Powered By Blogger

منگل, دسمبر 14, 2021

وزیر اعظم مودی نے نصف شب وزیر اعلی یوگی کے ساتھ کئے بنارس کے دیدار ، ریلوے اسٹیشن کا لیا جائزہ

وزیر اعظم مودی نے نصف شب وزیر اعلی یوگی کے ساتھ کئے بنارس کے دیدار ، ریلوے اسٹیشن کا لیا جائزہ

وارانسی: وزیر اعظم نریندر مودی اپنے پارلیمانی حلقہ وارانسی کے دورے پر ہیں۔ کاشی وشوناتھ کوریڈور کے افتتاح کے بعد وزیر اعظم نے پیر کی رات شہر میں ہونے والے اہم ترقیاتی کاموں کا جائزہ لیا۔ ساتھ ہی انہوں نے نصف رات کو بنارس ریلوے اسٹیشن کا بھی جائزہ کیا۔ اس دوران وزیر اعظم کے ساتھ اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ بھی موجود تھے۔ پی ایم مودی نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اس سے متعلق تصاویر شیئر کی ہیں۔

وزیر اعظم مودی نے وزیر یوگی کے آدھی رات کو بنارس ریلوے اسٹیشن پر پہنچے کے دوران ٹویٹ کیا، 

"اگلا اسٹاپ...

بنارس اسٹیشن۔ ہم ریل رابطے بڑھانے کے ساتھ صاف، جدید اور مسافر دوست ریلوے اسٹیشنوں کی سمت میں کام کر رہے ہیں۔''


وزیر اعظم نے وارانسی میں کاشی وشوناتھ مندر کا دورہ کیا۔ کاشی میں جاری اہم ترقیاتی کاموں کا بھی جائزہ لیا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ اس مقدس شہر کے لیے بہترین ممکنہ بنیادی ڈھانچہ تیار کیا جائے۔


وزیر اعظم مودی نے دیر رات گئے وارانسی میں بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اور نائب وزرائے اعلیٰ کے ساتھ میٹنگ کی۔ انہوں نے ملاقات کے بعد کی ایک تصویر بھی شیئر کی ہے، جس میں بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا اور دیگر رہنما نظر آ رہے ہیں۔


اس سے پہلے وارانسی آئے وزیر اعظم نے گنگا آرتی اور لیزر لائٹ شو بھی دیکھا۔ اس دوران وزیر اعلی یوگی بھی ان کے ساتھ رہے۔ شہر میں پیر روز شیو دیپوتسو بھی منایا گیا۔


وزیر اعظم مودی نے کہا، "کاشی کی گنگا آرتی ہمیشہ اندرونی روح کو نئی توانائی سے بھر دیتی ہے۔ آج کاشی کے بڑے خواب کو پورا کرنے کے بعد، دشاسوامیدھ گھاٹ پر گنگا آرتی میں شامل ہوا اور ماں گنگا کی مہربانی کے لیے ان کے سامنے جھک گیا۔


وزیر اعظم نریندر مودی آج وارانسی میں بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ میٹنگ کریں گے۔ اس کے بعد سواروید مہامندر دھام، امرہاں میں منعقدہ پروگرام میں شرکت کریں گے۔ تقریباً ایک گھنٹہ مندر میں رہنے کے بعد ہیلی پیڈ سے بابت پور ہوائی اڈے کے لیے روانہ ہوں گے۔ اس کے بعد شام 5 بجے کے قریب طیارہ کے ذریعے دہلی کے لیے روانہ ہوں گے۔

پیر, دسمبر 13, 2021

بے کس اور بے بس قیدی مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ جو لوگ مجرم ہیں، انہیں یقینا سزا ملنی چاہیے اور ہمارا ماننا ہے کہ اس میں قانون کو اپنا کام کرنے دینا چاہیے

