*ایک تھا غافل جس نے کردیا بیدار*
بچپن میں ہوش سنبھالتےہی جس نام نے سوچنے پر مجبور کیا وہ غافل ہے۔مجھے اچھی طرح یہ بات یاد ہے کہ میں نے اپنے والد گرامی قدر سے بچپنے میں پوچھ لیاکہ ابو! لوگ ہارون رشید بھائی کو غافل کیوں کہتے ہیں؟
والد صاحب میری عمر اور سمجھ کو دیکھ کر اس وقت گول مول سا جواب دیےکہ وہ شعر کہتے ہیں، اس لیے انہیں لوگ غافل کہتے ہیں۔
والد صاحب کے جواب سے میں بالکل بھی مطمئن نہیں تھا،اسی وقت سے میں نے خود موصوف مرحوم کو پڑھنے کی کوشش کی اور مجھے غافل شناسی کی فکر دامنگیر رہی۔
مرحوم رشتہ میں بھائی تھے، دروازہ پر نکلتے ہی چند گز کے فاصلے پر موصوف کا مکان واقع ہے۔گھر سے باہر قدم رکھتے ہی نظر آجاتے،بار بار اور ایک دن میں کئی ہم آمنے سامنے ہوتے، اوران کی سرگرمیوں کو سمجھنے کی کوشش بھی ہوتی۔
کبھی کالے کوٹ میں ہیں تو ایڈووکیٹ ہیں، کبھی لمبی ٹوپی سر پر رکھے شال کندھے پر ہےتوآپ شاعر ہیں، جلسہ کے اسٹیج پر مائک ہاتھ میں ہےاور سب سے آگے ہیں تو بہترین ناظم ہیں، رکشا پر مائک ہے اعلان ہورہا ہے اسمیں آپ کی آواز آرہی ہے تو بہترین اناؤنسر ہیں، لکچر دے رہے ہیں تو بہترین پروفیسر ہیں۔
دیکھنے اور محسوس کرنے پر آپ سب کچھ معلوم ہوتے ہیں مگر غافل کہیں سے نظر نہیں آئے ہیں۔
اور ایسا غافل میں نے اپنی عمر میں نہیں دیکھا جو ہمیشہ بیدار رہتا ہو اور لوگوں کو بیدار کرتا رہتا ہو۔کہاں کیا ہوا؟کس کا انتقال ہوا؟کس کو کسن نے گولی ماری؟ گاؤں سے لیکر دنیا بھر کی اہم خبروں کووہ مقامی زبان کلہیا میں منظوم سنایا کرتے تھے، اور بچوں کو اپنے پیچھے لیکر جلوس کی شکل میں بھی چلا کرتے۔
اپنی عمر کے پندرہویں سال سے سے ہی شعر کہنا شروع کیا تھا،ولادت 5مئی 1965ءمیں ہوئی اور 1980ءمیں مقامی زبان پرآپ نےشاعری کی ابتدا کی ہے۔مقامی بولی کا بڑا فائدہ آپ کویہ ملا کہ عوام الناس کو اپنی بات سمجھانے میں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا، یہی وجہ ہے کہ اس بات پر انہیں بہت فخر تھا کہ وہ کلہیا زبان کے شاعر ہیں۔
اردو زبان میں بھی آپ کی شاعری نےاپنے گاؤں سماج اور علاقے کی ہی نمائندگی کی ہےاور لوگوں کو بیداری کا پیغام دیا ہے۔ایک غریب ماں کے درد کو یوں بیان کیا ہے،
ع غریب ماؤں کی عزت بھی اب نہیں محفوظ
زمین قلب میں تو برپا زلزلہ کردے۔
زندگی کے تعلق سے کتنا قیمتی شعر کشید کیا ہے، ملاحظہ ہو،
کیا بتاؤں میں کہ کیا ہے زندگی
اک مسلسل تجربہ ہے زندگی ۔
ناامیدی کے لیے مذہب اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔مرحوم شاعر نے اپنے سماج ومعاشرہ کو بہت قریب سے دیکھا اور کتنا حوصلہ بخش شعر کہا ہے:
نا امیدی کس کو کہتے ہیں مجھے معلوم کیا
تم نےیارو مجھ کو دیکھا ہے مغموم کیا
جس نے سمجھا ہی نہیں مجھکو کبھی اچھی طرح
وہ سمجھ پائے گا مظلوم کیا معصوم کیا
معاف کردینا مجھے غافل سمجھ کردوستو!
