Powered By Blogger

منگل, نومبر 23, 2021

کو پارلیمنٹ کے سنٹرل ہال میں یوم آئین منایا جمعہ جائے گا

کو پارلیمنٹ کے سنٹرل ہال میں یوم آئین منایا جمعہ جائے گانئی دہلی، 23نومبر- آزادی کے 75سال مکمل ہونے کے موقع پر منائے جارہے آزادی کے امرت مہوتسو کے تحت جمعہ کو پارلیمنٹ کے سنٹرل ہال میں صدر جمہوریہ رامناتھ کووند کی قیادت میں یوم آئین منایا جائے گا۔
پارلیمانی امور کے وزیر پرہلاد جوشی نے منگل کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ پارلیمنٹ کے سنٹرل ہال میں صبح گیارہ بجے صدر کے خطاب کے ساتھ اس تقریب کی شروعات ہوگی۔ اس موقع پر نائب صدر، وزیراعظم، لوک سبھا اسپیکر، مرکزی وزیر، اراکین پارلیمنٹ اور دیگر معزز شخصیات موجود رہیں گی۔ اس پروگرام کو سنسد ٹیلی ویزن اور دوردرشن اور آن لائن پورٹل کے ذریعہ لائیو نشر کیا جائے گا۔
صدر کے خطاب کے بعد پورے ملک کے شہری اپنی اپنی جگہ سے ان کے ساتھ آئین کی تمہید پڑھیں گے۔ تمام اہل وطن کو آئین کا دیباچہ پڑھنے کے لئے اس پروگرام سے آن لائن جوڑنے کے لئے ایک پورٹل تیار کیا گیا ہے۔ اس پورٹل کے ذریعہ اہل وطن 22سرکاری زبانوں اور انگریز ی آئین کی تمہید کرسکیں گے۔عام لوگوں کے ساتھ ساتھ تمام وزارتوں، محکموں، ریاستوں،مرکز کے زیرانتظام ریاستوں، اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، اداروں، تنظیموں اور بار کونسل وغیرہ سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ کووڈ پروٹوکول پر عمل کرتے ہوئے اپنی اپنی جگہ سے آئین کی تمہید پڑھیں۔ لوگوں کو اس کی معلومات دینے کے لئے ریڈیو، ٹیلی ویزن اور سوشل میڈیا کے ذریعہ بتایا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ آئینی جمہوریت پر آن لائن کوئز کے لئے بھی ایک پورٹل کی شروعات کی گئی ہے۔مسٹر جوشی نے کہاکہ اس موقع پر آئین کی تمہید کو عوامی شراکت کے تحت عوامی تحریک بنانے کے مقصد سے آن لائن پورٹل جمعہ سے شروع ہوجائے گا۔ کوئی بھی شہری اس پورٹل پر رجسٹریشن کرکے تمہید کرسکتا ہے اور اپنا سرٹی فکیٹ حاصل کرسکتا ہے۔ اس پورٹل میں آئین کی تمہید کا فریم پدم شری انعام سے نوازاے گئے جے پرکاش لکھیول نے اس طرح سے ڈیزائن کیا ہے جس سے اس میں تمام ریاستوں اورمرکز کے زیرانتظام ریاستوں کی جھلک نظر آئے۔ تمہید کرنے پر ملنے والے سرٹی فکیسن میں بھی اس کا ڈیزائن ظاہر ہوگا۔
صدر اسی دن سنٹرل ہال میں آئینی جمہوریت پر آن لائن کوئز پورٹل کو بھی لانچ کریں گے۔ اس میں آئین اور جمہوریت سے متعلق بنیادی سوالات پوچھے جائیں گے۔ اس میں حصہ لینے کے لئے بھی پورٹل پر رجسٹریشن کرنا ہوگا۔ اس پورٹل پر ایک موبائل نمبر سے کئی رجسٹریشن کئے جاسنے کی سہولت ہے۔ پورٹل میں ایک ہزار سوالات کا بینک ہے جس میں سے ایک بار میں پانچ سوالات پوچھے جائیں گے۔ اس میں حصہ لینے والے افراد کو سرٹی فکیٹ دیا جائے گا۔ یہ کوئز ہندی اور انگریزی دونوں زبانوں میں ہوں گے۔
مسٹر جوشی نے لوگوں سے آئین کی تمہید کرتے ہوئے اپنا فوٹو سوشل میڈیا کے ذریعہ شیئر کرنے کی بھی لوگوں سے اپیل کی ہے۔ مودی حکومت نے 2015میں 26نومبر کو یوم آئین کے طورپر منائے جانے کا اعلان کیا تھا۔

