Powered By Blogger

ہفتہ, نومبر 20, 2021

اوٹکور میں ایس آئی او کی جانب سے مسلم طلبہ و اسلامی تعلیمات پر ایک روزہ تربیتی نوجوانوں کیمپ

اوٹکور میں ایس آئی او کی جانب سے مسلم طلبہ و اسلامی تعلیمات پر ایک روزہ تربیتی نوجوانوں کیمپ

اوٹکور : اسٹوڈینٹس اسلامک آرگنائزیشن کی جانب سے مسلم طلبہ و نوجوانوں میں دینی شعور بیدار کرنے اور اسلامی تعلیمات کی بیداری کو لیکر ایک روزہ تربیتی کیمپ اوٹکور منڈل کی جامع مسجد پنچ میں منعقد کیا گیا۔ جس میں ضلع ناراٸن پیٹ کے اور دیگر مقامات کے مسلم طلبہ و نوجوانوں نے شرکت کی۔تربیتی کیمپ کا افتتاح حافظ محمد علی امامی گنڈمال کی تلاوت قرآن سے ہوا۔حافظ محمد افتخار صدر ایس آٸی او ضلع ناراٸن پیٹ کی افتتاحی گفتگو کے بعد باقاعدہ پروگرام کا آغاز جامع مسجد پنچ کے خطیب و امام جناب مولانا نورالاسلام رحمانی صاحب نے سیرت النبیﷺ کے تعلق سے مکّی و مدنی زنگی کے مختلف پہلٶں پر سیر حاصل گفتگو کی۔محمد اقبال صاحب ٹیچر نے بھی اسلامی عقائد وغیرہ کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔پروگرام کے دوسرے سیشن میں محمد جاوید صاحب ٹیچر نے قرآن کا مختصر تعارف جبکہ برادر عبدالرشید نگری نے تحریک اسلامی اور ایس آٸی نامی لٹریچر کا خلاصہ پیش کیا۔

دوسرے سیشن کی اختتامی گفتگو سے قبل جامع مسجد پنچ کے خطیب و امام جناب مولانا نورالاسلام رحمانی صاحب نے اسٹوڈینٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا کے قیام سے لیکر اغراض و مقاصد اور دستور کی تفہیم سے متعلق اہم نکات پر گفتگو فرماتے ہوۓ پروگرام میں موجود طلبہ و نوجوانوں سے تنظیم سے وابستگی کیلیۓ گذارش کی۔انہوں نے کہا کہ تنظیم ملک ہندوستان میں گذشتہ چالیس برسوں سے اپنے مشن " الٰہی ہدایات کے مطابق سماج کی تشکيلِ نو کیلیۓ طلبہ و نوجوانوں کو تیار کرنے کا کام انجام دے رہی ہے جسکی وجہ سے مسلم نوجوانوں میں غیر معمولی تبدیلياں محسوس کی جارہی ہیں۔کیمپ کا اختتام تنظیم کے ضلعی صدر برادر حافظ محمد افتخار صاحب کی اختتامی گفتگو اور دعا کے ساتھ کیا گیا۔اس موقع پر تنظیم کے مقامی صدر حافظ عبدالقیوم, محمد سہیل گنتہ, عبدلقیوم کرنول, محمد آصف, عرفات, اسعداللّٰه , امان اللّٰه وغیرہ موجود تھے۔

مولانا محمود دریابادی مسلم پرسنل لاء بورڈ کے فاونڈر ممبر منتخب

مولانا محمود دریابادی مسلم پرسنل لاء بورڈ کے فاونڈر ممبر منتخبکانپور: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ستائیسویں اجلاس کی دوسری نششت میں ممبئی کے مشہور عالم دین اور معروف ملی سماجی خدمت گار مولانا محمود احمد خاں دریابادی کو اتفاق رائے سے رکن تاسیسی ( فاونڈرممبر) منتخب کیا گیا۔ انتخاب کے بعد بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، سکریٹری مولانا فضل الرحیم مجددی، مولانا عتیق احمد بستوی، ایڈوکیٹ یوسف مجھالہ، ڈاکٹر ظہیر قاضی اور فرید شیخ سمیت کئی ممبران کے مبارکباد پیش کی اور امید ظاہر کی ہے کہ مولانا کے رکن تاسیسی بننے سے بورڈ کو مزید استحکام حاصل ہوگا اور خصوصا ممبئی و مہاراشٹر میں بورڈ کی سرگرمیاں مزید آگے بڑھیں گی۔ مولانا محمود دریابادی آَل انڈیا علما کونسل کے سکریٹری جنرل ہیں، حکومت مہاراشٹر کی قاضی کمیٹی کے رکن بھی ہیں اور بھی کئی ملی وسماجی تنظیموں سے وابستہ نیز سماجی کاموں میں ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں۔

