Powered By Blogger

جمعہ, دسمبر 03, 2021

جھانسی کے لوگ اب بی جے پی کے جھانسے میں نہیں آئیں گے : اکھلیش یادو

جھانسی کے لوگ اب بی جے پی کے جھانسے میں نہیں آئیں گے : اکھلیش یادو

جھانسی: اتر پردیش کے بندیل کھنڈ میں تین روزہ انتخابی مہم پر گئے سماج وادی پارٹی کے قومی صدر اکھلیش یادو نے جمعہ کو جھانسی میں ریاستی حکومت پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ بندیل کھنڈ کے لوگوں نے بی جے پی کو مکمل حمایت کی لیکن ان کے ساڑھے چار سال کے اقتدار کے بعد یہاں کے لوگ خالی ہاتھ رہ گئے۔ اب جھانسی والے ان کے جھانسے میں نہیں آئیں گے، اس بار بندیل کھنڈ کے لوگ بی جے پی کو بے دخل کر دیں گے، بندیل کھنڈ سے بی جے پی کا دروازہ بند ہو جائے گا۔

یہاں ایک مقامی ہوٹل میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے، ایس پی سربراہ نے کہاکہ بندیل کھنڈ کے لوگوں نے بی جے پی کی ڈبل انجن والی حکومت کو ووٹ دیا لیکن عوام خالی ہاتھ رہ گئے۔ اس حکومت نے بندیل کھنڈ کو خوش کرنے کے لیے کوئی ٹھوس فیصلہ نہیں لیا۔یہاں تک کہ پرانی حکومت میں جو کام چل رہے تھے، یہ حکومت انہیں بھی مکمل نہیں کر سکی، عوام اب سب کچھ سمجھ چکی ہے۔ جھانسی کی مہارانی لکشمی بائی نے جس طرح انگریزوں کو بھگانے کا کام کیا تھا، اسی طرح بندیل کھنڈ کے لوگ لائن میں کھڑے ہو کر ان کے خلاف ووٹ دیں گے اور انہیں بندیل کھنڈ سے بھگانے کا کام کریں گے۔

نوجوانوں، کسانوں، تاجروں سمیت سماج کا ہر طبقہ بی جے پی حکومت کے دور میں زبردست مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔ یاد رہے جب لاک ڈاؤن نافذ تھا تو لوگ پیدل ہی اپنے گھروں کو جا رہے تھے۔ یہ وہی بارڈر ہے جہاں سے مزدوروں کو اندر نہیں آنے دیا جا رہا تھا، کئی دنوں تک بغیر کھائے پیے، بغیر کسی انتظام کے بارڈر پر اسی طرح پڑے رہے۔ جب وہ مجبوری میں اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکے تو انہوں نے بریکیٹ توڑ دی اور مجبوری میں گھر کی راہ لی۔ جو مزدور دوسری ریاستوں میں کام کرتے تھے وہ دوسری ریاستوں میں بغیر کھائے پیئے بغیر نہائے اس طرح پڑے رہتے تھے۔ اس وقت حکومت نے ان کی کوئی مدد نہیں کی، انہیں یتیم چھوڑ دیا۔اس حکومت میں کسانوں پر زبردست مظالم ہوئے۔ حکومت کسانوں پر جیپ چڑھانے والوں کے ساتھ کھڑی ہے، انہیں بچا رہی ہے۔ جب الیکشن سر پر ہے تو کہہ رہے ہیں کہ ہم لیپ ٹاپ دیں گے، ٹیبلیٹ بانٹیں گے، اسمارٹ فون دیں گے۔ اگر حکومت اپنا وعدہ پورا کرتی تو لاک ڈاؤن میں لوگوں کو اتنی پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ یہ حکومت صرف سابقہ حکومتوں کے کاموں کا نام بدل کراپنا بتانے والی حکومت ہے۔ نام بدلنے والی اس حکومت کو بدلنے کا کام اب عوام کریں گے۔

بی جے پی کے دور میں پولیس نے سب سے زیادہ مظالم ڈھائے، بہت ظلم ہوا ہے۔ حراستی اموات کی سب سے زیادہ تعداد اتر پردیش میں ہے۔ اتر پردیش حکومت کو زیادہ سے زیادہ فرضی انکاؤنٹرز پر این ایچ آر سی نوٹس موصول ہوئے ہیں۔ یہ حکومت قتل و غارت گری اور دھمکیاں دے کر حکومت کرنا چاہتی ہے۔ بی جے پی خوشامد کی نہیں بلکہ شرارت کی سیاست کرتی ہے۔

اکھلیش نے کہا کہ ایس پی وجے یاترا کا پروگرام لگاتار جاری ہے۔ میں عوام کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جہاں بھی پروگرام ہو رہا ہے وہاں عوام کا بھرپور تعاون حاصل ہے۔ اس بار بھی عوام کی مکمل محبت اور حمایت ایس پی کے حق میں نظر آ رہی ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر سماجوادی حکومت بنتی ہے تو کھیتوں میں پانی پہنچانے کا ایسا انتظام کیا جائے گا کہ کم از کم بندیل کھنڈ کے ہمارے کسان دو فصلیں حاصل کر سکیں گے۔ اس مہنگائی کے باوجود ہم ماں بہنوں کو تین گنا عزت دے کر ان کی عزت بڑھانے کا کام کریں گے۔ جھانسی کو بندیل کھنڈ ایکسپریس وے سے جوڑیں گے۔ اس بار کسانوں،جوانوں، خواتین اور تاجروں نے بی جے پی کو شکست دینے کا ارادہ کر لیا ہے۔

دنیا گرم ہو رہی ہے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹںہ ============================= پوری دنیا میں اس وقت جو ماحولیاتی تبدیلی ہو رہی ہے، اس کی وجہ سے انسانی زندگی ہی نہیں، درختوں اور جانوروں کے وجود کو بھی شدید قسم کے خطرات لاحق ہیں،

