Powered By Blogger

ہفتہ, دسمبر 04, 2021

پیام صبا میرے مطالعہ کی روشنی میں✍️ عبدالرحیم ابن ڈاکٹر مولوی انور حسین برہولیا”پیام صبا” برادر محترم جناب کامران غنی صبا کا پہلا شعری مجموعہ ہے اور اس کی اشاعت محکمہ کابینہ سکریٹیریٹ حکومت بہار کے مالی تعاون سے ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی نے کی ہے۔

پیام صبا میرے مطالعہ کی روشنی میں

✍️ عبدالرحیم ابن ڈاکٹر مولوی انور حسین برہولیا
”پیام صبا” برادر محترم جناب کامران غنی صبا کا پہلا شعری مجموعہ ہے اور اس کی اشاعت محکمہ کابینہ سکریٹیریٹ حکومت بہار کے مالی تعاون سے ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی نے کی ہے۔ اس کی قیمت محض200/-روپیہ ہے ۔ اس کو بک امپوریم ،سبزی باغ پٹنہ، ناولٹی بکس، قلعہ گھاٹ، دربھنگہ سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ شعری مجموعہ کو المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ دربھنگہ کے زیر اہتمام ٢٠١٧ء میں شائع کیا گیا ہے۔ کامران غنی صبااردو شعر و ادب کا ایک ایسا نام ہے جو کم وقت اور کم عمر میں ہی میں اپنی ایک شناخت قائم کر چکا ہے۔ جن لوگوں نے کامران غنی صبا کو نہیں دیکھا ہے وہ یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ شاید وہ کوئی عمر دراز شاعر ہوں گے۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہے۔ کامران غنی صبا نے کتاب کا انتساب خدا کے نام کیا ہے جبکہ عام طور پر لوگ اپنے ماں باپ یا استاد کے نام کرتے ہیں مگرکامران غنی صبا کی فکر کتنی بلند ہے کہ انہوں نے انتساب کو خدا ئے برتر کے نام کیا ہے۔ حرف آغاز میں انہوں نے اپنی بات بہت ہی سلیقہ سے پیش کی ہے۔کتاب کے پہلے حصہ میں نظم”مجھے آزاد ہونا ہے” (جو کامران غنی صبا کی شناخت اور پہچان کا ذریعہ بنی) کے تعلق سے ڈاکٹر اقبال واجد، ڈاکٹر عبدالرافع، ڈاکٹر منصور خوشتر، نسترن احسن فتیحی، ڈاکٹر احسان عالم، سیدہ تسکین مرتضی، انور الحسن وسطوی، حسیب اعجاز عاشر، سیدہ زہرہ عمران اورسلمان فیصل کے مضامین شامل ہیں۔ دوسرے باب میں حمد ، نعت، منقبت ہیں جو ٦ ہیں ۔ التجا، لب پہ ذکر حبیب خدا چاہئے، نہ طلب ہے نام و نمود کی، ایک ایسی نعت پاک لکھا دے مرے خدا، جب روح جسم سے ہو خدایا جدا مری، حسین سا کوئی ہے بتائو…..

اس کے بعد والے باب میں نظمیں ہیں جن کی تعداد بیس ہے۔ کچھ نظمیں پابند ہیں، کچھ معریٰ اور کچھ آزاد، لیکن سبھی نظموں میں تسلسل روانی اور موسیقیت ہے۔الفاظ اتنے عام فہم ہیں کہ عام قارئین بھی اسے سمجھ سکتے ہیں۔ ایک نظم امی کے نام ہے، جو ان کی سالگرہ پر کامران غنی نے پیش کی تھی:

پیاری امی!
سالگرہ پر
آپ کو کون سا تحفہ دوں میں؟
پھول تو کل مرجھا جائیں گے
اور خوشبو بھی اڑ جائے گی
پیاری امی ! سالگرہ پر
لفظوں کی میں کچھ سوغاتیں
لے کر خدمت میں حاضر ہوں
لفظ دعائوں کی صورت میں
لفظ عقیدت، لفظ محبت
بابری مسجد کی شہادت پر بھی آپ کی ایک نظم ہے جس کے چند اشعار یہ ہیں:
تئیس سال ہوئے آج ہی کا دن تھا جب
ہمارے ملک میں جمہوریت کا قتل ہوا
تم پھر یہ جھوٹ نہ بولو ہمارے ہم وطنو!
”ہمارے ملک میں جمہوریت سلامت ہے”
مرا وجود، عید کا چاند، ایک باپ کی بیٹے کو نصیحت، محبت ایک عبادت ہے، گیت (ہندوستانی بچوں کے لئے) جیسی اہم نظمیں بھی اس مجموعہ میں شامل ہیں۔

آخری باب میں ٢٨ غزلیں ہیں۔ کامران غنی صبا اچھی نظموں کے ساتھ اچھی غزلیں بھی کہتے ہیں۔ تمام غزلیں بھی خوب ہیں۔ زندگی کتنا آزمائے گی، سجدہ شوق میں سر میراجھکا ہے کیا، چلو کہ جسم کا رشتہ تمام کرتے ہیں، ہم ان کی بارگاہ میں شام و سحر گئے جیسے اہم عنوان کی غزلیں موجود ہیں۔ سب پر تبصرہ سے مضمون کے طویل ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔ کامران غنی صبا صرف ایک اچھے شاعر ہی نہیں ہیں بلکہ ایک اچھے استاد بھی ہیں اور نتیشور کالج مظفرپور میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ صحافت ، شعر وشاعری ، درس و تدریس سارا کام ایک ساتھ انجام دے رہے ہیں جو سب کے بس کا نہیں ہے۔ روز نامہ پندار کے ادبی صفحات کے بھی انچارج ہیں۔ اردو نیٹ جاپان کے مدیر اعزازی بھی ہیں۔ ابھی پی ایچ۔ڈی پٹنہ یونیورسیٹی سے کر رہے ہیں۔

