Powered By Blogger

منگل, جنوری 04, 2022

تعلیمی نصاب کا بھگوا کرن مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

تعلیمی نصاب کا بھگوا کرن 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
مرکزی حکومت کی جانب سے  تعلیمی نصاب کو بھگوا رنگ میں رنگنے کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے، یہ ایک خطرناک منصوبہ ہے، جس کو بروئے کار لانے کے لیے پارلیامنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کا سہارا لیا گیا ہے، اس کمیٹی نے جو تجاویز پیش کی ہیں، اس کا حاصل یہ ہے کہ رگ وید ،یجر وید، اتھر وید، شام وید اور گیتا کی تعلیم نصاب کا حصہ بنے گی ، تاریخ کی کتابوں میں تبدیلی لا کر ہندتوا سے متعلق واقعات اور شخصیات کو مرکزی حیثیت دی جائے گی، مسلمانوں کو چھوڑ کرسکھ، مرہٹہ ، گوجر، جاٹ اور قبائلیوں سمیت، مہابھارت اور امامن کی نصاب میںشمولیت بھی اس منصوبہ بندی کا حصہ ہے، مسلمانوں کی مذہبی کتابوں اور تاریخ کو نظر انداز کرنا اس منصوبہ کا اصل ہدف اور نشانہ ہے، پارلیمانی کمیٹی کی ان سفارشات کی انڈین ہسٹری کانگریس نے شدید مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ تاریخ کی کتابوں کا جائزہ لینا اگر ضروری ہی ہے تو ملک بھر سے ایسے اسکالرز کو جمع کرنا چاہیے جو مختلف ادوار کا غیر جانبدارانہ معروضی مطالعہ کرکے  حاصل مطالعہ پیش کر سکیں۔
 اسٹینڈنگ کمیٹی کی ان سفارشات کی مخالفت ہرسطح پر ہو رہی ہے، ماہرین کی رائے ہے کہ یہ ملک مختلف مذاہب کے ماننے والوں کا ہے، اور یہی گلہائے رنگا رنگ زینت چمن کا سبب ہیں، اسی لیے نصاب میں تمام مذاہب کی اخلاقی، اصلاحی اور ملک وسماج میں اتحاد وہم آہنگی پیدا کرنے والے مواد کو نصاب کا حصہ ہونا چاہیے اور ان میں کوئی تفریق نہیں کی جانی چاہیے، صرف ہندوؤں کی مذہبی کتابوں کی شمولیت سے نفرت کے اس ماحول میں مزید اضافہ ہوگا، جو اس ملک کی شناخت بنتی جا رہی ہے، ہندوستانی کو نسل برائے تاریخی ریسرچ(ICHR)۲۰۱۴ء سے آر اس اس اور فرقہ پرستوں کے ہاتھ کی کٹھ پتلی بن گئی ہے، اور تاریخ کو نئے سرے سے مرتب کرنے کے بعد جعلی اور جھوٹی تاریخ کو رواج دینا چاہتی ہے، اس کی خواہش ہے کہ مسلم مجاہدین آزادی کو نظر انداز کیا جا ئے، جنگ آزادی میں ٹیپو سلطان کے کردار کو حذف کر دیا جائے اور گاندھی جی کی جگہ ویر ساورکر اور گوڈسے کو اہمیت دی جائے انہیں ہیرو بنا کر پیش کیا جاسکے، ظاہر ہے یہ ملک کی گنگا جمنی تہذیب، دیرینہ روایات واقدار اور مل جل کر رہنے کے جذبہ کے خلاف ہے، ایسی سوچ ملک کے لیے انتہائی مضر ہے اس لیے ضرورت ایک ایسے نصاب کی تیاری کی ہے، جو ملک کی مشترکہ تہذیب وثقافت کی آئینہ دار ہو، یہی اس ملک میں محبت کے ماحول کو واپس لائے گا اور نئی نسل کی ذہنی آبیاری اس طرح کرے گا، کہ وہ ملک کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ساتھ مستقبل میں آگے بڑھا سکیں گے۔

بھارت میں مسلم خواتین کی توہین کرنا ایک کلچر بنتا جا رہا ہے : آر جے صائمہ

بھارت میں مسلم خواتین کی توہین کرنا ایک کلچر بنتا جا رہا ہے : آر جے صائمہ

بھارت میں نئے سال کا آغازمسلم خواتین کے لیے ایک مشکل کے ساتھ ہوا۔ سوشل میڈیا پر 'بُلّی بائی' نامی ایک ایپ پر 100سے زائد مسلم خواتین کی تصویریں ڈال دی گئیں اور اس پر لکھا گیا کہ یہ برائے فروخت ہیں۔ گزشتہ عید کے موقع پر بھی 'سُلّی ڈیلز' نامی ایپ کے ذریعہ مسلم خواتین کی بولی لگائی گئی تھی۔

جن خواتین کی تصویریں 'بُلّی بائی' پر ڈالی گئی ہیں ان میں معروف اداکارہ شبانہ اعظمی سمیت دہلی ہائی کورٹ کے ایک جج کی اہلیہ، متعدد صحافی، سماجی کارکن اور سیاست دان شامل ہیں۔ صحافی عصمت آرا ان خواتین میں شامل ہیں جن کی تصویریں 'بُلّی بائی' پر ڈالی گئی ہیں۔ انہوں نے اس کے خلاف دہلی پولیس کے سائبر سیل میں شکایت درج کرایا ہے۔

