Powered By Blogger

اتوار, جنوری 30, 2022

امارت شرعیہ کی دینی تعلیمی پالیسی___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

امارت شرعیہ کی دینی تعلیمی پالیسی___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ(9431003131)
 پالیسی (Policy)انگریزی زبان کا لفظ ہے، اس کے معنی اردو میں حکمت عملی، لائحہ عمل، طریقہ کار، اور مصلحت وقت کے آتے ہیں، یہ حکمت، دور اندیشی ، دانائی اور مصلحت پر مبنی ہوتی ہے، اس کے بنانے میں ادارہ کے سربراہ اور مملکت کے حکمراں کی فکر اور سوچ کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے۔ اس لیے پالیسیاں جامد نہیں ہوتی ہیں، یہ بدلتے حالات، تغیر پذیر زمانہ اور سربراہان کی سوچ کے اعتبار سے وقفہ وقفہ سے بدلتی رہتی ہے۔
امارت شرعیہ کا قیام انگریزی عہد حکومت میں ۲۶؍ جون ۱۹۲۱ء کو ہوا تھا، اس وقت ہندوستان میں انگریزوں کی تعلیمی پالیسی رائج تھی اور اس کامقصد ایک ایسی نسل کو پروان چڑھانا تھا جو گوشت وپوست کے اعتبار سے ہندوستانی ، اور دل ودماغ کے اعتبار سے مغربی افکار وخیالات کی حامل ہو اور انگریزوں کے اقتدار کے سورج کو غروب ہونے سے بچا سکے، اس لیے بانیٔ امارت شرعیہ مولانا ابو المحاسن محمد سجاد نے امارت شرعیہ کے ابتدائی عہد میں مکاتب دینیہ کے قیام پر زور دیا ، تاکہ مسلمانوں کو ایمان وعقائد اور بنیادی دینی مسائل سے واقفیت بہم پہونچائی جائے، بنیادی دینی تعلیم کی فراہمی اور اس کے حصول کو یقینی بنانے کی پالیسی جو بانیٔ امارت شرعیہ نے بنائی تھی، وہ الحمد للہ آج تک باقی ہے اور اس میں کسی دور میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، کیوں کہ بنیادی دینی تعلیم کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے اور اس سے کسی بھی قسم کی چشم پوشی کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان بنیادی مذہبی تعلیمات اور اقدار سے دور ہوجائیں، امارت شرعیہ نے اسے کبھی گوارہ نہیں کیا کیوں کہ اس کی بنیادہی تنفیذ شریعت علی منہاج النبوت پر ہے۔
 مولانا ابو المحاسن محمد سجاد ؒ اس بات کی ضرورت بھی محسوس کرتے تھے کہ ابتدائی مکاتب کا عمدہ نصاب تیار کیا جائے، انہوں نے ایک میٹنگ میں علماء کرام سے اپیل کی تھی کہ ’’آپ حضرات آج ہی سے غور وخوض شروع کردیں کہ وہ نصاب کن اصولوں پر بنایا جائے، اور کس حد تک رکھا جائے اور جو حضرات اس کے متعلق کوئی مسودہ تیار کریں وہ ہمارے نام روانہ فرمائیں؛ تاکہ ترتیب میں مجھے سہولت ہو اور آئندہ آپ کو بھی آسانی ہو۔ (مقالات سجاد ۸۰-۷۹)
بعد کے دنوں میں مکاتب امارت شرعیہ کے لیے ایک جامع تعلیمی منصوبہ خود کفیل نظام تعلیم کے عنوان سے مرتب کرکے رائج کیا گیا اور مکاتب دینیہ کے نصاب کو اس کا لازمی حصہ بنایا گیا، اور امارت شرعیہ کے حلقہ کے مکاتب میں اس نصاب کو بڑے پیمانے پر رائج کیا گیا، اور اس پر خصوصی توجہ دی گئی، احقر (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی) نے اپنے ایک مضمون ’’امارت شرعیہ کی بنیادی تعلیمی تحریک‘‘ کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا تھا: 
’’امارت شرعیہ کے دستور میں امیر کے فرائض میں زبانی اور کتابی ہر قسم کی تعلیم کوشامل کیاگیا۔ امارت کی پرانی فائل دیکھنے سے پتہ چلتاہے کہ تین سال کے قلیل عرصہ میں صرف پلاموں میں ۲۲ مکاتب قائم کیے گئے اوراگلے پانچ سال میں اس کی تعداد سوسے متجاوز ہوگئی، بعد کے دنوں میں ان علاقوں میں جہاں غریبی کی وجہ سے تعلیم کا کوئی نظم ممکن نہیں ہورہاتھا، امارت شرعیہ کے بیت المال سے امدادی رقوم ماہ بہ ماہ معلمین کے وظیفہ کے لیے منظور کی گئیں ، اور پابندی سے اسے ارسال کیاجاتا رہا ، آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے‘‘۔ (تعلیم- ترقی کی شاہ کلید ۳۳)
