Powered By Blogger

جمعرات, دسمبر 02, 2021

بہار : مظفرپور میں موتیابند کے آپریشن کے بعد 65 افراد بینائی سے محروم ، 15 کی آنکھیں نکالنی پڑی

بہار : مظفرپور میں موتیابند کے آپریشن کے بعد 65 افراد بینائی سے محروم ، 15 کی آنکھیں نکالنی پڑی

مظفر پور: بہار کے مظفر پور میں لوگوں کی صحت کے ساتھ زبردست لاپروائی کا انکشاف ہوا ہے۔ یہاں کے آئی اسپتال میں 22 نومبر کو 65 مریضوں کا موتیا بند کا آپریشن کیا گیا تھا، میڈیا رپورٹ کے مطابق تمام مریض بینائی سے محروم ہو گئے ہیں اور اب تک انفیکشن کے سبب 15 مریضوں میں کی آنکھیں نکالنی پڑیں۔ معاملہ کا انکشاف ہونے کے بعد بہار کی سیاست میں بھونچال آ گیا ہے۔ سول سرجن ڈاکٹر ونے کمار شرما نے اے سی ایم او کی قیادت میں تفتیشی ٹیم کا قیام کر کے تین دن میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔ متاثرہ مریضوں کا علاج ایس کے ایم سی ایچ میں کرانے کا انتظام کیا گیا ہے۔

تیجسوی یادو نے اس معاملہ پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا، ''ملک کی سب سے بدحال اور فسڈی بہار کے نظام صھت کا ایک نظارہ دیکھئے۔ مظفرپور میں 65 لوگوں کی آکھنوں کا آپریشن کیا گیا، ایک ہی ٹیبل پر سب کا آپریشن، روشنی تو دور کی بات، سبھی کی آنکھیں نکالنی پڑیں۔ وزیر اعلیٰ اور بی جے پی کے وزیر صحت کو عوام سے کوئی لینا دینا نہیں۔''

اطلاعات کے مطابق 22 نومبر کو مظفر پور کے آئی ہسپتال میں 65 لوگوں کا موتیا بند کا آپریشن کیا گیا تھا۔ جس کے بعد بیشتر مریضون کی آنکھوں میں انفیکشن ہو گیا۔ 29 نومبر کو کچھ متاثرہ مریضوں کے رشتہ دار اسپتال پہنچے اور ہنگامہ کرنے لگے، جس کے بعد یہ معاملہ میڈیا کے علم میں آیا۔

اس معاملے پر سول سرجن ڈاکٹر ونے کمار شرما نے بتایا کہ جتنے بھی مریض آ رہے ہیں، ان کے علاج کے لیے ایس کے ایم سی ایچ میں انتظامات کیے گئے ہیں۔ حتمی رپورٹ ابھی نہیں آئی اس لیے کوئی ایک تعداد نہیں بتائی جا سکتی۔ ڈاکٹر کے مطابق 11 مریضوں کا آپریشن کر کے متاثرہ آنکھ نکال دی گئی ہے۔ جبکہ اس کے بعد مزید 4 مریضوں کی آنکھیں بھی نکال دی گئیں۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق ایس کے ایم سی ایچ میں 24 گھنٹے علاج کیا جا رہا ہے اور ان مریضوں کا ترجیحی بنیادوں پر علاج کیا جا رہا ہے جنہوں نے موتیا بند کے آپریشن کی وجہ سے اپنی بینائی کھو دی ہے۔ شتروہن مہتو کا بھی 22 نومبر کو موتیا بند کا آپریشن کیا گیا تھا لیکن ان کی آنکھ میں انفیکشن ہوگیا اور پھر ایک آنکھ نکالنی پڑی۔ اب اس کا خاندان مشکل میں ہے۔ شتروہن مہتو اپنے گھر میں اکلوتا کمانے والا ہے، بڑا بیٹا ذہنی طور پر بیمار ہے، اس لیے ساری ذمہ داری ایک ہی شخص پر ہے۔

بہار قانون ساز کونسل میں اپوزیشن لیڈر اور بہار کی سابق وزیر اعلیٰ رابڑی دیوی نے کہا ہے کہ نتیش حکومت لاپروائی سے آپریشن کرنے والے ان ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے، جن کی وجہ سے کئی لوگوں کی آنکھیں ضائع ہو گئیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر متاثرہ کو مناسب معاوضہ دیا جائے اور لواحقین کی ہر طرح سے مدد کی جائے

بدھ, دسمبر 01, 2021

ایک تھا غافل جس نے کردیا بیدار*بچپن میں ہوش سنبھالتےہی جس نام نے سوچنے پر مجبور کیا وہ غافل ہے۔مجھے اچھی طرح یہ بات یاد ہے کہ میں نے اپنے والد گرامی قدر سے بچپنے میں پوچھ لیاکہ ابو! لوگ ہارون رشید بھائی کو غافل کیوں کہتے ہیں؟

