Powered By Blogger

اتوار, فروری 20, 2022

با کمال صحافی __کمال خان مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

با کمال صحافی __کمال خان 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
عظیم اور با کمال صحافی، این ڈی ٹی وی کے سینئر رپورٹر اور اپنے انداز پیش کش سے دنیا بھر میں مقبول ومعروف کمال حیدر خان عرف کمال خان کا ۱۴؍ جنوری ۲۰۲۲ء روز جمعہ صبح سویرے حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے انتقال ہو گیا، انہوں نے صبح کوئی چار بجے کے آس پاس سینے میں درد کی شکایت کی اور اسپتال پہونچنے سے پہلے ہی دم توڑ دیا، ان کی نماز جنازہ مشہور شیعہ عالم مولانا کلب جواد نے پڑھائی اور لکھنؤ کے عیش باغ قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ روحی کمال اور ایک لڑکا امین کو چھوڑا۔
 کمال خان کی ولادت لکھنؤ میں 1959میں ہوئی ، انہوں نے تعلیم کے مختلف مراحل طے کرنے کے بعد لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم اے کیا تھا، انہوں نے روسی زبان میں ماسکو یونیورسیٹی  سے پوسٹ گریجویٹ کی سند بھی حاصل کی تھی، ان کا قیام زمانہ دراز سے بٹلر پیلیس کالونی لکھنؤ میں تھا، وہ گذشتہ تین دہائیوں سے این ڈی ٹی وی سے منسلک تھے اور غیر جانب دارانہ رپورٹ ، تجزیے اور مخصوص انداز کی اپنی پیش کش کے لیے مشہور تھے، وہ اپنی رپورٹنگ کو دلچسپ بنانے کے لیے اردو شاعری کا سہارا لیتے اور ناظرین کا دل موہ لیتے، وہ رپورٹنگ سے پہلے اس سے متعلق کتابوں ، تبصرے اور تجزیوں کا بھر پور مطالعہ کرلیتے اور ہر موضوع پر اپنی معلومات کے خزانے لٹاتے، اس کے لیے انہیں بہت محنت کرنی پڑتی  تھی، اسی وجہ سے وہ اپنا وقت سیر وتفریح میں نہیں لگاتے تھے، کام اور کام سے فراغت کے بعد گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ آرام کرنا یہ ان کے نظام الاوقات کا حصہ تھا، این ڈی ٹی وی میں ملازمت سے قبل انہوں نے کئی اخبار میں کام کیا، ایک زمانہ میں وہ ہندوستان ایرونا ٹیکس لمٹیڈ میں روسی زبان کے مترجم ہوا کرتے تھے، انہوں نے امرت بازار پتریکا ، نو بھارت ٹائمس اور اسٹار نیوز پر بھی کام کیا، کمال خان نے کبھی اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا، ان کے یہاں صحافت میں تعصب اور جانبداری دوسرے گناہوں کی طرح ایک بڑا گناہ تھا، اس لیے این ڈی ٹی وی میں آنے سے پہلے وہ مختلف اداروں کے لیے کام کیا، لیکن وہاں کے ماحول سے وہ مطمئن نہیں ہو سکے، بالآخر این ڈی ٹی وی آکر انہوں نے چین کی سانس لی اور آخری سانس بھی این ڈی ٹی سے منسلک رہتے ہوئے لی، اپنے مقصد سے وفاداری اسے کہتے ہیں، آخری دم تک وفادار ۔
صحافت نے انہیں کیا کچھ دیا ، اس کی تفصیلات تو ہمارے پاس موجود نہیں ، لیکن اتنا ضرور ہوا کہ عزت، شہرت، مقبولیت، ان کی دیوڑھی پر آکر براجمان ہو گئی ، اور ان کی خدمات کے عوض انہیں متعدد انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا، اس فہرست میں رام ناتھ گوینکا ایوارڈ اور صدر جمہوریہ نے ذریعہ گنیش شنکر ودیارتھی سمان بھی شامل ہے۔
 کمال خان چہرے مہرے کے اعتبار سے بھی انتہائی وجیہ اور خوبصورت تھے، ان کے چہرے پر رعب ، گفتگو میں نرمی ، کام کے تئیں لگن او رعزت نفس کی حفاظت ان کی زندگی کے لوازمات میں تھے، وہ صحافیوں کی بے عزتی اور ترش روی پر بڑے بڑے سیاسی قائدین سے بھڑجاتے تھے، اس لیے صحافی برادری میں ان کو ایک خاص مرتبہ حاصل تھا، ان کی زندگی سادہ تھی ، اپنی اہلیہ روچی کمار کی وجہ سے وہ سبزی خور ہو گیے تھے،و ہ صبح کی چہل قدمی کے بھی عادی تھے، لیکن اس کے باوجود وہ اچانک ہارٹ اٹیک میں مبتلا ہوئے چل بسے، صحت کو ٹھیک رکھنے کے جتنے طریقے اسباب کے درجے میں ہو سکتے ہیں وہ اسے برتا کرتے تھے، لیکن جب اللہ کا مقررہ وقت آجاتا ہے تو پھر کسی کی نہیں چلتی ، کمال خاں کی ساری احتیاطی تدابیر دھری رہ گئیں اور موت کا فرشتہ انہیں لے کر چلتا بنا۔
کمال خان کی ساری قدر ومنزلت ان کی صحافت کی وجہ سے ہے، ان کی زندگی کا یہ پہلو اس لائق ہے کہ اس کا ذکر کیا جانے، ان کے انتقال کے بعد جو تعزیتی بیانات آئے اس کی روشنی میں کمال خاں کی صحافی کی حیثیت سے ان کی خدمت وعظمت کو سمجھا جا سکتا ہے، ہر دیش جوشی کہتے کہ ’’سیاست، ثقافت اور معاشرت ہر موضوع پر کمال باتیں کرتے تو اپنا الگ نقش چھوڑ جاتے، ان کی قصہ گوئی کا انداز مسحور کن تھا اور ان میں خبروں کے سونگنے کی فطری صلاحیت تھی۔
 کئی موضوعات پر ان کی رپورٹنگ آج بھی ناظرین کے دل ودماغ میں محفوظ ہے، انہوں نے بابری مسجد ، تین طلاق پر جو رپورٹنگ کی وہ غیر جانبدارانہ صحافت کی ایک مثال ہے، لیکن ان کی وہ رپورٹنگ جو انہوں نے انتہائی خستہ حال پرائمری ایجوکیشن پر کیا تھا، آج بھی دماغ کو پریشان کرتی ہے، اس میں انہوں نے پرائمری اسکول کے اساتذہ کے انٹر ویو لیے ، سوالات پوچھے اساتذہ نے ان کے صحیح جواب نہیں دیا ، ان میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ ثانیہ مرزا کون ہے؟ کئی استاذ کا جواب تھا مرزا غالب کی رشتہ دار، خوب ہنسی پڑی، لیکن دل رودیا، جب انہوں نے کہا کہ ہنس لیا، بہت مزہ آیا، جب جی بھر کر ہنس لیں تو ان لاکھوں بچوں کے لیے دو آنسو بھی بہا لیجئے گا، جنہیں ایسے اساتذہ پڑھا رہے ہیں اور واقعی پرائمری ایجوکیشن کی اس حالت زار پر آنکھیں خون کے آنسو بہانے لگیں۔
 ایسے تھے کمال خان، کمال ہی نہیں با کمال بھی ، ان کو سچی خراج عقیدت یہ ہے کہ صحافت میں ان کے طریقے اور روش کو اپنا یا جائے، ان کو سمجھنے سننے اور دیکھنے کے لیے سوشل میڈیا کے اس دور میں زیادہ پِتَّہ ماری کی بھی ضرورت نہیں ہے، یو ٹیوب پر سب موجود ہے۔

