Powered By Blogger

جمعرات, جنوری 27, 2022

شراب - ام الخبائث مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

شراب - ام الخبائث 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 بہار میں شراب لانے لے جانے، پینے پلانے پر پابندی ہے ، اس کے با وجود شراب اور منشیات کے اسمگلر اس سے باز نہیں آ رہے ہیں، ابھی حال ہی میںکئی مقامات پر زہریلی شراب پینے سے لوگ موت کے منہہ میں چلے گیے، سرکار کی جانب سے انتہائی سختی کے باوجود شراب کی سپلائی بہار میں جاری ہے، اور پولیس کا عملہ اس پر قابو نہیں پا رہا ہے۔ شراب ام الخبائث ہے، یہ سارے گناہوں کی جڑ ہے ، انسان اس کے زیر اثر آنے کے بعد کچھ بھی کر گذرتا ہے ، حال ہی میں پانی پت کے گاؤں چبلا داس سے ایک خبر آئی تھی کہ شراب کے لیے پیسے نہ دینے کی وجہ سے ایک لڑکا نے اپنے باپ کوپتھر مار مار کر ہلاک کر دیا، باپ کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے شراب کے لیے پیسہ نہ دینے کے ساتھ اپنے بیٹے امیت کو جس کی عمر صرف بتیس سال تھی ، کچھ نصیحت کر دیا تھا اور ایک طمانچہ بھی لگا دیا تھا ، بیٹا انتظار میں تھا ، ۲۴؍ گھنٹے کے بعد جب راج کپور اسٹیشن کی طرف ٹہلنے نکلا تو بیٹے نے اس پر پیچھے سے وار کر دیا اور اس وقت تک پتھر مارتا رہا جب تک اس کی موت نہیں ہو گئی۔
 شراب کی وجہ سے جرم کا کوئی یہ پہلا واقعہ نہیں ہے ، اخبار میں اس قسم کی خبریں روزانہ آتی رہتی ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ شراب اور دیگر منشیات سے نوجوانوں کو بچانے کے لیے بیداری مہم چلائی جائے اور اس کے مضر اثرات سے لوگوں کو آگاہ کیاجائے اور بتایا جائے کہ شراب نوشی اور دیگر منشیات کا استعمال انسانی صحت اور صالح سماج کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے، تبھی تو اللہ تعالیٰ نے اسے ناپاک اور شیطانی عمل قرار دیا ہے ، اگر ہم اس شیطانی عمل سے سماج کو بچا سکے تویہ اس دور کا بڑا اور قابل قدر کام ہوگا۔

بدھ, جنوری 26, 2022

يوم جمہوریہ پر ' آزادی کا امرت مہوتسو ' کے کے طور پر راج پتھ پر پریڈ حصہ

يوم جمہوریہ پر ' آزادی کا امرت مہوتسو ' کے کے طور پر راج پتھ پر پریڈ حصہ

بھارت کی فوجی طاقت اور ثقافتی تنوع کو پیش کرنے کی تمام تیاریاں مکمل، اب ہر سال یوم جمہوریہ کا قومی تہوار23-30جنوری تک ہفتے بھر کا ہوگا

صدر جمہوریہ ہند رام ناتھ کووند 26 جنوری، 2022 کو 73ویں یومِ جمہوریہ کا جشن منانے میں ملک کی قیادت کریں گے۔ اس سال کا یومِ جمہوریہ آزادی کے 75ویں سال میں ہونے کی وجہ سے خاص ہے، جسے پورے ملک میں 'آزادی کا امرت مہوتسو' کے حصہ کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ اس موقع کو یادگار بنانے کے لیے، وزارت دفاع نے 26 جنوری کو راج پتھ پر ہونے والی مرکزی پریڈ اور 29 جنوری کو وجے چوک پر 'بیٹنگ ریٹریٹ' کی تقریب کے دوران نئے پروگراموں کی ایک سیریز تیار کی ہے۔ فیصلہ کیا گیا ہے کہ یومِ جمہوریہ کی تقریبات اب ہر سال 23 جنوری سے 30 جنوری تک، پورے ہفتہ منائی جائیں گی۔ یہ تقریبات 23 جنوری کو، عظیم مجاہد آزادی نیتا جی سبھاش چندر بوس کی سالگرہ پر شروع ہوں گی اور 30 جنوری کو، یومِ شہداء کے موقع پر اختتام پذیر ہوں گی۔

مرکزی پریڈ کے دوران کئی منفرد پہل کا منصوبہ بنایا گیا ہے جن میں نیشنل کیڈٹ کور کے ذریعے 'شہیدوں کو شت شت نمن' پروگرام؛ انڈین ایئر فورس کے 75 طیاروں /ہیلی کاپٹروں کے ذریعے شاندار قلا بازی؛ رقص کے ملک گیر 'وندے بھارتم' مقابلہ کے ذریعے منتخب کیے گئے 480 ڈانسرز کے فنون کی پیشکش؛ 'کلا کمبھ' پروگرام کے دوران تیار کیے گئے دس اسکرالز کی نمائش جن میں سے ہر ایک کی لمبائی 75 میٹر ہے، اور ناظرین کو بہتر نظارہ دکھانے کے لیے 10 بڑے ایل ای ڈی اسکرین کی تنصیب شامل ہیں۔ 'بیٹنگ ریٹریٹ'تقریب کے لیے پروجیکشن میپنگ کے ساتھ ہی ایک ڈرون شو کا بھی منصوبہ بنایا گیا ہے، جس میں ملک کے اندر تیار کردہ 1000 ڈرون تعینات کیے جائیں گے۔پریڈ اور فلائی پاسٹ (پرواز) کا بہتر نظارہ پیش کرنے کے لیے، راج پتھ پر ہونے والی پریڈ کے وقت کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اب یہ پریڈ صبح 10 بجے کی بجائے 10 بج کر 30 منٹ پر شروع ہوگی۔