بے کس اور بے بس قیدی 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 جو لوگ مجرم ہیں، انہیں یقینا سزا ملنی چاہیے اور ہمارا ماننا ہے کہ اس میں قانون کو اپنا کام کرنے دینا چاہیے ، لیکن پریشانی اس وقت محسوس ہوتی ہے جب مختلف قانون کے تحت لوگوں شکوک وشبہات کی بنیاد پر گرفتار کر لیا جاتا ہے اور زمانہ دراز تک چارج شیٹ داخل نہ ہونے کی وجہ سے انہیں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع بھی میسر نہیں آتا اور کہنا چاہیے کہ جیل میں انہیں سڑا دیا جاتا ہے ، قصور قانون کا نہیں اس سسٹم کا ہے ، جس کی وجہ سے پولیس من مانی کرتی ہے ، اپنی تحویل میں لے کر تعذیب کے ذریعہ جسے ان کی اصطلاح میں تھرڈ گریڈ کہا جاتا ہے ، نا کردہ گناہوں کا اقرار کراتی ہے ، پولیس تحویل میں جو کچھ ہوتا ہے اس کی کہانی بار بار ہمارے سامنے آچکی ہے، اس لیے ملزم کے لیے عدالتی تحویل نسبتا راحت کا سبب ہوتا ہے اور وہ جسمانی اذیت سے بڑی حد تک محفوظ رہتا ہے ۔
 چارج شیٹ داخل بھی ہوجائے تو ہمارے یہاں انصاف کا حصول اس قدر مہنگا ہے کہ اوسط قسم کا انسان عدالت میں اپنی بے گناہی کے لیے وکلاء کی موٹی فیس ادا کرنے پر بھی قادر نہیں ہوتا، پھر بار بار جوتاریخیں پڑتی رہتی ہیں اس کے اخراجات الگ ہیں، صورت حال اس قدر خراب ہے کہ شاہ رخ خان کے بیٹے آرین خان کو منشیات کے ایک مبینہ معاملہ میں اٹھائیس روز لگ گئے، جب کہ ممبئی کے سرکردہ اور نامور وکلاء کی پوری ٹیم شاہ رخ خان نے کھڑی کر دی تھی ، ان کے وکیل تیش مانشندے نے بڑی اہم بات کہی کہ آرین خان خوش نصیب ہیں جنہیں بہترین قانونی ٹیم ملی، ظاہر ہے جیلوں میں بند دوسرے قیدی اس قدر خوش نصیب نہیں ہیں، اس کی تصدیق نیشنل کرائم رکارڈس بیورو (این سی آر بی) کی اس رپورٹ سے ہوتی ہے جو کئی سال کے بعد شائع ہوئی ہے ، اور جس میں ۳۱؍ دسمبر ۲۰۱۶ء تک کے ہی اعداد وشمار درج ہیں۔
 رپورٹ کے مطابق ملک کی چودہ سو جیلوں میں ۲۰۱۶ء تک چار لاکھ تینتیس ہزار قیدی تھے، ان مں سے جن پر جرم ثابت ہو چکا اورجنہیں سزا سنادی گئی ان کی تعداد ۱۳۵۶۸۳؍ تھی اور زیر سماعت قیدیوں کی تعداد ۲۹۳۰۵۸ تھی، اس کا مطلب ہے کہ ۶۷ ؍ فی صد قیدی زیر سماعت تھے۔ اسے اعداد وشمار کے اعتبار سے آپ دو تہائی بھی کہہ سکتے ہیں، افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ۱۶۴۹ ؍ قیدی خواتین کے ساتھ ۱۹۴۲؍ بے گناہ اور معصوم بچے بھی جیل کی ہوا کھا رہے ہیں، ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ اس ماں کے بچے ہیں جو قید ہیں، اور ان کے مقدمات زیر سماعت ہیں، جیل ضابطہ کے مطابق چھ سال تک وہ اپنی ماں کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔
ان اعداد وشمار کے تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قیدی خواتین سے زیادہ جیلوں میں بے گناہ معصوم بچے ہیں، ہم بار بار اس بات کو لکھ چکے ہیںکہ نصاف میں تاخیر بھی بے انصافی جیسا عمل ہے ، یقینا ہندوستانی عدلیہ پر ہمیں بھرسہ ہے ، لیکن انکوائری ، چارج شیٹ اور ٹرائل میں جو تاخیر ہوتی ہے اس کی وجہ سے جیلوں میں بند قیدی بے کس بھی ہیں اور بے بس بھی ، عدالت اور سسٹم کو اس پہلو بھی دھیان دینا چاہیے

مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضےڈاکٹر محمد حفظ الرحمن کی ایک قابل قدر کاوشکامران غنی صباشعبئہ اردو نیتیشور کالج مظفرپور

مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضے
ڈاکٹر محمد حفظ الرحمن کی ایک قابل قدر کاوش

کامران غنی صبا
شعبئہ اردو نیتیشور کالج مظفرپور
............ 
کل الیکشن ڈیوٹی میں مظفرپور کے کٹرہ بلاک کے انتہائی دور افتادہ گاؤں "کٹائی" جانے کا اتفاق ہوا. گاؤں تک جانے کا راستہ انتہائی ناہموار، تکلیف دہ اور پریشان کن تھا لیکن الیکشن ڈیوٹی کا معاملہ ایسا ہے کہ آپ چاہ کر بھی جان نہیں چھڑا سکتے. البتہ گاؤں کے ماحول نے متاثر کیا. ایسے دور افتادہ اور وسائل سے محروم گاؤں میں کئی ایسے نوجوان ملے جو ملک کے بڑے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں. 
یہاں برادرم سیف الرحمن سے اتفاقی طور پر ملاقات ہو گئی. سیف الرحمن ملت ٹائمز سے وابستہ ہیں اور واٹس ایپ کے توسط سے رابطے میں رہتے ہیں. انہوں نے اپنے بھائی ڈاکٹر محمد حفظ الرحمن (جواہر لال نہرو یونیورسٹی) کی کتاب "مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضے" پیش کی. موضوع میری دلچسپی کا تھا چنانچہ کتاب کا بیشتر حصہ وہیں پڑھ گیا. باقی گھر پہنچ کر مکمل کیا.
کتاب اپنے موضوع کے لحاظ سے گرچہ کوئی نئی نہیں ہے. اس موضوع پر بہت کچھ لکھا اور بولا جا رہا ہے لیکن اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ مصنف نے بہت ہی معروضیت کے ساتھ حقائق کا جائزہ لیا ہے اور صرف مسائل ہی نہیں رکھے ہیں، قابل عمل تجاویز بھی پیش کی ہیں. اس موضوع پر لکھنے اور بولنے والے زیادہ تر لوگ اعتدال و توازن برقرار نہیں رکھ پاتے ہیں. چنانچہ کچھ لوگ تنقید کا سہارا لے کر مدارس اسلامیہ اور ان کے اساتذہ کو تنقیص کا نشانہ بناتے ہیں وہیں مدارس سے وابستہ اہل علم حضرات پرانی کھینچی ہوئی لکیر سے ایک قدم بھی آگے بڑھنے کو تیار نہیں ہوتے.
ڈاکٹر محمد حفظ الرحمن نے انتہائی خلوص اور درد کے ساتھ مسائل کا جائزہ لیتے ہوئے بہت ہی مفید اور کارآمد مشورے پیش کیے ہیں.آج ہمارے یہاں ایسے افراد کی بہت کمی ہے جن کے اندر دینی غیر و حمیت کے ساتھ عصری آگہی بھی ہو.
مصنف نے کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے. پہلے باب میں "نصاب تعلیم" عنوان کے تحت درج ذیل عناوین قائم کیے گئے ہیں 
موجودہ علمی تحدیہ اور مدارس اسلامیہ
مشترکہ تعلیمی لائحہ عمل
تخص فی السیاسہ
تخصص فی القتصاد
تخصص فی الاجتماع
دوسرے باب میں "مشورے اور گزارشیں" عنوان کے تحت درج ذیل عناوین پر بہت ہی معروضیت کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے:
انگریزی کے اساتذہ کی قلت کا مسئلہ 
فارسی کتب سے استفادہ میں مشکلات
انگریزی داں علماء اور مدارس و مساجد
نصاب میں تبدیلی کے مثبت اثرات
اتحاد ملت اور مدارس اسلامیہ
ہماری ترجیحات میں تبدیلی ضروری 
مدارس اسلامیہ اور عصری تعلیم 
اسلامی اقامت خانہ کا قیام 
دینی و اخلاقی تربیت 
مدرسہ اور مسجد کی نام گزاری 