باب کے آخر میں شاعر کا مختصر تعارف بھی ہے ۔ کتاب کا سرورق بہت عمدہ ہے ۔ طباعت بھی اچھی ہے۔ کتاب کے بیک کور پر سلمیٰ بلخی کے تاثرات پیش کیے گئے ہیں۔ سلمیٰ بلخی کامران غنی صبا کی والدہ ہیں وہ لکھتی ہیں ”کامران کو اشعار فہمی اور شعر گوئی کی صفت ورثے میںملی ہے۔ ان کا نام (کامران) ایک بڑے عالم اور بزرگ سید اسمٰعیل شمسی روح نے رکھا تھا۔”

کامران غنی صبا ایک اچھے ، بااخلاق انسان ہیں اور ہر کسی کو عزت و احترام دینا جانتے ہیں۔ اللہ ان کے شعری مجموعہ ”پیام صبا” اور کامران غنی صبا کو بھی مقبولیت عطا کرے۔ آمین۔

تحریر : عبدالرحیم ابن ڈاکٹر مولوی انور حسین برہولیا

عکس مطالعہ____________مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہڈاکٹر محمد عارف حسن وسطوی بن انوارالحسن وسطوی بن محمد داؤد حسن مرحوم، ساکن حسن منزل آشیانہ کالونی روڈ نمبر 6 حاجی پور ویشالی بڑی تیزی سے نئی نسل کے اہل قلم کے درمیان اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں،