کووڈ-19 کی موجودہ صورتحال کے مدنظر خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔ ناظرین کے لیے سیٹوں کی تعداد کافی کم کر دی گئی ہے اور لوگوں سے اپیل کی جا رہی ہے کہ وہ لائیو تقریبات کو آن لائن دیکھنے کے لیے MyGov پورٹل ( https://www.mygov.in/rd2022 /) پر اپنا رجسٹریشن کرائیں۔ انہیں مقبول انتخاب کے زمرے میں، مارچ کرنے والے بہترین دستہ اور ٹیبلو کو ووٹ کرنے کا بھی موقع ملے گا۔دونوں ٹیکہ لگوا چکے بالغ افراد/ٹیکہ کی ایک خوراک لے چکے 15 سال کے بچوں کو ہی پریڈ دیکھنے کی اجازت ملے گی۔ 15 سال سے کم عمر کے بچوں کو یہاں آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ سماجی دوری بنا کر رکھنے کے تمام ضابطوں پر عمل کیا جائے گا اور ماسک پہننا لازمی ہوگا۔ وبائی مرض کی وجہ سے اس سال کسی بھی غیر ملکی دستہ کو پریڈ میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔معاشرہ کے جن طبقوں کو پریڈ دیکھنے کا موقع عموماً نہیں ملتا، ان کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔ آٹو رکشہ ڈرائیوروں، تعمیراتی کارکنوں، صفائی ملازمین اور صف اول کے صحت کارکنوں کے کچھ طبقوں کو یوم جمہوریہ کی پریڈ کے ساتھ ساتھ 'بیٹنگ ریٹریٹ' تقریب دیکھنے کے لیے مدعو کیا جائے گا۔

یوم جمہوریہ پریڈ کی تقریب کا آغاز وزیر اعظم جناب نریندر مودی کے نیشنل وار میموریل پر جانے کے ساتھ ہوگا۔ وہ پھولوں کا گلدستہ چڑھا کر شہید ہونے والے جانبازوں کو خراج عقیدت پیش کرنے میں ملک کی قیادت کریں گے۔ اس کے بعد، وزیر اعظم اور دیگر معزز شخصیات پریڈ دیکھنے کے لیے راج پتھ کے سلامی منچ کی طرف روانہ ہوں گی۔روایت کے مطابق، سب سے پہلے قومی پرچم لہرایا جائے گا، اس کے بعد قومی ترانہ، پھر 21 توپوں کی سلامی پیش کی جائے گی۔ پریڈ کا آغاز صدرجمہوریہ رام ناتھ کووند کے سلامی لینے کے ساتھ ہوگا۔ پریڈ کی کمانڈنگ اتی وششٹھ سیوا میڈل، دوسری نسل کے فوجی افسر، پریڈ کمانڈر، لیفٹیننٹ جنرل وجے کمار مشرا کریں گے۔ چیف آف اسٹاف، دہلی ایریا میجر جنرل آلوک کاکر پریڈ کے سیکنڈ ان کمانڈ ہوں گے۔اپنی بہادری کے لیے اعلیٰ ترین ایوارڈز حاصل کرنے والے قابل فخر فاتحین ان کے پیچھے مارچ کریں گے۔ ان میں پرم ویر چکر اور اشوک چکر کے فاتحین شامل ہیں۔ پرم ویر چکر کے فاتحین صوبیدار میجر (اعزازی کیپٹن) یوگیندر سنگھ یادو، 18 گرینیڈیئرز (ریٹائرڈ) اور صوبیدار (اعزازی لیفٹیننٹ) سنجے کمار، 13 جے اے کے رائفلز اور اشوک چکر کے فاتح کرنل ڈی شری رام کمار جیپ سے ڈپٹی پریڈ کمانڈر کے پیچھے چلیں گے۔ 'پرم ویر چکر' دشمن کے سامنے مثالی بہادری کا مظاہرہ کرنے اور اپنی قربانی پیش کرنے جیسے سب سے نمایاں کام کے لیے دیا جاتا ہے۔ 'اشوک چکر' بھی اسی طرح کی بہادری اور قربانی کے لیے دیا جاتا ہے، لیکن اس سے تھوڑا سا مختلف ہے۔

سابقہ گوالیار لانسرز کی وردی میں پہلا دستہ 61 کیولری (گھڑ سوار دستہ) کا ہوگا، جس کی قیادت میجر مرتیونجے سنگھ چوہان کریں گے۔ 61 کیولری دنیا کی واحد فعال گھڑسوار دستہ پر مبنی رجمنٹ ہے۔ اسے یکم اگست 1953 کو چھ ریاستی افواج کی گھڑسوار اکائیوں کے انضمام کے ساتھ کھڑا کیا گیا تھا۔ہندوستانی فوج کی نمائندگی 61 کیولری کے گھڑ سواروں کی قطار، 14 میکانائزڈ قطار، چھ مارچنگ دستے اور آرمی ایوی ایشن کے ایڈوانسڈ لائٹ ہیلی کاپٹر (اے ایل ایچ) کے فلائی پاسٹ کے ذریعے کی جائے گی۔ میکا نائزڈ قطار میں ایک ٹینک پی ٹی-76 اور سینچورین (ٹینک ٹرانسپورٹرز پر) اور دو ایم بی ٹی ارجن ایم کے-1، ایک اے پی سی ٹوپاس اور بی ایم پی-1 (آن ٹینک ٹرانسپورٹر پر) اور دو بی ایم پی-2، ایک 24/75 ٹوڈ گن (گاڑی پر) اور دو دھنش گن سسٹم، ایک پی ایم ایس برج اور دو سروتر برج سسٹم، ایک ایچ ٹی-16 (گاڑی پر) اور دو ترنگ شکتی الیکٹرانک وارفیئر سسٹم، ایک ٹائیگر کیٹ میزائل اور دو آکاش میزائل سسٹم مرکزی توجہ کا مرکز ہوں گے۔فوج کے کل چھ مارچ کرنے والے دستے ہوں گے جن میں راجپوت رجمنٹ، آسام رجمنٹ، جموں و کشمیر لائٹ رجمنٹ، سکھ لائٹ رجمنٹ، آرمی آرڈیننس کور اور پیرا شوٹ رجمنٹ شامل ہیں۔ مدراس رجمنٹل سینٹر، کماؤں رجمنٹل سینٹر، مراٹھا لائٹ رجمنٹل سینٹر، جموں و کشمیر لائٹ رجمنٹل سینٹر، آرمی میڈیکل کور سینٹر اینڈ اسکول، 14 گورکھا ٹریننگ سینٹر، آرمی سپلائی کور سینٹر اینڈ کالج، بہار رجمنٹل سینٹر اور آرمی آرڈیننس کور سنٹر کا مشترکہ بینڈ بھی سلامی منچ سے مارچ پاسٹ کرے گا۔

مارچ کرنے والے دستے کا تھیم پچھلے 75 سالوں میں ہندوستانی فوج کی وردی اور ہتھیاروں کے ارتقاء


