Powered By Blogger

منگل, نومبر 23, 2021

مدارس میں ہندی زبان اور ہندوستانی مذاہب کی تدریس ہوگی ، مسلم علما و دانشوران کا اہم فیصلہ

مدارس میں ہندی زبان اور ہندوستانی مذاہب کی تدریس ہوگی ، مسلم علما و دانشوران کا اہم فیصلہمدارس میں ہندی زبان اور ہندوستانی مذاہب کا کورس پڑھانا وقت کی ضرورت ہے اور جامعۃ الہدایہ کے مہتمم اس پہل کے لیے مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اس کورس کو شروع کرنے سے تقریب بین المذاہب اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو علمی بنیاد ملے گی۔ ایسے کورس کو ہندوستانی یونیورسٹیوں سے منظور کرانا چاہیے تاکہ کورس کے فضلا کے لیے کارآمد ہو۔ مذاہب کا مطالعہ مسلمانوں کی روایت کا حصہ ہے اسے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے''۔ ان خیالات کا اظہار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (Aligarh Muslim University) میں شعبہ دینیات کے ڈین فیکلٹی دینیات پروفیسر محمدسعودعالم قاسمی نے ایک پروگرام میں کیا ہے۔ اسی ضمن میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کے اے نظامی مرکز برائے قرآنی علوم (K. A. Nizami Centre for Quranic Studies) میں دینی مدارس کے فضلا کے لیے ہندی زبان اور ہندوستانی مذاہب میں مہارت کا کورس تیار کرنے کے لیے مشاورتی میٹنگ رکھی گئی۔ اس کی صدارت داراشکوہ انٹر فیتھ سنٹر (Dara Shikoh Interfaith Center) کے ڈائریکٹر پروفیسر علی محمد نقوی نے کی۔

''انبیا کرام قوم کی زبان میں خطاب کرتے تھے''۔

ایک جاری کردہ پریس نوٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ میٹنگ مولانا فضل الرحیم مجددی، مہتمم جامعۃ الہدایہ، جے پور کی دعوت پر بلائی گئی۔ انھوں نے کہا کہ جامعۃ الہدایہ دینی مدارس کے فضلا کے لیے دو سال کا کورس ہندی زبان و ہندوستانی مذاہب میں تخصص کے لیے تیار کرنا چاہتا ہے۔ اس کا نصاب اور نظام بنانے کے لیے مسلم یونیورسٹی کے اساتذہ کے علم وتجربہ سے استفادہ کیا جائے گا۔ ایفل یونیورسٹی حیدرآباد کے سابق ڈین فیکلٹی آف لینگویجیزپروفیسر محسن عثمانی نے کہا کہ انبیا کرام قوم کی زبان میں خطاب کرتے تھے اور ہندوستان کی قومی زبان ہندی ہے۔ اس لیے ہندی زبان کو سیکھنا اور ہندوستانی مذاہب سے واقفیت حاصل کرنا علما کی سماجی ضرورت اور مذہبی ذمہ داری ہے۔ برج کورس کے ڈائریکٹر نسیم احمد خاں نے کہا کہ فضلائے مدارس کے لیے جو کورس مذاہب اور ہندی زبان کا بنایا جائے اس میں یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے والے نصاب کو سامنے رکھا جائے تاکہ طلبہ کو آگے بڑھنے میں سہولت ہو۔ ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی کے سکریٹری مولانا اشہد جمال ندوی نے کہا کہ ہندی زبان و ہندوستانی مذاہب کی تدریس ہماری دینی اور دعوتی ضرورت ہے۔ بڑے مدارس اس میں پہل کریں گے تو دوسرے مدارس بھی اتباع کریں گے۔ ویمنس کالج کے استاذ ڈاکٹررضا عباس نے کہا کہ دوسرے مذہب کا مطالعہ مناظرانہ انداز کے بجائے ہمدردانہ انداز سے ہونا چاہے اور اس کے لیے ماہر اساتذہ مقرر ہونے چاہیے۔

پریس نوٹ میں کہا گیا ہے کہ صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے پروفیسر علی محمد نقوی نے کہا کہ مدارس میں اس کورس کو شروع کرنے سے پہلے مقصد، طریقِ کار، نصاب اور کورس کی کتابوں کی تیاری پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ کام بہت اہم ہے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی فیکلٹی دینیات، ہندی ڈیپارٹمنٹ، انٹر فیتھ سینٹر، نظامی سینٹر اور برج کورس سینٹر اس کام میں پوری مدد کریں گے۔ نصابی کتابیں بھی تیار کریں گے۔ اس جلسہ میں نصاب کا ایک خاکہ بھی تیار کیا گیا۔

کنگنا رناوت کی بکواس- بدلتے حالات منظر نامہمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