عکس مطالعہ____________
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
ڈاکٹر محمد عارف حسن وسطوی بن انوارالحسن وسطوی بن  محمد داؤد حسن مرحوم، ساکن حسن منزل آشیانہ کالونی روڈ نمبر 6 حاجی پور ویشالی بڑی تیزی سے نئی نسل کے اہل قلم کے درمیان اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں، لکھنا ،پڑھنا ،پڑھانا ان کو ورثہ میں ملا ہے، انہوں نے پروفیسر عبدالمغنی حیات اور ادبی کارنامے پر ڈاکٹر ممتاز احمد خاں مرحوم سابق  ایسوسی ایٹ پروفیسر بہار یونیورسٹی مظفر پور کی نگرانی میں اپنا مقالہ مکمل کیا اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ،ان کی پہلی تالیف داؤد حسن زبان خلق کے آئینے میں 2018 میں منظر عام پر آئی تھی ،جو ان کے کے داداپر مختلف اہل قلم کے ذریعہ لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہے، 2019 میں ان کا تحقیقی مقالہ پروفیسر عبدالمغنی ناقدو دانشور کے عنوان سے سامنے آیا اور 2020 میں ان کے مضامین کے مجموعہ عکس مطالعہ نے قارئین ناقدین اور مبصرین کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں کامیابی حاصل کی ہے سال بہ سال تالیفات و تصنیفات کی طباعت کا یہ عالم رہا تو ان کی نگارشات سے اہل علم و فن کو فائدہ پہنچے گا اور بعید نہیں کہ اردو دنیا میں وہ اپنے نامور والد کے صحیح جانشین ثابت ہوں گے، حالانکہ یہ مقام حاصل کرنا آسان نہیں ہے، انوارالحسن وسطوی کو پروفیسرثوبان فاروقی جیسے دیدہ ور نے باباہائے اردو ویشالی کہا ہے ،ڈاکٹر عارف حسن وسطوی کی طرف ارباب دانش و بینش  پوری طرح متوجہ ہیں، تبھی تو 2019 میں دو ایوارڈ سے نوازے گئے ،ایک اکبر رضا جمشید اردو ادبی ایوارڈ بہار و جھارکھنڈ اور اردو ادب ایوارڈ برائے مجموعی کارکردگی ،آخرالذکر ایوارڈ ہمنشیں بہار نے انہیں دیا تھا ۔
عکس مطالعہ ایک سہ بابی کتاب ہے، جس میں مضامین بھی ہیں تبصرے بھی ،دو مضامین مسائل اردو سے متعلق بھی شامل کتاب ہیں، مضامین والے حصے میں شاد عظیم آبادی، سلطان اختر ،ذکی احمد ذکی، پروفیسر شاہد علی، احمد اشفاق کی شاعری ،شین مظفر پوری ،مناظر عاشق ہرگانوی،بختیار ر احمد کی انشائیہ نگاری، کلیم عاجز کی مکتوب نگاری ،سید عبدالرافع کی صحافتی خدمات ،مولانا آزاد کا پھول پودوں سے شوق ،کرشن چندر کا افسانہ کالو بھنگی ، مولانا حسرت موہانی اور جنگ آزادی جیسے متنوع قسم کے مضامین شامل ہیں ،پروفیسر عبدالمغنی پردو مضمون شخصیت اور جہتیں اور ان کی نثر نگاری پراس مجموعہ میں شامل ہیں ،مجتبیٰ حسین، تیری یاد شاخ گلاب ہے، مولانا رضوان القاسمی ؛ایک جوہر کمیاب شخصیت اور پروفیسر قمر اعظم ہاشمی کی یاد میں، یاد رفتگاں کے قبیل کے مضامین ہیں ،جن میں ان کی علمی ،ادبی اور تعلیمی خدمات کا جائزہ بھی لیا گیا ہے، یہ باب اٹھارہ  مضامین کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، جس کا سلسلہ صفحہ146 پر جا کر ختم ہوتا ہے، اس باب کا آغاز صفحہ نمبر 16 سے ہوا ہے ۔
تبصرے والے حصے میں اقبال شاعر اور دانشور ،حرف آگہی،امعان نظر، ڈاکٹر ممتاز احمد خاں ایک شخص ایک کارواں، مناظر عاشق ہرگانوی کی نعت گوئی میں ندرت ، مولانا ابوالکلام آزاد اور ان کا نظریہ تعلیم، سید اجمل فرید؛ یادیں، باتیں ،بہار میں اردو صحافت :سمت ورفتار،مناظر عاشق ہر گانوی کا ناول ،شبنمی لمس کے بعد ،متاع لوح و قلم، بدر محمدی کی شاعری خوشبوکے حوالے سے، انوار قمر، صدبرگ سخن ہائے گسترانہ، صدائے گوہر، سہرے کی ادبی معنویت، اردو ادب ترقی پسندی سے جدیدیت تک اور خیال خاطر ،اس باب میں اٹھارہ کتابوں پر تبصرہ ہے، عارف حسن نے ڈاکٹر ممتاز احمد خاں، مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی،بدر محمدی ،ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق ،ڈاکٹر زہرا شمائل ،ڈاکٹر احسان عالم ،ڈاکٹر منصور خوشتر ،پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی ،مولانا سید مظاہر عالم قمر ،سید مصباح الدین احمد، بختیار احمد ،ڈاکٹر محمد گوہر ،ڈاکٹر امام اعظم ،پروفیسر توقیر عالم اور مولانا رئیس اعظم سلفی کی تخلیقات ،تصنیفات ، تالیفات اور تحقیقات پر اپنے قلم کی جولانی دکھائی ہے اور ان کی تخلیقی ،تنقیدی اور تحقیقی  در وبست کو اجاگر کرنے کے ساتھ فکری اور فنی حیثیت کو بھی قاری کے سامنے رکھا ہے، اس مجموعہ کا اختتام اردو کے مسائل پر کیا گیا ہے، جس کا عنوان ہے  عوامی سطح پراردو زبان کے فروغ میں درپیش مسائل اور ان کا حل  نیز نئی نسل کی اردو سے بڑھتی دوری، اسباب اور سد باب اسے مسک الختام کہنا چاہئے۔
’’عکس مطالعہ ‘‘کا حصہ مضامین والا ہو یاتبصرہ والا دونوں میں ڈاکٹر عارف حسن نے اعتدال اور توازن کے ساتھ اپنا مطالعہ پیش کردیا ہے، ان کے تبصرہ والے مضامین کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے صرف گل چینی ہی نہیں کی ہے؛ بلکہ جہاں کہیں کوئی غلطی نظر آئی، کسی جھول پر نظر ٹک گئی تو انہوں نے برملا اس کا اظہار کردیا ہے ، تنقید کرتے وقت زبان شستہ  رکھی گئی ،سوقیانہ اور شخصیت کو مجروح کرنے والے الفاظ سے انہوں نے گریز کیا ہے ،بات ساری کہہ گئے ہیں؛ لیکن اسلوب ،پیرایہ بیان، جملوں کا انتخاب اس طرح کیا ہے کہ کسی کو اپنی  ہتک عزتی کا احساس نہیں ہوتا ؛بلکہ وہ لب لعل وشکر خارا کی طرح ایک قسم کی مٹھاس لئے ہوے ہے،ان کے الفاظ اور جملوں میں ترسیل کی جو صلاحیت ہے وہ قاری کو اس کے اندرون تک پہنچا دیتی ہے، انہوں نے خود بھی لکھا ہے کہ’’ اعتدال کی راہ ہر جگہ روا رکھی گئی ہے،‘‘ یہی اعتدال اس کتاب کی خصوصیت ہے ۔
 دوسری خصوصیت’’عکس  مطالعہ‘‘ کے مضامین کا تنوع ہے ،جس میں ادب ،شاعری ،خاکے انشائیے ،سبھی کچھ سما گئے ہیں ،ان پر قلم اٹھانے کا مطلب سیدھا سیدھا یہ ہے کہ مضمون نگار کا مطالعہ ان اصناف ادب کے سلسلے میں وسیع ہے ،جن میں گہرائی بھی ہے اورگیرائی بھی ، دو سوچونسٹھ صفحات کی  اس کتاب کا انتساب مصنف نے اپنے دادا مرحوم کے نام کیا ہے، شروع میں حرف افسرابراہیم افسر کا ہے ، اور پیش لفظ مصنف کے قلم سے ہے ،کتاب کی قیمت 160 روپے زائد نہیں مناسب ہے، کتاب المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے زیر اہتمام روشان پرنٹرس نئی دہلی سے چھپی ہے، آپ اگر پٹنہ میں رہتے ہیں تو بک امپوریم پٹنہ سے خرید سکتے ہیں ،کتاب مصنف کے پتہ کے ساتھ ممتاز اردو لائبریری ساجدہ منزل باغ ملی حاجی پور اور نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی بکساما،ویشالی  سے بھی مل سکتی ہے۔

سورج گرہن کے بارے میں کیا کہتے ہیں NASA سائنسدان ؟ جانیے کیاہیں خرافات اور کیا ہیں حقائق ؟