کی نمائش ہوگی۔ راجپوت رجمنٹ کا دستہ 1947 میں استعمال ہونے والی ہندوستانی فوج کی وردی پہنے گا اور 0.303 رائفل لے کر چلے گا۔ آسام رجمنٹ کے پاس 1962 کی وردی اور 0.303 رائفلیں ہوں گی۔ جموں و کشمیر لائٹ رجمنٹ کے پاس 1971 کے دوران پہنی جانے والی وردی اور 7.62 ایم ایم سیلف لوڈنگ رائفل ہوگی۔ سکھ لائٹ رجمنٹ اور آرمی آرڈیننس کور کا دستہ موجودہ یونیفارم میں 5.56 ایم ایم انساس رائفل کے ساتھ ہوگا۔ پیرا شوٹ رجمنٹ کا دستہ 15 جنوری 2022 کو ہندوستانی فوج کو عطا کیا جانے والا نیا جنگی یونیفارم پہنے گا اور اس کے پاس 5.56 ایم ایم بائی 45 ایم ایم ٹیور رائفل ہوگی۔

ہندوستانی بحریہ کا دستہ

بحریہ کا دستہ 96 نوجوان کشتی بانوں اور چار افسروں پر مشتمل ہوگا، جس کی قیادت لیفٹیننٹ کمانڈر آنچل شرما کریں گی۔ اس کے بعد بحریہ کا ٹیبلو پیش کیا جائے گا، جس کا مقصد ہندوستانی بحریہ کی کثیر جہتی صلاحیتوں کو نمایاں کرنا اور 'آتم نربھر بھارت' کے تحت اہم شمولیتوں کو اجاگر کرنا ہے۔ ٹیبلو میں 'آزادی کا امرت مہوتسو' کا بھی خاص ذکر ہوگا۔ٹیبلو کا اگلا حصہ 1946 کی بحریہ کی بغاوت پر مبنی ہے، جس نے ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ پچھلا حصہ 1983 سے 2021 تک ہندوستانی بحریہ کے 'میک ان انڈیا' سے متعلق اقدامات کی عکاسی کرتا ہے۔ ایل سی اے نیوی کے ساتھ نیو وکرانت کا ماڈل، جس میں مقامی طور پر ڈیزائن کیے گئے اور بنائے گئے جنگی جہازوں کے ماڈل شامل ہیں۔ ٹریلر کے اطراف کے فریموں میں بھارت میں ہندوستانی بحریہ کے پلیٹ فارم کی تعمیر کو دکھایا گیا ہے۔

ہندوستانی فضائیہ کا دستہ

ہندوستانی فضائیہ کے دستے میں 96 ایئر مین اور چار افسران شامل ہیں اور اس کی قیادت اسکواڈرن لیڈر پرشانت سوامیا ناتھن کریں گے۔ فضائیہ کی جھانکی کا عنوان 'انڈین ایئر فورس، ٹرانسفارمنگ فار دی فیوچر' ہے۔ ٹیبلو میں مگ-21، جی نیٹ، ہلکے جنگی ہیلی کاپٹر اور رافیل طیاروں کے ساتھ ساتھ اسلیشا راڈار کے چھوٹے چھوٹے ماڈل دکھائے گئے ہیں۔

ڈی آر ڈی او ٹیبلو

ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (ڈی آر ڈی او) ملک کی دفاعی تکنیکی ترقی کی نشاندہی کرتے ہوئے دو ٹیبلو دکھائے گا۔ ٹیبلو کا عنوان ہے 'ایل سی اے تیجس کے لیے مقامی طور پر تیار کیے گئے سنسرز، اسلحے اور الیکٹرانک جنگی نظام کا سوٹ' اور 'ہوا سے آزاد پروپلزن سسٹم'جو ہندوستانی بحریہ کی آبدوزوں کے لیے تیار کیا گیا ہے۔

پہلی جھانکی میں مقامی طور پر تیار کردہ ایڈوانسڈ الیکٹرانک اسکینڈ ارے راڈار؛ چوتھی نسل کے ایل سی اے (ہلکے جنگی طیارہ) تیجس کی صلاحیتوں کو مزید بڑھانے کے لیے فضائی طور پر لانچ کیے گئے پانچ مختلف ہتھیار اور ایک الیکٹرانک وارفیئر جیمر دکھائے جائیں گے۔ دوسری جھانکی میں ہندوستانی بحریہ کی آبدوزوں کو پانی کے اندر چلانے کے لیے مقامی طور پر تیار کردہ اے آئی پی سسٹم کی نمائش کی گئی ہے۔ اے آئی پی سسٹم ایک نئے آن بورڈ ہائیڈروجن جنریٹر کے ساتھ مقامی طور پر تیار کردہ ایندھن کے خلیوں سے چلتا ہے۔

انڈین کوسٹ گارڈ کا دستہ

انڈین کوسٹ گارڈ (آئی سی جی) دستے کی قیادت ڈپٹی کمانڈنٹ ایچ ٹی منجوناتھ کریں گے۔ جنوری 2021 میں 'تیار، مفید اور ذمہ دار'، آئی سی جی نے سری لنکا کے ساحل پر ایم وی ایکس-پریس آبی جہاز میں لگنے والی ایک بڑی آگ کو بجھانے کے لیے، غیر ملکی پانیوں میں آگ بجھانے کا ایک بڑا آپریشن 'ساگر آراکشا- II ' شروع کیا تھا۔ آئی سی جی کے بحری جہازوں اور ہوائی جہازوں نے 150 گھنٹے سے زیادہ وقت میں آگ پر قابو پالیا اور خطے میں ایک بڑی ماحولیاتی تباہی سے بچنے کے لیے اسے کامیابی سے بجھایا۔ آئی سی جی کا نصب العین ہے 'ویم رکشامہ' جس کا مطلب ہے 'ہم حفاظت کرتے ہیں'۔

سی اے پی ایف اور دہلی پولیس کے دستے

اسسٹنٹ کمانڈنٹ اجے ملک کی قیادت میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے مارچ کرنے والے دستے؛ اسسٹنٹ کمشنر آف پولیس وویک بھگت کی قیادت میں دہلی پولیس کا دستہ، جسے 15 بار بہترین مارچ کرنے والے دستے کا انعام مل چکا ہے؛ اسسٹنٹ کمانڈنٹ موہنیش باگری کی رہنمائی میں سنٹرل انڈسٹریل سیکورٹی فورس (سی آئی ایس ایف)؛ڈپٹی کمانڈنٹ نروپیش کمار کی قیادت میں سشستر سیما بل (ایس ایس بی) اور ڈپٹی کمانڈنٹ منوہر سنگھ کھیچی کی قیادت میں بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) کا اونٹوں پر سوار دستہ بھی سلامی منچ سے مارچ پاسٹ کرے گا۔