ہفتہ, فروری 19, 2022

تحفۃ الافادات فی شرح مقدمہ مشکوٰۃ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

تحفۃ الافادات فی شرح مقدمہ مشکوٰۃ 
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
لمحات التنقیح فی شرح مشکوٰۃ المصابیح کا دیباچہ اہل علم کے نزدیک مقدمہ مشکوٰۃ کے نام سے معروف ومشہور ہے، یہ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی (۱۰۵۲-۹۸۵) بن سیف الدین کی علمی یادگار ہے، اس کی مقبولیت اور محدیثن کے نزدیک اس کی حاجت وضرورت کو دیکھتے ہوئے حضرت مولانا احمد علی محدث سہارن پوری ؒ نے اس دیباچہ کو مشکوۃ شریف کے شروع میں شامل کر دیا ، اس طرح وہ اب مشکوٰۃ شریف کا جزو لازم بن گیا، کیوں کہ احادیث کے مباحث اور اس کے مدارج اور مقام کا سمجھنا اصول حدیث کے علم کے بغیر ممکن نہیں اور یہ مقدمہ اپنی جامعیت کے اعتبار سے منفرد اوراختصار کے اعتبار سے اسے پڑھنا پڑھانا ، سمجھنا سمجھانا اور بآسانی حافظہ کی گرفت میں آجانا اس کا امتیاز ہے، اس لیے یہ مقدمہ ہر دور میں مقبول رہا ہے اور اسے نصاب کا حصہ بنا دیا گیا ہے ، تاکہ احادیث کے اصولی مباحث سے طلبہ کو اس قدر واقفیت ہوجائے کہ وہ نخبۃ الفکر اور اس جیسی دوسری کتابوں کو بآسانی سمجھ سکیں۔
 دار العلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ میں بھی یہ مقدمہ نصاب کا جزو ہے، اس کی تدریس عام طور سے مفتی آفتاب عالم قاسمی کے ذمہ رہی ہے، جو ’’آفتاب بزمی‘‘ کے نام سے بھی  جانے جاتے ہیں، گیدر گنج، اندھرا ٹھاڑی ضلع مدھوبنی کے رہنے والے ہیں، گذشتہ آٹھ سالوں سے دار العلوم الاسلامیہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں، احادیث کی بعض کتابوں کی تدریس بھی ان کے ذمہ ہے جواں سال ہیں، علم پختہ ہے، مطالعہ کا شوق ہے اور حاصل مطالعہ کو جمع کرنے اور اس میدان میں کچھ کر گذرنے کا جذبہ بھی جواں ہے، لکھتے پڑھتے رہے ہیں اور چیزوں کو مرتب انداز میں پیش کرتے ہیں، تحفۃ الافادات فی شرح مقدمہ مشکوٰۃ کو میں نے جو کچھ اوپر لکھا ہے اس کی دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے، شرح دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ مفتی آفتاب عالم کے علم میں گہرائی بھی اور گیرائی بھی ، اس علمی انحطاط کے دور میں طلبہ عربی شروحات کے بجائے اردو شرح سے مستفیض ہونا زیادہ پسند کرتے ہیں، گو اس سے اصل ماخذ سے علم کے حصول میں انحطاط ہوتا ہے، لیکن کیا کیجئے اب تو یہ ایک ضرورت بن گئی ہے ، اور آسان ترین کتابوں کی شروحات بھی لکھی جا رہی ہیں، میں نے اردو کی چوتھی کی شرح دیکھی ہے، اور ہمارے ایک بزرگ نے شرح قواعد بغدادی بھی لکھی تھی ، مقدمہ مشکوٰۃ تو بڑی ارفع واعلیٰ چیز ہے، اس لیے مفتی آفتا ب عالم قاسمی کی اس اردو شرح کو طالب علموں کی ضرورت سمجھنا چاہیے اور طالب علم ہی کیا ، مولانا نے جو انداز اختیار کیا ہے اور جس طرح اصل متن پر اعراب لگا کر با محاورہ ترجمہ کیا ہے، پھر الفاظ کی تحقیق کی ہے، اصل متن پر جو کلام کیا ہے وہ اساتذہ کے لیے بھی مفید ہے، اساتذہ بھی تو اسی دور انحطاط کی پود ہوتے ہیں اور ان کی ضرورتیں بھی اس شرح سے پوری ہوتی نظر آتی ہیں، میں نے بعض اساتذہ کو اردو شرح سامنے رکھ کر پڑھاتے بھی دیکھا ہے، مفتی آفتاب عالم قاسمی ہم سب کی طرف سے شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ہم سب کے لیے علمی بھرم قائم رکھنے کا سامان بہم پہونچا دیا ہے۔