دنیا گرم ہو رہی ہے 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹںہ ============================= پوری دنیا میں اس وقت جو ماحولیاتی تبدیلی ہو رہی ہے، اس کی وجہ سے انسانی زندگی ہی نہیں، درختوں اور جانوروں کے وجود کو بھی شدید قسم کے خطرات لاحق ہیں، اس خطرے کی سنگینی کو پوری دنیا محسوس کر رہی ہے ، اقوام متحدہ نے اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں برطانیہ کی میزبانی میں گذشتہ دنوںعالمی ماحولیاتی کانفرنس(COP26) کا انعقاد کیا تھا، جو یکم نومبر سے ۱۲؍ نومبر ۲۰۲۱ء تک جا ری رہا اور جس میں ایک سو تیس(۱۳۰) ملکوں کے قائدین سفراء ، صحافی اور دانشوران نے شرکت کی اور اس کی سنگینی پر تبادلہ خیال کیا، گو اس اہم کانفرنس میں کئی بڑے ممالک چین ، روس ، جنوبی افریقہ، ایران ، میکسیکو، برازیل، ترکی اور ویٹکن سیٹی کے سربراہان نے شرکت نہیں کی اور مختلف عذر کے سہارے اپنے کو اس اہم ترین کانفرنس سے الگ رکھا۔
 پوری دنیا میں حدت اور تپش تیزی سے بڑھ رہی ہے ،اور دنیا دن بدن گرم ہو رہی ہے، انٹر گورنمنٹل پینل آف کلائمنٹ چینج (IPCC)نے نبی نوع انسان کو اس کے لئے ذمہ دار قرار دیا ہے ، اس حدت کے سبب سمندر میں گرم لہریں اٹھ رہی ہیں، جنگل میں آگ لگ رہی ہے ، سیلاب کے خطرات بڑھ رہے ہیں، آتش فشاں پھٹنے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے ، اس ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں پودوں اور جانوروں کی دس لاکھ نسلوں کے ختم ہوجانے کا خدشہ ہے ، جانوروں کے تحفظ کے لیے حکومتی سطح پر کی جانے والی کوشش کے باوجود ۲۰۱۶ء تک دودھ پلانے والے جانور کی ۶۱۹۰؍ نسلوں میں سے ۵۵۹ ؍نسلیں ناپید ہو چکی ہیں، اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ہر سال کم وبیش اسی لاکھ ٹن کچڑا سمندر میں پھینکا جا رہا ہے ، جس سے آٹھ سوسے زیادہ سمندری جانورکی نسلیں تباہ ہو نے کے دہانے پر ہیں، ایک سروے کے مطابق ۱۹۸۰ء کے بعد پلاسٹک کے ذریعہ پھیلنے والی آلودگی میں دس گنا اضافہ ہوا ہے ، جن کی وجہ سے ۲۶۷؍ پانی میں بود وباش رکھنے والے جانوروں کی نسل ، مثلا کچھوا، سمندری پرندے اور ۴۳؍ فی صد بحری جانور کے ضیاع کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔چالیس فی صد سمندر آلودہ ہو گیا ہے، مچھلیوں کی تعداد گھٹ رہی ہے ، اور اس تبدیلی کی وجہ سے تین ارب سے زیادہ لوگ اس پروٹین سے محروم ہو رہے ہیں جو سمندر سے انسانوں کو ملا کرتا ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں زیر زمین جو آبی ذخائر ہیں، ان میں سینتیس (۳۷) اہم ہیں، ان میں سے تیرہ (۱۳)تیزی کے ساتھ خالی ہو رہے ہیں، بظاہر ان کے پھر سے بھرنے کی کوئی امید نہیں ہے، ۲۵؍ کروڑ پچاس لاکھ افراد کو ہر سال خشکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے دیگر ترقیاتی کاموں کے ساتھ غذائی اجناس کی پیداوار پر غیر معمولی اثر پڑتا ہے، اندازہ ہے کہ ۲۰۳۰ء تک دنیا کی درجۂ حرارت میں ۵ئ۱؍ ڈگری سنٹی گریڈ کا اضافہ ہوگا، جس سے دنیا شدید آفات اور موسمی بحران میں مبتلا ہوگی۔ یہ صرف خدشہ نہیں ، بلکہ اب تک وقوع پذیر واقعات سے اس کی تائید ہوتی ہے ، ۲۰۱۹ء میں آسٹریلیا کے جنگل میں آگ لگی تھی، جس کی وجہ سے ترسٹھ لاکھ ہیکٹر سبزہ زار ، تیرہ سو گھر اور ستائیس انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں، ایک بلین جانوروں کی بھی موت اس آتش زنی میں ہوئی تھی، امریکہ کا شہر کیلوفورنیا، ترکی کے دکھنی اور اٹلی کے اتری حصے بھی اس سے متاثر ہوئے، جہاں درجۂ حرارت ۸ئ۴۸؍ ڈگری سیلسیس پہونچ گیا، یونان، الجیریا اوریروشلم تک کے علاقے اس کی زد میں آئے، پڑوسی ملک مالدیپ سمندری سطح سے صرف آٹھ فٹ اوپر ہے ، اس کے یہاں یہ مسئلہ اس قدر پریشان کن ہے کہ ۲۰۰۹ء میں مالدیپ کے صدر محمد نشید نے کابینہ کی میٹنگ زیر آب کی تھی، تاکہ حدت کے اس خطرناک مسئلہ کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول ہوسکے۔
