Powered By Blogger

پیر, فروری 28, 2022

مولانا احمداللہ صادق پوریمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مولانا احمداللہ صادق پوری
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
بہار نہ صرف علم وادب کاگہوارہ رہاہے، بلکہ یہاں کی مٹی سے اٹھنے والے جیالوں نے اپنی جرأت وہمت، شجاعت وبہادری کا نقش چمن چمن قدم قدم ، ڈگرڈگر ،قریہ قریہ ،کوبکو اور شہر درشہر چھوڑا ہے ،جواں مردی، اولوالعزمی ،حب الوطنی یہاں کی خمیر میں شامل ہے، اوراس کا ثبوت یہاں کے بے شمارمجاہدین آزادی ہیں، جن کی ان تھک جدوجہد اور بے مثال قربانیوں کی وجہ سے قافلۂ حریت ہمیشہ تیزگام رہاہے۔
تفصیل میں کہاں جائیے، صرف خاندان صادق پور کی خدمات کاہی تذکرہ کیاجائے تو کئی جلدیں تیار ہوجائیں، لکھنے والوں نے لکھا ہے اورتحقیق کرنے والوںنے کیاہے، اس کے باوجود حق ادانہ ہوا، ڈاکٹرامتیاز احمد ڈائریکٹر خدابخش خاں اورنٹیئل پبلک لائبریری پٹنہ نے بجالکھا ہے:
’’ہندوستا ن کوانگریزوں کی غلامی سے نجات دلانے اورمذہب اسلام کوبدعات سے پاک وصاف کرنے میںالٰہی بخش ، احمد اللہ،یحییٰ علی، فیاض علی، اکبرعلی، ولایت علی ،عنایت علی وغیرہ…وغیرہ بزرگان صادق پور… نے جس جیالے پن کا ثبوت دیا ہے، حیرت ہے کہ کوئی تاریخ داں ،ان کی بے لوث خدمات کا صحیح اور مکمل طورپر ذکرتک نہیں کرتا‘‘۔ (سونیر مجاہدین صادق پور، بہار نمبر۳۳)
جیسا کہ ذکر ہوا، مولانا احمد اللہ صادق پوری ، اسی خاندان کے گل سرسبد تھے اوران کی حیات وخدمات اورجنگ آزادی میں ان کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے ان حضرات کے ساتھ برتی گئی بے اعتنائی کا احساس شدید ہوتاہے، تاریخ کی کڑیاں ملانے کے دشوار گزارعمل کے بعد بھی خیال آتاہے کہ کہیںکوئی کڑی گم ہے اورحلقۂ سلاسل کوجوڑنے کا عمل مکمل نہیں ہوسکا ہے۔ اس مقالہ میں کوشش کی گئی ہے کہ مولانااحمد اللہ کی حیات مستعار اور جنگ آزادی میں خدمات مستزاد کا؛ مختصر مگر مکمل تذکرہ ہوجائے۔
مولانا احمد اللہ بن الٰہی بخش بن ہدایت علی جعفری کی ولادت ۱۲۲۳ھ؁ مطابق ۱۸۰۸ئ؁ میں ہوئی ، ابتدا میں نام احمد بخش تھا؛ لیکن سیداحمد شہیدؒ نے ان کا نام بدل کر احمد اللہ رکھ دیا،اور یہی نام متعارف ہوا، ابتدائی کتابیں مولانا ولایت علی سے پڑھیں، اور حدیث کی سند بھی انھیں سے حاصل کی، درمیا ن کے چند مہ وسال مولانا منور علی آروی کی شاگردی میںبھی گزرے، فراغت کے بعد درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا، توفیض عام ہوا، اورنامور شاگردوںکے ذریعہ دیر تک اور دورتک پھیلا۔ آپ کی ذکاوت، ذہانت، ہمت ،دلیری، حمیت، قومی ہمدردی، اور حب الوطنی مشہور تھی۔ مولانا عبدالحئی حسنی نے الاعلام بمن فی تاریخ الہند میں لکھا ہے:
’’وکان رجلاً کریماً، عفیفاً دیناًکبیرالمنزلۃ عند الولاۃ،جلیل القدر، یعیش فی اطیب بال وراغدحال‘‘(ج۵ص۵۵)
حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی نے لکھا ہے:
’’مولانا احمداللہ اور مولانایحییٰ علی سید صاحب کی جماعت کے رکن رکین اور پوری دعوت وتحریک کا مرکز تھے‘‘۔(سیرت سید احمد شہیدج۱ص۳۰۹حاشیہ)
تذکرۂ صادقہ میںآپ کی عقل ودانش کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھاہے:
