Powered By Blogger

بدھ, نومبر 24, 2021

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے✍️ ڈاکٹر مولانا محمدعالم قاسمیجنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل بہارامام وخطیب جامع مسجد دریاپور سبزی باغ ، پٹنہ

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
✍️ ڈاکٹر مولانا محمدعالم قاسمی
جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل بہار
امام وخطیب جامع مسجد دریاپور سبزی باغ ، پٹنہ
اکیسویں صدی کے آتے ہی دنیا بہت بدل گئی ہے، ہائی ٹیک دور، ڈیجیٹل آلات اورہرکس وناکس تک اسمارٹ فون کی رسائی نے قدیم اقدار وروایا ت کو یکسر تبدیل کردیا ہے۔ پل پل کی نقل وحرکت کو شیئر کرنے کی عادت نے ایسا عموم حاصل کرلیا ہے کہ شہرت وریاکاری اورتصویر کشی کے مسائل اب صر ف زینت کتاب ہیں، خواص خدام کے ذریعہ اور بغیر خدم وحشم والے کسی نہ کسی ذریعہ اس شوق کو پورا کرلیتے ہیں، تحریری فتویٰ کی رسم بھی صرف ہندی علماء میں باقی ہے۔ اس سے احتراز کرنے والے کو لوگ ترقی یافتہ دنیا سے غافل یا ایک صدی قبل کاانسان باور کرتے ہیں۔ مگر اس چکاچوند دنیا سے الگ تھلک ، شہرت وناموری سے کوسوں دور اپنی دنیا میں مگن ، سادگی منکسرالمزاجی اورنرم مزاجی کے حامل جن چند انفاس قدسیہ کو حالیہ قریب میں دیکھا ان میں سے ایک مولانا ضیاء الرحمن قاسمی ، پتونا ، بسفی مدھوبنی ہیں۔ جو حالیہ دنوں 14 نومبر 2021 کو اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے، آپ کی نماز جنازہ آپ کے منجھلے صاحبزادے ڈاکٹر مولانا محمد رضوان قاسمی نے پڑھائی اوراپنے آبائی گاؤں پتونا کی سرزمین میں آسودۂ خاک ہوگئے_ آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے__آپ کی عمر بوقت رحلت 80 سال سے متجاوز تھی ۔مگر باعتبار سند کم ، اپنی عمر میں بتانے میں بہت محتاط تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ کہیں کسی کی نظر نہ لگ جائے۔ 
آپ سیدھے سادے خاکسار منکسرالمزاج انسان تھے۔نیک طبیعت کے نرم دل آدمی تھے، نیک اطوار تھے، پاک باز تھے، وضع دار تھے اورخاندانی شرافت کا نمونہ تھے، صاف دل تھے ، حسد وکینہ سے پاک تھے، گلہ وشکوہ سے محفوظ تھے۔ تواضع میں حد اعتدال سے بھی متجاوز تھے۔ اپنے شاگروں اور چھوٹوں کی بھی بات بہت غور سے سنتے ، اورجو کہہ دیتا اس پر یقین کرلیتے۔ اسی تواضع میں بے اعتدالی کااثر تھاکہ قدیم فاضل دیوبند ہونے کے باوجود میں نے کبھی کسی بھی موقع پر کوئی وعظ ونصیحت یا تقریر کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ گوشہ نشیں تنہائی پسند تھے۔ عام بھیڑ بھاڑ سے الگ رہتے تھے، مگر کوئی ملنے جاتا توبڑی خندہ پیشانی سے ملتے اور سب کی بات سنتے۔ یہی وجہ ہے کہ میرے والد گرامی کے ہم عصر تھے، ان سے قربت کے ساتھ مجھے بھی اپنا عزیز سمجھتے اورگھنٹوں بات کرتے، یہاں تک کہ میرے بڑے صاحبزادے سے بھی نہایت ہی بے تکلفی سے گھنٹوں بات کرتے، اسی باعث ہرشخص انہیں اپنا سرپرست سمجھتا اور اپنے دل کی بات کہتا۔ آپ بے ضرر اوربے نفس انسان تھے، کفایت شعاری اور قناعت پسند ی کے خوگر تھے اوراپنے عمل سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتے، اگر کسی نے کوئی کام کہدیا تو چاہے جتنی مشقت ہو اس کے لئے انتھک کوشش کرتے، آپ ایک چلتی پھرتی انجمن تھے۔ اگرکسی نے روک کر کچھ کہنا چاہا تو اس وقت تک ان کی بات سنتے جب تک کہ کہنے والا خود نہ تھک جائے۔ اس میں اپنے کام کو بھی بھول جاتے، غض بصر پر اتنا سختی سے عمل پیرا تھے کہ آپ ہمیشہ خمیدہ گردن ہی چلتے، شرم وحیا حد سے زیادہ تھی۔ دوسروں کی بہت رعایت کرتے، اور ایسی کسر نفسی تھی کہ عام فرد کے لئے آپ کی اہمیت کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ 
مولانا موصوف کا آبائی تعلق ضلع مدھوبنی کا مسلم اکثریتی حلقہ بسفی کے پتونا گاؤں کے شمالی محلہ سے ہے۔ جو اب قاسمی محلہ سے مشہور ہے۔ اس گاؤں کے لوگ عمومی طورپر سیدھے شمار ہوتے ہیں اوردینی تعلیم کا ماحول بھی بہت قدیم ہے۔ مولانا کے والد منشی عبدالطیف قدیم پڑھے لکھے تھے۔ مگر باضابطہ سند یافتہ کے طورپر قاری ابراہیم ہوئے، جو بنارس کے مدرسہ سے حافظ وقاری تھے۔ ان کی کوئی اولاد نرینہ نہیں ہے۔ انہوں نے حافظ مہرحسین کو بنارس پڑھنے کیلئے بھیجاجو بڑی محنت سے بڑے باکمال حافظ قرآن ہوئے۔ محلہ کے ماحول کو بدلنے میں ان کی بڑی محنت ہے۔ ان کی کوئی صلبی اولاد نہیں ہے۔ مگرشاگردوں کا لمبا سلسلہ ہے۔ انہوں نے نئی مسجد تعمیر کی اور اپنے گاؤں میں ہی تعلیم دینا شروع کیا۔ نہایت بافیض ثابت ہوئے ، اور ان کی محنت سے صرف ایک محلہ میں50 حفاظ کرام تیار ہوئے، جن میں سے ایک یہ حقیر راقم الحروف بھی ہے۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا اور15 فضلائے دیوبند ہوئے۔جس کی بنیاد پر اس محلہ کا نام قاسمی محلہ رکھ دیاگیا۔ فضلائے دیوبندکی پہلی کڑی کے طورپر قاری شعیب قاسمی اور مولانا ضیاء الرحمن قاسمی ہیں۔ ان کے بعد پھر سلسلہ چل پڑا۔ 
مولانا موصوف کی حتمی تاریخ ولادت تو معلوم نہیں ہوسکی چونکہ کئی مرتبہ پوچھنے کے بعد بھی انہوں نے ٹال دیا اورسند میں بعد میں انہوںنے جاکر اندراج کرایاتھا۔ مگر اتنی بات طے ہے کہ میرے والد گرامی سے دو سال چھوٹے تھے اورمیرے والد کی تاریخ ولادت ان کی ڈائری کے مطابق 1939 ہے۔ اس اعتبار سے مولانا کی تاریخ ولادت 1941 کے قریب ہوتی ہے۔ ابتدائی تعلیم گاؤ ں میں ہوئی پھر مدرسہ بشارت العلوم کھرما پتھرا دربھنگہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد دیوبند چلے گئے۔ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ کا انتقال 1957 میں ہوگیا۔ ان کے بعد شیخ الحدیث فخرالمحدثین مولانا سید فخرالدین احمد مراد آبادی (1889-1972) ہوئے۔انہیں کے دور میں 1970 کے قریب فراغت ہوئی۔ 