*ایک تھا غافل جس نے کردیا بیدار*
بچپن میں ہوش سنبھالتےہی جس نام نے سوچنے پر مجبور کیا وہ غافل ہے۔مجھے اچھی طرح یہ بات یاد ہے کہ میں نے اپنے والد گرامی قدر سے بچپنے میں پوچھ لیاکہ ابو! لوگ ہارون رشید بھائی کو غافل کیوں کہتے ہیں؟
 والد صاحب میری عمر اور سمجھ کو دیکھ کر اس وقت گول مول سا جواب دیےکہ وہ شعر کہتے ہیں، اس لیے انہیں لوگ غافل کہتے ہیں۔
والد صاحب کے جواب سے میں بالکل بھی مطمئن نہیں تھا،اسی وقت سے میں نے خود موصوف مرحوم کو پڑھنے کی کوشش کی اور مجھے غافل شناسی کی فکر دامنگیر رہی۔
مرحوم رشتہ میں بھائی تھے، دروازہ پر نکلتے ہی چند گز کے فاصلے پر موصوف کا مکان واقع ہے۔گھر سے باہر قدم رکھتے ہی نظر آجاتے،بار بار اور ایک دن میں کئی ہم آمنے سامنے ہوتے، اوران کی سرگرمیوں کو سمجھنے کی کوشش بھی ہوتی۔
کبھی کالے کوٹ میں ہیں تو ایڈووکیٹ ہیں، کبھی لمبی ٹوپی سر پر رکھے شال کندھے پر ہےتوآپ شاعر ہیں، جلسہ کے اسٹیج پر مائک ہاتھ میں ہےاور سب سے آگے ہیں تو بہترین ناظم ہیں، رکشا پر مائک ہے اعلان ہورہا ہے اسمیں آپ کی آواز آرہی ہے تو بہترین اناؤنسر ہیں، لکچر دے رہے ہیں تو بہترین پروفیسر ہیں۔
دیکھنے اور محسوس کرنے پر آپ سب کچھ معلوم ہوتے ہیں مگر غافل کہیں سے نظر نہیں آئے ہیں۔
اور ایسا غافل میں نے اپنی عمر میں نہیں دیکھا جو ہمیشہ بیدار رہتا ہو اور لوگوں کو بیدار کرتا رہتا ہو۔کہاں کیا ہوا؟کس کا انتقال ہوا؟کس کو کسن نے گولی ماری؟ گاؤں سے لیکر دنیا بھر کی اہم خبروں کووہ مقامی زبان کلہیا میں منظوم سنایا کرتے تھے، اور بچوں کو اپنے پیچھے لیکر جلوس کی شکل میں بھی چلا کرتے۔
اپنی عمر کے پندرہویں سال سے سے ہی شعر کہنا شروع کیا تھا،ولادت 5مئی 1965ءمیں ہوئی اور 1980ءمیں مقامی زبان پرآپ نےشاعری کی ابتدا کی ہے۔مقامی بولی کا بڑا فائدہ  آپ کویہ ملا کہ عوام الناس کو اپنی بات سمجھانے میں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا، یہی وجہ ہے کہ اس بات پر انہیں بہت فخر تھا کہ وہ کلہیا زبان کے شاعر ہیں۔
اردو زبان میں بھی آپ کی شاعری نےاپنے گاؤں سماج اور علاقے کی ہی نمائندگی کی ہےاور لوگوں کو بیداری کا پیغام دیا ہے۔ایک غریب ماں کے درد کو یوں بیان کیا ہے، 
ع غریب ماؤں کی عزت بھی اب نہیں محفوظ 
زمین قلب میں تو برپا زلزلہ کردے۔
زندگی کے تعلق سے کتنا قیمتی شعر کشید کیا ہے، ملاحظہ ہو،
کیا بتاؤں میں کہ کیا ہے زندگی 
اک مسلسل تجربہ ہے زندگی ۔
ناامیدی کے لیے مذہب اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔مرحوم شاعر نے اپنے سماج ومعاشرہ کو بہت قریب سے دیکھا اور کتنا حوصلہ بخش شعر کہا ہے:
نا امیدی کس کو کہتے ہیں مجھے معلوم کیا
تم نےیارو مجھ کو دیکھا ہے مغموم کیا 
جس نے سمجھا ہی نہیں مجھکو کبھی اچھی طرح 
وہ سمجھ پائے گا مظلوم کیا معصوم کیا 
معاف کردینا مجھے غافل سمجھ کردوستو!
بیخودی میں میں نے جانے کردیا منظوم کیا۔
آپ ریڈیائی صحافت سے 1987ءمیں ہی وابستہ ہوگئے تھے، 1992ءمیں آکاش وانی پورنیہ سے وابستہ ہوئے۔اس اسٹیج سے پورے بہار کے لوگوں میں بیداری کا فریضہ انجام دیتے رہے۔
1990ء میں جب ارریہ باضابطہ ضلع بنا تو آپ نے اپنا محور خاص طور پر اسے بنالیا۔یوم آزادی اوریوم جمہوریہ کے موقع پر آپ شبھاس اسٹیڈیم میں سرکاری اناؤنسر ہوا کرتے، ہم سبھی پورے گاؤں سے جاکر سنتے دیکھتے اور محظوظ ہوا کرتے، اپنے بیدار، تیاراور ہوشیار غافل پر فخر کیا کرتے تھے۔اللہ نے بڑی صلاحیت سے مالامال کیا تھا،جس جگہ جو بولتے اور جیسا اشارہ کرتے وہی درست معلوم ہوتا تھا، پورے مجمع کو اپنی جانب کھینچ لیا کرتے اور جو جہاں ہوتا وہیں صرف آپ کی طرف دیکھ رہا ہوتا تھا۔آبروئے سیمانچل کے ساتھ ساتھ شان ارریہ ایوارڈ سے بھی نوازے گئے۔
1999ءمیں باضابطہ شاکچھرتا ابھیان کی شروعات کی اور علاقے کا طوفانی دورہ شروع کیا، گھر گھرجاکر لوگوں کو یہ کہتے ریے،
غافل ہوں بیدار کروں گا، 
اور،
 پڑھے گی رضیہ پڑھے گا ہریا،شاکچھر ہوگا ضلع ارریہ۔
اس کی پسماندگی کا خیال موصوف کو تاحیات کچوکے لگاتا رہا۔اور رہ رہ کر حوصلہ کمزور بھی ہوا مگر آپ کمزور نہیں ہوئے بلکہ یوں گویا ہوئے:
نئی امید نئی زندگی عطا کردے
بلند میرا ہمالہ سے حوصلہ کردے۔
قدم قدم پہ جو فانوس بن سکے میرا 
تو میرے ساتھ کوئی ایسا قافلہ کردے۔
گیاری گاؤں سے کئی لوگ دارالعلوم ندوةالعلماء لکھنؤ میں زیر تعلیم تھے۔مولانا مصور عالم صاحب ندوی اور ناچیز جب فراغت کے بعد گاؤں آئے، اتفاق سے کئی اجلاس میں مرحوم بڑے بھائی جناب ہارون رشید صاحب غافل کے ساتھ ہم دونوں بھی شریک اجلاس ہوئے، تو انہیں شاید یہ محسوس ہوا کہ میری دعا قبول ہوگئی ہے، اور میں اکیلا نہیں ہوں  اب یہ قافلہ بن گیا ہے، برملا موصوف نے اس کا اظہار کردیا اور برجستہ یہ کہا کہ: گیاری میں میری دو آنکھیں ہیں، ایک مولانامصور صاحب اور دوسری میں ناچیز کی طرف اشارہ تھا۔
آپ کے انتقال کا واقعہ بھی تاریخی بنا ۔اچانک یہ خبر آئی کہ انتقال ہوگیا ہے، پھر یہ خبر آئی کہ سانس چل رہی ہے۔اسمیں بھی سمجھنے والوں کے لئے بڑا پیغام ہے۔جو آدمی علم کی خدمت کے لئے اپنے کووقف کردیتا ہے وہ حدیث کی روشنی میں نہیں مرتا ہے، مرنے کے بعد بھی ان کی علمی سانس چلتی رہتی ہے۔اللہ جملہ خدمات کو قبول کرے اور جنت الفردوس نصیب فرمائے۔آمین 
ایں دعا از من وجملہ جہاں آمین باد۔
ہمایوں اقبال ندوی ،ارریہ 
رابطہ، 9973722710

