Powered By Blogger

منگل, فروری 22, 2022

ہمیں اپنی ترجیحات طے کرنی چاہیے: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی22 فروری( پریس ریلیز) ذیلی دفاتر کے جائزہ کے چودہویں اور آخری دن دھنباد پہونچنے پر اہم خطاب

ہمیں اپنی ترجیحات طے کرنی چاہیے: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
22 فروری( پریس ریلیز) ذیلی دفاتر کے جائزہ کے چودہویں اور آخری دن دھنباد پہونچنے پر اہم خطاب
حالات حاضرہ کے پیش نظر ہماری توجہات اور ترجیحات کی سمت کادرست ہونا ضروری ہے نسل کی ایمانی و فکری بے راہ روی پر حد درجہ تشویشناک رپورٹیں آرہی ہیں ایسے میں سب علماء و دانشوران اور عوام کو متحد ہوکر دینی بیداری پیدا کرنا اسلامی تشخص کو برقرار رکھنا مسلم سماج کو تعلیم کے میدان میں آگے بڑھانا انتہائی ضروری ہے۔
ان خیالات کا اظہار امارت شرعیہ بہار و اڈیشہ و جھارکھنڈ کے نائب ناظم وفاق المدارس الاسلامیہ کے ناظم ذیلی دفاتر کے انچارج ملک کے مشہور و معروف عالم دین و کالم نگار حضرت مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب مدظلہ العالی نے عبد الجبار بڑی مسجد واسع پور دھنباد میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کلمہ کی بنیاد پر اتحاد تعلیم اور خدمت خلق  کے بارے میں فرمایا کہ یہ امارت شرعیہ کی ترجیحات میں شامل ہے، مفتی صاحب نے اجتماعیت اور اس کے تقاضوں پر سیر حاصل گفتگو فرمائ، مفتی صاحب ان دنوں امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی مدظلہ العالی کی ہدایت پر ذیلی دفاتر کے جائزہ اور وہاں کے ضروریات و تقاضوں کے تعلق سے سفر پر ہیں انہوں نے اس موقع سے امارت شرعیہ دھنباد میں جاری دینی مکتب کے طلبہ و طالبات سے قرآن مجید و اذکار مسنونہ سنکر ضروری مشورہ بھی دئے اور اسلامیہ ہائی اسکول مہلی ڈیہ کے پرنسپل و امارت شرعیہ ارباب حل و عقد کے رکن حضرت مولانا یوسف قاسمی صاحب کی دعوت پر اسکول کا جائزہ لے کر خوشی کا اظہار فرمایا اور جھارکھنڈ میں جاری امارت پبلک اسکول کے تعلق سے ضروری مشورے کئے۔
حضرت مفتی صاحب نے آئندہ نسلوں کی آب یاری و ذمہ داریوں کی جانب توجہ مبذول کرنے کا مشورہ بھی دیا آپ نے فرمایا کہ سکنڈ لائن کی تیاری ضروری ہے، انہوں نے فرمایا کہ قحط الرجال کی بات کرنا صحیح نہیں ہے ہمارے پاس قابل افراد ہیں جن کی تربیت کرکے سکنڈ لائن تیار کی جا سکتی ہے، لیکن اس طرف ہماری توجہ نہیں ہے، ضرورت سکنڈ لائن اور دوسری صف کی تیاری کی ہے کیوں کہ یہی ہمارے بعد ہمارے مشن تحریکات اداروں کو حیات نو بخشنے کا کام کریں گے، چودہ دن کے طویل اور تھکا رہنے والے دورے آج مفتی صاحب پٹنہ کے لئے روانہ ہوگئے، قاضی محمد شاہد قاسمی،مولانا محمد شمیم اختر،نورالاسلام ،مولانا افروز ندوی وغیرہ نے انہیں الوداع کہا،یہ اطلاع مولانا محمد شمیم اختر استاذ مکتب امارت شرعیہ دھنباد نے دی ہے۔