عالمی سطح سے ہٹ کر اپنے ملک ہندوستان کا رخ کریں اور یہاں کی صورت حال کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہندوستان میں ۲۰۱۸ء میں ۲۰۸۱ لوگ قدرتی آفات کی وجہ سے موت کے منہ میں جاسوئے تھے اور ۳۷۸۰۷ ملین ڈالر کا نقصان ہوا تھا، جو ہمارے ملک کی شرح آمدنی کا ۳۶ء ۰ ؍ فی صد ہے۔ آئی پی سی سی کی رپورٹ کے مطابق اگر سمندر کی سطح پچاس سنٹی میٹر بھی بڑھ جاتی ہے تو ہندوستان کے چھ وہ شہر جس میں بندر گاہ ہے یعنی چنئی، کوچی، کولکاتا، ممبئی، سورت اور وشاکھا پٹنم کے ۸۶-۲؍ کروڑ لوگوں کو سیلاب کاسامنا کرنا پڑے گا۔
 یہ خطرات صنعتی انقلاب کی مرہون منت ہیں، کار خانوں سے کاربن ڈائی اکسائڈ اور میتھن گیس جیسی زہریلی چیزیں فضا میں پھیلنے لگیں، ۱۹۹۴ء تک دنیا صنعتی ترقی کے مزے لیتی رہی ، ۱۹۹۵ء میں پہلی کوپ کانفرنس مونٹر یال جرمنی میں منعقد ہوئی، تب تک بہت دیر ہو چکی تھی، ۱۹۹۷ء میں کیوٹو پروٹو کول کا مسودہ تیار ہوا اور ۲۰۱۵ء میں دو سو سے زائد قائدین نے پیرس معاہدہ کرکے اس پر لگام لگانے کی کوشش کی؛ لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔
 مرض بڑھنے کے خوف سے دوا، احتیاط اور تدبیریں چھوڑی نہیں جا سکتیں، اسی لیے گلا سکو عالمی ماحولیات کانفرنس میں سو سے زائد ممالک نے جنگلات کی کٹائی پر روک لگانے اور ۲۰۲۰ء تک میتھن گیس کے اخراج کو تیس (۳۰)فیصد تک کم کرنے پر اتفاق کر لیا ہے ، کوئلہ کے استعمال پر چالیس ممالک نے کمی کرنے کا وعدہ کیا، لطیفہ یہ ہے کہ سب سے زیادہ کوئلہ استعمال کرنے والے ممالک آسٹریلیا، ہندوستان، چین اور امریکہ نے اس معاہدہ پر دستخط نہیں کیا ہے، یہ پانچ وہ ممالک ہیں جہاں کوئلے کی کھپت زیادہ ہوتی ہے اور کاربن سب سے زیادہ کوئلہ کے جلانے سے ہی پیدا ہوتا ہے ، کوئلہ کے استعمال کے بغیر ہمارے پاور پلانٹ کام ہی نہیں کر سکتے، اس لیے ہندوستان کا شمار گرین ہاؤس گیس خارج کرنے والے ممالک میں تیسرے نمبر ہے، اس نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ ہم ۲۰۷۰ء تک کاربن کے اخراج کو صفر تک لانے کی کوشش کریں گے ۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ کانفرنس میں شامل ۴۵۰؍ ادارے نے ماحولیاتی حدت وحرارت میں کمی لانے کے ۱۳۰؍ ڈالر ٹریلین کا فنڈ دیں گے۔
 وعدے ہوتے ہی رہتے ہیں، ۲۰۱۴ء میں بھی اس قسم کا وعدہ اور معاہدہ ہوا تھا، لیکن اس کے نفاذ کی عملی شکل سات سال گذرنے کے بعد بھی نہیں بن سکی،ا ندیشہ ہے کہ اس کانفرنس کی تجاویز بھی کہیں فائلوں میں دب کر نہ رہ جائے۔ جو فنڈ مختص کیا گیا ہے اس کے بندربانٹ میں بھی پریشانیاں آسکتی ہیں، ایسے میں اس کانفرنس کے نتائج پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ اگر ہم نے اس طرف توجہ نہیں دی تو روئے زمین پر بنی نوع انسان کے ساتھ دوسرے چرند وپرند کی زندگی بھی آسان نہیں رہے گی۔
قابل ذکر ہے کہ اس معاملہ میں ہندوستان کی پالیسی بدلی ہے اور اسے بھی حالات کی سنگینی کا احساس ہوگیا ہے اور اب وہ اس کے لیے تیار  ہے کہ ان حالات کو بدلنے میں وہ اپنی بھر پور حصہ داری نبھائے گااور ماحولیاتی توازن کی برقراری کے لیے کام کرے گا، ہمیں اس تبدیل شدہ موقف کی ستائش کرنی چاہیے۔ پوری دنیا نے ہندوستان کے بدلے ہوئے موقف کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔
 (مضمون نگار امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ کے نائب ناظم اور ہفت روزہ نقیب کے مدیر ہیں)