این سی سی کے دستے

لڑکوں پر مبنی نیشنل کیڈٹ کور (این سی سی) کا مارچنگ دستہ، جس میں سینئر ڈویڑن کے 100 کیڈٹس شامل ہیں، کی قیادت پنجاب ڈائریکٹوریٹ کے سینئر انڈر آفیسر روپیندر سنگھ چوہان کریں گے۔ کرناٹک ڈائریکٹوریٹ کی سینئر انڈر آفیسر پرمیلا، لڑکیوں پر مشتمل این سی سی کے مارچنگ دستے کی سربراہی کریں گی، جس میں تمام 17 ڈائریکٹوریٹ کی 100 سینئر ونگ کیڈٹس شامل ہیں۔ 100 رضاکاروں پر مشتمل نیشنل سروس اسکیم (این ایس ایس) کے مارچ کرنے والے دستے کی قیادت، مرکزی حکومت کے زیر انتظام علاقہ دیو، احمد آباد ڈائریکٹوریٹ کے باریا سدھی رمیش کریں گے۔

منگل, جنوری 25, 2022

دم توڑتی جمہوریت مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

دم توڑتی جمہوریت 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ(9431003131)
 ۲۶؍ جنوری کو ہر سال ہم لوگ جشن جمہوریت مناتے ہیں، سرکاری ونجی دفاتر، اسکول ، تعلیمی ادارے اور ملک کی عوام اس جشن کا حصہ بنتے ہیں، لاک ڈاؤن سے قبل انڈیا گیٹ پردہلی میں بڑا پروگرام ہوا کرتا تھا، جس میں شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ہم اپنی دفاعی قوت وطاقت اورہندوستان کی تہذیب وثقافت کو مختلف قسم کی جھانکیوں کے ذریعہ دیکھا کرتے تھے، لاکھ ڈاؤن کے زمانہ میں بھی یہ قومی تہوار منایا جاتا ہے، لیکن عوام کی بھیڑ اور شا ن وشوکت میں بڑی کمی آگئی ہے، پل پل کی خبروں اور مناظر کے ٹیلی ویزن پر نشر کرنے کی وجہ سے عوام انڈیا گیٹ پر جانے کے بجائے ٹی وی سے چپک کر بیٹھ جاتی ہے اور وہاں جانے کی زحمت کے بغیر پل پل کو اپنی نظروں میں قید کر لیتے ہیں جو شاید وہاں جا کر کسی حال میں ممکن نہیں ہے۔
۱۹۵۰ء میں اسی تاریخ کو ملک میں جمہوری دستور نافذ ہوا تھا، اور ہم نے یہ عہد لیا تھا کہ ہم اس ملک میں جمہوری قدروں کی حفاظت کریں گے، اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب مختلف مذاہب اور ثقافت کے آمیزہ سے تیار اس ملک کے کلچر کو ضائع نہیں ہونے دیں گے، ملک کو اس مقام ومرتبہ تک پہونچانے کے لیے تمام مذاہب کے لوگوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تھا، جیل کی صعوبتیں بر داشت کی تھیں، ان میں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیو بندی بھی تھے، اور شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی بھی، مولانا ابو المحاسن محمد سجاد بھی تھے او رحضرت مولانا منت اللہ رحمانی بھی، مولانا عبید اللہ سندھی بھی تھے اور اشفاق اللہ خان بھی، چندر شیکھر بھی تھے اور رام پرشاد بسمل بھی، مولانا ابو الکلام آزاد بھی تھے اور موہن داس کرم چندگاندھی بھی ، کھودی رام بوس بھی تھے اور مولانا حسرت موہانی بھی، آزاد ہند فوج کے نیتاجی سبھاش چندر بوس بھی تھے اور کرنل محبوب بھی، شاہ نواز بھی تھے اور مولانا شفیع داؤودی بھی، مولانا مظہر الحق بھی تھے اور جواہر لال نہرو بھی، کس کس کا ذکر کروں اور کس کو چھوڑوں ، سب کی قربانیاں تھیں، ہاں یہ بات ضرور ہے کہ مسلمان اس جد وجہد میں ۱۷۵۷ء سے شریک تھے اور دوسرے ۱۸۵۷ء سے، ہماری قربانیاں ایک سو سال پہلے سے جاری تھیں، لیکن جب ملک آزاد ہوا تو سب سے پہلے ہم ہی بھلا دیے گیے ، بھلانے کا یہ کام اس قدر آگے بڑھ گیا ہے کہ ان شہیدوں کی یاد میں جو آثار قائم تھے ان کا نام بھی بدلا جا رہا ہے اور یہ سب اس ملک میں ہو رہا ہے، جس کی جمہوریت دنیا کی بڑی جمہوریت ہے، اور ہم جس پر فخرکرتے نہیں تھکتے۔ 
آج جب ہم تہترواں جشن جمہوریت منا رہے ہیں تو ہمارے ملک میں جمہوریت دم توڑ رہے، جمہوریت کے چاروں ستون انتظامیہ مقننہ، عدلیہ اور میڈیا جمہوری اقدار کی حفاظت کے لیے جو کچھ اور جتنا کچھ کر سکتے تھے، وہ ہو نہیں پار ہا ہے، مقننہ میں ایک خاص فکر کے لوگوں کا غلبہ ہو گیا ہے، بیورو کریٹ اور انتظامیہ بھی اسی رخ پر کام کررہی ہے جو حکمراں طبقہ چاہتاہے، الناس علی دین ملوکھم کا یہی مفہوم ہے،میڈیا بک چکی ہے، وہ نہ تو غیر جانبدار ہے نہ حق کی طرفدار، اب وہ صرف وہی لکھتا چھاپتا ، سناتا اور دیکھا تا ہے جو اس کے خریدار کہتے ہیں، رہ گئی عدلیہ، بھلی بُری توقعات اسی سے وابستہ ہیں، اور واقعہ یہ ہے کہ اب جمہوریت کی بقا کے لیے اسی کو کام کرنا ہے، ورنہ سمجھئے جمہوریت کا کام اس ملک سے تمام ہوجائے گا، جس کی آواز مختلف سطح سے ہندو راشٹر کے عنوان سے مسلسل اٹھ رہی ہے اور بی جے پی کی اصلی قیادت کرنے والی آر اس اس نے اسی سمت میں کام تیزی سے شروع کر دیا ہے، دھرم سنسد میں مسلمانوں کے قتل عام کے لیے لوگوں کو تیار کیا جا رہا ہے، اسلحے تقسیم کیے جا رہے ہیں، تاریخ بدلی جا رہی ہے ، اقدار بدلے جا رہے ہیں، تعلیمی پالیسی بدل گئی ، بابری مسجدکی جگہ رام مندرکی تعمیر ہو رہی ہے، گیان واپی مسجد اور متھرا کی عیدگاہ پر فرقہ پرستوں کی نگاہ ہے، ایسے میں جمہوریت اس ملک میں انتہائی نازک دو رسے گرزررہی ہے ۔
 اس دم توڑتی جمہوریت کی حفاظت کے لیے عوام کو آگے آنے کی ضرورت ہے، لیکن وہ اس لیے آگے نہیں آ پا رہی ہے کہ اسے ہندوتوا کا سبق مضبوطی سے پڑھایا گیا ہے، پرانے لوگ ضرور سیکولر ہیں، لیکن نئی نسلوںمیں مختلف ذرائع سے دل ودماغ میں مسلمانوں کے خلاف جو نفرت بھر دی گئی ہے اس کے رہتے ہوئے جمہوریت کی حفاظت ممکن نہیں، تھوڑی بہت امید دلت مسلم اتحاد سے ہے، وہ بھی وقوع پذیر ہو تب کی بات ہے۔