شاکر کریمی- ادب کا ایک ستون گرگیامفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہعصر حاضر کے ممتاز شاعر، ادیب، نامور افسانہ نگار اور ایک درجن سے زائد کتابوں کے مصنف جناب شاکر کریمی کا طویل علالت کے بعد ۱۳؍ نومبر ۲۰۲۱ء کو ان کے آبائی شہر بتیا مغربی چمپارن میں انتقال ہو گیا

شاکر کریمی- ادب کا ایک ستون گرگیا
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
عصر حاضر کے ممتاز شاعر، ادیب، نامور افسانہ نگار اور ایک درجن سے زائد کتابوں کے مصنف جناب شاکر کریمی کا طویل علالت کے بعد ۱۳؍ نومبر ۲۰۲۱ء کو ان کے آبائی شہر بتیا مغربی چمپارن میں انتقال ہو گیا،جنازہ کی نماز بعد نماز ظہر مدرسہ یتیم خانہ بدریہ بتیا میں ادا کی گئی، مولانا علی احمد قاسمی سابق امام جامع مسجد بتیا نے نماز پڑھائی، اور گنج نمبر ایک کے چھوٹی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ ،ایک لڑکا ڈاکٹر نوشاد احمد کریمی اور ایک لڑکی طلعت فاطمہ کریمی کو چھوڑا، صاحبزاہ ڈاکٹر نوشاد احمد کریمی گلاب میموریل کالج بتیا میں اردو کے لکچرر ہیں۔
 شاکر کریمی کے قلمی نام سے مشہور امتیاز احمد کریمی بن مولوی محمد عنایت کریم بَرتَر آروی بن شیخ مولانا بخش (کواتھ) بن حکیم ظہور احمد(غازی پور) ۱۰؍ مارچ ۱۹۴۲ء کو مغربی چمپارن کے شہر بتیا میں پیدا ہوئے، ان کے والد کو اتھ آرہ سے نقل مکانی کرکے بسلسلہ ملازمت بتیا آئے، اور یہیں کے ہو کر رہ گیے، بتیا راج میں منشی تھے، یہیں ان کی شادی حافظ سلامت علی کی صاحب زادی کریم النساء سے ہوئی،میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کی دلچسپی شاعری سے ہو گئی ، ’’ریزۂ مینا‘‘(مطبوعہ ۱۹۸۵) ان کی شاعری کا مجموعہ ہے اور مقبول ہے، اس کی مقبولیت کی وجہ اس کی تغزل آمیز جدیدیت ہے، اس کے اشعار میں محبت کی زیریں لہریں، فرقت کی کسک اور عصری حسیت کی بھر پور عکاسی ملتی ہے،۱۹۷۰ء سے قبل شاعری سے زیادہ ان کا وقت افسانہ نگاری پر صرف ہونے لگا اور ۱۹۷۰ء آتے آتے وہ ملک کے نامور افسانہ نگار بن گیے ،ایک زمانہ تک بتیا کی ادبی عظمت کا اقرار عظیم اقبال اور شاکرکریمی کے افسانوں کے ذریعہ ہوا کرتا تھا، جس زمانہ میں خوشتر گرامی بیسویں صدی نکالا کرتے تھے ان دونوں (عظیم اقبال اور شاکر کریمی )کے افسانے کثرت سے اس میں چھپا کرتے تھے، ان کے افسانے سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی وغیرہ کی طرح نہیں ہیں، شاکر کریمی کے یہاں حقائق کو بے لباسی کے ساتھ بیان کرنا جرم تھا، ان کے افسانوں میں مقصدیت ہے اور اس کی تہہ داری قاری کو اپنی طرف متوجہ کیا کرتی ہے ، ان کے کئی افسانوی مجموعے پر دے جب اٹھ گئے (۲۰۱۷)، ایک دن کا لمبا سفر اور صحرا(۲۰۱۴)، پیاس اور تنہائی(۲۰۰۹) خاص طور پر قابل ذکر ہیں، انہوں نے ناول نویسی پر بھی اپنا وقت صرف کیا، ان کی ایک ناول ’’جشن کی رات‘‘(۲۰۰۹) کے عنوان سے طبع بھی ہوئی تھی، بتیا میں کتاب کی رسم اجراء کی تقریب کا آغاز ان کے افسانوی مجموعہ’’ اپنی آگ‘‘(۱۹۹۱) سے ہوا تھا۔ان کے افسانے کا مواد ہمارے گرد وپیش کا ہوتا ہے ، ان میں مقصدیت ہوتی ہے، اس لیے اس سے سماجی اصلاح کا کام بھی لیا جا سکتا ہے۔
 شاعری انہوں نے مختلف اصناف میں کی، لیکن نظم اور غزل کے شاعر کی حیثیت سے اہل علم وادب میں متعارف ہوئے، یادیں، دعوت، چلے بھی آؤ ، تم بن، تلاش، کانٹے، شہنائی اور پھر ایسا ہوا، نیز احساس وغیرہ کا شمار ان کی کامیاب نظموں میں ہوتا ہے ۔
