف ہے۔ حفیظ کا کہنا ہے کہ انہیں شبہ ہے کہ مقدمے کے اندراج کے بعد بھی پولیس اس معاملے میں منصفانہ کارروائی کر سکے گی اور مجرموں کو سزا ملے گی۔
اتر پردیش کا کاس گنج ضلع علی گڑھ، آگرہ اور ہاتھرس کے قریب ہے۔ علی گڑھ سے کاس گنج ایک گھنٹے سے بھی کم کی دوری پر ہے۔ چار سال پہلے، کاس گنج شہر کے مرکز میں ترنگا یاترا کا ہنگامہ ہوا تھا۔ پچھلے کچھ سالوں سے اس لودھ، راجپوت اور مسلم اکثریتی پٹی پر نفرت کی کھیتی کی جا رہی ہے۔ پٹیالی کی سابق ایم ایل اے زینت خان اور سماج وادی پارٹی لیڈر کی بیٹی ناشی خان اس کی تصدیق کرتی ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے والی ناشی خان کا کہنا ہے کہ انتہائی مضحکہ خیز بیانات اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو فرقہ وارانہ رنگ دینے سے سماجی ہم آہنگی متاثر ہو رہی ہے۔ پولیس انتظامیہ حکمرانوں کے دباؤ میں ہے۔ جب دو مختلف طبقوں سے متعلق معاملات کی بات آتی ہے تو انہیں فیصلے لینے میں مشکل پیش آتی ہے اور خاص طور پر ایک طبقہ کے ساتھ سختی کی جاتی ہے۔ الطاف کی موت اسی بنیادی جذبہ سے ماخوذ ہے۔ بعض مقامات پر انتظامی امتیاز بھی صاف نظر آ رہا ہے۔
کاس گنج سے ڈیڑھ گھنٹے کے فاصلہ پر واقع آگرہ کے شاہ گنج علاقے میں گزشتہ دو دنوں سے کشیدگی ہے اور فورس تعینات ہے۔ یہاں کے ایک نوجوان ارمان نے دوسرے طبقہ کی لڑکی سے شادی کی تھی۔ جس کے بعد وہ اپنے خاندان سے الگ رہنے لگا۔ جمعہ کے روز ارمان کی اہلیہ کی موت مشکوک حالات میں ہو گئی۔ اس کے بعد ہندوتوادیوں کی بھیڑ نے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ کچھ دکانوں پر توڑ پھوڑ اور مارپیٹ کے واقعات بھی پیش آئے۔ اس کے بعد دونوں فریق آمنے سامنے آ گئے اور شدید پتھراؤ اور فائرنگ کی گئی۔ جبکہ پولیس فائرنگ کے امکان سے انکار کر رہی ہے۔
شاہ گنج کے رہائشی ندیم احمد کا کہنا ہے کہ پولیس کو اپنا کام کرنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے تھی۔ وہ تحقیقات کر کے کارروائی کرتے لیکن ہندوتوا طاقتوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی اور اب ماحول کشیدہ ہو گیا ہے۔ پولیس بھی ان کے سامنے بے بس دکھائی دی ہے۔ ندیم کا کہنا ہے کہ حال ہی میں ایسے بہت سے معاملات سامنے آئے ہیں جنہیں فرقہ وارانہ رنگ دیا جا رہا ہے۔ اس سے اقلیتی مسلمانوں میں خوف کا ماحول پیدا ہو رہا ہے۔