حق کی آواز دبانے کی کوشش

عصمت آرا کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات پہلے بھی پیش آچکے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا جس کی وجہ سے شرپسندوں کے حوصلے بلند ہوگئے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا،"ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہورہا۔ پہلے بھی سمجھدار لوگوں نے اس کی نکتہ چینی کی تھی۔ ایف آئی آر بھی درج ہوئی تھی۔ خواتین کمیشن نے بیان دیا تھا۔ پارلیمنٹ میں بھی آواز اٹھائی گئی تھی لیکن کوئی نتیجہ نکلنا تو دور کی بات ابتدائی پیش رفت بھی نہیں ہوسکی۔''

عصمت آرا نے بتایا کہ دہلی اور ممبئی میں دو مقامات پر کیس درج کرائے گئے ہیں اور امید کی جانی چاہیے کہ قصورواروں کے خلاف اس مرتبہ کارروائی ضرور ہوگی کیونکہ''ایسی حرکتیں کرنے والے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے۔''

انہوں نے کہا کہ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ حق کی آواز بلند کرنے والوں کو ڈرا دھمکا کر خاموش کرایا جاسکے۔ عصمت آرا کا کہنا تھا،''ہمارے والدین بھی گھبرائے ہوئے ہیں، بہنیں بھی پریشان ہیں کہ سوشل میڈیا پر یہ تضحیک آمیز رویہ کہیں حقیقی خطرہ بن کر سامنے نہ آجائے اور ہم پر براہ راست حملے کردیے جائیں۔" عصمت آراکا کہنا تھا،" حکومت کو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے لیکن ابھی تک ہمیں ایسی کوئی بھی پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔''

یہ بہت تکلیف دہ ہے

گزشتہ برس جون میں بھی اسی طرح کا واقعہ پیش آیا تھا۔ عید کے موقع پرسوشل میڈیا پر "سلّی ڈیلز" نامی ایپ پر 80سے زائد مسلم خواتین کی تصاویر کے ساتھ انہیں"برائے فروخت " کہا گیا تھا۔ اس کے خلاف دہلی اور نوئیڈا میں الگ الگ کیس درج کرائے گئے تھے تاہم اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

معرو ف ریڈیو جاکی (آر جے) صائمہ کا نام بھی 'بُلّی بائی' کی فہرست میں شامل ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔"میرے لیے سب سے بڑی حیران کن بات یہ ہے کہ بھارت میں کچھ حیران کن رہ ہی نہیں گیا۔" انہوں نے کہا،" بھارت میں گالی دینا اور بالخصوص مسلم خواتین کے خلاف توہین آمیز باتیں کرنا ایک کلچر بنتا جارہا ہے۔ اب کھلے عام حیوانیت کا مظاہرہ ہورہا ہے۔ یہ بہت تکلیف دہ ہے۔ اور اس لیے بھی تکلیف دہ ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ملک کا قانون مرچکا ہے۔ قصور وار آخر گرفتار کیوں نہیں کیے جاتے۔ یہ بہت خطرناک ہے۔''

صائمہ کا کہنا تھا،"ایسے مجرموں کے خلاف ہر ایک کو آواز بلند کرنی چاہیے کیونکہ کوئی بھی ان کی زد میں آسکتا ہے۔ نفرت کرنے والے کسی کو نہیں چھوڑتے۔''

اصل ذمہ داری حکومت کی

متاثرین اور سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ عورتوں اور بالخصوص مسلم خواتین کے خلاف جرائم کے واقعات اس لیے بڑھ رہے ہیں کیونکہ انہیں روکنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھائے جاتے۔ صائمہ کا کہنا تھا،"سب سے بڑی ذمہ داری حکومت اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں پر ہوتی ہے۔ اگر وہ اس امرکو یقینی بنائیں کہ غلط کا ساتھ نہیں دینا تو یہ سنگین مسئلہ بڑی حد تک ختم ہوسکتا ہے۔''

انہوں نے کہا اصل سوال قانون کی حکمرانی کا ہے۔ ہم کس طرح کا سماج بنانا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو پھر ہم تو جنگل کے دور میں چلے جائیں گے۔

سماج پر بھی ذمہ داریاں ہیں

مختلف سماجی امور پر اپنے ریڈیو پروگرام سے لوگوں کو بیدار کرنے کی کوشش کرنے والی صائمہ کہتی ہے کہ سماج پر بھی بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔"ہمارے سماج میں اکثر متاثرہ لڑکیوں یا خواتین کو ہی مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف والدین بلکہ پڑوسیوں اور دوست احباب کو بھی متاثرہ خواتین کی مدد کرنی چاہیے، ان کا حوصلہ بڑھانا چاہیے اور یہ یقین دلانا چاہیے کہ وہ ان کے ساتھ ہیں۔''

اس سوال کے جواب میں کہ آخر مسلم خواتین کو اس طرح ٹارگٹ کیوں کیا جاتا ہے؟ صائمہ کا کہنا تھا کہ 'بُلّی بائی' اور 'سلّی ڈیلز' جیسی حرکت کرنے والے سوچتے ہیں کہ ایک مسلم لڑکی آخر حق کے لیے آواز بلند کرنے کی جرأت کیسے کرسکتی ہے۔ وہ کامیاب کیسے ہوسکتی ہے؟وہ آزاد خیال کیسے ہوسکتی ہے؟''

کارروائی کا مطالبہ

متعدد سماجی اور سیاسی رہنماوں نے بھی 'بُلّی بائی' معاملے کی مذمت کی ہے اور حکومت سے کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے کہا،" خواتین کی توہین اور فرقہ وارانہ منافرت صرف اسی وقت رک سکتی ہے جب آپ اس کے خلاف متحد ہوکر کھڑے ہوجائیں۔ سال بدل گیا ہے اس لیے آپ اپنی قسمت بھی بدلیں اور یہ آواز بلند کرنے کا وقت ہے۔''

