Powered By Blogger

جمعرات, دسمبر 30, 2021

ڈاکٹروں کی لا پرواہی___ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قا ڈاکٹروں سمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ڈاکٹروں کی لا پرواہی___ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قا ڈاکٹروں سمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
پہلے موتیا بند کے آپریشن کیمپ لگا کر بغیر آپریشن تھیٹر کے کیے جاتے تھے، جس سے کبھی کبھی مریضوں کی آنکھ کو نقصان پہونچ جاتا تھا، اس سلسلے میں برسوں قبل حکومت نے فیصلہ کیا کہ بغیر آپریشن تھیٹر کے موتیا بند کے آپریشن نہیں کیے جا سکتے، اس روک کے نتیجے میں رفاہی اداروں نے کیمپ لگا کر مریضوں کی تشخیص کا کام شروع کیا، اور موتیا بند کا آپریشن ہوسپیٹل میں بلا کر کیا جانے لگا۔
 لیکن مظفرپور کے جورن چھپرہ پبلک سکٹر کے آئی ہوسپیٹل میں ۲۲؍ نومبر ۲۰۲۱ء کو موتیا بند کے آپریشن کے بعد جن لوگوں کو آنکھ گنوانی پڑی اور جن کے آنکھ نکال کر ان کی جان بچانی پڑی اس نے ایک بار ڈاکٹروں کی لا پرواہی اوران کے غیر ذمہ دارانہ طریقے پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے، انیس (۱۹)مریضوں کو آئی جی ام ایس پٹنہ میں بھرتی کرایا گیا ہے، نہ معلوم کتنوں کی آنکھ کی روشنی جائے گی۔
 یہ صورت حال اس لیے پیدا ہوئی کہ آپریشن تھیٹر میں دو قسم کے جراثیم پہلے سے موجود تھے، سری کرشن میموریل اسپتال مظفر پور کے مائیکرو بایولوجی شعبہ کے ذریعہ جاری کلچر رپورٹ میں اس کا خلاصہ کیا گیا ہے، یہ جراثیم آپریشن کرتے وقت مریض کی آنکھ تک پہونچ گیے، یہ جراثیم جن کا نام ’’ سیوڈ وموناس‘‘ اور ’’ اسٹے فی لوکوکس‘‘ ہے چوبیس گھنٹے کے بعد اس کے اثرات آنکھ پر دکھائی دیتے ہیں، جانچ ٹیم کی قیادت کر رہے ڈاکٹر سبھاش پرساد سنگھ نے بتایا کہ آئی ہوسپیٹل میں آپریشن کے لیے استعمال میں لائے گئے دونوں ٹیبل پر دونوں قسم کے جراثیم پائے گیے، اس کا مطلب ہے کہ آپریشن سے پہلے اسے اسٹرلائز نہیں کیا گیا تھا ، حالاں کہ صرف ٹیبل ہی نہیں آپریشن میں استعمال ہونے والے سارے آلات کا اسٹرلائز ر ضروری ہوا کرتا ہے، تحقیق طلب بات یہ ہے کہ ہوسپیٹل نے اس معاملہ میں کیوں لا پرواہی برتی، جس نے بہت سارے مریضوں کو نہ صرف بینائی سے محروم کردیا؛ بلکہ کئی ایک کی آنکھ بھی نکالنی پڑی،ہمارا مطالبہ ہے کہ جانچ کے بعد جو بھی ذمہ دار ہو، اس کو ایسی سزا دی جائے کہ اس قسم کی لا پرواہی کا خیال بھی کسی کے دل میں نہ آئے۔

