Powered By Blogger

ہفتہ, جنوری 01, 2022

لڑکیوں کی شادی کی عمر _____✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

لڑکیوں کی شادی کی عمر _____
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ(9431003131)
۱۷؍ دسمبر ۲۰۲۱ء کومرکزی حکومت کی کابینہ نے لڑکیوں کی شادی کی عمر بڑھا کر اکیس (۲۱) سال کر نے پر اتفاق کر لیا ، وزیراعظیم نریندر مودی نے یوم آزادی کے موقع سے اپنے خطاب میں اس کا تذکرہ کیا تھا کہ لڑکیوں کی شادی کی عمر کے سلسلے میں جائزہ لیا جا رہا ہے، اس کے بعد جیا جیٹھلی کی صدارت میں ایک ٹاسک فورس کی تشکیل عمل میں آئی تھی اور اس کی سفارش کی روشنی میں کابینہ کی منظور ک بعد وزیر سمرتی ایرانی نے اسے پارلیامنٹ میں پیش کر دیا ہے گو اسے پاس نہیں کیا گیا ہے، حزب مخالف کے شور شرابے سے مجبور ہو کر حکومت نے اسے اسٹینڈنگ کمیٹی کے سپرد کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔
ہندوستان میں کم عمر کے بچے بچیوں کی شادی پر روک لگانے کی غرض سے ایشور چندر ودیا ساگر نے ۱۸۵۰ء میں کم عمر کی شادیوں کے خلاف عوامی بیداری پیدا کرنے کے لیے تحریک چلائی تھی، جیوتی باپھولے، گوپال ای دیش مکھ، جسٹس رانا ڈے، کے ٹی تلنگ، ڈی کے کردے نے بھی عورتوں کی حالت سدھارنے کے لیے عوامی بیداری لانے کے کام میں سرگرم حصہ داری نبھائی تھی ، اس کے نتیجے میں ۱۸۹۰ء میں لڑکیوں کی شادی کی عمر دس سے بڑھا کر بارہ سال کی گئی۔۱۹۲۷ء میں ہرلاس سارداجو ایک ماہر تعلیم، جج اور سماجی اصلاح کے کام کے لیے مشہور تھے، انہوں نے لڑکوں کے لیے شادی کی عمر اٹھارہ (۱۸) اور لڑکیوں کی عمر چودہ (۱۴)سال رکھنے کی تجویز رکھی تھی، ۱۹۲۹ء میں یہ قانون بنا اور انہیں کے نام پر اس قانون کا نام ساردا یکٹ رکھا گیا ، یہ قانون مسلم پرسنل لا کے خلاف تھا، اس لیے امارت شرعیہ نے اس بل کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ کیا، بانی امارت شرعیہ ابولمحاسن مولانا محمد سجاد ؒ نے مسلمانوں کو اس بل کے منسوخ نہیں ہونے کی صورت میں سول نا فرمانی کی تحریک چلانے کا مشورہ دیا، اس کے لیے ’’تحفظ ناموس شریعت‘‘ کے عنوان سے ایک ایکشن کمیٹی بنائی گئی اس کا ناظم مولانا ابو المحاسن محمد سجاد ؒ کو چُنا گیا، پورے ملک میں منظم تحریک چلائی گئی ، امارت شرعیہ کی زیر سرپرستی احتجاجی جلسے منعقدہوئے اور ہر جگہ سے وائسرائے ہند کو تار کے ذریعہ احتجاج درج کرایا گیا، قانون تو ختم نہیں ہوا، البتہ اس احتجاج کے نتیجے میں حکومت کی طرف سے عمل در آمد کا کام نہیں ہو سکا۔ 
 آزادی کے برسوں بعد ۱۹۷۸ء میں اس قانون میں ترمیم کرکے لڑکوں کی شادی کی عمر اکیس (۲۱) اور لڑکیوں کی اٹھارہ سال کر دی گئی ، جو اب تک رائج ہے، البتہ اس قانون کی وجہ سے کم عمر کی شادیوں پر روک نہیں لگ سکی؛ کیوں کہ یہ ایک سماجی مسئلہ تھا اور لڑکے ، لڑکیوں کی جسمانی ساخت او ر بلوغیت پر منحصر تھا؛اس لیے عملی طورپر اس کو برتا نہیں جا سکا، عام رجحان یہ بناکہ یہ شخصی آزادی پر پابندی کے مترادف اور بنیادی حقوق کی دفعات میں جس قسم کی آزادی کا ذکر ہے یہ اس کی روح کے منافی ہے، لیکن حکمراں طبقہ اس دلیل سے مطمئن نہیں تھا، چنانچہ ۲۰۰۶ء میں بچوں کی شادی پر روک کا قانون بنا کر اسے جرم کے دائرہ میں لایا گیا، اور اس کے لیے دو سال جیل او رایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی مقرر کی گئی ، لیکن یہ قانون فطرت کے خلاف تھا، اس لیے آج بھی اس قانون کے خلاف شادیاں ہو رہی ہیں اور اعداد وشمار کے اعتبار سے راجستھان اس معاملہ میں سب سے آگے ہے۔ 