سورج گرہن کے بارے میں کیا کہتے ہیں NASA سائنسدان ؟ جانیے کیاہیں خرافات اور کیا ہیں حقائق ؟یہ سال کا وہ وقت ہوتا ہے جب چاند سورج اور زمین کے درمیان حرکت کرتا ہے۔ جسے سورج گرہن کہا جاتا ہے۔ جبکہ انٹارٹیکا زمین پر وہ واحد جگہ ہوگی جہاں ہفتہ یعنی 4 دسمبر کو مکمل سورج گرہن کا تجربہ ہو گا۔ سورج گرہن کے دوران سورج، چاند اور ہمارا سیارہ (زمین) کے اوپر ایک سیدھی لکیر میں سامنے ہوگا۔ اس واقعہ سے کئی ممالک اور بالخصوص ہندوستان میں لوگ کئی باتوں کا ذکر کرتے ہیں، جن میں سے بہت سی خرافات بھی ہوتی ہیں۔ دوسری جانب جزوی سورج گرہن سینٹ ہیلینا، نمیبیا، لیسوتھو، جنوبی افریقہ، جنوبی جارجیا اور سینڈوچ آئی لینڈ، کروزیٹ آئی لینڈ، فاک لینڈ آئی لینڈ، چلی، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں رہنے والے لوگوں کو نظر آئے گا۔ اطلاع کے مطابق 4 دسمبر کو طلوع آفتاب یا غروب آفتاب سے پہلے سورج گرہن کا واقعہ رونما ہوسکتا ہے۔ ناسا کے سائنسدانوں نے سورج گرہن کے بارے میں کئی حقائق کی نشاندہی کی ہے۔ آپ کی سالگرہ کے چھ ماہ بعد یا آپ کی سالگرہ پر سورج گرہن صحت خراب کی علامت ہے؟ ناسا (NASA) کے مطابق یہ نجومیوں کے درمیان ایک عام عقیدہ ہے۔ مکمل سورج گرہن اور آپ کی صحت کے درمیان کوئی فزیکل تعلق نہیں ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے آپ کی صحت اور چاند کے درمیان کوئی رشتہ نہیں کے برابر ہے۔ لوگوں سے بات چیت کے دوران وقتاً فوقتاً اس طرح کی باتیں سننے کو مل سکتے ہیں، لیکن اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مکمل سورج گرہن نقصان دہ شعاعیں پیدا کرتا ہے جو اندھے پن کا سبب بن سکتے ہیں؟ ناسا کے سائنسدانوں کے مطابق مکمل سورج گرہن کے دوران جب چاند کا سایہ سورج کو مکمل طور پر ڈھانپ لیتا ہے، تو وہ برقی مقناطیسی شعاعیں خارج کرتا ہے۔ یہ بعض اوقات سبز رنگت کی بھی ہوتی ہے۔ سائنسدانوں نے اس تابکاری کا صدیوں سے مطالعہ کیا ہے۔ سورج کی روشنی سے دس لاکھ گنا زیادہ بیہوش ہونے کی وجہ سے، کورونل لائٹ میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو 150 ملین کلومیٹر خلا کو عبور کر سکے اور ہمارے گھنے ماحول میں گھس سکے اور وہ اندھے پن کا باعث بن سکے۔

تاہم اگر آپ مکمل ہونے سے پہلے سورج کو دیکھتے ہیں، تو آپ کو شمسی سطح کی ایک جھلک نظر آئے گی اور اس سے آنکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے، حالانکہ عام انسانی جبلت کا ردعمل یہ ہے کہ کسی بھی شدید نقصان کے واقع ہونے سے پہلے فوری طور پر نظریں ہٹا لیں۔

قومی، بین الااقوامی، جموں و کشمیر کی تازہ ترین خبروں کے علاوہ تعلیم و روزگار اور بزنس کی خبروں کے لیے نیوز18 اردو کو ٹویٹر اور فیس بک پر فالو کریں۔

جمعہ, دسمبر 03, 2021

جھانسی کے لوگ اب بی جے پی کے جھانسے میں نہیں آئیں گے : اکھلیش یادو

جھانسی کے لوگ اب بی جے پی کے جھانسے میں نہیں آئیں گے : اکھلیش یادو

جھانسی: اتر پردیش کے بندیل کھنڈ میں تین روزہ انتخابی مہم پر گئے سماج وادی پارٹی کے قومی صدر اکھلیش یادو نے جمعہ کو جھانسی میں ریاستی حکومت پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ بندیل کھنڈ کے لوگوں نے بی جے پی کو مکمل حمایت کی لیکن ان کے ساڑھے چار سال کے اقتدار کے بعد یہاں کے لوگ خالی ہاتھ رہ گئے۔ اب جھانسی والے ان کے جھانسے میں نہیں آئیں گے، اس بار بندیل کھنڈ کے لوگ بی جے پی کو بے دخل کر دیں گے، بندیل کھنڈ سے بی جے پی کا دروازہ بند ہو جائے گا۔

یہاں ایک مقامی ہوٹل میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے، ایس پی سربراہ نے کہاکہ بندیل کھنڈ کے لوگوں نے بی جے پی کی ڈبل انجن والی حکومت کو ووٹ دیا لیکن عوام خالی ہاتھ رہ گئے۔ اس حکومت نے بندیل کھنڈ کو خوش کرنے کے لیے کوئی ٹھوس فیصلہ نہیں لیا۔یہاں تک کہ پرانی حکومت میں جو کام چل رہے تھے، یہ حکومت انہیں بھی مکمل نہیں کر سکی، عوام اب سب کچھ سمجھ چکی ہے۔ جھانسی کی مہارانی لکشمی بائی نے جس طرح انگریزوں کو بھگانے کا کام کیا تھا، اسی طرح بندیل کھنڈ کے لوگ لائن میں کھڑے ہو کر ان کے خلاف ووٹ دیں گے اور انہیں بندیل کھنڈ سے بھگانے کا کام کریں گے۔