بہار میں ملک کے سب سے بڑے سونے کے ذخائر ملے ، کان کنی کے وزیر نے پارلیمنٹ میں دی جانکاری ،

بہار میں ملک کے سب سے بڑے سونے کے ذخائر ملے ، کان کنی کے وزیر نے پارلیمنٹ میں دی جانکاری ،

بہار میں ملک میں سب سے زیادہ سونے کے ذخائر ہیں۔ یہ اسٹور جموئی ضلع کے سونو بلاک کے کرماٹیا علاقے میں واقع ہے۔ مرکزی کانکنی وزیر پرہلاد جوشی نے خود بدھ کو پارلیمنٹ میں یہ جانکاری دی۔ پرہلاد جوشی نے انکشاف کیا ہے کہ جموئی کے پاس ملک میں سب سے زیادہ سونے کے ذخائر ہیں۔ جموئی ضلع کے سونو علاقے میں صرف 44 فیصد سونا ہے۔ وزیر کے انکشافات کے بعد ملک کی غریب ترین ریاستوں میں سے ایک بہار کی امیدیں جاگ اٹھی ہیں۔ مقامی لوگ بھی جلد سونے کی کان کنی شروع ہونے کے لیے پرامید ہیں۔

بہار بی جے پی کے صدر اور بیتیہ کے رکن پارلیمنٹ سنجے جیسوال نے بدھ کو لوک سبھا میں مرکزی کانکنی وزیر پرہلاد جوشی سے بہار کی ریاستوں میں سونے کے ذخائر کے بارے میں سوال کیا تھا۔ اس سوال کے جواب میں جانکاری دیتے ہوئے پرہلاد جوشی نے کہا تھا کہ بہار میں ملک کے سب سے زیادہ سونے کے ذخائر ہیں۔ بتایا گیا کہ ملک کے پاس 501.83 ٹن سونے کے بنیادی ذخائر ہیں۔ اس میں 654.74 ٹن سونے کی دھات ہے، جس میں سے 44 فیصد سونا صرف بہار میں پایا گیا ہے۔ ریاست کے جموئی ضلع کے سونو فیلڈ میں 222.885 ملین ٹن سونے کے ذخائر پائے گئے ہیں جن میں 37.6 ٹن دھاتی دھات بھی شامل ہے۔