خود قانونی اعتبار سے اس میں بڑا تضاد ہے، اٹھارہ سال کی عمر میں حکومت لڑکے لڑکیوں کو بالغ مانتی ہے اور اس عمر کو پہونچ کرسارے اختیارات لڑکے لڑکیوں کو حاصل ہوجاتے ہیں، وہ سرکاری نوکری حاصل کر سکتا ہے، کمپنی کھول سکتا ہے،ووٹ کا حق اسے مل جاتا ہے، لیکن وہ اپنی شادی نہیں کر سکتا، کیوںکہ وہ ابھی اکیس (۲۱) برس کا نہیں ہوا ہے۔ اسی طرح ہم باشی (لیو ان ریلیشن شپ) کے لیے بھی عمر کی قید نہیں ہے اور اسے ہندوستان میں قانونی حیثیت حاصل ہے،لڑکا ، لڑکی بغیر کسی ذمہ داری لیے ایک کمرے میں رہکر گل چھڑے اڑا ئے تو غیر قانونی نہیں ، کئی کئی گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ سے ریلیشن شپ رکھے تو قانون اس پر داروگیر نہیں کرتا، بلکہ مختلف عدالتوں کے فیصلے میں اس تعلق پر دارو گیر کرنے سے منع کیا گیا ہے، بلکہ بعض فیصلوں میں ریلیشن شپ میں رہنے والوں کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
آخر سرکار کو اس سے کیا دلچسپی ہے؟یہ  ایک سوال ہے، سرکار کہتی ہے کہ شادی کی عمر میں مرد وعورت میں تفریق صنفی بنیادپر قانون کے مطابق نہیں ہے، اس کے جواب میں اسد الدین اویسی صاحب نے یہ بات صحیح کہی ہے کہ اگر تفریق درست نہیں ہے تو اتنے دن سے اسے قانون کے دائرہ میں کیوں رکھا گیا ہے۔اس کے علاوہ لڑکوں کی عمر ہی کم کرکے اٹھارہ سال کر دو، مساوات ہوجائے گی، لیکن اصل بات یہ ہے کہ سرکار چاہتی ہے کہ شادی کی عمر جتنی بڑھائی جائے گی، توالد وتناسلل کی مدت اسی قدر کم ہوتی جائے گی، اور بڑھتی آبادی پر اس طرح بھی قابو پایا جا سکے گا، یہ ایک منفی سوچ ہے اور اس منفی سوچ کی مارصرف مسلم پرسنل لا پر ہی نہیں، بھارتیہ عیسائی ازدواجی ایکٹ، پارسی ازدواجی وطلاق ایکٹ، خصوصی اطفال ازدواجی ایکٹ ، مسلم عائلی قانون (شریعت) طلاق ایکٹ، خصوصی ازدواج ایکٹ، ازدواج ہنود ایکٹ (۱۹۵۵) اور غیر ملکی ازدواج ایکٹ کے بھی خلاف ہے، اس قانون کو پاس کرنے کی وجہ سے حکومت کو ان تمام ایکٹ میں تبدیلیاں لانی ہوں گی ، جو بہت آسان نہیں ہوگا۔
 اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ لڑکا لڑکی بالغ ہوجائے تو اس کو ازدواجی رشتے میں بندھ جانا چاہیے؛ تاکہ جنسی بے راہ روی میں مبتلا ہونے کا امکان ختم ہوجائے اورمیاں بیوی ایک دوسرے کے لیے سکون ومحبت کا ذریعہ بن جائیں۔ اس سلسلے میں واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ اگر کوئی ایسا معقول رشتہ مل جائے ، جس کے دین وایمان سے تم مطمئن ہو تو اسے رشتہ نکاح میں باندھ دو، ورنہ بڑے فساد کا اندیشہ ہے، یہ بڑا فساد وہی جنسی بے راہ روی ، زنا کاری، بن باپ کے بچوں کی ولادت ہے، اس لیے ہمیں یہ قانون کسی طرح منظور؛ بلکہ گوارہ نہیں ہے، جب اٹھارہ سال کی عمر میں شادی ہو تی ہے تو ان کی تولیدی صلاحیت میں کمی محسوس کی جارہی ہے اور ایک سروے کے مطابق تیرہ فی صد عورتیں بانجھ پن کی شکار پائی جا رہی ہیں، تین سال عمر میں اضافہ کی وجہ سے بانجھ پن میں مزید اضافہ ہوگا، یہ ہماری سوچ نہیں، دہلی میڈیکل کونسل کے سکریٹری ڈاکٹر گریش تیاگی کا کہنا ہے۔
ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں بلوغیت کی عمر لڑکیوں کی الگ الگ ہے، اس میں رہن سہن کے طریقے، کھانے پینے اور موسم کا بھی اثر ہوتا ہے، ماہر طبیبوں کی رائے اس سلسلہ میں یہ ہے کہ جسمانی ساخت کے اعتبار سے لڑکیاں، لڑکوں سے عمر کے اعتبار سے بہت پہلے بالغ ہوجاتی ہیں، ان کے اندر جنسی تبدیلی نو سال کے بعد سے شروع ہونے لگتی ہیں،اور بارہ سال کی عمر ان کی اس لائق ہوتی ہے کہ وہ رشتۂ ازدواج میں بندھ سکیں۔ تیس برس کی ہوتے ہوتے ان کی تولیدی صلاحیت اس قدر کمزور ہونے لگتی ہے کہ ماں بننے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس کے علاوہ معاشی طور سے کمزور والدین اپنی اس ذمہ داری سے جلد سبکدوش ہونا چاہتے ہیں، انہیں اپنی ضعف وعلالت کی وجہ سے بھی ان کے ہاتھ پیلے کرنے کی جلدی ہوتی ہے ، ایسے میں تین سال مزید انتظار ان کے لیے انتہائی پریشان کن ثابت ہوگا، معقول رشتے جلد ملتے نہیں ہیں، مل جائیں تو اس مرحلہ سے گذرجانے میں ہی عافیت محسوس کیا جاتا رہا ہے، سرکار اچھی طرح جانتی ہے کہ لڑکیوں کی شادی کی عمر بڑھا دینے سے کوئی انقلاب آنے والا نہیں ہے یہ کام ہمیشہ سے لڑکیاں اپنی مرضی یا گارجین کی ہدایت پر کرتی رہی ہیں، اب بھی ایسا ہی ہوگا۔ البتہ اس قانون کے ذریعہ ملک کی عوام کو تقسیم کرکے ووٹر کو اپنی طرف کیا جا سکے گا__