کتاب ایک سو چوراسی صفحات پر مشتمل ہے، مکتبہ صوت القرآن دیو بند نے شائع کیا ہے ، قیمت درج نہیں ہے، اس لیے مفت ملنے کے امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا، ملنے کے دو پتے ریان بکڈپو گیدر گنج اندھراٹھاڑی ضلع مدھوبنی اور دار العلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ درج ہے، نمبر ۳ اور ۳؍ کو خالی رکھا گیا ہے، یہ محذوف منوی ہے، محذوف منوی کو متعین کرنے میں قرینہ سے کام چل جاتا ہے، یہاں اس کا بھی موقع نہیں ہے، اسی طرح فہرست میں جو تین تقریظ مذکور ہے ، اس میں ایک کی جگہ بھی صفحہ ۱۵؍ پر خالی ہے۔ ممکن ہے کسی بڑے کی تحریر مطلوب رہی ہو اور طباعت کے وقت دستیاب نہیں ہو سکی اور اس بڑے کی جگہ کسی کو دی نہیں جا سکتی تھی اس لیے خالی چھوڑ دیا گیا ، تاویلات کچھ بھی کر لیں یہ ترتیب کی کمی ہے، اسے خالی نہیں رہنا چاہیے تھا۔
 کتاب کا انتساب محدثین عظام ، ازہر ہند دار العلوم دیو بند، دار العلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ اور والدین کے نام ہے جو سب کے سب اہم ہیں، یہ سلسلہ بھی اب متروک ہوتا جا رہا ہے ، اب تو لوگ پرانے زمانہ کی طرف لوٹ رہے ہیں، پہلے کتابوں کی طباعت کے لیے بادشاہ ، نواب، امراء رقومات فراہم کراتے تھے اور کتاب ان کے نام معنون ہوجاتی تھی، آج کے دور میں بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے ، جس نے طباعت کے لیے سرمایہ دیا، اس کے نام منسوب ہو گئی ، چاہے وہ کسی قماش کا آدمی ہو اور علمی معاملات ومسائل سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہ ہو، کتاب کا منصہ شہود پر لانے کا وہ ذریعہ بن گیا ہے ، اس لیے ہمارے لیے وہ شخص زیادہ اہم ہے، مفتی آفتاب صاحب نے جن اشخاص اور اداروں کے نام اس کا انتساب کیا ہے وہ ظاہری اور معنوی اعتبار سے اس لائق ہیںکہ اپنے خارجی وجوداسباب اور صلاحیت وصالحیت کے حوالہ سے ان کا نام لیا جائے۔ 
کتاب پر دو تقریظ موجود ہے، ایک حضرت مولانا خضر محمد صاحب کشمیری نقشبندی استاذ حدیث دار العلوم دیو بند اور حضرت مولانا عبد اللہ معروفی استاذ تخصص فی الحدیث الشریف دار العلوم دیو بند کی۔ مفتی صاحب اس معاملہ میں بھی دور اندیش اور عقل مند ثابت ہوئے ہیں، انہوں نے جن دوشخصیات کا انتخاب کیا وہ دیو بند میں کتابوں کی مارکیٹنگ کے لیے انتہائی ضروری تھے، دار العلوم کے کسی استاذ کی تقریظ نہ ہو تو طلبہ اچھی اور علمی کتابوں کی طرف بھی متوجہ ہونے کا خطرہ مول نہیں لیتے، ان دونوں حضرات کی تقریظ سے اس شرح کے خریدنے والوں کا رجوع عام بھی ہوگا اور تام بھی ۔
 مولانا خضر محمد صاحب نے اس شرح کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ علماء اور طلبہ کے لیے یہ کتاب حل مقدمہ کے لیے معاون ثابت ہوگی، موصوف نے اردو زبان میں مصطلحات حدیث کی بہتر اور مناسب تعریف کی ہے اور اطناب سے گریز کیا ہے ، اختیاری مطالعہ کے عنوان سے مزید تحقیق کے لیے تشنگان اصول حدیث کے لیے پیاس  بجھانے کا کام کیا ہے  (صفحہ ۱۳) 
حضرت مولانا عبد اللہ معروفی صاحب کا خیال ہے کہ ’’یہ کتاب علمی حلقوں اور طلبہ علوم حدیث کے درمیان قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی (صفحہ ۱۴)
شرح اچھی ہے ، ہر اصول کی مثال دی گئی ہے ، اور مغلق عبارت کو حل کیا گیا ہے ، اختیاری مطالعہ میں کن مباحث میں کن امور کا مطالعہ کرنا چاہیے اس کی تفصیل درج کردی گئی ہے تاکہ شائقین میں ’’ھل من مزید‘‘ کی پیاس لگی رہے، حدیث سے شغف رکھنے والوں کے لیے اس کتاب کا مطالعہ انتہائی مفید ہے، کتاب اس لائق ہے کہ اسے افادہ عام کے لیے لائبریری اور مکتبوں میں رکھا جائے، اللہ سے دعا ہے کہ مفتی آفتاب عالم قاسمی کی یہ قیمتی اور علمی شرح آئندہ مزید تصنیفی وتالیفی سرگرمیوں کا نقطۂ آغاز بن جائے۔آمین