نوجوان علماء دیوبند کی تصوف سے دوری*

*نوجوان علماء دیوبند کی تصوف سے دوری*

تصوف ہمارے اکابرین کا منہج و مشرب رہا ہے اکابرین دیوبند فقیہ ہوں محدث ہوں مفسر ہوں یا مورخ ہوں یا پھر کسی تحریکی و حربی تنظیم سے وابستہ رہے ہوں یا انکا کام دعوتی و سیاسی میدان میں ہو، کلام کے ماہرین سے مناظرے و مکالمے کے اساتذہ تک، میدان عمل سے علم کے دائروں تک، صحافتی حلقوں سے حکومتی مسانید تک ہر ہر دائرے سے تعلق رکھنے حضرات کا تعلق کسی نہ کسی درجے میں تصوف کے میدان سے رہا ہے، آپ کسی بھی عالم دیوبند کی سوانح دیکھیے چاہے وہ ندوی (ندوی سلفیہ کے علاوہ) ہو یا سہارنپوری ہو خالص دیوبند مدرسے کا فارغ ہو یا حیدر آباد دکن سے تعلق رکھتا ہو یا پھر پاکستان میں لب ساحل دار العلوم کراچی سے پہاڑوں کے سائے میں بنے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک تک ہر ہر جگہ آپ کو قادری ، چشتی ، ، سہروردی ، نقشبندی سلسلے کے انوارات دکھائی دیں گے۔
مگر افسوس کہ آج کا نوجوان عالم دیوبند معرفت کے ان راستوں سے بیگانہ دکھائی دیتا ہے، اس کے ذہن میں تصوف کے حوالے سے بے شمار اشکالات پیدا ہو چکے ہیں اور وہ قلبی اعتبار سے کسی نہ کسی درجے میں دور جدید کی مادی فکر کے مذہبی رخ سے متاثر ہے یعنی اس کے اندر تحریکیت کا اس درجہ غلبہ ہو چکا ہے کہ اس کی نگاہ قلبی دائروں سے ہٹ گئی ہے۔
آج کہ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مدارس کے نوجوان فاضل کہیں پر کسی ڈسکورس سے متاثر ہیں تو کہیں ان پر ادیب و صحافی بننے کا غلبہ ہے اور وہ اپنے پاک و صاف اموال میں سے اس کے نام پر ہونے والے کورسز میں بیت سا پیسہ جھونک چکے ہیں اور جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارا نوجوان عالم کرپٹو کی وادیوں میں سرگرداں ہے مگر نفی اثبات کی ضربیں اسے بوجھ لگتی ہیں، آج کہ جب ہم ووٹ کی جمہوری غلام گردشوں میں چکراتے ہوئے اسلامی فیمینزم کی بنیاد رکھ رہے ہیں ، مگر افسوس! کہ ہمیں بیعت کے عنوان سے ہی چڑ محسوس ہونے لگی ہے آج کہ جب ہم پر ایک خاص توحیدی منہج فکر کا غلبہ ہے تو ہمیں اپنے اکابر کے تصوف میں شرک کی آمیزش دکھائی دیتی ہے۔
آج ہمارے پاس بے شمار تاویلیں ہیں بہت سی علمی دلیلیں ہیں مگر کیا کیجئے کہ آج ہی کے دور میں گمرہی کے مگر مچھ اپنے جبڑے کھولے ہمارے جسد ملی کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے نگل جانے کے درپے ہیں۔
آج کہ جب روحانیت ہمیں عجوبہ دکھائی دیتی ہے آج کہ جب ہمارا اعتماد کرامت کے نام سے ہی اٹھ چکا ہے (یاد رہے کرامت تصوف کا نہیں کلام کا مسئلہ ہے) آج کہ جب ہمارا ربط دل کی دنیا سے ٹوٹ چکا ہے آج کہ جب ہم چائے خانوں اور ادبی چوپالوں میں بیٹھنے کو معراج سمجھ بیٹھے ہیں اور خانقاہوں سے ہمیں چڑ محسوس ہوتی ہے، سوال یہ ہے کہ، ہے! کوئی غزالی کہ جو تہافت الفلاسفہ کے مباحث سے نکل کر کیمیائے سعادت کے عالم معرفت تک چلا آئے، کیا آج ہمیں مجدد الف ثانیؒ کے مکتوبات اور شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی ہمعات کی ضرورت نہیں۔
آج کہ جب تشکیک کے سیاہ بادل نا صرف جدید جامعات بلکہ قدیم مدارس کے اوپر بھی برسنے کو تیار ہیں تو کیا ہمیں کسی پیر طریقت کے دامن سے وابستہ ہو جانے کی ضرورت نہیں۔
ہاں یہ بات سچ ہے کہ بہت سوں نے پیری مریدی کے نام پر اپنی اپنی دوکانیں کھول رکھی ہیں لیکن کیا دین کے ہر ہر شعبے میں ایسی دوکانیں موجود نہیں ؟ تو پھر خاص تصوف سے ہی بعد کیوں اور افسوس تو اس سانحے پر ہے کہ یہ بعد خالص مخالف و مغائرت کے درجے میں آ چکا ہے۔
تو آج کے نوجوان عالم دیوبند کو یہ بھولا ہو سبق یاد کرانا ہوگا۔
جس طرح ہماری علمی سند ہمارے اکابرین سے نبی کریم ﷺ تک بواسطہ سلف متصل ہے ایسے ہی ہماری روحانی سند ہمارے اکابرین سے نبی کریمﷺ تک بواسطہ مشائخ متصل ہے۔
حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں 
ھو علم یعرف بہ احوال تزکیۃ النفوس وتصفیۃ الاخلاق وتعمیر الظاہر والباطن۔
یعنی وہ علم جس سے تزکیہ نفوس اور تصفیہ اخلاق اور ظاہر و باطن کی تعمیر کے احوال پہچانے جاتے ہیں۔
(سلوک کامل ص7)

ذیل میں اکابرین دیوبند کے سلسلہ روحانی کی ایک سند بواسطہ حضرت مدنیؒ پیش کررہا ہوں ملاحظہ کیجیے اور اپنے اکابرین کے منہج فکر کا ادراک کیجیے۔

حضرات اکابر دیوبند حضرت مولانا محمدقاسم نانوتوی رحمة اللہ علیہ اور حضرت مولانارشید احمد گنگوہی رحمة اللہ علیہ سلوک و تصوف میں سید الطائفہ حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمة اللہ علیہ سے بیعت تھے اور ان حضرات کو حضرت حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ سے اجازت و خلافت حاصل تھی۔ حضرت حاجی صاحب کا چشتی سلسلہ حسب ذیل ہے:

(۱)۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمة اللہ علیہ۔
(۲)۔ الشیخ نور محمد جھنجھانوی رحمة اللہ علیہ۔
(۳)۔الشاہ عبد الرحیم شہید رحمة اللہ علیہ۔
(۴)۔الشیخ عبد الباری امروہوی رحمة اللہ علیہ۔
(۵)۔الشیخ عبد الہادی امروہوی رحمة اللہ علیہ۔
 (۶)۔الشیخ عضد الدین امروہوی رحمة اللہ علیہ۔
(۷)۔الشیخ محمد مکی رحمة اللہ علیہ۔
(۸)۔الشیخ الشاہ محمدی رحمة اللہ علیہ۔
(۹)۔الشیخ محب اللہ الہ آبادی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۰)۔الشیخ ابو سعید گنگوہی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۱)۔الشیخ نظام الدین البلخی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۲)۔جلال الدین تھانیسری رحمة اللہ علیہ۔
(۱۳)۔الشیخ عبد القدوس گنگوہی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۴)۔الشیخ محمد العارف ردولوی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۵)۔الشیخ احمد العارف ردولوی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۶)۔الشیخ عبد الحق ردولوی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۷)۔الشیخ جلال الدین پانی پتی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۸)۔الشیخ شمس الدین الترک پانی پتی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۹)۔الشیخ علاء الدین صابر کلیری رحمة اللہ علیہ۔
(۲۰)۔الشیخ فرید الدین گنج شکر رحمة اللہ علیہ۔
(۲۱)۔الشیخ قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ۔
(۲۲)۔شیخ المشائخ معین الدین چشتی رحمة اللہ علیہ۔
(۲۳)۔الشیخ عثمان الہارونی رحمة اللہ علیہ۔
(۲۴)۔السید الشریف الزندانی رحمة اللہ علیہ۔
(۲۵)۔الشیخ مودود الچشتی رحمة اللہ علیہ۔
(۲۶)۔الشیخ ابو یوسف الچشتی رحمة اللہ علیہ۔
(۲۷)۔الشیخ ابو محمد الچشتی رحمة اللہ علیہ۔
(۲۸)۔الشیخ احمد الابدال الچشتی رحمة اللہ علیہ۔
(۲۹)۔الشیخ ابو اسحاق الشامی رحمة اللہ علیہ۔
(۳۰)۔الشیخ ممشاد علوی الدینوری رحمة اللہ علیہ۔
(۳۱)۔الشیخ ابو ہبیرة البصری رحمة اللہ علیہ۔
(۳۲)۔الشیخ حذیفہ المرعشی رحمة اللہ علیہ۔
(۳۳)۔الشیخ ابراہیم بن ادہم البلخی رحمة اللہ علیہ۔
(۳۴)۔الشیخ فضیل بن عیاض رحمة اللہ علیہ۔
(۳۵)۔الشیخ عبد الواحد بن زید رحمة اللہ علیہ۔
(۳۶)۔الشیخ حسن البصری رحمة اللہ علیہ۔
(۳۷)۔سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ۔
(۳۸)۔سیدنا و رسولنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔

(سلاسل طیبہ، حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمة اللہ علیہ)

حسیب احمد حسیب

رجب سے متعلق احادیثمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

رجب سے متعلق احادیث
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
رجب کا مہینہ آگیا ، شعبان اور پھر نیکیوں کا موسم بہار رمضان المبارک ، تین مہینے مسلسل ، رجب میں معراج ، شعبان میں شب برأت اور رمضان، ہر پل ہر لمحہ رحمت پرور دگار، کوئی اندازہ لگا سکتا ہے ا للہ کے جو دو عطا کا، اسی لیے بزرگوں سے منقول ہے کہ رجب سے ہی یہ دعا شروع کر دی جائے کہ اے اللہ ہمارے لیے رجب وشعبان میں برکت عطا فرما اور رمضان المبارک تک ہمیں پہونچا دے؛ تاکہ ہم اس کے فیوض وبرکات سے مستفیض ہو سکیں اور نیک اعمال کے ذریعہ بخشش کا سامان کر سکیں ، بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ رجب آتے ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگنا شروع کر دیتے تھے، ایک زمانہ تک احقر بھی اسے حدیث ہی سمجھتا رہا اور اللہ معاف کرے مختلف موقعوںسے تقریروں وتحریروں میں نقل بھی کرتا رہا ، لیکن جب چند سال قبل رمضان میں قطر حکومت کی دعوت پر ’’احوال السلف فی رمضان ‘‘ پر خطاب کے لیے وہاں پہونچااس سلسلہ کا ایک پروگرام’’فنار‘‘ کے آڈیٹوریم میں تھا ، میں نے اپنی گفتگو کا آغازاسی حوالہ سے کیا اور پورے اعتماد سے کیا ، کیوں کہ بعض بڑوں کی تحریروں میں اس دعا کی نسبت آقا صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا ، تقریر ختم ہوئی، افطار ونماز مغرب سے فراغت کے بعد باہر نکل رہا تھا کہ ایک شخص نے چلتے چلتے کان میں کہا کہ شیخ! یہ دعا بڑی پیاری ہے، لیکن نسبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف صحیح نہیں ہے، چونکا ضرور ، مگر حیرت اس لیے نہیں ہوئی کہ ایسی بہت سی روایتیں حدیث کے طور پر زبان زد ہیں، لیکن ان کی کوئی بنیاد حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نہیں ہے ، میں نے فورا ہی مولانا رحمت اللہ ندوی جو بڑے عالم ہیں اور قطر ہی میں مقیم ہیں سے اس کا تذکرہ کیا، دس منٹ نہیں گذرے تھے کہ انہوں نے وھاٹس ایپ پر پوری تخریج بھیج دی ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سلسلے کی وعیدیں ذہن میں آئیں کہ جس نے میری طرف قصدا جھوٹی بات منسوب کی اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ، خوف طاری ہوا، پھر’’ متعمداً  ‘‘یعنی قصداًکی قید دیکھ کر اطمینان ہو اکہ میرا شمار ان میں نہیںہے، اس لیے کہ میرا یہ عمل قصداً نہیں تھا ، مولانا رحمت اللہ ندوی حفظہ اللہ نے جو بھیجا تھا وہ تو اب محفوظ نہیں ، لیکن مطالعہ سے جو بات واضح ہوئی ،ا س کا خلاصہ یہ ہے کہ اس روایت کے ایک روای زائدہ بن ابی الرقاد ہیں، جنہیں تہذیب التہذیب میں (۳۰۵،۳۰۴) حافظ نے اور التاریخ الکبیر (۳؍ ۳۳۳ حدیث ۱۳۳۵) میں منکر الحدیث لکھا ہے، اس حدیث کے ایک راوی زیاد النمیری کو میزان الاعتدال (۲؍ ۹۱) میں ضعیف قرار دیا ہے ، یہی قول مجمع الزوائد (۱۰؍ ۳۸۸) میں جمہور محدثین کا نقل کیا ہے ، علامہ نووی نے الاذکار( ص ۱۸۹) ابن رجب نے لطائف المعارف (ص ۱۲۱) اور علامہ البانی نے ضعیف الجامع (۴۳۹۵) میں اسے ضعیف قرار دیا ہے، البتہ دعا کے الفاظ جو ہیں ان کے ذریعہ دعا مانگنے میں کسی قسم کی کوئی قباحت نہیں ہے،کیوں کہ دعا اللہ سے مانگی جا رہی ہے، اور برکت طلب کی جا رہی ہے، ان میں کچھ بھی ممنوع نہیں، بلکہ مطلوب ہے، فنی اعتبار سے حدیث میں ضعف راوی کی وجہ سے آیاہے ، میرے مطالعہ میں کسی نے اس روایت کو موضوع نہیں قرار دیا ہے ۔ رجب کے سلسلے میں دو اور احادیث کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے ، یہ روایتیں بھی مشہور ومعروف ہیں۔ایک روایت تو وہ ہے جس میں ان پانچ راتوں کا ذکر کیا گیا ہے ، جن میں دعا رد نہیں ہوتی ، ان میں ایک رات رجب کی پہلی رات مذکور ہے ، یہ روایت ابن عساکر کی تاریخ دمشق (۱۰؍ ۴۰۸) میں موجود ہے ، اس روایت میں ایک راوی ابو سعید بندار بن عمر الرویانی ہیں، ابن عساکر نے عبد العزیز النخشبی کا قول نقل کیا ہے کہ بندار سے روایت نہ سنو، اس لیے کہ وہ کذاب ہے، اس روایت کے راوی ابو قعنب مجہول ہیں اور ایک راوی عبد القدوس کے حالات بھی پردہ خفا میں ہیں۔
 ایک دوسری روایت بیہقی نے شعب ا لایمان میں ذکر کیا ہے کہ ماہ رجب میں ایک دن اور ایک رات ایسی ہے، جس میں اگر کوئی روزہ رکھے اور رات کو عبادت کرے تو وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے سو سال کے روزے رکھے اور سو سال قیام اللیل کیا ، یہ رجب کی ستائیس تاریخ ہے ، یہ روایت اس کے راوی بیاض اور اس کے بیٹا خالد کے ضعیف ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے،اس سلسلے کی تفصیلات تہذیب الکمال (۷؍ ۳۳۷) تاریخ کبیر (۸؍۱۳۳) الجرح والتعدیل (۹؍ ۱۳۸) میزان الاعتدال (۳؍ ۲۴۰) لسان المیزان (۹؍ ۲۴۲) اور تقریب التہذیب (۲؍ ۳۳۱) میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