کنگنا رناوت کی بکواس- بدلتے حالات منظر نامہ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
کنگنا رناوت کو حال ہی میں صدر جمہوریہ ہند رام ناتھ کوند نے پدم شری اعزاز سے نوازا ہے، یہ ایک فلمی اداکارہ ہیں ، غیر قانونی طورپر تعمیر ان کے اسٹوڈیو بعض حصے کو ممبئی میں ادھے کمار حکومت میں گرایا گیا تو وہ سرخیوں میں آئیں، انہوں نے اپنے تحفظ کے لئے حکومت ہند کا سہارا لیا، انہیں کمانڈوز فراہم کرائے گئے جو ان کی جسمانی تحفظ کو یقینی بنائیں، عدالت نے گھر کے بقیہ حصوں کو زمین دوز کرنے پر حکم امتناعی دیا، ان واقعات کی وجہ سے انہوں نے فلم میں جتنی شہرت نہیں حاصل کی تھی، اس سے زیادہ ہفتہ دس دن میں ان کے مقدر میں آگئی، ذرائع ابلاغ نے ان کی صلاحیتوں پر اپنی توانائی صرف کی، مہاراشٹر میں مخلوط حکومت بی جے پی کے خلاف تھی،اس لئے الکٹرونک میڈیا نے خاص کر کنگنا کے خلاف کارروائی کو ہوا دی، کنگنا وہ زبان بولنے لگیں جو آر اس اس کی زبان تھی اور بی جے پی جس کو زمین پر اتارنے کی جد وجہد میں زمانہ دراز سے مصروف ہے۔ 
بی جے پی چاہتی ہے کہ ہندوستان کی تاریخ بدل کر رکھ دی جائے، چنانچہ آر اس اس کے مؤرخین نے اس پر کام بھی شروع کردیا ہے، اترپردیش کی یوگی حکومت شہروں کے نام بدل کر اسی ایجنڈے پر کام کر رہی ہے، کنگنا رناوت کو پدم شری کا اعزاز ملا تو ان کی زبان زیادہ کھلنے لگی، ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ’’ ۱۹۴۷ئ؁ کی آزادی بھیک میں ملی تھی، اصل آزادی ۲۰۱۴ئ؁ میں ملی‘‘ کنگنا رناوت کو شاید یہ معلوم نہیں کہ جس آزادی کو وہ بھیک میں ملی آزادی کہہ رہی ہے وہ ہزاروں مجاہدین آزادی کے دارورسن کے نتیجے میں ملی تھی، ہزاروں ماؤں کے سہاگ اجڑے تھے تب یہ آزادی حاصل ہوئی تھی، کنگنا رناوت کا یہ بیان ان مجاہدین آزادی کی توہین ہے جوسربکف ہو کر میدان میں نکلے، پھانسی کے پھندے کو چوما، جیل کی صعوبتیں برداشت کیں، ان میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہے، غیرمسلموں کی قربانیاں ہیں، سب کو کنگنا رناوت نے بھیک کہہ کر برباد کردیا، بھیک کشکول گدائی لے کر گھومنے سے ملتی ہے نہ کہ جان وجسم کا نذرانہ پیش کرنے سے ، یہ بھیک نہیںہے ، ہمارے مجاہدین کی بے پناہ قربانیوں کے طفیل انگریز مجبور ہو گئے تھے کہ ہمیں آزادی کا پروانہ دیں، برطانوی حکومت کی جانب سے آزادی کا پروانہ دینا ان کی مجبوری تھی اور مجبوری کے اس مقام تک انہیں ہمارے مجاہدین آزادی نے پہونچایا تھا۔
مودی حکومت کی ثناخوانی میں وہ یہ بھی بھول گئیں کہ بھاجپا کی حکومت کے سربراہ اس سے قبل اٹل بہاری واجپئی بھی رہ چکے ہیں اور اگر ہندتوا کے غلبہ کی وجہ سے وہ ایسا کہہ رہی ہیں تو اس بکواس کے سرے کو اٹل بہاری واجپئی تک انہیں لے جانا چاہئے تھا، انہیں یہ بھی بتانا چاہئے تھا کہ جس دستور کی رو سے یہ ملک جمہوری قرار پایا اور جس کی تیاری میں دو سال گیارہ ماہ اٹھارہ دن لگے بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈ کر نے جس کی تدوین کو آخری شکل دینے کے لئے سات ہزار چھ سو پنتیس ترمیمات کو پڑھ کر پانچ ہزار ایک سو باسٹھ ترمیمات کو رد کردیا تھا اور صرف دو ہزار چار سو تہتر کو قابل اعتنا سمجھا تھا اس دستور کی حیثیت بھاجپا کے اس دور حکومت میں کیارہ گئی ہے؟ کنگنا رناوت آر اس اس کی گود میں کھیل رہی ہیں، وہ موہن بھاگوت کی زبان سے بول رہی ہیں، ۲۰۱۴ئ؁ میں آر اس اس سربراہ موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ آج گیارہ سو سال کی غلامی کے بعد بھارت آزاد ہوا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ موہن بھاگوت بھی ۱۹۴۷ئ؁ کی آزادی کو آزادی تسلیم نہیںکرتے، شاید یہی وجہ ہے کہ تحریک آزادی کی قیادت گاندھی ، نہرو اور مولانا آزاد سے لے کر سردار پٹیل کے نام کیا جارہا ہے اور حالت یہ ہو گئی ہے کہ ۱۴؍نومبر کو ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی یوم پیدائش کی تقریب میں جو پارلیامنٹ میں منعقد ہوا کرتی ہے لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے صدر نشیں (اسپیکر) بھی غائب رہے، کابینہ کا کوئی سنیر وزیر نظر نہیں آیا، ایسے میں کنگنا رناوت جو کہہ رہی ہیں اس میں وہ اکیلی نہیں ، پورا سسٹم شامل ہے، اکیلی کنگنا روات کی سوچ کو پدم شری اعزاز واپس لے کر بدلا جاسکتا ہے، لیکن نظام حکومت، بھاجپا کی پالیسی اور آر اس اس کے نظریات کی روشنی میں جس طرح چلایا جارہا ہے، اس کو بدلنے کے لئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، سیاسی پارٹیاں بہت کچھ کرسکتی ہیں، لیکن جمہوریت کی بقا سے زیادہ انہیں ہندتوا کے نام پر ووٹ بٹور نے میں زیادہ دلچسپی ہے، اس لئے وہ سب خاموش ہیں اور ان کی خاموشی سے فرقہ پرست طاقتوں کو تقویت پہونچ رہی ہے، کنگنا رناوت تو صرف ایک مہرہ ہے، شطرنج کی بساط پر مہروں کے چلنے کے لئے بھی قاعدہ قانون موجود ہے، لیکن آج ہندوستان کی بساط پر جومہرے چلے جارہے ہیں ان کے لئے کوئی قاعدہ قانون نہیں ہے، جو من میں آئے کرو اور جو منہ میں آئے بولو۔

مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کیا خواتین کی نمائندگی اضافہ ، کمیٹی میں اسماء زہرہ ، نکہت پرورین اور میں عطیہ پروین کی نامزدگی

مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کیا خواتین کی نمائندگی اضافہ ، کمیٹی میں اسماء زہرہ ، نکہت پرورین اور میں عطیہ پروین کی نامزدگی

لکھنؤ: آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) نے ایک اہم اقدام اٹھاتے ہوئے کانپور میں اپنی دو روزہ جنرل باڈی میٹنگ کے دوران مختلف سماجی شعبوں سے تعلق رکھنے والی 30 مسلم خواتین کو رکنیت فراہم کی ہے اور تین خواتین کو ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبران کے طور پر مقرر کیا ہے۔ اسے مایہ ناز علما کے زیر انتظام ہندوستان کی اعلیٰ اسلامی تنظیم میں مسلم خواتین کو بااختیار بنانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

نو منتخب خواتین ممبران کے پاس کوئی مذہبی القاب یا مدرسہ کی ڈگریاں نہیں ہیں لیکن ان کے پاس شرعی قوانین کے مطابق معاشرے کی خدمت کرنے کا تجربہ ہے۔ اے آئی ایم پی ایل بی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کہا، ''حیدرآباد سے ڈاکٹر اسماء زہرا ایک خیراتی اسپتال چلاتی ہیں، لکھنؤ کی ڈاکٹر نگہت پروین ایک ماہر تعلیم ہیں، جوکہ اتر پردیش میں اسکول اور مدارس چلاتی ہیں اور دہلی کی ایک سماجی کارکن عطیہ پروین کو ایگزیکٹو کمیٹی کی مقرر کیا گیا ہے۔

مولانا خالد نے کہا کہ ملک بھر سے مسلم خواتین کے ناموں کی سفارش کی گئی تھی اور بورڈ نے ان خواتین کو نامزد کیا ہے جو قابل ہیں اور سماجی شعبوں میں کام کرنے والے مسلمانوں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں۔

اے آئی ایم پی ایل بی کی جانب سے سماجی یا خاندانی مسائل سے نمٹنے میں مسلم خواتین کی مدد کے لیے ایک خواتین ہیلپ لائن بھی چلائی جا رہی ہے، مسلم پرسنل لاء نے ایک ہی نشست میں تین طلاق دینے، جہیز کے چلن، شادیوں میں اسراف اور دیگر سماجی برائیوں کے خلاف عوامی بیداری پیدا کرنے کے لیے خصوصی پینل تشکیل دیئے ہیں۔

خیال رہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا دو روزہ اجلاس اتر پردیش کے کانپور میں 21 نومبر کو اختتام پذیر ہوا جس میں کئی اہم فیصلے لیے گئے۔ اس اجلاس میں جہاں مولانا رابع حسنی ندوی کو چھٹی مرتبہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کا چیئرمین منتخب کیا گیا، وہیں یکساں سول کوڈ، جبراً مذہب تبدیلی، سی اے اے، موب لنچنگ اور دیگر اہم ایشوز پر غور و خوض بھی ہوا۔ ایسی صورت میں جب کہ مرکزی حکومت نے متنازعہ زرعی قوانین کو واپس لے لیا ہے، شہریت ترمیمی قانون یعنی سی اے اے کی واپسی کا مطالبہ بھی زور پکڑنے لگا ہے۔ اس تعلق سے مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بھی اپنی آواز بلند کی ہے۔ اس اجلاس میں 11 اہم قرارداد پاس ہوئی ہیں، جن میں سی اے اے واپسی کا مطالبہ بھی شامل ہے۔

پیر, نومبر 22, 2021

منفرد لب و لہجے کا شاعر : کامران غنی صبا(22 نومبر یوم پیدائش کی مناسبت سے)سلمی صنم، بنگلور

منفرد لب و لہجے کا شاعر : کامران غنی صبا
(22 نومبر یوم پیدائش کی مناسبت سے)
سلمی صنم، بنگلور 