’’آپ کی عقل ودانش کااس قدرشہرہ تھاکہ گورنمنٹ انگریزی بھی آپ سے اکثر رفاہ عام کے کاموں میں مشورہ لیا کرتی تھی،آپ برابر کمیٹی کے رکن ممبر ہوا کرتے تھے،آپ حکام رس تھے،اورجلسۂ وائسرائے بہادر میں درجۂ اول میں شمار ہوتے تھے اکثر وہ مقدمات جورعایا اور گورنمنٹ کے درمیان آراضی کے متعلق ہوتے؛ مثلاً کوئی زمین حکومت کو خریدنی ہوتی تو اس کی قیمت کا فیصلہ آپ کے ہی سپرد ہوتاتھا اور آپ اس خوبی سے فیصلہ فرماتے کہ حاکم و محکوم دونوں راضی ہوجاتے‘‘۔(ص۱۴۶)
جب انگریزوں نے انکم ٹیکس لگایا اوراس کی وصولی کا انتظام حکومت کی طرف سے کیاجانے لگا تو جو چار افراد اس کام کے لیے منتخب کیے گئے، ان میں آپ سرفہرست تھے ۔آپ کی تقریر اور تحریر ایسی مدلل ،منطقی اور باوزن ہوتی کہ اس سے انکار کرنا مشکل ہوتا، ججوں کے درمیان اختلاف رائے کی صورت میں مقدمہ آپ کی رائے پر فیصل ہوتا، مولانا کے اس اثر ورسوخ کی وجہ سے کسی کوان پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیںہوتی تھی۔ ۱۸۵۷ئ؁ کی جنگِ آزادی کے بعد مسٹر ٹیلر کمشنر پٹنہ نے جب آپ کو گرفتار کیا اور تین مہینے نظربندرکھا، بات اوپر تک پہنچی تو نہ صرف فوری آ پ کی رہائی کا حکم ہوا؛ بلکہ مسٹر ٹیلر کمشنر پٹنہ کو اس کے عہدے سے برخاست کردیاگیا۔
اس پہنچ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ انگریزوں سے ملے ہوئے تھے ؛بلکہ یہ کام کی حکمت عملی تھی، جس کا پتہ انگریزوں کو بہت بعدمیں چل سکا ۔ ڈاکٹر ہنٹر کو اس خاندان سے یہی شکایت تھی،ایک جگہ مولانا احمداللہ کے چھوٹے بھائی مولانایحییٰ علی(م فروری ۱۸۶۸ئ؁) کے بارے میںلکھتاہے:
’’یحییٰ علی اعلیٰ خاندا ن سے تعلق رکھتاتھا، پٹنہ میں انگریزی حاکموں کے ساتھ اس کے تعلقات بہت اچھے تھے، اس کے خاندان میں سے ایک ہماری حکومت میں اعزازی عہدے پر مامور تھااوردوسرا ہماری سرحد پر مجاہدین کی جماعت کی رہنمائی کررہا تھا، جوہماری فوجوں پر چھاپے ماررہی تھی‘‘۔ (ہما رے ہندوستانی مسلمان ،ص۴۸)
ہنٹر نے نے حکومت میں اعزازی عہدے پرمامور ہونے کی جوبات کہی ہے ، اس کا تعلق مولانا احمد اللہ ہی سے ہے، جس کی تصدیق ’’درمنثور ‘‘کی اس عبارت سے ہوتی ہے:
’’اپنی ریاست کے نظم ونسق سرکاری سطح پر اہل شہر کی خدمت اور رفاہ عام کے مشاغل کے ساتھ درس کا سلسلہ بھی جاری رکھا‘‘۔(ص۵۷)
۱۸۵۷ئ؁ کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد جوحالات پیداہوئے، اس میں اس حکمت عملی کو دیر تک اور دور تک جاری رکھنا ممکن نہ ہوسکا، چنانچہ جلدہی مولانا احمد اللہ اس حکمت عملی کو ترک کرنے پر مجبور ہوئے اور وہ جو کہا گیا ہے کہ سر مونڈاتے ہی اولے پڑے، مسٹر ٹیلر نے مولانا کو گرفتار کرلیا، جس کا ذکر پہلے آچکاہے ،تین مہینہ کی قید کے بعد رہائی ملی، مولانا پھراپنی پرانی روش پر چل پڑے ۔