جموئی ضلع کے سونو بلاک کے چورہیٹ پنچایت کا کرماٹیہ علاقہ کئی دہائیوں سے سونے کے ذخائر کو لے کر بحث میں ہے۔ یہاں کے لوگ بتاتے ہیں کہ بہت پہلے سے یہاں کی مٹی میں سونے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ملے تھے۔ بہت پہلے لوگ کرماٹیہ کے علاقے کی مٹی کو دریا کے پانی میں دھو کر سونا نکالنے کے لیے چھلنی کرتے تھے جس کی وجہ سے تقریباً 15 سال پہلے یہاں سرکاری ادارے کے لوگ آئے اور مہینوں بعد سروے کا کام ہوتا تھا۔
بتایا جا رہا ہے کہ اسی سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جموئی ضلع کے سونو بلاک کے اس کرماٹیہ علاقے میں ملک کے سب سے بڑے سونے کے ذخائر ہیں، کہا جا رہا ہے کہ یہاں 44 فیصد سونا پایا جا رہا ہے۔

جموئی کے سونو کے علاوہ دیگر بلاکس میں بھی کئی قسم کی معدنی دھاتیں پائی جاتی ہیں۔ ابرک کے علاوہ اس میں سلیمانی سمیت کئی قیمتی پتھر بھی شامل ہیں۔ ایسے میں بتایا جا رہا ہے کہ 15 سال قبل جیولوجیکل سروے آف انڈیا کے لوگوں کے سروے کے بعد کھدائی مہنگی ہونے کی وجہ سے دوبارہ شروع نہیں ہو سکی۔ لیکن، جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اب کھدائی پہلے کی نسبت سستی ہوتی جا رہی ہے، اس لیے اب اس بات کے بھی امکانات ہیں کہ یہاں سونے کی کان کنی جلد شروع ہو سکتی ہے

جمعرات, دسمبر 02, 2021

رشتوں کا احترا م کریں مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ہماری زندگی میں رشتوں کی بڑی اہمیت ہے، ان کی وجہ سے ہم تنہائی او راکیلا پن سے بچ جاتے ہیں اور ان کے ساتھ ہونے کی وجہ سے خوشی اور غمی میں ہمیں آگے بڑھنے اور غموں کے برداشت کرنے کا حوصلہ ملتا ہے ، زندگی میں کئی ایسے مواقع آتے ہیں

رشتوں کا احترا م کریں 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
ہماری زندگی میں رشتوں کی بڑی اہمیت ہے، ان کی وجہ سے ہم تنہائی او راکیلا پن سے بچ جاتے ہیں اور ان کے ساتھ ہونے کی وجہ سے خوشی اور غمی میں ہمیں آگے بڑھنے اور غموں کے برداشت کرنے کا حوصلہ ملتا ہے ، زندگی میں کئی ایسے مواقع آتے ہیں، جب رشتوں میں گرم جوشی باقی نہیں رہتی، کئی موقعوں سے رشتہ دار ہم سے ٹوٹ جاتے ہیں، ایسے موقع سے ہمیں ان اسباب وعوامل کی تلاش کرنی چاہیے، جن کی وجہ سے سرد مہری پیدا ہوئی یا رشتے ٹوٹ رہے ہیں، ان کی تلاش کے بعد ان کو دور کرنے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے، کیوں کہ ہماری توانائی اورطاقت کا بڑا حصہ رشتوں میں قربت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ، پلتا اور بڑھتا ہے ، رشتے ٹوٹتے ہیں تو ہم کمزور ہوجاتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ہمارے اندر کچھ ٹوٹ سا گیا ہے۔ رشتہ داروں میں کئی وہ ہوتے ہیں جو آپ سے کٹ کر زندگی گذارنا چاہتے ہیں، ان کو بھی جوڑنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
 رشتے صرف ماں باپ ، بہن بھائی، شوہر بیوی ہی کے نہیں ، پڑوسی ، سماج اور دوستوں سے بھی ہوا کرتے ہیں، جہاں ہم کام کرتے ہیں، جن کے ساتھ ہمارا اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے ، جو ہماری خوشی وغمی میں ہماری پشت پر کھڑے ہوتے ہیں، وہ لوگ جن تک دین کی دعوت پہونچانا ہماری ذمہ داری ہے اور جو امت دعوت ہیں وہ سب ہمارے رشتہ دار ہیں، ہم جو کچھ سوچتے ہیں، ان کے ساتھ جو برتاؤ کرتے ہیں، سامنے والا جو کچھ سوچتا ، بولتا اور ہمارے ساتھ برتاؤ کرتا ہے ، یہ سب رشتہ داری اور تعلقات کی سردی وگرمی کے مظہر ہوا کرتے ہیں، اس موقع پر ہمیں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان یاد رکھنا چاہیے ، جو عقبہ بن عامر ؓ سے آپ نے فرمایا تھا کہ جو تعلق توڑے اس سے صلہ رحمی کرو، جو تمہیں محروم کرے اسے عطا کرو اور جو تم پر ظلم کرے ا سے در گذر کرو، ایک دوسرے موقع سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبہ بن عامرؓ کو یہ بھی حکم دیاتھا کہ اپنی زبان کو قابو میں رکھو ، تمہارا گھر تمہیں اپنے اندر سما لے اور اپنی غلطیوں پر رویا کرو۔
 واقعہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عقبہ بن عامر ؓ کو جو نصیحتیں کیں، وہی رشتوں کے احترام کی اساس وبنیاد ہیں، رشتے صلہ رحمی نہیں کرنے سے ٹوٹتے ہیں، نا جائز طور پر مال ودولت ہڑپ کر لینے اور ظلم وستم سے ٹوٹتے ہیں، اس لیے اگر فریق ثانی تعلق منقطع کرنا چاہتا ہے ، واجب حق سے محروم کرنا چاہتا ہے اور ظلم وستم اس کا شیوہ بن گیا ہے تو بھی انسان کو یک طرفہ طور پر تعلقات بحال رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، اس کے لیے داد ودہش اور ظلم وستم کے مقابلے عفو ودر گذر سے کام لینا چاہیے۔ ایسے موقع سے زبان بے قابو ہوجاتی ہے اور جو منہ میں آیا آدمی بکنے لگتا ہے ، وہ اپنے گھر سے باہر نکل کر رشتے کی پامالی میں شریک ہوجاتا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کر دیا کہ رشتوں کو باقی رکھنے کے لیے زبان کو قابو میں رکھنا چاہیے، گھر سے بلا ضرورت نہیں نکلنا چاہیے، بلکہ گھر میں ہی رہنا چاہیے، پھر اس ظلم کے خلاف ممکن ہے تمہارا رویہ بھی شریعت کے خلاف ہو گیا ہو؛ اس لیے اپنی غلطیوں پر ندامت کے آنسو بہاؤ؛ تاکہ حالات درست ہوجائیں اور اللہ رب العزت ندامت کے آنسو کو قبول کر لیں۔
ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہمارا عمل ان میں سے کسی پر نہیں ہے ، اس لیے خاندان ٹوٹ رہے ہیں اور بھائی سے بھائی اور شوہر سے بیوی کے تعلقات بھی استوار نہیں ہیں، جس کی وجہ سے سماجی طور پر جو نقصانات اٹھانے پڑ رہے ہیں وہ اپنی جگہ، ذہنی تناؤ کے ہم جس قدر شکار ہیں اس نے ہماری زندگی کوعذاب بنا رکھا ہے ، اللہ ہم سب کو اپنی مرضیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق زندگی گذارنے کا حوصلہ اور جذبہ عطا فرمائے۔