نئی نسل کے متحرک اور فعال شاعر ، ناقد اور بےباک صحافی کامران غنی صبا 22 نومبر 1989 کو علمی و تاریخی شہر عظیم آباد، پٹنہ، بہار میں پیدا ہوئے ۔ان کا اصل نام کامران غنی ہے اور قلمی نام کامران غنی صبا ہے۔صبا تخلص ہے۔وہ ایک تعلیم یافتہ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ مجاہد آزادی سید شاہ عثمان غنی کے پر پوتے ہیں۔ ان کےوالد  ڈاکٹر ریحان غنی کا شمار بہار کے معروف اور بے باک صحافیوں میں ہوتا ہے. ان کی صحافتی خدمات تقریباً چار دہائیوں پر محیط ہیں. اپنے اصولوں پر سختی سے کاربند رہنے کے لیے جانے جاتے ہیں. سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے کر اپنی زندگی کو صحافت کے لیے وقف کر چکے ہیں. فی الحال روزنامہ پندار، پٹنہ اور دوردرشن پٹنہ سے وابستگی ہے.
کامران غنی نے اپنے نانا محترم پروفیسر حکیم سید شاہ علیم الدین بلخی فردوسی ندوی رحمتہ اللہ علیہ سجادہ نشیں خانقاہ بلخیہ فردوسیہ فتوحہ کی سرپرستی اور نگرانی میں اردو، عربی، فارسی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی. اس کے بعد جےکے اکیڈمی پٹنہ سے اسکولنگ شروع کی. الحرا پبلک اسکول، پٹنہ مسلم ہائی اسکول، نیر پور بوائز ہائی اسکول اور سلاؤ ہائی اسکول نالندہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد. میٹریکولیشن کا امتحان سلاؤ ہائی اسکول نالندہ سے پاس کیا. پٹنہ کالج سے بی ایے،  جواہرلال نہرو یونیورسٹی دہلی سے ایم ایے اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے بی ایڈ کیا۔پھر پٹنہ یونیورسٹی سے پروفیسر جاوید حیات کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کرنے لگے جو ابھی جاری ہے۔اور اس وقت شعبہ اردو نتیشور کالج مظفرپور میں اسٹنٹ پروفیسر کے فرائض انجام دے رہے ہیں  
شاعری کی ابتدا  انہوں  نے 2007 میں کی. پہلی غزل روزنامہ فاروقی تنظیم پٹنہ میں شائع ہوئی جس کا ایک شعر ہے۔
سنا تھا نقش کف پا پہ چلنا پڑتا ہے
بجز جبیں کے رہ عشق میں نشاں نہ ملا۔
ابتداء میں اپنے چھوٹے ماموں جان سید نصر الدین بلخی سے شاعری پر  اصلاح لی بعد میں ماہر عروض محمد یعقوب آسی صاحب مرحوم  ٹکسیلا نے انہیں شرف تلمذ بخشا.ان کا کلام برصغیر کے موقر رسالوں میں شائع ہوتا رہا ہے 
اب تک ان کی دو کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں
۱"۔پیام صبا۔"۔شعری مجموعہ 2017
۲۔"منصور خوشتر نئ صبح کا استعارہ" 2019
 اب تک انہیں کئی انعامات و اعزازت سے نوازا جا چکا ہے جیسے 
۱۔اردو نیٹ جاپان کی طرف سے سال 2013 کا بہترین قلم کار
۲ ۔عوامی نفاذ کمیٹی، پٹنہ کا ایوارڈ
۳  روزنامہ تاریخ انٹرنیشنل فرانس کی جانب سے مصطفوی ایوارڈ 
۴  المنصور ایجوکیشنل ٹرسٹ کی جانب سے ادبی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ 
۵  اکبر رضا جمشید ایوارڈ
بہت کم عمری میں ہی انہوں نے کافی شہرت پائی ہے بہت سے اہل قلم نے ان کی شاعری کو سراہا ہے۔ ڈاکٹر مقصود الہی شیخ ،
بریڈ فورڈ، برطانیہ سے
 لکھتے ہیں
"کامران غنی صبا کی نظم "مجھے آزاد ہونا ہے" پڑھی۔مجھے تیسرا حصہ پسند آیا۔ بڑی گہرائی ہے ، جوگی رنگ جھلک رہا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ترک دنیا کی خواہش تو ہے مگر یاسیت نہیں اور نہ ہی قنوطیت دکھائی دیتی ہے۔ جہاں اگلی سطور میں بے نامی اور انکساری کا جذبہ ابھر کر سامنے آتا ہے، لگتا ہے دنیا سے کنارہ کشی کی خواہش ہے پر نہیں ہے۔ یہی اس کا حسن ہے، سندرتا اور دل کو چھوتی خوبصورت اچھائی ہے۔ کہنے کو کہا جا رہا ہے کہ یہ جگ تیاگ دینے کو جی چاہتا ہے مگراس کا درس نہیں دیا جا رہا بلکہ بے غرض (Selfless)  ہونے اور اس میں بھی جھوٹی نمائش کی نیم فطری جبلت سے چھٹکارے کی جہد ہے ،سارے عالم میں چھائی حسن و رعنائی اور اس کی نمائش سے بے نیازی ہے ۔ عارفانہ  تڑپ ہے ، تمنا ہے۔شاعر کتنا جھک کر اونچا اٹھتا ہے وہی اس نظم کا کمال ہے۔ یوں مرکزی خیال امر ہو جاتا ہے۔
( ڈاکٹر مقصود الٰہی شیخ، بریڈفورڈ، برطانیہ)
مشہور افسانہ نگار مرحوم مشرف عالم ذوق ان کی شاعری پر یوں رقم طراز ہیں
"کامران کی شاعری انسانی نفسیات کی شاعری ہے۔ وہ معمولی کو غیر معمولی اور غیر معمولی کو معمولی بنانے کا ہنر جانتا ہے۔ کربِ احساس کی شدت کامران کی شاعری کا اختصاص ہے، یہ شدت جتنی تیز ہوگی اس کی شاعری اتنی ہی کامیاب اور پائدار ہوگی"۔
ڈاکٹر عبد الرافع ( صدر شعبہ اردو،  ملت کالج ، دربھنگہ ) لکھتے ہیں