جمعہ, دسمبر 31, 2021

یکم جنوری سے مہنگی ہوجائیں گی کئی چیزیں اور سروس

یکم جنوری سے مہنگی ہوجائیں گی کئی چیزیں اور سروسنئی دہلی،31دسمبر۔ یکم جنوری 2022 سے ہونے والے کچھ تبدیلیوں کا سیدھا اثر ہم سبھی کی جیب پر پڑے گا۔ یکم جنوری 2022 سے اے ٹی ایم سے کیش نکالنا مہنگا ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ نئے سال کے ساتھ ہی انڈیا پوسٹ پیمنٹس بینک میں پیسہ جمع کرنا اب فری یعنی مفت نہیں رہ جائے گا۔یکم جنوری 2022 سے اے ٹی ایم سے پیسہ نکالنا مہنگا ہوجائے گا۔ گاہکوں کو فری ٹرانزکشن ختم ہونے کے بعد اے ٹی ایم سے پیسے نکالنے پر پہلے سے زیادہ چارج ادا کرنا ہوگا۔ ابھی تک گاہکوں سے فری ٹرانزکشن ختم ہونے کے بعد اے ٹی ایم سے پیسے نکالنے پر 20 روپے فی ٹرانزکشن ادا کرنا پڑتے تھے۔ اب اس چارج کو بڑھا کر 21 روپے کردیا گیا ہے۔انڈیا پوسٹ پیمنٹس بینک میں پیسہ جمع کرنے اور نکالنے پر چارج لگے گا۔ سیونگ اور کرنٹ اکاونٹ کے لئے کیش وتھڈرا 25 ہزار روپے ہر مہینے تک فری ہے۔ فری لمٹ کے کے بعد، ویلیو کا 0.50 فیصدی کم از کم 25 روپے فی ٹرانزکشن تک لیا جائے گا۔ وہیں، کیش جمع 10 ہزار روپے ہر مہینے تک بالکل مفت رہے گا۔ مفت لمٹ کے بعد، ویلیو کے 0.50 فیصدی پر چارج کیا جائے گا جو کم از کم 25 روپے فی ٹرانزکشن ہوگا۔نئے سال سے جوتے اور کپڑے خریدنے کے لئے پہلے سے زیادہ پیسے خرچ کرنے ہوں گے۔ ریڈی میڈ کپڑے اور جوتے چپلوں پر گوڈس اینڈ سروس ٹیکس (GST)یکم جنوری سے بڑھا دیا جارہاہے۔ حکومت پہلے ان سامان پر 5 فیصدی جی ایس ٹی لگاتی تھی، لیکن اس کو بڑھا کر اب 12 فیصدی کردیا گیا ہے۔ نئی قیمتیں یکم جنوری 2022 سے لاگو ہوجائیں گی۔ بتادیں کہ کھادی پر ٹیکس نہیں بڑھایا جائے گا۔آن لائن یا موبائل ایپ سے کیب، آٹو رکشا، بائیک کی بکنگ کرنے پر گاہکوں سے 5 فیصدی کا ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ سوئیگی اور زوماٹو جیسی ا?ن لائن فوڈ ڈیلیورنگ ایپ بھی ا?رڈر سروس ٹیکس وصولے گی۔یکم جنوری 2022 سے ملک میں کار خریدنا بھی مہنگا ہوجائے گا۔ قریب 10 ا?ٹو موبائل کمپنیاں یکم جنوری 2022 سے اپنی کاروں کی قیمت بڑھا رہی ہیں۔ گاڑیوں کی قیمت بڑھانے والی کمپنیوں میں ماروتی سوزوکی، ٹاٹا موٹرس، فاکس ویگن، ٹویوٹا اور ہونڈا بھی شامل ہیں۔

