Powered By Blogger

منگل, فروری 01, 2022

آن لائن تعلیم __مسائل ومشکلاتمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

آن لائن تعلیم __مسائل ومشکلات
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
کورونا وائرس کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند ہیں اور ایسالگتا ہے کہ مدارس اسلامیہ کا تعلیمی سال بندی میں ہی نکل جائے گا، ایسے میں بہت سارے لوگ آن لائن تعلیم کی وکالت کرتے ہیں ، بلکہ بہت سارے ادارے عملاً آن لائن تعلیم کا اہتمام کر رہے ہیں اور مطمئن ہیں کہ تعلیمی نظام جاری ہے ۔ اس نظام کا آغاز پہلی بار ویسٹرن بی ہیورل سائنس انسٹی چیوٹ لاجولا کیلوفورنیا نے ۱۹۸۲ئ؁ میں کیا تھا اور اسکول آف منیجمنٹ اینڈ اسٹریجٹک اینڈریز میں اس کا تجربہ کیا اور کمپیوٹر کانفرنسنگ کے ذریعہ بزنس ایگزیکیٹوکی شروعات کی ، ۱۹۸۹ئ؁ میں امریکہ کی فینکس یونیورسیٹی نے اسے اپنایا اور ۱۹۹۸ئ؁ آتے آتے امریکہ کی کئی بڑی یونیورسیٹیوں نے اسے اپنا لیا اور آن لائن تعلیمی سلسلہ شروع کیا، لیکن یہ طریقہ تعلیم اب تک اس قدر مقبول نہیں ہوا کہ اسکول و کالج کھولنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔ 
ہندوستان میں بھی یہ طریقہ پہلے سے رائج ہے اور اعلیٰ نصاب کی تکمیل کے لئے اسے استعمال کیا جاتا رہا ہے، کیوں کہ اس کی وجہ سے مختلف علوم و فنون کے ماہرین سے استفادہ آسان ہوتا ہے، اس کی اسی اہمیت کے پیش نظر ہندوستان میں بڑے پیمانے پر اس کی مارکیٹنگ کی جاتی رہی ہے، ۲۰۱۶ئ؁ میں ہندوستان میں آن لائن ایجوکیشن کی مارکیٹ چوبیس کڑوڑ ستر لاکھ امریکی ڈالر تھی، اب کوونا وائرس کی وجہ سے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ۲۰۲۲ئ؁ کے آخرتک یہ۱۰۹۶؍ ارب امریکی ڈالر کی حد کو پار کرلے گا، تعلیم کی مارکیٹنگ کرنے والے اس پر پوری توجہ اس لئے بھی صرف کر رہے ہیں کہ کلاس روم کے تعلیمی نظام کی بہ نسبت آن لائن تعلیم پر ایک سو پچھتر (۱۷۵)فی صد کم خرچ آتا ہے، لیکن یہ تصور کا ایک رخ ہے۔ 
دوسرا رخ یہ ہے کہ ہندوستان اب بھی غریب ملک ہے، یہاں یومیہ آمدنی فی کس لاک ڈاؤن کے پہلے بھی ۲۔۳ امریکی ڈالر سے زیادہ نہیں تھی، ایک سروے کے مطابق ایسے لوگوں کی تعداد اکاسی کڑوڑ بیس لاکھ تھی، لاک ڈاؤن کے بعد ایسے لوگوں کی تعداد اکانوے کڑوڑ پچاس لاکھ ہو گئی ہے ۔ ۲۔۳ امریکی ڈالر کا مطلب آج کے اعتبار سے صرف دو سو انتالیس روپئے ہے، اتنی کم آمدنی میں آدمی اپنی ضروریات زندگی کھانا، کپڑا اور مکان کے لئے فکرمند ہوگا،یا اپنے بچوں کو انڈرائیڈ موبائل ، ٹیبلیٹ یا لیپ ٹوپ خرید کر دیگا یا اور خرید بھی دے کسی طرح تو ماہانہ انٹرنیٹ کا خرچہ کہاں سے لائے گا، بھوکے رہ کر بچوں کے مستقبل کے لئے یہ سب کر بھی لے تو دیہات اور گاؤں میں موبائل چارج کرنے کے لئے بجلی کہاں سے دستیاب ہوگی، ان میں سے کوئی ایک بھی کڑی ٹوٹی تو آن لائن تعلیم سے فائیدہ اٹھانا بچوں کے لئے مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا۔ 
آن لائن تعلیم کی حمایت کرنے والے بڑی آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ اب ہر شخص کے پاس انڈرائیڈ موبائل ہے، اس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے، ہندوستان جنگلوں اور دیہاتوں میں بھی بستا ہے، بلکہ ساٹھ سے ستر فی صدی آبادی وہیں بستی ہے، جہاں موبائل کا نیٹ ورک نہیں رہتا اور بجلی غائب ہوتی ہے تو ہفتوں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔
 ان ساری مشکلات پر قابو پا لیاجائے توبھی آن لائن تعلیم کلاس روم کا بدل نہیں ہے، کلاس روم میں استاذ صرف پڑھاتا ہی نہیں، بچوں کی نفسیات اس کی حرکات و سکنات پر بھی نگاہ رکھتا ہے، اس کے ہوم ورک اور روز مرہ کی کاپیوں کو بچوں کے سامنے چیک کرکے ان کی غلطیوں کی نشان دہی کرتا ہے، بچے کلاس روم میں صرف استاذ کا لکچرہی نہیں سنتے وہ اپنے ذہن میں اٹھنے والے سوالوں کے لئے بھی استاذ سے رجوع کرتے ہیں اور جواب پاتے ہیں، استاذ کے لکچر کی طرف طلبہ کی توجہ مرکوز ہوتی ہے۔
 آن لائن کلاس میں بچہ گھر پر ہوتا ہے، اسے اسکول کا ماحول نہیں ملتا، گھر میں دوسرے بچے اورلوگ دوسری مشغولیت میں لگے ہوتے ہیں، گھر میں ہو رہے شور شرابے سے طلبہ کا ذہن اسباق پرمرکوز نہیں ہو پاتا، اساتذہ بھی طلبہ پر آن لائن کلاس میں توجہ نہیں دے سکتے ، ان کی ساری توجہ اسکرین پر رہتی ہے، بچہ لیپ ٹاپ کے اسکرین پر بیٹھا کیا کر رہا ہے، یہ استاذ کو معلوم نہیں ہوتا اور بیش تر گارجین کی دلچسپی اپنی کم علمی اور صلاحیتوں کے فقدان کی وجہ سے آن لائن کلاس کے وقت بچوں کی طرف نہیں ہوتی، وہ صرف موبائل یا لیپ ٹاپ پر اسے بٹھا کر مطمئن ہو جاتے ہیں اور بچے کارٹون اور ڈیجیٹل گیم میں لگ جاتے ہیں، جب کہ کلاس روم میں عموماً ایسا نہیں ہوتا ۔ 
جو لوگ اس کام پر لگائے گئے ہیں وہ اساتذہ ہی ہیں، لیکن انہیں اس طریقۂ تدریس کی تربیت نہیں دی گئی ہے اور انہیں یوں ہی بورڈ اور اسکرین پر کھڑا کر دیاگیا ہے، یہ عجیب و غریب بات ہے کہ کلاس روم میں پڑھانے کے لئے تو دو سال کی ٹریننگ ضروری قرار دی جائے اور آن لائن تعلیم کے لئے دس بیس روز کاتربیتی کورس بھی نہ کرایا جائے ، یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ کلاس روم میں جو الٹا سیدھا استاذ پڑھا دیتاہے اس کا کوئی رکارڈ نہیں ہوا کرتا، معلومات بچوں میں صحیح منتقل ہوتی ہے یا غلط اس کا جائزہ لینے والا کوئی نہیں ہوتا، لیکن آن لائن کلاس کا رکارڈ ہوتاہے اور ہمیں اندیشہ ہے کہ بعض وجوہات سے ہماری جگ ہنسائی نہ ہو، جیساکہ اساتذہ سے ذرائع ابلاغ والوں کے ذریعہ لئے گئے انٹرویو سے باربار خفت کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔ 
یہی وجہ ہے کہ جو لوگ آن لائن تعلیم دلوارہے ہیں اور ابتدائی نہیں اعلیٰ درجات میں ماہر پیشہ ور اساتذہ کو اس کام میں لگا رکھا ہے، وہ بھی اس طریقۂ تعلیم سے مطمئن نہیں ہیں، وہ اسے گپ شپ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے، جب اعلی درجات میں اس طریقہ تعلیم کا فائیدہ اس قدر نہیں ہوا کہ نصاب کو مکمل قرار دے کر امتحان لیا جائے اور بچوں کی کامیابی ، ناکامیابی کی بنیاد پر ترقی کا فیصلہ لیا جائے ، تو بھلا پرائمری اور ثانوی درجات کے بچے کس قدر اس طریقۂ تعلیم سے استفادہ کر سکیں گے، جگ ظاہر ہے۔ 
ایسے میں دو سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے، ایک یہ کہ جو اساتذہ آن لائن پڑھا رہے ہیں یا پڑھانا چاہتے ہیں، سرکاری سطح پر ان کی تربیت کا نظم کیا جائے ، دوسرے کرونا وائرس سے بچنے کے لئے جو گائید لائن حکومت نے دیا ہے اس کی پابندی اور پاسداری کرتے ہوئے اسکول کو کھولا جائے، ثانویہ اور اعلیٰ درجات میں تویہ چنداں مشکل نہیں ہے، جب کارخانے اور دفاتر پچاس فی صد کارکنوں کے ساتھ کھولے جا سکتے ہیں تو کئی شفٹ میں سوشل ڈسٹنسنگ کا خیال کرتے ہوئے تعلیمی ادارے اپنی سرگرمیاں کیوں نہیں جاری رکھ سکتے، ایسا لگتا ہے کہ سرکار کی نظر میں معاشی مسائل کے مقابلہ میں تعلیم کی بہت اہمیت نہیں ہے، اس لئے معاشی سرگرمیوں کے لئے چھوٹ دی جارہی ہے اور تعلیمی سرگرمیوں پرمضبوط پہرہ بحال رکھا ہے، اگر کورونا کا اتنا ہی ڈر ہے تو اساتذہ کو بھی اسکول و مدرسہ کی حاضری کا پابند نہیں کرنا چاہئے۔