جمعہ, فروری 18, 2022

انتخابی منظر نامہ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

انتخابی منظر نامہ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 ملک کی پانچ ریاستوں اتر پردیش، پنجاب، اترا کھند، گوا اور منی پور میں رواں ماہ میں انتخابات ہونے ہیں، پنجاب کو چھوڑ کر سبھی ریاستوں میں بھاجپا حکومت میں ہے، اس کی جوڑ توڑ کے طریقۂ کارنے اسے اقتدار تک پہونچانے میں نمایاں رول ادا کیا ہے، اس وقت سب کی نظریں اتر پردیش پر لگی ہوئی ہیں ، کیوں کہ یہ غلط بات لوگوں میں مشہور ہے کہ مرکزی حکومت کے اقتدار کا راستہ اتر پردیش سے گذرتا ہے اور جو پارٹی یہاں حکمراں ہوتی ہے وہی دہلی میں بر سر اقتدار آتی ہے،حالاں کہ اس کی حیثیت غلط فہمی سے زیادہ کچھ نہیں ، اتر پردیش میں ملائم سنگھ ، اکھلیش یادو، مایا وتی کی حکومت رہی لیکن مرکز میں بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتیں راج کرتی رہیں،ا لبتہ یہ بات سچ ہے کہ یہاں پارلیامنٹ کی سیٹیں زیادہ ہیں اور اگر عوام مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے انتخابات میں الگ الگ ترجیحات کو سامنے نہ رکھے تو ارکان کی مجموعی تعداد پر اس کا اثر پڑتا ہے۔
 اس وقت اتر پردیش میں کانگریس اور مایا وتی نے الگ الگ تال ٹھوک رکھا ہے، بھاجپا اور سماجوادی پارٹی کی بنیاد مضبوط ہے اور اسد الدین اویسی کی ایم آئی ایم بھی بہت سارے حلقوں سے قسمت آزمائی کر رہی ہے، بظاہر مقابلہ بھاجپا اور سماجوادی پارٹی کے درمیان ہے، چند سیٹیں ایم آئی ایم کو بھی آجائے تو حیرت نہیں ہونی چاہیے، کانگریس میں پرینکا گاندھی وہاں سے وزیر اعلیٰ کا چہرہ ہیں اور ان کی محنت بھی اچھی ہے، انہیں اپنے بھائی راہل گاندھی کی بھی حمایت حاصل ہے، لڑکی ہوں، لڑ سکتی ہوں کہ پرینکا گاندھی کے نعرے نے خواتین میں ایک نیا جوش پیدا کیا ہے، بھاجپا کو اندرونی خلفشار کا سامنا ہے اور اس کے کئی قدآور نیتا سماج وادی میں جا چکے ہیں، اس بھگدڑ کا فائدہ بھی سماج وادی پارٹی کو دکھتا نظر آ رہا ہے ۔
 پنجاب میں کانگریس کی حکومت ہے، موجودہ وزیر اعلیٰ چنئی کو ہی کانگریس نے اگلی حکومت کا سر براہ متعین کیا ہے، وہاں پارٹی کی جیت کے آثار واضح تھے، کسانوں کی تحریک میں پنجاب کا جو حصہ رہا ہے اس کا فائدہ بھی اس کو ملنا طے تھا، لیکن نوجوت سنگھ سدھو نے اپنی پارٹی کے خلاف جو محاذ کھول رکھا ہے،وزیر اعلیٰ کی کرسی تک نہیںپہونچنے کا جو انہیں صدمہ ہے اس سے پارٹی کمزور ہو رہی ہے، یہاں بھاجپا، اکالی دل بہوجن سماج پارٹی اور دو علاقائی پارٹیوں کے ساتھ عام آدمی پارٹی بھی قسمت آزما رہی ہے، سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ یہاں عام آمی پارٹی کی زمین بھی مضبوط ہے، اس لئے وہ کانگریس کو ٹکر دے سکتی ہے، بھاجپا اور دیگر پارٹیوں کی یہاں دال گلتی نظر نہیں آتی، سدھو سیاسی دانشمندی سے کام لیں تو یہاں پارٹی  دوبارہ برسراقتدار آنے کے امکانات سے انکار نہیں کہا جاسکتا۔
اتراکھنڈ میں بھاجپا کی حکومت ہے، لیکن بھاجپا کی قیادت اس سے مطمئن نہیں ہے، کم وقفہ ہیں، دو وزیر اعلیٰ یہاں برلے جاچکے ہیں، یہاں بھاجپا سے اقتدار صرف کانگریس ہی چھین سکتی تھی، لیکن عام آدمی پارٹی کے داخل ہو جانے کی وجہ سے بی جے پی کو فائدہ پہونچنے کا امکان ہے۔اور ہوسکتا ہے کہ یہاں مقابلہ سہ رخی ہوجائے۔
گوا میں بھاجپا کی حکومت گورنر کی مہربانی سے بن گئی تھی، یہاں اسمبلی کی صرف چالیس سیٹ ہے، ان سیٹوں سے زیادہ یہاں قومی اور علاقائی سیاسی پارٹیاں ہیں، بھاجپااور عام آدمی پارٹی کے علاوہ یہاں شیوشینا اور شردپوار کی ایس سی پی یہاں مشترکہ طورپر انتخاب لڑ رہی ہے، یہاں مقابلہ کثیر جماعتوں کے درمیان ہے، ترنمول کانگریس نے بھی یہاں امیدوار کھڑے کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس معابلہ میں کانگریس کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے کیوںکہ یہاں کی روایت فرقہ وارانہ بنیادوں پر رائے دینے کی نہیں رہی ہے، یہاں رام مندر، جے شری رام اور گئو ماتا کے نعرے انتخابی دنگل میں ہلچل نہیں پیدا کرتے ہیں۔
منی پور بھی بھگوا دھاریوں کے ہاتھ میں ہے، یہاں مسلمانوں اور مساجد کے خلاف حالیہ دنوں میں تحریک چلائی گئی تھی، اس کے اثرات یہاں موجود ہیں، یہاں مسلمانوں کی آبادی اس قدر نہیں ہے کہ وہ ارکان اسمبلی کے انتخاب پر اثر انداز ہو سکیں، بھاجپا کو اس کا فائدہ مل سکتا ہے۔انتخاب سے قبل ہی اکزٹ پول ٹی وی چینلوں پر آنے لگے ہیں، لیکن ان پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ، کیوں کہ میڈیا بکی ہوئی ہے اور فتح وشکست کے اس کے اعداد وشمار ماضی میں غلط ثابت ہوتے رہے ہیں، اس لیے کسی بھی تجزیہ کوحتمی اور آخری نہیں کہا جا سکتا ، آخری مرحلہ میں رائے دہندگان کس نعرے سے متاثر ہوں گے، کہنا مشکل ہے، یہاں انتخابات میں ذات پات کا رول بھی نتیجہ خیزہوتا ہے، مسلمان کم ہوں یا زیادہ، ہمارا مشورہ ہے کہ اپنی آرا کا سوچ، سمجھ اور متحد ہو کر استعمال کریں تو ان کی قوت وطاقت محسوس کی جاسکتی ہے، ورنہ بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے ۔

علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی اسکالر کو ذاکر حسین فاؤنڈیشن نے " مدر ٹریسا" ایوارڈ سے نوازا___

علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی اسکالر کو ذاکر حسین فاؤنڈیشن نے " مدر ٹریسا" ایوارڈ سے نوازا___
 بیگو سراءے 19 فروری (پریس ریلیز) ڈاکٹر ذاکر حسین فاؤنڈیشن کا سالانہ اجلاس بروز اتوار نہایت تزک و احتشام کے ساتھ میرس روڈ پر واقع ہوٹل لیمن ٹری میں منایا گیا. جس میں فاؤنڈیشن کی انیسویں سالگرہ کے موقع پر منعقدہ پروگرام میں نفسیات اور ذہنی صحت جیسے مختلف شعبوں میں سو سے زائد کارکنان کو  انعام و اعزازات سے  نوازا گیا  اس موقع پر ذاکر حسین فاؤنڈیشن کے تمام اراکین موجود تھے. مہمان خصوصی پروفیسر پرویز مسرت وائس چانسلر انٹیگرل یونیورسٹی لکھنؤ، پروفیسر سفیان بیگ پرنسپل ذاکر حسین کالج، پروفیسر اسلم پرویز سابق وائس چانسلر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، پروفیسر راشد نہال، پروفیسر ریحان خان پرو وائس چانسلر دلی کوشل اودھمتا یونیورسٹی، پروفیسر شاہد پرنسپل جواہر لعل نہرو چکستا کالج.
واضح ہو کہ محمد شہباز حسین علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے الیکٹرانکس انجینئرنگ کے شعبے میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں، جناب پروفیسر محمد حسن صاحب کے اشراف میں اپنے پی ایچ ڈی مقالے کو تیار کر رہے ہیں.
 موصوف بیگوسرائے ضلع کے بلیا انومنڈل کے صالح چک پنچایت کے رہنے والے ہیں اور الحاج محمد برکت حسین کے فرزند ہیں  تعلیم کے ساتھ ساتھ سماجی خدمات  بھی انجام دینے میں کافی متحرک رہتے ہیں 
 لاک ڈاؤن کے   اس مصیبت زدہ دور میں جہاں مسافروں کو نئے نئے مشکلات کا سامنا کر پڑ رہا تھا  وہیں مسافروں کی امداد و تعاون کرنے والے گمنام لوگوں کی کمی نہیں ہے. ایسی ہی ایک مثال نیو دہلی سے میزورم جا رہی شارمک اسپیشل ٹرین میں سوار مسافر مزدوروں کے ساتھ پیش آیا تھا. در اصل کرونا کے پہلے لاؤکڈاؤن کے وقت ایک شارمک اسپیشل ٹرین دلی سے میزورم جا رہی تھی. بیگوسرائے ضلع میں برونی کٹیہار ریلکھنڈ کے لکھمنیا ریلوے اسٹیشن کے قریب ٹرین رکی تو ریلوے کے کنارے واقع قصبہ گاؤں کے انسانیت نواز لوگ اور صالحچک کے نیک دل انسان محمد شہباز حسین کی ٹیم نے میزورم، بنگال، منیپور جیسے مشرقی صوبوں کے شارمک ٹرین کے مسافرین کو کھانے پینے کی اشیاء اور شیرخوار بچوں کے لیے دودھ کا بہتر انتظام کرایا تھا. ان گاؤں واسیوں کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے اس بہترین عمل کی تعریف پہلے ہی میزورم کے وزیر اعلیٰ  جورانگ تھانگا، بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار، منی پور کے وزیر اعلی این بیرین سنگھ، سنجے کمار آئ اے ایس صدر شعبہ تعلیم، آئ ایف ایس آفیسر نندا، راجد کے با وقار نیتا سابق ایم ایل سی ڈاکٹر تنویر حسن، اروناچل پردیش کے وزیراعلیٰ پیما کھانڈو نے ٹیوٹر پر اس نیک عمل کی ویڈیو اپلوڈ کرتے ہویے بیگوسرائے کے عوام کی تعریف کی اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا تھا  اس سے پہلے انڈین ریلوے سینٹرل ڈویژن کے چیف اور میزورم کے وزیراعلیٰ جورام تھانگا نے خط لکھ کر سماجی کارکن محمد شہباز حسین سمیت صالح چک پنچایت اور قصبہ کی انسانیت نواز عوام کی تعریف و تحسین پیش کی تھی. انہوں نے کہا تھا کہ ایسے نوجوانوں کے رہتے ہوے انسانیت ہمیشہ زندہ رہے گی.
جتنے بھی خواتین و حضرات حوصلہ افزائی اور دعاؤں کے لیے اس موقع پر تشریف فرما تھے، شہباز حسین نے سبھی کا تہ دل سے شکریہ ادا کیا.

اورہم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمیجھارکھنڈ دورے کے چوتھے روز مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کا مسلمانوں سے خطاب