انڈین ریلوے کا بڑا فیصلہ ! اب کوئی بھی کرائے پر لیکر چلا سکتا ٹرین

انڈین ریلوے کا بڑا فیصلہ ! اب کوئی بھی کرائے پر لیکر چلا سکتا ٹریننئی دہلی،23نومبر- ہندوستانی ریلوے نے منگل کو ایک بڑا فیصلہ لیا ہے۔ جس کے تحت کوئی بھی ریاستی حکومت یا کمپنی ٹرین کا کرایہ پر لے سکتی ہے۔ اس کے لیے وزارت ریلوے نے اسٹیک ہولڈرز سے بات چیت کی ہے۔ ریلوے اس سروس کے لیے کم از کم چارجز لگائے گا۔ اس اسکیم کے تحت ریلوے نے 3333 کوچز یعنی 190 ٹرینوں کی نشاندہی کی ہے۔ریلوے کے وزیر اشونی ویشنو نے بھارت گورو ٹرین چلانے کا اعلان کیا ہے۔ بھارت گورو ٹرینیں ایک تھیم پر مبنی ہوں گی جو ہندوستان کی ثقافت اور ورثے کی نمائش کرتی ہے۔ ریلوے کے مطابق تقریباً 190 ٹرینیں الاٹ کی گئی ہیں۔ وزیر ریلوے نے کہا کہ اچھا رسپانس حاصل ہونے پر ان ٹرینوں کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔یہ ٹرینیں سیاحتی مقامات کے لیے چلائی جائیں گی۔ ریلوے کے وزیر نے کہا کہ بھارت گورو ٹرین، رامائن ٹرین لوگوں کو ہندوستانی ثقافت، ہمارے ()diversity and heritage سے واقف ہونے کا موقع فراہم کرے گی۔ ریلوے آنے والے وقت میں گرو کرپا اور سفاری ٹرین چلانے جا رہا ہے۔ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ان ٹرینوں کے لیے درخواست کا عمل آج سے شروع ہو گیا ہے۔ اس میں تمام قسم کی ٹرینیں شامل ہوں گی، اے سی، نان ایسی۔ اس کے علاوہ روٹ طے کرنے کا حق بھی کمپنی کو ہوگا۔

بہار : مونگیر میں تیز رفتار ٹرک نے آٹو کو ٹکر مار دی ، چار طالب علم ہلاک پٹنہ/مونگیر، 23 نومبر۔مونگیر ضلع میں منگل کی صبح ایک ا?ٹو اور ٹرک کے درمیان تصادم میں چار طالب علم کی موت ہو گئی۔

بہار : مونگیر میں تیز رفتار ٹرک نے آٹو کو ٹکر مار دی ، چار طالب علم ہلاک 

پٹنہ/مونگیر، 23 نومبر۔مونگیر ضلع میں منگل کی صبح ایک ا?ٹو اور ٹرک کے درمیان تصادم میں چار طالب علم کی موت ہو گئی۔

پولس کے مطابق ا?ٹو پر سوار 10 طلبا وطالبات کوچنگ کے لئے گنگٹا کے موہن پور سے کھڑگ پور جارہے تھے۔ نظری گاو?ں کے قریب تیز رفتار سے ا?رہی ا?ٹو میں ٹکر مار دی۔
حادثے میں موہن پور گاو?ں کے ہریتھک کمار (15)، منیش کمار عرف چیکو (19) کی موقع پر ہی موت ہوگئی۔ سات دیگر کو کھڑگپور اسپتال لے جایا گیا ہے۔ جہاں علاج کے دوران سونالی کماری (13)، موہن پور گاو?ں کے کیشو کمار (20) کی علاج کے دوران موت ہوگئی۔ منیش کمار عرف چیکو ا?ٹو ڈرائیور ہے۔
مشتعل گاو?ں والوں نے ٹرک میں ا?گ لگا دی اور کھڑگ پور-گنگٹا مین روڈ کو جام کر دیا۔جائے وقوع پر کھڑگپور اور گنگٹا تھانہ پولیس کیمپ کر رہی ہے۔

مدارس میں ہندی زبان اور ہندوستانی مذاہب کی تدریس ہوگی ، مسلم علما و دانشوران کا اہم فیصلہ

مدارس میں ہندی زبان اور ہندوستانی مذاہب کی تدریس ہوگی ، مسلم علما و دانشوران کا اہم فیصلہمدارس میں ہندی زبان اور ہندوستانی مذاہب کا کورس پڑھانا وقت کی ضرورت ہے اور جامعۃ الہدایہ کے مہتمم اس پہل کے لیے مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اس کورس کو شروع کرنے سے تقریب بین المذاہب اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو علمی بنیاد ملے گی۔ ایسے کورس کو ہندوستانی یونیورسٹیوں سے منظور کرانا چاہیے تاکہ کورس کے فضلا کے لیے کارآمد ہو۔ مذاہب کا مطالعہ مسلمانوں کی روایت کا حصہ ہے اسے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے''۔ ان خیالات کا اظہار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (Aligarh Muslim University) میں شعبہ دینیات کے ڈین فیکلٹی دینیات پروفیسر محمدسعودعالم قاسمی نے ایک پروگرام میں کیا ہے۔ اسی ضمن میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کے اے نظامی مرکز برائے قرآنی علوم (K. A. Nizami Centre for Quranic Studies) میں دینی مدارس کے فضلا کے لیے ہندی زبان اور ہندوستانی مذاہب میں مہارت کا کورس تیار کرنے کے لیے مشاورتی میٹنگ رکھی گئی۔ اس کی صدارت داراشکوہ انٹر فیتھ سنٹر (Dara Shikoh Interfaith Center) کے ڈائریکٹر پروفیسر علی محمد نقوی نے کی۔