بیخودی میں میں نے جانے کردیا منظوم کیا۔
آپ ریڈیائی صحافت سے 1987ءمیں ہی وابستہ ہوگئے تھے، 1992ءمیں آکاش وانی پورنیہ سے وابستہ ہوئے۔اس اسٹیج سے پورے بہار کے لوگوں میں بیداری کا فریضہ انجام دیتے رہے۔
1990ء میں جب ارریہ باضابطہ ضلع بنا تو آپ نے اپنا محور خاص طور پر اسے بنالیا۔یوم آزادی اوریوم جمہوریہ کے موقع پر آپ شبھاس اسٹیڈیم میں سرکاری اناؤنسر ہوا کرتے، ہم سبھی پورے گاؤں سے جاکر سنتے دیکھتے اور محظوظ ہوا کرتے، اپنے بیدار، تیاراور ہوشیار غافل پر فخر کیا کرتے تھے۔اللہ نے بڑی صلاحیت سے مالامال کیا تھا،جس جگہ جو بولتے اور جیسا اشارہ کرتے وہی درست معلوم ہوتا تھا، پورے مجمع کو اپنی جانب کھینچ لیا کرتے اور جو جہاں ہوتا وہیں صرف آپ کی طرف دیکھ رہا ہوتا تھا۔آبروئے سیمانچل کے ساتھ ساتھ شان ارریہ ایوارڈ سے بھی نوازے گئے۔
1999ءمیں باضابطہ شاکچھرتا ابھیان کی شروعات کی اور علاقے کا طوفانی دورہ شروع کیا، گھر گھرجاکر لوگوں کو یہ کہتے ریے،
غافل ہوں بیدار کروں گا،
اور،
پڑھے گی رضیہ پڑھے گا ہریا،شاکچھر ہوگا ضلع ارریہ۔
اس کی پسماندگی کا خیال موصوف کو تاحیات کچوکے لگاتا رہا۔اور رہ رہ کر حوصلہ کمزور بھی ہوا مگر آپ کمزور نہیں ہوئے بلکہ یوں گویا ہوئے:
نئی امید نئی زندگی عطا کردے
بلند میرا ہمالہ سے حوصلہ کردے۔
قدم قدم پہ جو فانوس بن سکے میرا
تو میرے ساتھ کوئی ایسا قافلہ کردے۔
گیاری گاؤں سے کئی لوگ دارالعلوم ندوةالعلماء لکھنؤ میں زیر تعلیم تھے۔مولانا مصور عالم صاحب ندوی اور ناچیز جب فراغت کے بعد گاؤں آئے، اتفاق سے کئی اجلاس میں مرحوم بڑے بھائی جناب ہارون رشید صاحب غافل کے ساتھ ہم دونوں بھی شریک اجلاس ہوئے، تو انہیں شاید یہ محسوس ہوا کہ میری دعا قبول ہوگئی ہے، اور میں اکیلا نہیں ہوں اب یہ قافلہ بن گیا ہے، برملا موصوف نے اس کا اظہار کردیا اور برجستہ یہ کہا کہ: گیاری میں میری دو آنکھیں ہیں، ایک مولانامصور صاحب اور دوسری میں ناچیز کی طرف اشارہ تھا۔
آپ کے انتقال کا واقعہ بھی تاریخی بنا ۔اچانک یہ خبر آئی کہ انتقال ہوگیا ہے، پھر یہ خبر آئی کہ سانس چل رہی ہے۔اسمیں بھی سمجھنے والوں کے لئے بڑا پیغام ہے۔جو آدمی علم کی خدمت کے لئے اپنے کووقف کردیتا ہے وہ حدیث کی روشنی میں نہیں مرتا ہے، مرنے کے بعد بھی ان کی علمی سانس چلتی رہتی ہے۔اللہ جملہ خدمات کو قبول کرے اور جنت الفردوس نصیب فرمائے۔آمین
ایں دعا از من وجملہ جہاں آمین باد۔
ہمایوں اقبال ندوی ،ارریہ
رابطہ، 9973722710