پیر, جنوری 31, 2022

"زاویۂ نظر کی آگہی" ____ میرے مطالعہ کی روشنی میںعبدالرحیم برہولیاوی، استاد معھدالعلوم الاسلامیہ، چک چمیلی، سرائے، ویشالی، بہا ر

"زاویۂ نظر کی آگہی" ____ میرے مطالعہ کی روشنی میں

عبدالرحیم برہولیاوی، استاد معھدالعلوم الاسلامیہ، چک چمیلی، سرائے، ویشالی، بہا ر رابطہ نمبر: 9308426298
ابھی میرے سامنے سید محمود احمد کریمی (ایڈوکیٹ)، محلہ سیناپت، دربھنگہ کی پہلی تخلیقی تصنیف ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ "زاویۂ نظر کی آگہی" ہے۔ محمود کریمی صاحب کی یہ پہلی تخلیقی تصنیف ضرور ہے؛ مگر وہ ترجمہ نگاری کے میدان کے ماہرین میں ہیں، اردو و انگریزی دونوں زبانوں میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں؛ اسی لیے اس صنف میں اردو سے انگریزی میں ابھی تک گیارہ (11) کتابوں کا ترجمہ کرچکے ہیں، جو شائع ہوکر مقبول خاص و عام ہوچکی ہیں۔ وہ کتابیں درج ذیل ہیں:
 1: عضویاتی غزلیں (organvise ghazlen)،
2: ہر سانس محمد پڑھتی ہے (Encomium to Holy Prophet )،
3: بکھری اکاییاں (Assortment of short stories )،
4: قصیدہ بردہ شریف (Qasidah Burdah sharif )،
5: سورہ یاسین شریف (Surah Yaseen Sharif )،
6: قربتوں کی دھوپ (Proximal warmth )،
7: کچھ محفل خوباں کی (Closet of beauties )،
8: شبنمی لمس کے بعد ناول (After Dewy palpalibity )،
9: نبیوں میں تاج والے نعت شریف (Nabiyon Mein Taj Wale)،
10: لمسوں کی خوشبو بیاض (Fragrance of palpation )،
11: نظمیچہ ثلاثہ ( Triliterality)
محمود کریمی صاحب کی ترجمہ نگاری کا یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے، آپ انگریزی زبان پر اچھی دسترس رکھنے کے ساتھ ساتھ اردو زبان پر بھی اچھی پکڑ رکھتے ہیں، جیسا کہ میں اوپر تذکرہ کرچکا ہوں۔ انہون نے اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں M.A کیا ہے، وکالت کی بھی تعلیم حاصل کی۔ زمیندارانہ ماحول میں پرورش پائی اور بچپن سے ہی علم ادب کا ماحول پایا، ادبی ذوق بچپن سے ہی پنپتا رہا پوسٹ گریجویٹ اور وکالت کی تعلیم مکمل کر لینے کے بعد لکھنے کا شوق پیدا ہوا، پہلا مضمون انگریزی می ہی: Iqbal and his missions کے عنوان سے لکھا، اس کے بعد شکوہ کا انگریزی ترجمہ کیا، اب تک ترجمہ کا یہ سلسہ جاری ہے، اللّٰہ کرے یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہے۔ 
مصنف نے وکالت کی تعلیم حاصل کی، مگر اس کو پیشہ اور ذریعۂ معاش نہیں بنایا؛ بلکہ دربھنگہ میں ہی اسکول اور کالج میں انگریزی زبان کے درس و تدریس سے ایک عرصہ تک جڑے رہے، اب مستقل طور پر ترجمہ نگاری کے کام میں لگے ہوئے ہیں، سید محمود احمد کریمی دیکھنے میں دبلے پتلے کمزور ضرور ہیں، مگر کام کی رفتار اس قدر تیز ہے کہ اچھے اچھے جوان بھی ان کے سامنے فیل ہیں، اللّٰہ سلامت رکھے، عمر دراز ی عطا فرمائے، آمین۔
مصنف نے اپنی کتاب "زاویۂ نظر کی آگہی" کا انتساب پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کے نام کیا ہے۔ 144 صفحات کی اس کتاب کو تین مرکزی عناوین کے تحت تقسیم کیا گیا ہے، پہلا مرکزی عنوان "کوائف" ہے، صفحہ 6 تا 8 پر مصنف نے ضروری باتیں کے عنوان سے کتاب کے حوالہ سے  روداد پیش کی ہے، صفحہ 8 تا 12 پر سوانحی خاکہ، اپنی زندگی کی تفصیل، اپنے مضامین و مقالات اور ترجمہ کی گئیں کتابوں کا ذکر اور اعزازات کا ذکر تفصیل سے پیش کیا ہے۔ صفحہ 13 اور 14 پر شجرۂ نسب درج ہے، مصنف نے پہلے دادیہال پھر نانیہال کا شجرۂ نسب درج کیا ہے، شجرۂ نسب محفوظ کرنے کا رواج اب تیزی سے ختم ہوتا جا رہا ہے، لوگ اپنے باپ دادا کے بعد کے نسب کو بھلاتے چلے جارہے ہیں۔ دوسرا مرکزی عنوان "تاثرات" کے عنوان سے شروع ہو تا ہے، جس میں سب سے پہلے 15 تا 16صفحہ پر پروفیسر عبدالمنان طرزی صاحب کا منظوم کلام "محمود احمد کریمی:مرحبا" کے عنوان سے درج ہے، پھر توشیحی نظم پروفیسر عبدالمنان طرزی صاحب کی درج ہے، جو انہوں نے محمد احمد کریمی صاحب کے لئے لکھی ہے، مصنف نے توشیحی نظم کو انگریزی ترجمہ کے ساتھ درج کیا ہے، جو کہ صفحہ 17 تا 23 پر درج ہے، صفحہ 23 پر منظوم کلام بہ عنوان "نذر محمود احمد کریمی" شاہد حسن قاسمی تابش صاحب کی درج ہے، صفحہ 24 پر عبدالاحد ساز ممبئی کا منظوم تاثر درج ہے، اس کے بعد  منظوم ختم ہو کر صفحہ 25 تا 33 پر ڈاکٹر احسان عالم، پرنسپل الحرا پبلک اسکول دربھنگہ کی تحریر بہ عنوان "سید محمود احمد کریمی: شخصیت،مضامین اور فن ترجمہ نگاری " درج ہے، ڈاکٹر احسان عالم صاحب نے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے اور اچھا لکھا ہے، احسان عالم لکھتے ہیں: دیر آید درست آید، ایک بڑا اہم مقولہ ہے، سید محمود احمد کریمی نے اپنی زندگی کے 80-85 سال گزارنے کے بعد ایک بار پھر اردو ادب کی جانب اپنا رخ کیا، اس بار انہوں نے اس دل جمعی سے اردو اور انگریزی زبان کا سنگم تیار کیا ہے کہ لوگ حیران ہیں کہ اس عمر میں بھی کام کیا جاسکتا ہے، اگر انسان حوصلہ رکھے تو کسی بھی عمر میں پورے جوش و خروش سے کام کیا جاسکتا ہے، ان کا کارنامہ نئی نسل کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ صفحہ 34 تا 38 پر ڈاکٹر منصور خوشتر ایڈیٹر دربھنگہ ٹایمز کی تحریر "سید محمود احمد کریمی" کے عنوان سے درج ہے۔ منصور خوشتر لکھتے ہیں: محمود احمد کریمی کے مقالات نہایت دلکش اور سادہ و سلیس ہوا کرتے ہیں، پیشکش کا انداز نہایت دلچسپ اور لائق توجہ ہے، عبارت صاف، رواں اور سلیس ہے، انہیں انگریزی زبان پر عبور حاصل ہے، جس کی وجہ سے آپ کے ترجمے میں صحیح الفاظ ملتے ہیں۔ صفحہ 38 تا 41 پر ایڈوکیٹ صفی الرحمٰن راعین، میلان چوک، دربھنگہ کی تحریر "محمود کریمی کی ادبی خدمات" درج ہے، صفی الرحمٰن راعین صاحب لکھتے ہیں: محمود کریمی ماہر اقبالیات ہیں، اقبال کی شخصیت، ادبی فن، بلند تر اسلامی نظریات، جذبات اور روحانیت پر آپ نے پر مغز مقالات تحریر کیا ہے، جس میں حیات انسانی کے تمام گوشوں پر اقبال کے اسلامی افکار کی عکاسی موجود ہے۔ صفحہ 42 تا 47 پر محترم ڈاکٹر ابرار احمد اجراوی کی تحریر بہ عنوان "ترجمہ کی مشین :سید محمود احمد کریمی" درج ہے، ڈاکٹر ابرار اجراوی لکھتے ہیں سید محمود احمد کریمی عصر حاضر میں تنقید و ترجمہ کی دنیا کا ابھی اہم اور معتبر نام بن گیا ہے، ان کی شخصیت کے کئی رنگ ہیں۔ ان کا ذہنی زاویہ کسی حصار میں مقید نہیں ہے۔ وہ ضعیف العمری میں بھی ہر دم سرگرم اور متحرک رہتے ہیں، یہی سبب ہے کہ وہ برھتی عمر کے ساتھ علمی اور ادبی مشغولیتو ں کے چمنستان میں بھی گل بوٹوں کا اضافہ کرتے جا رہے ہیں۔ 
تیسرا مرکزی عنوان "مقالے" ہے، جہاں سے مصنف کے اپنی تخلیق مقالے شروع ہوتے ہیں، صفحہ 48 تا 54 پر "شیخ مجد کا تصور توحید " ہے‌۔ صفحہ 55 تا 62 پر"اقبال کا تصور خودی" درج ہے۔ پھر مقالہ بہ عنوان "اقبال کی تخلیقی قوت" ہے، اس کے بعد صفحہ 74 تا 129 پر دور ہا باید، دو قومی نظریہ اور تقسیم ہند کا تخیل، ظفر کی شاعری زندان میں، تنقید کے ضمن میں، تعلیم کی افادیت، حملہ کے وقت تجزیہ، پیغمبر پور اسٹیٹ کی ادبی ثقافتی خدمات، درد دل مسلم، جیسے اہم عناوین سے مضامین درج ہیں، سب سے اخیر میں "علامہ اقبال کا پیغام عمل" کے عنوان سے آخری مضمون صفحہ 135 تا141 موجود ہے، سید محمود احمد کریمی کے تمام مضامین اور مقالات کافی اہم اور معلوماتی ہیں، انہوں نے ان سب کو کتابی شکل میں محفوظ کرکے ایک بڑا کام کیا ہے، اس کے بعد انہوں نے جتنی کتابوں کا اب تک ترجمہ مکمل کرلیا ہے اور وہ شائع ہوگئی ہیں، ان کی فہرست پیش کی ہے۔ کتاب کے پیچھے مصنف کی تصویر بھی موجود ہے، کتاب کی اشاعت سال 2021ء میں بہار اردو سکریٹیٹ محکمہ کابینہ (راج بھاشا اردو) کے جزوی مالی تعاون سے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی سے ہوئی ہے۔  کمپوزنگ کا کام ڈاکٹر احسان عالم نے کیا ہے، پروف کی غلطیاں نہیں ہیں، ٹائٹل پیج خوبصورت اور ورق عمدہ ہے، آپ بھی اس کتاب کو محض 150روپے دےکر نولٹی بک قلعہ گھاٹ دربھنگہ، بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ، ادارہ دربھنگہ ٹایمز ،پرانی منصفی دربھنگہ سے حاصل کرسکتے ہیں۔