''انبیا کرام قوم کی زبان میں خطاب کرتے تھے''۔

ایک جاری کردہ پریس نوٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ میٹنگ مولانا فضل الرحیم مجددی، مہتمم جامعۃ الہدایہ، جے پور کی دعوت پر بلائی گئی۔ انھوں نے کہا کہ جامعۃ الہدایہ دینی مدارس کے فضلا کے لیے دو سال کا کورس ہندی زبان و ہندوستانی مذاہب میں تخصص کے لیے تیار کرنا چاہتا ہے۔ اس کا نصاب اور نظام بنانے کے لیے مسلم یونیورسٹی کے اساتذہ کے علم وتجربہ سے استفادہ کیا جائے گا۔ ایفل یونیورسٹی حیدرآباد کے سابق ڈین فیکلٹی آف لینگویجیزپروفیسر محسن عثمانی نے کہا کہ انبیا کرام قوم کی زبان میں خطاب کرتے تھے اور ہندوستان کی قومی زبان ہندی ہے۔ اس لیے ہندی زبان کو سیکھنا اور ہندوستانی مذاہب سے واقفیت حاصل کرنا علما کی سماجی ضرورت اور مذہبی ذمہ داری ہے۔ برج کورس کے ڈائریکٹر نسیم احمد خاں نے کہا کہ فضلائے مدارس کے لیے جو کورس مذاہب اور ہندی زبان کا بنایا جائے اس میں یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے والے نصاب کو سامنے رکھا جائے تاکہ طلبہ کو آگے بڑھنے میں سہولت ہو۔ ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی کے سکریٹری مولانا اشہد جمال ندوی نے کہا کہ ہندی زبان و ہندوستانی مذاہب کی تدریس ہماری دینی اور دعوتی ضرورت ہے۔ بڑے مدارس اس میں پہل کریں گے تو دوسرے مدارس بھی اتباع کریں گے۔ ویمنس کالج کے استاذ ڈاکٹررضا عباس نے کہا کہ دوسرے مذہب کا مطالعہ مناظرانہ انداز کے بجائے ہمدردانہ انداز سے ہونا چاہے اور اس کے لیے ماہر اساتذہ مقرر ہونے چاہیے۔

پریس نوٹ میں کہا گیا ہے کہ صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے پروفیسر علی محمد نقوی نے کہا کہ مدارس میں اس کورس کو شروع کرنے سے پہلے مقصد، طریقِ کار، نصاب اور کورس کی کتابوں کی تیاری پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ کام بہت اہم ہے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی فیکلٹی دینیات، ہندی ڈیپارٹمنٹ، انٹر فیتھ سینٹر، نظامی سینٹر اور برج کورس سینٹر اس کام میں پوری مدد کریں گے۔ نصابی کتابیں بھی تیار کریں گے۔ اس جلسہ میں نصاب کا ایک خاکہ بھی تیار کیا گیا۔

کنگنا رناوت کی بکواس- بدلتے حالات منظر نامہمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