نوجوانوں، کسانوں، تاجروں سمیت سماج کا ہر طبقہ بی جے پی حکومت کے دور میں زبردست مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔ یاد رہے جب لاک ڈاؤن نافذ تھا تو لوگ پیدل ہی اپنے گھروں کو جا رہے تھے۔ یہ وہی بارڈر ہے جہاں سے مزدوروں کو اندر نہیں آنے دیا جا رہا تھا، کئی دنوں تک بغیر کھائے پیے، بغیر کسی انتظام کے بارڈر پر اسی طرح پڑے رہے۔ جب وہ مجبوری میں اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکے تو انہوں نے بریکیٹ توڑ دی اور مجبوری میں گھر کی راہ لی۔ جو مزدور دوسری ریاستوں میں کام کرتے تھے وہ دوسری ریاستوں میں بغیر کھائے پیئے بغیر نہائے اس طرح پڑے رہتے تھے۔ اس وقت حکومت نے ان کی کوئی مدد نہیں کی، انہیں یتیم چھوڑ دیا۔اس حکومت میں کسانوں پر زبردست مظالم ہوئے۔ حکومت کسانوں پر جیپ چڑھانے والوں کے ساتھ کھڑی ہے، انہیں بچا رہی ہے۔ جب الیکشن سر پر ہے تو کہہ رہے ہیں کہ ہم لیپ ٹاپ دیں گے، ٹیبلیٹ بانٹیں گے، اسمارٹ فون دیں گے۔ اگر حکومت اپنا وعدہ پورا کرتی تو لاک ڈاؤن میں لوگوں کو اتنی پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ یہ حکومت صرف سابقہ حکومتوں کے کاموں کا نام بدل کراپنا بتانے والی حکومت ہے۔ نام بدلنے والی اس حکومت کو بدلنے کا کام اب عوام کریں گے۔

بی جے پی کے دور میں پولیس نے سب سے زیادہ مظالم ڈھائے، بہت ظلم ہوا ہے۔ حراستی اموات کی سب سے زیادہ تعداد اتر پردیش میں ہے۔ اتر پردیش حکومت کو زیادہ سے زیادہ فرضی انکاؤنٹرز پر این ایچ آر سی نوٹس موصول ہوئے ہیں۔ یہ حکومت قتل و غارت گری اور دھمکیاں دے کر حکومت کرنا چاہتی ہے۔ بی جے پی خوشامد کی نہیں بلکہ شرارت کی سیاست کرتی ہے۔

اکھلیش نے کہا کہ ایس پی وجے یاترا کا پروگرام لگاتار جاری ہے۔ میں عوام کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جہاں بھی پروگرام ہو رہا ہے وہاں عوام کا بھرپور تعاون حاصل ہے۔ اس بار بھی عوام کی مکمل محبت اور حمایت ایس پی کے حق میں نظر آ رہی ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر سماجوادی حکومت بنتی ہے تو کھیتوں میں پانی پہنچانے کا ایسا انتظام کیا جائے گا کہ کم از کم بندیل کھنڈ کے ہمارے کسان دو فصلیں حاصل کر سکیں گے۔ اس مہنگائی کے باوجود ہم ماں بہنوں کو تین گنا عزت دے کر ان کی عزت بڑھانے کا کام کریں گے۔ جھانسی کو بندیل کھنڈ ایکسپریس وے سے جوڑیں گے۔ اس بار کسانوں،جوانوں، خواتین اور تاجروں نے بی جے پی کو شکست دینے کا ارادہ کر لیا ہے۔

دنیا گرم ہو رہی ہے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹںہ ============================= پوری دنیا میں اس وقت جو ماحولیاتی تبدیلی ہو رہی ہے، اس کی وجہ سے انسانی زندگی ہی نہیں، درختوں اور جانوروں کے وجود کو بھی شدید قسم کے خطرات لاحق ہیں،

