Powered By Blogger

جمعہ, دسمبر 03, 2021

بہار میں ملک کے سب سے بڑے سونے کے ذخائر ملے ، کان کنی کے وزیر نے پارلیمنٹ میں دی جانکاری ،

بہار میں ملک کے سب سے بڑے سونے کے ذخائر ملے ، کان کنی کے وزیر نے پارلیمنٹ میں دی جانکاری ،

بہار میں ملک میں سب سے زیادہ سونے کے ذخائر ہیں۔ یہ اسٹور جموئی ضلع کے سونو بلاک کے کرماٹیا علاقے میں واقع ہے۔ مرکزی کانکنی وزیر پرہلاد جوشی نے خود بدھ کو پارلیمنٹ میں یہ جانکاری دی۔ پرہلاد جوشی نے انکشاف کیا ہے کہ جموئی کے پاس ملک میں سب سے زیادہ سونے کے ذخائر ہیں۔ جموئی ضلع کے سونو علاقے میں صرف 44 فیصد سونا ہے۔ وزیر کے انکشافات کے بعد ملک کی غریب ترین ریاستوں میں سے ایک بہار کی امیدیں جاگ اٹھی ہیں۔ مقامی لوگ بھی جلد سونے کی کان کنی شروع ہونے کے لیے پرامید ہیں۔

بہار بی جے پی کے صدر اور بیتیہ کے رکن پارلیمنٹ سنجے جیسوال نے بدھ کو لوک سبھا میں مرکزی کانکنی وزیر پرہلاد جوشی سے بہار کی ریاستوں میں سونے کے ذخائر کے بارے میں سوال کیا تھا۔ اس سوال کے جواب میں جانکاری دیتے ہوئے پرہلاد جوشی نے کہا تھا کہ بہار میں ملک کے سب سے زیادہ سونے کے ذخائر ہیں۔ بتایا گیا کہ ملک کے پاس 501.83 ٹن سونے کے بنیادی ذخائر ہیں۔ اس میں 654.74 ٹن سونے کی دھات ہے، جس میں سے 44 فیصد سونا صرف بہار میں پایا گیا ہے۔ ریاست کے جموئی ضلع کے سونو فیلڈ میں 222.885 ملین ٹن سونے کے ذخائر پائے گئے ہیں جن میں 37.6 ٹن دھاتی دھات بھی شامل ہے۔

جموئی ضلع کے سونو بلاک کے چورہیٹ پنچایت کا کرماٹیہ علاقہ کئی دہائیوں سے سونے کے ذخائر کو لے کر بحث میں ہے۔ یہاں کے لوگ بتاتے ہیں کہ بہت پہلے سے یہاں کی مٹی میں سونے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ملے تھے۔ بہت پہلے لوگ کرماٹیہ کے علاقے کی مٹی کو دریا کے پانی میں دھو کر سونا نکالنے کے لیے چھلنی کرتے تھے جس کی وجہ سے تقریباً 15 سال پہلے یہاں سرکاری ادارے کے لوگ آئے اور مہینوں بعد سروے کا کام ہوتا تھا۔
بتایا جا رہا ہے کہ اسی سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جموئی ضلع کے سونو بلاک کے اس کرماٹیہ علاقے میں ملک کے سب سے بڑے سونے کے ذخائر ہیں، کہا جا رہا ہے کہ یہاں 44 فیصد سونا پایا جا رہا ہے۔

جموئی کے سونو کے علاوہ دیگر بلاکس میں بھی کئی قسم کی معدنی دھاتیں پائی جاتی ہیں۔ ابرک کے علاوہ اس میں سلیمانی سمیت کئی قیمتی پتھر بھی شامل ہیں۔ ایسے میں بتایا جا رہا ہے کہ 15 سال قبل جیولوجیکل سروے آف انڈیا کے لوگوں کے سروے کے بعد کھدائی مہنگی ہونے کی وجہ سے دوبارہ شروع نہیں ہو سکی۔ لیکن، جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اب کھدائی پہلے کی نسبت سستی ہوتی جا رہی ہے، اس لیے اب اس بات کے بھی امکانات ہیں کہ یہاں سونے کی کان کنی جلد شروع ہو سکتی ہے

جمعرات, دسمبر 02, 2021

رشتوں کا احترا م کریں مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ہماری زندگی میں رشتوں کی بڑی اہمیت ہے، ان کی وجہ سے ہم تنہائی او راکیلا پن سے بچ جاتے ہیں اور ان کے ساتھ ہونے کی وجہ سے خوشی اور غمی میں ہمیں آگے بڑھنے اور غموں کے برداشت کرنے کا حوصلہ ملتا ہے ، زندگی میں کئی ایسے مواقع آتے ہیں