اتوار, جنوری 30, 2022

"المجیب" کا عمدہ المتوکلین نمبر(یعنی خصوصی اشاعت بیاد حضرت مولانا سید شاہ ہلال احمد قادری علیہ رحمہ) تحریر :ڈاکٹر ریحان غنی

"






"المجیب" کا عمدہ المتوکلین نمبر
(یعنی خصوصی اشاعت بیاد حضرت مولانا سید شاہ ہلال احمد قادری علیہ رحمہ)  

 تحریر :ڈاکٹر ریحان غنی  

خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف بہار کی ایک ایسی قدیم خانقاہ ہے جہاں صاحب کشف بزرگوں کا سلسلہ اکیسویں صدی تک دراز ہے. اس کی ایک ظاہری وجہ یہ کہ اس نے اپنے اسلاف اور بزرگوں کی قدروں اور روایات کو اپنے سینے سے لگائے رکھا اور اسے کبھی پامال نہیں ہونے دیا. اس کے ساتھ ہی اس خانقاہ نےاپنےعلمی، دینی اور ادبی ورثے کی بھی حفاظت کی  ہے.دارالاشاعت خانقاہ مجیبیہ سےشائع ہونے والا سہہ ماہی رسالہ" المجیب"  اس کی مثال ہے. اس کے علاوہ وہ بے شمار دینی اور علمی کتابیں ہیں جو وقتاً فوقتاً اس خانقاہ سے شائع ہوتی رہتی ہیں .میرے خیال میں خانقاہ مجیبیہ کی علمی اور ادبی خدمات کا سلسلہ باغ مجیب میں پیوند خاک بزرگانِ دین کےفیوض و برکات کا ہی نتیجہ ہیں.  اکیسویں صدی کی تیسری دہائی کے اوائل میں اس خانقاہ کو اس وقت شدید جھٹکا لگا جب عہد حاضر کی ایک با کمال شخصیت ہم سے اچانک جدا ہو گئی. ان کی جدائی کے غم میں  ہر اس شخص کی آنکھیں اشکبار ہوتی رہیں گی جن سے ان کی قربت رہی تھی.میرا دعویٰ ہے کہ ان سے قریب رہنے والاہرشخص ان سے وابستہ یادوں کوہمیشہ اپنے سینے سے لگا کر رکھے گااور ان کے لئے بلندی درجات کی دعا کرتا رہے گا. . جب میرے ہاتھ میں زیب سجادہ، جواں سال عالم دین، خانقاہ کی قدیم روایتوں کے امین حضرت مولانا سید شاہ محمد آیت اللہ قادری مجیبی کی طرف سے "المجیب" کا عمدہ متوکلین نمبرتحفے کے طور پر ملا تو عصر حاضر کے ولی صفت بزرگ حضرت مولانا سید شاہ محمد ہلال احمد قادری مجیبی علیہ رحمہ کا پورا سراپا میرے سامنے آ گیا، ان سےوابستہ بے شمار یادیں تازہ ہو گئیں اور میری آنکھیں نم ہو گئیں. کافی دیر تک میں اپنے دفتری فرائض کو چھوڑ کر" المجیب" کے اس ضخیم خصوصی شمارے میں کھو سا گیا. سوچتا رہا اکیسویں صدی کی تیسری دہائی کے اوائل میں اچانک ہم سے جدا ہونے والی اس ولی صفت شخصیت کو اس سے بہتر خراج عقیدت اور کیا ہو سکتا ہے. کیا ہی اچھاہوتا کہ دوسری خانقاہیں اور دینی وملی ادارے بھی اکیسویں صدی کے اس ولی  کو اسی طرح یاد کرتے.
       "المجیب"کے اس خصوصی شمارے پر ایک نظر ڈالنے کے بعد اس رسالے کے مدیر ڈاکٹر شاہ فتح اللہ قادری ، نائب مدیر جناب ظفر  حسنین، ان کے رفقاء اور دارالااشاعت خانقاہ مجیبیہ کےتمام اراکین کے لئے دل سے بےساختہ دعا نکلی کہ اللہ تعالیٰ سب کو صحت کے ساتھ سلامت رکھے تاکہ وہ اسی طرح خانقاہ کی روایت کو آگے بڑھاتے رہیں. 564 صفحات پر مشتمل "المجیب" کا یہ ضخیم "عمدہ المتوکلین نمبر" واقعی ایک دستاویز ہے. اسے دیکھ کر محسوس ہوا کہ اس خانقاہ میں اب بھی چراغ سے چراغ جل رہا ہے اور بزرگوں کے فیوض وبرکات جاری اورساری ہیں .اس سال مارچ میں اردو صحافت کی دو صدی مکمل ہونے والی ہے. اردو میڈیافورم بہار پٹنہ دو صدی تقریبات منانے کی تیاری کر رہا ہے. اردو صحافت کی اس دو صدی کو سامنے رکھتے ہوئے جب ہم نے اس خصوصی شمارے کا مطالعہ کیا تو محسوس ہوا کہ پہلے بھی اردو زبان وادب اوراردو صحافت خانقاہوں میں زندہ تھی اور اکیسویں صدی میں بھی ان ہی بزرگوں کے پہلو میں یہ پروان چڑھ رہی ہے. میں نے پہلے کسی مضمون میں لکھا تھا کہ اگر کوئی مجھ سے یہ کہے کہ ایک جملے میں المجیب کی خدمات کا ذکر کیجئے تو میں کہوں گا کہ "المجیب نے اردو صحافت کو صراط مستقیم پر چلنا سکھایا"  حقیقت یہ ہے کہ آج بھی خانقاہوں اور مدرسوں میں ہی اردو صحیح سمت میں پروان چڑھ رہی ہے. 
المجیب میں عام طور پر"لمعات" کے مستقل عنوان سے جناب ظفر حسنین (نائب مدیر) کا ہی اداریہ ہوتا ہے. اس خصوصی شمارے میں بھی ان کا ہی اداریہ ہے. اس اداریہ کا یہ جملہ حقیقت پر مبنی ہے کہ " ایک  طرح سے خانقاہ ان کے لئے تھی اور وہ خانقاہ کے لئے"  اور
برادر ذی قدر  اورذی وقار حضرت مولانا سید شاہ ہلال احمد قادری علیہ رحمہ کے لئے بہترین خراج عقیدت ہے. اداریہ کے بعد. ان کے تعلق سے درج ذیل عنوانات کے تحت اہل خانہ کے ساتھ علماء اور دانشوروں کی قیمتی  تحریریں ملتی ہیں. اس میں ابتدائی تحریر موجودہ زیب سجادہ حضرت مولانا سید شاہ محمد آیت اللہ قادری مجیبی کی ہے. اس میں انہوں نے اپنے عہد طفلی کا ایک دلچسپ واقعہ تحریر کیا ہےجس میں میرے دادا ابا علیہ رحمہ حضرت مولانا سید شاہ محمد عثمان غنی کی بچوں کے لئےسیرت النبی پرلکھی گئی  کتاب "بشریٰ" کا بھی ذکر ہے.  زیب سجادہ لکھتے ہیں __
"میں اپنے عہد طفولیت میں حضرت جدنا الکریم امام المتقین مولانا سید شاہ محمد نظام الدین قادری قدس سرہ کو دارالعلوم مجیبیہ کے طلبہ کو تفسیر وحدیث کی کتابیں پڑھاتے ہوئے دیکھا کرتا تھا. ایک بار آپ اپنی درسگاہ میں بڑے بڑے طلبہ کو درس دے رہے تھے. ہمارے چھوٹے ماموں حضرت مولانا سید شاہ مشہود احمد قادری (موجودہ پرنسپل مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی پٹنہ) کو بھی آپ سے فارسی کی کتابیں پڑھتے ہوئے دیکھا. ایک بار میں نے بھی اپنے لا ابالی انداز میں عرض کیا :میں بھی آپ سے پڑھوں گا. آپ نے مسکرایا اور فرمایا :کیا پڑھئے گا؟ میں دوڑ کر گھر آیا اور اپنی ہمشیرہ کی ایک کتاب بغل میں دبا کر دو بارہ حاضر ہوا اور عرض کیا :یہ کتاب پڑھوں گا. آپ نے نہایت شفقت اورپیار سے فرمایا :اچھا آپ بشریٰ پڑھئے گا ( بشریٰ سیرہ النبی صل اللہ علیہ وسلم پر مولانا عثمان غنی صاحب ایک کتاب تھی جس کو خانوادے کے بچے پڑھا کرتے تھے) پھر آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا :آپ ہلال میاں سے پرھئیے گا." یہ واقعہ مسلکی رواداری کی بہترین مثال ہے جس پر یہ خانقاہ آ ج بھی قائم ہے.  
بہر کیف خصوصی شمارے کے عنوانات یہ  ہیں. 
(1) نقوش حیات (2) اہل تصوف کی نگاہ میں (3) امتیازات و خصوصیات (4)اوصاف وکمالات(5)احوال و آثار (6) تالیفات و تصنیفات (7)مکاتیب و پیغامات تعزیت (8)قطعات تاریخ واظہار غم اور(9)گوشہ کلام عمدہ المتوکلین. 
 اس خصوصی شمارے کےصفحہ 561 پر"بجھ گیاوہ شعلہ جو مقصود ہر پروانہ تھا" کے عنوان سے زیب سجادہ حضرت مولانا محمد آیت اللہ قادری نےاپنے خسر محترم حضرت مولانا سید شاہ ہلال احمد قادری علیہ رحمہ کو عقیدت  سے یاد کرتےہوئے اس بات پر افسوس ظاہر کیا ہے کہ" حضرت علیہ رحمہ کی شدید خواہش حضرت اقدس سیدنا آلام بدر الکاملین فیاض المسلمین مولانا سید شاہ محمد بدرالدین قادری پھلواری جعفری زیبی قدس اللہ سرہ العزیز کےسیرت احوال پر" بدر کامل "کے عنوان سے ایک مفصل ومدلل اور جامع تصنیف منصہ شہود پرلانے کی تھی اور حضرت علیہ رحمۃ والغفران نے اس کا نقش اول بھی مرتب فرما لیا تھالیکن واحسرتا! وہ عظیم کارنامہ نامکمل رہ گیا. " مجموعی طور پر المجیب کا یہ خصوصی شمارہ ان لوگوں کے لئے بہترین تحفہ ہے جو بزرگان دین کےحالات زندگی کا مطالعہ کر کے اپنی دنیا اور آخرت دونوں سنوارنا چاہتے ہیں.