بہار : مظفرپور میں موتیابند کے آپریشن کے بعد 65 افراد بینائی سے محروم ، 15 کی آنکھیں نکالنی پڑی

بہار : مظفرپور میں موتیابند کے آپریشن کے بعد 65 افراد بینائی سے محروم ، 15 کی آنکھیں نکالنی پڑی

مظفر پور: بہار کے مظفر پور میں لوگوں کی صحت کے ساتھ زبردست لاپروائی کا انکشاف ہوا ہے۔ یہاں کے آئی اسپتال میں 22 نومبر کو 65 مریضوں کا موتیا بند کا آپریشن کیا گیا تھا، میڈیا رپورٹ کے مطابق تمام مریض بینائی سے محروم ہو گئے ہیں اور اب تک انفیکشن کے سبب 15 مریضوں میں کی آنکھیں نکالنی پڑیں۔ معاملہ کا انکشاف ہونے کے بعد بہار کی سیاست میں بھونچال آ گیا ہے۔ سول سرجن ڈاکٹر ونے کمار شرما نے اے سی ایم او کی قیادت میں تفتیشی ٹیم کا قیام کر کے تین دن میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔ متاثرہ مریضوں کا علاج ایس کے ایم سی ایچ میں کرانے کا انتظام کیا گیا ہے۔

تیجسوی یادو نے اس معاملہ پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا، ''ملک کی سب سے بدحال اور فسڈی بہار کے نظام صھت کا ایک نظارہ دیکھئے۔ مظفرپور میں 65 لوگوں کی آکھنوں کا آپریشن کیا گیا، ایک ہی ٹیبل پر سب کا آپریشن، روشنی تو دور کی بات، سبھی کی آنکھیں نکالنی پڑیں۔ وزیر اعلیٰ اور بی جے پی کے وزیر صحت کو عوام سے کوئی لینا دینا نہیں۔''

اطلاعات کے مطابق 22 نومبر کو مظفر پور کے آئی ہسپتال میں 65 لوگوں کا موتیا بند کا آپریشن کیا گیا تھا۔ جس کے بعد بیشتر مریضون کی آنکھوں میں انفیکشن ہو گیا۔ 29 نومبر کو کچھ متاثرہ مریضوں کے رشتہ دار اسپتال پہنچے اور ہنگامہ کرنے لگے، جس کے بعد یہ معاملہ میڈیا کے علم میں آیا۔

اس معاملے پر سول سرجن ڈاکٹر ونے کمار شرما نے بتایا کہ جتنے بھی مریض آ رہے ہیں، ان کے علاج کے لیے ایس کے ایم سی ایچ میں انتظامات کیے گئے ہیں۔ حتمی رپورٹ ابھی نہیں آئی اس لیے کوئی ایک تعداد نہیں بتائی جا سکتی۔ ڈاکٹر کے مطابق 11 مریضوں کا آپریشن کر کے متاثرہ آنکھ نکال دی گئی ہے۔ جبکہ اس کے بعد مزید 4 مریضوں کی آنکھیں بھی نکال دی گئیں۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق ایس کے ایم سی ایچ میں 24 گھنٹے علاج کیا جا رہا ہے اور ان مریضوں کا ترجیحی بنیادوں پر علاج کیا جا رہا ہے جنہوں نے موتیا بند کے آپریشن کی وجہ سے اپنی بینائی کھو دی ہے۔ شتروہن مہتو کا بھی 22 نومبر کو موتیا بند کا آپریشن کیا گیا تھا لیکن ان کی آنکھ میں انفیکشن ہوگیا اور پھر ایک آنکھ نکالنی پڑی۔ اب اس کا خاندان مشکل میں ہے۔ شتروہن مہتو اپنے گھر میں اکلوتا کمانے والا ہے، بڑا بیٹا ذہنی طور پر بیمار ہے، اس لیے ساری ذمہ داری ایک ہی شخص پر ہے۔

بہار قانون ساز کونسل میں اپوزیشن لیڈر اور بہار کی سابق وزیر اعلیٰ رابڑی دیوی نے کہا ہے کہ نتیش حکومت لاپروائی سے آپریشن کرنے والے ان ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے، جن کی وجہ سے کئی لوگوں کی آنکھیں ضائع ہو گئیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر متاثرہ کو مناسب معاوضہ دیا جائے اور لواحقین کی ہر طرح سے مدد کی جائے