رشتوں کا احترا م کریں 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
ہماری زندگی میں رشتوں کی بڑی اہمیت ہے، ان کی وجہ سے ہم تنہائی او راکیلا پن سے بچ جاتے ہیں اور ان کے ساتھ ہونے کی وجہ سے خوشی اور غمی میں ہمیں آگے بڑھنے اور غموں کے برداشت کرنے کا حوصلہ ملتا ہے ، زندگی میں کئی ایسے مواقع آتے ہیں، جب رشتوں میں گرم جوشی باقی نہیں رہتی، کئی موقعوں سے رشتہ دار ہم سے ٹوٹ جاتے ہیں، ایسے موقع سے ہمیں ان اسباب وعوامل کی تلاش کرنی چاہیے، جن کی وجہ سے سرد مہری پیدا ہوئی یا رشتے ٹوٹ رہے ہیں، ان کی تلاش کے بعد ان کو دور کرنے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے، کیوں کہ ہماری توانائی اورطاقت کا بڑا حصہ رشتوں میں قربت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ، پلتا اور بڑھتا ہے ، رشتے ٹوٹتے ہیں تو ہم کمزور ہوجاتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ہمارے اندر کچھ ٹوٹ سا گیا ہے۔ رشتہ داروں میں کئی وہ ہوتے ہیں جو آپ سے کٹ کر زندگی گذارنا چاہتے ہیں، ان کو بھی جوڑنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
 رشتے صرف ماں باپ ، بہن بھائی، شوہر بیوی ہی کے نہیں ، پڑوسی ، سماج اور دوستوں سے بھی ہوا کرتے ہیں، جہاں ہم کام کرتے ہیں، جن کے ساتھ ہمارا اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے ، جو ہماری خوشی وغمی میں ہماری پشت پر کھڑے ہوتے ہیں، وہ لوگ جن تک دین کی دعوت پہونچانا ہماری ذمہ داری ہے اور جو امت دعوت ہیں وہ سب ہمارے رشتہ دار ہیں، ہم جو کچھ سوچتے ہیں، ان کے ساتھ جو برتاؤ کرتے ہیں، سامنے والا جو کچھ سوچتا ، بولتا اور ہمارے ساتھ برتاؤ کرتا ہے ، یہ سب رشتہ داری اور تعلقات کی سردی وگرمی کے مظہر ہوا کرتے ہیں، اس موقع پر ہمیں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان یاد رکھنا چاہیے ، جو عقبہ بن عامر ؓ سے آپ نے فرمایا تھا کہ جو تعلق توڑے اس سے صلہ رحمی کرو، جو تمہیں محروم کرے اسے عطا کرو اور جو تم پر ظلم کرے ا سے در گذر کرو، ایک دوسرے موقع سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبہ بن عامرؓ کو یہ بھی حکم دیاتھا کہ اپنی زبان کو قابو میں رکھو ، تمہارا گھر تمہیں اپنے اندر سما لے اور اپنی غلطیوں پر رویا کرو۔
 واقعہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عقبہ بن عامر ؓ کو جو نصیحتیں کیں، وہی رشتوں کے احترام کی اساس وبنیاد ہیں، رشتے صلہ رحمی نہیں کرنے سے ٹوٹتے ہیں، نا جائز طور پر مال ودولت ہڑپ کر لینے اور ظلم وستم سے ٹوٹتے ہیں، اس لیے اگر فریق ثانی تعلق منقطع کرنا چاہتا ہے ، واجب حق سے محروم کرنا چاہتا ہے اور ظلم وستم اس کا شیوہ بن گیا ہے تو بھی انسان کو یک طرفہ طور پر تعلقات بحال رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، اس کے لیے داد ودہش اور ظلم وستم کے مقابلے عفو ودر گذر سے کام لینا چاہیے۔ ایسے موقع سے زبان بے قابو ہوجاتی ہے اور جو منہ میں آیا آدمی بکنے لگتا ہے ، وہ اپنے گھر سے باہر نکل کر رشتے کی پامالی میں شریک ہوجاتا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کر دیا کہ رشتوں کو باقی رکھنے کے لیے زبان کو قابو میں رکھنا چاہیے، گھر سے بلا ضرورت نہیں نکلنا چاہیے، بلکہ گھر میں ہی رہنا چاہیے، پھر اس ظلم کے خلاف ممکن ہے تمہارا رویہ بھی شریعت کے خلاف ہو گیا ہو؛ اس لیے اپنی غلطیوں پر ندامت کے آنسو بہاؤ؛ تاکہ حالات درست ہوجائیں اور اللہ رب العزت ندامت کے آنسو کو قبول کر لیں۔
ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہمارا عمل ان میں سے کسی پر نہیں ہے ، اس لیے خاندان ٹوٹ رہے ہیں اور بھائی سے بھائی اور شوہر سے بیوی کے تعلقات بھی استوار نہیں ہیں، جس کی وجہ سے سماجی طور پر جو نقصانات اٹھانے پڑ رہے ہیں وہ اپنی جگہ، ذہنی تناؤ کے ہم جس قدر شکار ہیں اس نے ہماری زندگی کوعذاب بنا رکھا ہے ، اللہ ہم سب کو اپنی مرضیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق زندگی گذارنے کا حوصلہ اور جذبہ عطا فرمائے۔

بہار : مظفرپور میں موتیابند کے آپریشن کے بعد 65 افراد بینائی سے محروم ، 15 کی آنکھیں نکالنی پڑی

بہار : مظفرپور میں موتیابند کے آپریشن کے بعد 65 افراد بینائی سے محروم ، 15 کی آنکھیں نکالنی پڑی