ساتویں امیر شریعت مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی ؒ کے زمانہ میں مکاتب کے نصاب تعلیم ، نظام تعلیم اور طریقۂ کار پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس ہوئی، چنانچہ مجلس عاملہ منعقدہ ۲۹؍ نومبر ۲۰۲۰ء  کو حضرت امیر شریعت سابع نے ایک چہار نفری کمیٹی تشکیل دی، جس میں موجودہ نائب امیر شریعت مولانا محمد شمشاد رحمانی ، راقم الحروف (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی)مفتی نذر توحید صاحب مظاہری اور ڈاکٹر یٰسین قاسمی رانچی کو اس کا رکن نامزد کیا ،قائم مقام ناظم کی حیثیت سے مولانا محمد شبلی قاسمی بھی کمیٹی میں شامل ہوئے، کمیٹی کے کنوینر مولانا محمد شمشاد رحمانی بنائے گیے، انہوں نے مکاتب کے لیے نئی تعلیمی پالیسی بنائی ، ہم لوگ آن لائن کئی مٹنگوں میں اس پر متفق ہوئے، ابھی اس کا نفاذ ہونا باقی تھا کہ حضرت امیر شریعت کا وصال ہو گیا، حضرت کے حکم پر بہار میں ہفتہ ترغیب تعلیم اور جھارکھنڈ میں عشرہ ترغیب تعلیم کے ذریعہ مسلمانوں میں بنیادی دینی تعلیم کے فروغ کے لیے بیداری لائی گئی، آٹھویں امیر شریعت مکاتب کے نظام کو اس سے آگے بڑھانا چاہتے ہیں اور دینی تعلیم کے ساتھ بعض عصری علوم کو بھی مکتب کے زمانہ میں مفید سمجھتے ہیں، حضرت کی توجہ خود کفیل نظام تعلیم کو مضبوط کرنے اور ہر بڑی آبادی تک پہلے مرحلہ میں اسے پہونچانے کی ہے اور ۱۴۴۳ھ میں  کم از کم سو مکاتب قائم کرنے کا ہدف ہے اور اب تک الحمد للہ تیس جگہوں میں تعلیم شروع ہو چکی ہے، ۲۴؍ جگہوں پر کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے، ۴۶؍ جگہوں پر مکاتب کے قیام کو اصول طور پر اب تک منظوری مل چکی ہے۔یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔
 مکاتب کے بعدمدارس اسلامیہ کی سرپرستی اور اس کی علمی فکری معاونت بھی امارت شرعیہ کی دینی تعلیمی پالیسی کا حصہ رہی ، مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد ؒ نے اس بات پر زور دیا کہ غیر منقسم بہار کے تمام مدارس اسلامیہ عربیہ میں ایک ہی  نصاب رائج ہو ، ایک مجلس ممتحنہ ہو جو امتحان کے اصول ونوعیت باعتبار کتاب ودرجات قائم کرے اور تمام مدارس کے نتائج کو با ضابطہ شائع کیا جائے اور بغیر کامیابی طلبہ کو ترقی نہ دی جائے۔ (مقالات سجاد ۷۷-۷۶) مولانا کی خواہش یہ بھی تھی کہ اعلیٰ نمبرات سے کامیاب ہونے والوں کو ایک سال تک وظیفہ دیا جائے، جو طلبہ ایک مدرسہ سے نکل کر دوسرے مدارس میں داخل ہونا چاہیں ان سے سابقہ مدرسہ کی تصدیق طلب کی جائے اور مدارس کے ذمہ دار یہ تصدیق نامہ دینے سے انکار نہ کریں۔ اسی طرح صوبہ بہار کے کسی ایک مدرسہ کو جامعہ(یونیورسٹی) کا درجہ دے دیا جائے۔