اس کتاب کو پڑھنے کے بعد اتنی بات تو بااطمینان کہی جا سکتی ہے کہ مصنف کے دل میں قوم کا درد ہے. پوری کتاب میں کہیں کوئی جذباتی جملہ نہیں ہے. کسی پر کوئی طعن و تشنیع نہیں ہے. اپنی بات کو منوانے کی کوئی ضد نہیں ہے بلکہ یہ اعتراف ہے:
آج ہم تاریخ کے اس موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ہمیں کثیر جہتی نظریاتی اور علمی چیلنجز کا سامنا ہے. اس لیے مدارس اسلامیہ کے لیے ایسی تعلیمی پالیسی وضع کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے جو ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے والے افراد پیدا کر سکے..... اسی ضرورت کے احساس نے راقم الحروف کو خامہ فرسائی پر مجبور کیا. لہٰذا یہ کتاب اہل نظر کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے. راقم کو اس کا اصرار نہیں کہ اہل نظر اس کتاب کے ہر جز سے پوری طرح متفق ہوں، بلکہ اعتراف ہے کہ غور و خوض کا جب مرحلہ آئے گا تو تجربہ کار آنکھیں ان گوشوں کو دیکھ سکیں گی جو راقم کی نظر سے اوجھل رہ گئی ہیں. "
تیزی سے بدلتے ہوئے سماجی و سیاسی پس منظر میں مدارس اسلامیہ کا کردار بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے. دانشوران مدارس اگر وقت کی آواز کو وقت رہتے سمجھ کر مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنے میں کامیاب ہو پائیں تو ان شاء اللہ تاریکی کے بطن سے خوشگوار صبح نمودار ہوگی.
اللہ تعالی ڈاکٹر محمد حفظ الرحمن کی اس کاوش کو قبول فرمائے. میں سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب مدارس سے وابستہ ہر فرد اور قومی و ملی جذبہ رکھنے والے ہر شخص کو ضرور پڑھنی چاہیے. مصنف کا رابطہ نمبر ٩٩٩٠٤٥٧١٠٤

سعودی عرب نے تبلیغی جماعت اور دعوہ گروپ پر پابندی لگائی

سعودی عرب نے تبلیغی جماعت اور دعوہ گروپ پر پابندی لگائیریاض ،12دسمبر- سعودی عرب نے تبلیغی جماعت پر پابندیا ں عائد کی اور ان پر الزام لگا یا کہ وہ دہشت گردی کوہوا دینے میں نما یا رول ادا کیا ہے۔
ان کے پابندی کا اثر ہندستان میں بھی دیکھائی دے گا ۔ پچھلے سال ہندستانی حکومت نے تبلیغی جماعت کے صدر دفتر کو بند کردیا ۔ او ران کے سینئر رہنمائوں کو گرفتار کیا گیا ۔ کیونکہ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے کوروناوائرس پھیلانے کا کام کیا ۔ حالانکہ بعد میں عدالت سے انہیں راحت ملی ۔ سعودی عرب کی اسلامی امور کی وزارت نے تمام مساجد اور تبلیغی ررہنمائوں کو ہدایت دی کہ وہ اپنے جمعہ میں خطبہ کید وران بتلیغی اور دعوی گروپ پر پابندی کے سلسلے میں نمازیوں کو آگاہ کرے۔ ان سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ لوگوںکو تبلیغی جماعت کے مجلسوں میں شرکت کے بارے میں انتباہ کرے۔ اسلامی امور کے وزیر ڈاکٹر عبدالطیف الشیخ نے اپنے ہدایتی پیغام میں کہا کہ یہ جماعت لوگوںکو گمراہ کررہی ہے۔ اور انتہا پسندی کو بڑھاوا دے رہی ہے۔
حالانکہ وہ اس سے انکار بھی کررہے ہیں اس جماعت نے جو غلطیاں کی ہیں اس سے اسلامی معاشرہ خطرے میں پڑ گیا ہے اس لئے سعودی عرب نے تبلیغی جماعت او ردعوہ گروپ پرپابندی لگائی ہے ۔ چونکہ سعودی عرب وہابی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے وہ تبلیغی جماعت کے مخالف ہیں کیونکہ وہابی مسلک تبلیغی جماعت کے نظریہ کے خلاف ہے ۔
سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم عبدالعزیز بن باز نے 2016میں تبلیغی جماعت کے خلاف فتوی جاری کیا کیونکہ وہ اسلامی نظریہ کے خلاف کام کررہے ہیں۔ تبلیغی جماعت کی بنیاد ہندستان میں ایک سوسال پہلے مولانا محمد الیاس خنڈلوی نے شروع کی ۔ اور وہ اسلام کو اپنے صحیح روپ میں پیش کرنے کی کوشش کررہے تھے یہ تحریک میوات خطے سے شروع ہوئی او ربعد میں پورے ملک میں پھیل گئی اور دنیا کے مختلف ملکوں میں اس کا اثر رسوخ بڑھ گیا ہے۔ ملیشیاء ،انڈونیشیاء ،پاکستان اور بنگلہ دیش میں اس جماعت سے لاکھوں لوگ وابستہ ہیں ۔