جمہوریت کی حفاظت ہر شہری کی ذمہ داری ہےساجد حسین ندوی

جمہوریت کی حفاظت ہر شہری کی ذمہ داری ہے
ساجد حسین ندوی


بھارت دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے اور آبادی کے لحاظ کے یہ دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ اگرپوری دنیا کی آبادی کو چھ حصوں میں تقسیم کیا جائے تو ان چھ حصوں میں ایک حصہ کی آبادی ملک ہندوستان کا ہوگا۔ دنیا کی کل آبادی کا 17.5فیصد کی آبادی ہندوستان میں پائی جاتی ہے۔آبادی کے اسی تناسب کو دیکھتے ہوئے اعداد وشمار کے ماہرین کا کہنا ہے کہ 2025تک بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن جائے گا۔
اسی طرح اس ملک میں مختلف مذاہب کا تنوع بھی پایا جاتاہے۔ اس ملک میں دنیا کے مختلف مذاہب کے پیروکار موجود ہیں ۔ یہاں مذہبی تنوع اور مذہبی اعتدال دونوں بذریعہ قانون قائم ہے۔ بھارت کے آئین میں واضح طور پر اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ یہاں جملہ مذاہب کے تمام لوگوں کو بلا کسی امتیاز اور تفریق کے اپنے مذہب پر عمل کرنے کا پورا پوراحق حاصل ہے۔
انگریز تاجر بن کر اس ملک میں آئے اوراپنی تجارت کو مضبوط ومستحکم کرنے کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد رکھی۔ دھیرے دھیرے ہندوستان پر قابض ہوگئے اور سفید وسیاہ کے مالک بن گئے ۔ 1858سے لیکر 1947تک انگریزوں نے اس ملک میں حکمرانی کی ۔اس دوران انہوں نے یہاں کے باشندوں پر بڑی ظلم وزیادتی کی۔ جب ظلم وزیادتی حد سے تجاوز کرگئی تو باشندگان ہند نے ملکی اتحاد کے ذریعہ انگریزوں کو اس ملک سے نکالنے کا عزم مصمم کرلیااور بالآخر ان کی محنت رنگ لائی اور 15؍ اگست 1947 کویہ ملک انگریزوں سے آزاد ہوا۔
کسی بھی ملک یاحکومت کو چلانے کے لیے نظم ونسق اورقوانین کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ وہ ملک اسی دستور اورآئین کی روشنی میں اپنے فرائض انجام دے سکے۔ آئین کسی بھی مملکت کا وہ اساسی قانون ہوتاہے جس کے بنیادی نظریات اندرونی نظم ونسق کے اصول اور مختلف شعبوں کے درمیان ان کے فرائض اور اختیارات کے حدود متعین کرتاہے۔ لہذا آزادی کے بعد ہمارے ملک کو بھی ایسے آئین کی ضرورت پیش آئی جو شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرسکے اور ملک میں جوبھی قانون نافذ ہو، وہ اسی آئین کے تحت ہو۔ اسی کے پیش نظر ڈاکٹر بھیم راؤ امیبڈکر کی نگرانی میں ایک سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ اس سات رکنی آئین ساز کمیٹی نے 26نومبر1949کو دستور ہند مرتب کرکے حکومت کو سونپا پھر 26؍ جنوری 1950کو اس دستور کا نفاذ عمل میں آیا۔ اسی کے ساتھ حکومت ہند ایکٹ جو 1935سے نافذ تھا منسوخ ہوگیا اورہندوستان میں جمہوری طرز حکومت کاآغاز ہوا۔
پورے ملک میں 26؍ جنوری جشن ِیوم جمہوریہ کے طور پر منایاجاتاہے۔ زبان حال سے اس بات کا اعتراف کیاجاتاہے کہ ہندوستان دنیا کا واحد ملک ہے ،جہاں غیر مذہبی جمہوریت قائم ہے۔ اس جمہوریت کی سب سے امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں کے باشندوں کو اپنی حکومت منتخب کرنے کا بھرپور حق حاصل ہے۔ یہ دستور اپنے شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرتی ہے۔یہاں کے تمام باشندو ں کو بلا تفریق مذہب وملت ایک مشترکہ جمہوریت کی لڑی میں پرودیا گیا ہے۔ اس میں تمام مذاہب کی اہمیت کا اعتراف کیا گیا ہے اور ہر مذہب کے پیروکاروں کو اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کی پوری آزادی دی گئی ہے۔
لہذا جملہ باشندگان ہند کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ آئین ہند کی حفاظت کرے ، آئین کو ملک میں سربلند رکھے اور اسے پوری طرح ہر حالت میں نافذ العمل ہونے دے تاکہ جمہوری روایات کو مسلسل فروغ ملتارہے۔
ملک میں برسراقتدار حکومت کے عہدیداران اپنے فرائض کوقانون کے مطابق اداکریں، حتی کہ اگر کوئی اعلیٰ سے اعلیٰ افسر بھی انہیں قانون کے منافی عمل کرنے پر آمادہ کرے تو اس کا حکم ماننے سے صاف طورپر انکار کردے۔ کیونکہ آئین کی بالادستی کویقینی بنانا ریاست کے تینوں ستونوں عدلیہ،انتظامیہ اور مقننہ کا فرض ہے۔
آئین نے عدلیہ پربنیادی حقوق کے تحفظ کی بھاری ذمہ داری عائد کی ہے۔ لہذا عدل وانصاف کا عمل ملک میں وحدت اور اخوت وبھائی چارگی کا کا سب سے بہتر ذریعہ ہے۔ اس لیے عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ دستور ہند کے دائرے میں رہتے ہوئے باشندگان ہندکے مسائل کو سلجھانے کی کوشش کرے ۔ اور ملک کی فضا کو خوشگوار بنانے میں اہم کردار ادا کرے، تاکہ یہ ملک جس طرح آبادی اور جمہوریت کے لحاظ سے دنیا کے نقشے پردوسرے مقام پر ہے،اسی طرح یہ عدل وانصاف اور یہاں کے باشندوں کے حقوق کی حفاظت کے اعتبار سے بھی نمایا ں ہوں اور پوری دنیا میں اس کا شمار سب سے انصاف پسند ملک کے طور پر ہو۔

