Powered By Blogger

بدھ, جنوری 19, 2022

اپرنا یادو ہوئیں بی Aparna Yadav Joins BJP جے پی میں شامل ، ملائم سنگھ کی چھوٹی بہو کا اکھلیش یادو کو بڑا جھٹکا

اپرنا یادو ہوئیں بی Aparna Yadav Joins BJP جے پی میں شامل ، ملائم سنگھ کی چھوٹی بہو کا اکھلیش یادو کو بڑا جھٹکالکھنو: اترپردیش میں ہونے والے اسمبلی انتخابات (UP Assembly Polls 2022) سے قبل یوپی کی سیاست میں بڑی ہلچل ہوئی ہے۔ ملائم سنگھ یادو کی چھوٹی بہو اپرنا یادو (Aparna Yadav) آج یعنی بدھ کے روز بی جے پی میں شامل ہوگئیں۔ اپرنا یادو (Aparna Yadav Joins BJP) کی انٹری سے نہ صرف بی جے پی نے سماجوادی میں سیندھ ماری کی ہے، بلکہ ملائم سنگھ یادو کی چھوٹی بہو نے سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو کو بڑا جھٹکا دیا ہے۔ یوپی اسمبلی انتخابات 2022 سے پہلے بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد اپرنا یادو (Aparna Yadav News) نے کہا کہ میں بی جے پی کا بہت شکرگزار ہوں۔ میرے لئے ملک ہمیشہ سب سے پہلے آتا ہے۔ میں وزیر اعظم مودی کے کاموں کی تعریف کرتی ہوں۔ دراصل، اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ یادو کی بہو اپرنا یادو آج یوپی کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ اور بی جے پی صدر سوتنتر دیو سنگھ کی موجودگی میں بی جے پی میں شامل ہوگئیں۔ واضح رہے کہ ملائم سنگھ یادو کے بیٹے پرتیک یادو کی بیوی اپرنا یادو لکھنو کینٹ اسمبلی حلقہ سے سماجوادی پارتی کے ٹکٹ پر 2017 اسمبلی انتخابات میں شکست کا سامنا کرچکی ہیں۔ بی جے پی کا دامن تھامنے کے بعد اپرنا یادو نے کہا کہ میں وزیر اعظم مودی کا اور قومی صدرجی کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔ اترپردیش بی جے پی کے صدر سوتنتر دیو سنگھ، نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ اور انل بلونی کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔ میں وزیر اعظم نریندر مودی جی سے پہلے سے ہی متاثر رہتی تھی، میرے لئے سب سے پہلے ملک ہے۔ اب میں قوم کی خدمت کے لئے نکلی ہوں۔ آپ کا تعاون لازمی ہے۔ یہی کہوں گی کہ جو بھی کرسکوں اپنی صلاحیت سے کروں گی۔ بی جے پی کے کئی وزرا-اراکین اسمبلی ہوچکے ہیں سماجوادی اترپردیش میں اسمبلی انتخابات 2022 کا اعلان ہوتے ہی سیاسی لیڈران کے پارٹی بدلنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ حکومت میں وزیر رہے سوامی پرساد موریہ، دھرم سنگھ سینی جیسے سینئر لیڈرسماجوادی پارٹی کا دامن تھام چکے ہیں۔ اس کے علاوہ بی جے پی کے کئی اراکین اسمبلی بھی سماجوادی پارٹی میں شامل ہوچکے ہیں۔ دیگر چھوٹی جماعتوں کے موثر لیڈروں کا بھی پالا بدلنے کا سلسلہ شروع ہے۔

