Powered By Blogger

اتوار, جنوری 16, 2022

تحفظ اوقاف اور امارت شرعیہ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

تحفظ اوقاف اور امارت شرعیہ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ(9431003131)
اوقاف ملت اسلامیہ کا قیمتی سرمایہ ہیں، ماضی میں اسے ملت کے غیور، خود دار اور درد مند دل رکھنے والوں نے ملی ضرورتوں کے لیے وقف کیا تھا ، یہاں پر اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ بعض مخصوص حالات میں بعضوں نے وقف علی الاولاد کرکے اپنی جائیداد کے تحفظ کی کوشش بھی کی ، لیکن عموما جو مقاصد تھے وہ وہی تھے؛جس کا ذکر اوپر کیاگیا؛ یعنی سماج کے غریب ومحتاج اور نادار لوگوں کی مدد، مدارس اسلامیہ کے طلبہ کی کفالت ، مسلم سماج کی اجتماعی، تعلیمی، اصلاحی اور فلاحی کاموں کی انجام دہی میں تعاون ، ان کاموں کے لیے بڑی بڑی جائیدادیں وقف کی گئیں، پھر دھیرے دھیرے لوگوںکے مزاج میں تبدیلی آنے لگی ، دینے کا مزاج کم ہوا،زمینوں اور عمارتوں کی قیمتیں آسمان چھونے لگیں تو بہت سارے واقفین کے وارثوں نے ہی وقف جائیدا کو خرد برد کرنا شروع کر دیا ، جو اپنوں کے خرد بردکی دسترس میں نہیں آیا ،اس پر غیروں نے قبضہ کر لیا ، اورہماری بے حسی کی وجہ سے آج اوقاف کی بہت ساری جائیداد پر باہو بلی اور دبنگوں کا قبضہ ہے ، عالی شان عمارتیں کھڑی ہیں، کڑوڑوں کی جائیداد ہے، لیکن ملت کو اس کا فائدہ نہیں پہونچ رہا ہے، مختلف ریاستوں کی سرکاریں بھی اس کام میں پیچھے نہیں ہیں، مرکزی حکومت نے بھی پارک وغیرہ بنوانے کے لیے اوقاف کی بہت ساری جائداد پر غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے ، اس بات کا اعتراف اوقاف کے لیے قائم مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے چیر مین لال جان پاشا نے کیا، ان کی رپورٹ کے مطابق ’’اوقاف کی زمین اورعمارتوں پر کئی جگہ حکومت بھی قابض ہے اور کئی جگہوں پر وقف کی زمین کے سلسلے میں حکومت ہند کے ساتھ مقدمات چل رہے ہیں‘‘۔ کہیں کرایہ کے نام پرکچھ رقم مل رہی ہے تو وہ بھی علامتی ہے، اسی جگہ واقع دو سرے دوکان اور مکان کا کرایہ ہزاروں میں ہے ؛ لیکن وہیں پر وقف کی جو جائیداد ہے، اس کا کرایہ سو دو سو سے زائد نہیں ہے ، حکومت بہار کے مطابق ’’وقف کی آدھی جائیداد سے کوئی آمدنی نہیں ہوتی ، جن اثاثوں سے آمدنی ہوتی ہے،ا ن میں صرف تین فی صد ایسے ہیں ، جن کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ سے زائد ہے‘‘ ۔
اس صورت حال کا احساس وادراک بہتوں کو تھا ، لیکن بہار کی حد تک میری معلومات کے مطابق عملی اقدام کیلئے اللہ رب العزت نے جس عظیم شخصیت کا انتخاب کیا وہ ابو المحاسن مولانا محمد سجاد بانی امارت شرعیہ کی ذات گرامی تھی ، بہار میں ۱۹۳۸ء تک اوقاف کی حفاظت اورنگرانی کے لیے ۱۹۲۳ء میں انگریزوں کے بنائے ہوئے قانون کے علاوہ ریاستی سطح پر کوئی قانون موجود نہیں تھا ،انگریزوں نے بہت سارے اوقاف ضبط کر لیے تھے، اور ان کو اس طرح اپنی ملکیت بنا لیا تھا کہ اس کی وقفی حیثیت کلیۃ ختم ہو گئی تھی ، الناس علی دین ملوکہم کے