امارت شرعیہ کی دینی تعلیمی پالیسی___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

امارت شرعیہ کی دینی تعلیمی پالیسی___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ(9431003131)
 پالیسی (Policy)انگریزی زبان کا لفظ ہے، اس کے معنی اردو میں حکمت عملی، لائحہ عمل، طریقہ کار، اور مصلحت وقت کے آتے ہیں، یہ حکمت، دور اندیشی ، دانائی اور مصلحت پر مبنی ہوتی ہے، اس کے بنانے میں ادارہ کے سربراہ اور مملکت کے حکمراں کی فکر اور سوچ کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے۔ اس لیے پالیسیاں جامد نہیں ہوتی ہیں، یہ بدلتے حالات، تغیر پذیر زمانہ اور سربراہان کی سوچ کے اعتبار سے وقفہ وقفہ سے بدلتی رہتی ہے۔
امارت شرعیہ کا قیام انگریزی عہد حکومت میں ۲۶؍ جون ۱۹۲۱ء کو ہوا تھا، اس وقت ہندوستان میں انگریزوں کی تعلیمی پالیسی رائج تھی اور اس کامقصد ایک ایسی نسل کو پروان چڑھانا تھا جو گوشت وپوست کے اعتبار سے ہندوستانی ، اور دل ودماغ کے اعتبار سے مغربی افکار وخیالات کی حامل ہو اور انگریزوں کے اقتدار کے سورج کو غروب ہونے سے بچا سکے، اس لیے بانیٔ امارت شرعیہ مولانا ابو المحاسن محمد سجاد نے امارت شرعیہ کے ابتدائی عہد میں مکاتب دینیہ کے قیام پر زور دیا ، تاکہ مسلمانوں کو ایمان وعقائد اور بنیادی دینی مسائل سے واقفیت بہم پہونچائی جائے، بنیادی دینی تعلیم کی فراہمی اور اس کے حصول کو یقینی بنانے کی پالیسی جو بانیٔ امارت شرعیہ نے بنائی تھی، وہ الحمد للہ آج تک باقی ہے اور اس میں کسی دور میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، کیوں کہ بنیادی دینی تعلیم کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے اور اس سے کسی بھی قسم کی چشم پوشی کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان بنیادی مذہبی تعلیمات اور اقدار سے دور ہوجائیں، امارت شرعیہ نے اسے کبھی گوارہ نہیں کیا کیوں کہ اس کی بنیادہی تنفیذ شریعت علی منہاج النبوت پر ہے۔
 مولانا ابو المحاسن محمد سجاد ؒ اس بات کی ضرورت بھی محسوس کرتے تھے کہ ابتدائی مکاتب کا عمدہ نصاب تیار کیا جائے، انہوں نے ایک میٹنگ میں علماء کرام سے اپیل کی تھی کہ ’’آپ حضرات آج ہی سے غور وخوض شروع کردیں کہ وہ نصاب کن اصولوں پر بنایا جائے، اور کس حد تک رکھا جائے اور جو حضرات اس کے متعلق کوئی مسودہ تیار کریں وہ ہمارے نام روانہ فرمائیں؛ تاکہ ترتیب میں مجھے سہولت ہو اور آئندہ آپ کو بھی آسانی ہو۔ (مقالات سجاد ۸۰-۷۹)
بعد کے دنوں میں مکاتب امارت شرعیہ کے لیے ایک جامع تعلیمی منصوبہ خود کفیل نظام تعلیم کے عنوان سے مرتب کرکے رائج کیا گیا اور مکاتب دینیہ کے نصاب کو اس کا لازمی حصہ بنایا گیا، اور امارت شرعیہ کے حلقہ کے مکاتب میں اس نصاب کو بڑے پیمانے پر رائج کیا گیا، اور اس پر خصوصی توجہ دی گئی، احقر (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی) نے اپنے ایک مضمون ’’امارت شرعیہ کی بنیادی تعلیمی تحریک‘‘ کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا تھا: 
’’امارت شرعیہ کے دستور میں امیر کے فرائض میں زبانی اور کتابی ہر قسم کی تعلیم کوشامل کیاگیا۔ امارت کی پرانی فائل دیکھنے سے پتہ چلتاہے کہ تین سال کے قلیل عرصہ میں صرف پلاموں میں ۲۲ مکاتب قائم کیے گئے اوراگلے پانچ سال میں اس کی تعداد سوسے متجاوز ہوگئی، بعد کے دنوں میں ان علاقوں میں جہاں غریبی کی وجہ سے تعلیم کا کوئی نظم ممکن نہیں ہورہاتھا، امارت شرعیہ کے بیت المال سے امدادی رقوم ماہ بہ ماہ معلمین کے وظیفہ کے لیے منظور کی گئیں ، اور پابندی سے اسے ارسال کیاجاتا رہا ، آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے‘‘۔ (تعلیم- ترقی کی شاہ کلید ۳۳)
ساتویں امیر شریعت مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی ؒ کے زمانہ میں مکاتب کے نصاب تعلیم ، نظام تعلیم اور طریقۂ کار پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس ہوئی، چنانچہ مجلس عاملہ منعقدہ ۲۹؍ نومبر ۲۰۲۰ء  کو حضرت امیر شریعت سابع نے ایک چہار نفری کمیٹی تشکیل دی، جس میں موجودہ نائب امیر شریعت مولانا محمد شمشاد رحمانی ، راقم الحروف (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی)مفتی نذر توحید صاحب مظاہری اور ڈاکٹر یٰسین قاسمی رانچی کو اس کا رکن نامزد کیا ،قائم مقام ناظم کی حیثیت سے مولانا محمد شبلی قاسمی بھی کمیٹی میں شامل ہوئے، کمیٹی کے کنوینر مولانا محمد شمشاد رحمانی بنائے گیے، انہوں نے مکاتب کے لیے نئی تعلیمی پالیسی بنائی ، ہم لوگ آن لائن کئی مٹنگوں میں اس پر متفق ہوئے، ابھی اس کا نفاذ ہونا باقی تھا کہ حضرت امیر شریعت کا وصال ہو گیا، حضرت کے حکم پر بہار میں ہفتہ ترغیب تعلیم اور جھارکھنڈ میں عشرہ ترغیب تعلیم کے ذریعہ مسلمانوں میں بنیادی دینی تعلیم کے فروغ کے لیے بیداری لائی گئی، آٹھویں امیر شریعت مکاتب کے نظام کو اس سے آگے بڑھانا چاہتے ہیں اور دینی تعلیم کے ساتھ بعض عصری علوم کو بھی مکتب کے زمانہ میں مفید سمجھتے ہیں، حضرت کی توجہ خود کفیل نظام تعلیم کو مضبوط کرنے اور ہر بڑی آبادی تک پہلے مرحلہ میں اسے پہونچانے کی ہے اور ۱۴۴۳ھ میں  کم از کم سو مکاتب قائم کرنے کا ہدف ہے اور اب تک الحمد للہ تیس جگہوں میں تعلیم شروع ہو چکی ہے، ۲۴؍ جگہوں پر کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے، ۴۶؍ جگہوں پر مکاتب کے قیام کو اصول طور پر اب تک منظوری مل چکی ہے۔یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔
 مکاتب کے بعدمدارس اسلامیہ کی سرپرستی اور اس کی علمی فکری معاونت بھی امارت شرعیہ کی دینی تعلیمی پالیسی کا حصہ رہی ، مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد ؒ نے اس بات پر زور دیا کہ غیر منقسم بہار کے تمام مدارس اسلامیہ عربیہ میں ایک ہی  نصاب رائج ہو ، ایک مجلس ممتحنہ ہو جو امتحان کے اصول ونوعیت باعتبار کتاب ودرجات قائم کرے اور تمام مدارس کے نتائج کو با ضابطہ شائع کیا جائے اور بغیر کامیابی طلبہ کو ترقی نہ دی جائے۔ (مقالات سجاد ۷۷-۷۶) مولانا کی خواہش یہ بھی تھی کہ اعلیٰ نمبرات سے کامیاب ہونے والوں کو ایک سال تک وظیفہ دیا جائے، جو طلبہ ایک مدرسہ سے نکل کر دوسرے مدارس میں داخل ہونا چاہیں ان سے سابقہ مدرسہ کی تصدیق طلب کی جائے اور مدارس کے ذمہ دار یہ تصدیق نامہ دینے سے انکار نہ کریں۔ اسی طرح صوبہ بہار کے کسی ایک مدرسہ کو جامعہ(یونیورسٹی) کا درجہ دے دیا جائے۔
 مدارس کے سلسلہ میں اس پالیسی کے نتیجہ میں بعد میں مدرسہ اسلامیہ بتیا اور مدرسہ اسلامیہ بلیا پور دھنبادکا قیام براہ راست امارت شرعیہ کی سرپرستی میں ہوا، یہ دونوں مدارس خاص طور سے امارت شرعیہ کے سمجھے جاتے رہے، ان دونوں کا تعلق امارت شرعیہ سے سر پرستی سے اوپر کا تھا، یہ اتفاق ہے کہ ان دونوں مدرسہ سے امارت کا تعلق اب پہلے جیساباقی نہ رہا،بلکہ مدرسہ اسلامیہ بلیا پور کا تعلق امارت شرعیہ سے مولانا ابو المحاسن محمد سجاد ؒ کی مدارس کے نظام کے سلسلہ میں جو رائے تھی ، اسی بنیاد پر ۱۹۹۵ء میں حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ نے مدرسہ ضیاء العلوم رام پور رہوا میں ایک میٹنگ بلا کر وفاق المدارس قائم کیا جو آج بھی قائم ہے، مدارس کے نصاب ونظام تعلیم اور نظام امتحان میں یکسانیت لانے کے لیے کام کر اس وفاق سے ان دنوں دوسو تہتر مدارس ملحق ہیں، لاک ڈاؤن کی وجہ سے گودوسال سے امتحانات نہیں ہوئے ہیں، لیکن وفاق کے ذریعہ ضروری ہدایات ان مدارس کو دی جا رہی ہیں اور اس گائیڈ لائن کے مطابق مدارس کام کر رہے ہیں، جزوی فرق کے ساتھا ن مدارس میں جو نصاب رائج ہے، وہ درس نظامی ہی کا ہے۔ 
حضرت امیر شریعت رابع مولانامنت اللہ رحمانی اور ان کے دو خصوصی معاون مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی اور مولانا سیدنظام الدین ؒ کے عہد میں دینی تعلیم کے حوالہ سے جو پالیسی اختیار کی گئی اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ میں عصری علوم کو پورے طور پر داخل نہ کیا جائے، ایسا کرنے سے مدارس کی روح نکل جائے گی ، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی فرمایا کرتے تھے کہ مدارس اسلامیہ اصلا مذہبی علوم کی تعلیم کے لیے ہیں اور ان کو اسی کے لیے خاص رکھنا چاہیے، ان کی سوچ تھی کہ ا گر میڈیکل کالج میں انجینئر نہیں بنائے جاتے ، انجینئر نگ کالج سے ڈاکٹر تیار ہو کر نہیں نکلتے تو پھر مدارس ہی سے یہ کیوں چاہا جائے کہ وہاں سے فارغ ہونے والا سب کچھ بن کر نکلے، ان کے زمانہ میں دار العلوم الاسلامیہ قائم ہوا اوراس کا نصاب حضرت قاضی صاحب ؒ کی نگرانی میں بنا، وفاق المدارس کا نصاب بھی قاضی صاحب کی نگرانی میں ان کے مشورے سے بنایا گیا،انہوں نے دونوں نصاب میں ابتدائی درجات میں بقدر ضرورت انگریزی ، ہندی اور حساب کوشامل کیا ، یہ نصاب آج بھی امارت شرعیہ کے دار العلوم الاسلامیہ اور وفاق المدارس الاسلامیہ میں رائج ہے۔
موجودہ امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کی خواہش ہے کہ موجودہ نصاب تعلیم پر نظر ثانی کی جائے، حالیہ مجلس شوریٰ میں ایک نصابی کمیٹی بنانے کی بات بھی آئی تھی جو ابھی حضرت کے زیر غور ہے، حضرت کی تعلیمی پالیسی یہ ہے کہ نئے نصاب تعلیم میں کچھ ایسی تبدیلی لائی جائے کہ دینی وعصری علوم کی تفریق کم ہوجائے اور مدارس کے فارغین دوسرے محاذ پر بھی قابل قدر خدمات انجام دے سکیں،ا س سے تعلیم کی دوئی کا تصوربھی ختم ہوجائے گا، علماء ودانشوران کے درمیان جو خلیج ہے اسے پاٹا جا سکے گا،اور طلبہ کا رجوع مدارس اسلامیہ کی طرف بڑھے گا۔حضرت دامت برکاتہم کایہ خیال اصلاحضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد رحمۃ اللہ کی فکر کا پَرتو ہے، حضرت مولانا محمد سجاد ؒ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ 
’’ چوں کہ مدارس عربیہ اسلامیہ میںجو نصاب تعلیم رائج ہے اور جو طریق تعلیم وتربیت عموما شائع ہے وہ ایک حد تک موجودہ ضروریات کا لحاظ رکھتے ہوئے کافی نہیں ہے، انہیں وجوہ سے کثرت مدارس کے با وجود علمی کیفیت روز بروز انحطاط پذیر ہوتی جاتی ہے، اگرچہ علماء کی تعداد میں ہر سال ایک غیر معمولی اضافہ ہو تا رہتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی بہت سے حضرات کے دلوں سے مدارس عربیہ اسلامیہ کی وقعت زائل ہو گئی ہے اور انہیں وجوہ سے ملک میں ایک عام بد دلی پھیلی جا رہی ہے۔ (مقالات سجاد : اصلاح تعلیم ونظام مدارس عربیہ ۷۶)