 جن افسانوں کی وجہ سے ان کو شہرت ملی ان میں ایک اور گوتم، ایک دن کا لمبا سفر، اگر تم نہ آئے، وہ کون ہے، واردات، بھٹکا ہوا آدمی ، ٹوٹی ہوئی عورت، زخموں کی مہک ، آگ ہی آگ، ذراسی بات، پھر وہی جھوٹی انا ، خوشبو تیرے بدن کی ، پردہ ، انہونی بات  خاص طور سے قابل ذکر ہیں، اس طرح کہنا چاہیے کہ وہ بیک وقت شاعر ، افسانہ اور ناول نگار تھے، وہ پوری زندگی اصناف ادب کی مشاطگی اور اردو کے فروغ کے لیے کوشاں رہے، ان کی تخلیقات ملک کے مؤقر رسائل وجرائد میں شائع ہوا کرتی تھیں، واقعہ یہ ہے کہ ان کی ادبی خدمات کو نہ تو نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی فراموش ۔
ان کی حیات وخدمات پر ۲۰۰۳ء میںاقبال جاوید کولکاتہ نے تحقیقی مقالہ لکھ کر بھیم راؤ امبیڈکر بہار یونیورسیٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، شاکر کریمی کا تخلیقی شعور کے نام سے ڈاکٹر عدیلہ نسیم مئو ناتھ بھنجن نے بھی ایک کتاب مرتب کی ہے۔ 
شاکر کریمی صاحب کپڑوں کی تجارت کرتے تھے ان کی شادی ۴؍ اپریل ۱۹۶۵ء کو احمد علی صاحب سیتامڑھی کی دختر نیک اختر حفصہ خاتون سے ہوئی، جو حی القائم ہیں۔
 جناب شاکر کریمی سے میری ایک ہی ملاقات تھی ، لیکن تفصیلی تھی، میں ان دنوں مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور میں استاذ تھا اور بزم احباب ادب ویشالی کے ذمہ داروں میں تھا، ہم لوگوں نے فیصلہ کیا کہ ایک آل بہار مشاعرہ کرانا چاہیے، ڈاکٹر عبد الرؤف ، مولانا مظاہر عالم قمر، مولانا رئیس اعظم سلفی اور راقم الحروف  (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی )نے طے کیا کہ مشاعرہ چونکہ مدرسہ کے احاطہ میں ہے اس لیے نہ تو شاعرات کو مدعو کیا جائے گا اور نہ ہی شرابی شاعر کو، اس موقع سے  دونوں بھائی شاکر کریمی اور صابر کریمی کو مشاعرہ میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی، اور انہوں نے تشریف لا کر ہماری حوصلہ افزائی فرمائی تھی، مشاعرہ کے ایک حصہ کی نظامت ان کے بھائی صابر کریمی نے کیا تھا، دونوں بھائی کی شرافت، محبت اور ان کی فنی عظمت سے بھر پور شاعری کو میرے لیے بھُلانا آج بھی ممکن نہیں ہے ، ان دنوں مجھے بڑے لوگوں سے آٹو گراف لینے کا شوق دیوانگی کی حد تک پہونچا ہوا تھا، میں نے جناب شاکر کریمی کو آٹو گراف بک بڑھایا، انہوں نے درج ذیل شعر لکھ کر اپنے دستخط ثبت کیے۔
لاؤں بھی تو کہاں سے لاؤں لکھنے کا انداز نیا
قلم پُرانا ہو تو شاکر بنتی ہے تحریر نئی
صابر کریمی نے لکھا 
فلک پہ ذکر تیرااور زمیں پہ حکم چلے 
ترے وجود کا مقصد ہے فقر میں شاہی 
یہ مشاعرہ ۲۵؍ مارچ ۱۹۸۹ء کو ہوا تھا اور بہت کامیاب تھا، پہلے دور میں ہی رات ختم ہو گئی تھی، آج شاکر کریمی ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن ان کا تخلیقی ادب خواہ وہ شاعری ہو یا افسانے ، ان کی خدمات کے زریں اور تابندہ نقوش ہیں، اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل دے آمین۔ یا رب العالمین

منگل, نومبر 30, 2021

کل سے بدل جائیں گے یہ 5 قوانین ، آپ کی جیب پر پڑے گا سیدھا اثر ، جانئے کیا ہونے والی ہے تبدیلی؟

کل سے بدل جائیں گے یہ 5 قوانین ، آپ کی جیب پر پڑے گا سیدھا اثر ، جانئے کیا ہونے والی ہے تبدیلی؟