تحت بہت سارے لوگ جو اصلاً اوقاف کی زمین اور مکان کے کرایہ دار تھے، مالک بن بیٹھے ، اس طرز عمل نے اوقاف کو سخت نقصان پہونچا یا ،مسلمانوں نے انگریزوں سے اس کے تحفظ کے لیے قانون بنانے کا مطالبہ کیا، انگریزوں کے نزدیک غلام ہندوستان کے اس مطالبہ کی حیثیت ہی کیا تھی، پھر بھی ۱۹۲۳ء میں انگریزوں نے مسلم وقف ایکٹ بنایا ، اور اسے نافذ کر دیا ، یہ ایکٹ ظاہر ہے اسلامی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں تھا، مولانا ابو المحاسن محمد سجاد ؒنے امارت شرعیہ بہار اڑیسہ وجھارکھنڈ کی رہنمائی میںایک مسودہ قانون تیار کرایا اور اسے بہار مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کے ذریعہ اسمبلی میں پیش کرایا ،چونکہ یہ مسودہ مولانا کی نگرانی میں مرتب ہوا تھا ، اس لیے اس بل میں اسلامی قوانین وقف کی پوری رعایت ملحوظ رکھی گئی تھی ، بعد میں حکومت بہار نے اسی مسودہ کی روشنی میں ایک وقف بل پیش کیا؛ جو بڑی حد تک اسلامی اصول وقف کے مطابق تھا ، یہ بل اسمبلی میں منظور ہوا ، اوقاف کے تحفظ کی یہ پہلی کوشش تھی؛ جو امارت شرعیہ کے ذریعہ بہارمیں قانون بنوا کر کی گئی ۔
 اس طرح امارت شرعیہ نے مولانا کی نگرانی میں اوقاف کی جائیداد کو ٹیکس سے مستثنیٰ کرانے کی کامیاب جد وجہد کی ، اسمبلی میں ’’زرعی جائیدادوں ‘‘ پر جب ٹیکس کا قانون لایا گیا اور اغراض حکومت کی تکمیل کے لیے ٹیکس لگایا گیا تو اس میں اوقاف کی جائیداد بھی شامل تھی ، ظاہر ہے یہ اسلامی قانون وقف سے میل نہیں کھاتا تھا، مولانا محمد سجاد نے انڈی پنڈنٹ پارٹی کے ذریعہ اس میں ترمیمات پیش کرائیں ،مولانا نے صاف طور پر یہ بات کہی کہ
’’ اسلام میں وقف کی تقسیم  خیراتی وغیر خیراتی قطعا نہیں ہے ، جتنے اوقاف ہیں سب ہی خالصتاً لوجہ اللہ ہیں اور اس امر کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وقف علی الاولاد والاقارب پر جدید زائد ٹیکس لگایا جا سکتا ہے ، جو وقف سے پہلے نہیںتھا، او ردوسرے اوقاف پر نہیں لگایا جا سکتا یہ تفریق اسلامی قانون میں مداخلت بے جا ہے،جو کسی طرح درست نہیں۔ ( قانوی مسودہ :۴۸) 
 مولانا نے آخر میں حکومت کو متنبہہ کیا کہ ’’ وہ زرعی ٹیکس سے تمام اسلامی اوقاف کو مستثنیٰ کرے اپنی دانش مندی کا ثبوت دیں ، اور یہ کہ وہ اپنے کو اور مجھ کو کسی آزمائش میں مبتلا نہ کرے، ‘‘ ( ایضا ۵۴)
 چنانچہ تمام زرعی اوقاف کو اس قانون سے الگ رکھا گیا ۔ یہ دور انگریزوں کا تھا ، اس دورمیں بہار میں اوقاف کے کنٹرول اور تحفظ کی ذمہ داری ہر ضلع میں ضلع جج کی تھی، آزادی کے بعد بہار میں وقف ایکٹ ۱۹۴۷ء بنایا گیا ، جس کا نفاذ ۳؍ مارچ ۱۹۴۸ء سے ہوا ، بعد میں ۱۹۵۴ء میں مرکزی حکومت کی طرف سے وقف ایکٹ لایا گیا اور اسے نافذ کرنے کی کوشش کی گئی ، لیکن مسلمان اس سے مطمئن نہیں ہوئے او رترمیم کے مطالبات جاری رہے ، ان مطالبات کے نتیجے میں ۱۹۵۴ء کے وقف ایکٹ میں ۱۹۵۹ء اور۹ ۱۹۶ء میں جزوی ترمیمات کی گئیں ، ۱۹۸۴ء میں اس ایکٹ میں وسیع پیمارے پر ترمیمات ہوئیں ،مسلمانوں نے اس ترمیم کی مخالفت کی اور مسلم تنظیموں کے ذریعہ اسلامی