کنگنا رناوت کی بکواس- بدلتے حالات منظر نامہ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
کنگنا رناوت کو حال ہی میں صدر جمہوریہ ہند رام ناتھ کوند نے پدم شری اعزاز سے نوازا ہے، یہ ایک فلمی اداکارہ ہیں ، غیر قانونی طورپر تعمیر ان کے اسٹوڈیو بعض حصے کو ممبئی میں ادھے کمار حکومت میں گرایا گیا تو وہ سرخیوں میں آئیں، انہوں نے اپنے تحفظ کے لئے حکومت ہند کا سہارا لیا، انہیں کمانڈوز فراہم کرائے گئے جو ان کی جسمانی تحفظ کو یقینی بنائیں، عدالت نے گھر کے بقیہ حصوں کو زمین دوز کرنے پر حکم امتناعی دیا، ان واقعات کی وجہ سے انہوں نے فلم میں جتنی شہرت نہیں حاصل کی تھی، اس سے زیادہ ہفتہ دس دن میں ان کے مقدر میں آگئی، ذرائع ابلاغ نے ان کی صلاحیتوں پر اپنی توانائی صرف کی، مہاراشٹر میں مخلوط حکومت بی جے پی کے خلاف تھی،اس لئے الکٹرونک میڈیا نے خاص کر کنگنا کے خلاف کارروائی کو ہوا دی، کنگنا وہ زبان بولنے لگیں جو آر اس اس کی زبان تھی اور بی جے پی جس کو زمین پر اتارنے کی جد وجہد میں زمانہ دراز سے مصروف ہے۔ 
بی جے پی چاہتی ہے کہ ہندوستان کی تاریخ بدل کر رکھ دی جائے، چنانچہ آر اس اس کے مؤرخین نے اس پر کام بھی شروع کردیا ہے، اترپردیش کی یوگی حکومت شہروں کے نام بدل کر اسی ایجنڈے پر کام کر رہی ہے، کنگنا رناوت کو پدم شری کا اعزاز ملا تو ان کی زبان زیادہ کھلنے لگی، ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ’’ ۱۹۴۷ئ؁ کی آزادی بھیک میں ملی تھی، اصل آزادی ۲۰۱۴ئ؁ میں ملی‘‘ کنگنا رناوت کو شاید یہ معلوم نہیں کہ جس آزادی کو وہ بھیک میں ملی آزادی کہہ رہی ہے وہ ہزاروں مجاہدین آزادی کے دارورسن کے نتیجے میں ملی تھی، ہزاروں ماؤں کے سہاگ اجڑے تھے تب یہ آزادی حاصل ہوئی تھی، کنگنا رناوت کا یہ بیان ان مجاہدین آزادی کی توہین ہے جوسربکف ہو کر میدان میں نکلے، پھانسی کے پھندے کو چوما، جیل کی صعوبتیں برداشت کیں، ان میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہے، غیرمسلموں کی قربانیاں ہیں، سب کو کنگنا رناوت نے بھیک کہہ کر برباد کردیا، بھیک کشکول گدائی لے کر گھومنے سے ملتی ہے نہ کہ جان وجسم کا نذرانہ پیش کرنے سے ، یہ بھیک نہیںہے ، ہمارے مجاہدین کی بے پناہ قربانیوں کے طفیل انگریز مجبور ہو گئے تھے کہ ہمیں آزادی کا پروانہ دیں، برطانوی حکومت کی جانب سے آزادی کا پروانہ دینا ان کی مجبوری تھی اور مجبوری کے اس مقام تک انہیں ہمارے مجاہدین آزادی نے پہونچایا تھا۔
مودی حکومت کی ثناخوانی میں وہ یہ بھی بھول گئیں کہ بھاجپا کی حکومت کے سربراہ اس سے قبل اٹل بہاری واجپئی بھی رہ چکے ہیں اور اگر ہندتوا کے غلبہ کی وجہ سے وہ ایسا کہہ رہی ہیں تو اس بکواس کے سرے کو اٹل بہاری واجپئی تک انہیں لے جانا چاہئے تھا، انہیں یہ بھی بتانا چاہئے تھا کہ جس دستور کی رو سے یہ ملک جمہوری قرار پایا اور جس کی تیاری میں دو سال گیارہ ماہ اٹھارہ دن لگے بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈ کر نے جس کی تدوین کو آخری شکل دینے کے لئے سات ہزار چھ سو پنتیس ترمیمات کو پڑھ کر پانچ ہزار ایک سو باسٹھ ترمیمات کو رد کردیا تھا اور صرف دو ہزار چار سو تہتر کو قابل اعتنا سمجھا تھا اس دستور کی حیثیت بھاجپا کے اس دور حکومت میں کیارہ گئی ہے؟ کنگنا رناوت آر اس اس کی گود میں کھیل رہی ہیں، وہ موہن بھاگوت کی زبان سے بول رہی ہیں، ۲۰۱۴ئ؁ میں آر اس اس سربراہ موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ آج گیارہ سو سال کی غلامی کے بعد بھارت آزاد ہوا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ موہن بھاگوت بھی ۱۹۴۷ئ؁ کی آزادی کو آزادی تسلیم نہیںکرتے، شاید یہی وجہ ہے کہ تحریک آزادی کی قیادت گاندھی ، نہرو اور مولانا آزاد سے لے کر سردار پٹیل کے نام کیا جارہا ہے اور حالت یہ ہو گئی ہے کہ ۱۴؍نومبر کو ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی یوم پیدائش کی تقریب میں جو پارلیامنٹ میں منعقد ہوا کرتی ہے لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے صدر نشیں (اسپیکر) بھی غائب رہے، کابینہ کا کوئی سنیر وزیر نظر نہیں آیا، ایسے میں کنگنا رناوت جو کہہ رہی ہیں اس میں وہ اکیلی نہیں ، پورا سسٹم شامل ہے، اکیلی کنگنا روات کی سوچ کو پدم شری اعزاز واپس لے کر بدلا جاسکتا ہے، لیکن نظام حکومت، بھاجپا کی پالیسی اور آر اس اس کے نظریات کی روشنی میں جس طرح چلایا جارہا ہے، اس کو بدلنے کے لئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، سیاسی پارٹیاں بہت کچھ کرسکتی ہیں، لیکن جمہوریت کی بقا سے زیادہ انہیں ہندتوا کے نام پر ووٹ بٹور نے میں زیادہ دلچسپی ہے، اس لئے وہ سب خاموش ہیں اور ان کی خاموشی سے فرقہ پرست طاقتوں کو تقویت پہونچ رہی ہے، کنگنا رناوت تو صرف ایک مہرہ ہے، شطرنج کی بساط پر مہروں کے چلنے کے لئے بھی قاعدہ قانون موجود ہے، لیکن آج ہندوستان کی بساط پر جومہرے چلے جارہے ہیں ان کے لئے کوئی قاعدہ قانون نہیں ہے، جو من میں آئے کرو اور جو منہ میں آئے بولو۔

مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کیا خواتین کی نمائندگی اضافہ ، کمیٹی میں اسماء زہرہ ، نکہت پرورین اور میں عطیہ پروین کی نامزدگی

مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کیا خواتین کی نمائندگی اضافہ ، کمیٹی میں اسماء زہرہ ، نکہت پرورین اور میں عطیہ پروین کی نامزدگی

لکھنؤ: آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) نے ایک اہم اقدام اٹھاتے ہوئے کانپور میں اپنی دو روزہ جنرل باڈی میٹنگ کے دوران مختلف سماجی شعبوں سے تعلق رکھنے والی 30 مسلم خواتین کو رکنیت فراہم کی ہے اور تین خواتین کو ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبران کے طور پر مقرر کیا ہے۔ اسے مایہ ناز علما کے زیر انتظام ہندوستان کی اعلیٰ اسلامی تنظیم میں مسلم خواتین کو بااختیار بنانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