جمعرات, دسمبر 30, 2021

بڑھتی بے روزگاری مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

بڑھتی بے روزگاری 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
نیشنل اسٹیٹکل آفس (N.S.O)قومی سطح پر پیداوار، روزگار اور دوسرے اعداد ووشمار رکھنے والا قابل ذکر ادارہ ہے، ترقیات سے جڑے تمام اعداد وشمار روزرو بینک آف انڈیا کے علاوہ اسی کے پاس محفوظ رہتے ہیں، حکومتی اور رزروبینک کی سطح پر پیداوار اور روزگار میں برابر بہتری کی بات کہی جاتی رہی ہے ، بعض مبالغہ آمیزی کرنے والوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ترقی کی شرح رکارڈ سطح پر پہونچ سکتی ہے ، اعلان یہ بھی کیا گیا کہ شرح نمو میں بہتری آئی ہے، اور یہ بیان کسی ایرے غیرے کا نہیں رزروبینک کے گورنر مسٹر داس کا ہے ۔
لیکن نیشنل اسٹیٹکل آفس کے اعداد وشمار گورنر مسٹر داس کے بیان کی نفی کرتے ہیں، ان اس او کے مطابق امسال نوجوانوں کے روزگار میں ۶ء ۲۲ ؍ فی صد کی کمی درج کی گئی ہے ، ۲۱-۲۰۲۰ء میں نوجوانوں کو پچیس لاکھ روزگار پہلے کی بہ بنسبت کم ملے، ان اس او کے مطابق ۲۰-۲۰۱۹ء میں ای پی ایف (امپلائز رپروویڈنڈ فنڈ) میں ۱۱۰۴۳۶۹۳ ؍ افراد شامل تھے۔ ۲۱-۲۰۲۰ء میں یہ تعداد گھٹ کر ۸۵۴۸۸۹۸؍ رہ گئی ہے ، اس طرح جو لوگ ملازم ہونے کی حیثیت سے ای پی ایف جمع کرتے تھے وہ پچیس لاکھ کم گیے، پینتیس (۳۵) سال سے کم عمر لوگ ۲۰-۲۰۱۹ء  میں اکانوے لاکھ تھے، جب کہ ۲۱-۲۰۲۰ء میں یہ تعداد گھٹ کر صرف ارسٹھ (۶۸) لاکھ رہ گئی ، این ایس او کی رپورٹ کے مطابق پینتیس سال سے زیادہ عمر کے لوگوں میں روزگار صرف بیس (۲۰) لاکھ رہ گئی ہے ۔ ۱۹-۲۰۱۸ء کے اعداد وشمار سے اگر موجودہ سال کا موازنہ کریں تو یہ معاملہ اور بھی سنگین ہوجاتا ہے، ای پی ایف جمع کرنے والے افراد میں کمی کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اتنے لوگوں کو ملازمت سے نکال دیا گیا۔
 حکومت اور ان کی ایجنسیاں اعداد وشمار میں دھوکہ دینے کی عادی رہی ہیں، جس کی وجہ سے حقیقی صورت حال عوام کے سامنے آنہیں پا تیں جب کہ نئی منصوبہ بندی، اور مشکلات پر قابو پانے کے لیے اعداد وشمار کا صحیح طور پر عوام کے سامنے آنا انتہائی ضروری ہے ، لیکن حکومت کو عوامی سطح پر سچ کی اشاعت سے اپنی ناکامی اور کِر کِری کا خطرہ رہتا ہے، اس لیے صحیح اعداد وشمار چھپا لیا جاتا ہے اور فرضی اعداد وشمار بتا کر واہ واہی لوٹنے کی کوشش کی جاتی ہے ، جو نہ عوام کے مفاد میں ہے اور نہ ہی ملک کے ، صحیح اور سچی بات یہی ہے کہ ملک میں بے روزگاری کی شرح تیزی سے بڑھی ہے اور کوڈ کے بعد شرح نمو اور معاشی ترقی کا جو ذکر کیا جاتا ہے اس کی حقیقت پروپیگنڈے سے زیادہ نہیں ہے ۔