 مدارس کے سلسلہ میں اس پالیسی کے نتیجہ میں بعد میں مدرسہ اسلامیہ بتیا اور مدرسہ اسلامیہ بلیا پور دھنبادکا قیام براہ راست امارت شرعیہ کی سرپرستی میں ہوا، یہ دونوں مدارس خاص طور سے امارت شرعیہ کے سمجھے جاتے رہے، ان دونوں کا تعلق امارت شرعیہ سے سر پرستی سے اوپر کا تھا، یہ اتفاق ہے کہ ان دونوں مدرسہ سے امارت کا تعلق اب پہلے جیساباقی نہ رہا،بلکہ مدرسہ اسلامیہ بلیا پور کا تعلق امارت شرعیہ سے مولانا ابو المحاسن محمد سجاد ؒ کی مدارس کے نظام کے سلسلہ میں جو رائے تھی ، اسی بنیاد پر ۱۹۹۵ء میں حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ نے مدرسہ ضیاء العلوم رام پور رہوا میں ایک میٹنگ بلا کر وفاق المدارس قائم کیا جو آج بھی قائم ہے، مدارس کے نصاب ونظام تعلیم اور نظام امتحان میں یکسانیت لانے کے لیے کام کر اس وفاق سے ان دنوں دوسو تہتر مدارس ملحق ہیں، لاک ڈاؤن کی وجہ سے گودوسال سے امتحانات نہیں ہوئے ہیں، لیکن وفاق کے ذریعہ ضروری ہدایات ان مدارس کو دی جا رہی ہیں اور اس گائیڈ لائن کے مطابق مدارس کام کر رہے ہیں، جزوی فرق کے ساتھا ن مدارس میں جو نصاب رائج ہے، وہ درس نظامی ہی کا ہے۔ 
حضرت امیر شریعت رابع مولانامنت اللہ رحمانی اور ان کے دو خصوصی معاون مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی اور مولانا سیدنظام الدین ؒ کے عہد میں دینی تعلیم کے حوالہ سے جو پالیسی اختیار کی گئی اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ میں عصری علوم کو پورے طور پر داخل نہ کیا جائے، ایسا کرنے سے مدارس کی روح نکل جائے گی ، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی فرمایا کرتے تھے کہ مدارس اسلامیہ اصلا مذہبی علوم کی تعلیم کے لیے ہیں اور ان کو اسی کے لیے خاص رکھنا چاہیے، ان کی سوچ تھی کہ ا گر میڈیکل کالج میں انجینئر نہیں بنائے جاتے ، انجینئر نگ کالج سے ڈاکٹر تیار ہو کر نہیں نکلتے تو پھر مدارس ہی سے یہ کیوں چاہا جائے کہ وہاں سے فارغ ہونے والا سب کچھ بن کر نکلے، ان کے زمانہ میں دار العلوم الاسلامیہ قائم ہوا اوراس کا نصاب حضرت قاضی صاحب ؒ کی نگرانی میں بنا، وفاق المدارس کا نصاب بھی قاضی صاحب کی نگرانی میں ان کے مشورے سے بنایا گیا،انہوں نے دونوں نصاب میں ابتدائی درجات میں بقدر ضرورت انگریزی ، ہندی اور حساب کوشامل کیا ، یہ نصاب آج بھی امارت شرعیہ کے دار العلوم الاسلامیہ اور وفاق المدارس الاسلامیہ میں رائج ہے۔
موجودہ امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کی خواہش ہے کہ موجودہ نصاب تعلیم پر نظر ثانی کی جائے، حالیہ مجلس شوریٰ میں ایک نصابی کمیٹی بنانے کی بات بھی آئی تھی جو ابھی حضرت کے زیر غور ہے، حضرت کی تعلیمی پالیسی یہ ہے کہ نئے نصاب تعلیم میں کچھ ایسی تبدیلی لائی جائے کہ دینی وعصری علوم کی تفریق کم ہوجائے اور مدارس کے فارغین دوسرے محاذ پر بھی قابل قدر خدمات انجام دے سکیں،ا س سے تعلیم کی دوئی کا تصوربھی ختم ہوجائے گا، علماء ودانشوران کے درمیان جو خلیج ہے اسے پاٹا جا سکے گا،اور طلبہ کا رجوع مدارس اسلامیہ کی طرف بڑھے گا۔حضرت دامت برکاتہم کایہ خیال اصلاحضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد رحمۃ اللہ کی فکر کا پَرتو ہے، حضرت مولانا محمد سجاد ؒ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ 
’’ چوں کہ مدارس عربیہ اسلامیہ میںجو نصاب تعلیم رائج ہے اور جو طریق تعلیم وتربیت عموما شائع ہے وہ ایک حد تک موجودہ ضروریات کا لحاظ رکھتے ہوئے کافی نہیں ہے، انہیں وجوہ سے کثرت مدارس کے با وجود علمی کیفیت روز بروز انحطاط پذیر ہوتی جاتی ہے، اگرچہ علماء کی تعداد میں ہر سال ایک غیر معمولی اضافہ ہو تا رہتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی بہت سے حضرات کے دلوں سے مدارس عربیہ اسلامیہ کی وقعت زائل ہو گئی ہے اور انہیں وجوہ سے ملک میں ایک عام بد دلی پھیلی جا رہی ہے۔ (مقالات سجاد : اصلاح تعلیم ونظام مدارس عربیہ ۷۶)