پیر, جنوری 24, 2022

دہلی میں 71 سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ۔ 1950 کے بعد جنوری میں سب سے زیادہ بارش

دہلی میں 71 سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ۔ 1950 کے بعد جنوری میں سب سے زیادہ بارشنئی دہلی : ہندوستان کے محکمہ موسمیات (آئی ایم ڈی) کے مطابق اس سال جنوری میں دہلی میں ہفتہ کی دیر رات ہونے والی بارش کے بعد کل 88.2 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی، جو 1950 کے بعد اس مہینے میں ہونے والی سب سے زیادہ بارش ہے۔ اتوار کو دہلی میں کم سے کم درجہ حرارت 10.5 ڈگری سیلسس ریکارڈ کیا گیا، جو معمول سے تین ڈگری زیادہ ہے۔ آئی ایم ڈی کے ایک اہلکار نے کہاکہ یہ 1950-2022 کے دوران جنوری کے مہینے میں سب سے زیادہ بارش ہے۔یکے بعد دیگرے دو مغربی ہوا کے دباؤ کے اثر کی وجہ سے دہلی میں 10 جنوری تک 63 ملی میٹر بارش ہو چکی تھی۔آئی ایم ڈی کے اعداد و شمار کے مطابق اس سے قبل دارالحکومت میں 1989 میں 79.7 ملی میٹر اور 1953 میں 73.7 ملی میٹر بارش ہوئی تھی۔ بارش کی وجہ سے قومی راجدھانی میں ہفتہ کو زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 14.7 ڈگری سیلسیس ریکارڈ کیا گیاتھا، جو اس موسم کے لیے معمول سے سات ڈگری کم تھا۔جنوری کے دوسرے ہفتے سے زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت معمول سے کم ہے۔ کم سے کم درجہ حرارت معمول سے زیادہ اور معمول کے قریب رہا۔اسکائی میٹ ویدر کے نائب صدر نے کہا کہ 9 جنوری سے 19 جنوری کے درمیان بنیادی طور پر ابر آلود موسم اور بارش کی وجہ سے کافی دیر تک دھوپ نہیں نکلی۔انہوں نے کہا کہ 7 جنوری سے 9 جنوری کے درمیان ہونے والی بارشوں سے ہوا میں نمی میں اضافہ ہوا جس کی وجہ سے کم درجہ حرارت کے درمیان دھند چھائی رہی۔ دھند کی وجہ سے 16 جنوری تک قومی دارالحکومت کے بڑے حصوں اور اس سے ملحقہ علاقوں میں سردی کی صورتحال برقرار رہی۔16 جنوری کے بعد سے ایک مغربی دباؤ کے اثر کی وجہ سے دن کا درجہ حرارت پھر گر گیا۔واضح ہو کہ ابر آلود آسمان اور بارش کی وجہ سے سورج کی کرن زمین تک نہیں پہنچ پا رہی ہیں جس سے دن کا درجہ حرارت کم ہو جاتا ہے۔

اتوار, جنوری 23, 2022

بدمزاجی -انسانی رشتوں کے لیے زہر قاتل مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب نائب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