ڈاکٹروں کی لا پرواہی___ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قا ڈاکٹروں سمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ڈاکٹروں کی لا پرواہی___ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قا ڈاکٹروں سمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
پہلے موتیا بند کے آپریشن کیمپ لگا کر بغیر آپریشن تھیٹر کے کیے جاتے تھے، جس سے کبھی کبھی مریضوں کی آنکھ کو نقصان پہونچ جاتا تھا، اس سلسلے میں برسوں قبل حکومت نے فیصلہ کیا کہ بغیر آپریشن تھیٹر کے موتیا بند کے آپریشن نہیں کیے جا سکتے، اس روک کے نتیجے میں رفاہی اداروں نے کیمپ لگا کر مریضوں کی تشخیص کا کام شروع کیا، اور موتیا بند کا آپریشن ہوسپیٹل میں بلا کر کیا جانے لگا۔
 لیکن مظفرپور کے جورن چھپرہ پبلک سکٹر کے آئی ہوسپیٹل میں ۲۲؍ نومبر ۲۰۲۱ء کو موتیا بند کے آپریشن کے بعد جن لوگوں کو آنکھ گنوانی پڑی اور جن کے آنکھ نکال کر ان کی جان بچانی پڑی اس نے ایک بار ڈاکٹروں کی لا پرواہی اوران کے غیر ذمہ دارانہ طریقے پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے، انیس (۱۹)مریضوں کو آئی جی ام ایس پٹنہ میں بھرتی کرایا گیا ہے، نہ معلوم کتنوں کی آنکھ کی روشنی جائے گی۔
 یہ صورت حال اس لیے پیدا ہوئی کہ آپریشن تھیٹر میں دو قسم کے جراثیم پہلے سے موجود تھے، سری کرشن میموریل اسپتال مظفر پور کے مائیکرو بایولوجی شعبہ کے ذریعہ جاری کلچر رپورٹ میں اس کا خلاصہ کیا گیا ہے، یہ جراثیم آپریشن کرتے وقت مریض کی آنکھ تک پہونچ گیے، یہ جراثیم جن کا نام ’’ سیوڈ وموناس‘‘ اور ’’ اسٹے فی لوکوکس‘‘ ہے چوبیس گھنٹے کے بعد اس کے اثرات آنکھ پر دکھائی دیتے ہیں، جانچ ٹیم کی قیادت کر رہے ڈاکٹر سبھاش پرساد سنگھ نے بتایا کہ آئی ہوسپیٹل میں آپریشن کے لیے استعمال میں لائے گئے دونوں ٹیبل پر دونوں قسم کے جراثیم پائے گیے، اس کا مطلب ہے کہ آپریشن سے پہلے اسے اسٹرلائز نہیں کیا گیا تھا ، حالاں کہ صرف ٹیبل ہی نہیں آپریشن میں استعمال ہونے والے سارے آلات کا اسٹرلائز ر ضروری ہوا کرتا ہے، تحقیق طلب بات یہ ہے کہ ہوسپیٹل نے اس معاملہ میں کیوں لا پرواہی برتی، جس نے بہت سارے مریضوں کو نہ صرف بینائی سے محروم کردیا؛ بلکہ کئی ایک کی آنکھ بھی نکالنی پڑی،ہمارا مطالبہ ہے کہ جانچ کے بعد جو بھی ذمہ دار ہو، اس کو ایسی سزا دی جائے کہ اس قسم کی لا پرواہی کا خیال بھی کسی کے دل میں نہ آئے۔