نئ دہلی : یکم دسمبر یعنی کل سے کئی قوانین میں تبدیلی ہونے والی ہے ۔ ان تبدیلیوں میں ایل پی جی رسوئی گیس سلینڈر کے دام ، ہوم لون آفر، ایس بی آئی کریڈٹ کارڈ آفر ، آدھار ۔ یو اے این لنکنگ وغیرہ شامل ہے ۔ بتادیں کہ ہر نئے مہینے کی پہلی تاریخ کو کچھ نئے قوانین لاگو ہوتے ہیں یا پھر پرانے قوانین میں کچھ تبدیلی کے ساتھ لاگو ہوتے ہیں ۔

یو اے این ۔ آدھار لنکنگ
آپ اگر نوکری پیشہ ہیں اور آپ کا یونیورسل اکاونٹ نمبر ہیں تو اس کو 30 نومبر تک آدھار نمبر سے لنک کرادیں ۔ یکم دسمبر 2021 سے کمپنیوں کو صرف انہیں ملازمین کے ای سی آر فائل کرنے کیلئے کہا گیا ہے کہ جن کا یو اے این اور آدھار لنکنگ ویریفائی ہوچکی ہے ۔ جو ملازم کل تک یہ لنک فائل نہیں کر پائیں گے ، وہ ای سی آر بھی فائنل نہیں کرپائیں گے ۔

ہوم لون آفر
فیسٹیو سیزن کے دوران زیادہ تر بینک ہوم لون کے الگ الگ آفر دئے تھے ، جس میں پروسیسنگ فیس میں معافی اور کم شرح سود وغیرہ شامل ہے ۔ زیادہ بینکوں کے آفر 31 دسمبر کو ختم ہورہے ہیں ، لیکن ایل آئی سی ہاوسنگ فائنانس کا آفر 30 نومبر تک ختم ہورہا ہے ۔

ایس بی آئی ڈیبٹ کارڈ
اگر آپ ایس بی آئی کریڈٹ کارڈ استعمال کرتے ہیں تو یکم دسمبر سے ایس بی آئی کے کریڈٹ کارڈ سے ای ایم آئی پر شاپنگ مہنگی ہوجائے گی ۔ ایس بی آئی کارڈ استعمال کرنے پر ابھی صرف سود دینا ہوتا تھا ، لیکن یکم دسمبر سے پروسیسنگ فیس بھی دینی ہوگی ۔

گیس سلینڈر کے دام
ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو گیس سلینڈر کے دام طے کئے جاتے ہیں ۔ مہینے کی پہلی تاریخ کو کمرشیل اور گھریلو سلینڈروں کے نئے ریٹ جاری کئے جاتے ہیں ۔ یکم دسمبر کی صبح نئے ریٹ جاری کئے جائیں گے ۔

لائف سرٹیفکیٹ
اگر آپ بھی پینشنرس کی کٹیگری میں آتے ہیں تو آپ کے پاس بہت بہت کم وقت بچا ہے ۔ پینشنرس آج اپنا لائف سرٹیفکیٹ جمع کرا دیں ، ورنہ یکم دسمبر سے آپ کو پینشن ملنی بند ہوجائے گی ۔

(بشکریہ: نیوز 18)

کسانوں کی جیت مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہتقریبا سال بھر کے احتجاج ، دھرنے ، مظاہرے اور سات سو کسانوں کی جان کی قربانی کے بعد آخر مودی حکومت نے یہ تسلیم کر لیا کہ اسے یہ قانون واپس لینا چاہیے