پیر, فروری 21, 2022

نشہ کا کھیل مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

نشہ کا کھیل 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 بہار حکومت نے شراب پر پابندی لگادی ہے اور اس پابندی کو نافذ کرنے کے لیے حکومت کی مشنری پور طور پر سرگرم عمل ہے، اس کے باوجود شراب کے استعمال اور اس کے نقل وھمل کی خبریں اخبارات اور سوشل میڈیا میں آتی رہتی ہیں، با خبر ذرائع کے مطابق اب بہار میں شراب کی جگہ دیگر نشہ آور اشیاء نے لے لی ہیں اور بڑے پیمانے پر اس کا استعمال ہونے لگا ہے ، ان نشہ آور اشیاء میں سر فہرست براؤن شوگر ہے، بھاگل پور ، پٹنہ اور مظفر پور کے ساتھ دوسرے اضلاع میں بھی اسمگلنگ کے ذریعہ اسے پہونچایا جا رہا ہے، اس کی رسائی مغربی بنگال اور جھارکھنڈ کے دھندہ بازوں کے توسط سے بہار کے مختلف اضلاع میں ہو رہی ہے اور کم از کم ہر ماہ پچاس کروڑ روپے براؤن شوگر کی کھیپ بہار میں کَھپ جاتی ہے، دینک بھاسکر کے ایک سروے کے مطابق پٹنہ میں اس کا مرکز مہندرو اور بورنگ روڈ ہے، جب کہ مظفر پور میں احیاء پور اور چھاتا چوک کے علاقہ میں اس کی سپلائی عام ہے، ظاہر ہے اس سپلائی میں پولیس عملہ کا بھی ہاتھ ہوتا ہے اور اس کی حصہ داری اس کاروبار میں کم وبیش پچیس فی صد تک کی ہوتی ہے، جیسا دینک بھاسکر کو ایک اسمگلر نے بتایا ، تحقیق کے مطابق سالانہ چھ سو کروڑ روپے کا براؤن شوگر کا دھندہ بہار میں ہوتا ہے، ہر ماہ چالیس ہزار روپے کم وبیش نزدیکی پولیس تھانے کو دیے جاتے ہیں، اس کی وجہ سے اس کاروبار سے منسلک مجرمین پکڑے نہیں جا رہے ہیں، گذشتہ دو سال میں اس کاروبار سے لگے صرف چوبیس (۲۴) لوگ پکڑے جا سکے ہیں اور صرف دو کلو براؤن شوگر کو اس درمیان پولیس نے ضبط کیا ہے، یہ ایک افسوسناک سچائی ہے۔
 براؤن شوگر انتہائی خطرناک اور قیمتی نشہ ہے، یہ ہماری نئی نسل کو تباہ کر رہا ہے، شروع میں اسے ایک سے دو بار یومیہ لوگ استعمال کرتے ہیں ، پھر یہ عادت ایسی بن جاتی ہے کہ پانی میں گھول کر رگوں میں بطور انجکشن لینے لگتے ہیں، اس سے جسمانی اعصاب تو تباہ ہوتے ہی ہیں، دماغ کے سوچنے ، سمجھنے کی صلاحیت بھی ختم ہوجاتی ہے، دھیرے دھیرے انسان اس قدر عادی ہوجاتا ہے کہ نہ ملنے پر بے ہوش ہوجاتا ہے اور کبھی مایوس ہو کر خود کشی کی طرف قدم بڑھاتا ہے، یہ خود کشی نہ بھی کرے تو وہ چلتی پھرتی لاش بن کر رہ جاتا ہے، عام مارکیٹ میں اک کلو براؤن شوگر کی قیمت نوے لاکھ سے ایک کروڑ روپے تک ہوتی ہے، چھوٹی سی پُریاکے حصول میں ڈھائی سو سے تین سو روپے خرچ ہوتے ہیں، اس طرح اس نشہ کا استعمال کرنے والا جلدہی مالی اعتبار سے بھی قلاش ہو جاتا ہے۔
 اسلام نے انسانی اعصاب اور ذہن ودماغ کی حفاظت کے نقطۂ نظر سے نشہ کو حرام قرار دیا ہے، اور اس کی لت نہ لگے اس کے لیے نشہ آور چیز کی چھوٹی بڑی تمام مقدار کو ممنوعات کے دائرے میں رکھا ہے، اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے سے انسان اس بُری لت سے پیچھا چھڑا سکتا ہے، خارجی طور پر حکومت کو چاہیے کہ وہ شراب سے زیادہ براؤن شوگر کے نقل وحمل اور استعمال پر نگاہ رکھے، پولیس اور تھانہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور ایسے اسمگلروں کو پکڑ کر عبرتناک سزا دے تاکہ اس کی طرف لوگوں کی رغبت باقی نہ رہے، شراب پر پابندی لگا کر دیگر نشہ آور اشیاء کے استعمال سے آنکھ بند کر لینا کسی بھی طرح دانشمندانہ عمل نہیں ہے ۔