اصولِ وقف کی روشنی میں سوالات اٹھائے گئے ، ان سوالات کی روشنی میں مرکزی حکومت نے وقف ایکٹ ۱۹۹۵ء پاس کیا ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اوقاف کے تحفظ کے لیے موجودہ امیر شریعت مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں ترمیمات کے لئے کامیاب جد وجہد کی، اوقاف کی تعریف وغیرہ میں بھی بنیادی ترمیم کرائی گئی ، غیر رجسٹرڈ اوقاف کو بھی حکومت نے وقف کے زمرے میں رکھا،یہ ایک بڑی کامیابی تھی جو اوقاف کے تحفظ کے لئے مسلمانوں کو حاصل ہوئی ، اس ترمیم سے قبل لال جان پاشا کی قیادت میں قائم مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کا ایک وفد مرکزی حکومت کی جانب سے مسلم اداروں کی ترمیمات اور وقف ایکٹ پر ان کے اشکالات جاننے  اور اوقاف کی حالت کاجائزہ کے لیے تین روزہ دورہ پر پٹنہ وارد ہوا تھا ، امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ؒ کے حکم پر ترمیمات کا خاکہ احقر نے مرتب کیا تھا ، اور حضرت کے حکم کے مطابق وفد کے سامنے امارت شرعیہ کی نمائندگی احقر’’ محمد ثناء الہدیٰ قاسمی‘‘ نے ہی کی تھی۔ 
قانونی اعتبار سے اوقاف کی جائیداد کے تحفظ کے لیے بہا راسٹیٹ میں سنی اور شیعہ اوقاف کے لیے الگ الگ بورڈ قائم ہے، ان کے ذمہ اوقاف کو رجسٹرڈ کرنے اور اوقاف کی جائیدا کے تحفظ کے ساتھ اسے واقف کی منشاء کے مطابق مفید اور بار آور بنانے کا کام ہے ، لیکن اس معاملہ میں دونوں بورڈ سست روی کا شکار ہے ، یہی وجہ ہے کہ یہاں رجسٹرڈ اوقاف کی تعداد دوسری ریاستوں سے کم ہے، اس سلسلے میں عوامی بیداری بھی نہیں ہے ، رجسٹریشن کے کام سے قبل وقف ایکٹ ۱۹۹۵ء کے سکیشن ۴ اور محکمہ اقلیتی فلاح کے نوٹی فیکیشن نمبر 843مورخہ 15/09/2008کے مطابق محکمہ اصلاحات آراضی کے پرسنل سکریٹری کو کمشنرکی حیثیت سے سروے کرانا تھا، اس کام کے لیے تمام اضلاع کے کلکٹر کو اسسٹنٹ کمشنر اور ڈ ی سی  لارکو سروے کمشنر مقرر کیا گیا تھا ، لیکن ابھی سروے کا کام ہی مکمل نہیں ہو سکا ہے ، جہاں سروے سرکاری کا رندوں کے ذریعہ کرایا گیا ہے،ان میں سے کئی جگہوں پر متعصب سروے کرنے والوں نے قبرستان کو کبیر استھان اور گورستان کو گئو استھان لکھ دیا ہے ، اس وجہ سے ان جگہوں پر کبھی بھی تنازع کھڑا ہو سکتا ہے ۔
ریاست میں وقف ترمیمی ایکٹ کے مطابق سروے کا کام ایک سال میں مکمل ہو جانا تھا ، لیکن دوسرے سرکاری کاموں کی طرح یہ معاملہ بھی التوا میں ہے ، چونکہ اس کے تمام اخراجات ریاستی حکومت ہی کو دینے ہیں، اس لیے کم از کم اس تاخیر کا سبب مرکزی حکومت کو نہیں قرار دیا جا سکتا ہے ،جب تک سروے کا کام مکمل نہیں ہو گا ، اوقاف کی جائیداد کی فہرست سازی اور درجہ بندی واقف کی منشا کے مطابق نہیں کی جاسکے گی؛ اس سلسلے میں ضرورت عوامی بیداری کی بھی ہے، اس کے بغیر نہ تو صحیح سروے ہو سکے گا اور نہ ہی وقف املاک پر غاصبانہ قبضہ کرنے والوں کے خلاف کوئی داروگیر کیا جا سکے گا ، وقف ایکٹ ۱۹۹۵ء ترمیم شدہ 2013سیکشن ۵۱ کے تحت وقف جایداد کی فروختگی ،رہن رکھنے اور بدلین کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے، اوقاف پر غیر قانونی قبضہ اور منتقلی کو مجرمانہ اعمال کے دائرہ میں لایا گیا ہے اور نا جائز خرید وفروخت پر دو سال تک قید وبند کی سزا بھی رکھی گئی ہے۔