کسانوں کی جیت 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
تقریبا سال بھر کے احتجاج ، دھرنے ، مظاہرے اور سات سو کسانوں کی جان کی قربانی کے بعد آخر مودی حکومت نے یہ تسلیم کر لیا کہ اسے یہ قانون واپس لینا چاہیے، اس لمبی مدت میں کسانوں پر جو ظلم ڈھائے گیے، لکھیم پور کھیری میں جس طرح کسانوں پر مرکزی وزیر اجیت مشرا کے بیٹے نے گاڑی دوڑادی اس کی ایک الگ کہانی ہے، کسانوں کے اس پر امن احتجاج کو بدنام کرنے کے لیے لال قلعہ کی فصیلوں تک کا سہارا لیا گیا اور بی جے پی کے کارندوں نے اس کے لیے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی، اس واقعہ کو ہوا دے کر تحریک کو کمزور کرنے اور بدنام کرنے کا کام لیا گیا ، قریب تھا کہ یہ احتجاج اپنی موت مرجاتا، لیکن راکیش ٹکیت کو قیادت کا فن آتا ہے، اس طرح کسانوں کے سامنے گلو گیر ہوئے اور آنسوؤں کے قطرے گرائے کہ تحریک میں پھر سے نئی جان پڑ گئی، کسانوں نے مڑ کر نہیں دیکھا او اپنی بات منوا کر دم لیا۔
 کسانوں کی اس تحریک کو دبانے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا گیا، ان پر لاٹھیاں برسائی گئیں، پانی کی تیز دھار چھوڑی گئی، عارضی مسکن کو اکھاڑ پھینکا گیا، سخت ٹھنڈ میں کسان کھلے آسمان کے نیچے پڑے رہے، اتنے پر ہی بس نہیں کیا گیا، ان پر طنز کیے گیے ، نفسیاتی طور پر کمزور کرنے کے لیے وزیر اعظم سے بھاجپا کے چھوٹے کارندوں نے بھی پتہ نہیں کیا کیا جملے کسے، انہیں غدار اور خالصتانی کہا گیا ، وزیر زراعت تومڑ سنگھ کا فرمان تھا کہ بھیڑ اکٹھا ہونے سے قانون واپس نہیں ہوتے، مرکزی وزیر وی کے سنگھ یہ پرچار کرتے پھر رہے تھے کہ تصویر میں کئی لوگ کسان نہیں لگتے، مرکزی وزیر راؤ صاحب تانوے کو کچھ زیادہ غصہ آگیا ، انہوں نے کہا کہ اس تحریک کے پیچھے پاکستان اور چین کا ہاتھ ہے، منوج تیواری اسے ٹکڑے ٹکٹرے گینگ قرار دے رہے تھے، پیوش گوئل کی سوچ تھی کہ کسان تحریک ماؤوادی فکر کے لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی ہے، بھانت بھانت کے لوگ، بھانت بھانت کی آوازیں، کسان ان پھینکے ہوئے جملے سے پست حوصلہ نہیں ہوئے، او راپنی تحریک ہر حال میں جاری رکھی، نوبت یہاں تک پہونچی کہ وزیر اعظم مودی کو کسانوں سے معافی مانگنی پڑی اور یہ کہنا پڑا کہ ہم کسانوں کو اس قانون کے فائدے سمجھانے میں ناکام رہے، انہیں امید تھی کہ کسان اس واضح اعلان کے بعد گھر کو چلے جائیں گے ، لیکن راکیش ٹکیت کچی گولی نہیں کھیلے ہوئے ہیں، انہوں نے اعلان کر دیا کہ ہم اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے، جب تک پارلیامنٹ میں اس قانون کو واپس نہیں لیا جاتا، ٹکیت نے کہا کہ تینوں زرعی قوانین کی واپسی ایک وجہ تھی ہمارے احتجاج کی ، حکومت کے اس فیصلے کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں، ہمارے مطالبات اس کے علاوہ بھی ہیںجو حکومت کو معلوم ہے ہمارا مطالبہ ہے کہ ایم اس پی گارنٹی قانون بنایا جائے، کسانوں پر کیے گیے مقدمات واپس لیے جائیں، تحریک کے دوران جان گنوانے والے کسانوں کے اہل خانہ کو نوکری کے ساتھ مناسب معاوضہ دیا جائے، ان مطالبات کو تسلیم کرائے بغیر ہمارے گھر واپسی کا سوال ہی پید انہیں ہوتا۔
 اس کا مطلب ہے کہ یہ لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے ، یہ اس وقت تک ختم نہیں ہوگی، جب تک حکومت کسانوں کے سامنے مکمل طور پر سجدہ ریز نہیں ہوجاتی ، وزیر اعظم کے لیے یہ آسان کام نہیں ہے، لیکن کئی ریاستوں کے اگلے انتخاب جس میں اتر پردیش سر فہرست ہے اور حالیہ ضمنی انتخاب میں شکست نے مودی حکومت کے رویے میں لچک پیدا کی ہے، جو لوگ کل تک وزیر اعظم کی اکڑ کے قائل تھے آج انہیں پست ہوتا ہوا بھی دیکھ رہے ہیں، کسانون کی تحریک، اس کے مضمرات اور نتائج دوسری تحریکوں پر بھی اثر انداز ہوں گے اور مسلمانوں کے لیے بھی اس میں بڑا پیغام ہے۔

پیر, نومبر 29, 2021

علی سردار جعفری کے یوم پیدائش پر خصوصی تحریر،تحریر - خرّم ملک كيتھویپٹنہ، بہار،آج ہی کے دن29 نومبر 1913 کو علی سردار جعفری اترپردیش کے گونڈہ ضلع کے بلرامپور میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے لکھنؤ میں ایک مذہبی ماحول میں پرورش پائی تھی۔ تعلیمی اعتبار سے انہوں نے لکھنؤ یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا

علی سردار جعفری کے یوم پیدائش پر خصوصی تحریر،

تحریر - خرّم ملک كيتھوی
پٹنہ، بہار،
آج ہی کے دن29 نومبر 1913 کو علی سردار جعفری اترپردیش کے گونڈہ ضلع کے بلرامپور میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے لکھنؤ میں ایک مذہبی ماحول میں پرورش پائی تھی۔ تعلیمی اعتبار سے انہوں نے لکھنؤ یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا 

علی سردار جعفری کا شمار ترقی پسند ادبی تحریک سے وابستہ اردو کے عظیم شاعروں میں ہوتا ہے، وہ بہ یک وقت ایک اچھے شاعر اور نقاد کی حیثیت سے ادب میں پہچانے گئے، وہ بے مثال مقرر ہیں، سیاسی رہنما بھی اور ادبی نظریہ ساز بھی،
وہ بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے لیکن انہوں نے غزلیں بھی کہیں، وہ سادہ گو اور سلیس شاعری کے دلدادہ رہے، رفعت سروش انکی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں 
"سردار جعفری عنفوان شباب میں اپنے اس شعر کے ساتھ مطلع شاعری پر طلوع ہوئے،
"دامن جھٹک کے منزل غم سے گزر گیا
اٹھ اٹھ کے دیکھتی رہی گرد سفر مجھے"
کہا جاتا ہے کہ وہ آٹھ سال کی عمر میں انیس کے مرثیے کے 1000 اشعار پڑھ سکتے تھے، 
انہوں نے مختصر کہانیاں بھی لکھیں، 
انہوں نے شکسپیئر کے کچھ ڈراموں کا بھی ترجمہ کیا، 

 ترقی پسند تحریک میں سب سے پہلا نام سجاد ظہیر کا آتا ہے لیکن علی سردار جعفری ترقی پسند تحریک کے روحِ رواں کی حیثیت کے طور پر جانے جاتے ہیں، 