وزیر اعظم کی سیکوریٹیمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

وزیر اعظم کی سیکوریٹی
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 ہندوستان میں جن چند لوگوں کے تحفظ کے لیے حکومت فکر مند ہوتی ہے، ان میں ایک ملک کا وزیر اعظم ہے، تحفظ میں کوتاہی کے نتیجے میں ملک نے ۱۹۸۴ء میں اندرا گاندھی ۱۹۹۱ء میں راجیو گاندھی کو کھو دیا ان کے علاوہ ناتھو رام گوڈسے کے ذریعہ ۱۹۴۸ء میںمہاتما گاندھی، ۱۹۶۵ء میں پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ پرتاپ سنگھ کیرو، ۱۹۷۵ء میں وزیر ریل للت نرائن مشرا اور ۱۹۹۵ء میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ بے انت سنگھ کا قتل اسی حفاظتی حصار کے کمزور ہونے کا نتیجہ تھا، ان حادثات سے سبق لے کر وزیر اعظم کے تحفظ کے لیے پورے حفاظتی گروپ کی تشکیل کی گئی ہے جسے ایس، پی، جی یعنی اسپیشل پروٹیکشن گروپ کہا جاتا ہے، یہ امیریکی سکریٹ سروس کے طرز پرتربیت یافتہ اور جدید ہتھیاروں سے مسلح ہوتے ہیں، یہ گروپ ۱۹۸۸ء میں بنایا گیا تھا، اس گروپ کا سالانہ بجٹ تین سو پچھہتر کروڑ رپے ہے، یہ ملک کا سب سے مہنگا اور مضبوط تحفظ کا نظام ہے۔
 وزیر اعظم جب کسی دورے پر جاتے ہیں تو ایس، پی جی کے ساتھ اے ایس ایل (ایڈوانس سیکوریٹی لیزن) ریاستی پولیس اور مقامی انتظامیہ بھی ایس پی جی کے معاون کے طور پر کام کرتی ہے، اور اسے ضروری مشورے دیتی ہے، اس طرح وزیر اعظم کے چاروں طرف چہار سطحی حفاظتی حصار ہوتا ہے؛ البتہ آخری فیصلہ ایس پی جی کا ہی ہوتا ہے ۔
 ۲۰۲۰ء میں مرکزی وزیر مملکت برائے امور داخلہ نے پارلیامنٹ میں اٹھائے گئے ایک سوال کے تحریری جواب میں بتایا تھا کہ وزیر اعظم کی سیکوریٹی پر روزانہ ایک کروڑ باسٹھ لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں، اتنے سارے اخراجات اور اتنے سخت تحفظ کے نظام کے باوجود وزیر اعظم کی سیکوریٹی میں اس قدر خامی رہ گئی کہ انہیں اپنا فیروز پور پنجاب کا دورہ ملتوی کرکے دہلی لوٹ جانا پڑا، یہ انتہائی حساس اور سنگین مسئلہ ہے، جس کا جواب پورا ملک جاننا چاہتا ہے ۔
اس سے قبل ۲؍ فروری ۲۰۱۹ء کو اشوک نگر مغربی بنگال ، ۲۶؍ مئی ۲۰۱۸ء شانتی نیکیتن، ۲۵؍ دسمبر ۲۰۱۷ء نوئیڈا اتر پردیش ، ۱۷؍ نومبر ۲۰۱۴ء وانکھیڈے اسٹیڈیم ممبئی میں وزیر اعظم کی سیکوریٹی میں خامیاںسامنے آئی تھیں، جس میں کئی بار انجانا شخص ان کے قریب پہونچ گیا تھا، ایک بار ان کا قافلہ بھی مہامایا فلائی اوور کی ٹریفک میں پھنس گیا تھا، گو یہ توقف صرف دو منٹ کا تھا۔خود وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی کئی موقعوں پر اس حصار کو توڑنے کا کام کیا ہے، با خبر ذرائع کے مطابق وشوناتھ کو ریڈور کے افتتاح کے موقع سے بنارس پہونچنے میں کئی بار انہوں نے سیکوریٹی نظام کی ان دیکھی کی، غیر ملکی مہمانوں کے استقبال کے موقع سے بھی ان کا رویہ پروٹوکول کے خلاف رہا ہے، ۲۰۱۹ء میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد سلمان کے دہلی پہونچنے پر ان سے گلے مل کر سیکوریٹی پروٹوکول کوانہوں نے خود سے توڑدیا تھا۔
 اسی طرح موسم کی خرابی کی وجہ سے فیروز پور جلسہ گاہ تک ان کا نہ پہونچنا بھی کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، ۲۰۱۶ء میں وہ بہرائچ کی ریلی میں موسم خراب ہونے کی وجہ سے نہیں پہونچ پائے تھے، ۵؍ اکتوبر ۲۰۱۴ء کو ناسک مہاراشٹر ، ۲۹؍ جون ۲۰۱۵ء کو وارانسی ، فروری ۲۰۱۹ء میں رودر پور اتراکھنڈ کی ریلیوں میں خراب موسم کی وجہ سے وزیر اعظم کا جانا نہیں ہو سکا تھا، لیکن انہوں نے فون پر خطاب کیا تھا اور پروگرام میں نہ آنے کی وجہ بھی بتادی تھی، پھر فیروز پور ریلی کو انہوں نے بذریعہ فون خطاب کیوں نہیں کیا؟
 یہ اور اس قسم کے بہت سارے سوالات لوگوں کے ذہن میں اٹھ رہے ہیں، موسم خراب ہونے کی وجہ سے ہیلی کاپٹر کے بجائے سڑک راستہ سے فیروز پور جانے کا فیصلہ وزیر اعظم کا اپنا ہو سکتا ہے، لیکن سیکوریٹی پر نگاہ رکھنا ایس پی جی کی ذمہ داری تھی، مقامی پولیس کو اس میں تعاون کرنا تھا، اس معاملہ میں ایس جی پی اس قدر طاقتور ہے کہ وہ سیکوریٹی کا حوالہ دے کروزیر اعظم کے سفر کو ملتوی کراسکتا ہے اور ہوا بھی کچھ ایسا ہی ، لیکن ایس جی پی کو فیصلہ کرنے میں بیس(۲۰) منٹ لگ گئے اور وزیر اعظم کی گاڑی بیس(۲۰) منٹ تک ہائی وے پر کھڑی رہی، اس سلسلہ میں سب سے پہلی بات تو یہی ہے کہ جب موسم سازگار نہیں تھا تو ایک سو پچیس کلو میٹر کا فاصلہ بذریعہ سڑک طے کرنے کا فیصلہ ہی درست نہیں تھا، کیوں کہ اتنے طویل راستہ کو اتنی جلدی سیناٹائز کرنا ممکن نہیں تھا، پھر جب فیصلہ کر ہی لیا گیا تھا تو ہماری خفیہ ایجنسیاں کیا کر رہی تھیں کہ انہیں صحیح صورت حال کا علم بیس منٹ بعد ہو سکا۔
 ہائی وے پر رکا وٹوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کسان اندولن پر بیٹھے ہوئے تھے، یہ اچانک سڑکوں پر کس طرح آگئے ، با خبر ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ کسان احتجاج کے لیے فیروز پور جا رہے تھے، پولیس نے وہاں جانے سے روکا تو وہ وہیں کے وہیں سڑک پر بیٹھ گیے، اس لیے سڑک جام ہو گیا، اگر ایسا ہے اور پولیس والوں کو معلوم تھا کہ اس راستہ سے وزیر اعظم کا قافلہ گذرنا ہے تو اسے سڑک سے ہٹا کردور بیٹھانا چاہیے تھا؛ تاکہ راستہ صاف رہے، اور وزیر اعظم کا قافلہ بحفاظت وہاں سے گذر جائے، بد قسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا، وزیر اعظم کی سیکوریٹی کو یقینی نہیں بنایا جا سکا، اور وہ دہلی لوٹ گئے۔
 جہاں تک فون سے وزیر اعظم کے خطاب کا معاملہ ہے اس کے بارے میں لوگوں کا کہنا ہے کہ کرسیاں خالی تھیں، وزیر اعظم کس سے خطاب کرتے، لوٹنے میں حفاظتی نظام کے ساتھ اس بات کا بھی بڑا دخل رہا ہو تو اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
 وجوہات کیا تھیں، اس پر ریاستی اور مرکزی حکومت دونوں نے جانچ کمیٹی تشکیل دی ہے،سپریم کورٹ نے سبکدوش جج کے ذریعہ اس کی تحقیق کا حکم دیاہے، اس معاملات سے متعلق حرکات سے متعلق حرکات وسکنات کے تمام دستاویز کو محفوظ رکھنے کو کہا گیا ہے، پنجاب سرکار نے ریاستی اور مقامی پولیس ذمہ داروں پر کاروائی بھی کی ہے، ان میں سے کئی معطل کیے جا چکے ہیں۔ ایجنسیوں کی رپورٹ یقینا الگ الگ ہی آئے گی، ریاستی سرکار کی رپورٹ میں سیکوریٹی ایجنسیوں کو مورد الزام گرداناجائے گا، اور مرکزی رپورٹ میں پنجاب سرکار کو ، ایک امید سپریم کورٹ کے سبکدوش جج سے ہے کہ وہ شاید حقیقت کا پردہ فاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں، بشرطیکہ وہ کسی دباؤ کے بغیر آزادانہ اورمنصفانہ جانچ پر قادر ہوں۔
وزیر اعظم کی سیکوریٹی کا معاملہ واقعتا بہت اہم ہے اور جو لوگ قصور وار ہیں ان کو سخت سزا ملنی چاہیے، لیکن جس طرح اس واقعہ پر سیاست ہو رہی ہے اور میڈیا ٹرائل کیا جا رہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب کے ساتھ پانچ ریاستوں میں انتخاب کی تاریخ کا اعلان کر دیا گیا ہے، کانگریس اور بی جے پی دونوں اس واقعے کے حوالہ سے ووٹ کے حصول کی کوشش کرنے میں لگ گئی ہے، سیاست اسی کا نام ہے یہاں تو کفن کو بھی ووٹ کے لیے استعمال کرلیا جاتا ہے، یہ تو وزیر اعظم کی سیکوریٹی کا معاملہ ہے۔





مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
مسلمان اعلیٰ تعلیم میں انتہائی پس ماندہ ہیں، ان کے یہاں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلے کی شرح صرف ۶ء ۱۶؍ فیصد ہے، جینیوں میں اعلیٰ تعلیم کے لیے داخلہ لینے والوں کی شرح ۷۲؍ فی صد اور ہندؤوں میں داخلہ کا مجموعی فیصد ۸ء ۲۷؍ فی صد ہے، نیشنل سمپل سروے ۱۸-۲۰۱۷ء کے مطابق ستر فی صد مسلمان مالی دشواریوں کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم کے حصول میں پیچھے رہ جاتے ہیں، بحالی اور تقرریوں میں ہو رہی نا انصافی کا خوف بھی انہیں اعلیٰ تعلیم سے دور رکھتا ہے، ایسے میں ضروری ہے کہ اعلیٰ تعلیمی ادارے اپنی فیس میں اقلیتوں خصوصا مسلمانوں کے لیے رعایتی فیس کا اعلان کریں، ہم جانتے ہیں کہ موجودہ دور میں یہ نا ممکن العمل تجویز ہے، لیکن اگر یونیورسٹی کے ذمہ داران کی توجہ اس طرف ہوجائے تو چنداں بعید بھی نہیں، اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے داخلہ نہ لینے کی ایک وجہ غربت وپس ماندگی ہے، واجبی تعلیم کے بعد ہمارے طلبہ اور نو جوانوں کو معاش کے حصول کے لیے تگ ودو کرنی پڑتی ہے، اگر وہ معاشی مشغولیت سے دور رہیں تو گھر والے فاقہ کشی کے شکار ہو جائیں گے، ایسے میں ایک ضرورت یہ بھی ہے کہ مختصر نصاب کے ذریعہ ان کو تعلیم دی جائے اور ان کی دلچسپی اس مختصر نصاب میں اس قدر ہو کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے پُر عزم ہوں۔
 ہمارے یہاں نصاب تعلیم اس قدر طویل ہے کہ کم وبیش تیس سال تو اس نصاب کی تکمیل میں لگ جاتے ہیں، چھوٹے کاروباری لوگ اس طرح کے تعلیمی نظام سے فائدہ اٹھاپا رہے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس اعلیٰ تعلیم کے لیے اتنا وقت ہے ۔ ایسے میں اعلیٰ تعلیم سے مسلمانوں کی دوری اور پس ماندگی کو دورکرنے کی صرف یہی ایک شکل ہے، جس کا ذکر اوپر کیا گیا۔

منگل, جنوری 18, 2022

اسقاط حمل میں کمی مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

اسقاط حمل میں کمی 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 گذشتہ کئی سالوں سے یہ بات باعث تشویش رہی ہے کہ حمل میں لڑکی کا پتہ چلنے پر ان کا اسقاط کرادیا جاتا تھا، جس کی وجہ سے مرد وعورت کے صنفی توازن میں غیر معمولی فرق پیدا ہو گیا تھا، مختلف ملی اور سماجی تنظیموں نے اس معاملہ کی سنگینی کو محسوس کرکے اس کے خلاف تحریک چلائی، کتابچے اور فولڈر تقسیم کیے گیے، جس کے اثرات بہار ہی نہیں ملک کی مختلف ریاستوں میں بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
 قومی خاندانی صحت کے ایک سروے کے مطابق بہار میں لڑکیوں کی تعداد ایک ہزار مرد پر ایک ہزار نوے ہے، جب کہ دیگر ریاستیں آندھرا پردیش میں ۱۰۴۵، گوا میں ۱۰۲۷، تلنگانہ میں ۱۰۴۹، تامل ناڈو میں ۱۰۸۸، اتر پردیش میں ۱۰۱۷، جھارکھنڈ میں ۱۰۵۰، مغربی بنگال میں ۱۰۴۹، اڈیشہ میں ۱۰۶۳، لکشدیپ میں ۱۱۸۷، کیرالہ میں ۱۱۲۱، اور پانڈیچیری میں ۱۱۱۲؍خواتین ایک ہزار مرد کے مقابل ہیں، افسوس کی بات یہ ہے کہ اس تبدیلی کا اثر مہاراشٹرا، گجرات ، مدھیہ پردیش میں نہیںپڑا ہے، وہاں اب بھی ایک ہزار مردوں کے مقابلے عورتوں کی تعداد کم ہے اور یہ صوبے اب بھی صنفی عدم توازن کے شکار ہیں۔

پیر, جنوری 17, 2022

عشق رسول ہے مگر اتباع رسول نہیں شمشیر عالم مظاہری دربھنگویامام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہاروہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کراور ہم خوار ہوۓ تارک قرآں ہو کر