مظفر پور: بہار کے مظفر پور میں لوگوں کی صحت کے ساتھ زبردست لاپروائی کا انکشاف ہوا ہے۔ یہاں کے آئی اسپتال میں 22 نومبر کو 65 مریضوں کا موتیا بند کا آپریشن کیا گیا تھا، میڈیا رپورٹ کے مطابق تمام مریض بینائی سے محروم ہو گئے ہیں اور اب تک انفیکشن کے سبب 15 مریضوں میں کی آنکھیں نکالنی پڑیں۔ معاملہ کا انکشاف ہونے کے بعد بہار کی سیاست میں بھونچال آ گیا ہے۔ سول سرجن ڈاکٹر ونے کمار شرما نے اے سی ایم او کی قیادت میں تفتیشی ٹیم کا قیام کر کے تین دن میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔ متاثرہ مریضوں کا علاج ایس کے ایم سی ایچ میں کرانے کا انتظام کیا گیا ہے۔

تیجسوی یادو نے اس معاملہ پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا، ''ملک کی سب سے بدحال اور فسڈی بہار کے نظام صھت کا ایک نظارہ دیکھئے۔ مظفرپور میں 65 لوگوں کی آکھنوں کا آپریشن کیا گیا، ایک ہی ٹیبل پر سب کا آپریشن، روشنی تو دور کی بات، سبھی کی آنکھیں نکالنی پڑیں۔ وزیر اعلیٰ اور بی جے پی کے وزیر صحت کو عوام سے کوئی لینا دینا نہیں۔''

اطلاعات کے مطابق 22 نومبر کو مظفر پور کے آئی ہسپتال میں 65 لوگوں کا موتیا بند کا آپریشن کیا گیا تھا۔ جس کے بعد بیشتر مریضون کی آنکھوں میں انفیکشن ہو گیا۔ 29 نومبر کو کچھ متاثرہ مریضوں کے رشتہ دار اسپتال پہنچے اور ہنگامہ کرنے لگے، جس کے بعد یہ معاملہ میڈیا کے علم میں آیا۔

اس معاملے پر سول سرجن ڈاکٹر ونے کمار شرما نے بتایا کہ جتنے بھی مریض آ رہے ہیں، ان کے علاج کے لیے ایس کے ایم سی ایچ میں انتظامات کیے گئے ہیں۔ حتمی رپورٹ ابھی نہیں آئی اس لیے کوئی ایک تعداد نہیں بتائی جا سکتی۔ ڈاکٹر کے مطابق 11 مریضوں کا آپریشن کر کے متاثرہ آنکھ نکال دی گئی ہے۔ جبکہ اس کے بعد مزید 4 مریضوں کی آنکھیں بھی نکال دی گئیں۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق ایس کے ایم سی ایچ میں 24 گھنٹے علاج کیا جا رہا ہے اور ان مریضوں کا ترجیحی بنیادوں پر علاج کیا جا رہا ہے جنہوں نے موتیا بند کے آپریشن کی وجہ سے اپنی بینائی کھو دی ہے۔ شتروہن مہتو کا بھی 22 نومبر کو موتیا بند کا آپریشن کیا گیا تھا لیکن ان کی آنکھ میں انفیکشن ہوگیا اور پھر ایک آنکھ نکالنی پڑی۔ اب اس کا خاندان مشکل میں ہے۔ شتروہن مہتو اپنے گھر میں اکلوتا کمانے والا ہے، بڑا بیٹا ذہنی طور پر بیمار ہے، اس لیے ساری ذمہ داری ایک ہی شخص پر ہے۔

بہار قانون ساز کونسل میں اپوزیشن لیڈر اور بہار کی سابق وزیر اعلیٰ رابڑی دیوی نے کہا ہے کہ نتیش حکومت لاپروائی سے آپریشن کرنے والے ان ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے، جن کی وجہ سے کئی لوگوں کی آنکھیں ضائع ہو گئیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر متاثرہ کو مناسب معاوضہ دیا جائے اور لواحقین کی ہر طرح سے مدد کی جائے

بدھ, دسمبر 01, 2021

ایک تھا غافل جس نے کردیا بیدار*بچپن میں ہوش سنبھالتےہی جس نام نے سوچنے پر مجبور کیا وہ غافل ہے۔مجھے اچھی طرح یہ بات یاد ہے کہ میں نے اپنے والد گرامی قدر سے بچپنے میں پوچھ لیاکہ ابو! لوگ ہارون رشید بھائی کو غافل کیوں کہتے ہیں؟