خیر السیر فی سیرۃ خیر البشرمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

خیر السیر فی سیرۃ خیر البشر
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
خیر السیر فی سیرۃ خیر البشر ولی اللہ عبد السبحان ولی عظیم آبادی کی سیرت رسول پر منظوم کتاب ہے، جس کے ہر شعر سے ان کی قادر الکلامی اور محبت رسول کی جھلک ملتی ہے، ان کی یہ کتاب تاریخ اسلام میں حفیظ جالندھری کی ’’شاہنامہ اسلام‘‘ اور ڈاکٹر عبد المنان طرزی کی مشہور ومعروف منظوم ’’سیرت الرسول‘‘ کے کام کو تسلسل عطا کرتی ہے۔
 ایک سو اٹھائیس صفحات پر مشتمل اس کتاب کے اڑتیس صفحات پر عرض خاص ، قطعۂ تاریخ طبع اول ، قطعۂ تاریخ طبع جدید، پیام مسرت، شجرۂ نبویہ ، نسب نامہ خیر البریۃ ، اسوۃختم الرسل، تشکر وامتنان اور مقدمہ خود شاعر کے قلم سے ہے ، جن میں سے بعض نثر میں ہے اور بعض نظم میں، اس کے علاوہ پیشوائی ابو محمد ولی الزماں بن منتظر خان ناشر کی جانب سے ہے، جبکہ تاثرات مولانا عبد الخالق سنبھلی ،مولانا ریاست علی بجنوری، مولانا محمد یوسف تاؤلی اساتذہ دار العلوم دیو بند ، مولانا سید محمد راشد مظفر نگری مبلغ دار العلوم دیو بند، منظوم تقریظ جناب تاج الدین اشعر رام نگری کی ہے، جنہوں نے اشعار کے نوک وپلک درست کرنے کا کام کیا ہے، اصل کتاب صفحہ ۴۰ سے شروع ہوتی ہے ،ایک سو سولہ پر مراجع کا ذکر ہے اور ۱۲۸ پر ولادت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ کو مختلف کلنڈروں سے نقشہ کی شکل میں مرتب کیا گیا ہے ۔
 طبع جدید جو اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن ہے ، اس میں دو سو اشعار کے ساتھ عنوانات اور حوالہ جات کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے ، مطابع الرشید مدینہ منورہ سعودی عرب سے طبع شدہ یہ کتاب کاغذ ، رنگین طباعت وغیرہ کے اعتبار سے بھی ممتاز ہے، خوبصورت اور دیدہ زیب ، ناشر نے پوری کوشش کیا ہے کہ کتاب کی طباعت سیرت نبوی کے اعلیٰ معیار اور سیرت کے موضوع کے شایان شان ہو۔
 کتاب کا موضوع سیرت پاک ہے،اس مناسبت سے شاعر نے چھوٹی بحر میں زبر دست قادر الکلامی کا ثبوت دیا ہے ، سیر وتاریخ کے لئے سب سے موزوں اور مناسب مثنوی والی ہیئت ہے ، اس میں خاصی گنجائش رہتی ہے،لیکن مصنف نے اس کتاب کے لیے جس بحر کا انتخاب کیا ہے اس میں عموما شاعر کا قافیہ تنگ ہو جاتا ہے ، اسے سیرت پاک کا معجزہ اورولی عظیم آبادی کی کرامت کہیے کہ وہ اس پل صراط سے صحیح وسالم گزرے ہیں ، اس گذارنے میں میرے ہم وطن شاعر معین احمد شائقؔ مظفر پوری بن ڈاکٹر آل حسن مرحوم ، نعیم الرحمن نعیم جلالپوری اور تاج الدین اشعر رام نگری بنارس کا بڑا عمل دخل رہا ہے ، شائق مظفر پوری کے انتقال کے بعد ان اشعار پر سب سے زیادہ اصلاح اور دقت نظر کے ساتھ ان کے نوک وپلک درست کرنے کا کام جناب تاج الدین اشعر نے کیا ، تاج الدین اشعر اپنے نامور باپ مولانا امام الدین رام نگری کے نامور صاحب زادے اور نقیب کے سابق ایڈیٹر شاہد رام نگری کے بھائی ہیں مشہور سخنور ، صحافی ، ادیب ہیں ، نعت گوئی میں خصوصی ملکہ رکھتے ہیں، انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ ’’درستگی کی پوری کوشش کے با وجود ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اصلاح کاحق ادا نہ ہوا۔‘‘
چھوٹی بحر کی وجہ سے ولی عظیم آبادی نے بہت جگہوں پر اشاروں کنایوں میں بات رکھی ہے، اس لیے طویل نوٹ اور حاشیہ کی بھی ضرورت ہوئی، شاعر کے احساسات وخیالات پوری طرح قاری کی گرفت میں آجائیں اس خیال سے مفید اور مستند انداز میں انہوںنے اشعار کی توجیہہ اور تاریخ کی تشریح نثر میں کر دیا ہے ، حاشیہ قیمتی ہے اور قاری تک اپنی بات پہونچانے کا بہتر ذریعہ بھی ۔ مبہم تعبیرات اور اشارات کی وضاحت کے لیے یہ ضروری بھی تھا۔ اشعار میں قافیہ بشر، جگر، نظر وغیرہ ہے، مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قافیہ خوب نکالا ہے ، ردیف اللہ اللہ مکرر ہے، جو پڑھنے میںخاص لطف وکیف وسرور پید اکرتا ہے ، پوری کتاب پڑھئے تو آپ دس سو باسٹھ مرتبہ اللہ اللہ کا ورد کر چکے ہوں گے، سیرت ختم الرسل کا مطالعہ اور اللہ اللہ کا ورد ، فائدہ ہی فائدہ ، لطف ہی لطف ، ثواب ہی ثواب، کتاب کا پہلا عنوان وایٔ غیر ذی زرع میں آمد بہار ہے، چند اشعار دیکھئے:
زباں پر ہے شام وسحر اللہ اللہ 