منگل, دسمبر 28, 2021

وقت کا ضیاعمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

وقت کا ضیاع
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
پارلیامنٹ اور راجیہ سبھا کے اجلاس اس کے اوقات انتہائی قیمتی ہوتے ہیں اور ہر روز اس پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں، اس کا تقاضہ یہ ہے کہ وقت کی اہمیت کو سمجھ کر منٹ منٹ استعمال اور کام میں لایا جائے، گذشتہ چند دہائی سے پارلیامنٹ اور راجیہ سبھا کے زیادہ اوقات ہُو، ہَلاّ اور شور شرابے کی نظر ہو جاتے ہیں ،اس کا حکمراں طبقہ کو یہ شکایت ہے کہ حزب مخالف کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے، لیکن جب حکمراں طبقہ ، حزب مخالف تھا تو یہ طرح اسی نے ڈالی تھی، اسے بھی شور شرابے سے زیادہ کوئی کام نظرنہیں آتا تھا ، حزب مخالف کا مطلب ہر دور میںمخالفت ہی رہا ہے ، آج یہ روز افزوں ترقی کرکے اس مرحلہ تک پہونچ گیا ہے کہ دونوں ایوان کے معزز صدر نشیں (اسپیکر) کو اس کی شکایت کرنی پڑ رہی ہے اور نا خوشی کا اظہار کرنا پڑ رہا ہے ۔
حالیہ پالیمانی اجلاس حکمراں جماعت اور حزب مخالف کے درمیان تعطل کی وجہ سے مقررہ وقت سے ایک روز قبل ہی ملتوی کر دیا گیا ، اس پر اپنی نا خوشی کا اظہار کرتے ہوئے پارلیامنٹ کے اسپیکر اوم برلا نے کہا کہ ایوان کا نہیں چلنا اچھی روایت نہیں ہے ، انہوں نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ ایوان میں شائستگی اور وقار زوال پذیر ہے اور اس سے ایوان کی اہمیت پر اثر پڑتا ہے، دوسری طرف راجیہ سبھا کے چیر مین ایم وینکیا نائیڈو حالیہ سرمائی اجلاس میں ایوان کے کام کاج کے حوالہ سے اپنے دل کا درد چھپا نہیں سکے، انہوں نے اپنی تشویش اور نا خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ارکان کو خود احتسابی کرنی چاہیے کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے ۔
 ایوان کے حالیہ اجلاس کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ راجیہ سبھا کی کارروائی کے لیے پنچانوے (۹۵) گھنٹے چھ (۶) منٹ کا وقت مقرر تھا، لیکن ایوان کی کارروائی صرف پینتالیس (۴۵) گھنٹے چونتیس (۳۴) منٹ ہی چل سکی ، جو گذشتہ چار سال مین منعقد بارہ (۱۲) اجلاس کے مقابلے سب سے کم وقت ہے ۔ ۵ء ۵۲؍ فی صد وقت ہنگامہ آرائی میں ضائع ہو کر رہ گیا ، مسلسل ہنگامہ آرائی اور کارروائی ملتوی ہونے کی وجہ سے ۳۲ء ۴۹؍ فی صد وقت میںبالکل کوئی کام نہیں ہو سکا اور وقفہ سوالات کے ۶۰ء ۶۰؍ فی صد وقت کا کوئی مصرف نہیں لیا جا سکا۔
یقینا دونوں ایوان کے صدر نشیں کی تشویش بجا ہے اور ایوان کے وقار ، اعتبار اور اعتماد کی بحالی کے لئے مناسب اقدام کیے جانے چاہیے، لیکن حکمراں طبقے کو اس کا تجزیہ بھی کرنا چاہیے کہ اس کے اُول جلول فیصلے اور غیر ضروری قانون سازی تو اس کے مواقع فراہم نہیں کراتے ، کیا گذشتہ اجلاس میں ہنگامے کا سہارا لے کر بارہ ارکان کو حالیہ اجلاس میںمعطل کرنا صحیح تھا، اگر معطل کرنا ہی تھا تو اس اجلاس میں کرنا چاہیے، جس میں انہوں نے ہنگامہ کیا تھا، اس بار دونوں ایوان کی کارروائی اسی بنیاد پر ہنگامہ آرائی کا شکار ہوئی ، اسی طرح ووٹر کارڈ کو آدھار کارڈ سے جوڑنے والا غیر ضروری قانون بھی ارکان کی نظر میں عوام کی نجی رازداری کے خلاف تھا ، اس لیے اس پر بھی شور ہنگامہ رہا، حکومت نے اکثریت کے زعم میں حزب مخالف کی ایک نہ سنی اور یہ قانون ایوان میں پاس بھی ہو گیا، اس لیے اگر ایوان کے وقار کو بر قرار رکھنا اور وقت کا صحیح مصرت لینا ہوگا تو ان دونوں نُکتوں پر ہمیں اپنی توجہ جائزہ میں مرکوز کرنی ہوگی، اور حزب مخالف کو ہر کام کی مخالفت کے مزاج کو بدلنا ہوگا۔