"نئی نسل کے متحرک و فعال شاعر و ناقد اور بے باک صحافی کامران غنی کی ’’کامرانی و غنائیت‘‘ پیام صبا میں مضمر ہے۔’پیام صبا‘ کی باد صبا سے ہر خاص و عام قاری مشام جاں کو معطر اور قلب و ذہن کو مطہر کر کے یک گونہ سکون و طمانیت حاصل کرے گا۔ بظاہر یہ مختصر سا مجموعہ ہے لیکن قلب و جگر کو پارہ کرنے اور نظر کو خیرہ کرنے کے لیے ضخیم کلیات کے مترادف ہے۔ ’پیام صبا‘ نے اپنے دامن میں فلسفہ تصوف، حیات و ممات، بے ثباتی دنیا، تہذیب و اخلاق اور عصر حاضر کے گوناگوں موضوعات و مسائل کو سمیٹ رکھا ہے۔ کامرانؔ نے جس خوش اسلوبی ،پاکیزگیٔ زبان اور نرالے انداز بیان کے ذریعے موضوعات و مضامین کی پیش کش کا نیا ڈھب اپنایا ہے اِن سے اُن کے انفراد اختصاص کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ مختصر و مترنم بحر اور انوکھے قوافی کا فنکارانہ استعمال اور علامات و استعارات اور لفظیات کو تراشنے کے ہنر نے ایک بیش قیمتی خزینہ بنا دیا ہے۔ مجھے قوی امید ہے کہ ’ پیام صبا‘ کہنہ مشق استاد شعرا اور نسل نو کے مابین ایک پل صراط کا کام کرے گا۔ قارئین ، مداحین اور شعری اصناف سے شغف رکھنے والے ناقدین کے لیے یکساں طور پر ایک انمول تحفہ ثابت ہوگا۔"
مغربی بنگال کے معروف شاعر اور استاد ان کی شاعری کے حوالے یوں رقم طراز ہیں
 "ناقدین ادب نے بھلے ہی شاعری کو روایتی، کلاسیکی، ترقی پسند، جدید اور مابعد جدید جیسے خانوں میں تقسیم کررکھا ہو مگر میری نظر میں ہر زمانے میں شاعری کی دو ہی بڑی قسمیں رہی ہیں۔۔۔۔اچھی شاعری اور خراب شاعری۔کامران غنی صبا کی شاعری بلا شبہ اچھی شاعری کے زمرے میں آتی ہے۔ان کے یہاں آجکل کے جدید شاعروں کی طرح الفاظ کا گورکھ دھندہ نہیں ہے۔وہ اپنی فکر اور اسلوب سے قارئین کو متاثر کرتے ہیں۔انکی نظمیں اور غزلیں دونوں یکساں طور پر میرے دعوے کی تصدیق کرتی ہیں۔توجہ سے پڑھئے تو سہی"۔
ڈاکٹر بدر محمدی۔ویشالی سے لکھتے ہیں
" صباؔ کی غزلیں اچھی ہیں یا نظمیں یہ فیصلہ کرنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔ اس کے شاعرانہ مقام کے تعین میں ابھی دیر ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ ’’پیام صبا‘‘ اس کے خوش آئند مستقبل کا پتہ دے رہا ہے۔ اس کی شاعری عشق کی بھیک ہے۔ بھیک ایسی ہے تو پھر تحفہ کیسا ہوگا۔ اس سے مطلب نہیں کہ شاعر کا خاندانی پس منظر کیا ہے وہ کس میدان میں سرگرم ہے بلکہ اس سے سروکار ہے کہ کوئی شاعر ہے تو شاعری کی دنیا میں کتنا کامیاب ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ صباؔ کی شاعری میں جادو ہے۔ نشہ ہے، رخ معتبر کا رنگ ہے۔ عصری آگہی، متنوع خیالات ، روایت پسندی، جدت طرازی، بالیدہ شعور نے کامران کی شاعری کو توجہ طلب بنایا ہے۔ میں تازہ کار مگر پختہ شاعر، حساس اور با ہنر فنکار کو ’’پیام صبا‘‘ جیسے شاندار آغاز پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ مجھے اس سے مسلسل پرواز کی امید ہے کہ اس کے سامنے ابھی اور بھی آسماں ہیں۔"
ڈاکٹر زر نگار یاسمین(  صدر شعبہ اردو ، مولانا مظہر الحق عربی و فارسی یونیورسٹی ، پٹنہ ) ان کی شاعری کے حوالے سے لکھتی ہیں 
"صباؔ کی انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے بے حد کم عمری میں ہی دنیا کی محرومیوں، ریاکاریوں اور منافقتوں کو نہ صرف سمجھ لیا ہے بلکہ اسے ایک مخصوص طرزِ اظہار کے ساتھ پیش کرنے کا پختہ ارادہ بھی کر لیا ہے۔ ’’مجھے آزاد ہونا ہے‘‘ کی بازگشت ان کی غزلوں کے اشعار میں بھی بار بار سنائی دیتی ہے۔ جس سے یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ یہ نقطۂ نظر اب ان کے تخلیقی رویے کا ایک حصہ بن چکا ہے۔ میری دعا ہے کہ وہ اسی فکری شائستگی کے ساتھ اپنا ادبی سفر طے کرتے رہیں۔"
پاکستان سے حسیب اعجاز عاشر ان کی شخصیت کے حوالے سے یوں رقم فراز ہیں
 "درس و تدریس ہو،رپورٹنگ ہو، کالم نویسی ہو، تبصرہ نگاری ہو،تجزیہ کاری ہو یا پھر شاعری ہی کیوں نہ ہو کامران غنی صباؔ نے ہر میدان میںجدیدیت اور انفرادیت کے زیرِاثر رہتے ہوئے بھرپور اورقابلِ رشک دادِ آفرین حاصل کی ہے۔میں کوئی تبصرہ نگار، نقاد یا کوئی تجزیہ کار تو نہیں اورشاعری کا شغف تو مجھے بس سننے یا پڑھنے کاہی ہے مگر کامران کی شاعری کے حوالے سے اتنا ضرورکہوں گا کہ ان کی شاعری میں گہری بصیرت، بالغ نظری،بے ساختگی ،حسن خیال کی معنی آفرینی، احساس کی نزاکت، معنویت، شفافیت، حلاوت، بلند آہنگی ، مسائل حیات کے احاطے، امیدوں کے روشن چراغ، درد مندی، انتہائی وسعت،رنج و مسرت کے علاوہ فلسفیانہ موشگافیاںاور صوفیانہ روموز و نکات بھی ملتے ہیں۔" 
شاعری ان کے نزدیک  عشق ہے..... عبادت ہے.... جس طرح عشق اور عبادت کا تعلق روح سے اسی طرح شاعری کا تعلق روح سے. ریاکاری اور دکھاوے کے ساتھ عشق اور عبادت کی تکمیل نا ممکن ہے اسی طرح شاعری صرف احساسات کو الفاظ دینے کا نام نہیں ہے بلکہ روحانی جذبات کو الفاظ کا پیکر عطا کرنے کا ہنر شاعری ہے. 
 انہیں کلاسیکی شعرا میں حافظ، رومی، غالب، اقبال اور اصغر گونڈوی.اور.دور حاضر کے شعرا میں عرفان صدیقی کا کلام پسند ہے
شاعری کے علاوہ وہ ایک بے باک صحافی بھی ہیں اپنی صحافتی
 زندگی کا باضابطہ آغاز انہوں نے روزنامہ" پندار" پٹنہ کے اسپورٹس ایڈیشن سے 2006 میں کیا. اس کے بعد اردو نیٹ جاپان، ماہنامہ کائنات کولکاتا، سہ ماہی دربھنگہ ٹائمز، سہ ماہی تحقیق دربھنگہ، ماہنامہ نیا کھلونا، کولکاتا، تعمیر افکار سمستی پور وغیرہ سے وہ وابستہ.رہے ہیں