اورہم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
جھارکھنڈ دورے کے چوتھے روز مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کا مسلمانوں سے خطاب 
رانچی 18 فروری  (پریس ریلیز) مسلمانوں کو آج جن مسائل و مشکلات ،پریشانی اور مصائب کا سامنا ہے اس کی واحد وجہ احکام خداوندی اور ہدایت نبوی سے دوری ہے ،ہماری بے راہ روی ،بے عملی اور بد عملی نے ہمیں یہ دن دکھایا ہے، ہم عملا تارک قرآن ہو گئے ہیں اور علامہ اقبال نے بجا فرمایا کہ اورہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر ،قرآن کریم میں بھی   اللّٰہ رب العزت نے فرمایا کہ رسول کہیں گے کہ میری قوم نے قرآن کریم کو چھوڑ دیا تھا ،ان خیالات کا اظہار امارت شرعیہ کے نائب ناظم ، وفاق المدارس الاسلامیہ کے ناظم اور اردو کارواں کے نائب صدر مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے شہر رانچی  کے وسیع و عریض مدینہ مسجد ہند پیڑھی میں کیا ۔وہ یہاں مسلمانوں کے ایک بڑے مجمع سے خطاب فرما رہے تھے ،انہوں نے امیر شریعت کے سمع و طاعت ، دارالقضاء کی اہمیت اور مسلمانوں کے درمیان پھیلی ہوئی سماجی برائیاں اور منکرات پر کھل کر گفتگو کی ، ایک گھنٹے کے اپنے بیان میں نائب ناظم صاحب نے شہر کے برگزیدہ علماء جن میں قاری علیم الدین قاسمی،مولانا صدیق مظاہری اور مولانا جمیل اختر رحمہم اللہ کی سماجی ،تعلیمی خدمات اور امارت شرعیہ سے ان کے مضبوط،مستحکم اور قدیم تعلق کا ذکر کیا،نائب ناظم صاحب نے مولانا اکرام الحق عینی صاحب صدر امارت شرعیہ لوردگا، ڈاکٹر مفتی محمد سلمان قاسمی صاحب صدر مرکزی مجلس علماء جھارکھنڈ،مو لانا انصاراللہ قاسمی صاحب امام و خطیب مدینہ مسجد ہندپیڑھی، مولانا رضوان قاسمی صاحب ،قاری صہیب احمدصاحب نعمانی ،مولانا منظور عالم قاسمی صاحب رکن عاملہ امارت شرعیہ اورمفتی محمداللہ قاسمی نائب امام و خطیب مدینہ مسجد ہندپیڑھی سے جھارکھنڈ میں امارت شرعیہ کے کاموں کو استحکام اور رفتار دینے پر تبادلہ خیال کیا ،ڈاکٹر مفتی محمد سلمان قاسمی نے فرمایا کہ جھارکھنڈ میں امارت شرعیہ کے ذریعہ تعلیمی کام جس قدر مستحکم ہوگا لوگوں میں اسی قدر پذیرائی ہوگی۔ نائب ناظم صاحب دفتر کے انتظام و ارنصرام اور ضروریات پر مفتی محمد انور قاسمی قاضی شریعت دارالقضاء امارت شرعیہ رانچی ،مکتب امارت شرعیہ کے معلم اور کارکن دارالقضاء امارت شرعیہ مولانا ابوداؤد قاسمی سے تفصیلی گفتگو فرمائی، مفتی صاحب یہاں سے آسنسول کے لئے روانہ ہو گئے،مفتی محمد انور قاسمی قاضی شریعت دارالقضاء امارت شرعیہ رانچی نے اور مولانا ابوداؤد قاسمی نے انہیں الوداع کہا۔ آسنسول میں وہ ذیلی دفتر دارالقضاء کے کاموں کے ساتھ ساتھ مولانا منت اللہ رحمانی اردو ہائی اسکول کا تعلیمی جائزہ لیں گے اور وہاں کی انتظامیہ اور اساتذہ سے لاک ڈاؤن کے بعد کی صورت حال اور اسکول کو در پیش مشکلات اور اس کے حل پر گفتگو فرمائیں گے ۔یہ اطلاع  مولاناابوداؤد قاسمی نے دی ہے

معیاری عصری تعلیمی اداروں کا قیام وقت کی بڑی ضرورت - مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