کروں ذکر خیر البشر اللہ اللہ 
قلم کا ہے سجدے میں سر اللہ اللہ 

کہ لکھتا ہے خیر السیر اللہ اللہ 
خلیل خدا کا سفر اللہ اللہ 

سوئے منزل معتبر اللہ اللہ
اختتام ان اشعار پر ہوتا ہے ۔
صلوٰۃ وسلام آپ پر میرے آقا

مری سمت بھی اک نظر اللہ اللہ
ولی ہے تہی دست علم وعمل سے

لکھے کیا وہ خیر السیر اللہ اللہ
اشعار میں سلاست ہے، روانی ہے، بر جستگی ہے ، تعقید لفظی اور معنوی سے خالی ہے ، صاحب کتاب عرصہ دراز سے مدینہ منورہ میں مقیم ہیں، دامن کوہ احد آپ کا مستقر ہے ، اس لیے مدینہ کی پر کیف فضاؤں نے تخیل میں پرواز اور رفعت پیدا کی ہے ، داخلی طور پرمصنف کے محبت رسول نے کام کیا اور کتاب انتہائی اہم اور معیاری تیار ہو گئی ۔ مولانا عبد الرحیم بستوی ؒ سابق استاذ دار العلوم دیوبند نے بجا لکھا ہے : 
’’ولی صاحب عشق نبی میں ڈوبے ہوئے ہیں، اور ان کا شاہ کارقلم حب البنی کی روشنائی چوس کر اوراق پر رواں ہے اور سیرت کے موتی بکھیر تا ہوا آگے بڑھتا ہے‘‘ (۱۳) حضرت مولانا ریاست علی بجنوری نے لکھا ہے ’’زبان  وجذبات یعنی الفاظ اور معانی دونوں کی خوبی قابل قدر ہے ‘‘ (۱۵) حضرت مولانا قمر الزماں الٰہ آبادی دامت برکاتہم نے لکھا ہے ’’ نام بھی ماشاء اللہ خیر السیر فی سیرۃ خیر البشر یقینا اسم با مسمی ہے، آں عزیز نے وجدوکیف سے اس کی تالیف کی ہے ، اس لیے اس کے پڑھنے کا خاص اثر ہوتا ہے (۱۲۲)
مختصر یہ کہ کتاب سیرت کے موضوع پر قابل قدر اضافہ ہے ،اور اس لائق ہے کہ ہر مسلمان کے گھر میں رہے، بچے بوڑھے ، عورت مرد سب اس کا مطالعہ کریں ، کہیں پر کتاب کی قیمت /ہدیہ درج نہیں ہے، مجھے مفت ملی ہے ،ا ٓپ کو بھی مفت مل سکتی ہے ، کوشش کر دیکھئے ، ملنے کا پتہ کتاب پر درج ہوتا تو میں آپ کو ضرور بتاتا۔