ایسا ہی ایک مسئلہ گورکھپور کے بی آر ڈی کالج کے ڈاکٹر کفیل خان سے متعلق ہے۔ کفیل خان کو حال ہی میں ملازمت سے برطرف کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے وہ معطلی کی زد میں تھے۔ ڈاکٹر کفیل خان چار سال پہلے اس وقت زیر بحث آئے تھے جب گورکھپور کے بی آر ڈی میڈیکل کالج میں آکسیجن کی کمی کے باعث متعدد بچوں کی موت ہو گئی تھی اور انہوں نے آکسیجن کے بندوبست کی کوششیں کی تھی۔ برطرف ڈاکٹر کفیل خان نے بتایا کہ انہیں ابھی تک آرڈر نہیں ملا لیکن انہیں حکومت سے انصاف کی امید نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''عدالت میں 10 نومبر کو سماعت ہوئی تھی اور حکومت نے وہاں کوئی برطرفی کے کاغذات داخل نہیں کیے تھے۔ اب سماعت 7 دسمبر کو ہوگی۔ ویسے بھی حکومت کو میری برطرفی کا کوئی حق نہیں ہے، اس کے لیے اتر پردیش پبلک سروس کمیشن سے اجازت لینی چاہیے تھی۔''
علماء کونسل کے ترجمان طلحہ رشیدی کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر کفیل ایک مسیحا کی طرح اپنی ذمہ داری نبھا رہے تھے لیکن ان کی تعریف اور حکومت کی خامیاں منظر عام پر آنا کسی کی آنکھوں میں کھٹک گئی۔ سب سمجھ رہے ہیں کہ انہیں یہ سزا کیوں مل رہی ہے! اتر پردیش میں ایک طبقہ کو ولن کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اور اکثریتی آبادی کے ذہنوں میں ان کے لیے نفرت پیدا کی جا رہی ہے۔
اتر پردیش کے غازی آباد ضلع کے لونی علاقے میں 11 نومبر کو پیش آئے ایک انکاؤنٹر کے حیران کن واقعے پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ یہاں پولیس کے ساتھ تصادم میں 7 نوجوانوں کی ٹانگوں میں ایک ہی جگہ گولی لگی ہے۔ جن لڑکوں کے گولی لگی ہے ان کے نام مستقیم، سلمان، مونو، آصف، انتظار اور ناظم ہیں۔ پولیس کے مطابق انہیں بہٹا حاجی پور علاقہ میں ایک گودام میں مویشیوں کو غیر قانونی طور پر ذبح کرنے کی اطلاع موصول ہوئی تھی اور جب پولیس وہاں پہنچی تو 'بدمعاشوں' نے ان پر گولی چلا دی۔ اس دوران پولیس کو جوابی کارروائی کرنی پڑی جس میں 7 نوجوانوں کی ٹانگ میں گولیاں لگیں۔ غازی آباد کے سابق ایم ایل سی آشو ملک نے اس انکاؤنٹر پر سوال اٹھائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ تمام نشانے پیر میں ایک ہی جگہ پر لگیں! مقامی لوگ بھی گودام میں غیر قانونی ذبح کی بات نہیں کر رہے ہیں۔ پیر میں گولی لگنے کی ایک جیسی کہانی سوال کھڑے کرتی ہے!