اس کے با وجود خود بہار اسٹیٹ سنی وقف بورڈ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’ وقف املاک کی تقریبا ستر فی صدی جائیدادوںپر نا جائز قبضہ ہے اور وہ زمین ما فیاؤں کے دسترس میں ہے۔‘‘
بہار اسٹیٹ سنی وقف بورڈکی سالانہ رپورٹ۲۰۱۵۔۲۰۱۴ء کے مطابق بہار میں رجسٹرڈ وقف اسٹیٹ فی سبیل اللہ 2274 اور وقف علی الاولاد 182ہیں ، مقاصد اور منشاء واقف کے اعتبار سے دیکھیں تو وقف اسٹیٹ کی کل مساجد 833 عیدگاہ 57مزار ومقبرہ209، قبرستان6141مدارس ومکاتب 74، اسکول اور مسافر خانے 6,6،یتیم خانہ 4،اسپتال 2، درگاہ137، کربلا 55، خانقاہ 13، امام باڑہ224اور مکانات 194ہیں ، ان اوقاف میں آمدنی کے ذرائع والے وقف اسٹیٹ636ہیں، یہ وہ اعداد وشمار ہیں جس کا اندراج وقف بورڈ میں ہے ، اس کے علاوہ ہزاروں؛ بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ایسے اوقاف ہیں ، جن کا سروے اب تک نہیں ہو سکا اور ان کا اندراج بورڈ میں نہیں ہے ، واقف نے انہیں زبانی وقف کیا اور واقف کی منشاء کے مطابق اس کی آمدنی کا استعمال ہو رہا ہے یا ایسے ادارے اس پر قائم ہیں جو واقف کی منشاء کی تکمیل کرتے ہیں۔
بہار میں شیعہ وقف بورڈ الگ سے قائم ہے، اس کی سالانہ رپورٹ 2014-2015میں جو اعداد وشمار ذکر کیے گیے ہیں اس کے مطابق بہار میں شیعہ وقف بورڈ کے تحت کل وقف فی سبیل اللہ 130وقف علی الاولاد 68آمدنی والے اوقاف 68غیر آمدنی والے اوقاف 158ہیں ، مقاصد کے اعتبار سے دیکھیں تو مساجد 92قبرستان70، مدرسہ اور مکتب 1، ہاسپیٹل 2ہے، یہاں بھی بہت سارے اوقاف رجسٹرڈ نہیں ہیں،شیعہ وقف بورڈ نے ۱۸؍ فروری ۲۰۱۴ء کو ایک بڑی کامیابی اس وقت پائی جب اس نے خورشیدحسین وقف اسٹیٹ کی 57کھٹہ زمین پر سے نا جائز قبضہ ہٹانے میں کامیابی حاصل کی ، اس زمین کی قیمت آج کی تاریخ میں پچاس کڑوڑ سے زائد ہے ۔
سارے قانونی دفعات کے با وجود واقعہ یہ ہے کہ بہار میں اوقاف کو تحفظ حاصل نہیں ہے ، تبادلے اور مفید تر بنانے کے نام پر فروختگی کا بازار بھی گرم ہو تا رہا ہے ، اس صورت حال کا بڑا نقصان یہ ہوا کہ اب لوگوں کی توجہ وقف کرنے کی طرف نہیں ہو رہی ہے؛ بلکہ کہنا چاہیے کہ وقف کرنے کا مزاج ہی سرے سے ختم ہو گیا ہے ، یہ بہت بڑا ملی خسارہ ہے ،اس لیے ضروری ہے کہ وقف ایکٹ کی روشنی میں خرد برد کرنے والوں کو سخت سزادی جائے، اس کام کے لیے اوقاف کے متولی صاحبان وقف بورڈ کے ذمہ داران اور سماج کے با شعور طبقے کو آگے آنا چاہیے؛ کیونکہ اوقاف مسلمانوں کی ترقی کا بہتر ذریعہ بن سکتے ہیں ، ریاست میں مسلمانوں کی بد حالی پر حکومت کے لیے رپورٹ تیار کرنے والے ادارے ، ایشین ڈولپمنٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے اہل کار شیبالی گپتا کا خیال ہے کہ ’’ وقف کی جتنی جائیداد ہے اس کا اگر اچھے کار پوریٹ ہاؤس کی طرح استعمال ہو تو مسلمانوں کی بد حالی مٹانے میں اس سے کافی مدد مل سکتی ہے ‘‘۔