اردو کے لیے عملی اقدام مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

اردو کے لیے عملی اقدام 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
بہار میں اردو تحریک کی تاریخ انتہائی قدیم ہے، اس تحریک کے نتیجے میں ہی آج اردو بہار کی دوسری سرکاری زبان ہے، آج بھی اردو کارواں، اردو میڈیا فوم، اردو ایکشن کمیٹی، حلقہ ادب، اردو فارسی ایکشن کمیٹی، کاروان ادب، کاروان اردو، اردو کونسل بہار تنظیمیں اور انجمن ترقی اردو وغیرہ کے نام سے مختلف تنظیمیں اردو کو زمینی اور سرکاری سطح سے زمین پر لانے کے لیے کام کر رہی ہیں،اردو اساتذہ کی تنظیمیں اس کے علاوہ ہیں، ان تمام میں آپسی ربط نہیں ہے اور کئی تنظیمیں اپنے طور پر کام کو آگے بڑھانا چاہتی ہیں، اس لیے ان کی آواز میں دم پیدا نہیں ہو رہا ہے اس انتشار واختلاف نے ہمیں یہ دن دکھایا ہے کہ ہماری آواز سرکاری سطح پر بھی بے جان ہے اور اس کے اثرات جس پیمانے پر دکھائی دینے چاہیے نہیں دکھ رہے ہیں۔قرآن کریم میں اسی لیے آپسی جھگڑوں سے منع کیا ہے اور فرمایا کہ اگر تم لڑتے رہے تو تحریک ناکام ہوجائے گی اور ہوا اکھڑ جائے گی یعنی تمہارا رعب ودبدبہ ختم ہوجائے گا۔
 اس درمیان بڑی اچھی خبر مظفر پور سے آئی ہے، عبد السلام انصاری وہاں کے ضلع تعلیمی افسر ہیں، انہوں نے سرکاری سطح پر عملی اقدام کرکے ہمیں بتایا کہ کام اس طرح کیا جاتا ہے، ۲۰۱۲ء میں انہوں نے ضلع پروگرام افسر مظفر پور کی حیثیت سے سولہ سو اردو اساتذہ کی بحالی کا اعلان نکلوایا تھا، جس پر بحالی کا عمل آج بھی چل رہا ہے، انہوںنے عالم وفاضل کی ڈگری والوں کو بھی پرموشن دیا اور اردو اسکولوں میں بڑی تعداد میں اردو ہیڈ ماسٹر کا تقرر کیا، پوری ریاست میں مظفر پورپہلا ضلع ہے جہاں فہرست تعطیلات اردو میںسرکاری طور پر اردو میں دستیاب ہے،جو دوسرے اضلاع کے لیے بھی نمونۂ عمل ہے۔ یقینا اس میںمظفر پور کی قومی اساتذہ تنظیم کی محنت کا بھی دخل ہے، اس کے لیے یہ حضرات مبارکباد کے مستحق ہیں۔
 اگر اسی طرح اردو تنظیمیں دوسرے اضلاع میں بھی جد وجہد کریں اور سرکاری سطح پر دباؤ بنائیں تو اردو کا بہت کام ہو سکتا ہے، لیکن اس کے لیے مربوط لائحۂ عمل بنانا ضروری ہوگااور یہ بھول جانا ہوگا کہ اتحاد کا مطلب ہمارے بینر تلے کام کرنا ہے، یہ ذہن نشیں کرنا ہوگا کہ اتحاد مشترکہ مقاصد کے متحدہ جد وجہد کا نام ہے۔