مصر میں شادی کا جشن ماتم میں تبدیل دلہن کا رخصتی کے چند گھنٹے بعد انتقال

مصر میں شادی کا جشن ماتم میں تبدیل دلہن کا رخصتی کے چند گھنٹے بعد انتقالقاہرہ : مصر میں المنیا گورنری میں ایک شادی کی تقریب ماتم میں تبدیل ہوئی۔ شادی کے دوران رخصتی کے چند گھنٹے بعد دلہن دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئی جس سے جشن ماتم میں تبدیل ہوگیا۔تفصیلات کے مطابق منیا گورنری کی سیکیورٹی سروسز کو ایک رپورٹ موصول ہوئی جس میں بتایا گیا تھا کہ المنیا کے وسط میں واقع گاؤں ریدا میں ایک خاتون اپنے گھر کے اندر دم توڑ گئی ہے۔فورسز نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر 20 سالہ خاتون جسے اپنی شادی کے چند گھنٹے بعد اچانک دل کا دورہ پڑا تھا کی موت کی تصدیق کی۔تحقیقات کے دوران دلہن کے والد نے تصدیق کی کہ ان کی بیٹی کسی پرانی بیماری یا کسی اور قسم کی بیماری میں مبتلا نہیں تھی اور وہ شادی سے پہلے اپنی معمول کی زندگی گذار رہی تھی۔

جمعہ, نومبر 19, 2021

زرعی قانون کو واپس لینے پر جے ایم ایم - کانگریس - آر جے ڈی کا ملا جلا ردعمل ، جے ایم ایم نے کہا ، تکبر کے سامنے جدوجہد کی جیت

زرعی قانون کو واپس لینے پر جے ایم ایم - کانگریس - آر جے ڈی کا ملا جلا ردعمل ، جے ایم ایم نے کہا ، تکبر کے سامنے جدوجہد کی جیت

رانچی: مودی حکومت کے لائے گئے تین زرعی قوانین کے خلاف ملک بھر کے کسان دہلی کی سرحد پر احتجاج کر رہے تھے۔ آخر کار ایک سال بعد مرکز کی مودی حکومت کسانوں کے سامنے جھک گئی۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعہ کو زراعت کے تینوں قوانین کو واپس لینے کا اعلان کیا۔ اس کے ساتھ ہی جھارکھنڈ کی غیر بی جے پی سیاسی جماعتوں نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے تینوں قوانین کو واپس لینے کو بی جے پی کی شکست اور عوام کی جیت قرار دیا ہے۔

تکبر کے سامنے جدوجہد کی جیت : جے ایم ایم

حکمراں جھارکھنڈ مکتی مورچہ نے ٹویٹ کیا ہے کہ تکبر کے سامنے آج جدوجہد کی جیت ہوئی ہے۔ پورے ملک کے کسانوں کو سلام۔ تینوں کالے قوانین واپس کر دیے گئے۔

دستبرداری کا اعلان صرف انتخابی چال: کانگریس

کانگریس کے ورکنگ صدر بندھو ٹرکی نے کہا کہ تین کسان مخالف زرعی قوانین کو واپس لینے کے اعلان کو انتخابی چال قرار دیا گیا ہے۔ اس فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے اگلے سرمائی اجلاس میں قانون کی تنسیخ کا باقاعدہ عمل مکمل ہو جائے گا۔ لیکن اس سے پہلے حکومت اور حکمراں جماعت کے لوگوں نے اپنے تین کارپوریٹ پسند قوانین کو لاگو کرنے کے لیے کسانوں پر بہت زیادہ مظالم ڈھائے ہیں۔ ٹھیک ہے، ہندوستانی کسانوں کی بڑی جیت!مودی سرکار کو آخر جھکنا پڑا! انہوں نے کہا کہ کسانوں کو سال بھر میں بہت نقصان اٹھانا پڑا اور کسانوں کے کئی اہم سوالات ابھی تک جواب طلب ہیں۔