آئی سی سی کی 'ٹیم آف دی ٹورنامنٹ' میں کسی ہندوستانی کھلاڑی کو جگہ نہیں! بابر اعظم کپتان
اتر پردیش کے رہائشی اور کانگریس اقلیتی شعبہ کے سربراہ عمران پرتاپ گڑھی ان واقعات کو محض اتفاق نہیں سمجھتے اور انہیں ایجنڈا قرار دیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یوپی کی بی جے پی حکومت کے دور میں ایسے سینکڑوں واقعات رونما ہوئے ہیں جن پر غور کیا جائے تو دلتوں اور مسلمانوں کے خلاف ایسے واقعات جابرانہ قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ یہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی 'ٹھوک دو' پالیسی کا نتیجہ ہے۔ وزیر اعلیٰ کے مشیر اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر مسلسل نفرت پھیلا رہے ہیں۔ لوگ اس حکومت کو بدلنے کے لیے بے چین ہیں اور وہ اب زمین پر پریشان عوام کے ایک بڑے حصے کو پولرائز کرنے اور تقسیم کی سیاست کے ذریعے دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ بدقسمتی سے وہ سماج کو ایک ولن کے طور پر پیش کر کے باہمی بھائی چارے کی خلیج کھود رہے ہیں۔ ان کی حالیہ انتخابی مہم یہ ثابت کرتی ہے کہ ان کے پاس شمار کرنے کے لئے کوئی کام نہیں ہے لیکن ان کی دو پالیسیاں ہیں 'ٹھوک دو' اور 'نام بدلو'۔ آنے والے دنوں میں اتر پردیش کے لوگوں کو بہت ہوشیار رہنا ہوگا۔ بھائی چارے کو بچانے کے لیے انہیں اضافی کوششیں کرنی ہوں گی۔

سعودی عرب نے پاکستان کودیادوخوبصورت مسجدوں کاعظیم تحفہ
سعودی عرب نے پاکستان کے عوام کے لیے مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی طرز پر تعمیر کی گئی دو مساجد حکومت پاکستان کے حوالے کر دی ہیں۔
اکتوبر 2005 کے زلزلے کے بعد سعودی حکومت نے جہاں پاکستان میں تعمیر اور بحالی کے دیگر منصوبے شروع کیے وہیں مقامی آبادی کی خواہش پر دو وسیع و عریض جامعہ ملک عبد العزیز مانسہرہ میں اور جامعہ ملک فہد بن عبدالعزیز مظفر آباد میں تعمیر کی گئیں۔
سوموار کو اسلام آباد میں سعودی سفارت خانے میں مساجد کی تکمیل اور انتظامی حوالگی کی تقریب ہوئی جس میں سعودی سفیر نواف سعید المالکی پاکستان کے وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے شرکت کی۔
اس موقع پر خطاب میں سعودی سفیر کا کہنا تھا کہ نئی مساجد سعودی حکومت کی جانب سے حکومت پاکستان اور پاکستانی بھائیوں کے لیے تحفہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مسجد شاہ عبد العزیز میں 10 ہزار سے زائد اور مسجد شاہ فہد میں چھ ہزار سے زائد نمازیوں کی گنجائش موجود ہے۔ اسی طرح دونوں مسجدوں کے کشادہ صحن ہیں اور عمدہ ڈیزائننگ سے آراستہ ہیں جو خانہ کعبہ اور مسجد نبوی سے مستعار ہیں۔
نواف سعید المالکی کا کہنا تھا کہ سعودی حکومت ہر قسم کے حالات میں پاکستان کی مددگار رہی ہے۔ حکومت سعودی عرب کی دانشمندانہ قیادت اور فراخ دلانہ حکم نامے کے باعث یہ تعاون جاری ہے جو شاہ عبد العزیز اور ان کے بیٹوں سے ہو کر خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز آل سعود، اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبد العزیز تک ہے۔