ہفتہ, جنوری 29, 2022

بہارکی ایک عدالت کاتاریخ سازفیصلہ : 6 سالہ معصوم بچی کے ساتھ زناکرنے والے کودی پھانسی کی سزا نئی دہلی ( ایجنسی )

بہارکی ایک عدالت کاتاریخ سازفیصلہ : 6 سالہ معصوم بچی کے ساتھ زناکرنے والے کودی پھانسی کی سزا نئی دہلی ( ایجنسی )بہار میں ایک عدالت نے 48 سالہ شخص کو 6 سالہ کی معصوم بچی کے ساتھ عصمت دری کرنے کا قصوروار پایا ہے اور اسے پھانسی کی سزا سنائی ہے۔ بہار کے ارریہ میں یہ شرمناک واقعہ تقریباً دو ماہ قبل پیش آیا تھا جس کے خلاف معصوم بچی کے گھر والوں نے تھانہ میں شکایت کی تھی۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ارریہ کے اے ڈی جے-6 و پاکسو ایکٹ کے خصوصی جج ششی کانت رائے کی عدالت نے ضلع کے بھرگاما تھانہ حلقہ کے ویر نگر مغرب کے رہنے والے مرحوم شمشیر کے بیٹے ملزم محمد میجر کو پھانسی کی سزا سنائی۔
پربھات خبر میں شائع ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تعزیرات ہند کی دفعہ 376 کے تحت پھانسی کی یہ سزا سنائی گئی ہے۔ علاوہ ازیں دفعہ 3(2)(5) ایس سی/ایس ٹی ایکٹ کے تحت تاحیات قید بامشقت اور 10 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں، پاکسو ایکٹ کے تحت متاثرہ کو 10 لاکھ روپے معاوضہ دیے جانے کا بھی حکم ہوا ہے۔
آج تک پر بھی اس سلسلے میں ایک خبر شائع ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ جمعرات کو سنائے گئے اس فیصلے میں عدالت نے کہا کہ قصوروار کو تب تک پھانسی پر لٹکائے رکھا جائے جب تک کہ اس کی آخری سانس رک نہ جائے۔ بتایا جاتا ہے کہ متاثرہ کی ماں کی شکایت پر پولیس نے معاملہ درج کر لیا گزشتہ 20 جنوری کو عدالت نے اس معاملے میں نوٹس لیا۔ بعد ازاں 22 جنوری کو اس معاملے میں ملزم کے خلاف ثبوت پیش کیے گئے۔
عصمت دری کے ملزم کو فوری اور سخت سزا ملنے کے بعد یہ معاملہ موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ ضلع اور متاثرہ کنبہ کے لوگ عدالت کے اس فیصلے سے کافی خوش نظر آ رہے ہیں۔ متاثرہ بچی کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ قصوروار شخص کو سزائے موت دیے جانے کی خبر دل کو کافی حد تک سکون پہنچانے والی ہے۔