دارالعلوم دیوبندکے طلبہ رات کے کرفیو پر سختی سے عمل کریں

دارالعلوم دیوبندکے طلبہ رات کے کرفیو پر سختی سے عمل کریںطلبہ ہاسٹل میں رہ کر اپنی تعلیمی مشغولیات جاری رکھیں:ناظم اعلیٰ دارالاقامہ
دیوبند،27؍دسمبر(سمیر چودھری؍بی این ایس)
اومی کرون ویرینٹ کے متاثرین کی تعداد میں روز بروز اضافہ کے بعد اترپردیش کی یوگی حکومت کی جانب سے حفاظتی نقطہ نظر کے تحت رات کا کرفیو لگائے جانے کے بعد دارالعلوم دیوبند کی جانب سے بھی طلبہ کو ہدایت نامہ جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کورونا کی نئی لہر کے سبب پورے صوبہ میں رات 11بجے سے صبح 5بجے تک کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے۔دیوبند انتظامیہ رات کے کرفیو پر سختی کے ساتھ عمل درآمد کرانے کے لئے مستقل طور سے نگاہ رکھے ہوئے ہے۔اسلئے دارالعلوم دیوبند کے تمام طلبہ کرفیو کے نفاذ کے مد نظر رات 11بجے سے صبح 5بجے تک ادارہ کے احاطہ سے باہر جانا موقوف رکھیں اور اپنے اپنے کمروں میں رہ کر مطالعہ اور تکرار میں مشغول رہیں۔دارالعلوم دیوبند کے شعبہ دارالاقامہ کے ناظم اعلیٰ مولانا منیر الدین کی جانب سے طلبہ کے لئے ہدایات اور گائڈ لائن جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی جانب سے جاری کردہ نئی گائڈ لائن اور ہدایات کو جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کووڈ پروٹوکال کی مکمل عمل آوری کو یقینی بنایا جائے۔اس سلسلہ میں نئی ویرینٹ کے روک تھام کیلئے نئی ہدایات کے مطابق مناسب اقدامات کرنے کے بھی احکامات دئیے گئے ہیں۔دارالاقامہ کے ناظم اعلیٰ نے بتایا کہ اطلاعات کے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں اترپردیش میں کورونا انفیکشن اور نئے ویرینٹ کے متاثرین کی خاصی تعداد سامنے آئی ہے اور دن بہ دن متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔اسی لئے حفظ ماتقدم کے تحت ریاستی حکومت کی جانب سے رات کے کرفیو کے نفاذ کا اعلان کیا گیا ہے جس پر عمل کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے لہٰذا اسی تناظر میں ادارہ کے طلبہ کو ہدایت نامہ جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ رات کے کرفیو پر سختی سے عمل کرتے ہوئے اپنے اپنے کمروں میں رہ کر اپنی تعلیمی مشغولیات جاری رکھیں اور کسی قیمت پر اداہ کے احاطہ سے باہر جانے کی کوشش نہ کریں۔اس کے علاوہ سوشل ڈسٹینسنگ بنائے رکھنے کے ساتھ ساتھ تمام طلبہ ماسک پہننے کے ساتھ سینیٹائزر کا استعمال بھی لازمی طور پر کریں۔

پیر, دسمبر 27, 2021

سعودی عرب میں تبلیغی جماعت پر پابندی___✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