اردو کے لیے عملی اقدام مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

اردو کے لیے عملی اقدام 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
بہار میں اردو تحریک کی تاریخ انتہائی قدیم ہے، اس تحریک کے نتیجے میں ہی آج اردو بہار کی دوسری سرکاری زبان ہے، آج بھی اردو کارواں، اردو میڈیا فوم، اردو ایکشن کمیٹی، حلقہ ادب، اردو فارسی ایکشن کمیٹی، کاروان ادب، کاروان اردو، اردو کونسل بہار تنظیمیں اور انجمن ترقی اردو وغیرہ کے نام سے مختلف تنظیمیں اردو کو زمینی اور سرکاری سطح سے زمین پر لانے کے لیے کام کر رہی ہیں،اردو اساتذہ کی تنظیمیں اس کے علاوہ ہیں، ان تمام میں آپسی ربط نہیں ہے اور کئی تنظیمیں اپنے طور پر کام کو آگے بڑھانا چاہتی ہیں، اس لیے ان کی آواز میں دم پیدا نہیں ہو رہا ہے اس انتشار واختلاف نے ہمیں یہ دن دکھایا ہے کہ ہماری آواز سرکاری سطح پر بھی بے جان ہے اور اس کے اثرات جس پیمانے پر دکھائی دینے چاہیے نہیں دکھ رہے ہیں۔قرآن کریم میں اسی لیے آپسی جھگڑوں سے منع کیا ہے اور فرمایا کہ اگر تم لڑتے رہے تو تحریک ناکام ہوجائے گی اور ہوا اکھڑ جائے گی یعنی تمہارا رعب ودبدبہ ختم ہوجائے گا۔
 اس درمیان بڑی اچھی خبر مظفر پور سے آئی ہے، عبد السلام انصاری وہاں کے ضلع تعلیمی افسر ہیں، انہوں نے سرکاری سطح پر عملی اقدام کرکے ہمیں بتایا کہ کام اس طرح کیا جاتا ہے، ۲۰۱۲ء میں انہوں نے ضلع پروگرام افسر مظفر پور کی حیثیت سے سولہ سو اردو اساتذہ کی بحالی کا اعلان نکلوایا تھا، جس پر بحالی کا عمل آج بھی چل رہا ہے، انہوںنے عالم وفاضل کی ڈگری والوں کو بھی پرموشن دیا اور اردو اسکولوں میں بڑی تعداد میں اردو ہیڈ ماسٹر کا تقرر کیا، پوری ریاست میں مظفر پورپہلا ضلع ہے جہاں فہرست تعطیلات اردو میںسرکاری طور پر اردو میں دستیاب ہے،جو دوسرے اضلاع کے لیے بھی نمونۂ عمل ہے۔ یقینا اس میںمظفر پور کی قومی اساتذہ تنظیم کی محنت کا بھی دخل ہے، اس کے لیے یہ حضرات مبارکباد کے مستحق ہیں۔
 اگر اسی طرح اردو تنظیمیں دوسرے اضلاع میں بھی جد وجہد کریں اور سرکاری سطح پر دباؤ بنائیں تو اردو کا بہت کام ہو سکتا ہے، لیکن اس کے لیے مربوط لائحۂ عمل بنانا ضروری ہوگااور یہ بھول جانا ہوگا کہ اتحاد کا مطلب ہمارے بینر تلے کام کرنا ہے، یہ ذہن نشیں کرنا ہوگا کہ اتحاد مشترکہ مقاصد کے متحدہ جد وجہد کا نام ہے۔