عشق رسول ہے مگر اتباع رسول نہیں 
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور ہم خوار ہوۓ تارک قرآں ہو کر
اس دنیا میں عاشقوں کی کمی نہیں خصوصاً ہمارے اس دور میں خود رو جھاڑیوں کی طرح عاشقوں کی بہتات ہے آپ کو گلی کوچوں میں شہروں اور دیہاتوں میں ہر سائز کے ہر رنگ کے ہر نسل کے اور ہر قسم کے عاشق مل جائیں گے ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں ان میں سے کوئی عہدہ اور منصب کا عاشق ہے کوئی سیم و زر کا عاشق ہے تو کوئی حسینوں کی اداؤں کا عاشق ہے کوئی نیل گوں آنکھوں کا اور کوئی سفید چمڑی پر عاشق ہے کوئی اپنی ہی ذات پر عاشق ہے مختصر یہ کہ عاشقوں اور معشوقات کی ان گنت قسمیں ہیں لیکن عشق کی یہ ساری قسمیں فانی ہیں اور یہ عاشق بالعموم برساتی مینڈکوں کی طرح ہوتے ہیں ان کے عشق میں پائیداری نہیں ہوتی ہمارے دور کے کئی عاشق تو ایسے ہیں کہ سر پر جوتے لگنے سے ان کا سارا عشق ہوا ہو جاتا ہے یہ ماڈرن عاشق ہیں بڑے چالاک اور مکار ہوتے ہیں کبھی کبھی یہ عشق میں ناکامی پر اس انداز سے دھمکی دیتے ہیں کہ دنیا کے سامنے سرخرو بھی ہو جائیں اور جان بھی بچ جائے ۔
الحمدللہ ہم اور آپ مسلمان ہیں ہمیں اسلام قبول کرنے پر قطعاً مجبور نہیں کیا گیا بلکہ ہم نے اپنی مرضی اور اختیار سے اسلام قبول کرلیا ہے اور اسلام قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اللہ اور رسول کے تمام احکام کو دل وجان سے تسلیم کرتے ہیں اور صرف تسلیم کرنا ہی کافی نہیں بلکہ ان پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔  دنیا میں زبانی محبت کرنے والے تو بہت ہیں مگر خالی خولی محبت مقصود نہیں اگرچہ یہ بھی فائدے سے خالی نہیں لیکن اصل مقصود وہ محبت ہے جو دل میں بھی ہو زبان سے بھی اس کا اثر ظاہر ہو اور بدن کا ایک ایک عمل اس بات کی گواہی دے کہ اس شخص کو حضور صلی اللہ وسلم سے محبت ہے دیکھنے والے دیکھ کر کہہ دیں کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا محب اور عاشق جا رہا ہے یہ نہ ہو کہ زبان سے بھی آپ کا نام خوب لیا جا رہا ہے آپ کے نام پر مال بھی خوب حاصل کیا جا رہا ہے لیکن نہ تو زندگی کے مسائل میں آپ کی اتباع ہے نہ دین کے لیے کوئی قربانی ہے نہ سیرت حضور صلی اللہ علیہ وسلم جیسی ہے نہ صورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم جیسی اور عاشق رسول بلکہ عشق رسول کے واحد رجسٹرڈ ٹھیکیدار بنے پھرتے ہیں
آج کل کے عاشقانِ رسول کا حال
ہر میٹھا اور پر تعیش کام کرنے کے لئے تیار ہیں مگر پرمشقت کام کرنے کے لئے تیار نہیں۔  جیسے وہ ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ بوڑھی عورت کا شوہر انتقال کر گیا اس کے رونے کی آواز سن کر لوگ جمع ہوگئے پوچھا اماں جی کیوں رو رہی ہو کہنے لگی یہ سامنے لٹکی ہوئی بندوق دیکھ کر مجھے شوہر یاد آرہا ہے۔ ہاۓ یہ بندوق بھی بے سہارا ہو گئی اسے استعمال کرنے والا نہیں رہا ان میں سے ایک لالچی آدمی آگے بڑھا کہنے لگا آپ کا یہ غم میں دور کرتا ہوں یہ بندوق مجھے دے دیجئے آپ یوں سمجھیں اسے سہارا مل گیا اماں نے کہا لے جاؤ بیٹا ور نہ اسے دیکھ دیکھ کر میرا غم تازہ ہوتا رہے گا ۔ اگلے دن پھر رونے کی آواز آئی یہ لالچی آواز سن کر بھاگا بھاگا گیا پوچھا اماں جی آج کونسی چیز آپ کے غم کو تازہ کر رہی ہے اماں نے کہا بیٹا میرے شوہر گھوڑے سے بہت پیار کرتے تھے اب وہ نہیں ہیں تو یہ ان کی جدائی کی غم میں اداس کھڑا ہے اس کی اداسی مجھ سے دیکھی نہیں جاتی لالچی صاحب نے فوراً کہا اماں ہمارے جیسے جانثار بیٹوں کی موجودگی میں آپ کو اداس ہونے کی ضرورت نہیں یہ گھوڑا مجھے عنایت کر دیجئے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری نہ گھوڑا ہوگا نہ آپ کو مرحوم شوہر کی یاد ستائے گی گھوڑا بھی لے گیا اب جب بھی رونے کی آواز آتی تو وہ فرمانبردار بیٹا بن کر حاضر ہو جاتا اور اماں جان کا غم دور کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی سامان لے جاتا مرحوم کے کپڑے اس کا بستر اس کے جوتے اور استعمال کی دوسری اشیاء ایک ایک کرکے لے گیا اور اس نے پورے گھر کا صفایا کردیا لیکن اماں کا غم پھر بھی دور نہ ہوا اور ایک دن پھر رونے کی آواز آنے لگی وہ لالچی جانتا تھا کہ اب گھر میں کوئی چیز باقی نہیں رہی اس لیے اس نے آنے میں دیر کر دی اور اس کے آنے سے پہلے ہی کئی لوگ آچکے تھے اماں سے پوچھا آج کیوں رو رہی ہیں اماں نے کہا بیٹا مجھے معلوم نہیں تھا لیکن کل ہی پتہ چلا ہے کہ میرے شوہر کے ذمہ اتنے سارے قرض ہیں مجھے یہ غم ہے کہ یہ قرض کیسے ادا ہوگا تو وہ لالچی بیٹا جو گھر کا صفایا کر چکا تھا اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے بھائی آخر تم بھی تو کچھ بولو میں تو اتنے دن سے اماں کے غم دور کر رہا ہوں۔ 
یہی حال آج کل کے عاشقانِ رسول کا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم نے جھنڈیاں لگائیں، قمقمے جلائے، جلوس نکالے، نعرے لگائے، مٹھائیوں کے ڈبے بھی وصول کیے، جب ہم نے اتنے کام کرلیے تو اب کوئی اطاعت کرنے والا بھی تو ہونا چاہیے یہ کیا ہوا کہ سارے کام ہم ہی کرتے جائیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ نام کے عاشق رہ گئے کام کے عاشق چل بسے۔  مسلمان کی ذات تو ہے مسلمان کی صفات باقی نہیں رہیں اب تو مسلمان پہچانا ہی نہیں جاتا تھا بتانا پڑتا ہے کہ یہ صاحب مسلمان ہیں ورنہ صورت اور سیرت سے مسلمان کی پہچان نہیں ہوتی بلکہ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ مسلمان کے جو اوصاف تھے وہ غیر مسلموں نے اپنا لیے ہیں وہ معاملات کی صفائی، وہ قومی ہمدردی، وہ امانت و دیانت، وہ راست بازی، جو کبھی مسلمان کی پہچان ہوتی تھی وہ کافروں کی پہچان بن گئی ہے۔  اور معاملات میں گڑ بڑ، قوم دشمنی، فراڈ ، خیانت،  جھوٹ، اور وعدہ خلافی مسلمان کی پہچان بن گئی ہے
صحابہ کرام کا جذبۂ اتباع سنت
صلح حدیبیہ کے موقع پر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنا ایلچی بنا کر بھیجا تو سنت کے مطابق ان کا زیر جامہ آدھی پنڈلی تک تھا اور قریش اسے معیوب سمجھتے تھے اس لئے آپ کے چچا زاد بھائی ابان بن سعید نے آپ سے کہا کہ اپنا زیرجامہ ذرا نیچے کرلیجئے تاکہ سردارانِ قریش آپ کو حقیر نہ سمجھیں لیکن حضرت عثمان ایسا کرنے پر راضی نہ ہوئے اور جواب میں فرمایا کہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا زیر جامہ ایسا ہی ہے جب آقا کا زیر جامہ ایسا ہے تو کسی کے معیوب سمجھنے کی وجہ سے میں آپ کا طریقہ کیوں چھوڑ دوں ۔
اسی طرح حضرت جثامہ بن مساحق کنانی رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کو اپنا ایلچی بنا کر ہرقل شاہ روم کے پاس بھیجا جب وہ اس کے دربار میں پہنچے تو بے خیالی میں ایک کرسی پر بیٹھ گئے اچانک ان کی نظر پڑی تو انہوں نے دیکھا کہ وہ سونے کی کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں نظر پڑتے ہی وہ فوراً اس کرسی سے نیچے اتر آئے ہرقل یہ دیکھ کر ہنسا اور کہنے لگا ہم نے تو اس کرسی پر بیٹھا کر تمہارا اعزاز کیا تھا تم کیوں اتر گئے ہو آپ نے جواب دیا میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ اس جیسی کرسی کے استعمال سے منع فرماتے تھے ۔ 
حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ اپنے زمانے کی سپرپاور ایران کے بادشاہ کسریٰ کے دربار میں مذاکرات کے لیے پہنچے تو وہاں ان کے سامنے اعزاز کے طور پر کھانا لا کر رکھا گیا کھانے میں تہذیب کے بڑے بڑے دعویدار  اور کسریٰ کے حوالی موالی بھی شریک تھے کھانے کے دوران حضرت حذیفہ کے ہاتھ سے ایک نوالہ نیچے گر گیا انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق اس نوالے کو اٹھانے کیلئے ہاتھ بڑھایا تو ایک صاحب نے اشارہ سے آپ کو ایسا کرنے سے منع کیا تا کہ تہذیب کے ان جھوٹے دعویداروں کی نظر میں ان کا مقام نہ گرجاۓ اور وہ آپ کو حریص اور لالچی نہ سمجھ بیٹھیں آپ نے وہ نوالہ اٹھانے کے ساتھ ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا، آپ نے فرمایا (أ أ ترک سنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لھؤلاء الحمقاء) کیا میں رسول اللہ صلی اللہ وسلم کی سنت کو ان احمقوں کی وجہ سے چھوڑ دوں 
مسلمان کی پہچان ختم ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ مسلمان نے سیرت النبی کا دامن چھوڑ دیا ہے نبی کی سیرت، نبی کی صورت، نبی کی اطاعت، اور نبی کی غلامی، یہ تو مسلمان کی اصل پہچان تھی۔  وہ ہزاروں اور لاکھوں میں پہچانا لیا جاتا تھا وہ کافروں اور مشرکوں کے مجمع میں، اور قیصر و کسریٰ کے درباروں میں، سب سے جدا سب سے ممتاز نظر آتا تھا کسی کے طنز اور کسی کی باتوں کے خوف سے وہ اپنے آقا کی بات چھوڑ نے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے ۔