مولانا کے چھوٹے بھائی مولانا یحییٰ علی؛ جو پٹنہ تحریک آزادی کے روحِ رواں تھے، اور سید صاحب کی شہادت کے بعد بھی پوری جرأت ،دلیری، مستعدی، اوربلند حوصلگی کے ساتھ اس مرکز کے نظم ونسق کوسنبھالے ہوئے تھے ،واقعہ یہ ہے کہ انھوںنے مولانا احمد اللہ اور اپنے رفقاء کے ساتھ ۱۸۵۷ئ؁ کے بعد حریت کی چنگاری کونہ صرف بجھنے سے بچانے کا کام کیاتھا؛ بلکہ جہد مسلسل سے اسے شعلہ جوالا اور آتش فشاں بنادیا تھا ، جس کے پگھلے لاوے اور مادے ایک طرف برطانوی لشکر کو نقصان پہنچا رہے تھے، دوسری طرف ان کے سارے خواب اس کے نتیجے میں جل کرخاکستر ہوئے جارہے تھے ، ظاہر ہے اس کے نتیجے میں ہونایہی تھا کہ اس تحریک کے قائد کو پابند سلاسل اورداخل زنداں کردیاجائے، چنانچہ ۱۸۶۴ئ؁ میں وہ گھڑی آگئی جب مولانا یحییٰ علی ایک بڑی جماعت کے ساتھ قید کرلیے گئے، ایسے میں اس مرکز آزادی کو جاری رکھنے اوراس کی خدمات کو تسلسل عطا کرنے کے لیے مولانا احمداللہ کو کھل کر میدان میں آنا پڑا ۔ انھوںنے جومثالی جدوجہد کی اس کے نتیجہ میں پٹنہ کے دارالاشاعت چھوٹا مال گودام سے سرحد تک جسے فوجی خفیہ زبان میںبڑا مال گودام کہتے تھے، مجاہدین کا تانتا لگ گیا،پنجاب کے وسیع و عریض علاقہ میں دوہزار میل (کلومیٹرنہیں) کی مسافت ان خطرات کے ساتھ طے کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا، جگہ جگہ انگریزوں نے جاسوسوں کا جال پھیلا رکھا تھا،اس سے قطع نظر وہ اپنے قد وقامت اور زبان کی وجہ سے بھی خطرہ میں پڑتے تھے؛ لیکن اس خطرناک کام کے لیے جومنصوبہ بندی کی گئی اورجس ہوش مندی سے کام لیاگیا، اس کا ایک نقشہ مسٹر ہنٹر نے یوں کھینچا ہے۔لکھتاہے:
’’تمام راستے پر جماعت خانوںکاسلسلہ قائم کردیاگیا،اوران کاانتظام معتبر مریدو ں کے حوالہ کیاگیا،پتلی سڑک کو مختلف حصوں میں تقسیم کردیا گیا تھا، اس طرح سرحدی کیمپ کو جانے والا ہرباغی مختلف صوبوں میں بے خطر چلا جاتا تھا، اس کو یقین تھا کہ ہرپڑائو پر اس کوایسے دوست مل جائیں گے؛ جواس کے لیے چشم براہ ہیں ، جماعت خانے جو راستے میں پڑتے ،ان کے منتظم مختلف طبقات کے لوگ تھے،مگر تمام کے تمام انگریزی حکومت کا تختہ الٹنے میں ہمہ تن مصروف‘‘۔(ہمارے ہندوستانی مسلمان،ص۱۳۵)
مرکزی کمان سنبھالے ابھی مولانا احمد اللہ کو کچھ ہی ماہ ہوئے تھے کہ ان کے خلاف انگریزوںنے شکنجہ کسنا شرع کیا، گرفتاری کے منصوبے بننے لگے؛ لیکن بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ثبوت کیسے فراہم ہو، کچھ گواہ مل جائیں تو اس میں بھی کامیابی نہیں مل رہی تھی۔بقول ہنٹر:
’’کیونکہ ان میں سے کسی ایک نے بھی گرفتارہونے کے خوف سے یاکسی بڑے لالچ سے اپنے تباہ شدہ امام کے خلاف گواہی دینے پرآمادگی ظاہر نہیںکی‘‘۔(ہمارے ہندوستانی مسلمان، ص۱۳۶)
کوششیں جاری رہیں، اوربالآخر انگریزوںنے جھوٹی گواہی کے لیے میرمجیب الدین تحصیل دارساکن نارنول کوکھڑاکیا اور اسے یقین دلایاکہ اگر تم نے ان قیدیوں میں سے کچھ کو بہلا پھسلاکر مولانا احمد اللہ کے خلاف گواہ بنادیا، تو رہائی کے ساتھ تحصیل دار ی بھی تمہیں لوٹا دی جائے گی،اس لالچ میں اس نے قیدیوں کو بہلاناپھسلانا شروع کیا، لیکن قیدیوںکی سوچ یہ تھی کہ ہماری دنیاتو تباہ ہوہی چکی ہے، جھوٹی گواہی دے کر اپنی آخرت کو کیوںتباہ کریں۔ اس سوچ کو حوصلہ مولانا یحییٰ علی اور مولانا محمدجعفر تھانیسری کی وجہ سے ملتا تھا، انگریزوں کو جب یقین ہوگیاکہ ان دونوں کے رہتے اس مہم میں کامیابی نہیں مل سکتی تو ان دونوں حضرات کو سینٹرل جیل لاہور روانہ کردیا گیا، اب میدان صاف تھا، چنانچہ محمد شفیع وعبدالکریم وغیرہ سرکاری گواہ بن گئے اوران کی گواہی کی بنیادپر ماہ مئی ۱۸۶۵ئ؁ میں مولانا احمد اللہ کو حبس دوام بعبور دریائے شور مع ضبطی جائدادکی سزاسنائی گئی اس طرح۵؍جون ۱۸۶۵ئ؁ کو انڈمان میں جلا وطن اور قید کیے جانے والے آپ پہلے تاریخی شخص ہوگئے۔