مہاراشٹر میں حکمراں شیو سینا پارٹی کی رکن پارلیمان پرینکا چترویدی نے لکھا،" میں نے بارہا آئی ٹی وزیر ایشونی ویشنو سے کہا ہے کہ سلی ڈیلز جیسے پلیٹ فارم کے خلاف سخت کارروائی کی جائے جہاں عورتوں سے نفرت اور انہیں فرقہ وارانہ طور پر شکار بنانے کے واقعات بھرے پڑے ہیں۔ شرم کی بات ہے کہ اسے اب تک نظر انداز کیا جا رہا ہے۔'' قومی خواتین کمیشن کی چیئرمین ریکھا شرما نے ٹویٹ کرکے بتایا،"معاملے کو نوٹ کرلیا گیا ''ہے۔

حکومت کیا کررہی ہے؟

اس معاملے کی زبردست مذمت اور نکتہ چینی کے بعد انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مرکزی وزیر اشوینی ویشنو نے ایک ٹویٹ کرکے اطلاع دی کہ " گٹ ہب، جس پر ایپ اپ لوڈ کیا گیا تھا، نے " بلّی بائی" ایپ کو بلاک کردیا ہے اور مزید کارروائی کے لیے ہم رابطے میں ہیں۔'' ادھر ممبئی پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ معاملے کا نوٹس لیا گیا ہے اور متعلقہ حکام سے مزید کارروائی کے لیے کہا گیا ہے۔

پہلے'سلی ڈیلز' اور اب 'بُلّی بائی' کو بھارت میں اسلاموفوبیا کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے۔ پیشے سے کمپیوٹر انجینئر آفتاب احمد نے ڈی ڈبلیو اردوسے بات کرتے ہوئے کہا،''بلی بائی نے مسلم خواتین کی توہین نہیں کی ہے بلکہ اس ذلیل، جاہل اور عصمت دری کے کلچر کی حقیقت دنیا کو بتادی ہے جس میں خواتین کو صرف استعمال کی چیز سمجھا جاتا ہے۔''

بہت سے ہندو افراد نے تاہم سوشل میڈیا کے ذریعہ مسلم خواتین سے معافی مانگی ہے اور کہا ہے کہ ایک ہندو کے طور پر وہ شرمندہ ہیں۔

پیر, جنوری 03, 2022

تعلیم اور کرئیر " ایک جائزہ ✍️قمر اعظم صدیقی

" تعلیم اور کرئیر " ایک جائزہ 
✍️قمر اعظم صدیقی
              9167679924

ڈاکٹر مظفر نازنین صاحبہ ادبی دنیا میں کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ آپ نے گریجوئیشن تک کی تعلیم سائنس سےحاصل کی ہے ۔ اسکے بعد آپ نے میڈیکل سائنس میں اپنی دلچسپی دکھاتے ہو D .H .M .S کی سند حاصل کی اور باضابطہ طور پر اس وقت کلکتہ میں پریکٹس کر رہی ہیں ، اور الحمداللہ آپ کے علاج سے سینکڑوں مریض شفا یاب ہو رہے ہیں ۔ آپ کا میدان سائنس رہا ہے باوجود اسکے آپ کی محبت اردو مثالی ہے ۔ آپ جس موضوع پر قلم اٹھاتی ہیں اس کا پورا پورا حق ادا کرتی ہیں ۔ آپ کے مضامین ہندوستان کے تمام مشہور و مقبول اردو روزنامہ ، ویبسائٹ ، پروٹل اور رسائل میں مستقل شائع ہو رہے ہیں ۔ آپ کی خدمت اردو کا دائرہ صرف ہندوستان تک ہی محدود نہیں ہے ۔ آپ کے مضامین بیرونی ممالک پاکستان ، جاپان اور انگلینڈ کے ویبسائٹ میں بھی شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ آپ کا مطالعہ بہت ہی وسیع ہے ۔ آپ نے جہاں ایک جانب مشہور و معروف شخصیات جیسے علامہ اقبال ، مرزا غالب ، مولانا ابوالکلام آزاد ، کلیم عاجز کو اپنے تحریر کا موضوع بنایا ہے وہیں آپ نے نئ نسل کے قلمکاروں کی بھی حوصلہ افزائی کی ہے ۔
     زیر مطالعہ کتاب " تعلیم اور کرئیر " ڈاکٹر مظفر نازنین صاحبہ کے مضامین کا مجموعہ ہے جو کہ ٢٠ مضامین پر مشتمل ہے ۔ پیش لفظ میں محترمہ لکھتی ہیں : 
       " مسلم طلبا اور طالبات کو اعلی تعلیم کی طرف راغب کرنا ، تعلیم نسواں کو فروغ دینا ہی عصر حاضر کا تقاضا ہے۔ اور یہی زبان حال کی پکار ہے ۔ اس میں کوئ دو راۓ نہیں کہ اعلی تعلیم سے ہی کامیابی اور ترقی کی بلندیوں پر پہنچا جا سکتا ہے ۔ 
پرواز دونوں کی ہے اسی ایک فضا میں

شاہین کا جہاں اور ہے کرکس کا جہاں اور

اسی تقاضے کو مدنظر رکھتے ہوۓ ذہن میں ہر لمحہ یہ خمار اٹھ رہا تھا کہ ایک ایسی کتاب کی تشکیل کی جاۓ جس سے نوجوانان وطن اور ان کے والدین فیضیاب ہو سکیں " (صفحہ ۔ 6)

    " عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں " اس مضمون میں محترمہ نے بہت ہی قیمتی آراء پیش کیا ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر اس دنیا میں بھیجا ہے ۔ خدا نے انسان کو سوجھ بوجھ ، عقل و فہم ، ذہن و فراست عطا کیے ہیں جو دوسرے مخلوق کو حاصل نہیں۔ جانور اور انسان کو جو خوبی ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے وہ ہے تعلیم " (صفحہ 9)
 
     "آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟ " اس مضمون میں بھی محترمہ کا درد مسلمانوں کے حالات کو بخوبی عیاں کرتا ہے ۔ ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوۓ لکھتی ہیں کہ :
 " سول سروس کے امتحانات میں ١٩٣٠ امیدوار منتخب ہوۓ جس میں محض ٣٠ امیدوار مسلم ہیں ۔ یہ تناسب آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ۔ مزید آگے لکھتی ہیں کہ : 
آج مولانا ابوالکلام آزاد ہمارے درمیان نہیں جنہوں نے اپنے اخبار " الہلال " اور البلاغ " کے ذریعہ قوم کی رہنمائی کی اور جو ملت اسلامیہ کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئ ۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے اپنے قیمتی زندگی کا ایک حصہ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے اور ان میں شعور پیدا کرنے کے لیے صرف کیا ۔ اقبال نے ہی کہا تھا :
 
" نہ سمجھوگے تو مِٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو 

تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں " 
 
( صفحہ 16)

   " تعلیم نسواں کے ذریعہ ہی صحت مند معاشرے کی تشکیل ممکن ہے " اس مضمون میں بھی محترمہ لڑکیوں کی تعلیم کے متعلق سنجیدہ سوچ رکھتی ہیں انہوں نے لکھا ہے :
 تعلیم ہی وہ ہتھیار ہے جو انسان کو انسان بناتی ہے ۔ زبان تہزیب ، سلیقہ اور شعور تعلیم سے بیدار ہوتی ہے ۔ لڑکیوں کو اعلی تعلیم کی ضرورت ہے ۔ ان کی نمائندگی ہر شعبہ ہاۓ زیست میں بے حد ضروری ہے ۔ خواہ ادب ہو یا سائنس ، میڈیکل سائنس ہو یا انجینئرنگ ، سیاست ہو یا صحافت ، معاشیات ہو یا سماجیات ہر شعبے میں خواتین کی نمائندگی بے حد ضروری ہے ۔ ( صفحہ 55 )

    " اعلی تعلیم کے میدان میں چند علمی شخصیات کی نمایاں کارکردگی " اس مضمون میں بھی چند نمایاں شخصیت کا ذکر کر کے تعلیمی میدان میں ان کی کارکردگی کو بتانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ جس سے طلبہ استفادہ کر سکتے ہیں ۔ جس میں اہم نام ڈاکٹر گورنگ گو سوامی ، محترم نورالاسلام ، شری ابھیا نند سر ، حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی کے نام قابل ذکر ہیں ۔ 
بخوف طوالت یہاں تمام مضمون کے تعلق سے لکھنا ممکن نہیں ہے اس لیے باقی مضمون کے عنوانات آپ حضرات ملاحظہ فرمائیں : 
مسلمانوں میں تعلیمی بیداری آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد ، اردو تعلیم کے بنیادی مسائل اور اسکا حل ، تہزیب گنگ و جمن کی شان ہے اردو زبان ، شیریں زبان اردو :ماضی حال اور مستقبل کے آئینے میں ، مقابلہ جاتی امتحانات میں تبدیلیاں ، ایس ایم ایس لینگوئج کا بے جا استعمال اور مستقبل میں اسکے نتائج ، ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے ، میڈیکل اور انجینئرنگ کالج برائے خواتین کا قیام ، عالمی یوم دختراں اور تعلیم نسواں ، ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی ، اعلی تعلیم کے میدان میں رحمانی ٣٠ کا اہم کردار ، اساتذہ کرام کی عظیم شخصیت اور ان کا المیہ ، یوم اساتذہ اور رحمانی ٣٠ ، " زمانہ کیا کہے گا " کے حوالے سے اہل قلم سید انظار البشر بارکپوری اور نوجوان شاعر - مصطفےٰ غزالی کی عظیم شخصیت - ملت اسلامیہ " یہ تمام مضامین اس کتاب میں شامل ہیں جسے پڑھ کر استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔ یقیناً اس کتاب کے مطالعہ کے بعد اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ مظفر نازنین صاحبہ ملت اسلامیہ کے موجودہ حالات ، مسلمانوں کی پستی اور علمی میدان میں بد سے بدتر حالت کا درد اپنے سینے میں رکھتی ہیں اور اس کے لیے فکرمند بھی ہیں ۔ اور ان کی اسی سونچ نے انہیں اس کتاب کی اشاعت کے لیے مجبور کیا ۔ ان کے تمام مضامین میں تعلیم کی اہمیت اور افادیت پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ آخر کے دو مضامین شخصیتپر مبنی ہیں ۔ نئی نسل کی رہنمائی کے لیے یہ کتاب بہت ہی مفید ہے تمام لوگ اس کتاب کو اپنے بچوں کو پڑھوا کر ان کے اندر حوصلہ پیدا کر سکتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کتاب کو اہل علم حضرات قدر کی نگاہوں سے دیکھیں گے ۔ ١٠٣ صفحات پر مشتمل یہ کتاب قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی معاونت سے ادیبہ پرنٹرس کولکاتا میں شائع ہوئی ہے ۔ اسکی قیمت صرف ٧٦ ( چھیہتر) روپیہ ہے ۔ اس کتاب کا انتساب محترمہ نے اپنی بہن اور بھائیوں کے نام کیا ہے ۔ اس کتاب میں عمدہ اور معیاری قسم کے کاغذ کا استعمال کیا گیا ہے ۔ کتاب کا ٹائیٹل پیج بھی دلکش اور خوبصورت ہے ۔ اس کتاب کو حاصل کرنے کے لیے محترمہ کے موبائل نمبر 9088470916 سے رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔

عامر سبحانی کو چیف سیکریٹری بنانا وزیر اعلی نتیش کمار کا مستحسن قدم: " کاروان ادب"

عامر سبحانی کو چیف سیکریٹری بنانا وزیر اعلی نتیش کمار کا مستحسن قدم: " کاروان ادب"
_______________________________________
 حاجی پور ( ت ن س) وزیراعلیٰ بہار کے ذریعے 1987 بیچ کے آئی اے ایس افسر جناب عامر سبحانی کو ریاست کا نیا چیف سیکرٹری بنایا جانا ایک مستحسن قدم ہے جس کے لئے وزیر اعلی بہار مسٹر نتیش کمار  مبارک باد کے مستحق ہیں-" "کاروان ادب "کے صدر مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی اور جنرل سیکریٹری انوارالحسن وسطوی نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ جناب عامر سبحانی نے بہار کے ہوم سیکرٹری اور محکمہ اقلیتی فلاح کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری کی حیثیت سے جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں وہ اظہر من الشمس ہیں - ان کی حسن کارکردگی کا ثمرہ ہے کہ آج وہ بہار کے چیف سیکریٹری کے عہدے پر فائز کیے گئے ہیں- یہ عہدہ پانا ان کا حق تھا اور یہ عہدہ پانا بلاشبہ 'حق بحقدار رسید' کے مترادف ہے - جناب عامر سبحانی کے چاہنے والوں نے اس عہدے  پر ان کے فائز ہونے کا عرصہ قبل جو خواب دیکھا تھا ان کا یہ خواب خدا کے فضل و کرم سے اب شرمندہ تعبیر ہو گیا ہے- یہ مالک حقیقی کا ہزار ہزار احسان و کرم ہے - "کاروان ادب" کے صدر اور جنرل سیکریٹری نے جناب عامر سبحانی کو بہار کے چیف سکریٹری کے عہدے پر سرفراز ہونے کا خیر مقدم کرتے ہوئے انہیں دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دی ہے اور  اپنے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ جناب عامر سبحانی وزیراعلی بہار اور بہار کے عوام کی امیدوں پر پورا اتریں گے اور ریاست کی تاریخ میں اپنا نام سنہرے حرفوں میں درج کرائیں گے -

اتوار, جنوری 02, 2022

اوڈیشہ : نئے سال پر دعوت اڑانے کے لئے بکری چوری کے الزام میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر معطل

اوڈیشہ : نئے سال پر دعوت اڑانے کے لئے بکری چوری کے الزام میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر معطل

بھونیشور: اڈیشہ پولیس کے ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر کو نئے سال کے موقع پر دعوت کے لئے دو بکریاں چرانے کے الزام میں معطل کر دیا گیا ہے۔ بولانگیر ضلع کے سندھکیلا تھانے کے اے ایس آئی سومن ملک کو بکری چوری میں ملوث ہونے پر معطل کیا گیا ہے۔

بکریوں کے مالک سنکرتن گرو نے الزام لگایا کہ ان کی دو بکریاں تھانے کے احاطے میں گھوم رہی تھیں، ان کو کو اے ایس آئی نے اٹھا کر مار ڈالا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی بیٹی نے پولیس اہلکاروں کو بکرے ذبح کرتے ہوئے دیکھا۔

گرو نے الزام لگایا کہ جب اس نے معاوضے کا مطالبہ کرتے ہوئے شکایت درج کرانے کی کوشش کی تو پولس نے ایسا نہیں کیا، بلکہ اسھے دھمکی دکے کر بھگا دیا۔ اس واقعہ کے بعد مشتعل مقامی افراد سندھکیلا پولیس اسٹیشن پر جمع ہوگئے اور احتجاج کیا۔

بعد بولانگیر کے ایس پی کولاسکر نتن دگڈو نے اے ایس آئی کو معطل کر دیا۔

ہفتہ, جنوری 01, 2022

مولانامحمودمدنی کاانقلابی قدم*میرے ایک دوست نے ایک چھوٹا سا واقعہ سنایا یے جسمیں بڑا سبق ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ایک منچلاپہلی صف میں امام صاحب کے بالکل پیچھے کھڑا ہوگیا،