دنیا گرم ہو رہی ہے 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹںہ ============================= پوری دنیا میں اس وقت جو ماحولیاتی تبدیلی ہو رہی ہے، اس کی وجہ سے انسانی زندگی ہی نہیں، درختوں اور جانوروں کے وجود کو بھی شدید قسم کے خطرات لاحق ہیں، اس خطرے کی سنگینی کو پوری دنیا محسوس کر رہی ہے ، اقوام متحدہ نے اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں برطانیہ کی میزبانی میں گذشتہ دنوںعالمی ماحولیاتی کانفرنس(COP26) کا انعقاد کیا تھا، جو یکم نومبر سے ۱۲؍ نومبر ۲۰۲۱ء تک جا ری رہا اور جس میں ایک سو تیس(۱۳۰) ملکوں کے قائدین سفراء ، صحافی اور دانشوران نے شرکت کی اور اس کی سنگینی پر تبادلہ خیال کیا، گو اس اہم کانفرنس میں کئی بڑے ممالک چین ، روس ، جنوبی افریقہ، ایران ، میکسیکو، برازیل، ترکی اور ویٹکن سیٹی کے سربراہان نے شرکت نہیں کی اور مختلف عذر کے سہارے اپنے کو اس اہم ترین کانفرنس سے الگ رکھا۔
 پوری دنیا میں حدت اور تپش تیزی سے بڑھ رہی ہے ،اور دنیا دن بدن گرم ہو رہی ہے، انٹر گورنمنٹل پینل آف کلائمنٹ چینج (IPCC)نے نبی نوع انسان کو اس کے لئے ذمہ دار قرار دیا ہے ، اس حدت کے سبب سمندر میں گرم لہریں اٹھ رہی ہیں، جنگل میں آگ لگ رہی ہے ، سیلاب کے خطرات بڑھ رہے ہیں، آتش فشاں پھٹنے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے ، اس ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں پودوں اور جانوروں کی دس لاکھ نسلوں کے ختم ہوجانے کا خدشہ ہے ، جانوروں کے تحفظ کے لیے حکومتی سطح پر کی جانے والی کوشش کے باوجود ۲۰۱۶ء تک دودھ پلانے والے جانور کی ۶۱۹۰؍ نسلوں میں سے ۵۵۹ ؍نسلیں ناپید ہو چکی ہیں، اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ہر سال کم وبیش اسی لاکھ ٹن کچڑا سمندر میں پھینکا جا رہا ہے ، جس سے آٹھ سوسے زیادہ سمندری جانورکی نسلیں تباہ ہو نے کے دہانے پر ہیں، ایک سروے کے مطابق ۱۹۸۰ء کے بعد پلاسٹک کے ذریعہ پھیلنے والی آلودگی میں دس گنا اضافہ ہوا ہے ، جن کی وجہ سے ۲۶۷؍ پانی میں بود وباش رکھنے والے جانوروں کی نسل ، مثلا کچھوا، سمندری پرندے اور ۴۳؍ فی صد بحری جانور کے ضیاع کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔چالیس فی صد سمندر آلودہ ہو گیا ہے، مچھلیوں کی تعداد گھٹ رہی ہے ، اور اس تبدیلی کی وجہ سے تین ارب سے زیادہ لوگ اس پروٹین سے محروم ہو رہے ہیں جو سمندر سے انسانوں کو ملا کرتا ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں زیر زمین جو آبی ذخائر ہیں، ان میں سینتیس (۳۷) اہم ہیں، ان میں سے تیرہ (۱۳)تیزی کے ساتھ خالی ہو رہے ہیں، بظاہر ان کے پھر سے بھرنے کی کوئی امید نہیں ہے، ۲۵؍ کروڑ پچاس لاکھ افراد کو ہر سال خشکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے دیگر ترقیاتی کاموں کے ساتھ غذائی اجناس کی پیداوار پر غیر معمولی اثر پڑتا ہے، اندازہ ہے کہ ۲۰۳۰ء تک دنیا کی درجۂ حرارت میں ۵ئ۱؍ ڈگری سنٹی گریڈ کا اضافہ ہوگا، جس سے دنیا شدید آفات اور موسمی بحران میں مبتلا ہوگی۔ یہ صرف خدشہ نہیں ، بلکہ اب تک وقوع پذیر واقعات سے اس کی تائید ہوتی ہے ، ۲۰۱۹ء میں آسٹریلیا کے جنگل میں آگ لگی تھی، جس کی وجہ سے ترسٹھ لاکھ ہیکٹر سبزہ زار ، تیرہ سو گھر اور ستائیس انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں، ایک بلین جانوروں کی بھی موت اس آتش زنی میں ہوئی تھی، امریکہ کا شہر کیلوفورنیا، ترکی کے دکھنی اور اٹلی کے اتری حصے بھی اس سے متاثر ہوئے، جہاں درجۂ حرارت ۸ئ۴۸؍ ڈگری سیلسیس پہونچ گیا، یونان، الجیریا اوریروشلم تک کے علاقے اس کی زد میں آئے، پڑوسی ملک مالدیپ سمندری سطح سے صرف آٹھ فٹ اوپر ہے ، اس کے یہاں یہ مسئلہ اس قدر پریشان کن ہے کہ ۲۰۰۹ء میں مالدیپ کے صدر محمد نشید نے کابینہ کی میٹنگ زیر آب کی تھی، تاکہ حدت کے اس خطرناک مسئلہ کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول ہوسکے۔
عالمی سطح سے ہٹ کر اپنے ملک ہندوستان کا رخ کریں اور یہاں کی صورت حال کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہندوستان میں ۲۰۱۸ء میں ۲۰۸۱ لوگ قدرتی آفات کی وجہ سے موت کے منہ میں جاسوئے تھے اور ۳۷۸۰۷ ملین ڈالر کا نقصان ہوا تھا، جو ہمارے ملک کی شرح آمدنی کا ۳۶ء ۰ ؍ فی صد ہے۔ آئی پی سی سی کی رپورٹ کے مطابق اگر سمندر کی سطح پچاس سنٹی میٹر بھی بڑھ جاتی ہے تو ہندوستان کے چھ وہ شہر جس میں بندر گاہ ہے یعنی چنئی، کوچی، کولکاتا، ممبئی، سورت اور وشاکھا پٹنم کے ۸۶-۲؍ کروڑ لوگوں کو سیلاب کاسامنا کرنا پڑے گا۔
 یہ خطرات صنعتی انقلاب کی مرہون منت ہیں، کار خانوں سے کاربن ڈائی اکسائڈ اور میتھن گیس جیسی زہریلی چیزیں فضا میں پھیلنے لگیں، ۱۹۹۴ء تک دنیا صنعتی ترقی کے مزے لیتی رہی ، ۱۹۹۵ء میں پہلی کوپ کانفرنس مونٹر یال جرمنی میں منعقد ہوئی، تب تک بہت دیر ہو چکی تھی، ۱۹۹۷ء میں کیوٹو پروٹو کول کا مسودہ تیار ہوا اور ۲۰۱۵ء میں دو سو سے زائد قائدین نے پیرس معاہدہ کرکے اس پر لگام لگانے کی کوشش کی؛ لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔
 مرض بڑھنے کے خوف سے دوا، احتیاط اور تدبیریں چھوڑی نہیں جا سکتیں، اسی لیے گلا سکو عالمی ماحولیات کانفرنس میں سو سے زائد ممالک نے جنگلات کی کٹائی پر روک لگانے اور ۲۰۲۰ء تک میتھن گیس کے اخراج کو تیس (۳۰)فیصد تک کم کرنے پر اتفاق کر لیا ہے ، کوئلہ کے استعمال پر چالیس ممالک نے کمی کرنے کا وعدہ کیا، لطیفہ یہ ہے کہ سب سے زیادہ کوئلہ استعمال کرنے والے ممالک آسٹریلیا، ہندوستان، چین اور امریکہ نے اس معاہدہ پر دستخط نہیں کیا ہے، یہ پانچ وہ ممالک ہیں جہاں کوئلے کی کھپت زیادہ ہوتی ہے اور کاربن سب سے زیادہ کوئلہ کے جلانے سے ہی پیدا ہوتا ہے ، کوئلہ کے استعمال کے بغیر ہمارے پاور پلانٹ کام ہی نہیں کر سکتے، اس لیے ہندوستان کا شمار گرین ہاؤس گیس خارج کرنے والے ممالک میں تیسرے نمبر ہے، اس نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ ہم ۲۰۷۰ء تک کاربن کے اخراج کو صفر تک لانے کی کوشش کریں گے ۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ کانفرنس میں شامل ۴۵۰؍ ادارے نے ماحولیاتی حدت وحرارت میں کمی لانے کے ۱۳۰؍ ڈالر ٹریلین کا فنڈ دیں گے۔
 وعدے ہوتے ہی رہتے ہیں، ۲۰۱۴ء میں بھی اس قسم کا وعدہ اور معاہدہ ہوا تھا، لیکن اس کے نفاذ کی عملی شکل سات سال گذرنے کے بعد بھی نہیں بن سکی،ا ندیشہ ہے کہ اس کانفرنس کی تجاویز بھی کہیں فائلوں میں دب کر نہ رہ جائے۔ جو فنڈ مختص کیا گیا ہے اس کے بندربانٹ میں بھی پریشانیاں آسکتی ہیں، ایسے میں اس کانفرنس کے نتائج پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ اگر ہم نے اس طرف توجہ نہیں دی تو روئے زمین پر بنی نوع انسان کے ساتھ دوسرے چرند وپرند کی زندگی بھی آسان نہیں رہے گی۔
قابل ذکر ہے کہ اس معاملہ میں ہندوستان کی پالیسی بدلی ہے اور اسے بھی حالات کی سنگینی کا احساس ہوگیا ہے اور اب وہ اس کے لیے تیار  ہے کہ ان حالات کو بدلنے میں وہ اپنی بھر پور حصہ داری نبھائے گااور ماحولیاتی توازن کی برقراری کے لیے کام کرے گا، ہمیں اس تبدیل شدہ موقف کی ستائش کرنی چاہیے۔ پوری دنیا نے ہندوستان کے بدلے ہوئے موقف کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔
 (مضمون نگار امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ کے نائب ناظم اور ہفت روزہ نقیب کے مدیر ہیں)