پیش خدمت ہے ان کا نمونہ کلام 

-------غزل-------
کامران غنی صبا


حریمِ  دل کہ  مقدس  ہے ماورائے جنوں
اسی کے فیض سے روشن ہے یہ فضائے جنوں

خدا کے واسطے عقل و خرد کی بات نہ کر
قسم خدا کی ابھی میں ہوں مبتلائے جنوں

بس  اتنی  بات پہ  آئینہ پاش پاش ہوا
وہ پوچھ بیٹھے جو مفہومِ انتہائے جنوں

مرا عقیدہ ذرا مختلف ہے لوگوں سے
یہ   کائنات    بنائی  گئی  برائے  جنوں

سمجھ   لو  شہرِ  خرد   سے نکل   کے   آیا   ہے
جو شہرِ عشق میں ڈھونڈے کوئی سرائے جنوں

قسم خدا کی میں بیعت کروں گا قدموں پر
مرے جنوں کو جو مل جائیں اولیائے جنوں

کسی کا کچھ بھی بھروسہ نہیں، ذرا بھی نہیں
صبا کا کوئی نہیں ہے، نہیں، سوائے جنوں

____________________________

 -------غزل--------
کامران غنی صبا

میرے   چاروں   سمت   آتا  ہے   نظر    پانی   کا   رقص
ہائے   نادانی   کہ   دریا   میں    ہے  طغیانی   کا  رقص

اِک  یہی  صورت  بچی  ہے  اپنی  آنکھیں   نوچ  لوں
جس طرف  بھی دیکھیے  ہے دشمنِ  جانی  کا رقص

پارسائی      پردئہ   نخوت    سے     تکتی      رہ     گئی
رات    بھر    ہوتا   رہا   اشکِ  پشیمانی    کا    رقص

میرے    اوپر    کفر   کا  فتوی  لگا  دیں   شیخ   جی
دیکھ    لیں   گر   میرے  اندر  کی مسلمانی    کا   رقص

شاعری  کیا  ہے  کوئی  مجھ  سے  اگر   پوچھے  کہوں
صفحئہ    قرطاس    پر    اپنی  پریشانی   کا   رقص
 
کون    سی   ایسی   بشارت  مل  گئی  تجھ   کو   صبا
تیری   آنکھوں   میں   سدا   رہتا ہے تابانی   کا   رقص

____________________________


------------غزل
 (نذر احمد فراز)
 کامران غنی صبا

کچھ  درد اگر  ہم  کو مسلسل نہیں ہوتے
ہم عشق میں ائے دوست مکمل نہیں ہوتے

کچھ خواب مرے ہجر کی سولی پہ چڑھے ہیں
وہ  خواب  مگر  آنکھ  سے اوجھل  نہیں  ہوتے

تمثیل میں آنکھوں کی طرف دیکھ لو میری
برسات   بہت  ہوتی   ہے   بادل  نہیں  ہوتے

عشاق کے دل مملکتِ عشق کے در ہیں
ویران  تو ہوتے  ہیں  مقفل نہیں ہوتے

معلوم  اگر  ہوتا کہ  تم  بھی ہو مسیحا
نادان نہ تھے ایسے کہ گھائل نہیں ہوتے

صد  شکر  خدا تیرا کہ ہم ایسے سخنور
شاعر جو نہیں ہوتے تو پاگل نہیں ہوتے؟

___________________________

خاموشی، لامکاں اور میں
کامران غنی صبا

خموشی کیا ہے؟ 
اک احساس ہے 
اک راز ہے 
درد نہاں ہے
تشنگئ شوق ہے
اک گوہرِ نایافت کو پانے کی حسرت ہے
خموشی کچھ نہیں کہتی
مگر کہنے پہ آ جائے
تو پھر چپ بھی نہیں رہتی
خموشی آگ ہے
جس میں جھلس کر
ذات کی تکمیل ہوتی ہے 
خموشی اک سمندر ہے
بہت گہرا
خموشی کے سمندر میں
اگر طوفان آ جائے
تو سمجھو پھر قیامت ہے
خموشی "رازِ کن" ہے
عرشِ اعظم ہے مکاں اس کا
اگر یہ فاش ہو جائے
تو پتھر چیخ اٹھتا ہے
خموشی وقت کی دہلیز پر
ڈالا ہوا حکمت کا پردہ ہے
کہ جس کے بعد تاحد نظر ہے
لامکاں اور "میں"

اتوار, نومبر 21, 2021

بہار اسکول ایگزامینیشن بورڈ کا شیڈول جاری ، یکم فروری سے انٹرمیڈیٹ اور 17 سے میٹرک کے امتحانات

بہار اسکول ایگزامینیشن بورڈ کا شیڈول جاری ، یکم فروری سے انٹرمیڈیٹ اور 17 سے میٹرک کے امتحانات