*مولانامحمودمدنی کاانقلابی قدم*
میرے ایک دوست نے ایک چھوٹا سا واقعہ سنایا یے جسمیں بڑا سبق ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ایک منچلاپہلی صف میں امام صاحب کے بالکل پیچھے کھڑا ہوگیا،جب رکوع میں امام صاحب ہوئے تو اس نےپیچھے سے انگلی کردی،  امام صاحب کی حالت غیر ہوگئی، باوجود اس کے کسی طرح انہوں نے نماز پوری کرلی، جب دعا سے فارغ ہوتے تو وہ بھی کہیں فارغ ہوچکا تھا۔
اب تو اسے اس عمل میں مزہ آنے لگا،روزنئی مسجد اورہردن نئے امام کی تلاش رہتی، ہر جگہ اپنے اسی عمل کو دہراتا اور محظوظ ہوتا۔
اتفاق سے ایک دن ایک امام صاحب سے اس کا سابقہ پڑا، جس نے نماز ہی میں اس کا حساب بےباقکردیا،
عادت کے موافق جوں ہی انہوں انگلی کی، امام صاحب کراٹے کے ماہر تھے، قبلہ رو ہوتے ہوئےلات رسید کردی، خبیث کاجبڑا پھٹ گیا،اور کسی بھی امام کے پیچھے کھڑا ہونے کااسے منھ نہیں رہا ۔
ہمیں مذکورہ واقعہ سے پچھلے تمام اماموں کی صالحیت سمجھ میں آتی ہے، اوران سبھوں کا تعلق مع اللہ اور نماز سے غایت درجہ عشق کا پتہ چلتا ہے کہ، انگلی کے تیر ونشتر کوبھی برداشت کرکے نماز کو مکمل کرتے ہیں اور اپنی قوت برداشت کامکمل ثبوت پیش کردیتے ہیں ،تو وہیں دوسرے امام صاحب کی اجتہادی صلاحیت کا بھی علم ہوتا ہے کہ اس اجتماعی عبادت میں انگلی کرنے والے کا حساب فی الفوربےباق کردیناضروری سمجھتے ہیں، اس کے ناپاک عزائم اور ارادے پر لات رسید کرکے ہمیشہ کے لئےاسے خاموش کردیتے ہیں۔
اسلامی تعلیم کی رو سے دونوں طرح کےاماموں کےعمل کی دلیل مل سکتی ہے۔ تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں ہے، دراصل مذکورہ بالا واقعہ سے یہ بات کہنی ہے کہ ملک میں ہمارے ساتھ بھی ان جیسے حالات کا اس وقت سامنا ہے۔گزشتہ سات سالوں سے مسلسل مسلمانوں کو انگلی کی جارہی ہے۔ہمیں ملک بدر کرنے کی دھمکی دی گئی ،این آر سی اور سی اے اے سے خوف دلایا گیا،ماب لنچنگ کی گئی،۲۰۲۱ء کے آخری دن تک دھرم کے نام پر پروگرام منعقد کرکے کھلے عام مسلمانوں کوگالیاں دی گئیں،مارنے کاٹنے کی بات کی گئی ہے، اسی پر بس نہیں ہوا بلکہ معاملہ نمازکےمصلی تک پہونچ گیا ، گروگرام میں صفوں کے درمیان جاجاکر مسلمانوں کو انگلی کی گئی ہے۔
اس کے جواب میں ہم اب تک یہی کہتے آئے ہیں کہ یہ ہمارا ملک جمہوری ہے،یہاں سے ہمیں کوئی بھگا نہیں سکتا ہے، ہم اپنے مذہب پر عمل کریں،یہ ہمارا بنیادی حق ہے، اسے کوئی ہم سے چھین نہیں سکتا ہے،بس ہم یہی کہتے رہے اور یہی بولتے رہے ہیں، عملی طور پر کوئی مضبوط لائحہ عمل اس کے لئےطے نہیں کرسکے ہیں، ایک جمہوری ملک میں جب بنیادی حقوق پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے تو عدلیہ سے رجوع کرنا ایک ناگزیر عمل ہوتا ہے،اس کی بھی منظم کوشش ہم سے نہیں ہوئی ہے۔جس سے یہ معاملہ کافی طویل ہوگیا اوربڑھتا رہا، طریقہ علاج ہی ایساناقص تھا کہ اس محاورے کا مصداق بھی  بن گیا: مرض بڑھتا گیا جوں دوا کی۔۔۔
نوبت یہاں تک پہونچ گئی کہ جمعہ کی نماز میں صفوں میں گھس کر ہمیں ۲۰۲۱ء کے آخری دن تک انگلی کی گئی، ہم سہتے رہے اور بمشکل تمام کسی طرح اپنی نماز پوری کی ہے۔
 آج یکم جنوری ہے،۲۰۲۲ء کی پہلی تاریخ ہے،نیا سال شروع ہوا ہے اور روزنامہ انقلاب اردو کے پہلے صفحہ پر نظر ہے۔یہ خبر پڑھ کر بڑی خوشی ہوئی ہے کہ مولانا محمود مدنی صاحب مدظلہ العالی صدر جمعیت علماء ہند نے مذکورہ تمام واقعات اور مسلمانان ہند کے خلاف نفرت انگیز سلوک کے خلاف باضابطہ عدالت عظمی کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔خاص بات یہ ہیکہ پیش آمدہ نفرت پر مبنی تمام واقعات کو  ایک دھاگہ میں پروکر مقدمہ کی شکل میں پیش کیا ہے۔انقلاب نے اسے اپنی خبر کا اثر کہا ہے ،یہ بات بھی صحیح ہے ، ساتھ ہی ہم سب مولاناکےاس عملی اقدام کونئے سال کا مسلمانوں کے لئےبہترین تحفہ کہتے ہیں۔اور۲۰۲۲ء کے لئے مضبوط لائحہ عمل سمجھتے ہیں۔
شریعت اسلامیہ میں نیا چاند جب نظر آتا ہے اسوقت دعا کے ذریعہ یہ تعلیم کی گئی ہے کہ امن وسلامتی اور عافیت کی بھیک خدا سے مانگنی چاہئے، 
اور اس کے لئے گویا ایک لائحہ عمل طے کرلینا چاہئے، 
واقعی حضرت مولانا موصوف نے اس نئے سال پر سب کی طرف سے کفارہ ادا کردیاہے، اور ایک مضبوط لائحہ عمل بھی پیش کردیا ہے۔اس پر حضرت کو بہت بہت مبارکباد ہے۔

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
رابطہ، 9973722710

لڑکیوں کی شادی کی عمر _____✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