بدمزاجی -انسانی رشتوں کے لیے زہر قاتل 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب نائب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ (9431003131)
 امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ؒ فرمایا کرتے تھے کہ آپ کی صلاحیت بہت اچھی ہو، لیکن مزاج صحیح نہیں ہو تو لوگ آپ سے دور بھاگنے لگیں گے، بالکل اسی طرح جس طرح گُہمن سانپ کے لعل کے حصول کا خواہشمند ہر آدمی ہوتا ہے، لیکن اس کی جو پھُنکار ہوتی ہے اس سے ڈر کر آدمی اس کے قریب نہیں جاتا، اسی طرح با صلاحیت انسان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی خواہش ہوتی ہے، لیکن اس کی بد مزاجی، بے قابو زبان اور بد اخلاقی کی وجہ سے انسان اس سے دوری بنائے رکھنے میں عافیت سمجھتا ہے، تاکہ وہ عزت نفس کے ساتھ جی سکے، جو لوگ بد مزاجوں سے قربت رکھتے ہیں، وہ کبھی بھی ذلیل ہو سکتے ہیں اور ان میں بے غیرتی کے جراثیم تیزی سے پروان چڑھنے لگتے ہیں۔
 نفسیات کی زبان میں ایسے لوگوں کو’’ ٹیکسک رویہ ‘‘کا انسان کہا جاتا ہے، اس رویہ میں صرف بُرے تجربات ہی شامل نہیں ہوتے، کچھ ایسے معاملات بھی ہو تے ہیں، جنہیں آپ معمولی سمجھ کر گزر جاتے ہیں، لیکن وہ آپ کے دل کے نہاں خانوں میں جگہ بنا لیتے ہیں، تحت الشعور میں دبی یہ چنگاریاں مایوسی اور تناؤ کی شکل میں باہر آکر دوسروں کو رسوا کرنے کا کام کرتی ہیں، اس لیے ایسے لوگوں کی شناخت کرکے انہیں اپنی زندگی سے نکال دینے میں ہی عافیت ہے ۔ اگر آپ ایسے لوگوں کو اپنی زندگی کا حصہ بناتے رہے تو اس کا بُرا اثر آپ کی خود اعتمادی پر پڑتا ہے، اگر آپ کسی بات کو سچ سمجھتے ہیں تو اسے سچ کہنے کا حوصلہ جٹائیے،ہمیشہ خاموش رہ جانا مسئلہ کا حل نہیں ہوتا ، کئی بار اہم معاملات پر اپنی رائے رکھنی بھی ضروری ہوتی ہے۔
جیسا کہ معلوم ہے بد مزاجی ایک رویہ ہے، رویہ انسانی شخصیت کا بیان ہوتا ہے، برطانیہ کے سابق وزیر اعظم سرونسنٹ چرچل(۱۹۶۵-۱۹۷۴) کے مطابق رویہ ایک معمولی سی چیز ہے، لیکن انسانی شخصیت میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ رویہ کا انحصار بڑی حد تک انسان کے اپنے طرز فکر پر ہوتا ہے، اگر وہ تکبر اور ترفع کا شکار ہے، ’’انا‘‘ کا اسیر ہے تو اس کے بدمزاج ہونے کے امکانات زیادہ ہیں، ایسے لوگ اپنے رویہ پر قابو پانے میں ناکام ہوتے ہیں، وہ اگر زبان سے کچھ نہ بولیں تو ان کے چہرے بولنے لگتے ہیں، ان کی بد مزاجی کے آثار ان کے چہرے سے ظاہر ہونے لگتے ہیں، ایسے لوگوں پر جذباتی تاثر فوری طور پر غالب آجاتا ہے، ان کی شخصیت کی سب سے بڑی کمزوری ان کی انفعالیت ہوتی ہے، ایسا شخص اخلاق عادات کے اعتبار سے مضبوط نہیں ہوتا، اپنا فائدہ نظر آئے تو کچھ بھی کر گذرتا ہے، انفعالیت دربار خداوندی میں تو اچھی چیز ہے، لیکن بندوں کی بارگاہ میں یہ شخصیت کی کمزوری کو نمایاں کرتا ہے۔
 بد مزاجی ایک منفی رویہ ہے، اس رویہ کا عادی شخص دوسرے کے کاموں میں خامیاں نکالنے اور تنقید کرکے نفسیاتی تسکین حاصل کرتا ہے۔ بد مزاج آدمی کا رویہ دھمکی آمیز بھی ہو سکتا ہے، وہ آپ کو نقصان پہونچانے کے درپے بھی ہو سکتا ہے، اس کے باوجودیہ یاد رکھنا چاہیے کہ بد مزاجی فطرت نہیں ہے، جسے بدلا نہ جا سکے، یہ ایک چال چلن ہے، جسے مثبت رویہ اور صحیح سوچ کے ذریعہ بدلا جا سکتا ہے، اپنی سوچ کو مثبت اور غیر ضروری اندیشوں کے خول سے باہر لائیے، دوسروں کا اکرام واحترام کیجئے، ان کی باتوں کو غور سے سنئے اور جو درست ہوں ان کو اہمیت دیجیے اور اس پرعمل کیجئے، بد مزاجی ختم ہوجائے گی، لیکن اگر کوئی شخص ہٹلر اور مسولنی کی طرح ڈِکٹیٹر بن کر بد مزاجی ختم کر نا چاہے تو یہ ناممکن العمل ہے، اس کا علاج صرف رویوں میں تبدیلی ہے۔ رویے مثبت ہوں گے تو بد مزاجی ختم ہوگی، منفی ہوں گے تو تبدیلی کبھی نہیں آئے گی،رویوں کی تبدیلی کا یہ کام بد مزاج شخص خود بھی کر سکتا ہے اور خارجی دباؤ سے بھی بد مزاجی ختم ہو سکتی ہے، یہ خارجی دباؤ کئی قسم کے ہو سکتے ہیں، جن کا انتخاب حالات اور ماحول کے اعتبار سے کیا جا سکتا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ بد مزاج شخص کے اندر سے تکبر کو نکالنے کی کوشش کی جائے ، اللہ کی بڑائی کا استحضار اذان واقامت کے کلمات کا جواب بھی اللہ کی بڑائی کے تصور کو ذہن نشیں کرنے میں بہت معاون ہوتا ہے، بد مزاج شخص کے ذہن میں اگر یہ بات بٹھادی جائے کہ تم بڑے نہیں ہو، اللہ بڑا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ عہدے مناصب کی بلندی پر پہونچنے کے باوجود تم سب محتاج ہو، بے نیاز ذات صرف اللہ کی ہے تو بد مزاجی دور ہوجائے گی، اور لوگ بد مزاج کی بد مزاجی سے محفوظ ہوجائیں گے۔
 انفرادی زندگی سے الگ ہو کر اگر ہم اجتماعی تنظیموں اور اداروں کی بات کریں اور اس پر کوئی بد مزاج شخص کا تسلط ہو تو اس کی بدمزاجی کے اثرات اجتماعی نظام پر پڑتے ہیں، اور اداروں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے، شریعت نے اسی وجہ سے اجتماعی کاموں میں خصوصیت کے ساتھ مشورے پر زور دیا ہے، وَشَاوِرْ ھُم فِی الاَمْر، وَامُرْھُم شُوْرَی بَیْنَھُم‘‘ کا حکم اسی نقصان سے بچنے کے لیے ہے ، اس پر جس قدر مضبوطی سے عمل ہوگا فرد کی اصلاح بھی ہوگی اور اجتماعی تقاضوں پر بھی عمل کیا جا سکے گا۔
بد مزاج شخص کے دل میں سختی ہوتی ہے، اس کا دل اسی کے سامنے نرم ہوتا ہے جس سے اس کا کوئی مفاد وابستہ ہو یا اسے نقصان کا خطرہ ہو یعنی ’’جلب منفعت‘‘ اور’’ دفع مضرت‘‘ اس کی زندگی کا نصب العین ہوجاتا ہے، وہ اگر کسی کے سامنے سرنگوں ہوتا ہے تو نفع کا حصول مد نظر ہوتا ہے یا نقصان سے بچنا ، اس کے علاوہ وہ دوسروں کو اپنی بد مزاجی سے محروم کرتا رہتا ہے، ایسے بد مزاج شخص کا اکرام کوئی دل سے نہیں کرتا؛ بلکہ اس کی مضرت رسانی کے خوف اور ڈر سے کرتا ہے، اسی کو حدیث میں یُکْرَمُ الرجُلُ مَخَافۃَ شَرِّہِ سے تعبیر کیا گیا ہے اور جب معاملہ یہاں تک پہونچ جائے تو حدیث میں مسلسل اور متواتر مصائب کے نزول کی بات کہی گئی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح دھاگہ ٹوٹ جانے سے تسبیح کے دانے مسلسل گرنے لگتے ہیں۔
بد مزاج لوگوں کے ساتھ خود بد مزاج بن جانا صحیح نہیں ہے، اس سے آپ کی سوچ منفی بنتی ہے اور یہ آپ کے لیے پریشانی کا باعث ہوا کرتی ہے، ان حالات میں قرآنی ہدایات ’’ادفع بالتی ھی احسن‘‘ یعنی خوش اسلوبی سے معاملات کو ٹالنے کی ہے، ایسے لوگوں کو معاف کر دینا یا انہیں محبت کے ذریعہ قریب کرنا بھی ایک حل ہے، بعض لوگوں کی رائے ہے کہ اگر آپ کے اندر قوت بر داشت ہے تو صبر بھی کر سکتے ہیں۔لیکن یہ بد مزاج شخص کے لیے دوا کا نہیں مرض بڑھانے کا سبب بن سکتا ہے۔
ماہر نفسیات نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ بد مزاجی کی بڑی وجہ دوسروں پر غالب آنے کی بے جا ہوس ہوتی ہے ، بد مزاج آدمی اپنی زور دار آواز اور بُرا بھلا کہہ کر دوسروں کو مغلوب کرنا چاہتا ہے، عام طور پر سا منے والا چوں کہ بد مزاج نہیں ہوتا؛اس لیے وہ خاموش رہ جاتا ہے، جس سے بد مزاج انسان کاحوصلہ بڑھتا ہے، وہ اپنی منوانے پر مصر ہوتا ہے۔ آپ ایسے لوگوں کی بات مانتے مانتے اپنی شخصیت کھو دیتے ہیں،ا ٓپ کی فکر اور سوچ بھی کہیں گم ہوجاتی ہے، اور آپ کا شمار ان لوگوں میں ہونے لگتا ہے؛ جس کی کوئی اپنی فکر نہیں ہوتی ۔آپ کی خاموشی کو لوگ آپ کی بزدلی سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔
اپنی شخصیت کی حفاظت کے لیے دباؤ کے اس ماحول سے نکلنا بھی ضروری ہے، ورنہ آپ دوسروں کی دیکھا دیکھی اور دباؤ میں بہت سارے غلط ، صحیح فیصلے لینے اور قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں گے، ایسے موقع سے ضروری ہے کہ آپ جذبات میں نہ آئیں، پر سکون رہیں، کبھی کبھی ہنسی مذاق میں ٹال سکتے ہوں تو ٹال دیجئے، اپنی بات کھل کر رکھیے اور اپنے طرز عمل سے بتادیجئے کہ عزت نفس میرے پاس بھی ہے اور مجھے اس کی حفاظت کرنی اچھی طرح آتی ہے ۔
 بد مزاجی بد اخلاقی کا ایک حصہ ہے، اور بد اخلاقی شریعت میں انتہائی مذموم ہے۔ بدمزاجی کبھی تو خود پرستی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور کبھی دوسروں کو حقیر سمجھنے کی وجہ سے، ایک اور وجہ اپنے مقصد اور منصوبوں میں ناکامی ہوا کرتی ہے، آپ نے اپنا ایک ہدف بنا رکھا ہے، اس ہدف تک پہونچنے میں اگر آپ ناکام ہوجاتے ہیں، یا اس میں تاخیر ہو رہی ہے تو آپ کے اندر بد مزاجی پیدا ہوجاتی ہے، بد مزاج آدمی کے پاس سر تو ہوتا ہے لیکن اس میں غور وفکر کرنے والا دماغ کمزور پڑ جاتا ہے، ایسے میں بد مزاج آدمی اندر ہی اندر جلتا رہتا ہے، سلگتا رہتا ہے، اس جلنے اور سلگنے کا نقصان دوسروں کو تو پہونچتا ہی ہے خود اس کی اپنی ذات کوبھی پہونچ جاتا ہے،ماچس کی تیلی کو آپ نے دیکھا ہے اس کے پاس سر ہوتا ہے، دماغ نہیں ہوتا اس لیے ذراسی رگڑ سے جل اٹھتا ہے اور اپنے جسم کو خاکستر کر دیتا ہے، بد مزاج آدمی کا دیر سویر یہی حال ہوتا ہے۔
 بدمزاجی اپنے ساتھ بہت سارے منفی رویوں کو بھی ساتھ لاتی ہے، بد مزاجی کی وجہ سے حسد ، جلن ، بغض وعداوت، چغل خوری وغیرہ انسانی زندگی میں گھر کر لیتے ہیں، یہ رویہ انسانی رشتوں کے لیے زہر قاتل ہوتا ہے۔ اس کا علاج اپنے رویے میں تبدیلی ہے، جب تک رویوں میں تبدیلی نہیں آئے گی ، بدمزاجی ختم نہیں ہوگی۔