کسانوں کو کم سمجھنے والے لوگ ہار گئے: آر جے ڈی


آر جے ڈی کے ریاستی صدر ابھے سنگھ نے کہا کہ یوپی انتخابات کے پیش نظر مرکزی حکومت کسانوں کے سامنے ہار گئی ہے۔ مرکز نے یہ فیصلہ یوپی انتخابات کو دیکھ کر لیا ہے، لیکن جب تک تین بل کابینہ سے واپس نہیں کیے جاتے، آر جے ڈی کا احتجاج جاری رہے گا۔ ابھے نے کہا کہ یہ کالا قانون سرمایہ داروں کو خوش کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔ کسانوں کو کم سمجھنے والے آج ہار گئے ہیں۔

زرعی قوانین کی واپسی کو بادشاہت کی شکست اور جمہوریت کی فتح قرار دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وزیر صحت نے بھی سوال اٹھایا ہے۔ انہوں نے سوال کیا ہے کہ حیرت کی بات ہے کہ انہوں نے تحریک میں شہید ہونے والے کسانوں، خوراک کے عطیات دینے والوں اور عام لوگوں کی تکالیف کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ اس نے کسانوں کے قتل کی ذمہ داری قبول کیوں نہیں کی؟ ملک کی پارلیمنٹ کا قیمتی وقت اور پیسہ ضائع کرنے والے تین کالے قوانین کا ذمہ دار کون ہے؟

حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری ؒمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری ؒ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
دار العلوم دیو بند کے مؤقر استاذ ، معاون مہتمم، جمعیت علماء ہند (مولانا محمود مدنی گروپ کے) صدر، جمعیت علماء ہند کی جانب سے متفقہ طور پر منتخب امیر الہند، کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کے ناظم، جامعہ قاسمیہ گیا ، جامعہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ کے سابق استاذ، اسلاف کی نشانی، تواضع، خاکساری، انکساری میں ممتاز حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری نے ۲۱؍ مئی ۲۰۲۱ء مطابق ۸؍ شوال ۱۴۴۲ھ کومیدانتا اسپتال گڑگاؤں ہریانہ میں داعیٔ اجل کو لبیک کہا، رمضان کے مغفرت والے دوسرے عشرہ میں حضرت قاری صاحب کو کوڈ کی شکایت ہوئی، آکسیجن لیبل گرتا چلا گیا، کمزوری بڑھتی رہی، گھر پر رکھ کر علاج کرانا ممکن نہیں ہوا تو ۱۸؍ مئی ۲۰۲۱ء کو میدانتا میں داخل کیا گیا، بہترین علاج ، ڈاکٹروں کی غیر معمولی توجہ ، تیمار داروں کی مثالی خدمت اور مخلصین ومعتقدین کی دعا ئیں، ملک الموت کو اپنے کام سے نہ روک سکیں اور روکا جا بھی تو نہیں سکتا ، کیوں کہ فرمان الٰہی ہے، جب اللہ کا مقرر کردہ وقت آجاتا ہے تو وہ ٹلتا نہیں ہے ، جنازہ کی نماز دو بار ہوئی، پہلی نماز جنازہ مرکزی دفتر جمعیت علماء ہند بہادر شاہ ظفر مارگ نئی دہلی میں اور دوسری دار العلوم دیوبند کے احاطہ مولسری میں ادا کی گئی، دوسری نماز جنازہ صدر المدرسین دار العلوم دیو بند اور حضرت قاری صاحب کے برادر نسبتی حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ صدر جمعیت علماء نے پڑھائی اور مزار قاسمی میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ، ایک بیٹی اور دو نامور صاحب زادے مولانا مفتی سید محمد سلمان منصور پوری اور قاری مفتی سید محمد عفان کو چھوڑا، مولانا سید محمد سلمان منصور پوری جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد میں مفتی ،مدرس اور بہت ساری کتابوں کے مصنف ومؤلف ہیں، وہاں کے ترجمان ندائے شاہی کے مدیر اور بافیض عالم ہیں، قاری مفتی محمد سید عفان جامعہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ میں صدر المدرسین اور استاذ حدیث ہیں۔
 حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان بن نواب محمد عیسی (م ۱۹۶۳) کی ولادت ۱۲؍ اگست ۱۹۴۴ء کو ان کے آبائی گاؤں منصور پور ضلع مظفر نگر اتر پردیش میں ہوئی، وہ اپنے دو بھائی حافظ محمد موسی اور حافظ محمد داؤد کے بعد تیسرے نمبر پر تھے، آپ کا خاندانی تعلق سادات حسینیہ بارہہ کی ایک شاخ سے تھا، آپ کے والدنے اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ اور قرآن کریم کا حافظ بنانے کے لئے نقل مکانی کرکے دیو بند میں سکونت اختیار کی، اور برسوں کرایہ کے مکان میں گذار دیا ، علماء دیو بند سے تعلق کی وجہ سے ان کا انتقال دیو بند میں ہی ہوا، اور مزار قاسمی میں وہ بھی مدفون ہیں۔ اللہ رب العزت نے ان کے تینوں بچوں کو حافظ بنادیا اور حضرت قاری صاحب کو اللہ نے جو لحن داؤ دی عطافرمائی تھی اس کی وجہ سے وہ حضرت مولانا کے بجائے قاری صاحب سے مشہور تھے، اور کہنا چاہیے کہ بڑے علماء میں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب کے بعد حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب ہی دیو بند میں اس لفظ سے جانے جاتے تھے، قرآن کریم سے حضرت قاری صاحب کو والہانہ تعلق تھا اور جس لحن میں وہ اس کی تلاوت کرتے تھے، اس نے اس لفظ کو قاری صاحب کے نام کا سابقہ بنا دیا اور پوری زندگی ’’قاری‘‘ کے سابقہ کے ساتھ ہی وہ جانے پہچانے گئے۔
قاری صاحب کی ابتدائی تعلیم مدرسہ حسینہ منصور پور میں ہوئی ، حفظ قرآن کریم کی تکمیل بھی آپ نے اسی مدرسہ سے کی، عربی اول سے لے کر دورۂ حدیث تک کی تعلیم دار العلوم دیو بند میں پائی ۱۹۶۵ء مطابق ۱۴۸۵ء میں یہیں سے  سند فراغت پائی ،فراغت کے بعد پھر تجوید کی طرف متوجہ ہوئے او ر۱۹۶۶ء میں یہیں سے قراء ت سعبہ عشرہ کی تکمیل کی اور اس فن میں کمال پیدا کیا۔ 
تدریسی زندگی کا آغاز حضرت مولانا قاری فخر الدین ؒ خلیفہ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی (۱۹۷۵-۱۸۸۹) کے قائم کردہ مدرسہ قاسمیہ گیا سے کیا، ۱۹۶۷ء سے ۱۹۷۲ء تک پانچ سال یہاں مقیم رہے، یہاں سے مستعفی ہو کر جامعہ اسلامہ جامع مسجد امروہہ کو اپنی تدریس کا میدان عمل بنایا ، آپ ہی کے دور میں اس ادارہ میں النادی الادبی قائم ہوئی، یہاں آپ کے ذمہ سنن ابو داؤد ، جلالین اور مختصر المعانی وغیرہ کا درس تھا۔