ہفتہ, جنوری 15, 2022

پٹنہ (عبد الرحیم برہولیاوی)ادب کو اعلیٰ اخلاقی اقدارکے فروغ کا ذریعہ ہونا چاہیے: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسی

پٹنہ (عبد الرحیم برہولیاوی)ادب کو اعلیٰ اخلاقی اقدارکے فروغ کا ذریعہ ہونا چاہیے: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسی

 کون سی بات کس طرح، کس فورم او رکس ہیئت میں کہی جا رہی ہے ، اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ کیا کہا جا رہا ہے ؟ ادب میں کیا کہا جا رہا ہے اس پر اگر دھیان دیا جائے تو وہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کے فروغ کا ذریعہ بن سکتا ہے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ادب کے مختلف اصناف کو بنیے کا روزنامچہ یا واعظ کی تقریر کے طور پر پیش کیاجائے۔ یقینا یہ بھی ایک کام ہے، لیکن بات ادب کی جس صنف میں کہی جائے اس کے اصول ، اسلوب اور طریقوں کو بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے ، تاکہ ادب، ادب باقی رہ سکے، ان خیالات کا اظہار کاروان ادب، اردو میڈیا فوم کے صدر او راردو کارواں کے نائب صدر مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے ڈاکٹر ممتاز احمد خان کی کتاب ’’دُر دِ تہہ جام‘‘ اور ڈاکٹر لطیف احمد خان کی کتاب ’’عزیز بگھروی ایک انقلابی شاعر‘‘ کے اجراء کے موقع سے ساجدہ منزل باغ ملی حاجی پور کے ہال میں صدارتی خطاب کے دوران کیا، انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر ممتاز احمد خان ایک اچھے انسان ، بہترین استاذ، نامور محقق اور مشہور نقاد تھے، ان کی زندگی تمام جہتوں سے قابل تعریف، لائق تحسین وتقلید رہی ہے، اس موقع سے ’’درُد تہہ جام‘‘ پر اپنا طویل تبصرہ نوجوان قلم کار ڈاکٹر عارف حسن وسطوی اور’’ عزیز بگھروی ایک انقلابی شاعر‘‘ پر تبصرہ مشہور ادیب وناقد جناب انوار الحسن وسطوی نے پیش کیا، جنہوں نے تقریب کی نظامت کے فرائض بھی ا نجام دیے، مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک جناب امتیاز احمد کریمی نے ڈاکٹر ممتاز احمد خان کو نا قابل فراموش شخصیت قرار دیا، انہوںنے اپنے جائزہ میں بتایا کہ اردو اساتذہ کی نوے فی صد جگہیں ویشالی میں آج بھی خالی ہیں، مہمان اعزازی کے طور پر جناب اسلم جاوداں، ڈاکٹر کامران غنی صبا اور ڈاکٹر ابو الحیات سیوان نے بھی اپنے خطاب سے نوازا، جس میں ’’ڈاکٹر ممتاز احمد خان کی شخصیت اور ان کے فکر وفن‘‘ پر روشنی ڈالی گئی، پروگرام کا آغاز امام مدینہ مسجد باغ ملی کی تلاوت کلام پاک اور اختتام مفتی صاحب کی دعا پر ہوا، ویشالی ضلع کے مختلف علاقوں سے علم دوست حضرات کی بڑی تعداد نے اس میں شرکت کی، جن میں ظہیر نوری ، نذر الاسلام نظمی ، ماسٹر مظہر، عظیم الدین انصاری، ڈاکٹر ذاکر حسین ، مولانا نظر الہدیٰ قاسمی، عبد الرحیم صاحب ریٹائرڈ جج، ماسٹرعبد الرحیم، مظہر وسطوی، قمر اعظم صدیقی ، ماسٹر محمد فداء الہدیٰ وغیرہ نے شرکت کی۔

زہریلی ہوا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

زہریلی ہوا 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
کورونا اور اومیکرون کے ساتھ ان دنوں بہار کو زہریلی ہوا کا بھی سامنا ہے، پہلے سے ہی ہوا میں دھول اور دھوئیں کے باریک ذرات ہواؤں میں گھلے ہوئے ہیںجو سانس لینے کی صلاحیت کو متاثر کررہے تھے، اب ایک خطرناک گیس جسے این او -۲(نائٹروجن ڈائی اکسائڈ) کا نام دیا گیا ہے ، بہار کی ہواؤں میں شامل ہو گئی ہے، با خبر ذرائع کے مطابق این او -۲ کی مقدار ہوا میں اسی (۸۰) مائیکرو گرام تک قابل بر داشت ہے، لیکن بہار کے مختلف شہروں میں یہ گیس زیادہ مقدار میں تحلیل ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے بہت سارے شہروں کی ہوا صحت کے اعتبار سے زہریلی ہو گئی ہے، اتوار کی صبح تک اس گیس کی مقدار راجگیر میں پنچانوے (۹۵) ، سیوان میں ۱۲۶، آرا میں ۱۶۱، بتیا میں ۱۲۴، بھاگلپور میں ۱۳۳، بہار شریف میں ۱۵۶، بکسر میں ۱۸۷، ارریہ میں ۱۰۷، گیا میں ۱۹۱، مظفر پور میں پنچانوے، پٹنہ میں ۱۳۸ مائیکرو گرام ہر ایک کیوبک میٹر میں شامل تھا، این او - ۲، کے علاوہ بہار کی ہوا میں اوزون، کاربن مونو آکسائڈ اور ایس  او - ۲ کی مقدار بھی لگاتار بڑھتی جا رہی ہے ۔
 مرکزی فضائی آلودگی کنٹرول بورڈ کی رپور ٹ کے مطابق ان حالات کی وجہ سے ارریہ ، بتیا، بھاگلپور، دربھنگہ ، کٹیہار ، موتی ہاری ، مونگیر ،پورنیہ، سہرسہ کی ہوا خراب ، جب کہ آرہ ، بہار شریف، بکسر ، گیا حاجی پور، کشن گنج، مظفر پور ، پٹنہ، راجگیر، سہسرام اور سیوان کی ہوا بہت خراب ہے۔
 بہار کی ہوا میں جونائٹروجن ڈائی اکسائڈ پایا گیا ہے یہ ایک خطرناک گیس ہے جو تیزی سے فضا کو آلودہ کرتا ہے، اس کا اثر انسانوں کے سانس لینے کی صلاحیت کے ساتھ دوسرے اعضاء پر بھی پڑتا ہے، جس کی وجہ سے کئی امراض پید اہو سکتے ہیں۔
 فضاکو آلودہ کرنے میں کوئلہ ، پٹرولیم اور اس سے متعلق مصنوعات ، کھیتی کے باقیات ، قدرتی گیس اور کچڑوں کا بڑا دخل ہوتا ہے ، جنہیں ہم کروڑوں ٹن کے حساب سے جلاتے اور استعمال کرتے ہیں، ہمیں فضا کو آلودگی سے بچانے کے لیے ان چیزوں کے استعمال اور ان سے خارج ہونے والے ذرات اور دھول کو قابو کر نے کی کوئی شکل سوچنی ہوگی، اس کے بغیر بظاہر کوئی شکل ہوا سے زہریلے ذرات کو کم کرنے کی سمجھ میں نہیں آتی،ہمیں جلد ہی کچھ کرنا چاہیے تاکہ اس کے زہر یلے اثرات سے بچنا ممکن ہو سکے، جب تک ہم کچھ نہیں کر پاتے ،تب تک ماسک لگائیے، یہ زہریلے ذرات کو پھیپھڑے تک پہونچنے نہیں دے گا، اسباب کے درجہ میںکورونا اور اومیکرون سے بھی محفوظ رکھے گا۔