اتوار, دسمبر 12, 2021

شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ کمپیوٹر سینٹر ساٹھی ،چمپارن میں تقریب تقسیم اسناد

شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ کمپیوٹر سینٹر ساٹھی ،چمپارن میں تقریب تقسیم اسناد

فلسفہ قدیم اور فلاسفہ یونان کے نظریات اسلامی احکام و عقایدسے بعض وقت متصادم ہوسکتے ہیں لیکن جدید سائنسی تحقیقات و حقائق اسلام مخالف نہیں بلکہ قرآنی احکام کے عین موئید و مصدق ہیں: مفتی عطاء الرحمن قاسمی

۱۲ دسمبر ۲۰۲۱ساٹھی مغربی چمپارن
فلسفہ قدیم اور فلاسفہ یونان کے نظریات اسلامی احکام و عقایدسے بعض وقت متصادم ہوسکتے ہیں لیکن جدید سائنسی تحقیقات و حقائق اسلام مخالف نہیں بلکہ قرآنی احکام کے عین موئید و مصدق ہیں ،موجودہ دور میں کمپیوٹر انسان کی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہو گیا ہے،جس کی ضرورت زندگی کی ہر شعبہ میں محسوس کی جاتی ہے ،جو کمپیوٹر کی تعلیم و تمرین سے محروم ہے، اس کی زندگی موجودہ زمانہ میں ایک مفلوج الاعضا ء اور اپاہچ کی زندگی ہو کر رہ گئی ہے ،ان خیالات کا اظہار مولانا مفتی عطاء الرحمن قاسمی چیئر مین شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی نے شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ کمپیوٹرسینٹر ،ساٹھی ،مغربی چمپارن بہار کے ایک سالہ ڈپلومہ ان کمپیوٹر اپلیکیشن ،بزنس اکائونٹینٹ اینڈ ملٹینگل ڈی ٹی پی اور ڈپلوما ان اردو لنگویجز کی تقسیم اسناد کے موقع پر کیا جو قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے تعاون سے چلتا ہے ،اس تقریب میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے آئے ہوئے ،شعبہ اردو کے استادڈاکٹر سلطان احمد نے طلبہ و طلبات کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ یہ کمپیوٹر سینٹر منسٹری ایچ آرڈی ، منسٹری آف الکٹرونکس اینڈ انفرمیشن ٹیکنالوجی اور منسٹری آف سکیل ڈیولپمنٹ اینڈ انٹرپریونشپ حکومت ہند سے منظور ہے ، جو طلبہ و طلبات کے لیے کمپیوٹر سیکھنے کا ایک سنہری موقع فراہم کرتا ہے ، نبی عالم صاحب نے ساٹھی مغربی چمپارن میں اس شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ کمپیوٹر سینٹر کے قیام پر خوشی کا اظہار کیا اور اسکول و کالج اور مدارس و جامعات کے طلبہ و طلبات کو بھاری تعداد میں کمپیوٹر سیکھنے اور محنت و لگن سے پڑھنے کا مشورہ دیا ۔

دائیں سے نبی عالم ،مولانا عطاء الرحمن قاسمی ،ڈاکٹر سلطان احمد اور طالب علم گلریز عالم اپنی سند لیتے ہوئے

اچھا ماحول بنائیے_____مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ اس دنیا کے ماحول کو خراب کرنے میں ہماری بد عملی اور بے عملی کا بھی بڑا دخل ہے