اتوار, فروری 20, 2022

دعوت دین کا فریضہ حکمت اور مواعظ حسنہ کے ذریعہ انجام دیں__مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی

دعوت دین کا فریضہ حکمت اور مواعظ حسنہ کے ذریعہ انجام دیں__مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی

  پٹنہ 20فروری (پریس ریلیز )
دفتر دارالقضاء امارت شرعیہ آسنسول میں ائمہ  وعلماء کے خصوصی اجتماع میں نائب  ناظم امارت شرعیہ حضرت مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کا بصیرت افروز خطاب ہوا،  اس اہم اجتماع کو خطاب کرتے ہوئے نائب ناظم امارت شرعیہ مفتی محمد ثناءا لہدی قاسمی نے فرمایا کہ علماء کرام انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء کی بعثت کا مقصد مخلوق کو دعوت الی اللہ ہے ۔تمام انبیاء نے اس فریضہ کو خوش اسلوبی سے انجام دیا ۔خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے دعوت الی اللہ کا اسلوب حکمت اور موعظت حسنہ فرما یا یہی اسلوب وارثیین نبوی کے لیے بھی لازم ہے ۔اگر ائمہ اورخطباء حکمت ودانائ   اور نرم گفتار کے ساتھ امت کو پیغامات دیں تو  یہ اسلوب متاثر کے ساتھ ساتھ مفید ترین ہوگا۔علماء اورائمہ   امت کی روح ہیں جس طرح روح کے بغیر جسم کی کوئ  حیثیت نہیں اسی طرح  زندہ قوم کیلیے علماء کا وجود ضروری ہے جسم سے روح کے نکلنے کے بعد انسان کے اعمال خیر وشر کے اعتبار سے یا تو روح علیین میں ہوگی یاسجیین میں ۔غرض کہ امت کا رشتہ اور تعلق علماء سے اور علماء کا رشتہ امت سے جسم اور روح کی طرح لازم وملزوم ہیں ۔موصوف نے اپنی تقریر کو جاری رکھتے ہوۓ  فرمایا ۔جوش کے فیصلہ سے بہتر ہوش کا فیصلہ ہوتا ہے ۔حجاب کے معاملہ میں قائدین ملت کا جو مشورہ ہو اسے ماننا امت کیلیے ضروری ہوتا ہے ۔آئین کی لڑائ کاغذ وقلم کے ذریعہ لڑنا قائدین ملت کی نظر میں بہتر ہے ۔اسے ماننا چاہیے اور جزبات کی رو میں نہ بہنا چاہیے  ملک کے نازک حالات میں جس وقت جو حکمت عملی ملک کی ملی تنظیمیں اور ملی قائدین اپنانے کو کہیں علماء اور ائمہ منبر ومحراب سے امت کو اسکی رہبری فر مائیں  اور امت اسی پر عمل پیرا ہوں یاد رہے باطل تدبیروں اور اسکیموں سے کئ گنا بہتر تدبیر خداوندی ہے ۔مؤمن کا اس بات پر یقین ہو لہذاحالات سے گھبرانے کے بجاۓ انابت الی اللہ کریں اور خدائ  نصرت پر یقین رکھیں مہمان محترم نے ایک گھنٹہ کی پر اثر تقریر علماء کے درمیان فرمائ  ۔مولانا محمد اسرائیل مظاہری صدر مدرس مدرسہ عربیہ برنپور نے بھی اس موقع پر اپنے تأثرات پیش فرماۓ اور پروگرام کے اختتام پر دعاء فرمایا ۔اجتماع کا آغاز قاری مجاہدالاسلام اشاعتی امام وخطیب عائشہ مسجد کی تلاوت کلام پاک سے ہوا ۔اجتماع میں شریک مفتی مظفر اقبال مہتمم مدرسہ اشرف العلوم کلٹی ۔مولانا عبدالحق مدرس مدرسہ عربیہ برنپور ۔مولانا نسیم قمر ندوی ۔مفتی شکیل الرحمان قاسمی مولانا امداداللہ رشیدی امام وخطیب نورانی مسجد مفتی سھیل احمد مظاہری مولانا مناظرالحق قاسمی مولانا فردوس احمد نعمانی مولانا نیاز احمد ندوی مولانا طاہر رشیدی ۔مولانا خالد قاسمی مولانا توقیر ذکی ندوی مولانا ہشام ندوی ۔وعلماء وائمہ  کی کثیر تعداد نے اس اہم اجتماع کو حالات حاضرہ کی ضرورت بتایا ۔قاضی شریعت مفتی زبیر احمد قاسمی ۔مولانا محمد سعید اسعد قاسمی ۔قاری محمد داؤد عرفانی نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا ۔جبکہ ماسٹر یاسین ثاقب ماسٹر عامر ماسٹر مہدی حسن اساتذہ ایم ایم یو ہائ  اسکول امارت شرعیہ آسنسول نے مہمانوں کی ضیافت واستقبال کیاواضح ہوکہ نائب ناظم امارت شرعیہ وانچارج ذیلی دفاتر بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ ومغربی بنگال  کے ذیلی دفاتر ومکاتب واسکول امارت شرعیہ کا جا ئزاتی سفر جاری ہے  مفتی صاحب نے مولانا منت اللہ رحمانی اردو ہائی اسکول ودفتر امارت شرعیہ کا جائزہ فرمایا  بعد مغرب علماء وائمہ شہر آسنسول واطراف سے خصوصی اور اہم خطاب فر مایا ۔ مفتی زبیراحمد قاسمی قاضی شریعت دارالقضاء امارت شرعیہ آسنسول وقاری محمد داؤد عر فانی نے نائب ناظم صاحب کو کلکتہ کے سفر کے لئے الوداع کیا ۔