فراغت کے بعد اپنی خدمت کا میدان پٹنہ کو بنایا۔ سبزی باغ کی جامن گلی میں اپنے استاد کے نام پر مدرسہ فخرالعلوم قائم کیا۔ مولانا کاظم قاسمی بھیروا کو یہاں لائے ، پھر مالیات کی فراہمی لوگوں کے تعاون سے خود کرتے اور وہ درس دیتے، کچھ دنوں بعد مولانا کاظم قاسمی مدرسہ حسینہ رانچی چلے گئے اورآپ اپنے گاؤں کے بورڈ کے مدرسہ میںبحال ہوگئے۔ جس سے 2011 میں ریٹائر ہوئے۔ مگر اپنے گاؤں کے مدرسہ سے منسلک ہونے کے باوجود پٹنہ سے رشتہ بدستور باقی رہا، اورسال کا کم ازکم 4 مہینہ پٹنہ میں ضرور گزرتا۔ شعبان، رمضان، شوال کے بعد ذی قعدہ میں واپس جاتے اور پھر گاہے بگاہے بھی آتے رہتے۔ مدرسہ کے مالیات کی فراہمی میں ہمیشہ منہمک رہتے۔پٹنہ کے چپہ چپہ سے واقف تھے اور پورا پٹنہ پیدل ہی روند ڈالتے، پٹنہ جنکشن سے سبزی باغ پیدل گھنٹوں میں پہنچتے، چونکہ درمیان میں بہت سے لوگوں سے ملتے جلتے آتے، آپ کسی چیز کے پابند رہنا نہیں چاہتے، اپنی مرضی سے رہنا ، اپنی مرضی کاکام کرنا، یہاں تک کہ عبادت میںبھی ان سے پابندی نہیں ہوپاتی، پٹنہ میں ان کاقیام جناب شمس الہدیٰ استھانوی مرحوم کے اخبار ’’ہمارا نعرہ‘‘ کے دفتر میں رہتا۔چونکہ وہ دفتر رات بھرکھلارہتا اورانہیں رات میں کسی بھی وقت آنے کی پوری آزادی ہوتی۔ 
مولانا موصوف کا پہلا نکاح اپنے ماموں کی دختر سے نرائن پور پوپری میں ہوا۔ مگرایک سال بعد ہی وہ راہی بقا ہوگئیں۔ تو دوسرا نکاح 1970 کے قریب کٹھیلا بسفی کے جناب ظہور احمد کی صاحبزادی سے ہوا، جو خوشحال اور بااثرفرد تھے۔ ان سے تین صاحبزادے ہوئے، بڑے مولانا محمدسلمان قاسمی ہیں جو ماشاء اللہ حافظ قرآن اورفاضل دیوبند اورامارت سے مفتی بھی ہیں۔ مگر اپنے والد کی طرح گوشہ نشیں تنہائی پسند ہیں اورشہرت وناموری سے کوسوں دور رہتے ہیں۔ مدرسہ احمدیہ مدھوبنی میں استاد ہیں اورمدرسہ کی چہاردیواری میں اپنے کو محصور کرلیا ہے۔ وہ ہمارے دیرینہ رفیق بھی ہیں۔ 
دوسرے صاحبزادے ڈاکٹر مولانا محمد رضوان قاسمی ہیں جو ماشاء اللہ حافظ قرآن، فاضل دیوبند اور سند یافتہ حکیم ہیں، بیدار مغز اورہوش مند عالم دین ہیں، ساتھ ہی ملنسار ، خوش اخلاق اور خوش مزاج ہیں۔ علماء نواز ہیں اورسماجی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ خوشحال ہیں، دربھنگہ میں اپنے ذاتی مکان میں مطب چلاتے ہیںجو اہل علم کا مرکز بناہوا ہے۔ تیسرے صاحبزادے حافظ محمد حسان ہیں جو اپنے گاؤں میں مدرسہ چلاتے ہیں۔ بڑے ہنس مکھ اورملنسار ہیں۔ لوگوں سے بڑی محبت سے ملتے ہیں، اور علماء کے قدردان ہیں۔اس طرح مولانا موصوف کو اللہ تعالیٰ نے صالح اولاد سے نوازا ہے اورسب دنیوی نعمت سے بھی سرفراز ہیں۔  ایک صاحبزادی ہوئی جو کم سنی میں جنت نشیں ہوگئیں۔ اہلیہ محترمہ بحمداللہ باحیات اور بعافیت ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت وعافیت سے رکھے۔ مولانا کے گھر سے میرا گہرا تعلق ہے اور اپنے گھر کی طرح ہی سمجھتا ہوں۔
مولانا ضیاء الرحمن قاسمی جیسے سادہ لوح سیدھے سادے بے لوث انسان بہت کم ملتے ہیں۔ جو سب کو اپنا سمجھے ، سب کو گلے سے لگائے، اور ہرشخص کی کامیابی پر خوش ہوں۔ ان کے دل میں سب کے لئے جگہ تھی۔ اسی لئے سبھی لوگ انہیں اپنا سرپرست سمجھتے ۔
شعر:
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشہ کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