 ۱۹۸۲ء میں انقلاب دار العلوم کے بعد پورے ہندوستان سے نامور اساتذہ چن چن کر دار العلوم دیو بند لائے گئے، حضرت قاری صاحب ان میں سے ایک تھے، ہدایہ، مشکوٰۃ ، مؤطا امام مالک وغیرہ کا درس آپ سے متعلق تھا، معاون مہتمم اور کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کے ناظم کی ذمہ داری اس پر مستزاد تھی، مشہور تھا کہ حضرت قاری صاحب کو تقریر کا جو بھی موضوع دے دیجئے بات تحفظ ختم نبوت کے ذکر کے بغیر نامکمل رہتی تھی، یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم نبوت ہونے سے جو ان کو والہانہ عشق تھا، یہ اس کا مظہر ہوا کرتا تھا، آپ کا درس رطب ویابس سے پاک سہل اور آسان زبان میں ہوتا تھا، درسی تقریر ہویا جلسہ کی، آپ ٹھہر ٹھہر کر بولتے تھے، جس کی وجہ سے آپ کی تقریر کا نقل کرنا آسان ہوجاتا تھا، عربی زبان وادب میں وہ حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی ؒ کے شاگرد تھے، اور عربی میں زبان وبیان پر قدرت تھی ، النادی الادبی کے سالانہ اجلاس میں عربی میں آپ کی تقریر سے طلبہ بہت مستفید اور مستفیض ہوا کرتے تھے۔
 آپ کی انتظامی صلاحیت کے بھی اکابر دار العلوم قائل تھے، اسی وجہ سے آپ کو ۱۹۸۶ء میں کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کا ناظم ، ۱۴۱۵ھ میں ناظم اعلیٰ دار الاقامہ ، ۱۹۹۷ء میں دار العلوم کے نائب مہتمم، ۲۰۲۰ء  مطابق صفر ۱۴۴۲ھ میں معاون مہتمم بنایا گیا ، آپ نے ان تمام ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی انجام دیا، تحفظ ختم نبوت کے حوالہ سے آپ کی خدمت انتہائی وقیع ہیں، انہوں نے رجال کار کی فراہمی اور اس موضوع پر کتابوں کی تالیف اور محاضرات کا اہتمام کیا، کئی جگہوں پر قادیانیوں کو منہ کی کھانی پڑی اور کئی جگہ وہ بھاگ کھڑے ہوئے، اس موضوع پر حضرت قاری صاحب کے محاضرے بڑی علمی، منطقی اور مخالفین کے حق میں دندان شکن ہیں۔
 جمعیت علماء کے پلیٹ فارم سے بھی آپ نے جو خدمات پیش کیں وہ لائق تحسین ہیں، ۱۹۷۹ء میں قاری صاحب نے جمعیت کی تحریک ’’ملک وملت بچاؤ‘‘ کے ایک جتھے کی قیادت کی ، گرفتار ہوئے اور کئی دن تک تہاڑ جیل میں رہنا پڑا۔ 
۵؍ اپریل ۲۰۰۸ء کو جمعیت کے ایک گروپ کے آپ صدر منتخب ہوئے، ۲۰۱۰ء میں جمعیت کے دونوں گروپ نے آپ کو امیر الہند منتخب کیا اور مانا،اپنی تیرہ سالہ صدارت میں جمعیت یوتھ کلب اور جمعیت اوپن اسکول کے قیام پر آپ نے اپنی توجہ مرکوز کی اور اسے مختلف ریاستوں میںپھیلانے کا کام کیا۔
حضرت قاری صاحب کا اصلاحی تعلق شیخ الحدیث حضرت مولانامحمد زکریا ؒ (۱۹۸۲-۱۸۹۸) تھا، حضرت کے حکم پر فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنیؒ (۲۰۰۶-۱۹۲۸) سے منسلک ہو گئے، اور انہیں سے خلافت پائی، شادی حضرت مدنی ؒ کی صاحب زادی سے تھی ، اس لیے مدنی خاندان سے مصاہرت کا تعلق تھا، جس کا حضرت بہت پاس ولحاظ رکھا کرتے تھے۔
 میری ملاقات تو ۱۹۸۲ء سے ہی تھی، لیکن مجھے ان سے شاگردی کا شرف حاصل نہیں ہو سکا، البتہ دو طویل ملاقاتیں یاد داشت کا حصہ ہیں، ایک ملاقات بھاگلپور سے دہلی تک سفر کے دوران رہی اور حسب توفیق خدمت کا موقع ملا ، اس سفر میں حضرت کے ارشادات سے مستفیض ہوتا رہا، آدمی کی پہچان سفر میں زیادہ ہوتی ہے ، میں نے اس سفر میں حضرت کو سنجیدہ ، بردبار، اصول پسند ، نرم دم گفتگو پایا، دو سری طویل ملاقات دہلی سے قطر تک کے سفر میں رہی ، موقع تھا لجنۃ اتحاد علماء المسلمین سے متعلق سے کانفرنس کا ، ڈاکٹر یوسف قرضاوی کی تحریک اور ڈاکٹر محی الدین قرۃ داعی کی دعوت پر ہندوستان سے بڑے اور جید علماء کے ساتھ یہ حقیر بھی مدعو تھا، حضرت قاری صاحب حضرت مولانا ارشد مدنی، مولانا سید سلمان حسینی ندوی، مولانا بدر الحسن قاسمی کویت بھی شریک تھے، اس موقع سے حضرت قاری صاحب کا خطاب بڑا وقیع ہوا تھا، اتفاق سے میری والدہ کا انتقال ہو گیا ، اور میں دوسرے روز پروگرام کے اختتام سے قبل ہی واپس ہو گیا، یہ لجنہ کا بنیادی تشکیلی اجلاس تھا، جس میں ہندوستان کے لیے بھی کمیٹی بنی تھی اور اب اس کے کئی اجلاس ہو چکے ہیں،دوسرے علماء کے ساتھ حیدر آباد سے مولانا عمر عابدین اور بیگوسرائے سے مفتی خالد حسین قاسمی نیموی اس کے رکن ہیں۔
 اس دور قحط الرجال میں حضرت قاری مولانا سید محمد عثمان صاحب کا وصال دار العلوم دیو بند ہی نہیں پورے ہندوستان کی علمی ، ملی، دینی، تعلیمی دنیا کا عظیم خسارہ ہے، اللہ رب العزت غیب سے اس کی تلافی کی شکل پیدا فرمادیں، حضرت کے درجات بلندکریں اور پس ماندگان کو صبر جمیل سے نوازے ۔ آمین یا رب العالمین وصلی اللہ تعالیٰ علی النبی الکریم وعلی اٰلہ وصحبہ اجمعین ۔