سعودی عرب میں تبلیغی جماعت پر پابندی___
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
۱۰؍ دسمبر بروز جمعہ سعودی عرب کے منبر ومحراب سے جو اعلان کیا گیا اور خطبہ دیا گیا ، اس نے پوری دنیا کے انصاف پسند مسلمانوں کو سخت حیرت اور تعجب میں ڈال دیا ہے، سعودی عرب میں اسلامی معاملات کے کے وزیر ڈاکٹر عبد اللطیف الشیخ نے ایک ٹوئٹ کے ذریعہ مساجد کے ائمہ اور خطباء کو ہدایت دی کہ وہ مسلمانوں کو تبلیغی جماعت اور الدعوۃ کے خطرات سے آگاہ کریں، انہوں نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ تبلیغی جماعت دہشت گردی کا دروازہ ہے اور اس کے عقائد مشرکانہ ہیں، اتناہی نہیں وزیر کی ہدایت کے مطابق اس جماعت سے کسی بھی قسم کے تعلق کو ممنوع قرار دے دیاگیا ہے۔
تبلیغی جماعت مسلمانوں کے درمیان تذکیر کا کام کرتی ہے، اس کی تذکیر کادائرہ بھی چھ باتوں تک محدود ہے، ان میں ایک کلمہ پر محنت ہے، کلمہ مسلمانوں کے یہاں توحید کی علامت ، خدا کی عبادت اور رسول کی رسالت کے ماننے کا اعلان ہے۔ ایسے میں بھلا وہ لوگ کس طرح شرکیہ اعمال میں ملوث ہو سکتے ہیں جن کے مشن کی پہلی دفعہ توحید اور کلمہ ہے، ظاہر ہے اسے سعودی عرب کے وزیر امور اسلامی کی کم علمی اور جہالت ہی کہی جا سکتی ہے، ورنہ اس کی طویل خدمات لوگوں کو توحید کی دعوت اور شرکیہ اعمال سے اجتناب کا ہر دور میں مظہر رہی ہے۔
 رہ گئی دہشت گردی کی بات ، تو یہ اس لیے صحیح نہیں ہے کہ تبلیغی جماعت والے امور دنیا کی بات ہی نہیں کرتے، وہ تو مرنے کے بعد کی زندگی آخرت کو ہی اپناموضوع سخن بناتے ہیں اور ایک ایسے صالح معاشرہ کے وجود میں لانے کی بات کرتے ہیں جو نبوی طریقہ کار اور احکام خدا وندی کے مطابق ہو، ایسے میں اس پر دہشت گردی کا الزام لگانا انتہائی غلط ہے، اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کے زمانہ میں جانچ ایجنسیوں کو ان کے پیچھے لگایا تھا کہ وہ ان کے کاموں کی تحقیق کریں، ایجنسیوں کی رپورٹ تھی کہ یہ توزمین کی بات ہی نہیں کرتے، صرف آسمان کی بات کرتے ہیں، اس لیے حکومت کو اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے ۔
پھر سعودی عرب کوخطرات کیوں سمجھ میں آئے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان سعودی عرب کو مغربی آقاؤں کے حکم پر جس راہ پر لے جانا چاہتے ہیں، اس میں تبلیغ والوں کی اصلاحی وتذکیری تقاریر اور چلت پھرت رکاوٹ بن سکتی ہے، اس اندیشہ کے تحت اس پر پابندی لگانے کی بات مختلف لوگوں کی طرف سے ماضی میں بھی اٹھتی رہی ہے، جس کی مخالفت ہوتی رہی، اب جب کہ محمد بن سلمان اصلاح کے نام پر اسلامی قدروں کے اختتام کی کوشش کر رہے ہیں، امور اسلامی کے وزیر نے ولی عہد کو خوش کرنے کے لیے اس پابندی کا اعلان کر دیا ۔