حسرت  نے لا رکھا  تیری بزم خیال میں
گلدستۂ نگاہ سویدا کہیں جسے

٭٭٭

انجمن ترقی اردو و غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام يوم ذوق کا انعقاد

انجمن ترقی اردو و غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام يوم ذوق کا انعقادنئی دہلی(پریس ریلیز):انجمن ترقی اردو دہلی شاخ کے زیر اہتمام بہ تعاون غالب انسٹی ٹیوٹ شیخ ابراہم ذوق کے یوم وفات پر یوم ذوق کا اہتمام کیا گیا۔ اس جلسے کی صدارت غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی نے فرمائی۔ اپنے صدارتی خطاب میں پروفیسر قدوائی نے کہا کہ زبان بہت بڑی قوت ہے اور وہ لغت تک محدود نہیں بلکہ اس کی اصل طاقت اس کے تہذیبی رشتے میں پنہاں ہے۔ ذوق اس رشتے کا بھرپور احساس رکھتے تھے۔ ان کی شاعری میں تہذیبی سروکارکا گہرا احساس موجود ہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے کہا کہ ذوق اور غالب کے درمیان معاصرانہ چشمک تھی اس لحاظ سے ایوان غالب میں یوم ذوق کا انعقاد یہ ثابت کرتا ہے کہ علمی اختلاف ہمیشہ فائدہ مند نتائج چھوڑتے ہیں۔ ڈاکٹر خالد علوی نے کہا کہ ذوق کی بد قسمتی یہ رہی کہ ان کو بڑے شاعروں کا زمانہ ملا اس لیے ان کا موازنہ بھی بڑے شعرا سے کیا گیا اور اس موازنے نے صحیح نتائج تک نہیں پہنچنے دیا۔ ضروری ہے کہ ذوق کی اپنی بنیادوں کو تلاش کر کے ان کی تفہیم کی جائے۔ پروفیسر ابن کنول نے کہا کہ انجمن ترقی اردو دہلی شاخ اس لحاظ سے قابل مبارکباد ہے کہ وہ ہر سال پابندی سے اردو کے ممتاز شاعر ذوق کو ان کے یوم وفات پر یاد کرتی ہے۔ ذوق کے یہاں زبان کا استعمال نہایت تخلیقی انداز میں ہوا ہے۔ یہ اس عہد کا عام رجحان بھی تھا۔ پروفیسر محمد کاظم نے کہا کہ ہم نے ذوق کے یہاں وہی عناصر تلاش کرنے کی کوشش کی جو میر و غالب کا خاصہ تھے اسی لیے ہم ان کے سلسلے میں صحیح نتائج تک نہیں پہنچ سکے۔ غالب اکیڈمی کے سکریٹری ڈاکٹر عقیل احمد نے کہا کہ ذوق غالب کے معاصر تھے لیکن غالب سے متعلق جتنی تحقیق سامنے آئی وہ ذوق کے حصے میں نہیں آئی۔ پروفیسر تنویر احمد علوی نے ذوق پر سب سے اہم تحقیق و تنقید کا سرمایہ چھوڑا ہے۔ جناب اقبال مسعود فاروقی صدر انجمن ترقی اردو دہلی شاخ نے اپنے استقبالیہ کلمات میں کہا کہ انجمن ترقی اردو ہند عرصے سے یوم ذوق کا انعقاد کر رہی ہے لیکن اب اس کی مجلس عاملہ نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنے دائرۂ کار میں وسعت لائیں اور اہم شعرا سے متعلق بھی پروگرام منعقد کیے جائیں۔ لہٰذا آئندہ دنوں میں آپ ہمارے دائرۂ کار میں وسعت پائیں گے۔ افتتاحی اجلاس کے بعد طرحی مشاعرے کا انعقاد ہوا۔ مشاعرے کی صدارت بزرگ شاعر جناب وقار مانوی نے فرمائی اور نظامت کے فرائض محمد انس فیضی نے انجام دیے۔