با کمال صحافی __کمال خان مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

با کمال صحافی __کمال خان 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
عظیم اور با کمال صحافی، این ڈی ٹی وی کے سینئر رپورٹر اور اپنے انداز پیش کش سے دنیا بھر میں مقبول ومعروف کمال حیدر خان عرف کمال خان کا ۱۴؍ جنوری ۲۰۲۲ء روز جمعہ صبح سویرے حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے انتقال ہو گیا، انہوں نے صبح کوئی چار بجے کے آس پاس سینے میں درد کی شکایت کی اور اسپتال پہونچنے سے پہلے ہی دم توڑ دیا، ان کی نماز جنازہ مشہور شیعہ عالم مولانا کلب جواد نے پڑھائی اور لکھنؤ کے عیش باغ قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ روحی کمال اور ایک لڑکا امین کو چھوڑا۔
 کمال خان کی ولادت لکھنؤ میں 1959میں ہوئی ، انہوں نے تعلیم کے مختلف مراحل طے کرنے کے بعد لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم اے کیا تھا، انہوں نے روسی زبان میں ماسکو یونیورسیٹی  سے پوسٹ گریجویٹ کی سند بھی حاصل کی تھی، ان کا قیام زمانہ دراز سے بٹلر پیلیس کالونی لکھنؤ میں تھا، وہ گذشتہ تین دہائیوں سے این ڈی ٹی وی سے منسلک تھے اور غیر جانب دارانہ رپورٹ ، تجزیے اور مخصوص انداز کی اپنی پیش کش کے لیے مشہور تھے، وہ اپنی رپورٹنگ کو دلچسپ بنانے کے لیے اردو شاعری کا سہارا لیتے اور ناظرین کا دل موہ لیتے، وہ رپورٹنگ سے پہلے اس سے متعلق کتابوں ، تبصرے اور تجزیوں کا بھر پور مطالعہ کرلیتے اور ہر موضوع پر اپنی معلومات کے خزانے لٹاتے، اس کے لیے انہیں بہت محنت کرنی پڑتی  تھی، اسی وجہ سے وہ اپنا وقت سیر وتفریح میں نہیں لگاتے تھے، کام اور کام سے فراغت کے بعد گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ آرام کرنا یہ ان کے نظام الاوقات کا حصہ تھا، این ڈی ٹی وی میں ملازمت سے قبل انہوں نے کئی اخبار میں کام کیا، ایک زمانہ میں وہ ہندوستان ایرونا ٹیکس لمٹیڈ میں روسی زبان کے مترجم ہوا کرتے تھے، انہوں نے امرت بازار پتریکا ، نو بھارت ٹائمس اور اسٹار نیوز پر بھی کام کیا، کمال خان نے کبھی اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا، ان کے یہاں صحافت میں تعصب اور جانبداری دوسرے گناہوں کی طرح ایک بڑا گناہ تھا، اس لیے این ڈی ٹی وی میں آنے سے پہلے وہ مختلف اداروں کے لیے کام کیا، لیکن وہاں کے ماحول سے وہ مطمئن نہیں ہو سکے، بالآخر این ڈی ٹی وی آکر انہوں نے چین کی سانس لی اور آخری سانس بھی این ڈی ٹی سے منسلک رہتے ہوئے لی، اپنے مقصد سے وفاداری اسے کہتے ہیں، آخری دم تک وفادار ۔
صحافت نے انہیں کیا کچھ دیا ، اس کی تفصیلات تو ہمارے پاس موجود نہیں ، لیکن اتنا ضرور ہوا کہ عزت، شہرت، مقبولیت، ان کی دیوڑھی پر آکر براجمان ہو گئی ، اور ان کی خدمات کے عوض انہیں متعدد انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا، اس فہرست میں رام ناتھ گوینکا ایوارڈ اور صدر جمہوریہ نے ذریعہ گنیش شنکر ودیارتھی سمان بھی شامل ہے۔
 کمال خان چہرے مہرے کے اعتبار سے بھی انتہائی وجیہ اور خوبصورت تھے، ان کے چہرے پر رعب ، گفتگو میں نرمی ، کام کے تئیں لگن او رعزت نفس کی حفاظت ان کی زندگی کے لوازمات میں تھے، وہ صحافیوں کی بے عزتی اور ترش روی پر بڑے بڑے سیاسی قائدین سے بھڑجاتے تھے، اس لیے صحافی برادری میں ان کو ایک خاص مرتبہ حاصل تھا، ان کی زندگی سادہ تھی ، اپنی اہلیہ روچی کمار کی وجہ سے وہ سبزی خور ہو گیے تھے،و ہ صبح کی چہل قدمی کے بھی عادی تھے، لیکن اس کے باوجود وہ اچانک ہارٹ اٹیک میں مبتلا ہوئے چل بسے، صحت کو ٹھیک رکھنے کے جتنے طریقے اسباب کے درجے میں ہو سکتے ہیں وہ اسے برتا کرتے تھے، لیکن جب اللہ کا مقررہ وقت آجاتا ہے تو پھر کسی کی نہیں چلتی ، کمال خاں کی ساری احتیاطی تدابیر دھری رہ گئیں اور موت کا فرشتہ انہیں لے کر چلتا بنا۔
کمال خان کی ساری قدر ومنزلت ان کی صحافت کی وجہ سے ہے، ان کی زندگی کا یہ پہلو اس لائق ہے کہ اس کا ذکر کیا جانے، ان کے انتقال کے بعد جو تعزیتی بیانات آئے اس کی روشنی میں کمال خاں کی صحافی کی حیثیت سے ان کی خدمت وعظمت کو سمجھا جا سکتا ہے، ہر دیش جوشی کہتے کہ ’’سیاست، ثقافت اور معاشرت ہر موضوع پر کمال باتیں کرتے تو اپنا الگ نقش چھوڑ جاتے، ان کی قصہ گوئی کا انداز مسحور کن تھا اور ان میں خبروں کے سونگنے کی فطری صلاحیت تھی۔
 کئی موضوعات پر ان کی رپورٹنگ آج بھی ناظرین کے دل ودماغ میں محفوظ ہے، انہوں نے بابری مسجد ، تین طلاق پر جو رپورٹنگ کی وہ غیر جانبدارانہ صحافت کی ایک مثال ہے، لیکن ان کی وہ رپورٹنگ جو انہوں نے انتہائی خستہ حال پرائمری ایجوکیشن پر کیا تھا، آج بھی دماغ کو پریشان کرتی ہے، اس میں انہوں نے پرائمری اسکول کے اساتذہ کے انٹر ویو لیے ، سوالات پوچھے اساتذہ نے ان کے صحیح جواب نہیں دیا ، ان میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ ثانیہ مرزا کون ہے؟ کئی استاذ کا جواب تھا مرزا غالب کی رشتہ دار، خوب ہنسی پڑی، لیکن دل رودیا، جب انہوں نے کہا کہ ہنس لیا، بہت مزہ آیا، جب جی بھر کر ہنس لیں تو ان لاکھوں بچوں کے لیے دو آنسو بھی بہا لیجئے گا، جنہیں ایسے اساتذہ پڑھا رہے ہیں اور واقعی پرائمری ایجوکیشن کی اس حالت زار پر آنکھیں خون کے آنسو بہانے لگیں۔
 ایسے تھے کمال خان، کمال ہی نہیں با کمال بھی ، ان کو سچی خراج عقیدت یہ ہے کہ صحافت میں ان کے طریقے اور روش کو اپنا یا جائے، ان کو سمجھنے سننے اور دیکھنے کے لیے سوشل میڈیا کے اس دور میں زیادہ پِتَّہ ماری کی بھی ضرورت نہیں ہے، یو ٹیوب پر سب موجود ہے۔