بہار میں ملک کے سب سے بڑے سونے کے ذخائر ملے ، کان کنی کے وزیر نے پارلیمنٹ میں دی جانکاری ،

بہار میں ملک کے سب سے بڑے سونے کے ذخائر ملے ، کان کنی کے وزیر نے پارلیمنٹ میں دی جانکاری ،

بہار میں ملک میں سب سے زیادہ سونے کے ذخائر ہیں۔ یہ اسٹور جموئی ضلع کے سونو بلاک کے کرماٹیا علاقے میں واقع ہے۔ مرکزی کانکنی وزیر پرہلاد جوشی نے خود بدھ کو پارلیمنٹ میں یہ جانکاری دی۔ پرہلاد جوشی نے انکشاف کیا ہے کہ جموئی کے پاس ملک میں سب سے زیادہ سونے کے ذخائر ہیں۔ جموئی ضلع کے سونو علاقے میں صرف 44 فیصد سونا ہے۔ وزیر کے انکشافات کے بعد ملک کی غریب ترین ریاستوں میں سے ایک بہار کی امیدیں جاگ اٹھی ہیں۔ مقامی لوگ بھی جلد سونے کی کان کنی شروع ہونے کے لیے پرامید ہیں۔

بہار بی جے پی کے صدر اور بیتیہ کے رکن پارلیمنٹ سنجے جیسوال نے بدھ کو لوک سبھا میں مرکزی کانکنی وزیر پرہلاد جوشی سے بہار کی ریاستوں میں سونے کے ذخائر کے بارے میں سوال کیا تھا۔ اس سوال کے جواب میں جانکاری دیتے ہوئے پرہلاد جوشی نے کہا تھا کہ بہار میں ملک کے سب سے زیادہ سونے کے ذخائر ہیں۔ بتایا گیا کہ ملک کے پاس 501.83 ٹن سونے کے بنیادی ذخائر ہیں۔ اس میں 654.74 ٹن سونے کی دھات ہے، جس میں سے 44 فیصد سونا صرف بہار میں پایا گیا ہے۔ ریاست کے جموئی ضلع کے سونو فیلڈ میں 222.885 ملین ٹن سونے کے ذخائر پائے گئے ہیں جن میں 37.6 ٹن دھاتی دھات بھی شامل ہے۔

جموئی ضلع کے سونو بلاک کے چورہیٹ پنچایت کا کرماٹیہ علاقہ کئی دہائیوں سے سونے کے ذخائر کو لے کر بحث میں ہے۔ یہاں کے لوگ بتاتے ہیں کہ بہت پہلے سے یہاں کی مٹی میں سونے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ملے تھے۔ بہت پہلے لوگ کرماٹیہ کے علاقے کی مٹی کو دریا کے پانی میں دھو کر سونا نکالنے کے لیے چھلنی کرتے تھے جس کی وجہ سے تقریباً 15 سال پہلے یہاں سرکاری ادارے کے لوگ آئے اور مہینوں بعد سروے کا کام ہوتا تھا۔
بتایا جا رہا ہے کہ اسی سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جموئی ضلع کے سونو بلاک کے اس کرماٹیہ علاقے میں ملک کے سب سے بڑے سونے کے ذخائر ہیں، کہا جا رہا ہے کہ یہاں 44 فیصد سونا پایا جا رہا ہے۔

جموئی کے سونو کے علاوہ دیگر بلاکس میں بھی کئی قسم کی معدنی دھاتیں پائی جاتی ہیں۔ ابرک کے علاوہ اس میں سلیمانی سمیت کئی قیمتی پتھر بھی شامل ہیں۔ ایسے میں بتایا جا رہا ہے کہ 15 سال قبل جیولوجیکل سروے آف انڈیا کے لوگوں کے سروے کے بعد کھدائی مہنگی ہونے کی وجہ سے دوبارہ شروع نہیں ہو سکی۔ لیکن، جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اب کھدائی پہلے کی نسبت سستی ہوتی جا رہی ہے، اس لیے اب اس بات کے بھی امکانات ہیں کہ یہاں سونے کی کان کنی جلد شروع ہو سکتی ہے