منگل, نومبر 23, 2021

کو پارلیمنٹ کے سنٹرل ہال میں یوم آئین منایا جمعہ جائے گا

کو پارلیمنٹ کے سنٹرل ہال میں یوم آئین منایا جمعہ جائے گانئی دہلی، 23نومبر- آزادی کے 75سال مکمل ہونے کے موقع پر منائے جارہے آزادی کے امرت مہوتسو کے تحت جمعہ کو پارلیمنٹ کے سنٹرل ہال میں صدر جمہوریہ رامناتھ کووند کی قیادت میں یوم آئین منایا جائے گا۔
پارلیمانی امور کے وزیر پرہلاد جوشی نے منگل کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ پارلیمنٹ کے سنٹرل ہال میں صبح گیارہ بجے صدر کے خطاب کے ساتھ اس تقریب کی شروعات ہوگی۔ اس موقع پر نائب صدر، وزیراعظم، لوک سبھا اسپیکر، مرکزی وزیر، اراکین پارلیمنٹ اور دیگر معزز شخصیات موجود رہیں گی۔ اس پروگرام کو سنسد ٹیلی ویزن اور دوردرشن اور آن لائن پورٹل کے ذریعہ لائیو نشر کیا جائے گا۔
صدر کے خطاب کے بعد پورے ملک کے شہری اپنی اپنی جگہ سے ان کے ساتھ آئین کی تمہید پڑھیں گے۔ تمام اہل وطن کو آئین کا دیباچہ پڑھنے کے لئے اس پروگرام سے آن لائن جوڑنے کے لئے ایک پورٹل تیار کیا گیا ہے۔ اس پورٹل کے ذریعہ اہل وطن 22سرکاری زبانوں اور انگریز ی آئین کی تمہید کرسکیں گے۔عام لوگوں کے ساتھ ساتھ تمام وزارتوں، محکموں، ریاستوں،مرکز کے زیرانتظام ریاستوں، اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، اداروں، تنظیموں اور بار کونسل وغیرہ سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ کووڈ پروٹوکول پر عمل کرتے ہوئے اپنی اپنی جگہ سے آئین کی تمہید پڑھیں۔ لوگوں کو اس کی معلومات دینے کے لئے ریڈیو، ٹیلی ویزن اور سوشل میڈیا کے ذریعہ بتایا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ آئینی جمہوریت پر آن لائن کوئز کے لئے بھی ایک پورٹل کی شروعات کی گئی ہے۔مسٹر جوشی نے کہاکہ اس موقع پر آئین کی تمہید کو عوامی شراکت کے تحت عوامی تحریک بنانے کے مقصد سے آن لائن پورٹل جمعہ سے شروع ہوجائے گا۔ کوئی بھی شہری اس پورٹل پر رجسٹریشن کرکے تمہید کرسکتا ہے اور اپنا سرٹی فکیٹ حاصل کرسکتا ہے۔ اس پورٹل میں آئین کی تمہید کا فریم پدم شری انعام سے نوازاے گئے جے پرکاش لکھیول نے اس طرح سے ڈیزائن کیا ہے جس سے اس میں تمام ریاستوں اورمرکز کے زیرانتظام ریاستوں کی جھلک نظر آئے۔ تمہید کرنے پر ملنے والے سرٹی فکیسن میں بھی اس کا ڈیزائن ظاہر ہوگا۔
صدر اسی دن سنٹرل ہال میں آئینی جمہوریت پر آن لائن کوئز پورٹل کو بھی لانچ کریں گے۔ اس میں آئین اور جمہوریت سے متعلق بنیادی سوالات پوچھے جائیں گے۔ اس میں حصہ لینے کے لئے بھی پورٹل پر رجسٹریشن کرنا ہوگا۔ اس پورٹل پر ایک موبائل نمبر سے کئی رجسٹریشن کئے جاسنے کی سہولت ہے۔ پورٹل میں ایک ہزار سوالات کا بینک ہے جس میں سے ایک بار میں پانچ سوالات پوچھے جائیں گے۔ اس میں حصہ لینے والے افراد کو سرٹی فکیٹ دیا جائے گا۔ یہ کوئز ہندی اور انگریزی دونوں زبانوں میں ہوں گے۔
مسٹر جوشی نے لوگوں سے آئین کی تمہید کرتے ہوئے اپنا فوٹو سوشل میڈیا کے ذریعہ شیئر کرنے کی بھی لوگوں سے اپیل کی ہے۔ مودی حکومت نے 2015میں 26نومبر کو یوم آئین کے طورپر منائے جانے کا اعلان کیا تھا۔

انڈین ریلوے کا بڑا فیصلہ ! اب کوئی بھی کرائے پر لیکر چلا سکتا ٹرین

انڈین ریلوے کا بڑا فیصلہ ! اب کوئی بھی کرائے پر لیکر چلا سکتا ٹریننئی دہلی،23نومبر- ہندوستانی ریلوے نے منگل کو ایک بڑا فیصلہ لیا ہے۔ جس کے تحت کوئی بھی ریاستی حکومت یا کمپنی ٹرین کا کرایہ پر لے سکتی ہے۔ اس کے لیے وزارت ریلوے نے اسٹیک ہولڈرز سے بات چیت کی ہے۔ ریلوے اس سروس کے لیے کم از کم چارجز لگائے گا۔ اس اسکیم کے تحت ریلوے نے 3333 کوچز یعنی 190 ٹرینوں کی نشاندہی کی ہے۔ریلوے کے وزیر اشونی ویشنو نے بھارت گورو ٹرین چلانے کا اعلان کیا ہے۔ بھارت گورو ٹرینیں ایک تھیم پر مبنی ہوں گی جو ہندوستان کی ثقافت اور ورثے کی نمائش کرتی ہے۔ ریلوے کے مطابق تقریباً 190 ٹرینیں الاٹ کی گئی ہیں۔ وزیر ریلوے نے کہا کہ اچھا رسپانس حاصل ہونے پر ان ٹرینوں کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔یہ ٹرینیں سیاحتی مقامات کے لیے چلائی جائیں گی۔ ریلوے کے وزیر نے کہا کہ بھارت گورو ٹرین، رامائن ٹرین لوگوں کو ہندوستانی ثقافت، ہمارے ()diversity and heritage سے واقف ہونے کا موقع فراہم کرے گی۔ ریلوے آنے والے وقت میں گرو کرپا اور سفاری ٹرین چلانے جا رہا ہے۔ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ان ٹرینوں کے لیے درخواست کا عمل آج سے شروع ہو گیا ہے۔ اس میں تمام قسم کی ٹرینیں شامل ہوں گی، اے سی، نان ایسی۔ اس کے علاوہ روٹ طے کرنے کا حق بھی کمپنی کو ہوگا۔