ہفتہ, فروری 19, 2022

تحفۃ الافادات فی شرح مقدمہ مشکوٰۃ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

تحفۃ الافادات فی شرح مقدمہ مشکوٰۃ 
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
لمحات التنقیح فی شرح مشکوٰۃ المصابیح کا دیباچہ اہل علم کے نزدیک مقدمہ مشکوٰۃ کے نام سے معروف ومشہور ہے، یہ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی (۱۰۵۲-۹۸۵) بن سیف الدین کی علمی یادگار ہے، اس کی مقبولیت اور محدیثن کے نزدیک اس کی حاجت وضرورت کو دیکھتے ہوئے حضرت مولانا احمد علی محدث سہارن پوری ؒ نے اس دیباچہ کو مشکوۃ شریف کے شروع میں شامل کر دیا ، اس طرح وہ اب مشکوٰۃ شریف کا جزو لازم بن گیا، کیوں کہ احادیث کے مباحث اور اس کے مدارج اور مقام کا سمجھنا اصول حدیث کے علم کے بغیر ممکن نہیں اور یہ مقدمہ اپنی جامعیت کے اعتبار سے منفرد اوراختصار کے اعتبار سے اسے پڑھنا پڑھانا ، سمجھنا سمجھانا اور بآسانی حافظہ کی گرفت میں آجانا اس کا امتیاز ہے، اس لیے یہ مقدمہ ہر دور میں مقبول رہا ہے اور اسے نصاب کا حصہ بنا دیا گیا ہے ، تاکہ احادیث کے اصولی مباحث سے طلبہ کو اس قدر واقفیت ہوجائے کہ وہ نخبۃ الفکر اور اس جیسی دوسری کتابوں کو بآسانی سمجھ سکیں۔
 دار العلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ میں بھی یہ مقدمہ نصاب کا جزو ہے، اس کی تدریس عام طور سے مفتی آفتاب عالم قاسمی کے ذمہ رہی ہے، جو ’’آفتاب بزمی‘‘ کے نام سے بھی  جانے جاتے ہیں، گیدر گنج، اندھرا ٹھاڑی ضلع مدھوبنی کے رہنے والے ہیں، گذشتہ آٹھ سالوں سے دار العلوم الاسلامیہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں، احادیث کی بعض کتابوں کی تدریس بھی ان کے ذمہ ہے جواں سال ہیں، علم پختہ ہے، مطالعہ کا شوق ہے اور حاصل مطالعہ کو جمع کرنے اور اس میدان میں کچھ کر گذرنے کا جذبہ بھی جواں ہے، لکھتے پڑھتے رہے ہیں اور چیزوں کو مرتب انداز میں پیش کرتے ہیں، تحفۃ الافادات فی شرح مقدمہ مشکوٰۃ کو میں نے جو کچھ اوپر لکھا ہے اس کی دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے، شرح دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ مفتی آفتاب عالم کے علم میں گہرائی بھی اور گیرائی بھی ، اس علمی انحطاط کے دور میں طلبہ عربی شروحات کے بجائے اردو شرح سے مستفیض ہونا زیادہ پسند کرتے ہیں، گو اس سے اصل ماخذ سے علم کے حصول میں انحطاط ہوتا ہے، لیکن کیا کیجئے اب تو یہ ایک ضرورت بن گئی ہے ، اور آسان ترین کتابوں کی شروحات بھی لکھی جا رہی ہیں، میں نے اردو کی چوتھی کی شرح دیکھی ہے، اور ہمارے ایک بزرگ نے شرح قواعد بغدادی بھی لکھی تھی ، مقدمہ مشکوٰۃ تو بڑی ارفع واعلیٰ چیز ہے، اس لیے مفتی آفتا ب عالم قاسمی کی اس اردو شرح کو طالب علموں کی ضرورت سمجھنا چاہیے اور طالب علم ہی کیا ، مولانا نے جو انداز اختیار کیا ہے اور جس طرح اصل متن پر اعراب لگا کر با محاورہ ترجمہ کیا ہے، پھر الفاظ کی تحقیق کی ہے، اصل متن پر جو کلام کیا ہے وہ اساتذہ کے لیے بھی مفید ہے، اساتذہ بھی تو اسی دور انحطاط کی پود ہوتے ہیں اور ان کی ضرورتیں بھی اس شرح سے پوری ہوتی نظر آتی ہیں، میں نے بعض اساتذہ کو اردو شرح سامنے رکھ کر پڑھاتے بھی دیکھا ہے، مفتی آفتاب عالم قاسمی ہم سب کی طرف سے شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ہم سب کے لیے علمی بھرم قائم رکھنے کا سامان بہم پہونچا دیا ہے۔