ممبئی میں مسجد کے احاطہ میں ہنگامہ آرائی نمازیوں نے مینیجر اور دفتر کا گھیراؤ کیا

ممبئی میں مسجد کے احاطہ میں ہنگامہ آرائی نمازیوں نے مینیجر اور دفتر کا گھیراؤ کیا

کل جنوبی وسطی ممبئی میں واقع حاجی اسماعیل حاجی الانا سینی ٹوریم کی مسجد میں مسجد کے احاطہ میں ہنگامہ برپا ہوگیا،ٹرسٹ کےمینیجرشاہد ابراھیم اور عہدیداران پر نمازیوں سے بدسلوکی کا الزام عائد کیا ہے اور پولیس بچوں سے مبینہ طورپرمارپیٹ کرنے کے سلسلے میں منیجر اور سپروائزر کو پولیس لے گئی ہے جبکہ چیف ٹرسٹی منصور کرسی والا کو پولیس نے طلب کرلیا ہے۔پولیس انسپکٹر شندے اور دیگر اعلی افسران جائے حادثے پر پہنچ گئے ،سنیئر انسپکٹر ناصر کلکرنی نے کارروائی کا حکم دیا ہے۔ہزاروں افراد نے احتجاج کیا ۔

واضح رہے کہ 2018 اور گزشتہ سال نومبر میں بھی تبلیغی جماعت کے ارکان اور ٹرسٹ کے درمیان تنازعہ نے نماز جمعہ کے موقع پر سنگین صورتحال پیدا کر دی تھی۔

کل نماز عشاء کے دوران سینی ٹوریم کے احاطہ میں واقع مسجد میں ایک 12 سال کے بچے کو مسجد میں داخل ہونے پر تنازع پیدا ہوگیا اور نمازیوں نے مینیجر اور دفتر کا گھیراؤ کرلیا۔ نمازیوں کے ساتھ بدسلوکی کے بعد سنگین حالت ہوگئی اور آس پاس کی مسلم آبادی سے ہزاروں افراد وہاں پہنچ گئے اور پولیس کی بھاری جمعیت بھی پہنچ گئی ۔ ایک بچے کے ساتھ مارپیٹ کے نتیجے میں منیجر شاہد سیٹھ کو پولیس کی وین میں پولیس اسٹیشن لے جایا گیا۔نمازیوں کے ساتھ بدسلوکی کے خلاف لوگوں کا احتجاج بڑھ گیا ہے۔ایک نمازی شریف گھانچی نے کہاکہ یہاں نصب بورڈ پر10 سال سے زیادہ عمر کے بچوں کو مسجد میں لانے پر تنازع پیدا ہوا اور معاویہ خواجہ نامی بچے کی چندروز قبل منیجر شاہد نے شرارت کا الزام لگا کر پٹائی کردی تھی اور ابوبکر شریف کو بھی نشانہ بنایا گیا۔تفصیلات کا انتظار ہے۔

انٹاپ ہل پولیس اسٹیشن کے سنئیر انسپکٹر ناصر کلکرنی پولیس اسٹیشن گئے اور کارروائی جاری ہے،لوگوں میں شدید ناراضگی اور غم وغصہ پایا جاتا ہے