بہار : مونگیر میں تیز رفتار ٹرک نے آٹو کو ٹکر مار دی ، چار طالب علم ہلاک پٹنہ/مونگیر، 23 نومبر۔مونگیر ضلع میں منگل کی صبح ایک ا?ٹو اور ٹرک کے درمیان تصادم میں چار طالب علم کی موت ہو گئی۔

بہار : مونگیر میں تیز رفتار ٹرک نے آٹو کو ٹکر مار دی ، چار طالب علم ہلاک 

پٹنہ/مونگیر، 23 نومبر۔مونگیر ضلع میں منگل کی صبح ایک ا?ٹو اور ٹرک کے درمیان تصادم میں چار طالب علم کی موت ہو گئی۔

پولس کے مطابق ا?ٹو پر سوار 10 طلبا وطالبات کوچنگ کے لئے گنگٹا کے موہن پور سے کھڑگ پور جارہے تھے۔ نظری گاو?ں کے قریب تیز رفتار سے ا?رہی ا?ٹو میں ٹکر مار دی۔
حادثے میں موہن پور گاو?ں کے ہریتھک کمار (15)، منیش کمار عرف چیکو (19) کی موقع پر ہی موت ہوگئی۔ سات دیگر کو کھڑگپور اسپتال لے جایا گیا ہے۔ جہاں علاج کے دوران سونالی کماری (13)، موہن پور گاو?ں کے کیشو کمار (20) کی علاج کے دوران موت ہوگئی۔ منیش کمار عرف چیکو ا?ٹو ڈرائیور ہے۔
مشتعل گاو?ں والوں نے ٹرک میں ا?گ لگا دی اور کھڑگ پور-گنگٹا مین روڈ کو جام کر دیا۔جائے وقوع پر کھڑگپور اور گنگٹا تھانہ پولیس کیمپ کر رہی ہے۔

مدارس میں ہندی زبان اور ہندوستانی مذاہب کی تدریس ہوگی ، مسلم علما و دانشوران کا اہم فیصلہ

مدارس میں ہندی زبان اور ہندوستانی مذاہب کی تدریس ہوگی ، مسلم علما و دانشوران کا اہم فیصلہمدارس میں ہندی زبان اور ہندوستانی مذاہب کا کورس پڑھانا وقت کی ضرورت ہے اور جامعۃ الہدایہ کے مہتمم اس پہل کے لیے مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اس کورس کو شروع کرنے سے تقریب بین المذاہب اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو علمی بنیاد ملے گی۔ ایسے کورس کو ہندوستانی یونیورسٹیوں سے منظور کرانا چاہیے تاکہ کورس کے فضلا کے لیے کارآمد ہو۔ مذاہب کا مطالعہ مسلمانوں کی روایت کا حصہ ہے اسے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے''۔ ان خیالات کا اظہار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (Aligarh Muslim University) میں شعبہ دینیات کے ڈین فیکلٹی دینیات پروفیسر محمدسعودعالم قاسمی نے ایک پروگرام میں کیا ہے۔ اسی ضمن میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کے اے نظامی مرکز برائے قرآنی علوم (K. A. Nizami Centre for Quranic Studies) میں دینی مدارس کے فضلا کے لیے ہندی زبان اور ہندوستانی مذاہب میں مہارت کا کورس تیار کرنے کے لیے مشاورتی میٹنگ رکھی گئی۔ اس کی صدارت داراشکوہ انٹر فیتھ سنٹر (Dara Shikoh Interfaith Center) کے ڈائریکٹر پروفیسر علی محمد نقوی نے کی۔