سيرت النبئ کے مطابق زندگی گذارنے کی تلقین بھینسہ میں ایس آئی او کا ووکیشنل کیمپ ، محمد اقبال حسین و دیگر کا خطاب

سيرت النبئ کے مطابق زندگی گذارنے کی تلقین بھینسہ میں ایس آئی او کا ووکیشنل کیمپ ، محمد اقبال حسین و دیگر کا خطاببھینسہ : بھینسہ میں طلبہ تنظیم ایس آئی او کی جانب سے تین روزہ ووکیشنل کیمپ کا انعقاد عمل میں لاتے ہوئے کلاسیس کے ذریعہ طلباء کی کردار سازی اور اسلام کے بنیادی باتوں سے واقف کروانے کا انتظام کیا گیا جس میں درسِ قرآن، درسِ حدیث، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت، صحابہ کی سیرت کے پہلوؤں کو اس پروگرام کا حصہ بنایا گیا علاوہ ازیں طلبہ کے لیے پریکٹیکل سیشن منعقد کرتے ہوئے نماز جنازہ کا طریقہ، وضو اور عیدین کی نماز کا طریقہ بھی عملی طور پر طلباء کو سکھایا گیا ساتھ ہی ساتھ کھیل کود کے مقابلے بھی منعقد کیئے گئے جس میں تیس سے ذائد طلبہ نے حصہ لیا جس پر اختتامی پروگرام میں طلبہ کو مومنٹوز ، اسنادات اور انعامات سے نوازا گیا اس تقریب میں محمد اقبال حسین سابقہ قومی صدر ایس آئی او نے طلبہ کو نصیحت آموز مشورے پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایس آئی او طلباء و نوجوانوں کو اسلامی تربیت فراہم کرتی ہے اور ایک مثالی طالب علم یا مثالی نوجوان بنانے کی کوشش کرتی ہے اور کہا کہ ایک اچھا مسلمان بننے کے لئے اسلام کو مکمل جاننے کی کوشش کریں مطالعہ کے ذوق کو پروان چڑھائیں والدین کی عزت اور استاد کا احترام کریں تعلیمی میدان میں آگے بڑھیں تب ہی ہم اسلام کو لوگوں کے سامنے پیش کرسکتے ہیں جبکہ ضلعی صدر ایس آئی او عبدالصمد نے درسِ قرآن پیش کیا امیر مقامی جماعت اسلامی بھینسہ الیاس احمد راحل نے حیاتِ طیبہ پر خطاب کیا اور طلباء سے کہا کہ وہ اللہ کے نبی کی سیرت کو پڑھیں اور اسکے مطابق اپنی ذندگی کو گذاریں جو ہمارے لیئے تا قیامت ایک نمونہ ہے آخر میں مجاہد احمد فراز صدر ایس آئی او بھینسہ نے اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے ایس آئی او کی کارکردگی پیش کی اور طلباء کو تنظیم سے وابستہ ہوکر مزید مستحکم کرنے کی خواہش کی اس تقریب میں برادر فرحان احمد (یونٹ سکریٹری) ، برادر برکت علی ، زبیر احمد ، شیخ زیشان کے علاوہ ممبران اور طلبہ کی کثیر تعداد موجود تھی

*آسان و مسنون نکاح کا عملی نمونہ* *دارالعلوم رحمانی زیرونائل کی جامع مسجد میں آسان و مسنون عقد نکاح*#محمداطہرالقاسمی14/جنوری 2022