جس کا کوئی نہیں اس کی ثمر خان

جس کا کوئی نہیں اس کی ثمر خان

بھوپال کی رہنے والی ثمر خان خواتین اور لڑکیوں کی مدد کے لیے کام کر رہی ہیں۔ وہ غریب اور کمزور طبقے کی لڑکیوں کو مفت تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت فراہم کرتی ہیں۔ کچی آبادیوں اور گھریلو تشدد کی متاثرین کو رہائش فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی شادیاں بھی کرواتی ہیں۔

انھوں نے کئی خواتین کو روزگار سے بھی جوڑا ہے۔ اب تک وہ 10 ہزار سے زیادہ خواتین کی مدد کر چکی ہیں۔ 35 سالہ ثمر خان نے سوشل ورک میں ماسٹرز کیا ہے۔ ان کے شوہر پہلے ہی سےایک این جی او چلاتے تھے، وہ بھی شادی کے بعد اس کے ساتھ شامل ہوگئیں۔ پھر وہ کمزور طبقات کو پیشہ ورانہ تربیت فراہم کرنے کا کام کرنے لگیں۔

اس میں انہیں حکومت کا تعاون بھی ملا۔ ثمر خان کا کہنا ہے کہ خواتین کی حالت اس وقت تک بہتر نہیں ہو سکتی جب تک انہیں خود کفیل نہ بنایا جائے۔

awaz

نربھیافائونڈیشن میں راکھی بناتی خواتین

ثمر بتاتی ہیں کہ یہ تقریباً 10 سال پہلے کی بات ہے۔ میرے ساتھ ٹریننگ لینے والی ایک لڑکی کی شادی مہاراشٹر میں ہوئی تھی۔ ہم نے اس کی شادی میں اس کا بہت ساتھ دیا کیونکہ اس کے والد کا انتقال ہو چکا تھا لیکن شادی کے بعد سسرال میں اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا تھا۔

اس کا شوہر اسے مارتا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد وہ بھاگ کر بھوپال آگئی۔ یہاں آنے کے بعد اس کے گھر والے اسے رکھنے کو تیار نہیں تھے۔

وہ کہتی ہیں کہ ہم اس معاملے کو لے کر پولیس کے پاس گئےتاہم، کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ خاتون کے گھر والے اسے رکھنے کے لیے تیار نہیں تھے اور باہر اسے رکھنے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ پھر ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم خود ایسی خواتین کو رکھنے کے لیے کچھ کیوں نہیں کریں؟ اس کے بعد جہاں ہم تربیت دیتے تھے وہاں اس عورت کے ٹھہرنے کا بھی انتظام کیا گیا۔

اس کے بعد یہ مہم چل پڑی۔ پولیس کے پاس بھی جو اس طرح کے کیس آتے تھے، وہ ان خواتین کوہمارے پاس رکھ جاتی تھی۔

ثمر کا کہنا ہے کہ کبھی کبھی ایسا لگتا تھا کہ کام کا بوجھ زیادہ ہے۔ اسے اپنی سطح پر سنبھالنا مشکل ہے، لیکن 2016 میں دہلی میں نربھیا کے ساتھ پیش آنے والے واقعے نے ہمیں دنگ کر دیا۔ تب میں نے محسوس کیا کہ اس کام کو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ مجھے یہ کام کمزور ہونے کی بجائے طاقت سے کرنا چاہیے۔ اور اس کے بعد ہم نے اپنی تنظیم کا نام بھی بدل کر نربھیا فاؤنڈیشن رکھ دیا۔

ثمر کا کہنا ہے کہ 2016 کے بعد یہاں خواتین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ خواتین بھی تربیت کے لیے بڑی تعداد میں آنے لگیں۔ اس میں کچی آبادیوں میں رہنے والی لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ پھر ہم نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ ان خواتین کو بڑے پیمانے پر تربیت دی جائے اور اس کے بعد انہیں روزگار سے بھی جوڑا جائے۔

اس کے بعد ہم نے خواتین کو اگربتی بنانے، سینیٹری پیڈ بنانے، سلائی-بُنائی اور بیوٹی پارلر کی تربیت دینا شروع کی۔ خواتین بھی اس سے مستفید ہوئیں۔ اب وہ اپنی ضرورتوں کے لیے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی بجائے خود کفیم ہو گئی تھیں۔