آگرہ ڈویژن میں انتخابات کے پیش نظر دو لاکھ سے زیادہ لوگوں پر لگائی گئی پابندی

آگرہ ڈویژن میں انتخابات کے پیش نظر دو لاکھ سے زیادہ لوگوں پر لگائی گئی پابندی

اتر پردیش میں اسمبلی انتخابات کو پرامن طریقے سے کرانے کے لیے پولیس نے انتشار پھیلانے والے عناصر کے خلاف شکنجہ کسنا شروع کر دیا ہے۔ اس کے تحت آگرہ ڈویژن کے آٹھ اضلاع میں دو لاکھ سے زیادہ لوگوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

آگرہ ڈویژن کے ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل آف پولیس راجیو کرشنا نے بتایا کہ انتخابات میں بدامنی پھیلانے والوں کی شناخت کرنے کے لئے الیکشن کمیشن کی ہدایت پر 'آپریشن پہچان' چلایا گیا ۔ اس کے تحت گزشتہ دس برسوں سے جیل میں بند بدمعاشوں کی تصدیق کی گئی۔ اس کے علاوہ گزشتہ پانچ انتخابات کے دوران جن لوگوں نے تنازع پیدا کیا تھا اور جن کے خلاف مقدمات درج کیے گئے، ایسے سبھی لوگوں کی فہرست پولیس کے پاس ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس مہم کے تحت آگرہ ضلع میں 57363 ، علی گڑھ میں 36222، کاس گنج میں 29315، متھرا میں 27126، فیروز آباد میں 20839، ہاتھرس میں 18705، مین پوری میں 10517 اور ایٹا میں 7864 لوگوں پر پابندی لگائی گئی ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...