*ایک تھا غافل جس نے کردیا بیدار*
بچپن میں ہوش سنبھالتےہی جس نام نے سوچنے پر مجبور کیا وہ غافل ہے۔مجھے اچھی طرح یہ بات یاد ہے کہ میں نے اپنے والد گرامی قدر سے بچپنے میں پوچھ لیاکہ ابو! لوگ ہارون رشید بھائی کو غافل کیوں کہتے ہیں؟
 والد صاحب میری عمر اور سمجھ کو دیکھ کر اس وقت گول مول سا جواب دیےکہ وہ شعر کہتے ہیں، اس لیے انہیں لوگ غافل کہتے ہیں۔
والد صاحب کے جواب سے میں بالکل بھی مطمئن نہیں تھا،اسی وقت سے میں نے خود موصوف مرحوم کو پڑھنے کی کوشش کی اور مجھے غافل شناسی کی فکر دامنگیر رہی۔
مرحوم رشتہ میں بھائی تھے، دروازہ پر نکلتے ہی چند گز کے فاصلے پر موصوف کا مکان واقع ہے۔گھر سے باہر قدم رکھتے ہی نظر آجاتے،بار بار اور ایک دن میں کئی ہم آمنے سامنے ہوتے، اوران کی سرگرمیوں کو سمجھنے کی کوشش بھی ہوتی۔
کبھی کالے کوٹ میں ہیں تو ایڈووکیٹ ہیں، کبھی لمبی ٹوپی سر پر رکھے شال کندھے پر ہےتوآپ شاعر ہیں، جلسہ کے اسٹیج پر مائک ہاتھ میں ہےاور سب سے آگے ہیں تو بہترین ناظم ہیں، رکشا پر مائک ہے اعلان ہورہا ہے اسمیں آپ کی آواز آرہی ہے تو بہترین اناؤنسر ہیں، لکچر دے رہے ہیں تو بہترین پروفیسر ہیں۔
دیکھنے اور محسوس کرنے پر آپ سب کچھ معلوم ہوتے ہیں مگر غافل کہیں سے نظر نہیں آئے ہیں۔
اور ایسا غافل میں نے اپنی عمر میں نہیں دیکھا جو ہمیشہ بیدار رہتا ہو اور لوگوں کو بیدار کرتا رہتا ہو۔کہاں کیا ہوا؟کس کا انتقال ہوا؟کس کو کسن نے گولی ماری؟ گاؤں سے لیکر دنیا بھر کی اہم خبروں کووہ مقامی زبان کلہیا میں منظوم سنایا کرتے تھے، اور بچوں کو اپنے پیچھے لیکر جلوس کی شکل میں بھی چلا کرتے۔
اپنی عمر کے پندرہویں سال سے سے ہی شعر کہنا شروع کیا تھا،ولادت 5مئی 1965ءمیں ہوئی اور 1980ءمیں مقامی زبان پرآپ نےشاعری کی ابتدا کی ہے۔مقامی بولی کا بڑا فائدہ  آپ کویہ ملا کہ عوام الناس کو اپنی بات سمجھانے میں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا، یہی وجہ ہے کہ اس بات پر انہیں بہت فخر تھا کہ وہ کلہیا زبان کے شاعر ہیں۔
اردو زبان میں بھی آپ کی شاعری نےاپنے گاؤں سماج اور علاقے کی ہی نمائندگی کی ہےاور لوگوں کو بیداری کا پیغام دیا ہے۔ایک غریب ماں کے درد کو یوں بیان کیا ہے، 
ع غریب ماؤں کی عزت بھی اب نہیں محفوظ 
زمین قلب میں تو برپا زلزلہ کردے۔
زندگی کے تعلق سے کتنا قیمتی شعر کشید کیا ہے، ملاحظہ ہو،
کیا بتاؤں میں کہ کیا ہے زندگی 
اک مسلسل تجربہ ہے زندگی ۔
ناامیدی کے لیے مذہب اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔مرحوم شاعر نے اپنے سماج ومعاشرہ کو بہت قریب سے دیکھا اور کتنا حوصلہ بخش شعر کہا ہے:
نا امیدی کس کو کہتے ہیں مجھے معلوم کیا
تم نےیارو مجھ کو دیکھا ہے مغموم کیا 
جس نے سمجھا ہی نہیں مجھکو کبھی اچھی طرح 
وہ سمجھ پائے گا مظلوم کیا معصوم کیا 
معاف کردینا مجھے غافل سمجھ کردوستو!
بیخودی میں میں نے جانے کردیا منظوم کیا۔
آپ ریڈیائی صحافت سے 1987ءمیں ہی وابستہ ہوگئے تھے، 1992ءمیں آکاش وانی پورنیہ سے وابستہ ہوئے۔اس اسٹیج سے پورے بہار کے لوگوں میں بیداری کا فریضہ انجام دیتے رہے۔
1990ء میں جب ارریہ باضابطہ ضلع بنا تو آپ نے اپنا محور خاص طور پر اسے بنالیا۔یوم آزادی اوریوم جمہوریہ کے موقع پر آپ شبھاس اسٹیڈیم میں سرکاری اناؤنسر ہوا کرتے، ہم سبھی پورے گاؤں سے جاکر سنتے دیکھتے اور محظوظ ہوا کرتے، اپنے بیدار، تیاراور ہوشیار غافل پر فخر کیا کرتے تھے۔اللہ نے بڑی صلاحیت سے مالامال کیا تھا،جس جگہ جو بولتے اور جیسا اشارہ کرتے وہی درست معلوم ہوتا تھا، پورے مجمع کو اپنی جانب کھینچ لیا کرتے اور جو جہاں ہوتا وہیں صرف آپ کی طرف دیکھ رہا ہوتا تھا۔آبروئے سیمانچل کے ساتھ ساتھ شان ارریہ ایوارڈ سے بھی نوازے گئے۔
1999ءمیں باضابطہ شاکچھرتا ابھیان کی شروعات کی اور علاقے کا طوفانی دورہ شروع کیا، گھر گھرجاکر لوگوں کو یہ کہتے ریے،
غافل ہوں بیدار کروں گا، 
اور،
 پڑھے گی رضیہ پڑھے گا ہریا،شاکچھر ہوگا ضلع ارریہ۔
اس کی پسماندگی کا خیال موصوف کو تاحیات کچوکے لگاتا رہا۔اور رہ رہ کر حوصلہ کمزور بھی ہوا مگر آپ کمزور نہیں ہوئے بلکہ یوں گویا ہوئے:
نئی امید نئی زندگی عطا کردے
بلند میرا ہمالہ سے حوصلہ کردے۔
قدم قدم پہ جو فانوس بن سکے میرا 
تو میرے ساتھ کوئی ایسا قافلہ کردے۔
گیاری گاؤں سے کئی لوگ دارالعلوم ندوةالعلماء لکھنؤ میں زیر تعلیم تھے۔مولانا مصور عالم صاحب ندوی اور ناچیز جب فراغت کے بعد گاؤں آئے، اتفاق سے کئی اجلاس میں مرحوم بڑے بھائی جناب ہارون رشید صاحب غافل کے ساتھ ہم دونوں بھی شریک اجلاس ہوئے، تو انہیں شاید یہ محسوس ہوا کہ میری دعا قبول ہوگئی ہے، اور میں اکیلا نہیں ہوں  اب یہ قافلہ بن گیا ہے، برملا موصوف نے اس کا اظہار کردیا اور برجستہ یہ کہا کہ: گیاری میں میری دو آنکھیں ہیں، ایک مولانامصور صاحب اور دوسری میں ناچیز کی طرف اشارہ تھا۔
آپ کے انتقال کا واقعہ بھی تاریخی بنا ۔اچانک یہ خبر آئی کہ انتقال ہوگیا ہے، پھر یہ خبر آئی کہ سانس چل رہی ہے۔اسمیں بھی سمجھنے والوں کے لئے بڑا پیغام ہے۔جو آدمی علم کی خدمت کے لئے اپنے کووقف کردیتا ہے وہ حدیث کی روشنی میں نہیں مرتا ہے، مرنے کے بعد بھی ان کی علمی سانس چلتی رہتی ہے۔اللہ جملہ خدمات کو قبول کرے اور جنت الفردوس نصیب فرمائے۔آمین 
ایں دعا از من وجملہ جہاں آمین باد۔
ہمایوں اقبال ندوی ،ارریہ 
رابطہ، 9973722710