دوسری وجہ یہ ہوئی کہ مسلمانوں ہی میں سے بعض جماعتیں اپنے افکار ونظریات کی ترویج واشاعت میں تبلیغی جماعت والے کو بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں، ان کی تحریروں اور تقریروں سے بھی تبلیغی جماعت کے خلاف ماحول بنا اتفاق سے ان کی پہونچ بھی سعودی وزارت میں مضبوط تھی، چنانچہ ان کی تحریر ، تقریر اور گفتگو نے بھی اپنا اثردکھایا اور سعودی وزارت امور اسلامیہ نے ان تحریروں سے متاثر ہو کر یہ قدم اٹھایا۔
 تبلیغی جماعت سے جو کام اصلاح کا اللّٰہ رب العزت نے لیا اور اب بھی جو کام ہو رہا ہے اس کی وجہ سے ہم اسے مفید جماعت سمجھتے ہیں، اور اس پر پابندی لگانا انتہائی غلط ہے،حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم نے سعودی سفارت خانے کو خط لکھ کر مطالبہ کیاہے کہ اس فیصلے کو ہر حال میں واپس لیاجائے ۔
سعودی عرب کی اس پابندی کی وجہ سے سعودیہ میں تبلیغ کا کام متاثر ہوگا، کیوں کہ وہاں شاہی حکومت ہے اور جمہوری حکومتوں کی طرح وہاں احتجاج کا کوئی موقع نہیں ہے ، البتہ مسلم تنظیموں اور جماعت کے ذمہ داروں کے ایک وفد کو متعلقہ وزیر سے ملاقات کرکے اپناموقف رکھنا چاہیے اوران کی غلط فہمی دور کرنی چاہیے، اس پابندی کے اثرات دوسرے ملکوں میں پڑنے کا امکان ہے، لیکن بہت زیادہ نہیں، کیوں کہ عرب حکمراں ولی عہد محمد بن سلمان کے ذریعہ کی جارہی تبدیلی اور سعودی عرب کے امتیازات وتشخصات کو ختم کرنے کی پالیسی سے پورے طور پر واقف ہیں اور اس پابندی کو وہ اسی نقطۂ نظر سے دیکھیں گے۔
ہندوستان میں فرقہ پرست طاقتیں ایک بار پھر سے اسے نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کر سکتی ہیں، اس سے محتاط رہنے اور اس کے مضبوط دفاع کے لیے ملی تنظیموں کو آگے آنا پڑے گا، رہ گیے دوسرے ممالک ، مثلا پاکستان، بنگلہ دیش ، ملیشیا، انڈونیشیا تو وہاں سعودی عرب کی اس پابندی کاا ثر بالکل نہیں پڑے گا، کیوں کہ یہاں بادشاہت نہیں، جمہوریت ہے، حکومتیں انتخاب کے ذریعہ چن کر آتی ہیں، اور انتخاب میں ووٹ کی قوت وطاقت دیکھ کر پالیسیاں بنائی جاتی ہیں ، ان ملکوں میں تبلیغیوں کا دبدبہ ہے، اس لیے حکومت ایسے فیصلے کرنے کے پہلے بار بار سوچے گی۔