*آسان و مسنون نکاح کا عملی نمونہ* 

*دارالعلوم رحمانی زیرونائل کی جامع مسجد میں آسان و مسنون عقد نکاح*

#محمداطہرالقاسمی
14/جنوری 2022
_________________________
آسان و مسنون نکاح کے لئے تقریریں کرنا،تحریری مضامین لکھنا اور اس کے لئے مہم اور تحریک چلانا بہت آسان ہے۔لیکن اس کا آغاز اپنے گھرانے سے کرنا انتہائی مشکل ترین کام ہے۔آج اس مشکل کام کو آسان کرتے ہوئے مولانا محمد الیاس شمسی بوچی ارریہ کے فرزند ارجمند مولانا محمد تنظیم قاسمی اور ماسٹر بختیار احمد ہاشمی ناظم اعلیٰ جامعہ عربیہ تعلیم القرآن بیلوا نے ایک خوبصورت مثال پیش کی ہے۔
یہ باتیں عقد نکاح سے قبل چند کلمات عرض کرتے ہوئے احقر محمد اطہر القاسمی نے کہی۔
اس مسنون عملی نکاح سے قبل دعائیہ کلمات کہتے ہوئے ناظم اعلیٰ دارالعلوم رحمانی زیرومائل ارریہ مفتی علیم الدین صاحب قاسمی نے کہاکہ آج کی مجلس سینکڑوں میں ایک ہے جبکہ ایسی آسان و مسنون نکاح کی مجلسیں جب تک سوفیصد منعقد نہیں ہوں گی نکاح میں خیر و برکت مقدر نہیں ہوگی۔
واضح رہے کہ ماسٹر بختیار احمد ہاشمی صاحب نے اپنی دختر نیک اختر کا عقد مسنون مولانا محمد تنظیم قاسمی کے ہمراہ کیا اور خود ہی نکاح بھی پڑھایا۔
اس نکاح کی خوبصورتی یہ تھی کہ دونوں طرف کے چند معزز احباب بعد نماز جمعہ یہاں مسجد میں جمع ہوئے اور مصلے پر بیٹھ کر چند دعائیہ کلمات کے ساتھ مجلس نکاح کی مسنون تقریب منعقد ہوگئی۔سب اپنی اپنی سوراری پر آگئے اور نوعروس کو اپنی دعاؤں سے نوازا۔چھوارے تقسیم ہوئے اور لوگ اپنی سواریوں سے اپنے گھر لوٹ گئے۔
نہ خوبصورت شادی کارڈ،نہ لمبی چوڑی دعوت،نہ شادیوں کے رسومات و لوازمات،نہ بینڈ باجے،نہ بارات،نہ بارات کی گاڑیوں کی لمبی قطار،نہ شامیانے نہ پنڈال اور نہ ہٹو بچو،نہ رکو رہو سنو کہو کے ہنگامے۔۔۔۔۔
آج میری آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں کہ ایسا نکاح اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا اور خود کو اس لئے شریک مجلس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ:
من احیا سنتی عند فساد امتی فلہ اجر مائۃ شہید۔۔۔
دل کی گہرائیوں سے مبارکباد اور نیک خواہشات۔۔۔
اس مسنون تقریب میں مولانا اظہار عالم قاسمی مچھیلا،
مفتی قمر الاسلام قاسمی بیلوا،مولانا اظہر قاسمی بیلوا،حافظ مظہر بیلوا،مولانا نور الاسلام ہاشمی بیلوا،حاجی منظور بوچی،ماسٹر ظفر مصوریہ،مکھیا مسعود بیلوا،مولانا عبد الرؤف قاسمی ڈوریہ،جناب محمد منصور بٹورباری،مولانا محمد علی ٹیسٹی دلی دربار زیرومائل،جناب محمد اسلام بلوات،جناب محبوب عالم بیلوا وغیرہ شریک ہوئے۔