ثمر خان اپنی این جی او کے ذریعے خواتین کو تربیت دینے کے ساتھ ساتھ راشن اور سبزیاں بھی فراہم کرتی ہیں۔ ثمر نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر نربھیا ہوم کے نام سے خواتین کا آشرم تیار کیا ہے۔ اس میں غریب اور گھریلو تشدد کے شکار افراد کو رکھا جاتا ہے۔ یہاں انہیں مفت رہائش اور خوراک اور پیشہ ورانہ کورسز کی تربیت دی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ ضرورت مند خواتین کی بھی کونسلنگ کی جاتی ہے۔ اگر پولیس کی مدد کی ضرورت ہو تو وہ بھی اسے فراہم کی جاتی ہے۔ اس وقت ان کے پاس 30 خواتین ہیں جن کو وہ تمام سہولیات مفت فراہم کرتی ہیں۔ یہی نہیں، وہ کچی آبادیوں میں رہنے والی غیرشادی شدہ لڑکیوں اور گھریلو تشدد کی شکار خواتین کی شادیاں بھی کراتی ہیں۔

اب تک وہ ایسی 5 خواتین کی شادیاں کراتی ہیں۔ ثمر بتاتی ہیں کہ ہم شادی سے پہلے اس لڑکی یا عورت کی کونسلنگ کرتے ہیں۔ پھر اس کی پسند اور ناپسند جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس کے بعد لڑکوں کی تلاش کی جاتی ہے۔ جب لڑکا مل جاتا ہے اور شادی کے لیے تیار ہوتا ہے تو پھر ہم کونسلنگ بھی کرتے ہیں اور یہ جانچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس کی ذہنی حالت کیسی ہے اور وہ اس لڑکی کو ٹھیک رکھ سکے گا یا نہیں۔

ثمر خان اب تک 5 لڑکیوں کی شادیاں کرا چکی ہیں اوراپنی بیٹی کی طرح لڑکیوں کو رخصت کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ وہ غریب خواتین کے بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کا کام بھی کرتی ہیں۔

اس کے علاوہ، ثمر ایک نربھیا گاؤں بنانا چاہتی ہیں، جہاں لڑکیوں، بچیوں، عورتوں کو ساتھ رکھا جائے اور اس گاؤں میں انہیں ہر طرح کی سہولت فراہم کی جائے۔

اس تنظیم میں تقریباً 8-10 لوگ کام کرتے ہیں۔ جو تمام ضروری چیزوں کو برقرار رکھنے کا کام کرتے ہیں۔ ثمر کے ساتھ اس کے شوہر شیر افضل خان بھی اس ادارے میں بہت تعاون کرتے ہیں۔