اتوار, دسمبر 26, 2021

الوداع بپن راوتمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

الوداع بپن راوت
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 تینوں مسلح افواج کے سر براہ (C.D.S)بپن راوت ۸؍ دسمبر ۲۰۲۱ء کو بارہ بج کر بیس منٹ پر نیل گیری کے جنگل میں ہیلی کاپٹر حادثہ میں جاں بحق ہو گیے، ان کے ساتھ ان کی اہلیہ مدھو لیکا راوت اور بارہ جاں باز فوجی افسران نے بھی وجود سے عدم کی راہ اختیار کرلی، پورا ملک سوگوار ہے، اگلے دن بپن راوت اور ان کی اہلیہ کو ستر توپوں کی سلامی کے بعدایک ہی چتا پر ان کی بیٹیوں نے منہہ میں آگ دے کر آخری رسم ادا کی ، یوں بھی جلنے کے لیے بچا ہی کیا تھا۔
ہندوستان کی تاریخ میں یہ کوئی پہلا فضائی حادثہ نہیں ہے، ۱۹۸۰ء میں اس وقت کے وزیر اعظم اندرا گاندھی کے صاحب زادہ سنجے گاندھی، ۲۰۰۱ء میں سابق مرکزی وزیر مادھوراؤ سندھیا، ۲۰۰۲ء میں پارلیامنٹ کے صدر نشیں (اسپیکر)جی ایم سی بالیوگی، ۲۰۰۴ء میں میگھالیہ کے کابینی وزیر سی سنگما، ۲۰۰۵ء میں ہریانہ کے وزیر توانائی اوپی جندل، اور ۲۰۰۹ء میں آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ بھی فضائی حادثہ میں موت کی نیند سو چکے ہیں، ان سارے حادثات میں موسم کی خرابی کا بڑا دخل تھا، اس کے قبل ۲۲؍ نومبر ۱۹۶۳ء کو پونچھ میں ہونے والا ہیلی کاپٹر حادثہ سب سے بڑا فوجی حادثہ مانا جاتا رہاہے، جس میں فوج کے چھ بڑے افسران نے اپنی جان گنوائی تھی، اس کے قبل ۱۹۴۲ء میں بھی ایک فضائی حادثے میں لفٹنٹ جنرل اس ام ناگیش اور میجر جنرل کے ایس تِمیا کو بھی اپنی جان گنوانی پڑی تھی۔
لیکن تمل ناڈو کے کنور میں حادثہ کے شکار ایم آئی ۱۷؍ وی-۵، ہیلی کاپٹر کا معاملہ ان سب حادثات سے الگ اس لیے ہے کہ یہ فضائیہ کا سب سے محفوظ ہیلی کاپٹر تھا، یہ خراب موسم میں پرواز اور ہیلی پیڈ کے بغیر بھی زمین پر اتارا جا سکتا تھا، یہ روسی ساخت کا ناقابل تسخیر ہیلی کاپٹر تھا، اتنے محفوظ سفر میں حادثہ کا پیش آجانا اور فوجیوں کا اس طرح جل جانا کہ اس کی شناخت ڈی این اے کے ذریعہ ہو، یہ بتاتا ہے کہ اگر شیشہ پلائی ہوئی دیوار میں بھی کوئی ہوگا تو موت اسے آلے گی اور سکنڈوں کی تاخیر اس میںنہیں ہوگی، جنرل بپن راوت ان کی اہلیہ اور ان کے رفقاء کی موت کا وقت اور جگہ متعین تھا، چنانچہ متعینہ وقت اور جگہ پر ملک الموت نے اپنا کام مکمل کر دیا اور ہندوستان ،فضائیہ کے کئی جاں بازوں سے محرو ہوگیا۔
 جنرل بپن راوت کو وزیر اعظم نریندر مودی نے دو سینئر افسران کو نظر انداز کرکے بری فوج کا سربراہ بنایا تھا، نظر انداز کیے جانے والے افسر میں ایک مسلمان بھی تھا، ملازمت سے سبکدوش ہونے کے قبل مرکزی حکومت نے ایک عہدہ ’’سی ڈی اس‘‘ کا وضع کیااور سبکدوشی کے بعد یکم جنوری ۲۰۲۰ء کو انہیں اس عہدے پر مامور کرکے تینوں بری، بحری اور فضائی افواج کا مشترکہ سربراہ بنا دیاگیا۔حالانکہ رسمی طو پر ہی سہی صدر جمہوریہ تینوں فوج کا سربراہ ہوتا ہے جو’’ سول‘‘ سے ہوتا ہے، اس کی وجہ سے فوج کی بغاوت اور مارشل لا کے لگانے کے امکانات ختم ہوجاتے ہیں، جیسا پڑوسی ملک میں بار بار ہوتا رہا ہے۔بپن راوت کے گذر جانے کے بعد نئے سربراہ کی تلاش جاری ہے۔

بڑی خبر۔کرناٹک میں رات کا کرفیو ۔ نئے سال کی پارٹیوں پرپابندی

بڑی خبر۔کرناٹک میں رات کا کرفیو ۔ نئے سال کی پارٹیوں پرپابندیبنگالورو: ملک میں اومیکرون کے کیسس کے بڑھتے ہوئے کیسس کے پیش نظرکئی ریاستوں میں پابندیاں اوررات کا کرفیو نافذ کیا جارہا ہے۔ اترپردیش، مدھیہ پردیش میں رات کے کرفیوکا اعلان کردیا گیا ہے تازہ طورپراب اس فہرست میں ریاست کرناٹک بھی شامل ہوچکا ہے۔ کرناٹک میں 28 ڈسمبرسے دس دنوں تک رات کا کرفیوعائد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں آج احکامات جاری کردئیے گئے۔ کرفیو کے اوقات رات دس بجے سے صبح پانچ بجے تک رہیں گے۔ اسی طرح حکومت نے سال نو کی پارٹیوں اورہجوم کے جمع ہونے پرپابندی لگادی ہے۔