منگل, دسمبر 28, 2021

وقت کا ضیاعمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

وقت کا ضیاع
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
پارلیامنٹ اور راجیہ سبھا کے اجلاس اس کے اوقات انتہائی قیمتی ہوتے ہیں اور ہر روز اس پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں، اس کا تقاضہ یہ ہے کہ وقت کی اہمیت کو سمجھ کر منٹ منٹ استعمال اور کام میں لایا جائے، گذشتہ چند دہائی سے پارلیامنٹ اور راجیہ سبھا کے زیادہ اوقات ہُو، ہَلاّ اور شور شرابے کی نظر ہو جاتے ہیں ،اس کا حکمراں طبقہ کو یہ شکایت ہے کہ حزب مخالف کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے، لیکن جب حکمراں طبقہ ، حزب مخالف تھا تو یہ طرح اسی نے ڈالی تھی، اسے بھی شور شرابے سے زیادہ کوئی کام نظرنہیں آتا تھا ، حزب مخالف کا مطلب ہر دور میںمخالفت ہی رہا ہے ، آج یہ روز افزوں ترقی کرکے اس مرحلہ تک پہونچ گیا ہے کہ دونوں ایوان کے معزز صدر نشیں (اسپیکر) کو اس کی شکایت کرنی پڑ رہی ہے اور نا خوشی کا اظہار کرنا پڑ رہا ہے ۔
حالیہ پالیمانی اجلاس حکمراں جماعت اور حزب مخالف کے درمیان تعطل کی وجہ سے مقررہ وقت سے ایک روز قبل ہی ملتوی کر دیا گیا ، اس پر اپنی نا خوشی کا اظہار کرتے ہوئے پارلیامنٹ کے اسپیکر اوم برلا نے کہا کہ ایوان کا نہیں چلنا اچھی روایت نہیں ہے ، انہوں نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ ایوان میں شائستگی اور وقار زوال پذیر ہے اور اس سے ایوان کی اہمیت پر اثر پڑتا ہے، دوسری طرف راجیہ سبھا کے چیر مین ایم وینکیا نائیڈو حالیہ سرمائی اجلاس میں ایوان کے کام کاج کے حوالہ سے اپنے دل کا درد چھپا نہیں سکے، انہوں نے اپنی تشویش اور نا خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ارکان کو خود احتسابی کرنی چاہیے کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے ۔
 ایوان کے حالیہ اجلاس کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ راجیہ سبھا کی کارروائی کے لیے پنچانوے (۹۵) گھنٹے چھ (۶) منٹ کا وقت مقرر تھا، لیکن ایوان کی کارروائی صرف پینتالیس (۴۵) گھنٹے چونتیس (۳۴) منٹ ہی چل سکی ، جو گذشتہ چار سال مین منعقد بارہ (۱۲) اجلاس کے مقابلے سب سے کم وقت ہے ۔ ۵ء ۵۲؍ فی صد وقت ہنگامہ آرائی میں ضائع ہو کر رہ گیا ، مسلسل ہنگامہ آرائی اور کارروائی ملتوی ہونے کی وجہ سے ۳۲ء ۴۹؍ فی صد وقت میںبالکل کوئی کام نہیں ہو سکا اور وقفہ سوالات کے ۶۰ء ۶۰؍ فی صد وقت کا کوئی مصرف نہیں لیا جا سکا۔
یقینا دونوں ایوان کے صدر نشیں کی تشویش بجا ہے اور ایوان کے وقار ، اعتبار اور اعتماد کی بحالی کے لئے مناسب اقدام کیے جانے چاہیے، لیکن حکمراں طبقے کو اس کا تجزیہ بھی کرنا چاہیے کہ اس کے اُول جلول فیصلے اور غیر ضروری قانون سازی تو اس کے مواقع فراہم نہیں کراتے ، کیا گذشتہ اجلاس میں ہنگامے کا سہارا لے کر بارہ ارکان کو حالیہ اجلاس میںمعطل کرنا صحیح تھا، اگر معطل کرنا ہی تھا تو اس اجلاس میں کرنا چاہیے، جس میں انہوں نے ہنگامہ کیا تھا، اس بار دونوں ایوان کی کارروائی اسی بنیاد پر ہنگامہ آرائی کا شکار ہوئی ، اسی طرح ووٹر کارڈ کو آدھار کارڈ سے جوڑنے والا غیر ضروری قانون بھی ارکان کی نظر میں عوام کی نجی رازداری کے خلاف تھا ، اس لیے اس پر بھی شور ہنگامہ رہا، حکومت نے اکثریت کے زعم میں حزب مخالف کی ایک نہ سنی اور یہ قانون ایوان میں پاس بھی ہو گیا، اس لیے اگر ایوان کے وقار کو بر قرار رکھنا اور وقت کا صحیح مصرت لینا ہوگا تو ان دونوں نُکتوں پر ہمیں اپنی توجہ جائزہ میں مرکوز کرنی ہوگی، اور حزب مخالف کو ہر کام کی مخالفت کے مزاج کو بدلنا ہوگا۔