اتوار, جنوری 16, 2022

تحفظ اوقاف اور امارت شرعیہ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

تحفظ اوقاف اور امارت شرعیہ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ(9431003131)
اوقاف ملت اسلامیہ کا قیمتی سرمایہ ہیں، ماضی میں اسے ملت کے غیور، خود دار اور درد مند دل رکھنے والوں نے ملی ضرورتوں کے لیے وقف کیا تھا ، یہاں پر اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ بعض مخصوص حالات میں بعضوں نے وقف علی الاولاد کرکے اپنی جائیداد کے تحفظ کی کوشش بھی کی ، لیکن عموما جو مقاصد تھے وہ وہی تھے؛جس کا ذکر اوپر کیاگیا؛ یعنی سماج کے غریب ومحتاج اور نادار لوگوں کی مدد، مدارس اسلامیہ کے طلبہ کی کفالت ، مسلم سماج کی اجتماعی، تعلیمی، اصلاحی اور فلاحی کاموں کی انجام دہی میں تعاون ، ان کاموں کے لیے بڑی بڑی جائیدادیں وقف کی گئیں، پھر دھیرے دھیرے لوگوںکے مزاج میں تبدیلی آنے لگی ، دینے کا مزاج کم ہوا،زمینوں اور عمارتوں کی قیمتیں آسمان چھونے لگیں تو بہت سارے واقفین کے وارثوں نے ہی وقف جائیدا کو خرد برد کرنا شروع کر دیا ، جو اپنوں کے خرد بردکی دسترس میں نہیں آیا ،اس پر غیروں نے قبضہ کر لیا ، اورہماری بے حسی کی وجہ سے آج اوقاف کی بہت ساری جائیداد پر باہو بلی اور دبنگوں کا قبضہ ہے ، عالی شان عمارتیں کھڑی ہیں، کڑوڑوں کی جائیداد ہے، لیکن ملت کو اس کا فائدہ نہیں پہونچ رہا ہے، مختلف ریاستوں کی سرکاریں بھی اس کام میں پیچھے نہیں ہیں، مرکزی حکومت نے بھی پارک وغیرہ بنوانے کے لیے اوقاف کی بہت ساری جائداد پر غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے ، اس بات کا اعتراف اوقاف کے لیے قائم مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے چیر مین لال جان پاشا نے کیا، ان کی رپورٹ کے مطابق ’’اوقاف کی زمین اورعمارتوں پر کئی جگہ حکومت بھی قابض ہے اور کئی جگہوں پر وقف کی زمین کے سلسلے میں حکومت ہند کے ساتھ مقدمات چل رہے ہیں‘‘۔ کہیں کرایہ کے نام پرکچھ رقم مل رہی ہے تو وہ بھی علامتی ہے، اسی جگہ واقع دو سرے دوکان اور مکان کا کرایہ ہزاروں میں ہے ؛ لیکن وہیں پر وقف کی جو جائیداد ہے، اس کا کرایہ سو دو سو سے زائد نہیں ہے ، حکومت بہار کے مطابق ’’وقف کی آدھی جائیداد سے کوئی آمدنی نہیں ہوتی ، جن اثاثوں سے آمدنی ہوتی ہے،ا ن میں صرف تین فی صد ایسے ہیں ، جن کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ سے زائد ہے‘‘ ۔
اس صورت حال کا احساس وادراک بہتوں کو تھا ، لیکن بہار کی حد تک میری معلومات کے مطابق عملی اقدام کیلئے اللہ رب العزت نے جس عظیم شخصیت کا انتخاب کیا وہ ابو المحاسن مولانا محمد سجاد بانی امارت شرعیہ کی ذات گرامی تھی ، بہار میں ۱۹۳۸ء تک اوقاف کی حفاظت اورنگرانی کے لیے ۱۹۲۳ء میں انگریزوں کے بنائے ہوئے قانون کے علاوہ ریاستی سطح پر کوئی قانون موجود نہیں تھا ،انگریزوں نے بہت سارے اوقاف ضبط کر لیے تھے، اور ان کو اس طرح اپنی ملکیت بنا لیا تھا کہ اس کی وقفی حیثیت کلیۃ ختم ہو گئی تھی ، الناس علی دین ملوکہم کے تحت بہت سارے لوگ جو اصلاً اوقاف کی زمین اور مکان کے کرایہ دار تھے، مالک بن بیٹھے ، اس طرز عمل نے اوقاف کو سخت نقصان پہونچا یا ،مسلمانوں نے انگریزوں سے اس کے تحفظ کے لیے قانون بنانے کا مطالبہ کیا، انگریزوں کے نزدیک غلام ہندوستان کے اس مطالبہ کی حیثیت ہی کیا تھی، پھر بھی ۱۹۲۳ء میں انگریزوں نے مسلم وقف ایکٹ بنایا ، اور اسے نافذ کر دیا ، یہ ایکٹ ظاہر ہے اسلامی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں تھا، مولانا ابو المحاسن محمد سجاد ؒنے امارت شرعیہ بہار اڑیسہ وجھارکھنڈ کی رہنمائی میںایک مسودہ قانون تیار کرایا اور اسے بہار مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کے ذریعہ اسمبلی میں پیش کرایا ،چونکہ یہ مسودہ مولانا کی نگرانی میں مرتب ہوا تھا ، اس لیے اس بل میں اسلامی قوانین وقف کی پوری رعایت ملحوظ رکھی گئی تھی ، بعد میں حکومت بہار نے اسی مسودہ کی روشنی میں ایک وقف بل پیش کیا؛ جو بڑی حد تک اسلامی اصول وقف کے مطابق تھا ، یہ بل اسمبلی میں منظور ہوا ، اوقاف کے تحفظ کی یہ پہلی کوشش تھی؛ جو امارت شرعیہ کے ذریعہ بہارمیں قانون بنوا کر کی گئی ۔
 اس طرح امارت شرعیہ نے مولانا کی نگرانی میں اوقاف کی جائیداد کو ٹیکس سے مستثنیٰ کرانے کی کامیاب جد وجہد کی ، اسمبلی میں ’’زرعی جائیدادوں ‘‘ پر جب ٹیکس کا قانون لایا گیا اور اغراض حکومت کی تکمیل کے لیے ٹیکس لگایا گیا تو اس میں اوقاف کی جائیداد بھی شامل تھی ، ظاہر ہے یہ اسلامی قانون وقف سے میل نہیں کھاتا تھا، مولانا محمد سجاد نے انڈی پنڈنٹ پارٹی کے ذریعہ اس میں ترمیمات پیش کرائیں ،مولانا نے صاف طور پر یہ بات کہی کہ
’’ اسلام میں وقف کی تقسیم  خیراتی وغیر خیراتی قطعا نہیں ہے ، جتنے اوقاف ہیں سب ہی خالصتاً لوجہ اللہ ہیں اور اس امر کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وقف علی الاولاد والاقارب پر جدید زائد ٹیکس لگایا جا سکتا ہے ، جو وقف سے پہلے نہیںتھا، او ردوسرے اوقاف پر نہیں لگایا جا سکتا یہ تفریق اسلامی قانون میں مداخلت بے جا ہے،جو کسی طرح درست نہیں۔ ( قانوی مسودہ :۴۸) 
 مولانا نے آخر میں حکومت کو متنبہہ کیا کہ ’’ وہ زرعی ٹیکس سے تمام اسلامی اوقاف کو مستثنیٰ کرے اپنی دانش مندی کا ثبوت دیں ، اور یہ کہ وہ اپنے کو اور مجھ کو کسی آزمائش میں مبتلا نہ کرے، ‘‘ ( ایضا ۵۴)