شاکر کریمی- ادب کا ایک ستون گرگیامفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہعصر حاضر کے ممتاز شاعر، ادیب، نامور افسانہ نگار اور ایک درجن سے زائد کتابوں کے مصنف جناب شاکر کریمی کا طویل علالت کے بعد ۱۳؍ نومبر ۲۰۲۱ء کو ان کے آبائی شہر بتیا مغربی چمپارن میں انتقال ہو گیا

شاکر کریمی- ادب کا ایک ستون گرگیا
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
عصر حاضر کے ممتاز شاعر، ادیب، نامور افسانہ نگار اور ایک درجن سے زائد کتابوں کے مصنف جناب شاکر کریمی کا طویل علالت کے بعد ۱۳؍ نومبر ۲۰۲۱ء کو ان کے آبائی شہر بتیا مغربی چمپارن میں انتقال ہو گیا،جنازہ کی نماز بعد نماز ظہر مدرسہ یتیم خانہ بدریہ بتیا میں ادا کی گئی، مولانا علی احمد قاسمی سابق امام جامع مسجد بتیا نے نماز پڑھائی، اور گنج نمبر ایک کے چھوٹی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ ،ایک لڑکا ڈاکٹر نوشاد احمد کریمی اور ایک لڑکی طلعت فاطمہ کریمی کو چھوڑا، صاحبزاہ ڈاکٹر نوشاد احمد کریمی گلاب میموریل کالج بتیا میں اردو کے لکچرر ہیں۔
 شاکر کریمی کے قلمی نام سے مشہور امتیاز احمد کریمی بن مولوی محمد عنایت کریم بَرتَر آروی بن شیخ مولانا بخش (کواتھ) بن حکیم ظہور احمد(غازی پور) ۱۰؍ مارچ ۱۹۴۲ء کو مغربی چمپارن کے شہر بتیا میں پیدا ہوئے، ان کے والد کو اتھ آرہ سے نقل مکانی کرکے بسلسلہ ملازمت بتیا آئے، اور یہیں کے ہو کر رہ گیے، بتیا راج میں منشی تھے، یہیں ان کی شادی حافظ سلامت علی کی صاحب زادی کریم النساء سے ہوئی،میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کی دلچسپی شاعری سے ہو گئی ، ’’ریزۂ مینا‘‘(مطبوعہ ۱۹۸۵) ان کی شاعری کا مجموعہ ہے اور مقبول ہے، اس کی مقبولیت کی وجہ اس کی تغزل آمیز جدیدیت ہے، اس کے اشعار میں محبت کی زیریں لہریں، فرقت کی کسک اور عصری حسیت کی بھر پور عکاسی ملتی ہے،۱۹۷۰ء سے قبل شاعری سے زیادہ ان کا وقت افسانہ نگاری پر صرف ہونے لگا اور ۱۹۷۰ء آتے آتے وہ ملک کے نامور افسانہ نگار بن گیے ،ایک زمانہ تک بتیا کی ادبی عظمت کا اقرار عظیم اقبال اور شاکرکریمی کے افسانوں کے ذریعہ ہوا کرتا تھا، جس زمانہ میں خوشتر گرامی بیسویں صدی نکالا کرتے تھے ان دونوں (عظیم اقبال اور شاکر کریمی )کے افسانے کثرت سے اس میں چھپا کرتے تھے، ان کے افسانے سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی وغیرہ کی طرح نہیں ہیں، شاکر کریمی کے یہاں حقائق کو بے لباسی کے ساتھ بیان کرنا جرم تھا، ان کے افسانوں میں مقصدیت ہے اور اس کی تہہ داری قاری کو اپنی طرف متوجہ کیا کرتی ہے ، ان کے کئی افسانوی مجموعے پر دے جب اٹھ گئے (۲۰۱۷)، ایک دن کا لمبا سفر اور صحرا(۲۰۱۴)، پیاس اور تنہائی(۲۰۰۹) خاص طور پر قابل ذکر ہیں، انہوں نے ناول نویسی پر بھی اپنا وقت صرف کیا، ان کی ایک ناول ’’جشن کی رات‘‘(۲۰۰۹) کے عنوان سے طبع بھی ہوئی تھی، بتیا میں کتاب کی رسم اجراء کی تقریب کا آغاز ان کے افسانوی مجموعہ’’ اپنی آگ‘‘(۱۹۹۱) سے ہوا تھا۔ان کے افسانے کا مواد ہمارے گرد وپیش کا ہوتا ہے ، ان میں مقصدیت ہوتی ہے، اس لیے اس سے سماجی اصلاح کا کام بھی لیا جا سکتا ہے۔