اچھا ماحول بنائیے_____
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت  شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 اس دنیا کے ماحول کو خراب کرنے میں ہماری بد عملی اور بے عملی کا بھی بڑا دخل ہے ، یہ جو روئے زمین پر گناہ کے کام ہورہے ہیں،ایمان سوز واقعات ہمارے سامنے آ رہے ہیں، کسی دن کا اخبار اٹھا کر دیکھ ڈالیے اس میں قتل وزنا ، فحاشی وبدکاری اور جرائم کے واقعات کثرت سے آپ کو ملیں گے، اس کی بنیادی وجہ ماحول کی خرابی ہے ، انسان جس ماحول میں زندگی گذاررہا ہے،ا س سے وہ اپنے کو الگ تھلگ نہیں کر سکتا، بے نمازی کے ماحول میں رہ کر پابند صلوٰۃ لوگوں کی نماز کے چھوٹ جانے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، کوئلے کی کان کے پاس سے گذرنے سے کپڑے کالے ہوتے ہیں اور پھول کی کیاریوں سے گذریے تو کپڑوں میںپھول کی خوشبو رچ بس جاتی ہے ، نیکوں کی صحبت سے جو ماحول بنتا ہے وہ دل ودماغ کونیکیوں کی طرف راغب کرتا ہے اور بدوں کی صحبت بدی کی طرف مائل کرتی ہے ؛ اس لیے سماج کے ماحول کو بنانے کی ضرورت ہے۔
 ماحول سازی کا یہ کام سماج میں رہ رہے ہر انسان کی ذمہ داری ہے ۔ البتہ ایک داعی قوم ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے ، مسلمانوں میں بھی چوں کہ علماء وارث انبیاء ہیں، ان کے پاس دینی علوم ومعارف کا خزانہ ہے ، اس لیے ان کی پہلی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو بتائیں کہ دنیا کے ماحول کو صرف فضائی آلودگی ہی سے خطرہ نہیں ہے، ہماری بدعملی سے بھی خطرات لاحق ہیں، اس لیے ہمیں اپنے اعمال کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے اور اچھے سماج کے بنانے میںمعاونت کرنی چاہیے ، پورے ماحول کو خدا بیزاری سے بچانا اور دہر یوں کو ایمان کے راستے پر لگانا ایک بڑا کام ہے ، ماحول سازی کا کام ہمیںمذہب کی بنیادی تعلیمات سے شروع کرنا چاہیے ، لوگوں کو بتانا چاہیے کہ خدا بیزاری اور دین سے دور ہونے کے دنیوی اور اخروی نقصانات کیا ہیں،ا ور کس طرح اس کی وجہ سے ہماری زندگی اجیرن بنتی جا رہی ہے۔ذات برادری کی لعنت ، طبقاتی ، نسلی ، لسانی عصبیت اور اپنے مفاد کے لیے دوسروں کے مفاد کو داؤ پر لگانے کی ہوڑ نے ہماری سماجی زندگی کو کس طرح جہنم بنا کر رکھ دیا ہے۔
 اس کے لیے ہمیں اپنے اعمال کی اصلاح بھی کرنی ضروری ہے ، اس لیے کہ اصلاح کرنے والے کو خود بھی با عمل ہونا چاہیے، مصلح کا عمل خود اس کی دعوت کوجھٹلادے تو سماج میں ایسی دعوت کی اہمیت باقی نہیں رہتی، اچھا ماحول بنانے کے کام میں جو لوگ لگیں انہیں اسوۂ نبوی کا نمونہ اور نیکیوں کے کام کا آئیڈیل ہونا چاہیے، صحف آسمانی اور کتب سماوی کے ساتھ انبیاء ورسولوں کا طویل سلسلہ ہمیں بتاتا ہے کہ کتاب ہدایت کے ساتھ ہادی برحق بھی ہونا چاہیے؛ تاکہ لوگ اس کی زندگی کو دیکھ کر سمجھیں کہ صحیح اور سچا آدمی کیسا ہوتا ہے اور اس کی زندگی کی حرکات وسکنات اور نشیب وفراز کیسے ہوتے ہیں یہ اصلا کسی کو مان کر اس کے مطابق اپنی زندگی بنانے کا عمل ہے، شروع میں لوگ اس کی قدر نہیں کرتے ، آپ کو واجبی اکرام بھی اس کام کے لیے شاید نہ ملے، کیوں کہ جس دنیا میں آپ حق کی آواز بلند کر رہے ہیں، وہ گندگیوں کا شکار ہے ، وہاں بیش تر لوگ اس گندے ماحول کے عادی ہو گیے ہیں، اس لیے انہیں وہی ماحول پسند ہے ، آپ جن خطوط پر ماحول سازی کرنا چاہتے ہیں،و ہ ان کے لیے اجنبی ہے، خراب ماحول نے ان کی سماعت ، بصارت، ذوق ووجد ان کو اس قدر متاثر کر دیا ہے کہ باد بہاری سے انہیں تکلیف پہونچتی ہے ، غلاظت میں رہ رہے کیڑے کو گلاب کی پنکھڑیوں میں ڈال دیجئے تو تھوڑی دیر میں وہ مرجائے گا ؛ کیونکہ وہ خوشبو کا عادی نہیں ہے اور غلاظت اس کے مزاج کا حصہ بن گئی ہے۔اورآپ شہد کی مکھیوں کو غلاظت میں ڈال دیجیے یا تتلیوں کو تھوڑی دیر غلاظت اور گندگی میں چھوڑ دیجئے تو وہ بھی مرجائیں گی ، اس لیے ماحول سازی کے کام کو آسان نہیں سمجھنا چاہیے، خصوصاً اچھا ماحول بنا نا آسان نہیں ہے، اس کے لیے تدریجاً اصلاح کی طرف قدم بڑھانا چاہیے، دعوت کی حکمت ومصلحت کو سامنے رکھکر کام کرنا چاہیے ۔
 خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ماحول کی اصلاح کا کام کرنے والا، سپاہی اور اور داروغہ نہیں ہے، در اصل داروغہ اور سپاہی کا کام جرائم کو روکنے کے لیے حکمت ومصلحت کے ساتھ نہیں ہوتا ، وہ تو غلط ہوتے دیکھ کر لاٹھی برسانا شروع کر دیتا ہے ، گولی چلاتا ہے، اور پکڑ کر ایسی سختیاں کرتا ہے کہ انسانی روح کراہنے لگتی ہے ، اسی لیے سپاہی کے اس عمل سے اصلاح کا کام نہیں ہوتا ، بلکہ اگر چھوٹا موٹا جرم کرنے والا پولیس کی سختیاں جھیل کر جیل سے باہر آتا ہے تو وہ بڑا عادی مجرم بن جاتا ہے ،اس لیے مصلحین کے کام کا نہج پولیس کے طرز عمل سے الگ ہونا چاہیے ، پولس مجرموں سے نفرت کرتی ہے؛ لیکن مصلح بے راہ رو لوگوں سے نفرت نہیں کرتا ، وہ گناہ سے نفرت کرتا ہے ، گناہ گاروں سے نہیں ، اس کے دل میں ایک تڑپ اور کسک ہوتی ہے کہ بھٹکے ہوئے لوگ کس طرح راہ راست پر آجائیں ، اور گناہوں سے تائب ہو جائیں۔
 اس کام کے لیے ایسی شفقت مطلوب ہے، جس کے سہارے گناہ گار، مصلحین سے قریب ہو جائے، ماضی قریب میں جنید جمشید کو دیکھیے، گانے بجانے والا آدمی مولانا طارق جمیل سے قریب ہو گیا تو اس کے دل کی دنیا بدل گئی ، ایسے واقعات شاذ ونادر نہیں ہیں، بلکہ اس کا ایک طویل سلسلہ ہے اور ہر کس وناکس کے تجربہ میں اس کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں۔ 
اس قربت کے لیے ضروری ہے کہ اصلاح کرنے والا لوگوں کو خوش خبری سنائے ، رغبت دلائے ، اللہ سے ملاقات اور جنت کے حصول کے طریقے بتائے، جو لوگ جہنم کی ہولناکیوں سے متاثر ہوں ، انہیں جہنم کے بارے میں بتایا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کن لوگوں کے لیے تیار کیا ہے، یعنی وہ بشیر بھی ہو اور نذیر بھی ہو ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ صفت خاص طور سے بیان کی گئی کہ تمام لوگوں کے لیے آپ کو بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا گیا۔
دنیا کے سارے کام میں تربیت اور سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے ، اچھا ماحول بنانے کا کام کارِ نبوت ہے، ظاہر ہے اس کام کو بھی سیکھنے کی ضرورت ہے، سیکھنے کے لیے اس کے پاس جانا ہوگا ، جس کے ورک شاپ میں یہ چیز ملتی ہو، یہ دوکان اولیاء اللہ بزرگان دین ، مصلحین، مبلغین اور دعاۃ حضرات نے لگا رکھی ہے، یہ سوچنا قطعا صحیح نہیں ہے کہ ’’ وہ جو بیچتے تھے دوا ئے دل وہ دوکان اپنی بڑھا گیے‘‘ دوکان بڑھی نہیں ہے، موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گی ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو تقویٰ کے ساتھ صدیقین کی صحبت اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ، اس لیے صدیقین کی جماعت قیامت تک ختم نہیں ہو سکتی ، ضرورت طلب کی ہے ، جستجو کی ہے ۔ 
تجربات ومشاہدات بتاتے ہیں کہ دعوت وتبلیغ کی محنت ، مدارس اسلامیہ کی تعلیم وتربیت ، صالح اور صحیح العقیدہ پیر ومرشد کی صحبت ، اپنی زندگی کو خیر کے لائن پر ڈالنے ، دوسروںکو راہ راست پر لانے اور اچھا ماحول بنانے میں اکسیر کا درجہ رکھتی ہے ، ضرورت اس بات کی ہے کہ سماج کو صالح رخ دینے اور اچھا ماحول بنانے کے لیے ہر طبقہ کے لوگ آگے آئیں ،اور اس کام میں اپنی حصہ داری نبھائیں۔