وہ خود کہتے ہیں کہ:
"تحریک، تنظیم اور تخلیق کا باہمی رشتہ ہے، 

وہ ملک میں امن و شانتی کی فضا بھی قائم کرنا چاہتے تھے
نغمہ نگار کے طور پر انکے مختصر کاموں میں دھرتی کے لال 1946 اور پردیسی 1957 شامل ہیں،
1948 سے 1978 کے بیچ انکے شعری مجموعے شائع ہوئے ہیں
1- نئی دنیا کو سلام (1948)
2-خون کی لکیر، امن کا ستارہ, ایشیا جاگ اٹھا (1951)
3-پتھر کی دیوار (1953)
4- ایک خواب اور, پیراہن شرر (1965)
5- لہو پکارتا ہے (1965)
انہیں اسکے علاوہ اودھ کی خاک حسین، صبح فردا، میرا سفر اور انکے آخری شعری مجموعے"سرحد" جسے اس وقت کے وزیراعظم جناب اٹل بہاری واجپائی نے اپنے لاہور سفر کے دوران رکھا تھا، وزیراعظم نے سردار جعفری صاحب کو بھی اپنے ساتھ چلنے کو کہا لیکن علالت کی وجہ سے وہ لاہور سفر میں شرکت نہیں کر سکے،

ایوارڈز اور احترام

فراق گورکھپوری (1969) اور قرت العین حیدر(1989) کے بعد گیان پیٹھ ایوارڈ (1997) کو  حاصل کرنے والے وہ صرف تیسرے اردو شاعر تھے. انہوں نے پدم شری  (1967)، جواہر لال نہرو فیلوشپ (1971)، سمیت کئی دیگر اہم اعزازات اور اعزاز بھی وصول کیے تھے،  پاکستان حکومت اقبال مطالعہ (1978) کے لئے گولڈ تمغے (1978)، اترپردیش اردو اکیڈمی ایوارڈ کے لئے شاعری، مخدوم ایوارڈ، فیض احمد فیض ایوارڈ، مدھیہ پردیش حکومت سے اقبال سمان ایوارڈ اور مہاراشٹر حکومت سے سینٹ دیوانشور ایوارڈ بھی حاصل کیا،

انکی شاعری وہ شاعری ہے جو رہتی دنیا تک قائم و دائم رہے گی جب تک اردو ادب سے محبت کرنے والے زندہ رہیں گے تب تک انکو سردار جعفری یاد آتے رہیں گے، انکی شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے جو انکو ادب کی دنیا میں تا حیات زندہ جاوید رکھے گی
آپ 1948 میں سلطانہ منہاج سے رشتہِ ازدواج میں منسلک ہوئے،

آپ 1 اگست 2000 کو حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے اس دار فانی سے کوچ کر گئے،

ڈاکٹر ممتاز احمد خان کی رحلت - ملی تعلیمی تحریک کا بڑا نقصانمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہعلی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے سابق پرووائس چانسلر، بابائے تعلیم، الامین تعلیمی تحریک ، الامین ایجوکیشنل سوسائٹی، الامین میڈیکل کالج ، بیجا پور، الامین لا کالج اور الامین اسکول بنگلورو کے بانی وقائد ڈاکٹر ممتاز احمد خان تقریبا پچاسی سال اس دنیا میں گزار کر ۲۷؍ مئی ۲۰۲۱ء کو سفر آخرت پر روانہ ہو گئے