 شاعری انہوں نے مختلف اصناف میں کی، لیکن نظم اور غزل کے شاعر کی حیثیت سے اہل علم وادب میں متعارف ہوئے، یادیں، دعوت، چلے بھی آؤ ، تم بن، تلاش، کانٹے، شہنائی اور پھر ایسا ہوا، نیز احساس وغیرہ کا شمار ان کی کامیاب نظموں میں ہوتا ہے ۔
 جن افسانوں کی وجہ سے ان کو شہرت ملی ان میں ایک اور گوتم، ایک دن کا لمبا سفر، اگر تم نہ آئے، وہ کون ہے، واردات، بھٹکا ہوا آدمی ، ٹوٹی ہوئی عورت، زخموں کی مہک ، آگ ہی آگ، ذراسی بات، پھر وہی جھوٹی انا ، خوشبو تیرے بدن کی ، پردہ ، انہونی بات  خاص طور سے قابل ذکر ہیں، اس طرح کہنا چاہیے کہ وہ بیک وقت شاعر ، افسانہ اور ناول نگار تھے، وہ پوری زندگی اصناف ادب کی مشاطگی اور اردو کے فروغ کے لیے کوشاں رہے، ان کی تخلیقات ملک کے مؤقر رسائل وجرائد میں شائع ہوا کرتی تھیں، واقعہ یہ ہے کہ ان کی ادبی خدمات کو نہ تو نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی فراموش ۔
ان کی حیات وخدمات پر ۲۰۰۳ء میںاقبال جاوید کولکاتہ نے تحقیقی مقالہ لکھ کر بھیم راؤ امبیڈکر بہار یونیورسیٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، شاکر کریمی کا تخلیقی شعور کے نام سے ڈاکٹر عدیلہ نسیم مئو ناتھ بھنجن نے بھی ایک کتاب مرتب کی ہے۔ 
شاکر کریمی صاحب کپڑوں کی تجارت کرتے تھے ان کی شادی ۴؍ اپریل ۱۹۶۵ء کو احمد علی صاحب سیتامڑھی کی دختر نیک اختر حفصہ خاتون سے ہوئی، جو حی القائم ہیں۔
 جناب شاکر کریمی سے میری ایک ہی ملاقات تھی ، لیکن تفصیلی تھی، میں ان دنوں مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور میں استاذ تھا اور بزم احباب ادب ویشالی کے ذمہ داروں میں تھا، ہم لوگوں نے فیصلہ کیا کہ ایک آل بہار مشاعرہ کرانا چاہیے، ڈاکٹر عبد الرؤف ، مولانا مظاہر عالم قمر، مولانا رئیس اعظم سلفی اور راقم الحروف  (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی )نے طے کیا کہ مشاعرہ چونکہ مدرسہ کے احاطہ میں ہے اس لیے نہ تو شاعرات کو مدعو کیا جائے گا اور نہ ہی شرابی شاعر کو، اس موقع سے  دونوں بھائی شاکر کریمی اور صابر کریمی کو مشاعرہ میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی، اور انہوں نے تشریف لا کر ہماری حوصلہ افزائی فرمائی تھی، مشاعرہ کے ایک حصہ کی نظامت ان کے بھائی صابر کریمی نے کیا تھا، دونوں بھائی کی شرافت، محبت اور ان کی فنی عظمت سے بھر پور شاعری کو میرے لیے بھُلانا آج بھی ممکن نہیں ہے ، ان دنوں مجھے بڑے لوگوں سے آٹو گراف لینے کا شوق دیوانگی کی حد تک پہونچا ہوا تھا، میں نے جناب شاکر کریمی کو آٹو گراف بک بڑھایا، انہوں نے درج ذیل شعر لکھ کر اپنے دستخط ثبت کیے۔
لاؤں بھی تو کہاں سے لاؤں لکھنے کا انداز نیا
قلم پُرانا ہو تو شاکر بنتی ہے تحریر نئی
صابر کریمی نے لکھا 
فلک پہ ذکر تیرااور زمیں پہ حکم چلے 
ترے وجود کا مقصد ہے فقر میں شاہی 
یہ مشاعرہ ۲۵؍ مارچ ۱۹۸۹ء کو ہوا تھا اور بہت کامیاب تھا، پہلے دور میں ہی رات ختم ہو گئی تھی، آج شاکر کریمی ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن ان کا تخلیقی ادب خواہ وہ شاعری ہو یا افسانے ، ان کی خدمات کے زریں اور تابندہ نقوش ہیں، اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل دے آمین۔ یا رب العالمین