جمعہ, جنوری 28, 2022

شراب - ام الخبائث مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

شراب - ام الخبائث 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 بہار میں شراب لانے لے جانے، پینے پلانے پر پابندی ہے ، اس کے با وجود شراب اور منشیات کے اسمگلر اس سے باز نہیں آ رہے ہیں، ابھی حال ہی میںکئی مقامات پر زہریلی شراب پینے سے لوگ موت کے منہہ میں چلے گیے، سرکار کی جانب سے انتہائی سختی کے باوجود شراب کی سپلائی بہار میں جاری ہے، اور پولیس کا عملہ اس پر قابو نہیں پا رہا ہے۔ شراب ام الخبائث ہے، یہ سارے گناہوں کی جڑ ہے ، انسان اس کے زیر اثر آنے کے بعد کچھ بھی کر گذرتا ہے ، حال ہی میں پانی پت کے گاؤں چبلا داس سے ایک خبر آئی تھی کہ شراب کے لیے پیسے نہ دینے کی وجہ سے ایک لڑکا نے اپنے باپ کوپتھر مار مار کر ہلاک کر دیا، باپ کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے شراب کے لیے پیسہ نہ دینے کے ساتھ اپنے بیٹے امیت کو جس کی عمر صرف بتیس سال تھی ، کچھ نصیحت کر دیا تھا اور ایک طمانچہ بھی لگا دیا تھا ، بیٹا انتظار میں تھا ، ۲۴؍ گھنٹے کے بعد جب راج کپور اسٹیشن کی طرف ٹہلنے نکلا تو بیٹے نے اس پر پیچھے سے وار کر دیا اور اس وقت تک پتھر مارتا رہا جب تک اس کی موت نہیں ہو گئی۔
 شراب کی وجہ سے جرم کا کوئی یہ پہلا واقعہ نہیں ہے ، اخبار میں اس قسم کی خبریں روزانہ آتی رہتی ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ شراب اور دیگر منشیات سے نوجوانوں کو بچانے کے لیے بیداری مہم چلائی جائے اور اس کے مضر اثرات سے لوگوں کو آگاہ کیاجائے اور بتایا جائے کہ شراب نوشی اور دیگر منشیات کا استعمال انسانی صحت اور صالح سماج کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے، تبھی تو اللہ تعالیٰ نے اسے ناپاک اور شیطانی عمل قرار دیا ہے ، اگر ہم اس شیطانی عمل سے سماج کو بچا سکے تویہ اس دور کا بڑا اور قابل قدر کام ہوگا۔

جمعرات, جنوری 27, 2022

جمہوریہ کا دارالعلوم حفظ القرآن چنئی میں جشن یوم

 جمہوریہ کا دارالعلوم حفظ القرآن چنئی میں جشن یوم 
چینئی(پریس نوٹ)  ریاست تمل ناڈو کی دارالحکومت شہرچنئی میں واقع مشہور ادارہ ''دارالعلوم حفظ القرآن '' کنا داسن نگرمیں 73ویں یوم جمہوریہ کے موقع پر ''جشن یوم جمہوریہ ''کے عنوان پرایک تہذیبی اور ثقافتی پروگرام کاانعقاد کیا گیاجس کی صدارت مولانا ساجد حسین ندوی( اسسٹنٹ پروفیسردی نیوکالج،چینئی) نے فرمائی۔ اس پروگرام میں بڑی تعداد میں اساتذہ و طلباء کے علاوہ عمائدین شہر نے شرکت فرمائی۔
 دارالعلوم حفظ القرآن کے نائب سیکریٹری جناب اکرام الحق صاحب اور دارلعلوم کے مہتمم حضرت مولاناقاری فیاض احمدرحیمی صاحب نے مہمان خصوصی کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر پرچم کشائی کی اور طلباء نے قومی ترانہ و ترانۂ ہندی پیش کیا۔
 دارالعلوم کے نائب سیکریٹری جناب اکرام الحق صاحب نے دستور ہند اور یوم جمہوریہ پرایک تفصیلی گفتگو کی اور اپنی تقریرمیں انہوں نے   اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے طلباء کو آئین ہند کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ تاکہ ملک میں پنپ رہی عصبیت اور سر اٹھاتی فسطائی طاقتوں کا بھرپور جواب دے سکیں ۔انہوں نے آزادیِ ہند کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ہمارا ملک ہندوستان ایک لمبی جنگ کے بعد ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کوآزاد ہوا اور ۲۶؍ جنوری ۱۹۵۰ ء کوآئن ہند کا نفاذ عمل میں آیا۔
طلباء نے یوم جمہور کے عنوان پر تقاریر پیش کی جس میںکہا کہ ہمارا ملک ہندوستان بیحدخوبصورت اور پر امن ملک ہے،اور اس کی خوب صورتی کا راز اس بات میں مضمر ہے کہ یہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ رہتے ہیں،مختلف رنگ ونسل اور ذات پات سے تعلق رکھنے والے لوگ بستے ہیں،مختلف زبان وادب اور تمدن وکلچر کے لوگ یہاں آباد ہیںاورمذہب وملت،رنگ ونسل اور زبان و کلچر کے اس قدر اختلاف کے باوجود بھی ہمارے ملک میں امن و سلامتی اور آپسی بھائی چارہ ہے۔
مہمان خصوصی پروفیسر ساجد حسین ندوی نے جمہوریت اور آزادی کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ : آج ہمارا ملک آزاد ہے اور ہم امن و سلامتی کے ساتھ اس ملک میں رہ رہے ہیں یہ سب ہمارے اسلاف کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔یہی مدارس ہیں جن کے ستوپوں نے اس ملک کی آزادی کے لیے اپنی جانوں کو نذرانہ پیش کیا اس کے باوجود ہم پریہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ہم وطن پرست نہیں، تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ اس ملک کی آزادی میں جتنا خون ہمارا بہاہے اتنا شاید کس اور کا بہاہوگا۔ انہوں نے جمہوریت روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا آزادی کے بعد ہندوستان کا آئین جمہوری بنا اور اس قانون سازی کے لیے ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈ کر سربراہی میں ایک ٹیم تشکیل دی گئی انہوں وہ دستور بناکر پیش کیا اور 26جنوری 1950کو  اسے نافذ کیا گیا۔ اس دستور کی سب بڑی خصوصیت ہے کہ اس ہر مذہب اور ہر قوم کو اپنے اپنے طور پر زندگی گذارنے کی آزادی حاصل کی ہے۔اخیر میں دارالعلوم حفظ القرآن کے مہتمم قاری فیاض احمد رحیمی نے تمام مہمانا شکریہ ادا رکیا اور اسی کے ساتھ پروگرام اختتام پذیر ہوا۔