بہار اسکول ایگزامینیشن کمیٹی نے ہفتہ کے روز میٹرک اور انٹر کے امتحانات کا شیڈول جاری کیا ہے۔ یکم فروری سے 14 فروری تک انٹر میڈیٹ اور 17 سے 24 فروری کے درمیان میٹرک امتحان منعقدکیا جائے گا۔ انٹر امتحان کی شروعات یکم فروری سے ہوگا۔ ریاضی کا امتحان پہلی شفٹ میں لیا جائے گا اور دوسری شفٹ میں ہندی کا امتحان لیا جائے گا۔

انٹر پریکٹیکل امتحان 10 سے 20 جنوری تک ہو گا۔ جبکہ میٹرک کے پریکٹیکل امتحان 20 سے 22جنوری تک منعقد کیا جائے گا۔

دو شفٹوں میں ہوگاامتحان

بورڈ کے مطابق امتحان دو شفٹوں میں روزانہ منعقد کیا جائے گا اور پہلی شفٹ کا امتحان صبح 9.30 بجے سے سہ پہر 12.45 بجے تک، دوسری شفٹ کا امتحان سہ پہر 1.45 سے شام 5 بجے تک منعقد ہوگا۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی امتحان دینے والوں کو سوالیہ پرچہ پڑھنے کے لیے 15 منٹ کا اضافی وقت دیا جائے گا۔

کورونا کو لے کر بورڈ کی حکمت عملی

بہار بورڈ نے بھی کورونا کی مدت کو لے کر حکمت عملی بنائی ہے۔ امتحان کیسے لیا جائے اور کووِڈ پروٹوکول پر عمل کیسے کیا جائے۔ کیونکہ امتحانات کا کامیاب انعقاد بورڈ کے سامنے ایک بڑا چیلنج ہے۔ تمام ڈی ای او اور ڈی پی او کے علاوہ سینٹر کے عہدیدار ان سے بھی رائے طلب کی جا رہی ہے۔ سالانہ ثانوی امتحان 2022 کے شیڈول کو لیکر بہار اسکول ایگزامینیشن کمیٹی نے کہا ہے کہ 17 فروری کو ریاضی کا امتحان دونوں شفٹوں میں ہوگا۔

18 فروری کو سائنس کے مضمون کا امتحان دونوں شفٹوں میں ہوگا جب کہ 19 فروری کو دونوں شفٹوں میں سوشل سائنس کا امتحان ہوگا اور 21 فروری کو دونوں شفٹوں میں جنرل انگلش کا امتحان ہوگا۔ 22 فروری کو دونوں شفٹوں میں مادری زبان ہندی،بنگلہ،اردو اور میتھلی کا امتحان لیا جائے گا، جبکہ 23 فروری کو دونوں شفٹوں میں دوسری ہندوستانی زبان کا امتحان ہوگا۔ 24 فروری کو دونوں شفٹوں میں انتخابی منتخب مضامین کا امتحان ہوگا۔

مرنے کی جلدی مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ بہت سارے لوگ جلد مرنا چاہتے ، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو یا توزندگی کے معاملات ومسائل سے نبرد آزما ہونے سے گھبرا کر بعجلت تمام مرنے کے لیے خود کشی کر لیتے ہیں،