منگل, نومبر 30, 2021

کل سے بدل جائیں گے یہ 5 قوانین ، آپ کی جیب پر پڑے گا سیدھا اثر ، جانئے کیا ہونے والی ہے تبدیلی؟

کل سے بدل جائیں گے یہ 5 قوانین ، آپ کی جیب پر پڑے گا سیدھا اثر ، جانئے کیا ہونے والی ہے تبدیلی؟

نئ دہلی : یکم دسمبر یعنی کل سے کئی قوانین میں تبدیلی ہونے والی ہے ۔ ان تبدیلیوں میں ایل پی جی رسوئی گیس سلینڈر کے دام ، ہوم لون آفر، ایس بی آئی کریڈٹ کارڈ آفر ، آدھار ۔ یو اے این لنکنگ وغیرہ شامل ہے ۔ بتادیں کہ ہر نئے مہینے کی پہلی تاریخ کو کچھ نئے قوانین لاگو ہوتے ہیں یا پھر پرانے قوانین میں کچھ تبدیلی کے ساتھ لاگو ہوتے ہیں ۔

یو اے این ۔ آدھار لنکنگ
آپ اگر نوکری پیشہ ہیں اور آپ کا یونیورسل اکاونٹ نمبر ہیں تو اس کو 30 نومبر تک آدھار نمبر سے لنک کرادیں ۔ یکم دسمبر 2021 سے کمپنیوں کو صرف انہیں ملازمین کے ای سی آر فائل کرنے کیلئے کہا گیا ہے کہ جن کا یو اے این اور آدھار لنکنگ ویریفائی ہوچکی ہے ۔ جو ملازم کل تک یہ لنک فائل نہیں کر پائیں گے ، وہ ای سی آر بھی فائنل نہیں کرپائیں گے ۔

ہوم لون آفر
فیسٹیو سیزن کے دوران زیادہ تر بینک ہوم لون کے الگ الگ آفر دئے تھے ، جس میں پروسیسنگ فیس میں معافی اور کم شرح سود وغیرہ شامل ہے ۔ زیادہ بینکوں کے آفر 31 دسمبر کو ختم ہورہے ہیں ، لیکن ایل آئی سی ہاوسنگ فائنانس کا آفر 30 نومبر تک ختم ہورہا ہے ۔

ایس بی آئی ڈیبٹ کارڈ
اگر آپ ایس بی آئی کریڈٹ کارڈ استعمال کرتے ہیں تو یکم دسمبر سے ایس بی آئی کے کریڈٹ کارڈ سے ای ایم آئی پر شاپنگ مہنگی ہوجائے گی ۔ ایس بی آئی کارڈ استعمال کرنے پر ابھی صرف سود دینا ہوتا تھا ، لیکن یکم دسمبر سے پروسیسنگ فیس بھی دینی ہوگی ۔

گیس سلینڈر کے دام
ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو گیس سلینڈر کے دام طے کئے جاتے ہیں ۔ مہینے کی پہلی تاریخ کو کمرشیل اور گھریلو سلینڈروں کے نئے ریٹ جاری کئے جاتے ہیں ۔ یکم دسمبر کی صبح نئے ریٹ جاری کئے جائیں گے ۔

لائف سرٹیفکیٹ
اگر آپ بھی پینشنرس کی کٹیگری میں آتے ہیں تو آپ کے پاس بہت بہت کم وقت بچا ہے ۔ پینشنرس آج اپنا لائف سرٹیفکیٹ جمع کرا دیں ، ورنہ یکم دسمبر سے آپ کو پینشن ملنی بند ہوجائے گی ۔

(بشکریہ: نیوز 18)

کسانوں کی جیت مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہتقریبا سال بھر کے احتجاج ، دھرنے ، مظاہرے اور سات سو کسانوں کی جان کی قربانی کے بعد آخر مودی حکومت نے یہ تسلیم کر لیا کہ اسے یہ قانون واپس لینا چاہیے