اپنے خطاب میں وفاقی وزیر مذہبی امور کا کہنا تھا کہ 2005 کے زلزلے کے بعد سب سے پہلے برادر ملک سعودی عرب کے ادارے مدد کو پہنچے تھے۔
مقامی افراد نے مخیر تنظیموں کو مساجد کی تعمیر کی درخواست کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ سعودی حکومت کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں خوبصورت مساجد تعمیر کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ پاکستان کا سعودی عرب سے تاریخی، دینی ، ثقافتی اور روحانی رشتہ ہے۔
ہم پاکستانی حکومت اور عوام کی جانب سے سعودی سفیر، عوام اور قیادت کا بطور خاص شکریہ ادا کرتے ہیں۔
سعودی حکومت کے تعاون سے جامع شاہ فہد پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے صدر مقام مظفر آباد اور جامع شاہ عبدالعزیز صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر مانسہرہ میں تعمیر کی گئی۔

بھارت : گائیوں کے لیے پہلی مرتبہ ایمبولنس سروس
بھارت : گائیوں کے لیے پہلی مرتبہ ایمبولنس سروس
انہوں نے اس کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ دسمبر سے شرو ع ہونے والی اس ایمبولنس سروس کے لیے لکھنؤ میں ایک کال سینٹر بنایا گیا ہے جہاں ضرورت مند افراد ایک مخصوص ایمرجنسی نمبر پر فون کرکے خدمات حاصل کرسکیں گے۔ اس سروس کے تحت گائیوں کو ممکنہ کم سے کم وقت میں ویٹرنری ہسپتال تک پہنچایا جائے جس میں زیادہ سے زیادہ پندرہ سے بیس منٹ لگیں گے۔ ہر ایمبولنس میں ایک ویٹرنری ڈاکٹر اور دو معاونین بھی موجودہوں گے۔''اس سے سنگین طور پر بیمار گایوں کے جلد علاج میں مد د ملے گی۔''
مویشی پروری کے وزیر لکشمی نارائن نے بتایا کہ فی الحال 515ایمبولنس گاڑیاں اس کام کے لیے تیار کھڑی ہیں۔
'یہ سب الیکشن کا کھیل ہے'
بھارت میں گائے انتخابات کے دوران اہم ترین موضوعات میں سے ایک ہے۔ شمالی بھارت جسے عرف عام میں Cow Belt بھی کہا جاتا ہے، پنچایت سے لے کر پارلیمنٹ تک کے انتخابات گائے کے بغیر مکمل نہیں ہوتے۔ چونکہ ہندو مت میں گائے کو مقدس مقام دیا جاتا ہے اور اسے ماں کا درجہ حاصل ہے اس لیے ہندو قوم پرست جماعتیں گائے کے تحفظ کے نام پر ووٹروں کو راغب کرتی ہیں جب کہ مبینہ سیکولر جماعتیں گائے کے نام پر شدت پسند ہندووں کے ذریعہ لنچنگ کے واقعات کو پیش کرتی ہیں۔
اترپردیش سمیت بی جے پی کی حکومت والی کئی ریاستوں نے ذبیحہ گائے کے خلاف سخت قوانین بنائے ہیں، جس میں جرم ثابت ہونے پر دس برس تک قید اور پانچ لاکھ روپے تک کے جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔ لیکن گائے کے حوالے سے کوئی مرکزی قانون نہیں ہے۔ ہندو قوم پرست حکومت بھی گائے کے حوالے سے کوئی ٹھوس قانون بنانے سے گریز کرتی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ الیکشن کے کھیل ہے۔ بھارتی صحافی شرد گپتا نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن آنے والے ہیں، ایسے میں یوگی ادیتیہ ناتھ کی بی جے پی حکومت اس طرح کے اور بھی کئی اعلانا ت کرسکتی ہے۔
شرد گپتا کا کہنا تھا،''اترپردیش میں آوارہ گائیوں کا معاملہ ایک سنگین مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ جب گائے دودھ دینا بند کردیتی ہے تو کسانوں کے لیے ان کی پرورش کرنا ممکن نہیں رہ جاتا اور چونکہ قانوناً وہ اسے کسی کو فروخت بھی نہیں کرسکتے لہذا انہیں آوارہ چھوڑ دیتے ہیں۔''