جمعرات, دسمبر 02, 2021

رشتوں کا احترا م کریں مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ہماری زندگی میں رشتوں کی بڑی اہمیت ہے، ان کی وجہ سے ہم تنہائی او راکیلا پن سے بچ جاتے ہیں اور ان کے ساتھ ہونے کی وجہ سے خوشی اور غمی میں ہمیں آگے بڑھنے اور غموں کے برداشت کرنے کا حوصلہ ملتا ہے ، زندگی میں کئی ایسے مواقع آتے ہیں

رشتوں کا احترا م کریں 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
ہماری زندگی میں رشتوں کی بڑی اہمیت ہے، ان کی وجہ سے ہم تنہائی او راکیلا پن سے بچ جاتے ہیں اور ان کے ساتھ ہونے کی وجہ سے خوشی اور غمی میں ہمیں آگے بڑھنے اور غموں کے برداشت کرنے کا حوصلہ ملتا ہے ، زندگی میں کئی ایسے مواقع آتے ہیں، جب رشتوں میں گرم جوشی باقی نہیں رہتی، کئی موقعوں سے رشتہ دار ہم سے ٹوٹ جاتے ہیں، ایسے موقع سے ہمیں ان اسباب وعوامل کی تلاش کرنی چاہیے، جن کی وجہ سے سرد مہری پیدا ہوئی یا رشتے ٹوٹ رہے ہیں، ان کی تلاش کے بعد ان کو دور کرنے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے، کیوں کہ ہماری توانائی اورطاقت کا بڑا حصہ رشتوں میں قربت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ، پلتا اور بڑھتا ہے ، رشتے ٹوٹتے ہیں تو ہم کمزور ہوجاتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ہمارے اندر کچھ ٹوٹ سا گیا ہے۔ رشتہ داروں میں کئی وہ ہوتے ہیں جو آپ سے کٹ کر زندگی گذارنا چاہتے ہیں، ان کو بھی جوڑنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
 رشتے صرف ماں باپ ، بہن بھائی، شوہر بیوی ہی کے نہیں ، پڑوسی ، سماج اور دوستوں سے بھی ہوا کرتے ہیں، جہاں ہم کام کرتے ہیں، جن کے ساتھ ہمارا اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے ، جو ہماری خوشی وغمی میں ہماری پشت پر کھڑے ہوتے ہیں، وہ لوگ جن تک دین کی دعوت پہونچانا ہماری ذمہ داری ہے اور جو امت دعوت ہیں وہ سب ہمارے رشتہ دار ہیں، ہم جو کچھ سوچتے ہیں، ان کے ساتھ جو برتاؤ کرتے ہیں، سامنے والا جو کچھ سوچتا ، بولتا اور ہمارے ساتھ برتاؤ کرتا ہے ، یہ سب رشتہ داری اور تعلقات کی سردی وگرمی کے مظہر ہوا کرتے ہیں، اس موقع پر ہمیں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان یاد رکھنا چاہیے ، جو عقبہ بن عامر ؓ سے آپ نے فرمایا تھا کہ جو تعلق توڑے اس سے صلہ رحمی کرو، جو تمہیں محروم کرے اسے عطا کرو اور جو تم پر ظلم کرے ا سے در گذر کرو، ایک دوسرے موقع سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبہ بن عامرؓ کو یہ بھی حکم دیاتھا کہ اپنی زبان کو قابو میں رکھو ، تمہارا گھر تمہیں اپنے اندر سما لے اور اپنی غلطیوں پر رویا کرو۔
 واقعہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عقبہ بن عامر ؓ کو جو نصیحتیں کیں، وہی رشتوں کے احترام کی اساس وبنیاد ہیں، رشتے صلہ رحمی نہیں کرنے سے ٹوٹتے ہیں، نا جائز طور پر مال ودولت ہڑپ کر لینے اور ظلم وستم سے ٹوٹتے ہیں، اس لیے اگر فریق ثانی تعلق منقطع کرنا چاہتا ہے ، واجب حق سے محروم کرنا چاہتا ہے اور ظلم وستم اس کا شیوہ بن گیا ہے تو بھی انسان کو یک طرفہ طور پر تعلقات بحال رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، اس کے لیے داد ودہش اور ظلم وستم کے مقابلے عفو ودر گذر سے کام لینا چاہیے۔ ایسے موقع سے زبان بے قابو ہوجاتی ہے اور جو منہ میں آیا آدمی بکنے لگتا ہے ، وہ اپنے گھر سے باہر نکل کر رشتے کی پامالی میں شریک ہوجاتا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کر دیا کہ رشتوں کو باقی رکھنے کے لیے زبان کو قابو میں رکھنا چاہیے، گھر سے بلا ضرورت نہیں نکلنا چاہیے، بلکہ گھر میں ہی رہنا چاہیے، پھر اس ظلم کے خلاف ممکن ہے تمہارا رویہ بھی شریعت کے خلاف ہو گیا ہو؛ اس لیے اپنی غلطیوں پر ندامت کے آنسو بہاؤ؛ تاکہ حالات درست ہوجائیں اور اللہ رب العزت ندامت کے آنسو کو قبول کر لیں۔
ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہمارا عمل ان میں سے کسی پر نہیں ہے ، اس لیے خاندان ٹوٹ رہے ہیں اور بھائی سے بھائی اور شوہر سے بیوی کے تعلقات بھی استوار نہیں ہیں، جس کی وجہ سے سماجی طور پر جو نقصانات اٹھانے پڑ رہے ہیں وہ اپنی جگہ، ذہنی تناؤ کے ہم جس قدر شکار ہیں اس نے ہماری زندگی کوعذاب بنا رکھا ہے ، اللہ ہم سب کو اپنی مرضیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق زندگی گذارنے کا حوصلہ اور جذبہ عطا فرمائے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...