نو منتخب خواتین ممبران کے پاس کوئی مذہبی القاب یا مدرسہ کی ڈگریاں نہیں ہیں لیکن ان کے پاس شرعی قوانین کے مطابق معاشرے کی خدمت کرنے کا تجربہ ہے۔ اے آئی ایم پی ایل بی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کہا، ''حیدرآباد سے ڈاکٹر اسماء زہرا ایک خیراتی اسپتال چلاتی ہیں، لکھنؤ کی ڈاکٹر نگہت پروین ایک ماہر تعلیم ہیں، جوکہ اتر پردیش میں اسکول اور مدارس چلاتی ہیں اور دہلی کی ایک سماجی کارکن عطیہ پروین کو ایگزیکٹو کمیٹی کی مقرر کیا گیا ہے۔

مولانا خالد نے کہا کہ ملک بھر سے مسلم خواتین کے ناموں کی سفارش کی گئی تھی اور بورڈ نے ان خواتین کو نامزد کیا ہے جو قابل ہیں اور سماجی شعبوں میں کام کرنے والے مسلمانوں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں۔

اے آئی ایم پی ایل بی کی جانب سے سماجی یا خاندانی مسائل سے نمٹنے میں مسلم خواتین کی مدد کے لیے ایک خواتین ہیلپ لائن بھی چلائی جا رہی ہے، مسلم پرسنل لاء نے ایک ہی نشست میں تین طلاق دینے، جہیز کے چلن، شادیوں میں اسراف اور دیگر سماجی برائیوں کے خلاف عوامی بیداری پیدا کرنے کے لیے خصوصی پینل تشکیل دیئے ہیں۔

خیال رہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا دو روزہ اجلاس اتر پردیش کے کانپور میں 21 نومبر کو اختتام پذیر ہوا جس میں کئی اہم فیصلے لیے گئے۔ اس اجلاس میں جہاں مولانا رابع حسنی ندوی کو چھٹی مرتبہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کا چیئرمین منتخب کیا گیا، وہیں یکساں سول کوڈ، جبراً مذہب تبدیلی، سی اے اے، موب لنچنگ اور دیگر اہم ایشوز پر غور و خوض بھی ہوا۔ ایسی صورت میں جب کہ مرکزی حکومت نے متنازعہ زرعی قوانین کو واپس لے لیا ہے، شہریت ترمیمی قانون یعنی سی اے اے کی واپسی کا مطالبہ بھی زور پکڑنے لگا ہے۔ اس تعلق سے مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بھی اپنی آواز بلند کی ہے۔ اس اجلاس میں 11 اہم قرارداد پاس ہوئی ہیں، جن میں سی اے اے واپسی کا مطالبہ بھی شامل ہے۔

پیر, نومبر 22, 2021

منفرد لب و لہجے کا شاعر : کامران غنی صبا(22 نومبر یوم پیدائش کی مناسبت سے)سلمی صنم، بنگلور

منفرد لب و لہجے کا شاعر : کامران غنی صبا
(22 نومبر یوم پیدائش کی مناسبت سے)
سلمی صنم، بنگلور 