لڑکیوں کی شادی کی عمر _____
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ(9431003131)
۱۷؍ دسمبر ۲۰۲۱ء کومرکزی حکومت کی کابینہ نے لڑکیوں کی شادی کی عمر بڑھا کر اکیس (۲۱) سال کر نے پر اتفاق کر لیا ، وزیراعظیم نریندر مودی نے یوم آزادی کے موقع سے اپنے خطاب میں اس کا تذکرہ کیا تھا کہ لڑکیوں کی شادی کی عمر کے سلسلے میں جائزہ لیا جا رہا ہے، اس کے بعد جیا جیٹھلی کی صدارت میں ایک ٹاسک فورس کی تشکیل عمل میں آئی تھی اور اس کی سفارش کی روشنی میں کابینہ کی منظور ک بعد وزیر سمرتی ایرانی نے اسے پارلیامنٹ میں پیش کر دیا ہے گو اسے پاس نہیں کیا گیا ہے، حزب مخالف کے شور شرابے سے مجبور ہو کر حکومت نے اسے اسٹینڈنگ کمیٹی کے سپرد کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔
ہندوستان میں کم عمر کے بچے بچیوں کی شادی پر روک لگانے کی غرض سے ایشور چندر ودیا ساگر نے ۱۸۵۰ء میں کم عمر کی شادیوں کے خلاف عوامی بیداری پیدا کرنے کے لیے تحریک چلائی تھی، جیوتی باپھولے، گوپال ای دیش مکھ، جسٹس رانا ڈے، کے ٹی تلنگ، ڈی کے کردے نے بھی عورتوں کی حالت سدھارنے کے لیے عوامی بیداری لانے کے کام میں سرگرم حصہ داری نبھائی تھی ، اس کے نتیجے میں ۱۸۹۰ء میں لڑکیوں کی شادی کی عمر دس سے بڑھا کر بارہ سال کی گئی۔۱۹۲۷ء میں ہرلاس سارداجو ایک ماہر تعلیم، جج اور سماجی اصلاح کے کام کے لیے مشہور تھے، انہوں نے لڑکوں کے لیے شادی کی عمر اٹھارہ (۱۸) اور لڑکیوں کی عمر چودہ (۱۴)سال رکھنے کی تجویز رکھی تھی، ۱۹۲۹ء میں یہ قانون بنا اور انہیں کے نام پر اس قانون کا نام ساردا یکٹ رکھا گیا ، یہ قانون مسلم پرسنل لا کے خلاف تھا، اس لیے امارت شرعیہ نے اس بل کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ کیا، بانی امارت شرعیہ ابولمحاسن مولانا محمد سجاد ؒ نے مسلمانوں کو اس بل کے منسوخ نہیں ہونے کی صورت میں سول نا فرمانی کی تحریک چلانے کا مشورہ دیا، اس کے لیے ’’تحفظ ناموس شریعت‘‘ کے عنوان سے ایک ایکشن کمیٹی بنائی گئی اس کا ناظم مولانا ابو المحاسن محمد سجاد ؒ کو چُنا گیا، پورے ملک میں منظم تحریک چلائی گئی ، امارت شرعیہ کی زیر سرپرستی احتجاجی جلسے منعقدہوئے اور ہر جگہ سے وائسرائے ہند کو تار کے ذریعہ احتجاج درج کرایا گیا، قانون تو ختم نہیں ہوا، البتہ اس احتجاج کے نتیجے میں حکومت کی طرف سے عمل در آمد کا کام نہیں ہو سکا۔ 
 آزادی کے برسوں بعد ۱۹۷۸ء میں اس قانون میں ترمیم کرکے لڑکوں کی شادی کی عمر اکیس (۲۱) اور لڑکیوں کی اٹھارہ سال کر دی گئی ، جو اب تک رائج ہے، البتہ اس قانون کی وجہ سے کم عمر کی شادیوں پر روک نہیں لگ سکی؛ کیوں کہ یہ ایک سماجی مسئلہ تھا اور لڑکے ، لڑکیوں کی جسمانی ساخت او ر بلوغیت پر منحصر تھا؛اس لیے عملی طورپر اس کو برتا نہیں جا سکا، عام رجحان یہ بناکہ یہ شخصی آزادی پر پابندی کے مترادف اور بنیادی حقوق کی دفعات میں جس قسم کی آزادی کا ذکر ہے یہ اس کی روح کے منافی ہے، لیکن حکمراں طبقہ اس دلیل سے مطمئن نہیں تھا، چنانچہ ۲۰۰۶ء میں بچوں کی شادی پر روک کا قانون بنا کر اسے جرم کے دائرہ میں لایا گیا، اور اس کے لیے دو سال جیل او رایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی مقرر کی گئی ، لیکن یہ قانون فطرت کے خلاف تھا، اس لیے آج بھی اس قانون کے خلاف شادیاں ہو رہی ہیں اور اعداد وشمار کے اعتبار سے راجستھان اس معاملہ میں سب سے آگے ہے۔ 
خود قانونی اعتبار سے اس میں بڑا تضاد ہے، اٹھارہ سال کی عمر میں حکومت لڑکے لڑکیوں کو بالغ مانتی ہے اور اس عمر کو پہونچ کرسارے اختیارات لڑکے لڑکیوں کو حاصل ہوجاتے ہیں، وہ سرکاری نوکری حاصل کر سکتا ہے، کمپنی کھول سکتا ہے،ووٹ کا حق اسے مل جاتا ہے، لیکن وہ اپنی شادی نہیں کر سکتا، کیوںکہ وہ ابھی اکیس (۲۱) برس کا نہیں ہوا ہے۔ اسی طرح ہم باشی (لیو ان ریلیشن شپ) کے لیے بھی عمر کی قید نہیں ہے اور اسے ہندوستان میں قانونی حیثیت حاصل ہے،لڑکا ، لڑکی بغیر کسی ذمہ داری لیے ایک کمرے میں رہکر گل چھڑے اڑا ئے تو غیر قانونی نہیں ، کئی کئی گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ سے ریلیشن شپ رکھے تو قانون اس پر داروگیر نہیں کرتا، بلکہ مختلف عدالتوں کے فیصلے میں اس تعلق پر دارو گیر کرنے سے منع کیا گیا ہے، بلکہ بعض فیصلوں میں ریلیشن شپ میں رہنے والوں کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