مرنے کی جلدی 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 بہت سارے لوگ جلد مرنا چاہتے ، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو یا توزندگی کے معاملات ومسائل سے نبرد آزما ہونے سے گھبرا کر بعجلت تمام مرنے کے لیے خود کشی کر لیتے ہیں، وہ جو مہلک بیماری کے شکار ہوتے ہیں، اور اپنی زندگی سے مایوس ہو کر موت کی تمنا ہی نہیںکرتے ، عدالت میںجلد از جلد اپنی مرضی اور پسند کی موت کے لیے عرضیاں داخل کرتے ہیں، دونوں کاسبب ایک ہی ہوتا ہے ، مایوسی اور ڈپریشن ۔
 پوری دنیا میں گیارہ ایسے ممالک ہیں، جہاں زندگی سے مایوس لا علاج مریضوں کو جلد اپنی پسند کے مطابق موت کے منہ میں چلے جانے کی اجازت ہے، یہ ممالک ہیں نیوزی لیند، سوئزرلینڈ، نیدر لینڈ، اسپین، بلجیم، لکزم برگ، کناڈا، کولمبیا، آسٹریلیا، فرانس اور امریکہ، ان میں سے بیش تر ممالک میں لا علاج مرض سے پریشان مریضوں کو اپنی پسند سے موت کا وقت مقرر کرنے اور پسندیدہ طریقے سے موت کو لگے لگانے کی اجازت ہے ، البتہ مختلف ملکوں میں اس کے لیے الگ الگ شرائط اور ضابطے مقرر ہیں، نیوزی لینڈ میں اس کے لیے کم از کم دو ڈاکٹروں کی تصدیق ضروری ہے کہ جو موت چاہتا ہے وہ واقعی اس حالت کو پہونچ گیا ہے کہ اسے مرجانا چاہیے، نیوزی لینڈ میں اس قانون کو پاس کرنے سے پہلے ملکی پیمانے پر عوام سے رائے مانگی گئی تھی جس میں پینسٹھ (۶۵) فی صد سے زائد لوگوں نے اس کے حق میں ووٹ دیا تھا، اس کے بعد ہر سال نو سو پچاس لوگوں کو اس قانون کے تحت مرنے میں جلدی کرنے کی خواہش کی عرضی وصول کرنے کا نظام بنا دیا گیا ، اوریہ بھی طے کر دیا گیا ہے کہ ہر سال تین سو پچاس (۳۵۰) لوگوں کو ہی اس قانون سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکے گا۔
اسلام اس بات پر زور دیتا ہے کہ جان انسان کی ملکیت نہیں ہے ، یہ اللہ کی طرف سے ہمارے پاس امانت ہے ، ہمارے اعضاء وجوارح بھی ہمارے نہیں ہیں، اس لیے اس کو خود کشی، مہلک دواؤں کے استعمال یا قتل بہ جذبۂ رحم کے تحت ختم نہیں کیا جا سکتا اسے زندگی کے اس مرحلہ تک باقی رکھناہے جب تک اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت نہ آجائے ،اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مرض کو ئی لا علاج نہیں ہوتا، ’’لکل داء دوائ‘‘  ہر مرض کی دوا ہے، ہماری عقل وہاں تک نہیں پہونچ پا رہی ہے ، یہ ایک الگ سی بات ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض کو اجر وثواب کے حصول کے ساتھ مغفرت کا سبب اور ترقی درجات کا ذریعہ بتایا، تاکہ اس شوق میں مریض زندگی سے مایوس نہ ہواور وہ مرض کوبھی نعمت سمجھے اور اللہ کے دربار میں کہتا رہے کہ اے اللہ! ہم اس نعمت کے متحمل نہیں ہیں۔اس لیے آزمائش اور ابتلاء سے اللہ کی پناہ چاہتے رہنا چاہیے۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ہدایت دی کہ تم میں سے کوئی موت کی تمنا نہ کرے ، اس لیے کہ طویل عمر میں عبادتوں کے ثواب کے اضافے اور بڑھنے کے امکانات زیادہ ہیں، اس کے علاوہ اگر وہ گناہگار ہے تو کسی مرحلہ میں توبہ کی توفیق سے بھی اس کی آخرت سنور سکتی ہے ۔
 مختلف ممالک جس طرح جلد اپنی پسند سے مرنے کے قانون کو منظور کرتے جا رہے ہیں، اس سے سماج میں انسانی زندگی کی بے وقعتی کا پیغام لوگوں میں جا رہا ہے ، اس کے علاوہ ضعفاء اور معذور لوگوں کی دیکھ ریکھ کا مزاج بھی کمے گا، ابھی تک تو لوگ یہی کہتے ہیں کہ بوڑھا مر بھی نہیں رہا ہے، اس قانون کے نفاذ سے جلد مار دینے کی کوشش بھی شروع ہو گی اور جو سماج اپنے والدین اور بوڑھے رشتہ داروں کو’’ اولڈ ایج ہوم‘‘ پہونچا دیتے ہیں، انہیں جلد مورث کی موت ہوجانے کی عرضی لگا تے ہوئے کتنی دیر لگے گی ، اللہ کرے کہ ہندوستان میں یہ قانون کبھی پاس نہ ہو ، حالاں کہ کئی مریضوں کی طرف سے اس قسم کی درخواست عدالت میں یہاں بھی زیر غور ہے۔

پارلیمنٹ تک مجوزہ ٹریکٹر مارچ کو ابھی تک منسوخ نہیں کیا گیا : کسان یونین

پارلیمنٹ تک مجوزہ ٹریکٹر مارچ کو ابھی تک منسوخ نہیں کیا گیا : کسان یونیننئی دہلی:آئندہ سرمائی اجلاس کے دوران پارلیمنٹ تک مجوزہ روزانہ ٹریکٹر مارچ کو ابھی منسوخ کرنا باقی ہے اور اس سلسلے میں حتمی فیصلہ اور کسانوں کی تحریک کے مستقبل کے لائحہ عمل پر اتوار کو ہونے والی میٹنگ میں فیصلہ کیا جائے گا۔ کسان لیڈروں نے ہفتہ کو یہ جانکاری دی ہے۔کسانوں کی تنظیموں کی ایک یونین، سمیوکت کسان مورچہ (ایس کے ایم) نے کچھ دن پہلے اعلان کیا تھا کہ تین زرعی کے خلاف جاری احتجاج کے ایک سال مکمل ہونے کے موقع پر 29 نومبر سے شروع ہونے والے سرمائی اجلاس کے دوران پارلیمنٹ تک کسان پرامن ٹریکٹر مارچ میں حصہ لیں گے۔ایس کے ایم نے وزیر اعظم کے فیصلے کا خیرمقدم کیا لیکن کہا کہ وہ پارلیمانی طریقہ کار کے ذریعے اس اعلان کے نافذ ہونے کا انتظار کریں گے۔ اس نے یہ بھی اشارہ کیاہے کہ اس کی تحریک کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کی قانونی ضمانت اور بجلی کے ترمیمی بل کو واپس لینے کا مطالبہ جاری رکھے گی۔کسان لیڈر اور ایس کے ایم کی کور کمیٹی کے رکن درشن پال نے ہفتہ کو پی ٹی آئی کوبتایاہے کہ پارلیمنٹ تک ٹریکٹر مارچ کی ہماری کال ابھی تک تازہ ہے۔ اتوار کو سنگھو بارڈر پر ہونے والی ایس کے ایم میٹنگ میں تحریک کے مستقبل کے لائحہ عمل اور ایم ایس پی کے مسائل پر حتمی فیصلہ لیا جائے گا۔کسان رہنما اور بھارتیہ کسان یونین (اوگرہان) کے صدر جوگندر سنگھ اوگرہن نے ٹکری سرحد پر کہا کہ ٹریکٹر مارچ کا فیصلہ ابھی واپس نہیں لیا گیاہے۔انھوں نے بتایاہے کہ ایس کے ایم پارلیمنٹ تک ٹریکٹر ٹرالی مارچ کے بارے میں فیصلہ کرے گی۔ ابھی تک اسے واپس لینے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ اتوارکوایس کے ایم کی کور کمیٹی کی میٹنگ کے بعد کوئی فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...