نئی نسل کے متحرک اور فعال شاعر ، ناقد اور بےباک صحافی کامران غنی صبا 22 نومبر 1989 کو علمی و تاریخی شہر عظیم آباد، پٹنہ، بہار میں پیدا ہوئے ۔ان کا اصل نام کامران غنی ہے اور قلمی نام کامران غنی صبا ہے۔صبا تخلص ہے۔وہ ایک تعلیم یافتہ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ مجاہد آزادی سید شاہ عثمان غنی کے پر پوتے ہیں۔ ان کےوالد  ڈاکٹر ریحان غنی کا شمار بہار کے معروف اور بے باک صحافیوں میں ہوتا ہے. ان کی صحافتی خدمات تقریباً چار دہائیوں پر محیط ہیں. اپنے اصولوں پر سختی سے کاربند رہنے کے لیے جانے جاتے ہیں. سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے کر اپنی زندگی کو صحافت کے لیے وقف کر چکے ہیں. فی الحال روزنامہ پندار، پٹنہ اور دوردرشن پٹنہ سے وابستگی ہے.
کامران غنی نے اپنے نانا محترم پروفیسر حکیم سید شاہ علیم الدین بلخی فردوسی ندوی رحمتہ اللہ علیہ سجادہ نشیں خانقاہ بلخیہ فردوسیہ فتوحہ کی سرپرستی اور نگرانی میں اردو، عربی، فارسی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی. اس کے بعد جےکے اکیڈمی پٹنہ سے اسکولنگ شروع کی. الحرا پبلک اسکول، پٹنہ مسلم ہائی اسکول، نیر پور بوائز ہائی اسکول اور سلاؤ ہائی اسکول نالندہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد. میٹریکولیشن کا امتحان سلاؤ ہائی اسکول نالندہ سے پاس کیا. پٹنہ کالج سے بی ایے،  جواہرلال نہرو یونیورسٹی دہلی سے ایم ایے اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے بی ایڈ کیا۔پھر پٹنہ یونیورسٹی سے پروفیسر جاوید حیات کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کرنے لگے جو ابھی جاری ہے۔اور اس وقت شعبہ اردو نتیشور کالج مظفرپور میں اسٹنٹ پروفیسر کے فرائض انجام دے رہے ہیں  
شاعری کی ابتدا  انہوں  نے 2007 میں کی. پہلی غزل روزنامہ فاروقی تنظیم پٹنہ میں شائع ہوئی جس کا ایک شعر ہے۔
سنا تھا نقش کف پا پہ چلنا پڑتا ہے
بجز جبیں کے رہ عشق میں نشاں نہ ملا۔
ابتداء میں اپنے چھوٹے ماموں جان سید نصر الدین بلخی سے شاعری پر  اصلاح لی بعد میں ماہر عروض محمد یعقوب آسی صاحب مرحوم  ٹکسیلا نے انہیں شرف تلمذ بخشا.ان کا کلام برصغیر کے موقر رسالوں میں شائع ہوتا رہا ہے 
اب تک ان کی دو کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں
۱"۔پیام صبا۔"۔شعری مجموعہ 2017
۲۔"منصور خوشتر نئ صبح کا استعارہ" 2019
 اب تک انہیں کئی انعامات و اعزازت سے نوازا جا چکا ہے جیسے 
۱۔اردو نیٹ جاپان کی طرف سے سال 2013 کا بہترین قلم کار
۲ ۔عوامی نفاذ کمیٹی، پٹنہ کا ایوارڈ
۳  روزنامہ تاریخ انٹرنیشنل فرانس کی جانب سے مصطفوی ایوارڈ 
۴  المنصور ایجوکیشنل ٹرسٹ کی جانب سے ادبی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ 
۵  اکبر رضا جمشید ایوارڈ
بہت کم عمری میں ہی انہوں نے کافی شہرت پائی ہے بہت سے اہل قلم نے ان کی شاعری کو سراہا ہے۔ ڈاکٹر مقصود الہی شیخ ،
بریڈ فورڈ، برطانیہ سے
 لکھتے ہیں
"کامران غنی صبا کی نظم "مجھے آزاد ہونا ہے" پڑھی۔مجھے تیسرا حصہ پسند آیا۔ بڑی گہرائی ہے ، جوگی رنگ جھلک رہا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ترک دنیا کی خواہش تو ہے مگر یاسیت نہیں اور نہ ہی قنوطیت دکھائی دیتی ہے۔ جہاں اگلی سطور میں بے نامی اور انکساری کا جذبہ ابھر کر سامنے آتا ہے، لگتا ہے دنیا سے کنارہ کشی کی خواہش ہے پر نہیں ہے۔ یہی اس کا حسن ہے، سندرتا اور دل کو چھوتی خوبصورت اچھائی ہے۔ کہنے کو کہا جا رہا ہے کہ یہ جگ تیاگ دینے کو جی چاہتا ہے مگراس کا درس نہیں دیا جا رہا بلکہ بے غرض (Selfless)  ہونے اور اس میں بھی جھوٹی نمائش کی نیم فطری جبلت سے چھٹکارے کی جہد ہے ،سارے عالم میں چھائی حسن و رعنائی اور اس کی نمائش سے بے نیازی ہے ۔ عارفانہ  تڑپ ہے ، تمنا ہے۔شاعر کتنا جھک کر اونچا اٹھتا ہے وہی اس نظم کا کمال ہے۔ یوں مرکزی خیال امر ہو جاتا ہے۔
( ڈاکٹر مقصود الٰہی شیخ، بریڈفورڈ، برطانیہ)
مشہور افسانہ نگار مرحوم مشرف عالم ذوق ان کی شاعری پر یوں رقم طراز ہیں
"کامران کی شاعری انسانی نفسیات کی شاعری ہے۔ وہ معمولی کو غیر معمولی اور غیر معمولی کو معمولی بنانے کا ہنر جانتا ہے۔ کربِ احساس کی شدت کامران کی شاعری کا اختصاص ہے، یہ شدت جتنی تیز ہوگی اس کی شاعری اتنی ہی کامیاب اور پائدار ہوگی"۔
ڈاکٹر عبد الرافع ( صدر شعبہ اردو،  ملت کالج ، دربھنگہ ) لکھتے ہیں