معیاری عصری تعلیمی اداروں کا قیام وقت کی بڑی ضرورت - مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
جھارکھنڈ دورے کے تیسرے دن رانچی اور اس کے مضافات کے کاموں کا نائب ناظم امارت شرعیہ نے جائزہ لیا -
رانچی 17 فروری (پریس ریلیز) امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ کے نائب ناظم، وفاق المدارس الاسلامیہ کے ناظم اور اردو کارواں کے نائب صدر مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے رانچی میں امارت شرعیہ کے ذریعہ چلائی جا رہی تعلیمی اسکیموں اور اداروں کا جائزہ لیا، مفتی صاحب دارالقضاء رانچی کے قاضی شریعت مفتی محمد انور قاسمی، امارت شرعیہ کے رکن عاملہ مولانا منظور قاسمی اور مولانا پرویز صاحب مبلغ امارت شرعیہ کے ساتھ امارت پبلک اسکول پسکا نگڑی پہونچے، جہاں مولانا سہیل سجاد قاسمی اور امارت پبلک اسکول کے دیگر ذمہ داران نے ان حضرات کا گلدستہ دے کر پر جوش استقبال کیا، مفتی صاحب نے اپنے رفقاء کے ساتھ تمام درجات کا تعلیمی جائزہ لیا اور لاک ڈاؤن کے باوجود تعلیمی معیاری کی برقراری پر اطمینان کا اظہار کیا اور ضروری مشورے دیے، اس موقع سے نائب ناظم صاحب نے اساتذہ کے ساتھ تفصیلی مٹنگ کی اور انہیں بتایا کہ اچھا استاذ ہونے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کے اندر اپنی صلاحیتوں کو طلبہ و طالبات میں منتقل کرنے کا جزبہ ہونا چاہئے، اس جزبہ کا تعلق مالیات سے نہیں ہوتا، ذمہ داریوں کے احساس سے ہوتا ہے، انہوں نے فرمایا کہ آپ کے اندر طلبہ کو کچھ دینے کا شوق جس قدر غالب ہوگا اسی قدر یہاں کے طلبہ و طالبات معیاری تعلیم کی دولت سے مالا مال ہوں گے، مفتی محمد انور قاسمی صاحب قاضی شریعت دارالقضاء امارت شرعیہ رانچی نے فرمایا کہ تدریس کا عمل خدمت بھی ہے اور عبادت بھی، دونوں حیثیت کے ادراک و احساس کے بغیر اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی ممکن نہیں ہے، انہوں نے اساتذہ کی محنتوں کو سراہا اور انتظام و انصرام پر اطمینان کا اظہار کیا - 
نائب ناظم صاحب نے دفتر امارت شرعیہ کربلا ٹینک روڈ رانچی میں چل رہے اردو دینی مکتب کا بھی تعلیمی جائزہ لیا، یہاں قرآن کریم صحت کے ساتھ پڑھایا جا رہا ہے، اوراد و اذکار بچے بچیوں کو یاد کرائے جاتے ہیں اور بنیادی دینی تعلیم سے طلبہ و طالبات کو واقف کرایا جاتا ہے، مفتی صاحب نے یہاں بھی ضروری مشورے دیئے اور طلبہ کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے ضروری انتظامات کے سلسلے میں رہنمائی کی - 
امارت شرعیہ کے ذریعہ دو اور تعلیمی ادارے کے لئے تیزی سے کام جاری ہے، مفتی صاحب نے ان دونوں جگہوں کا دورہ کیا اور کاموں کا جائزہ لیا، ان میں ایک ہندپیڑھی اور دوسرا اربا میں ہے، ہندپیڑھی میں چار منزلہ عمارت بن کر تیار ہے وہاں فنشنگ کا کام چل رہا ہے، امیرشریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے حکم و ہدایت کے مطابق جلد ہمعیاری عصری تعلیمی اداروں کا قیام وقت کی بڑی ضرورت - مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
جھارکھنڈ دورے کے تیسرے دن رانچی اور اس کے مضافات کے کاموں کا نائب ناظم امارت شرعیہ نے جائزہ لیا -
رانچی 17 فروری (پریس ریلیز) امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ کے نائب ناظم، وفاق المدارس الاسلامیہ کے ناظم اور اردو کارواں کے نائب صدر مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے رانچی میں امارت شرعیہ کے ذریعہ چلائی جا رہی تعلیمی اسکیموں اور اداروں کا جائزہ لیا، مفتی صاحب دارالقضاء رانچی کے قاضی شریعت مفتی محمد انور قاسمی، امارت شرعیہ کے رکن عاملہ مولانا منظور قاسمی اور مولانا پرویز صاحب مبلغ امارت شرعیہ کے ساتھ امارت پبلک اسکول پسکا نگڑی پہونچے، جہاں مولانا سہیل سجاد قاسمی اور امارت پبلک اسکول کے دیگر ذمہ داران نے ان حضرات کا گلدستہ دے کر پر جوش استقبال کیا، مفتی صاحب نے اپنے رفقاء کے ساتھ تمام درجات کا تعلیمی جائزہ لیا اور لاک ڈاؤن کے باوجود تعلیمی معیاری کی برقراری پر اطمینان کا اظہار کیا اور ضروری مشورے دیے، اس موقع سے نائب ناظم صاحب نے اساتذہ کے ساتھ تفصیلی مٹنگ کی اور انہیں بتایا کہ اچھا استاذ ہونے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کے اندر اپنی صلاحیتوں کو طلبہ و طالبات میں منتقل کرنے کا جزبہ ہونا چاہئے، اس جزبہ کا تعلق مالیات سے نہیں ہوتا، ذمہ داریوں کے احساس سے ہوتا ہے، انہوں نے فرمایا کہ آپ کے اندر طلبہ کو کچھ دینے کا شوق جس قدر غالب ہوگا اسی قدر یہاں کے طلبہ و طالبات معیاری تعلیم کی دولت سے مالا مال ہوں گے، مفتی محمد انور قاسمی صاحب قاضی شریعت دارالقضاء امارت شرعیہ رانچی نے فرمایا کہ تدریس کا عمل خدمت بھی ہے اور عبادت بھی، دونوں حیثیت کے ادراک و احساس کے بغیر اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی ممکن نہیں ہے، انہوں نے اساتذہ کی محنتوں کو سراہا اور انتظام و انصرام پر اطمینان کا اظہار کیا - 
نائب ناظم صاحب نے دفتر امارت شرعیہ کربلا ٹینک روڈ رانچی میں چل رہے اردو دینی مکتب کا بھی تعلیمی جائزہ لیا، یہاں قرآن کریم صحت کے ساتھ پڑھایا جا رہا ہے، اوراد و اذکار بچے بچیوں کو یاد کرائے جاتے ہیں اور بنیادی دینی تعلیم سے طلبہ و طالبات کو واقف کرایا جاتا ہے، مفتی صاحب نے یہاں بھی ضروری مشورے دیئے اور طلبہ کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے ضروری انتظامات کے سلسلے میں رہنمائی کی - 
امارت شرعیہ کے ذریعہ دو اور تعلیمی ادارے کے لئے تیزی سے کام جاری ہے، مفتی صاحب نے ان دونوں جگہوں کا دورہ کیا اور کاموں کا جائزہ لیا، ان میں ایک ہندپیڑھی اور دوسرا اربا میں ہے، ہندپیڑھی میں چار منزلہ عمارت بن کر تیار ہے وہاں فنشنگ کا کام چل رہا ہے، امیرشریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے حکم و ہدایت کے مطابق جلد ہ حکم و ہدایت کے مطابق جلد ہی اس کا آغاز کر دیا جائے گا، اربا میں عمارت کے تعمیری منصوبے پر کام چل رہا ہے اور امیرشریعت سابع حضرت مولانا محمد ولی رحمانی رحمہ اللہ نے اسکول کے لئے جو کمیٹی تشکیل دی تھی وہ اس منصوبے کو زمین پر اتارنے اور معیاری تعلیمی ادارے کے قیام کے لئے انتہائی فکر مند ہیں، مفتی صاحب کا قیام آج شام تک رانچی میں رہے گا اور وہ عمائدین شہر سے تبادلۂ خیال کے ساتھ جمعہ سے خطاب بھی فرمائیں گے، یہ اطلاع مولانا ابوداؤد قاسمی صاحب معاون قاضی شریعت دارالقضاء امارت شرعیہ رانچی نے دی، جائزہ کے تمام پروگرام میں مفتی محمد انور قاسمی صاحب قاضی شریعت دارالقضاء امارت شرعیہ رانچی ،رکن عاملہ امارت شرعیہ مولانا منظور عالم قاسمی صاحب اور مبلغ امارت شرعیہ مولانا پرویز صاحب ساتھ ساتھ رہے