کسانوں کی جیت 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
تقریبا سال بھر کے احتجاج ، دھرنے ، مظاہرے اور سات سو کسانوں کی جان کی قربانی کے بعد آخر مودی حکومت نے یہ تسلیم کر لیا کہ اسے یہ قانون واپس لینا چاہیے، اس لمبی مدت میں کسانوں پر جو ظلم ڈھائے گیے، لکھیم پور کھیری میں جس طرح کسانوں پر مرکزی وزیر اجیت مشرا کے بیٹے نے گاڑی دوڑادی اس کی ایک الگ کہانی ہے، کسانوں کے اس پر امن احتجاج کو بدنام کرنے کے لیے لال قلعہ کی فصیلوں تک کا سہارا لیا گیا اور بی جے پی کے کارندوں نے اس کے لیے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی، اس واقعہ کو ہوا دے کر تحریک کو کمزور کرنے اور بدنام کرنے کا کام لیا گیا ، قریب تھا کہ یہ احتجاج اپنی موت مرجاتا، لیکن راکیش ٹکیت کو قیادت کا فن آتا ہے، اس طرح کسانوں کے سامنے گلو گیر ہوئے اور آنسوؤں کے قطرے گرائے کہ تحریک میں پھر سے نئی جان پڑ گئی، کسانوں نے مڑ کر نہیں دیکھا او اپنی بات منوا کر دم لیا۔
 کسانوں کی اس تحریک کو دبانے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا گیا، ان پر لاٹھیاں برسائی گئیں، پانی کی تیز دھار چھوڑی گئی، عارضی مسکن کو اکھاڑ پھینکا گیا، سخت ٹھنڈ میں کسان کھلے آسمان کے نیچے پڑے رہے، اتنے پر ہی بس نہیں کیا گیا، ان پر طنز کیے گیے ، نفسیاتی طور پر کمزور کرنے کے لیے وزیر اعظم سے بھاجپا کے چھوٹے کارندوں نے بھی پتہ نہیں کیا کیا جملے کسے، انہیں غدار اور خالصتانی کہا گیا ، وزیر زراعت تومڑ سنگھ کا فرمان تھا کہ بھیڑ اکٹھا ہونے سے قانون واپس نہیں ہوتے، مرکزی وزیر وی کے سنگھ یہ پرچار کرتے پھر رہے تھے کہ تصویر میں کئی لوگ کسان نہیں لگتے، مرکزی وزیر راؤ صاحب تانوے کو کچھ زیادہ غصہ آگیا ، انہوں نے کہا کہ اس تحریک کے پیچھے پاکستان اور چین کا ہاتھ ہے، منوج تیواری اسے ٹکڑے ٹکٹرے گینگ قرار دے رہے تھے، پیوش گوئل کی سوچ تھی کہ کسان تحریک ماؤوادی فکر کے لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی ہے، بھانت بھانت کے لوگ، بھانت بھانت کی آوازیں، کسان ان پھینکے ہوئے جملے سے پست حوصلہ نہیں ہوئے، او راپنی تحریک ہر حال میں جاری رکھی، نوبت یہاں تک پہونچی کہ وزیر اعظم مودی کو کسانوں سے معافی مانگنی پڑی اور یہ کہنا پڑا کہ ہم کسانوں کو اس قانون کے فائدے سمجھانے میں ناکام رہے، انہیں امید تھی کہ کسان اس واضح اعلان کے بعد گھر کو چلے جائیں گے ، لیکن راکیش ٹکیت کچی گولی نہیں کھیلے ہوئے ہیں، انہوں نے اعلان کر دیا کہ ہم اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے، جب تک پارلیامنٹ میں اس قانون کو واپس نہیں لیا جاتا، ٹکیت نے کہا کہ تینوں زرعی قوانین کی واپسی ایک وجہ تھی ہمارے احتجاج کی ، حکومت کے اس فیصلے کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں، ہمارے مطالبات اس کے علاوہ بھی ہیںجو حکومت کو معلوم ہے ہمارا مطالبہ ہے کہ ایم اس پی گارنٹی قانون بنایا جائے، کسانوں پر کیے گیے مقدمات واپس لیے جائیں، تحریک کے دوران جان گنوانے والے کسانوں کے اہل خانہ کو نوکری کے ساتھ مناسب معاوضہ دیا جائے، ان مطالبات کو تسلیم کرائے بغیر ہمارے گھر واپسی کا سوال ہی پید انہیں ہوتا۔
 اس کا مطلب ہے کہ یہ لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے ، یہ اس وقت تک ختم نہیں ہوگی، جب تک حکومت کسانوں کے سامنے مکمل طور پر سجدہ ریز نہیں ہوجاتی ، وزیر اعظم کے لیے یہ آسان کام نہیں ہے، لیکن کئی ریاستوں کے اگلے انتخاب جس میں اتر پردیش سر فہرست ہے اور حالیہ ضمنی انتخاب میں شکست نے مودی حکومت کے رویے میں لچک پیدا کی ہے، جو لوگ کل تک وزیر اعظم کی اکڑ کے قائل تھے آج انہیں پست ہوتا ہوا بھی دیکھ رہے ہیں، کسانون کی تحریک، اس کے مضمرات اور نتائج دوسری تحریکوں پر بھی اثر انداز ہوں گے اور مسلمانوں کے لیے بھی اس میں بڑا پیغام ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...