"نئی نسل کے متحرک و فعال شاعر و ناقد اور بے باک صحافی کامران غنی کی ’’کامرانی و غنائیت‘‘ پیام صبا میں مضمر ہے۔’پیام صبا‘ کی باد صبا سے ہر خاص و عام قاری مشام جاں کو معطر اور قلب و ذہن کو مطہر کر کے یک گونہ سکون و طمانیت حاصل کرے گا۔ بظاہر یہ مختصر سا مجموعہ ہے لیکن قلب و جگر کو پارہ کرنے اور نظر کو خیرہ کرنے کے لیے ضخیم کلیات کے مترادف ہے۔ ’پیام صبا‘ نے اپنے دامن میں فلسفہ تصوف، حیات و ممات، بے ثباتی دنیا، تہذیب و اخلاق اور عصر حاضر کے گوناگوں موضوعات و مسائل کو سمیٹ رکھا ہے۔ کامرانؔ نے جس خوش اسلوبی ،پاکیزگیٔ زبان اور نرالے انداز بیان کے ذریعے موضوعات و مضامین کی پیش کش کا نیا ڈھب اپنایا ہے اِن سے اُن کے انفراد اختصاص کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ مختصر و مترنم بحر اور انوکھے قوافی کا فنکارانہ استعمال اور علامات و استعارات اور لفظیات کو تراشنے کے ہنر نے ایک بیش قیمتی خزینہ بنا دیا ہے۔ مجھے قوی امید ہے کہ ’ پیام صبا‘ کہنہ مشق استاد شعرا اور نسل نو کے مابین ایک پل صراط کا کام کرے گا۔ قارئین ، مداحین اور شعری اصناف سے شغف رکھنے والے ناقدین کے لیے یکساں طور پر ایک انمول تحفہ ثابت ہوگا۔"
مغربی بنگال کے معروف شاعر اور استاد ان کی شاعری کے حوالے یوں رقم طراز ہیں
 "ناقدین ادب نے بھلے ہی شاعری کو روایتی، کلاسیکی، ترقی پسند، جدید اور مابعد جدید جیسے خانوں میں تقسیم کررکھا ہو مگر میری نظر میں ہر زمانے میں شاعری کی دو ہی بڑی قسمیں رہی ہیں۔۔۔۔اچھی شاعری اور خراب شاعری۔کامران غنی صبا کی شاعری بلا شبہ اچھی شاعری کے زمرے میں آتی ہے۔ان کے یہاں آجکل کے جدید شاعروں کی طرح الفاظ کا گورکھ دھندہ نہیں ہے۔وہ اپنی فکر اور اسلوب سے قارئین کو متاثر کرتے ہیں۔انکی نظمیں اور غزلیں دونوں یکساں طور پر میرے دعوے کی تصدیق کرتی ہیں۔توجہ سے پڑھئے تو سہی"۔
ڈاکٹر بدر محمدی۔ویشالی سے لکھتے ہیں
" صباؔ کی غزلیں اچھی ہیں یا نظمیں یہ فیصلہ کرنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔ اس کے شاعرانہ مقام کے تعین میں ابھی دیر ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ ’’پیام صبا‘‘ اس کے خوش آئند مستقبل کا پتہ دے رہا ہے۔ اس کی شاعری عشق کی بھیک ہے۔ بھیک ایسی ہے تو پھر تحفہ کیسا ہوگا۔ اس سے مطلب نہیں کہ شاعر کا خاندانی پس منظر کیا ہے وہ کس میدان میں سرگرم ہے بلکہ اس سے سروکار ہے کہ کوئی شاعر ہے تو شاعری کی دنیا میں کتنا کامیاب ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ صباؔ کی شاعری میں جادو ہے۔ نشہ ہے، رخ معتبر کا رنگ ہے۔ عصری آگہی، متنوع خیالات ، روایت پسندی، جدت طرازی، بالیدہ شعور نے کامران کی شاعری کو توجہ طلب بنایا ہے۔ میں تازہ کار مگر پختہ شاعر، حساس اور با ہنر فنکار کو ’’پیام صبا‘‘ جیسے شاندار آغاز پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ مجھے اس سے مسلسل پرواز کی امید ہے کہ اس کے سامنے ابھی اور بھی آسماں ہیں۔"
ڈاکٹر زر نگار یاسمین(  صدر شعبہ اردو ، مولانا مظہر الحق عربی و فارسی یونیورسٹی ، پٹنہ ) ان کی شاعری کے حوالے سے لکھتی ہیں 
"صباؔ کی انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے بے حد کم عمری میں ہی دنیا کی محرومیوں، ریاکاریوں اور منافقتوں کو نہ صرف سمجھ لیا ہے بلکہ اسے ایک مخصوص طرزِ اظہار کے ساتھ پیش کرنے کا پختہ ارادہ بھی کر لیا ہے۔ ’’مجھے آزاد ہونا ہے‘‘ کی بازگشت ان کی غزلوں کے اشعار میں بھی بار بار سنائی دیتی ہے۔ جس سے یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ یہ نقطۂ نظر اب ان کے تخلیقی رویے کا ایک حصہ بن چکا ہے۔ میری دعا ہے کہ وہ اسی فکری شائستگی کے ساتھ اپنا ادبی سفر طے کرتے رہیں۔"
پاکستان سے حسیب اعجاز عاشر ان کی شخصیت کے حوالے سے یوں رقم فراز ہیں
 "درس و تدریس ہو،رپورٹنگ ہو، کالم نویسی ہو، تبصرہ نگاری ہو،تجزیہ کاری ہو یا پھر شاعری ہی کیوں نہ ہو کامران غنی صباؔ نے ہر میدان میںجدیدیت اور انفرادیت کے زیرِاثر رہتے ہوئے بھرپور اورقابلِ رشک دادِ آفرین حاصل کی ہے۔میں کوئی تبصرہ نگار، نقاد یا کوئی تجزیہ کار تو نہیں اورشاعری کا شغف تو مجھے بس سننے یا پڑھنے کاہی ہے مگر کامران کی شاعری کے حوالے سے اتنا ضرورکہوں گا کہ ان کی شاعری میں گہری بصیرت، بالغ نظری،بے ساختگی ،حسن خیال کی معنی آفرینی، احساس کی نزاکت، معنویت، شفافیت، حلاوت، بلند آہنگی ، مسائل حیات کے احاطے، امیدوں کے روشن چراغ، درد مندی، انتہائی وسعت،رنج و مسرت کے علاوہ فلسفیانہ موشگافیاںاور صوفیانہ روموز و نکات بھی ملتے ہیں۔" 
شاعری ان کے نزدیک  عشق ہے..... عبادت ہے.... جس طرح عشق اور عبادت کا تعلق روح سے اسی طرح شاعری کا تعلق روح سے. ریاکاری اور دکھاوے کے ساتھ عشق اور عبادت کی تکمیل نا ممکن ہے اسی طرح شاعری صرف احساسات کو الفاظ دینے کا نام نہیں ہے بلکہ روحانی جذبات کو الفاظ کا پیکر عطا کرنے کا ہنر شاعری ہے. 
 انہیں کلاسیکی شعرا میں حافظ، رومی، غالب، اقبال اور اصغر گونڈوی.اور.دور حاضر کے شعرا میں عرفان صدیقی کا کلام پسند ہے
شاعری کے علاوہ وہ ایک بے باک صحافی بھی ہیں اپنی صحافتی
 زندگی کا باضابطہ آغاز انہوں نے روزنامہ" پندار" پٹنہ کے اسپورٹس ایڈیشن سے 2006 میں کیا. اس کے بعد اردو نیٹ جاپان، ماہنامہ کائنات کولکاتا، سہ ماہی دربھنگہ ٹائمز، سہ ماہی تحقیق دربھنگہ، ماہنامہ نیا کھلونا، کولکاتا، تعمیر افکار سمستی پور وغیرہ سے وہ وابستہ.رہے ہیں