دارالعلوم دیوبندکے طلبہ رات کے کرفیو پر سختی سے عمل کریں

دارالعلوم دیوبندکے طلبہ رات کے کرفیو پر سختی سے عمل کریںطلبہ ہاسٹل میں رہ کر اپنی تعلیمی مشغولیات جاری رکھیں:ناظم اعلیٰ دارالاقامہ
دیوبند،27؍دسمبر(سمیر چودھری؍بی این ایس)
اومی کرون ویرینٹ کے متاثرین کی تعداد میں روز بروز اضافہ کے بعد اترپردیش کی یوگی حکومت کی جانب سے حفاظتی نقطہ نظر کے تحت رات کا کرفیو لگائے جانے کے بعد دارالعلوم دیوبند کی جانب سے بھی طلبہ کو ہدایت نامہ جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کورونا کی نئی لہر کے سبب پورے صوبہ میں رات 11بجے سے صبح 5بجے تک کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے۔دیوبند انتظامیہ رات کے کرفیو پر سختی کے ساتھ عمل درآمد کرانے کے لئے مستقل طور سے نگاہ رکھے ہوئے ہے۔اسلئے دارالعلوم دیوبند کے تمام طلبہ کرفیو کے نفاذ کے مد نظر رات 11بجے سے صبح 5بجے تک ادارہ کے احاطہ سے باہر جانا موقوف رکھیں اور اپنے اپنے کمروں میں رہ کر مطالعہ اور تکرار میں مشغول رہیں۔دارالعلوم دیوبند کے شعبہ دارالاقامہ کے ناظم اعلیٰ مولانا منیر الدین کی جانب سے طلبہ کے لئے ہدایات اور گائڈ لائن جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی جانب سے جاری کردہ نئی گائڈ لائن اور ہدایات کو جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کووڈ پروٹوکال کی مکمل عمل آوری کو یقینی بنایا جائے۔اس سلسلہ میں نئی ویرینٹ کے روک تھام کیلئے نئی ہدایات کے مطابق مناسب اقدامات کرنے کے بھی احکامات دئیے گئے ہیں۔دارالاقامہ کے ناظم اعلیٰ نے بتایا کہ اطلاعات کے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں اترپردیش میں کورونا انفیکشن اور نئے ویرینٹ کے متاثرین کی خاصی تعداد سامنے آئی ہے اور دن بہ دن متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔اسی لئے حفظ ماتقدم کے تحت ریاستی حکومت کی جانب سے رات کے کرفیو کے نفاذ کا اعلان کیا گیا ہے جس پر عمل کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے لہٰذا اسی تناظر میں ادارہ کے طلبہ کو ہدایت نامہ جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ رات کے کرفیو پر سختی سے عمل کرتے ہوئے اپنے اپنے کمروں میں رہ کر اپنی تعلیمی مشغولیات جاری رکھیں اور کسی قیمت پر اداہ کے احاطہ سے باہر جانے کی کوشش نہ کریں۔اس کے علاوہ سوشل ڈسٹینسنگ بنائے رکھنے کے ساتھ ساتھ تمام طلبہ ماسک پہننے کے ساتھ سینیٹائزر کا استعمال بھی لازمی طور پر کریں۔

پیر, دسمبر 27, 2021

سعودی عرب میں تبلیغی جماعت پر پابندی___✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