کتاب ایک سو چوراسی صفحات پر مشتمل ہے، مکتبہ صوت القرآن دیو بند نے شائع کیا ہے ، قیمت درج نہیں ہے، اس لیے مفت ملنے کے امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا، ملنے کے دو پتے ریان بکڈپو گیدر گنج اندھراٹھاڑی ضلع مدھوبنی اور دار العلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ درج ہے، نمبر ۳ اور ۳؍ کو خالی رکھا گیا ہے، یہ محذوف منوی ہے، محذوف منوی کو متعین کرنے میں قرینہ سے کام چل جاتا ہے، یہاں اس کا بھی موقع نہیں ہے، اسی طرح فہرست میں جو تین تقریظ مذکور ہے ، اس میں ایک کی جگہ بھی صفحہ ۱۵؍ پر خالی ہے۔ ممکن ہے کسی بڑے کی تحریر مطلوب رہی ہو اور طباعت کے وقت دستیاب نہیں ہو سکی اور اس بڑے کی جگہ کسی کو دی نہیں جا سکتی تھی اس لیے خالی چھوڑ دیا گیا ، تاویلات کچھ بھی کر لیں یہ ترتیب کی کمی ہے، اسے خالی نہیں رہنا چاہیے تھا۔
 کتاب کا انتساب محدثین عظام ، ازہر ہند دار العلوم دیو بند، دار العلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ اور والدین کے نام ہے جو سب کے سب اہم ہیں، یہ سلسلہ بھی اب متروک ہوتا جا رہا ہے ، اب تو لوگ پرانے زمانہ کی طرف لوٹ رہے ہیں، پہلے کتابوں کی طباعت کے لیے بادشاہ ، نواب، امراء رقومات فراہم کراتے تھے اور کتاب ان کے نام معنون ہوجاتی تھی، آج کے دور میں بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے ، جس نے طباعت کے لیے سرمایہ دیا، اس کے نام منسوب ہو گئی ، چاہے وہ کسی قماش کا آدمی ہو اور علمی معاملات ومسائل سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہ ہو، کتاب کا منصہ شہود پر لانے کا وہ ذریعہ بن گیا ہے ، اس لیے ہمارے لیے وہ شخص زیادہ اہم ہے، مفتی آفتاب صاحب نے جن اشخاص اور اداروں کے نام اس کا انتساب کیا ہے وہ ظاہری اور معنوی اعتبار سے اس لائق ہیںکہ اپنے خارجی وجوداسباب اور صلاحیت وصالحیت کے حوالہ سے ان کا نام لیا جائے۔ 
کتاب پر دو تقریظ موجود ہے، ایک حضرت مولانا خضر محمد صاحب کشمیری نقشبندی استاذ حدیث دار العلوم دیو بند اور حضرت مولانا عبد اللہ معروفی استاذ تخصص فی الحدیث الشریف دار العلوم دیو بند کی۔ مفتی صاحب اس معاملہ میں بھی دور اندیش اور عقل مند ثابت ہوئے ہیں، انہوں نے جن دوشخصیات کا انتخاب کیا وہ دیو بند میں کتابوں کی مارکیٹنگ کے لیے انتہائی ضروری تھے، دار العلوم کے کسی استاذ کی تقریظ نہ ہو تو طلبہ اچھی اور علمی کتابوں کی طرف بھی متوجہ ہونے کا خطرہ مول نہیں لیتے، ان دونوں حضرات کی تقریظ سے اس شرح کے خریدنے والوں کا رجوع عام بھی ہوگا اور تام بھی ۔
 مولانا خضر محمد صاحب نے اس شرح کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ علماء اور طلبہ کے لیے یہ کتاب حل مقدمہ کے لیے معاون ثابت ہوگی، موصوف نے اردو زبان میں مصطلحات حدیث کی بہتر اور مناسب تعریف کی ہے اور اطناب سے گریز کیا ہے ، اختیاری مطالعہ کے عنوان سے مزید تحقیق کے لیے تشنگان اصول حدیث کے لیے پیاس  بجھانے کا کام کیا ہے  (صفحہ ۱۳) 
حضرت مولانا عبد اللہ معروفی صاحب کا خیال ہے کہ ’’یہ کتاب علمی حلقوں اور طلبہ علوم حدیث کے درمیان قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی (صفحہ ۱۴)
شرح اچھی ہے ، ہر اصول کی مثال دی گئی ہے ، اور مغلق عبارت کو حل کیا گیا ہے ، اختیاری مطالعہ میں کن مباحث میں کن امور کا مطالعہ کرنا چاہیے اس کی تفصیل درج کردی گئی ہے تاکہ شائقین میں ’’ھل من مزید‘‘ کی پیاس لگی رہے، حدیث سے شغف رکھنے والوں کے لیے اس کتاب کا مطالعہ انتہائی مفید ہے، کتاب اس لائق ہے کہ اسے افادہ عام کے لیے لائبریری اور مکتبوں میں رکھا جائے، اللہ سے دعا ہے کہ مفتی آفتاب عالم قاسمی کی یہ قیمتی اور علمی شرح آئندہ مزید تصنیفی وتالیفی سرگرمیوں کا نقطۂ آغاز بن جائے۔آمین

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...