شراب - ام الخبائث مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

شراب - ام الخبائث 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 بہار میں شراب لانے لے جانے، پینے پلانے پر پابندی ہے ، اس کے با وجود شراب اور منشیات کے اسمگلر اس سے باز نہیں آ رہے ہیں، ابھی حال ہی میںکئی مقامات پر زہریلی شراب پینے سے لوگ موت کے منہہ میں چلے گیے، سرکار کی جانب سے انتہائی سختی کے باوجود شراب کی سپلائی بہار میں جاری ہے، اور پولیس کا عملہ اس پر قابو نہیں پا رہا ہے۔ شراب ام الخبائث ہے، یہ سارے گناہوں کی جڑ ہے ، انسان اس کے زیر اثر آنے کے بعد کچھ بھی کر گذرتا ہے ، حال ہی میں پانی پت کے گاؤں چبلا داس سے ایک خبر آئی تھی کہ شراب کے لیے پیسے نہ دینے کی وجہ سے ایک لڑکا نے اپنے باپ کوپتھر مار مار کر ہلاک کر دیا، باپ کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے شراب کے لیے پیسہ نہ دینے کے ساتھ اپنے بیٹے امیت کو جس کی عمر صرف بتیس سال تھی ، کچھ نصیحت کر دیا تھا اور ایک طمانچہ بھی لگا دیا تھا ، بیٹا انتظار میں تھا ، ۲۴؍ گھنٹے کے بعد جب راج کپور اسٹیشن کی طرف ٹہلنے نکلا تو بیٹے نے اس پر پیچھے سے وار کر دیا اور اس وقت تک پتھر مارتا رہا جب تک اس کی موت نہیں ہو گئی۔
 شراب کی وجہ سے جرم کا کوئی یہ پہلا واقعہ نہیں ہے ، اخبار میں اس قسم کی خبریں روزانہ آتی رہتی ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ شراب اور دیگر منشیات سے نوجوانوں کو بچانے کے لیے بیداری مہم چلائی جائے اور اس کے مضر اثرات سے لوگوں کو آگاہ کیاجائے اور بتایا جائے کہ شراب نوشی اور دیگر منشیات کا استعمال انسانی صحت اور صالح سماج کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے، تبھی تو اللہ تعالیٰ نے اسے ناپاک اور شیطانی عمل قرار دیا ہے ، اگر ہم اس شیطانی عمل سے سماج کو بچا سکے تویہ اس دور کا بڑا اور قابل قدر کام ہوگا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...