بڑی خبر : وزیراعظم مودی نےکیا اعلان ، تینوں زرعی قوانین ہوں گے واپس

بڑی خبر : وزیراعظم مودی نےکیا اعلان ، تینوں زرعی قوانین ہوں گے واپسنئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی (Prime Minister Narendra Modi) نے قوم کے نام خطاب کرتے ہوئے بڑا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے تینوں زرعی قوانین (Three Farm Laws) کو واپس لے لیا ہے۔ وزیر اعظم مودی نے کہا کہ حکومت اس بار کے پارلیمنٹ سیشن میں (Parliament Session) تینوں زرعی قانون کو واپس لے لے گی اور آئندہ سیشن میں اس بارے میں ضروری عمل مکمل کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت لاکھ کوشش کے باوجود کسانوں کے گروپ (Farmers Protest) کو سمجھا نہیں پائی اور ملک کے باشندودں سے معافی مانگتا ہوں کہ ہماری ہی کوشش میں کوئی کمی رہی ہوگی۔ وزیر اعظم نے مظاہرین کسانوں سے کہا کہ گرو پرو کے موقع پر آپ اپنے گھر اور کھیت پر لوٹیں۔ وزیر اعظم مودی نے کہا- زرعی بجٹ کو 5 گنا بڑھا دیا وزیر اعظم نریندر مودی (Prime Minister Narendra Modi) نے کہا کہ مرکز کے زرعی بجٹ کو پانچ گنا بڑھا دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا، ہماری حکومت نے کسانوں کے کھاتے میں ایک کروڑ 62 لاکھ روپئے ڈالے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی 22 کروڑ سوائل ہیلتھ کارڈ تقسیم کئے گئے ہیں۔ وزیر اعظم مودی نے کہا کہ ہماری حکومت کسانوں کے مفاد میں کام کر رہی ہے۔وزیر اعظم مودی نے کہا 'ہماری حکومت خاص طور پر چھوٹے کسانوں کی فلاح کے لئے گاوں - غریب کے روشن مستقبل کے لئے پوری ایمانداری سے ہماری حکومت یہ قانون لے کرآئی ہے۔ ہم اپنی کوششوں کے باوجود کچھ کسانوں کو نہیں سمجھا پائے۔ بھلے ہی کسانوں کا ایک طبقہ ہی مخالفت کر رہا تھا۔ سائنسدانوں، زرعی قوانین ماہرین نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی۔ ہم نے کسانوں کی باتوں اور ان کے ترکوں کو سمجھنے میں بھی کوئی کسر نہیں باقی رکھا۔ قانون کے جن التزامات پر انہیں اعتراض تھا، اس پر بھی بات کی۔ میں آج ملک کے باشندوں سے معافی مانگتے ہوئے کہنا چاہتا ہوں کہ ہم کچھ کسانوں کو سمجھا نہیں پائے'۔

وزیر اعظم مودی نے زرعی قوانین پر کہی یہ بڑی بات وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ 'کسانوں کی صورتحال کو سدھارنے کی بڑی مہم کے تحت تین زرعی قوانین لائے گئے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ چھوٹے کسانوں کو مزید طاقت ملے اور انہیں پیداوار کی مناسب قیمت ملے۔ برسوں سے یہ مطالبہ، ملک کے زرعی ماہرین، تنظیم اور سائنسداں کر رہے تھے۔ پہلے بھی کئی حکومتوں نے غوروخوض کیا تھا۔ اس بار بھی پارلیمنٹ میں بحث ہوئی اور قانون لائے۔ ملک کے کونے کونے میں کسان تنظیموں نے استقبال کیا اور حمایت دی۔ میں آج سن سبھی کی حمایت کے لئے بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں'۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...