بہار میں بھی کھلے مقامات پر نماز پڑھنے پراعتراض پابندی عائد کرنے بی جے پی رکن اسمبلی کاحکومت - سے مطالبہ

بہار میں بھی کھلے مقامات پر نماز پڑھنے پراعتراض پابندی عائد کرنے بی جے پی رکن اسمبلی کاحکومت - سے مطالبہپٹنہ :ہریانہ میں کھلے میں جمعہ کی نماز پڑھنے کو لے کر جاری تنازعہ کے درمیان اب بہار میں بھی کھلے میں نماز پر پابندی کیلئے آواز اٹھائی جارہی ہے ۔ بی جے پی رکن اسمبلی ہری بھوشن ٹھاکر بچول نے ہفتہ کے روز ایک بیان میں کہا کہ بہار میں بھی کھلے میں نماز پڑھنے پر پابندی لگنی چاہیے۔ بچول نے نتیش کمار سے کھلے میں نماز پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کے لیے پیش قدمی کریں گے۔اپنے بیانات کی وجہ سے اکثر تنازعہ میں رہنے والے بی جے پی رکن اسمبلی ہری بھوشن ٹھاکر نے کہا کہ بہار میں بھی کھلے میں نماز پڑھنے پر روک لگنی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ جس طرح ہریانہ کی حکومت نے کھلے میں نماز پر روک لگائی ہے، بہار میں بھی ویسا ہونا چاہیے۔ کھلے میں اور سڑکوں پر نماز پڑھنے پر پابندی ضروری ہے۔ جمعہ کو سڑکوں کو جام کر دینا، سڑک پر نماز پڑھنا، یہ عبادت کا کیسا رواج ہے۔ اگر عقیدے کی بات ہے تو گھر میں یا مسجد میں نماز پڑھیں۔ آخر مسجد کیوں ہے۔کھلے میں نماز کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے بی جے پی رکن اسمبلی نے کہا کہ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو خیر سگالی کو نقصان پہنچے گا۔ 75 سال پہلے مذہب کے نام پر ہندوستان کی تقسیم ہوئی۔ لیکن ہندوستان آج بھی وہیں کا وہیں کھڑا ہے۔ بھوشن ٹھاکر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اب چیف منسٹرنتیش کمار اس معاملے پر کیا کریں گے، یہ وہ جانیں، لیکن دنیا یہ کام کر رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہریانہ کے چیف منسٹرٰ منوہر لال کھٹر نے جو کیا ہے، اس کے لیے وہ شکریہ کے مستحق ہیں۔ بی جے پی رکن اسمبلی نے سوالیہ لہجے میں کہا کہ 'وندے ماترم' میں پھل، ہوا، ہریانہ کی تعریف ہے، لیکن یہ نہیں گائیں گے۔ یہ کون سی ذہنیت ہے۔ اسے وقت رہتے نہیں روکا گیا تو ملک کو بڑا نقصان ہوگا

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...