کہیں ہم دوسروں کو یہی سب کچھ تو نہیں دے رہے ہیں؟ کامران غنی صبا

کہیں ہم دوسروں کو یہی سب کچھ تو نہیں دے رہے ہیں؟ 
کامران غنی صبا 

یہ بالکل فطری اصول ہے کہ ہم دوسروں کو وہی چیز دیتے ہیں جو ہماری فطرت سے ہم آہنگ ہو. چنانچہ جس کی طبیعت میں فیاضی ہوگی آپ دیکھیں گے کہ وہ غربت میں بھی فیاض ہوگا اور جس کی طبیعت میں بخالت ہوگی وہ دولت مند ہو کر بھی اپنی مٹھی کھولنے کو آمادہ نہیں ہوگا. جس کی طبیعت میں محبت ہوگی وہ نفرت تقسیم نہیں کر سکتا اور جس کی طبیعت میں نفرت ہو اس سے محبت کی توقع فضول ہے. پھر یہ بھی خوب اچھی طرح یاد رکھیے کہ فطرت کے اس اصول میں بھی عمل اور ردعمل ہے. یعنی ہم جو دوسروں کو دیتے ہیں وہی حاصل بھی کرتے ہیں. یعنی محبت تقسیم کرنے والوں کو محبت ملتی ہے، آسانیاں تقسیم کرنے والوں کو آسانیاں. نفرت کرنے والوں کو نفرت اور عداوت کرنے والوں کو بدلے میں عداوت ہی ملتی ہے. جو لوگ ہر وقت دوسروں کا گلہ شکوہ کرتے ہیں، کئی جگہ ان کے بھی گلے شکوے ہو رہے ہوتے ہیں. اسی طرح منفی تنقید کرنے والوں کی بھی تنقید ہی ہوتی ہے.
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا ہر عمل ردعمل کا بیج ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس بیج کو خلوص کی مٹی میں بویا جائے. بعض دفعہ ہمارا عمل مصنوعی بھی ہوتا ہے. ہم دوسروں کی تعریف اس لیے کرتے ہیں کہ ہماری بھی تعریف کی جائے، ہم انہیں لوگوں کے کام آتے جن سے ہمیں توقع ہو کہ وہ بھی ہمارے کام آئیں گے. ہم دوسروں سے معاملات اس کی حیثیت کے مطابق کرتے ہیں. یاد رکھیے ہم خود کو تو فریب میں مبتلا کر سکتے ہیں، فطرت کو نہیں. مصنوعی عمل آخر کار وہی نتیجہ دیتا ہے جس نتیجے سے بچنے کے لیے ہم تصنع کا سہارا لیتے ہیں.
بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگ اپنی تعریف سننے کے لیے کچھ اچھے کام کرتے ہیں لیکن انہیں اپنی توقعات کے مطابق تعریف نہیں مل پاتی. آخر کار وہ اپنی پیٹھ خود ہی تھپتھپانے پر مجبور ہوتے ہیں. موقع بے موقع اپنی کارکردگیوں کو خود ہی بیان کرتے ہیں. اس طرح شخصیت بری طرح مجروح ہوتی ہے. اصل تعریف تو یہ ہے کہ لوگ ہمارے غائبانے میں ہمیں اچھے نام سے یاد کرنے پر مجبور ہوں. ایک استاد کی اصل تعریف یہ ہے کہ اس کے طلبہ سکوت نیم شب میں اس کے لیے دعا مانگنے پر مجبور ہوں.
قصہ مختصر یہ کہ ہم اپنے اعمال کے اخروی نتائج پر یقین رکھیں یا نہ رکھیں. دنیا میں بھی ہمیں وہی کچھ ملتا ہے جو ہم دوسروں کو دیتے ہیں. اس اصول کی روشنی میں ہم اپنا محاسبہ کر سکتے ہیں کہ ہمیں دوسروں سے کیا مل رہا ہے. اگر ہمیں دوسروں سے صرف شکایتیں، مایوسیاں اور محرومیاں مل رہی ہیں تو ہمیں غور کرنا چاہیے کہ کہیں ہم بھی دوسروں کو یہی سب کچھ تو نہیں دے رہے ہیں.......؟

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...