جمعہ, جنوری 14, 2022

مرکزی وزیر ریلوے اشونی ویشنو جلپائی گوڑی پہنچ کر ریلوے حادثہ کا جائزہ لیا

مرکزی وزیر ریلوے اشونی ویشنو جلپائی گوڑی پہنچ کر ریلوے حادثہ کا جائزہ لیاکلکتہ: جلپائی گوڑی میں گوہاٹی بیکانیر ٹرین حادثہ کے بعد کل رات ہی کلکتہ پہنچ گئے تھے اور آج وہ اسپیشل ٹرین کے ذریعہ جائے حادثہ مینگوری پہنچ گئے ہیں ان کے ساتھ ریلوے بورڈ کے چیئرمین، ریلوے بورڈ کے ڈی جی)سیفٹی( بھی موجود ہیں مرکزی وزیر ریلوے اشونی ویشنونے نامہ نگاروں کو بتایا کہ جائے حادثہ تکنیکی خرابی کی وجہ سے ہواہے اور اس بات کی تحقیق کی جارہی ہے لاپرواہی کہاں پر ہوئی ۔تکنیکی خرابی کی شناخت پہلے کیوں نہیں کی تھی ۔کس حصے نے کا م کرنا چھوڑ دیا تھا ۔ٹرین ڈرائیور سے بھی تحقیق کی جاری ہے۔
اس حادثے کے پیچھے کوئی سازش ہے؟اس سوال کے جواب میں مرکزی وزیر ریلوے نے کہاکہ ابھی یقینی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں ہے۔ میں یہاں حادثے کی اصل وجہ جاننے آیا ہوں۔ تحقیقات بھی شروع کر دی گئی ہیں۔ وزیراعظم اس معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ میں بھی وزیر اعظم نریندر مودی سے رابطے میںہوں۔

موسم کا قہر مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

موسم کا قہر 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 دسمبر اور جنوری کے مہینے سخت ٹھنڈ کے لیے مشہور ہیں، کپکپانے والی سردی ، یخ بستہ ہوائیں، انسان کوٹھٹھرا کر رکھ دیتی ہیں، زندگی رک سی جاتی ہے، کہاسے کی وجہ سے گاڑیوں پر بریک لگ جاتی ہے اورہوائی سروسیں متاثر ہوتی ہیں، ہندوستانی ریل تاخیر سے چلنے میں دنیا میں اپنی ایک شناخت رکھتی ہے، کہاسے کی وجہ سے تاخیر کے ساتھ چلنے والی ٹرینوں کو کثرت سے رد کیا جاتا ہے، سروس معطل ہونے کی وجہ سے پریشانیوں میں اضافہ ہو تا ہے او رنقل وحمل میں دشواریاں پیش آتی ہیں۔
یہ موسم مزدوروں، مفلسوں اور غریبوں کے لیے بڑا سخت ہوتا ہے، ان کے پاس پہننے اوڑھنے کے لیے مناسب کپڑے نہیں ہوتے، ٹھنڈک کو بر داشت کرنا ان کے لیے جان جوکھم میں ڈالنے کے مترادف ہوتا ہے، کثرت سے اموات ہوتی ہیں اور خاندان اجڑ جاتا ہے ۔
 ایسے موقعوںسے اسلامی تعلیمات یہ ہیںکہ جن کو اللہ نے مال ودولت سے نوازا ہے اور جن کے پاس ٹھنڈ کا مقابلہ کرنے کے لیے وافر سامان موجود ہے، وہ ان غریبوں ، بے کسوں کی بھی خبر گیری کریں، ان کی ضرورتوں کا خیال رکھیں اور ان کے راحت وآرام کے لیے فکر مند ہوں، پڑوس میں کوئی ٹھنڈ سے پریشان نہ ہو ،یہ تو پڑوسیوں کے حقوق کے تحت آتا ہے، لیکن اس دائرہ کو وسائل کے اعتبار سے وسیع سے وسیع ترکرنا چاہیے، اور زیادہ لوگوں تک پہونچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
امارت شرعیہ بہار اڑیسہ وجھارکھنڈ کی فکر مندی اس سلسلے میں مثالی رہی ہے، ہر سال ہزاروں کی تعداد میں تینوں صوبوں کے غرباء میں کمبل کی تقسیم کی جاتی ہے، اس کام کے لیے امارت شرعیہ کے پھیلے ہوئے نیٹ ورک کا استعمال کیا جاتا ہے، نقباء امارت شرعیہ ، ذیلی دفاتر اور قضاۃ حضرات کے توسط سے گاؤں گاؤں تک کمبل پہونچایا جاتا ہے، پھر بھی ہمارا احساس ہے کہ وسائل کی قلت کی وجہ سے جس بڑے پیمانے پر لوگوں تک ہمیں پہونچنا چاہیے، ہم نہیں پہونچ پاتے ہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر گاؤں میں کچھ لوگ کھڑے ہوں اور مقامی آبادی کا سروے کرکے وہاں کے مالداروں کو اس کام پر ابھاریں ان سے وسائل حاصل کریں اور غرباء تک پہونچائیں۔  تُؤْخَذُ مِنْ اَغْنِیَائِھِمْ وَتُرَدُّ عَلَی فُقَرَائِھِمْ  ان کے مالداروں سے لو اور وہاں کے محتاجوںتک پہونچاؤ۔
 امارت شرعیہ نے اپنی سطح سے یہ کام شروع کر دیا ہے ، اور غرباء تک کمبل پہونچا یا جا رہا ہے، لیکن ضرورت ہے کہ اہل خیر حضرات اس کام کے لیے متوجہ ہوں اور بیت المال امارت شرعیہ میں خاص اس کام کے لیے رقم فراہم کرائیں تاکہ امارت شرعیہ راحت رسانی کا کام بڑے پیمانے پر کر سکے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...