جمعرات, فروری 17, 2022

دین سے دوریمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

دین سے دوری
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

کسی حکیم کے پاس ایک ضعیف ، کمزور وناتواں انسان مر ض کی تشخیص اور علاج کے لیے گیا ، اس نے حکیم صاحب سے عرض کیا کہ بدن میں  درد ہے، حکیم نے کہا: ضعف کی وجہ سے ہے، مریض نے کہا سر چکراتا ہے، حکیم نے کہا: ضعف کی وجہ سے ہے، مریض نے عرض کیا آنکھوں میں تارے ناچتے ہیں، اور پاؤں ڈگمگاتا ہے، حکیم نے کہا: ضعف کی وجہ سے ہے، مریض کو سخت غصہ آیا ، اس نے کہا : تم نے پڑھا کیا ہے، تم کو خالی ضعف ہی یاد رہ گیا ہے، حکیم صاحب نے انتہائی تحمل ، بردباری اور سنجیدگی سے کہا : یہ جھنجھلاہٹ بھی ضعف کی وجہ سے ہے۔
 آج مسلم معاشرہ میں کم وبیش جو برائیاں پھیلی ہوئی ہیں، ان کے اسباب وعلل پر جتنا غور کیجئے، اور جتنا بھی تجزیہ کیجئے اس کا جواب اس حکیم کی طرح ایک ہی سمجھ میں آتا ہے اور وہ ہے مکمل دین سے دوری اور مذہبی بیزاری، سماج میں کہیں ظلم ہو رہا ہے، دین سے دوری کی وجہ سے ، رشوت ، سود خواری ، ناپ تول میں کمی بیشی، ملاوٹ کیا جارہاے، دین سے دوری کی وجہ سے ، جھوٹ ، وعدہ خلافی ، خیانت ، بد دیانتی ، غداری، دغا بازی ، بہتان ، چغل خوری اورآپسی جھگڑے عام ہیں ، جو اب ہے دین کی دوری کی وجہ سے ،دور خاپن بد گمانی، غیر ضروری مداحی، خوشامد، بخل، حرص وطمع بے ایمانی اور چوری نے سماج میں اپنی جگہ بنا لی ہے، اور لوگ تیزی سے اس طرف بھاگ رہے ہیں، دین سے دوری کی وجہ سے ، غیظ وغضب، بعض وکینہ، ظلم، فخر وغرور، ریا، خود پسندی ، خود نمائی، فضول خرچی حسد اور فحش گوئی انسانوںکا مزاج بن گیا ، جو اب ایک اور صرف ایک ہے، دین سے دوری کی وجہ سے آج زبان کی سچائی، دل کی سچائی، عمل کی سچائی کا وجود نظر نہیں آتا، عفت وپاکبازی، شرم وحیا، رحم ، عدل وانصاف، عہد کی پابندی دیکھنے کو نہیں ملتی ، احسان ، عفو ودر گذر ، حلم وبردباری ، انس ولطف ، تواضع وخاکساری، خوش کلامی ، ایثار، اعتدال ، اور میانہ روی ، خود داری یا عزت نفس، شجاعت اور بہادری ، استقامت اور حق گوئی کے واقعات صرف کتابوں میں ملتے ہیں، عملی زندگی میں یہ قصہ پارینہ بن گئے ہیں، گویا مسلم معاشرہ میں مکارم اخلاق اور حقوق وفرائض کی ادائیگی کا دروازہ بند ہوتا جا رہا ہے اور یہ متاع بے بہا، نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہو گیا ہے، اور اس کی جگہ رذائل تیزی سے لیتے جا رہے ہیں ، جو لوگ آج بھی فضائل اخلاق کو پکڑے ہوئے ہیں، وہ سماج کی نظر میں دقیانوس، لکیر کے فقیر اور بیوقوف سمجھے جاتے ہیں، اس سوچ نے سماج کو راہ راست پر آنے سے دور کر رکھا ہے، اسلام جو مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے آیا تھا، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر اعلان کیا تھا کہ ’’میں حسن اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ حسن اخلاق کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اتنا غلبہ تھا کہ کوئی وارد وصادر بھی بادی النظر میں اسے دیکھ کر محسوس کر سکتا تھا،  یہی وجہ ہے کہ حضرت ابو ذرؓ نے اسلام لانے سے قبل جب اپنے بھائی کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور تعلیمات کی تحقیق اور دریافت حال کے لیے بھیجا تو ان کے بھائی نے آکر جو رپورٹ پیش کی اس کا ایک جملہ تھا ’’میں نے ان کو دیکھا کہ وہ لوگوں کو اخلاق حسنہ کی تعلیم دیتے ہیں‘‘ اور یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’مسلمانوں میں کامل ایمان اس کا ہے، جس کا اخلاق سب سے اچھا ہو‘‘۔ ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہوا۔ ’’تم میںسب سے اچھا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں‘‘۔ ایک اور حدیث میں ہے۔’’ جب نامۂ اعمال تولے جائیں گے تو ترازو میں حسن خلق سے زیادہ بھاری کوئی چیز نہیں ہوگی، اس لیے کہ حسن خلق والا اپنے حسن خلق کی بدولت ہمیشہ کے روزہ دار اور نمازی کا درجہ حاصل کر سکتا ہے۔
ہم جب دین سے دور ہو گئے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تعلیمات کو فراموش کر بیٹھے تو اس کے نتیجے میں سارا معاشرہ فساد وبگاڑ ، اخلاقی انارکی اور رذائل کی آماجگاہ بن گیا ، اس لیے مسلم معامشرہ میں پھیلی برائیوں کو اگر دور کرنا ہے تو اس کا ایک اور صرف ایک طریقہ ہے اور وہ ہے دین کے ہر ہر جز پر عمل کے لیے اپنے کو آمادہ اور تیار کرنا ، امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ جس کے بنیادی مقاصد میں تنفیذ شریعت  علی منہاج النبوۃ ، یعنی شریعت کا نفاذ نبوی طریقۂ کار کے مطابق ہے، وہ مسلسل اس میدان میں کام کر رہی ہے، اور وہ  چاہتی ہے کہ ہر طبقہ کے لوگ اس مہم کا حصہ بنیں، علامتی نہیں، حقیقی، یہ وقت کی ضرورت بھی ہے اور ایمان کا تقاضہ بھی۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...