ہفتہ, جنوری 29, 2022

بہارکی ایک عدالت کاتاریخ سازفیصلہ : 6 سالہ معصوم بچی کے ساتھ زناکرنے والے کودی پھانسی کی سزا نئی دہلی ( ایجنسی )

بہارکی ایک عدالت کاتاریخ سازفیصلہ : 6 سالہ معصوم بچی کے ساتھ زناکرنے والے کودی پھانسی کی سزا نئی دہلی ( ایجنسی )بہار میں ایک عدالت نے 48 سالہ شخص کو 6 سالہ کی معصوم بچی کے ساتھ عصمت دری کرنے کا قصوروار پایا ہے اور اسے پھانسی کی سزا سنائی ہے۔ بہار کے ارریہ میں یہ شرمناک واقعہ تقریباً دو ماہ قبل پیش آیا تھا جس کے خلاف معصوم بچی کے گھر والوں نے تھانہ میں شکایت کی تھی۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ارریہ کے اے ڈی جے-6 و پاکسو ایکٹ کے خصوصی جج ششی کانت رائے کی عدالت نے ضلع کے بھرگاما تھانہ حلقہ کے ویر نگر مغرب کے رہنے والے مرحوم شمشیر کے بیٹے ملزم محمد میجر کو پھانسی کی سزا سنائی۔
پربھات خبر میں شائع ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تعزیرات ہند کی دفعہ 376 کے تحت پھانسی کی یہ سزا سنائی گئی ہے۔ علاوہ ازیں دفعہ 3(2)(5) ایس سی/ایس ٹی ایکٹ کے تحت تاحیات قید بامشقت اور 10 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں، پاکسو ایکٹ کے تحت متاثرہ کو 10 لاکھ روپے معاوضہ دیے جانے کا بھی حکم ہوا ہے۔
آج تک پر بھی اس سلسلے میں ایک خبر شائع ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ جمعرات کو سنائے گئے اس فیصلے میں عدالت نے کہا کہ قصوروار کو تب تک پھانسی پر لٹکائے رکھا جائے جب تک کہ اس کی آخری سانس رک نہ جائے۔ بتایا جاتا ہے کہ متاثرہ کی ماں کی شکایت پر پولیس نے معاملہ درج کر لیا گزشتہ 20 جنوری کو عدالت نے اس معاملے میں نوٹس لیا۔ بعد ازاں 22 جنوری کو اس معاملے میں ملزم کے خلاف ثبوت پیش کیے گئے۔
عصمت دری کے ملزم کو فوری اور سخت سزا ملنے کے بعد یہ معاملہ موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ ضلع اور متاثرہ کنبہ کے لوگ عدالت کے اس فیصلے سے کافی خوش نظر آ رہے ہیں۔ متاثرہ بچی کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ قصوروار شخص کو سزائے موت دیے جانے کی خبر دل کو کافی حد تک سکون پہنچانے والی ہے۔

ممبئی میں مسجد کے احاطہ میں ہنگامہ آرائی نمازیوں نے مینیجر اور دفتر کا گھیراؤ کیا

ممبئی میں مسجد کے احاطہ میں ہنگامہ آرائی نمازیوں نے مینیجر اور دفتر کا گھیراؤ کیا

کل جنوبی وسطی ممبئی میں واقع حاجی اسماعیل حاجی الانا سینی ٹوریم کی مسجد میں مسجد کے احاطہ میں ہنگامہ برپا ہوگیا،ٹرسٹ کےمینیجرشاہد ابراھیم اور عہدیداران پر نمازیوں سے بدسلوکی کا الزام عائد کیا ہے اور پولیس بچوں سے مبینہ طورپرمارپیٹ کرنے کے سلسلے میں منیجر اور سپروائزر کو پولیس لے گئی ہے جبکہ چیف ٹرسٹی منصور کرسی والا کو پولیس نے طلب کرلیا ہے۔پولیس انسپکٹر شندے اور دیگر اعلی افسران جائے حادثے پر پہنچ گئے ،سنیئر انسپکٹر ناصر کلکرنی نے کارروائی کا حکم دیا ہے۔ہزاروں افراد نے احتجاج کیا ۔

واضح رہے کہ 2018 اور گزشتہ سال نومبر میں بھی تبلیغی جماعت کے ارکان اور ٹرسٹ کے درمیان تنازعہ نے نماز جمعہ کے موقع پر سنگین صورتحال پیدا کر دی تھی۔

کل نماز عشاء کے دوران سینی ٹوریم کے احاطہ میں واقع مسجد میں ایک 12 سال کے بچے کو مسجد میں داخل ہونے پر تنازع پیدا ہوگیا اور نمازیوں نے مینیجر اور دفتر کا گھیراؤ کرلیا۔ نمازیوں کے ساتھ بدسلوکی کے بعد سنگین حالت ہوگئی اور آس پاس کی مسلم آبادی سے ہزاروں افراد وہاں پہنچ گئے اور پولیس کی بھاری جمعیت بھی پہنچ گئی ۔ ایک بچے کے ساتھ مارپیٹ کے نتیجے میں منیجر شاہد سیٹھ کو پولیس کی وین میں پولیس اسٹیشن لے جایا گیا۔نمازیوں کے ساتھ بدسلوکی کے خلاف لوگوں کا احتجاج بڑھ گیا ہے۔ایک نمازی شریف گھانچی نے کہاکہ یہاں نصب بورڈ پر10 سال سے زیادہ عمر کے بچوں کو مسجد میں لانے پر تنازع پیدا ہوا اور معاویہ خواجہ نامی بچے کی چندروز قبل منیجر شاہد نے شرارت کا الزام لگا کر پٹائی کردی تھی اور ابوبکر شریف کو بھی نشانہ بنایا گیا۔تفصیلات کا انتظار ہے۔

انٹاپ ہل پولیس اسٹیشن کے سنئیر انسپکٹر ناصر کلکرنی پولیس اسٹیشن گئے اور کارروائی جاری ہے،لوگوں میں شدید ناراضگی اور غم وغصہ پایا جاتا ہے

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...