 چنانچہ تمام زرعی اوقاف کو اس قانون سے الگ رکھا گیا ۔ یہ دور انگریزوں کا تھا ، اس دورمیں بہار میں اوقاف کے کنٹرول اور تحفظ کی ذمہ داری ہر ضلع میں ضلع جج کی تھی، آزادی کے بعد بہار میں وقف ایکٹ ۱۹۴۷ء بنایا گیا ، جس کا نفاذ ۳؍ مارچ ۱۹۴۸ء سے ہوا ، بعد میں ۱۹۵۴ء میں مرکزی حکومت کی طرف سے وقف ایکٹ لایا گیا اور اسے نافذ کرنے کی کوشش کی گئی ، لیکن مسلمان اس سے مطمئن نہیں ہوئے او رترمیم کے مطالبات جاری رہے ، ان مطالبات کے نتیجے میں ۱۹۵۴ء کے وقف ایکٹ میں ۱۹۵۹ء اور۹ ۱۹۶ء میں جزوی ترمیمات کی گئیں ، ۱۹۸۴ء میں اس ایکٹ میں وسیع پیمارے پر ترمیمات ہوئیں ،مسلمانوں نے اس ترمیم کی مخالفت کی اور مسلم تنظیموں کے ذریعہ اسلامی اصولِ وقف کی روشنی میں سوالات اٹھائے گئے ، ان سوالات کی روشنی میں مرکزی حکومت نے وقف ایکٹ ۱۹۹۵ء پاس کیا ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اوقاف کے تحفظ کے لیے موجودہ امیر شریعت مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں ترمیمات کے لئے کامیاب جد وجہد کی، اوقاف کی تعریف وغیرہ میں بھی بنیادی ترمیم کرائی گئی ، غیر رجسٹرڈ اوقاف کو بھی حکومت نے وقف کے زمرے میں رکھا،یہ ایک بڑی کامیابی تھی جو اوقاف کے تحفظ کے لئے مسلمانوں کو حاصل ہوئی ، اس ترمیم سے قبل لال جان پاشا کی قیادت میں قائم مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کا ایک وفد مرکزی حکومت کی جانب سے مسلم اداروں کی ترمیمات اور وقف ایکٹ پر ان کے اشکالات جاننے  اور اوقاف کی حالت کاجائزہ کے لیے تین روزہ دورہ پر پٹنہ وارد ہوا تھا ، امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ؒ کے حکم پر ترمیمات کا خاکہ احقر نے مرتب کیا تھا ، اور حضرت کے حکم کے مطابق وفد کے سامنے امارت شرعیہ کی نمائندگی احقر’’ محمد ثناء الہدیٰ قاسمی‘‘ نے ہی کی تھی۔ 
قانونی اعتبار سے اوقاف کی جائیداد کے تحفظ کے لیے بہا راسٹیٹ میں سنی اور شیعہ اوقاف کے لیے الگ الگ بورڈ قائم ہے، ان کے ذمہ اوقاف کو رجسٹرڈ کرنے اور اوقاف کی جائیدا کے تحفظ کے ساتھ اسے واقف کی منشاء کے مطابق مفید اور بار آور بنانے کا کام ہے ، لیکن اس معاملہ میں دونوں بورڈ سست روی کا شکار ہے ، یہی وجہ ہے کہ یہاں رجسٹرڈ اوقاف کی تعداد دوسری ریاستوں سے کم ہے، اس سلسلے میں عوامی بیداری بھی نہیں ہے ، رجسٹریشن کے کام سے قبل وقف ایکٹ ۱۹۹۵ء کے سکیشن ۴ اور محکمہ اقلیتی فلاح کے نوٹی فیکیشن نمبر 843مورخہ 15/09/2008کے مطابق محکمہ اصلاحات آراضی کے پرسنل سکریٹری کو کمشنرکی حیثیت سے سروے کرانا تھا، اس کام کے لیے تمام اضلاع کے کلکٹر کو اسسٹنٹ کمشنر اور ڈ ی سی  لارکو سروے کمشنر مقرر کیا گیا تھا ، لیکن ابھی سروے کا کام ہی مکمل نہیں ہو سکا ہے ، جہاں سروے سرکاری کا رندوں کے ذریعہ کرایا گیا ہے،ان میں سے کئی جگہوں پر متعصب سروے کرنے والوں نے قبرستان کو کبیر استھان اور گورستان کو گئو استھان لکھ دیا ہے ، اس وجہ سے ان جگہوں پر کبھی بھی تنازع کھڑا ہو سکتا ہے ۔
ریاست میں وقف ترمیمی ایکٹ کے مطابق سروے کا کام ایک سال میں مکمل ہو جانا تھا ، لیکن دوسرے سرکاری کاموں کی طرح یہ معاملہ بھی التوا میں ہے ، چونکہ اس کے تمام اخراجات ریاستی حکومت ہی کو دینے ہیں، اس لیے کم از کم اس تاخیر کا سبب مرکزی حکومت کو نہیں قرار دیا جا سکتا ہے ،جب تک سروے کا کام مکمل نہیں ہو گا ، اوقاف کی جائیداد کی فہرست سازی اور درجہ بندی واقف کی منشا کے مطابق نہیں کی جاسکے گی؛ اس سلسلے میں ضرورت عوامی بیداری کی بھی ہے، اس کے بغیر نہ تو صحیح سروے ہو سکے گا اور نہ ہی وقف املاک پر غاصبانہ قبضہ کرنے والوں کے خلاف کوئی داروگیر کیا جا سکے گا ، وقف ایکٹ ۱۹۹۵ء ترمیم شدہ 2013سیکشن ۵۱ کے تحت وقف جایداد کی فروختگی ،رہن رکھنے اور بدلین کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے، اوقاف پر غیر قانونی قبضہ اور منتقلی کو مجرمانہ اعمال کے دائرہ میں لایا گیا ہے اور نا جائز خرید وفروخت پر دو سال تک قید وبند کی سزا بھی رکھی گئی ہے۔
اس کے با وجود خود بہار اسٹیٹ سنی وقف بورڈ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’ وقف املاک کی تقریبا ستر فی صدی جائیدادوںپر نا جائز قبضہ ہے اور وہ زمین ما فیاؤں کے دسترس میں ہے۔‘‘
بہار اسٹیٹ سنی وقف بورڈکی سالانہ رپورٹ۲۰۱۵۔۲۰۱۴ء کے مطابق بہار میں رجسٹرڈ وقف اسٹیٹ فی سبیل اللہ 2274 اور وقف علی الاولاد 182ہیں ، مقاصد اور منشاء واقف کے اعتبار سے دیکھیں تو وقف اسٹیٹ کی کل مساجد 833 عیدگاہ 57مزار ومقبرہ209، قبرستان6141مدارس ومکاتب 74، اسکول اور مسافر خانے 6,6،یتیم خانہ 4،اسپتال 2، درگاہ137، کربلا 55، خانقاہ 13، امام باڑہ224اور مکانات 194ہیں ، ان اوقاف میں آمدنی کے ذرائع والے وقف اسٹیٹ636ہیں، یہ وہ اعداد وشمار ہیں جس کا اندراج وقف بورڈ میں ہے ، اس کے علاوہ ہزاروں؛ بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ایسے اوقاف ہیں ، جن کا سروے اب تک نہیں ہو سکا اور ان کا اندراج بورڈ میں نہیں ہے ، واقف نے انہیں زبانی وقف کیا اور واقف کی منشاء کے مطابق اس کی آمدنی کا استعمال ہو رہا ہے یا ایسے ادارے اس پر قائم ہیں جو واقف کی منشاء کی تکمیل کرتے ہیں۔
بہار میں شیعہ وقف بورڈ الگ سے قائم ہے، اس کی سالانہ رپورٹ 2014-2015میں جو اعداد وشمار ذکر کیے گیے ہیں اس کے مطابق بہار میں شیعہ وقف بورڈ کے تحت کل وقف فی سبیل اللہ 130وقف علی الاولاد 68آمدنی والے اوقاف 68غیر آمدنی والے اوقاف 158ہیں ، مقاصد کے اعتبار سے دیکھیں تو مساجد 92قبرستان70، مدرسہ اور مکتب 1، ہاسپیٹل 2ہے، یہاں بھی بہت سارے اوقاف رجسٹرڈ نہیں ہیں،شیعہ وقف بورڈ نے ۱۸؍ فروری ۲۰۱۴ء کو ایک بڑی کامیابی اس وقت پائی جب اس نے خورشیدحسین وقف اسٹیٹ کی 57کھٹہ زمین پر سے نا جائز قبضہ ہٹانے میں کامیابی حاصل کی ، اس زمین کی قیمت آج کی تاریخ میں پچاس کڑوڑ سے زائد ہے ۔
سارے قانونی دفعات کے با وجود واقعہ یہ ہے کہ بہار میں اوقاف کو تحفظ حاصل نہیں ہے ، تبادلے اور مفید تر بنانے کے نام پر فروختگی کا بازار بھی گرم ہو تا رہا ہے ، اس صورت حال کا بڑا نقصان یہ ہوا کہ اب لوگوں کی توجہ وقف کرنے کی طرف نہیں ہو رہی ہے؛ بلکہ کہنا چاہیے کہ وقف کرنے کا مزاج ہی سرے سے ختم ہو گیا ہے ، یہ بہت بڑا ملی خسارہ ہے ،اس لیے ضروری ہے کہ وقف ایکٹ کی روشنی میں خرد برد کرنے والوں کو سخت سزادی جائے، اس کام کے لیے اوقاف کے متولی صاحبان وقف بورڈ کے ذمہ داران اور سماج کے با شعور طبقے کو آگے آنا چاہیے؛ کیونکہ اوقاف مسلمانوں کی ترقی کا بہتر ذریعہ بن سکتے ہیں ، ریاست میں مسلمانوں کی بد حالی پر حکومت کے لیے رپورٹ تیار کرنے والے ادارے ، ایشین ڈولپمنٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے اہل کار شیبالی گپتا کا خیال ہے کہ ’’ وقف کی جتنی جائیداد ہے اس کا اگر اچھے کار پوریٹ ہاؤس کی طرح استعمال ہو تو مسلمانوں کی بد حالی مٹانے میں اس سے کافی مدد مل سکتی ہے ‘‘۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...