''انبیا کرام قوم کی زبان میں خطاب کرتے تھے''۔

ایک جاری کردہ پریس نوٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ میٹنگ مولانا فضل الرحیم مجددی، مہتمم جامعۃ الہدایہ، جے پور کی دعوت پر بلائی گئی۔ انھوں نے کہا کہ جامعۃ الہدایہ دینی مدارس کے فضلا کے لیے دو سال کا کورس ہندی زبان و ہندوستانی مذاہب میں تخصص کے لیے تیار کرنا چاہتا ہے۔ اس کا نصاب اور نظام بنانے کے لیے مسلم یونیورسٹی کے اساتذہ کے علم وتجربہ سے استفادہ کیا جائے گا۔ ایفل یونیورسٹی حیدرآباد کے سابق ڈین فیکلٹی آف لینگویجیزپروفیسر محسن عثمانی نے کہا کہ انبیا کرام قوم کی زبان میں خطاب کرتے تھے اور ہندوستان کی قومی زبان ہندی ہے۔ اس لیے ہندی زبان کو سیکھنا اور ہندوستانی مذاہب سے واقفیت حاصل کرنا علما کی سماجی ضرورت اور مذہبی ذمہ داری ہے۔ برج کورس کے ڈائریکٹر نسیم احمد خاں نے کہا کہ فضلائے مدارس کے لیے جو کورس مذاہب اور ہندی زبان کا بنایا جائے اس میں یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے والے نصاب کو سامنے رکھا جائے تاکہ طلبہ کو آگے بڑھنے میں سہولت ہو۔ ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی کے سکریٹری مولانا اشہد جمال ندوی نے کہا کہ ہندی زبان و ہندوستانی مذاہب کی تدریس ہماری دینی اور دعوتی ضرورت ہے۔ بڑے مدارس اس میں پہل کریں گے تو دوسرے مدارس بھی اتباع کریں گے۔ ویمنس کالج کے استاذ ڈاکٹررضا عباس نے کہا کہ دوسرے مذہب کا مطالعہ مناظرانہ انداز کے بجائے ہمدردانہ انداز سے ہونا چاہے اور اس کے لیے ماہر اساتذہ مقرر ہونے چاہیے۔

پریس نوٹ میں کہا گیا ہے کہ صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے پروفیسر علی محمد نقوی نے کہا کہ مدارس میں اس کورس کو شروع کرنے سے پہلے مقصد، طریقِ کار، نصاب اور کورس کی کتابوں کی تیاری پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ کام بہت اہم ہے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی فیکلٹی دینیات، ہندی ڈیپارٹمنٹ، انٹر فیتھ سینٹر، نظامی سینٹر اور برج کورس سینٹر اس کام میں پوری مدد کریں گے۔ نصابی کتابیں بھی تیار کریں گے۔ اس جلسہ میں نصاب کا ایک خاکہ بھی تیار کیا گیا۔

کنگنا رناوت کی بکواس- بدلتے حالات منظر نامہمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