شرد گپتا کہتے ہیں، ''گائیوں کے لیے ایمبولنس سروس سننے میں تو اچھا لگتا ہے اور یہ یقیناً اچھی چیز بھی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ریاست میں بدحال ہیلتھ سروسز میں بھی سدھار کیا جانا چاہئے۔ تاکہ لوگوں کو ضرورت پڑنے پر 15سے 20منٹ کے اندر ایمبولنس مل سکے اور وہ ہسپتال پہنچ سکیں۔''
ہیلتھ سروسز کی خستہ حالی
رپورٹوں کے مطابق صحت کے میعارات کے لحاظ سے اترپردیش کی حالت بہت خراب ہے۔ اترپردیش نے گوکہ 'نیشنل فیملی ہیلتھ سروے' کے تازہ ترین اعدادوشمار جاری نہیں کیے ہیں تاہم 'سیمپل رجسٹریشن سروے' کے2019کے اعدادو شمار کے مطابق اترپردیش، نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات کے لحا ظ سے دوسرے نمبر پر ہے جب کہ 2016-18کی رپورٹ کے مطابق زچگی کے دوران حاملہ خواتین کی اموات کے لحاظ سے بھی یوپی دوسرے نمبر پر ہے۔
'رورل ہیلتھ اسٹیٹسٹکس 2020-21' کے مطابق شہری علاقوں میں صحت خدمات کی حالت اچھی نہیں ہے جبکہ دیہی علاقوں میں تو حالات اور بھی ابتر ہیں۔حکومتی ادارے نیتی آیوگ کی رپورٹ کے مطابق اترپردیش میں کسی بھی ضلع ہسپتال میں بستروں کی اوسط تعداد فی ایک لاکھ نفوس پر صرف 13ہے۔

کاس گنج پولس حراست موت معاملہ : الطاف کے والدنے انکشاف کیاکہ خاموش رہنے کے لئے پولس نے دیئے 5 لاکھ روپے کاس گنج ( ایجنسی )
چاند میاں نے دعویٰ کیا کہ پولیس اہلکاروں نے انھیں بتایا کہ پیسہ حکومت کی جانب سے ہے۔ اتنا ہی نہیں، ان سے معاملے کو آگے نہیں بڑھانے کے لیے بھی کہا۔ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ گوراہا پولیس چوکی پر پولیس اور انتظامیہ کے سینئر افسران کی موجودگی میں انھیں 500 روپے کے نوٹوں کے بنڈلوں میں نقدی مہیا کرائی گئی تھی۔ چاند میاں نے کہا کہ پیسہ اب بھی ان کے پاس ہے۔ میں اسے واپس کرنے کے لیے تیار ہوں۔ میں بس اپنے بیٹے کے لیے انصاف چاہتا ہوں۔
مرحوم الطاف کے والد نے کہا کہ کاغذ میں لکھا تھا کہ اس کا بیٹا ڈپریشن سے متاثر تھا اور اس نے کوتوالی صدر تھانہ کے لاک اَپ کے واش روم میں خودکشی کر لی تھی۔ انھوں نے کہا کہ ان کے رشتہ داروں کو بھی اس معاملے کے بارے میں میڈیا سے بات نہ کرنے اور لاش کو خاموشی سے دفن کرنے کی تنبیہ کی گئی تھی۔ ایک دیگر رشتہ دار نے کہا کہ اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) ویریندر سنگھ اندولیا (اب معطل)، کچھ دیگر پولیس اہلکاروں کے ساتھ ایک سب ڈویژنل مجسٹریٹ اور ایک مقامی کارکن گوراہا پولیس چوکی پر موجود تھے، جب پیسہ الطاف کے والد کو سونپا گیا تھا۔
کاس گنج کے پولیس سپرنٹنڈنٹ (ایس پی) بوترے روہن پرمود نے حالانکہ اس کے طرح الزام سے انکار کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پولیس نے الطاف کے والد کو کوئی نقد پیسہ نہیں دیا ہے۔ معاملے کے بارے میں پوچھے جانے پر ضلع مجسٹریٹ ہرشیتا ماتھر نے کہا کہ ابھی تک مہلوک کے کنبہ کے لیے مالی امداد کا کوئی اعلان نہیں ہوا ہے۔ ہم نے اس سلسلے میں ریاستی حکومت کو تجویز بھیجی ہے۔ ہم الطاف کے کنبہ میں سے ایک کو ملازمت دلوانے کی بھی کوشش کریں گے۔