آخر سرکار کو اس سے کیا دلچسپی ہے؟یہ  ایک سوال ہے، سرکار کہتی ہے کہ شادی کی عمر میں مرد وعورت میں تفریق صنفی بنیادپر قانون کے مطابق نہیں ہے، اس کے جواب میں اسد الدین اویسی صاحب نے یہ بات صحیح کہی ہے کہ اگر تفریق درست نہیں ہے تو اتنے دن سے اسے قانون کے دائرہ میں کیوں رکھا گیا ہے۔اس کے علاوہ لڑکوں کی عمر ہی کم کرکے اٹھارہ سال کر دو، مساوات ہوجائے گی، لیکن اصل بات یہ ہے کہ سرکار چاہتی ہے کہ شادی کی عمر جتنی بڑھائی جائے گی، توالد وتناسلل کی مدت اسی قدر کم ہوتی جائے گی، اور بڑھتی آبادی پر اس طرح بھی قابو پایا جا سکے گا، یہ ایک منفی سوچ ہے اور اس منفی سوچ کی مارصرف مسلم پرسنل لا پر ہی نہیں، بھارتیہ عیسائی ازدواجی ایکٹ، پارسی ازدواجی وطلاق ایکٹ، خصوصی اطفال ازدواجی ایکٹ ، مسلم عائلی قانون (شریعت) طلاق ایکٹ، خصوصی ازدواج ایکٹ، ازدواج ہنود ایکٹ (۱۹۵۵) اور غیر ملکی ازدواج ایکٹ کے بھی خلاف ہے، اس قانون کو پاس کرنے کی وجہ سے حکومت کو ان تمام ایکٹ میں تبدیلیاں لانی ہوں گی ، جو بہت آسان نہیں ہوگا۔
 اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ لڑکا لڑکی بالغ ہوجائے تو اس کو ازدواجی رشتے میں بندھ جانا چاہیے؛ تاکہ جنسی بے راہ روی میں مبتلا ہونے کا امکان ختم ہوجائے اورمیاں بیوی ایک دوسرے کے لیے سکون ومحبت کا ذریعہ بن جائیں۔ اس سلسلے میں واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ اگر کوئی ایسا معقول رشتہ مل جائے ، جس کے دین وایمان سے تم مطمئن ہو تو اسے رشتہ نکاح میں باندھ دو، ورنہ بڑے فساد کا اندیشہ ہے، یہ بڑا فساد وہی جنسی بے راہ روی ، زنا کاری، بن باپ کے بچوں کی ولادت ہے، اس لیے ہمیں یہ قانون کسی طرح منظور؛ بلکہ گوارہ نہیں ہے، جب اٹھارہ سال کی عمر میں شادی ہو تی ہے تو ان کی تولیدی صلاحیت میں کمی محسوس کی جارہی ہے اور ایک سروے کے مطابق تیرہ فی صد عورتیں بانجھ پن کی شکار پائی جا رہی ہیں، تین سال عمر میں اضافہ کی وجہ سے بانجھ پن میں مزید اضافہ ہوگا، یہ ہماری سوچ نہیں، دہلی میڈیکل کونسل کے سکریٹری ڈاکٹر گریش تیاگی کا کہنا ہے۔
ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں بلوغیت کی عمر لڑکیوں کی الگ الگ ہے، اس میں رہن سہن کے طریقے، کھانے پینے اور موسم کا بھی اثر ہوتا ہے، ماہر طبیبوں کی رائے اس سلسلہ میں یہ ہے کہ جسمانی ساخت کے اعتبار سے لڑکیاں، لڑکوں سے عمر کے اعتبار سے بہت پہلے بالغ ہوجاتی ہیں، ان کے اندر جنسی تبدیلی نو سال کے بعد سے شروع ہونے لگتی ہیں،اور بارہ سال کی عمر ان کی اس لائق ہوتی ہے کہ وہ رشتۂ ازدواج میں بندھ سکیں۔ تیس برس کی ہوتے ہوتے ان کی تولیدی صلاحیت اس قدر کمزور ہونے لگتی ہے کہ ماں بننے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس کے علاوہ معاشی طور سے کمزور والدین اپنی اس ذمہ داری سے جلد سبکدوش ہونا چاہتے ہیں، انہیں اپنی ضعف وعلالت کی وجہ سے بھی ان کے ہاتھ پیلے کرنے کی جلدی ہوتی ہے ، ایسے میں تین سال مزید انتظار ان کے لیے انتہائی پریشان کن ثابت ہوگا، معقول رشتے جلد ملتے نہیں ہیں، مل جائیں تو اس مرحلہ سے گذرجانے میں ہی عافیت محسوس کیا جاتا رہا ہے، سرکار اچھی طرح جانتی ہے کہ لڑکیوں کی شادی کی عمر بڑھا دینے سے کوئی انقلاب آنے والا نہیں ہے یہ کام ہمیشہ سے لڑکیاں اپنی مرضی یا گارجین کی ہدایت پر کرتی رہی ہیں، اب بھی ایسا ہی ہوگا۔ البتہ اس قانون کے ذریعہ ملک کی عوام کو تقسیم کرکے ووٹر کو اپنی طرف کیا جا سکے گا__

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...