سعودی عرب میں تبلیغی جماعت پر پابندی___
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
۱۰؍ دسمبر بروز جمعہ سعودی عرب کے منبر ومحراب سے جو اعلان کیا گیا اور خطبہ دیا گیا ، اس نے پوری دنیا کے انصاف پسند مسلمانوں کو سخت حیرت اور تعجب میں ڈال دیا ہے، سعودی عرب میں اسلامی معاملات کے کے وزیر ڈاکٹر عبد اللطیف الشیخ نے ایک ٹوئٹ کے ذریعہ مساجد کے ائمہ اور خطباء کو ہدایت دی کہ وہ مسلمانوں کو تبلیغی جماعت اور الدعوۃ کے خطرات سے آگاہ کریں، انہوں نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ تبلیغی جماعت دہشت گردی کا دروازہ ہے اور اس کے عقائد مشرکانہ ہیں، اتناہی نہیں وزیر کی ہدایت کے مطابق اس جماعت سے کسی بھی قسم کے تعلق کو ممنوع قرار دے دیاگیا ہے۔
تبلیغی جماعت مسلمانوں کے درمیان تذکیر کا کام کرتی ہے، اس کی تذکیر کادائرہ بھی چھ باتوں تک محدود ہے، ان میں ایک کلمہ پر محنت ہے، کلمہ مسلمانوں کے یہاں توحید کی علامت ، خدا کی عبادت اور رسول کی رسالت کے ماننے کا اعلان ہے۔ ایسے میں بھلا وہ لوگ کس طرح شرکیہ اعمال میں ملوث ہو سکتے ہیں جن کے مشن کی پہلی دفعہ توحید اور کلمہ ہے، ظاہر ہے اسے سعودی عرب کے وزیر امور اسلامی کی کم علمی اور جہالت ہی کہی جا سکتی ہے، ورنہ اس کی طویل خدمات لوگوں کو توحید کی دعوت اور شرکیہ اعمال سے اجتناب کا ہر دور میں مظہر رہی ہے۔
 رہ گئی دہشت گردی کی بات ، تو یہ اس لیے صحیح نہیں ہے کہ تبلیغی جماعت والے امور دنیا کی بات ہی نہیں کرتے، وہ تو مرنے کے بعد کی زندگی آخرت کو ہی اپناموضوع سخن بناتے ہیں اور ایک ایسے صالح معاشرہ کے وجود میں لانے کی بات کرتے ہیں جو نبوی طریقہ کار اور احکام خدا وندی کے مطابق ہو، ایسے میں اس پر دہشت گردی کا الزام لگانا انتہائی غلط ہے، اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کے زمانہ میں جانچ ایجنسیوں کو ان کے پیچھے لگایا تھا کہ وہ ان کے کاموں کی تحقیق کریں، ایجنسیوں کی رپورٹ تھی کہ یہ توزمین کی بات ہی نہیں کرتے، صرف آسمان کی بات کرتے ہیں، اس لیے حکومت کو اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے ۔
پھر سعودی عرب کوخطرات کیوں سمجھ میں آئے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان سعودی عرب کو مغربی آقاؤں کے حکم پر جس راہ پر لے جانا چاہتے ہیں، اس میں تبلیغ والوں کی اصلاحی وتذکیری تقاریر اور چلت پھرت رکاوٹ بن سکتی ہے، اس اندیشہ کے تحت اس پر پابندی لگانے کی بات مختلف لوگوں کی طرف سے ماضی میں بھی اٹھتی رہی ہے، جس کی مخالفت ہوتی رہی، اب جب کہ محمد بن سلمان اصلاح کے نام پر اسلامی قدروں کے اختتام کی کوشش کر رہے ہیں، امور اسلامی کے وزیر نے ولی عہد کو خوش کرنے کے لیے اس پابندی کا اعلان کر دیا ۔
دوسری وجہ یہ ہوئی کہ مسلمانوں ہی میں سے بعض جماعتیں اپنے افکار ونظریات کی ترویج واشاعت میں تبلیغی جماعت والے کو بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں، ان کی تحریروں اور تقریروں سے بھی تبلیغی جماعت کے خلاف ماحول بنا اتفاق سے ان کی پہونچ بھی سعودی وزارت میں مضبوط تھی، چنانچہ ان کی تحریر ، تقریر اور گفتگو نے بھی اپنا اثردکھایا اور سعودی وزارت امور اسلامیہ نے ان تحریروں سے متاثر ہو کر یہ قدم اٹھایا۔
 تبلیغی جماعت سے جو کام اصلاح کا اللّٰہ رب العزت نے لیا اور اب بھی جو کام ہو رہا ہے اس کی وجہ سے ہم اسے مفید جماعت سمجھتے ہیں، اور اس پر پابندی لگانا انتہائی غلط ہے،حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم نے سعودی سفارت خانے کو خط لکھ کر مطالبہ کیاہے کہ اس فیصلے کو ہر حال میں واپس لیاجائے ۔
سعودی عرب کی اس پابندی کی وجہ سے سعودیہ میں تبلیغ کا کام متاثر ہوگا، کیوں کہ وہاں شاہی حکومت ہے اور جمہوری حکومتوں کی طرح وہاں احتجاج کا کوئی موقع نہیں ہے ، البتہ مسلم تنظیموں اور جماعت کے ذمہ داروں کے ایک وفد کو متعلقہ وزیر سے ملاقات کرکے اپناموقف رکھنا چاہیے اوران کی غلط فہمی دور کرنی چاہیے، اس پابندی کے اثرات دوسرے ملکوں میں پڑنے کا امکان ہے، لیکن بہت زیادہ نہیں، کیوں کہ عرب حکمراں ولی عہد محمد بن سلمان کے ذریعہ کی جارہی تبدیلی اور سعودی عرب کے امتیازات وتشخصات کو ختم کرنے کی پالیسی سے پورے طور پر واقف ہیں اور اس پابندی کو وہ اسی نقطۂ نظر سے دیکھیں گے۔
ہندوستان میں فرقہ پرست طاقتیں ایک بار پھر سے اسے نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کر سکتی ہیں، اس سے محتاط رہنے اور اس کے مضبوط دفاع کے لیے ملی تنظیموں کو آگے آنا پڑے گا، رہ گیے دوسرے ممالک ، مثلا پاکستان، بنگلہ دیش ، ملیشیا، انڈونیشیا تو وہاں سعودی عرب کی اس پابندی کاا ثر بالکل نہیں پڑے گا، کیوں کہ یہاں بادشاہت نہیں، جمہوریت ہے، حکومتیں انتخاب کے ذریعہ چن کر آتی ہیں، اور انتخاب میں ووٹ کی قوت وطاقت دیکھ کر پالیسیاں بنائی جاتی ہیں ، ان ملکوں میں تبلیغیوں کا دبدبہ ہے، اس لیے حکومت ایسے فیصلے کرنے کے پہلے بار بار سوچے گی۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...