یو پی کے ایڈیشنل ڈی جی پی راجیو کرشن نے کہا کہ مجھے اس طرح کے کسی بھی لین دین کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے۔ بھلے ہی پورے معاملے کو چھپانے کے لیے نقدی سونپ دی گئی ہو، یہ اب بے معنی ہے۔ مہلوک شخص کے والد کی شکایت پر ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ جانچ کا فوکس حراست میں ہوئی موت پر ہے۔ اس تعلق سے مجسٹریل اور محکمہ جاتی جانچ بھی کی جا رہی ہے۔
اس درمیان کاس گنج پولیس نے 16 سالہ ہندو لڑکی کو اغوا کنندگان کے چنگل سے چھڑا لیا ہے جس کا مبینہ طور پر الطاف اور ایک نامعلوم دوست کے ذریعہ اغوا کیا گیا تھا۔ ایک سینئر پولیس افسر نے کہا کہ اسے بیان درج کرانے کے لیے عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ اتر پردیش کے کاس گنج میں گزشتہ ہفتے منگل کو چاند میاں کا بیٹا الطاف تھانہ کے لاک اَپ کے واش روم میں مبینہ طور پر 2 فیٹ اونچے پانی کے پائپ سے لٹکا پایا گیا تھا۔ پولیس اسے ایک لڑکی کو بھگانے کے الزام میں گرفتار کر تھانے لے گئی تھی۔ گھر والوں کا الزام ہے کہ الطاف کی موت پولیس کی پٹائی کے سبب ہوئی۔ علاوہ ازیں 5 فیٹ سے زیادہ قد رکھنے والے الطاف کی 2 فیٹ اونچی نل کی ٹونٹی سے لٹک کر خودکشی کرنے کی پولیس کی تھیوری کسی کے گلے نہیں اتر رہی ہے

اردودنیانیوز۷۲
ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!
ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے! Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...
-
ٹرین میں ناری شکتی پردرشن Urduduniyanews72 عالمی یوم خواتین سے سبھی واقف ہیں، یہ ہرسال مارچ کی آٹھویں تاریخ کوپوری دنیا میں من...
-
گستاخ نبی کی قرآنی سزا اردودنیانیوز۷۲ مکہ میں سب سے پہلےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنےوالا کوئی اور نہیں بل...
-
یہ بیماری نہیں عذاب الہی ہے ! Urduduniyanews72 سی این این یہ امریکی نشریاتی ادارہ ہے،اس کی ایک رپورٹ جسے ملک کے اکثر اخبارات ...
-
بچیوں کی تربیت: ایک اہم ذمہ داری Urduduniyanews72 1. بچیوں کی تربیت کی اہمیت بچیوں کی تربیت ایک معاشرتی فریضہ ہے۔ ایک اچھی تربی...
-
مدارس اسلامیہ کنونشن میں منظور شدہ تجاویز اردودنیانیوز۷۲ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھن...
-
ملکِ ہند میں اسلامی انگریزی اسکول: وقت کی اہم ضرورت Urduduniyanews72 ہندوستان میں مسلمان قوم کا شمار ملک کی سب سے بڑی اقلیت میں...
-
نئے سال کا آغاز: ایک نیا سفر Urduduniyanews72 نیا سال ایک نیا آغاز، ایک نئی امید اور نئی جدوجہد کا پیغام لے کر آتا ہے۔ یہ دن نہ...
-
پیام انسانیت کے وفد کا سیمانچل دورہ Urduduniyanews72 Urduduniyanews72 @gmail.com ملک میں ایک ایسی تحریک جو خالص انسانی بنیاد پ...
-
سنبھل میں کرفیو کی ایک رات ) * انس مسرورانصاری Urduduniyanews72 رات آئی تو خوف کا عفریت...
-
خنساء اسلامک انگلش اسکول بہیڑہ دربہنگہ، بہار کی دینی و عصری تعلیم اور اصلاحی خدمات۔ Urduduniyanews72 تعارف: خنساء اسلامک انگلش ...