ڈاکٹر ممتاز احمد خان کی رحلت - ملی تعلیمی تحریک کا بڑا نقصان
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے سابق پرووائس چانسلر، بابائے تعلیم، الامین تعلیمی تحریک ، الامین ایجوکیشنل سوسائٹی، الامین میڈیکل کالج ، بیجا پور، الامین لا کالج اور الامین اسکول بنگلورو کے بانی وقائد ڈاکٹر ممتاز احمد خان تقریبا پچاسی سال اس دنیا میں گزار کر ۲۷؍ مئی ۲۰۲۱ء کو سفر آخرت پر روانہ ہو گئے، انہوں نے زندگی کو پل پل جیا، اور سن شعور کے بعد پوری زندگی مسلمانوں کے اندر تعلیم کو عام کرنے، عصری تعلیم کو فروغ دینے میںلگادی اور الامین کا شہرہ ملک وبیرون میں پھیل گیا ، درازی عمر اور ضعف وناتوانی کی وجہ سے ادھر کچھ دنوں سے وہ الامین کے کاموں میں سر گرم حصہ داری نہیں نبھا رہے تھے، جس کا ان کو انتہائی افسوس تھا، زندگی بھر کام کرنے والا اگر کسی وجہ سے معذورسا ہو گیا ہو تو اس کی گھٹن اور اس کا کرب دیدنی ہوتا ہے، ڈاکٹر صاحب کی بھی یہی حالت تھی، چند ہفتوں سے ان کی بیماری نے شدت اختیار کر لی تھی ، اچ بی ایس اسپتال میں علاج کے بعد دو تین دن قبل ہی وہ گھر لوٹے تھے، لیکن زندگی نے ساتھ نہیں دیا اور قضا وقدر نے اپنا کام کر دیا۔ تدفین ان کی وصیت کے مطابق الامین رہائشی اسکول ہوسکوٹے کے احاطہ میں مسجد ممتاز سے قریب عمل میں آئی، بعد نماز جمعہ مسجد ممتاز سے متصل جنازہ کی نماز ادا کی گئی ۔
ڈاکٹر ممتاز احمد خان ۶؍ ستمبر ۱۹۳۵ء میں پونے مہاراشٹر میں پیدا ہوئے، ان کے والد کا نام یوسف اسماعیل خان اور ان کی والدہ کا نام سعادت النساء تھا، جنہوں نے علی گڈھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے تک تعلیم حاصل کی تھی ، والد لایر (وکیل) تھے، ان کی تعلیم بھی علی گڈھ میں ہی ہوئی تھی،انہوں نے پرائمری اسکول کی تعلیم آل سینٹ پرائمری اسکول تروچی راپلی تمل ناڈو اور ہائی اسکول کی تعلیم بشپ ہیبر ہائی اسکول پتورتروچراپلی تمل ناڈو اور پی یو سی کی تعلیم سینٹ جوزف کالج ترچی رابلی سے پائی،انہوں نے اسٹائلی میڈیکل کالج مدراس یونیورسٹی سے ۱۹۶۳ء میں ام بی بی اس اور اسٹائل کالج چنئی سے سر جری میں ام اس کیا تھا، انہوںنے شروع کے دو سال معالج کی حیثیت سے خدمت انجام دی، لیکن جلد ہی تعلیمی کاموں سے اس طرح جڑ گئے کہ ان کے لیے مریضوں کو دیکھنے کے لیے وقت نکالنا مشکل ہو گیا، چنانچہ پورے طور پر انہوںنے اپنے کو الامین تعلیمی تحریک کے لیے وقف کر دیا ، ۱۹۶۶ء میں جب ان کی عمر صرف اکتیس سال تھی ، جنوبی ہند میں تعلیمی انقلاب پیدا کرنے کے لیے الامین سوسائٹی قائم کیا، اس تحریک کے تحت ایک سو ستہتر سے زائد تعلیمی ادارے ملک بھر میں چل رہے ہیں، وہ صحافت کے میدان میں بھی انقلاب لانا چاہتے تھے، اس نقطۂ نظر سے انہوں نے سیاست حیدر آباد کو فروغ دیا اور اس کو ملک کے بڑے اخباروں میں لا کھڑا کرنے میں کلیدی رول ادا کیا۔
۲۷؍ دسمبر ۱۹۶۴ء کو بنگلورکی محترمہ زریں تاج صاحبہ سے وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے لڑکی اور ایک لڑکا اللہ نے عطا کیا، سب کی اچھی تعلیم وتربیت ڈاکٹر صاحب نے کی اور وہ سب مختلف میدانوں میں سرگرم عمل ہیں۔
 ڈاکٹر ممتاز احمد خان نے پوری زندگی ہر سطح پر تعلیم کے فروغ میں لگادی ، وہ جنوبی ہند کے سر سید کہے جاتے تھے، انہیں کئی بار پارلیامنٹ کا ٹکٹ اور راجیہ سبھا کی رکنیت پیش کی گئی، لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا انہوں نے فرمایا کہ میں پورے ہندوستان میں کا م کرنا چاہتا ہوں، کسی خاص حلقہ میں محدود ہوجانا میرے لیے ممکن نہیں، یہ بڑے دل گردے کی بات تھی، اس کے قبل انہوں نے اچھی خاصی ملازمت سے استعفا دے دیا تھا، وہ تعلیم کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے جنون میں مبتلا تھے، اور اس کام کے لیے کسی حد تک جانے کو تیار تھے، وہ خالص اسلامی ذہن ودماغ رکھتے تھے، صوم وصلوٰۃ کے پابند تھے اور مسجد کے بلند وبالا مینار اور تقدس ان کے دل ودماغ میں اس قدر جا بستے تھے کہ انہوں نے رہائشی اسکول کے احاطہ میں اپنی آفس ایسی جگہ بنائی تھی ، جہاں سے مسجد ان کی نظر کے سامنے ہو، انہوں نے اپنے ذریعہ قائم تعلیمی اداروں میں اسلامی ماحول اور دینیات کی تعلیم کا معقول نظم کیا اور ان کی تربیت پر خصوصی توجہ دی۔
 وہ ایک تعمیری ذہن کے مالک تھے، فرمایا کرتے تھے کہ بندہ جب اپنی تلاش میں تھک جاتا ہے تو اللہ کی نصرت ومدد ضرور آتی ہے، اس لیے راستے کے نشیب وفراز کو دیکھنے کے بجائے ہمیشہ منزل پر نظر رکھنی چاہیے، یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ کام کون کر رہا ہے ، بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ کام کیا ہو رہا ہے ، ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ وسائل واسباب کی کمی سے کام نہیں رکتا، کام میں رکاوٹ صرف خلوص کی کمی سے آتی ہے، اس لیے کہ جہاں خلوص ہو وہاں فلوس (پیسہ) آہی جاتا ہے،ا س لیے خدا کے غیبی خزانے پر نگاہ رکھو اپنی جیب کی استطاعت نہ دیکھو ، یہ اور اس قسم کے دوسرے بہت سارے اقوال پر وہ خود بھی عمل کرتے تھے، اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے رہا کرتے تھے۔
میری ان سے بہت ملاقات اور شنا سائی نہیں تھی، صرف دو ملاقات تھی، جس میںگفتگو کم دیدن زیادہ ہوا تھا، پہلی ملاقات بنگلور ہی میں الامین میں ہوئی تھی ، میرا یہ سفر جامعہ دار السلام عمر آباد میں منعقد ہونے والے فقہی سمینار کے موقع سے تھا، تھوڑا وقت انہوں نے علمائ، فقہاء کے ساتھ گذارنے کی دعوت دی تھی، اور ہم لوگ بصد شوق وہاں حاضر ہو گیے تھے اور ان کے خیالات کو براہ راست سننے کا پہلی بار موقع ملا تھا۔ 
 دوسری ملاقات پٹنہ میں ہوئی تھی ، غالبا یہ سفر ان کا تعلیمی کارواں کے ساتھ ہوا تھا، جس میں سید حامد، سلمان صدیقی، امان اللہ خان کے علی گڈھ کے ساتھ وہ بھی تشریف لائے تھے، پروگرام کرشن میموریل ہال میں تھا، اور بہت کامیاب رہا تھا ، اس ملاقات میں میرے لیے صرف مصافحہ کر لینا ممکن ہوا تھا، پھر ان کی تقریر نے دل ودماغ کے دروا زے پر دستک دی، اس دستک کی وجہ سے تعلیمی میدان میں کام کو آگے بڑھانے کا حوصلہ ملا تھا۔
 ایسی با فیض شخصیت کا دنیا سے چلا جانا بڑا تعلیمی وملی نقصان ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور ملت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمینیا رب العالمین

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...