بدھ, دسمبر 01, 2021

ایک تھا غافل جس نے کردیا بیدار*بچپن میں ہوش سنبھالتےہی جس نام نے سوچنے پر مجبور کیا وہ غافل ہے۔مجھے اچھی طرح یہ بات یاد ہے کہ میں نے اپنے والد گرامی قدر سے بچپنے میں پوچھ لیاکہ ابو! لوگ ہارون رشید بھائی کو غافل کیوں کہتے ہیں؟

*ایک تھا غافل جس نے کردیا بیدار*
بچپن میں ہوش سنبھالتےہی جس نام نے سوچنے پر مجبور کیا وہ غافل ہے۔مجھے اچھی طرح یہ بات یاد ہے کہ میں نے اپنے والد گرامی قدر سے بچپنے میں پوچھ لیاکہ ابو! لوگ ہارون رشید بھائی کو غافل کیوں کہتے ہیں؟
 والد صاحب میری عمر اور سمجھ کو دیکھ کر اس وقت گول مول سا جواب دیےکہ وہ شعر کہتے ہیں، اس لیے انہیں لوگ غافل کہتے ہیں۔
والد صاحب کے جواب سے میں بالکل بھی مطمئن نہیں تھا،اسی وقت سے میں نے خود موصوف مرحوم کو پڑھنے کی کوشش کی اور مجھے غافل شناسی کی فکر دامنگیر رہی۔
مرحوم رشتہ میں بھائی تھے، دروازہ پر نکلتے ہی چند گز کے فاصلے پر موصوف کا مکان واقع ہے۔گھر سے باہر قدم رکھتے ہی نظر آجاتے،بار بار اور ایک دن میں کئی ہم آمنے سامنے ہوتے، اوران کی سرگرمیوں کو سمجھنے کی کوشش بھی ہوتی۔
کبھی کالے کوٹ میں ہیں تو ایڈووکیٹ ہیں، کبھی لمبی ٹوپی سر پر رکھے شال کندھے پر ہےتوآپ شاعر ہیں، جلسہ کے اسٹیج پر مائک ہاتھ میں ہےاور سب سے آگے ہیں تو بہترین ناظم ہیں، رکشا پر مائک ہے اعلان ہورہا ہے اسمیں آپ کی آواز آرہی ہے تو بہترین اناؤنسر ہیں، لکچر دے رہے ہیں تو بہترین پروفیسر ہیں۔
دیکھنے اور محسوس کرنے پر آپ سب کچھ معلوم ہوتے ہیں مگر غافل کہیں سے نظر نہیں آئے ہیں۔
اور ایسا غافل میں نے اپنی عمر میں نہیں دیکھا جو ہمیشہ بیدار رہتا ہو اور لوگوں کو بیدار کرتا رہتا ہو۔کہاں کیا ہوا؟کس کا انتقال ہوا؟کس کو کسن نے گولی ماری؟ گاؤں سے لیکر دنیا بھر کی اہم خبروں کووہ مقامی زبان کلہیا میں منظوم سنایا کرتے تھے، اور بچوں کو اپنے پیچھے لیکر جلوس کی شکل میں بھی چلا کرتے۔
اپنی عمر کے پندرہویں سال سے سے ہی شعر کہنا شروع کیا تھا،ولادت 5مئی 1965ءمیں ہوئی اور 1980ءمیں مقامی زبان پرآپ نےشاعری کی ابتدا کی ہے۔مقامی بولی کا بڑا فائدہ  آپ کویہ ملا کہ عوام الناس کو اپنی بات سمجھانے میں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا، یہی وجہ ہے کہ اس بات پر انہیں بہت فخر تھا کہ وہ کلہیا زبان کے شاعر ہیں۔
اردو زبان میں بھی آپ کی شاعری نےاپنے گاؤں سماج اور علاقے کی ہی نمائندگی کی ہےاور لوگوں کو بیداری کا پیغام دیا ہے۔ایک غریب ماں کے درد کو یوں بیان کیا ہے، 
ع غریب ماؤں کی عزت بھی اب نہیں محفوظ 
زمین قلب میں تو برپا زلزلہ کردے۔
زندگی کے تعلق سے کتنا قیمتی شعر کشید کیا ہے، ملاحظہ ہو،
کیا بتاؤں میں کہ کیا ہے زندگی 
اک مسلسل تجربہ ہے زندگی ۔
ناامیدی کے لیے مذہب اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔مرحوم شاعر نے اپنے سماج ومعاشرہ کو بہت قریب سے دیکھا اور کتنا حوصلہ بخش شعر کہا ہے:
نا امیدی کس کو کہتے ہیں مجھے معلوم کیا
تم نےیارو مجھ کو دیکھا ہے مغموم کیا 
جس نے سمجھا ہی نہیں مجھکو کبھی اچھی طرح 
وہ سمجھ پائے گا مظلوم کیا معصوم کیا 
معاف کردینا مجھے غافل سمجھ کردوستو!
بیخودی میں میں نے جانے کردیا منظوم کیا۔
آپ ریڈیائی صحافت سے 1987ءمیں ہی وابستہ ہوگئے تھے، 1992ءمیں آکاش وانی پورنیہ سے وابستہ ہوئے۔اس اسٹیج سے پورے بہار کے لوگوں میں بیداری کا فریضہ انجام دیتے رہے۔
1990ء میں جب ارریہ باضابطہ ضلع بنا تو آپ نے اپنا محور خاص طور پر اسے بنالیا۔یوم آزادی اوریوم جمہوریہ کے موقع پر آپ شبھاس اسٹیڈیم میں سرکاری اناؤنسر ہوا کرتے، ہم سبھی پورے گاؤں سے جاکر سنتے دیکھتے اور محظوظ ہوا کرتے، اپنے بیدار، تیاراور ہوشیار غافل پر فخر کیا کرتے تھے۔اللہ نے بڑی صلاحیت سے مالامال کیا تھا،جس جگہ جو بولتے اور جیسا اشارہ کرتے وہی درست معلوم ہوتا تھا، پورے مجمع کو اپنی جانب کھینچ لیا کرتے اور جو جہاں ہوتا وہیں صرف آپ کی طرف دیکھ رہا ہوتا تھا۔آبروئے سیمانچل کے ساتھ ساتھ شان ارریہ ایوارڈ سے بھی نوازے گئے۔
1999ءمیں باضابطہ شاکچھرتا ابھیان کی شروعات کی اور علاقے کا طوفانی دورہ شروع کیا، گھر گھرجاکر لوگوں کو یہ کہتے ریے،
غافل ہوں بیدار کروں گا، 
اور،
 پڑھے گی رضیہ پڑھے گا ہریا،شاکچھر ہوگا ضلع ارریہ۔
اس کی پسماندگی کا خیال موصوف کو تاحیات کچوکے لگاتا رہا۔اور رہ رہ کر حوصلہ کمزور بھی ہوا مگر آپ کمزور نہیں ہوئے بلکہ یوں گویا ہوئے:
نئی امید نئی زندگی عطا کردے
بلند میرا ہمالہ سے حوصلہ کردے۔
قدم قدم پہ جو فانوس بن سکے میرا 
تو میرے ساتھ کوئی ایسا قافلہ کردے۔
گیاری گاؤں سے کئی لوگ دارالعلوم ندوةالعلماء لکھنؤ میں زیر تعلیم تھے۔مولانا مصور عالم صاحب ندوی اور ناچیز جب فراغت کے بعد گاؤں آئے، اتفاق سے کئی اجلاس میں مرحوم بڑے بھائی جناب ہارون رشید صاحب غافل کے ساتھ ہم دونوں بھی شریک اجلاس ہوئے، تو انہیں شاید یہ محسوس ہوا کہ میری دعا قبول ہوگئی ہے، اور میں اکیلا نہیں ہوں  اب یہ قافلہ بن گیا ہے، برملا موصوف نے اس کا اظہار کردیا اور برجستہ یہ کہا کہ: گیاری میں میری دو آنکھیں ہیں، ایک مولانامصور صاحب اور دوسری میں ناچیز کی طرف اشارہ تھا۔
آپ کے انتقال کا واقعہ بھی تاریخی بنا ۔اچانک یہ خبر آئی کہ انتقال ہوگیا ہے، پھر یہ خبر آئی کہ سانس چل رہی ہے۔اسمیں بھی سمجھنے والوں کے لئے بڑا پیغام ہے۔جو آدمی علم کی خدمت کے لئے اپنے کووقف کردیتا ہے وہ حدیث کی روشنی میں نہیں مرتا ہے، مرنے کے بعد بھی ان کی علمی سانس چلتی رہتی ہے۔اللہ جملہ خدمات کو قبول کرے اور جنت الفردوس نصیب فرمائے۔آمین 
ایں دعا از من وجملہ جہاں آمین باد۔
ہمایوں اقبال ندوی ،ارریہ 
رابطہ، 9973722710