پیش خدمت ہے ان کا نمونہ کلام 

-------غزل-------
کامران غنی صبا


حریمِ  دل کہ  مقدس  ہے ماورائے جنوں
اسی کے فیض سے روشن ہے یہ فضائے جنوں

خدا کے واسطے عقل و خرد کی بات نہ کر
قسم خدا کی ابھی میں ہوں مبتلائے جنوں

بس  اتنی  بات پہ  آئینہ پاش پاش ہوا
وہ پوچھ بیٹھے جو مفہومِ انتہائے جنوں

مرا عقیدہ ذرا مختلف ہے لوگوں سے
یہ   کائنات    بنائی  گئی  برائے  جنوں

سمجھ   لو  شہرِ  خرد   سے نکل   کے   آیا   ہے
جو شہرِ عشق میں ڈھونڈے کوئی سرائے جنوں

قسم خدا کی میں بیعت کروں گا قدموں پر
مرے جنوں کو جو مل جائیں اولیائے جنوں

کسی کا کچھ بھی بھروسہ نہیں، ذرا بھی نہیں
صبا کا کوئی نہیں ہے، نہیں، سوائے جنوں

____________________________

 -------غزل--------
کامران غنی صبا

میرے   چاروں   سمت   آتا  ہے   نظر    پانی   کا   رقص
ہائے   نادانی   کہ   دریا   میں    ہے  طغیانی   کا  رقص

اِک  یہی  صورت  بچی  ہے  اپنی  آنکھیں   نوچ  لوں
جس طرف  بھی دیکھیے  ہے دشمنِ  جانی  کا رقص

پارسائی      پردئہ   نخوت    سے     تکتی      رہ     گئی
رات    بھر    ہوتا   رہا   اشکِ  پشیمانی    کا    رقص

میرے    اوپر    کفر   کا  فتوی  لگا  دیں   شیخ   جی
دیکھ    لیں   گر   میرے  اندر  کی مسلمانی    کا   رقص

شاعری  کیا  ہے  کوئی  مجھ  سے  اگر   پوچھے  کہوں
صفحئہ    قرطاس    پر    اپنی  پریشانی   کا   رقص
 
کون    سی   ایسی   بشارت  مل  گئی  تجھ   کو   صبا
تیری   آنکھوں   میں   سدا   رہتا ہے تابانی   کا   رقص

____________________________


------------غزل
 (نذر احمد فراز)
 کامران غنی صبا

کچھ  درد اگر  ہم  کو مسلسل نہیں ہوتے
ہم عشق میں ائے دوست مکمل نہیں ہوتے

کچھ خواب مرے ہجر کی سولی پہ چڑھے ہیں
وہ  خواب  مگر  آنکھ  سے اوجھل  نہیں  ہوتے

تمثیل میں آنکھوں کی طرف دیکھ لو میری
برسات   بہت  ہوتی   ہے   بادل  نہیں  ہوتے

عشاق کے دل مملکتِ عشق کے در ہیں
ویران  تو ہوتے  ہیں  مقفل نہیں ہوتے

معلوم  اگر  ہوتا کہ  تم  بھی ہو مسیحا
نادان نہ تھے ایسے کہ گھائل نہیں ہوتے

صد  شکر  خدا تیرا کہ ہم ایسے سخنور
شاعر جو نہیں ہوتے تو پاگل نہیں ہوتے؟

___________________________

خاموشی، لامکاں اور میں
کامران غنی صبا

خموشی کیا ہے؟ 
اک احساس ہے 
اک راز ہے 
درد نہاں ہے
تشنگئ شوق ہے
اک گوہرِ نایافت کو پانے کی حسرت ہے
خموشی کچھ نہیں کہتی
مگر کہنے پہ آ جائے
تو پھر چپ بھی نہیں رہتی
خموشی آگ ہے
جس میں جھلس کر
ذات کی تکمیل ہوتی ہے 
خموشی اک سمندر ہے
بہت گہرا
خموشی کے سمندر میں
اگر طوفان آ جائے
تو سمجھو پھر قیامت ہے
خموشی "رازِ کن" ہے
عرشِ اعظم ہے مکاں اس کا
اگر یہ فاش ہو جائے
تو پتھر چیخ اٹھتا ہے
خموشی وقت کی دہلیز پر
ڈالا ہوا حکمت کا پردہ ہے
کہ جس کے بعد تاحد نظر ہے
لامکاں اور "میں"

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...