کنگنا رناوت کی بکواس- بدلتے حالات منظر نامہ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
کنگنا رناوت کو حال ہی میں صدر جمہوریہ ہند رام ناتھ کوند نے پدم شری اعزاز سے نوازا ہے، یہ ایک فلمی اداکارہ ہیں ، غیر قانونی طورپر تعمیر ان کے اسٹوڈیو بعض حصے کو ممبئی میں ادھے کمار حکومت میں گرایا گیا تو وہ سرخیوں میں آئیں، انہوں نے اپنے تحفظ کے لئے حکومت ہند کا سہارا لیا، انہیں کمانڈوز فراہم کرائے گئے جو ان کی جسمانی تحفظ کو یقینی بنائیں، عدالت نے گھر کے بقیہ حصوں کو زمین دوز کرنے پر حکم امتناعی دیا، ان واقعات کی وجہ سے انہوں نے فلم میں جتنی شہرت نہیں حاصل کی تھی، اس سے زیادہ ہفتہ دس دن میں ان کے مقدر میں آگئی، ذرائع ابلاغ نے ان کی صلاحیتوں پر اپنی توانائی صرف کی، مہاراشٹر میں مخلوط حکومت بی جے پی کے خلاف تھی،اس لئے الکٹرونک میڈیا نے خاص کر کنگنا کے خلاف کارروائی کو ہوا دی، کنگنا وہ زبان بولنے لگیں جو آر اس اس کی زبان تھی اور بی جے پی جس کو زمین پر اتارنے کی جد وجہد میں زمانہ دراز سے مصروف ہے۔ 
بی جے پی چاہتی ہے کہ ہندوستان کی تاریخ بدل کر رکھ دی جائے، چنانچہ آر اس اس کے مؤرخین نے اس پر کام بھی شروع کردیا ہے، اترپردیش کی یوگی حکومت شہروں کے نام بدل کر اسی ایجنڈے پر کام کر رہی ہے، کنگنا رناوت کو پدم شری کا اعزاز ملا تو ان کی زبان زیادہ کھلنے لگی، ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ’’ ۱۹۴۷ئ؁ کی آزادی بھیک میں ملی تھی، اصل آزادی ۲۰۱۴ئ؁ میں ملی‘‘ کنگنا رناوت کو شاید یہ معلوم نہیں کہ جس آزادی کو وہ بھیک میں ملی آزادی کہہ رہی ہے وہ ہزاروں مجاہدین آزادی کے دارورسن کے نتیجے میں ملی تھی، ہزاروں ماؤں کے سہاگ اجڑے تھے تب یہ آزادی حاصل ہوئی تھی، کنگنا رناوت کا یہ بیان ان مجاہدین آزادی کی توہین ہے جوسربکف ہو کر میدان میں نکلے، پھانسی کے پھندے کو چوما، جیل کی صعوبتیں برداشت کیں، ان میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہے، غیرمسلموں کی قربانیاں ہیں، سب کو کنگنا رناوت نے بھیک کہہ کر برباد کردیا، بھیک کشکول گدائی لے کر گھومنے سے ملتی ہے نہ کہ جان وجسم کا نذرانہ پیش کرنے سے ، یہ بھیک نہیںہے ، ہمارے مجاہدین کی بے پناہ قربانیوں کے طفیل انگریز مجبور ہو گئے تھے کہ ہمیں آزادی کا پروانہ دیں، برطانوی حکومت کی جانب سے آزادی کا پروانہ دینا ان کی مجبوری تھی اور مجبوری کے اس مقام تک انہیں ہمارے مجاہدین آزادی نے پہونچایا تھا۔
مودی حکومت کی ثناخوانی میں وہ یہ بھی بھول گئیں کہ بھاجپا کی حکومت کے سربراہ اس سے قبل اٹل بہاری واجپئی بھی رہ چکے ہیں اور اگر ہندتوا کے غلبہ کی وجہ سے وہ ایسا کہہ رہی ہیں تو اس بکواس کے سرے کو اٹل بہاری واجپئی تک انہیں لے جانا چاہئے تھا، انہیں یہ بھی بتانا چاہئے تھا کہ جس دستور کی رو سے یہ ملک جمہوری قرار پایا اور جس کی تیاری میں دو سال گیارہ ماہ اٹھارہ دن لگے بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈ کر نے جس کی تدوین کو آخری شکل دینے کے لئے سات ہزار چھ سو پنتیس ترمیمات کو پڑھ کر پانچ ہزار ایک سو باسٹھ ترمیمات کو رد کردیا تھا اور صرف دو ہزار چار سو تہتر کو قابل اعتنا سمجھا تھا اس دستور کی حیثیت بھاجپا کے اس دور حکومت میں کیارہ گئی ہے؟ کنگنا رناوت آر اس اس کی گود میں کھیل رہی ہیں، وہ موہن بھاگوت کی زبان سے بول رہی ہیں، ۲۰۱۴ئ؁ میں آر اس اس سربراہ موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ آج گیارہ سو سال کی غلامی کے بعد بھارت آزاد ہوا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ موہن بھاگوت بھی ۱۹۴۷ئ؁ کی آزادی کو آزادی تسلیم نہیںکرتے، شاید یہی وجہ ہے کہ تحریک آزادی کی قیادت گاندھی ، نہرو اور مولانا آزاد سے لے کر سردار پٹیل کے نام کیا جارہا ہے اور حالت یہ ہو گئی ہے کہ ۱۴؍نومبر کو ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی یوم پیدائش کی تقریب میں جو پارلیامنٹ میں منعقد ہوا کرتی ہے لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے صدر نشیں (اسپیکر) بھی غائب رہے، کابینہ کا کوئی سنیر وزیر نظر نہیں آیا، ایسے میں کنگنا رناوت جو کہہ رہی ہیں اس میں وہ اکیلی نہیں ، پورا سسٹم شامل ہے، اکیلی کنگنا روات کی سوچ کو پدم شری اعزاز واپس لے کر بدلا جاسکتا ہے، لیکن نظام حکومت، بھاجپا کی پالیسی اور آر اس اس کے نظریات کی روشنی میں جس طرح چلایا جارہا ہے، اس کو بدلنے کے لئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، سیاسی پارٹیاں بہت کچھ کرسکتی ہیں، لیکن جمہوریت کی بقا سے زیادہ انہیں ہندتوا کے نام پر ووٹ بٹور نے میں زیادہ دلچسپی ہے، اس لئے وہ سب خاموش ہیں اور ان کی خاموشی سے فرقہ پرست طاقتوں کو تقویت پہونچ رہی ہے، کنگنا رناوت تو صرف ایک مہرہ ہے، شطرنج کی بساط پر مہروں کے چلنے کے لئے بھی قاعدہ قانون موجود ہے، لیکن آج ہندوستان کی بساط پر جومہرے چلے جارہے ہیں ان کے لئے کوئی قاعدہ قانون نہیں ہے، جو من میں آئے کرو اور جو منہ میں آئے بولو۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...