شاکر کریمی- ادب کا ایک ستون گرگیامفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہعصر حاضر کے ممتاز شاعر، ادیب، نامور افسانہ نگار اور ایک درجن سے زائد کتابوں کے مصنف جناب شاکر کریمی کا طویل علالت کے بعد ۱۳؍ نومبر ۲۰۲۱ء کو ان کے آبائی شہر بتیا مغربی چمپارن میں انتقال ہو گیا

شاکر کریمی- ادب کا ایک ستون گرگیا
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
عصر حاضر کے ممتاز شاعر، ادیب، نامور افسانہ نگار اور ایک درجن سے زائد کتابوں کے مصنف جناب شاکر کریمی کا طویل علالت کے بعد ۱۳؍ نومبر ۲۰۲۱ء کو ان کے آبائی شہر بتیا مغربی چمپارن میں انتقال ہو گیا،جنازہ کی نماز بعد نماز ظہر مدرسہ یتیم خانہ بدریہ بتیا میں ادا کی گئی، مولانا علی احمد قاسمی سابق امام جامع مسجد بتیا نے نماز پڑھائی، اور گنج نمبر ایک کے چھوٹی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ ،ایک لڑکا ڈاکٹر نوشاد احمد کریمی اور ایک لڑکی طلعت فاطمہ کریمی کو چھوڑا، صاحبزاہ ڈاکٹر نوشاد احمد کریمی گلاب میموریل کالج بتیا میں اردو کے لکچرر ہیں۔
 شاکر کریمی کے قلمی نام سے مشہور امتیاز احمد کریمی بن مولوی محمد عنایت کریم بَرتَر آروی بن شیخ مولانا بخش (کواتھ) بن حکیم ظہور احمد(غازی پور) ۱۰؍ مارچ ۱۹۴۲ء کو مغربی چمپارن کے شہر بتیا میں پیدا ہوئے، ان کے والد کو اتھ آرہ سے نقل مکانی کرکے بسلسلہ ملازمت بتیا آئے، اور یہیں کے ہو کر رہ گیے، بتیا راج میں منشی تھے، یہیں ان کی شادی حافظ سلامت علی کی صاحب زادی کریم النساء سے ہوئی،میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کی دلچسپی شاعری سے ہو گئی ، ’’ریزۂ مینا‘‘(مطبوعہ ۱۹۸۵) ان کی شاعری کا مجموعہ ہے اور مقبول ہے، اس کی مقبولیت کی وجہ اس کی تغزل آمیز جدیدیت ہے، اس کے اشعار میں محبت کی زیریں لہریں، فرقت کی کسک اور عصری حسیت کی بھر پور عکاسی ملتی ہے،۱۹۷۰ء سے قبل شاعری سے زیادہ ان کا وقت افسانہ نگاری پر صرف ہونے لگا اور ۱۹۷۰ء آتے آتے وہ ملک کے نامور افسانہ نگار بن گیے ،ایک زمانہ تک بتیا کی ادبی عظمت کا اقرار عظیم اقبال اور شاکرکریمی کے افسانوں کے ذریعہ ہوا کرتا تھا، جس زمانہ میں خوشتر گرامی بیسویں صدی نکالا کرتے تھے ان دونوں (عظیم اقبال اور شاکر کریمی )کے افسانے کثرت سے اس میں چھپا کرتے تھے، ان کے افسانے سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی وغیرہ کی طرح نہیں ہیں، شاکر کریمی کے یہاں حقائق کو بے لباسی کے ساتھ بیان کرنا جرم تھا، ان کے افسانوں میں مقصدیت ہے اور اس کی تہہ داری قاری کو اپنی طرف متوجہ کیا کرتی ہے ، ان کے کئی افسانوی مجموعے پر دے جب اٹھ گئے (۲۰۱۷)، ایک دن کا لمبا سفر اور صحرا(۲۰۱۴)، پیاس اور تنہائی(۲۰۰۹) خاص طور پر قابل ذکر ہیں، انہوں نے ناول نویسی پر بھی اپنا وقت صرف کیا، ان کی ایک ناول ’’جشن کی رات‘‘(۲۰۰۹) کے عنوان سے طبع بھی ہوئی تھی، بتیا میں کتاب کی رسم اجراء کی تقریب کا آغاز ان کے افسانوی مجموعہ’’ اپنی آگ‘‘(۱۹۹۱) سے ہوا تھا۔ان کے افسانے کا مواد ہمارے گرد وپیش کا ہوتا ہے ، ان میں مقصدیت ہوتی ہے، اس لیے اس سے سماجی اصلاح کا کام بھی لیا جا سکتا ہے۔
 شاعری انہوں نے مختلف اصناف میں کی، لیکن نظم اور غزل کے شاعر کی حیثیت سے اہل علم وادب میں متعارف ہوئے، یادیں، دعوت، چلے بھی آؤ ، تم بن، تلاش، کانٹے، شہنائی اور پھر ایسا ہوا، نیز احساس وغیرہ کا شمار ان کی کامیاب نظموں میں ہوتا ہے ۔
 جن افسانوں کی وجہ سے ان کو شہرت ملی ان میں ایک اور گوتم، ایک دن کا لمبا سفر، اگر تم نہ آئے، وہ کون ہے، واردات، بھٹکا ہوا آدمی ، ٹوٹی ہوئی عورت، زخموں کی مہک ، آگ ہی آگ، ذراسی بات، پھر وہی جھوٹی انا ، خوشبو تیرے بدن کی ، پردہ ، انہونی بات  خاص طور سے قابل ذکر ہیں، اس طرح کہنا چاہیے کہ وہ بیک وقت شاعر ، افسانہ اور ناول نگار تھے، وہ پوری زندگی اصناف ادب کی مشاطگی اور اردو کے فروغ کے لیے کوشاں رہے، ان کی تخلیقات ملک کے مؤقر رسائل وجرائد میں شائع ہوا کرتی تھیں، واقعہ یہ ہے کہ ان کی ادبی خدمات کو نہ تو نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی فراموش ۔
ان کی حیات وخدمات پر ۲۰۰۳ء میںاقبال جاوید کولکاتہ نے تحقیقی مقالہ لکھ کر بھیم راؤ امبیڈکر بہار یونیورسیٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، شاکر کریمی کا تخلیقی شعور کے نام سے ڈاکٹر عدیلہ نسیم مئو ناتھ بھنجن نے بھی ایک کتاب مرتب کی ہے۔ 
شاکر کریمی صاحب کپڑوں کی تجارت کرتے تھے ان کی شادی ۴؍ اپریل ۱۹۶۵ء کو احمد علی صاحب سیتامڑھی کی دختر نیک اختر حفصہ خاتون سے ہوئی، جو حی القائم ہیں۔
 جناب شاکر کریمی سے میری ایک ہی ملاقات تھی ، لیکن تفصیلی تھی، میں ان دنوں مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور میں استاذ تھا اور بزم احباب ادب ویشالی کے ذمہ داروں میں تھا، ہم لوگوں نے فیصلہ کیا کہ ایک آل بہار مشاعرہ کرانا چاہیے، ڈاکٹر عبد الرؤف ، مولانا مظاہر عالم قمر، مولانا رئیس اعظم سلفی اور راقم الحروف  (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی )نے طے کیا کہ مشاعرہ چونکہ مدرسہ کے احاطہ میں ہے اس لیے نہ تو شاعرات کو مدعو کیا جائے گا اور نہ ہی شرابی شاعر کو، اس موقع سے  دونوں بھائی شاکر کریمی اور صابر کریمی کو مشاعرہ میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی، اور انہوں نے تشریف لا کر ہماری حوصلہ افزائی فرمائی تھی، مشاعرہ کے ایک حصہ کی نظامت ان کے بھائی صابر کریمی نے کیا تھا، دونوں بھائی کی شرافت، محبت اور ان کی فنی عظمت سے بھر پور شاعری کو میرے لیے بھُلانا آج بھی ممکن نہیں ہے ، ان دنوں مجھے بڑے لوگوں سے آٹو گراف لینے کا شوق دیوانگی کی حد تک پہونچا ہوا تھا، میں نے جناب شاکر کریمی کو آٹو گراف بک بڑھایا، انہوں نے درج ذیل شعر لکھ کر اپنے دستخط ثبت کیے۔
لاؤں بھی تو کہاں سے لاؤں لکھنے کا انداز نیا
قلم پُرانا ہو تو شاکر بنتی ہے تحریر نئی
صابر کریمی نے لکھا 
فلک پہ ذکر تیرااور زمیں پہ حکم چلے 
ترے وجود کا مقصد ہے فقر میں شاہی 
یہ مشاعرہ ۲۵؍ مارچ ۱۹۸۹ء کو ہوا تھا اور بہت کامیاب تھا، پہلے دور میں ہی رات ختم ہو گئی تھی، آج شاکر کریمی ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن ان کا تخلیقی ادب خواہ وہ شاعری ہو یا افسانے ، ان کی خدمات کے زریں اور تابندہ نقوش ہیں، اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل دے آمین۔ یا رب العالمین

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...