انڈمان کی فضا انسانی زندگی کے لیے سازگار نہیں تھی، ۱۷۸۹ئ؁ میں اسے آباد کرنے کی کوشش کی گئی؛ لیکن ۱۷۹۶ئ؁ میں اس منصوبے کو ترک کردینا پڑا، انگریزوں نے اس جزیرہ کاانتخاب اس لیے کیاتھا تاکہ مجاہدین یہاں گھٹ گھٹ کر مرجائیں؛ بلکہ موت سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہوں،صاحب اعلام نے اس مصائب آلام کے لیے جوتعبیراختیا ر کی ہے اس سے آج بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، لکھتے ہیں: فالقوا علیہ من المصائب ما تقشعر منہا الجلودوا تقدر القلوب (الاعلام ،ج ۷،ص۵۵)
مولانااحمداللہ جب انڈمان پہنچے تو انھیں ایک کچہری میں محرری کاکام سونپاگیا، آپ نے پانچ سال تک یہاں کام کیا؛ لیکن حب الوطنی کے نتیجے میں جوشدائد آنے تھے اورجن آزمائشوں سے گزرنا تھا، اس کی تکمیل ابھی نہیںہوئی تھی، چنانچہ لارڈ میووائسرائے ہند کے ایک مسلمان کے ہاتھوں قتل ہوجانے کے بعدانگریزوں کا غصہ مسلمان قیدیوں پراترا اوراکثر مسلمان دور دراز کے خطرناک جزیروں میںبھیج دیے گئے ۔مولانا احمد اللہ کوبھی وائر آئی لینڈ بھیج دیا گیا اور اسپتال کے ایک شعبہ میں خدمت کا کام سونپا گیا، یہاں سترہ سال آپ نے مصائب وآلام کے ساتھ گزارے، جہاںوہ بقول غالبؔ   ؎
پرئیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو پرسانِ حال
اور مرجائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
کا منظرسامنے تھا،مولانا عبدالرحیم نے ان کی علالت کے پیش نظر بار بار درخواست کی کہ انھیںا برڈین منتقل کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ ان کی تیمارداری کی جاسکے، بڑی جدوجہد کے بعد ۲۰؍نومبر۱۸۸۱ئ؁ کومولانا عبدالرحیم کووائٹر جانے کی اجازت دی گئی؛ لیکن ان کے وہاں پہنچنے سے قبل ہی ۲۱؍نومبر۱۸۸۱ئ؁ مطابق ۲۸؍محرم ۱۲۹۸ھ؁ شب دوشنبہ کوبوقت ایک بجے مولانا کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔مولانا عبدالرحیم نے تدفین کے لیے ابرڈین لے جانے کی اجازت مانگی تاکہ انھیں ان کے حقیقی بھائی یحییٰ علی کے قریب ابر ڈین میںدفن کیاجائے، یہ درخواست بھی رد کردی گئی،چنانچہ ڈنڈاس پیٹ میں جو وائپر (ویپر) سے تھوڑی دوری پر ہے، تدفین عمل میںآئی اور اس طرح اسلام کا یہ جاں باز سپاہی دیارِ غیر میں قیامت تک کے لیے آسودۂ خاک ہے، اور وطن کی دوگززمین بھی اسے میسر نہ آسکی۔

اتوار, فروری 27, 2022

ہندوستان کی جنگ آزادی کی زبان اردوتھی،سیمینارسے دانشوروں کا خطاب

ہندوستان کی جنگ آزادی کی زبان اردوتھی،سیمینارسے دانشوروں کا خطاب

نئی دہلی: ’’ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں سینکڑوں زبانیں اور بولیاں بولی جاتیں ہیں۔ ہر خطے کی ایک الگ زبان ہے۔ ایسے میں ملک کی تحریک آزادی کی زبان اردوبن گئی کیونکہ صرف یہی زبان تھی جسے ملک کے طول وعرض میں کروڑوں افراد سمجھ سکتے تھے۔ تحریک آزادی کے قائدین نے اردوزبان میں مافی الضمیرکو پیش کیا کیونکہ عوام کا بڑا طبقہ اسی زبان کو سمجھ سکتا تھا۔‘‘قومی راجدھانی دہلی میں منعقدہ ایک سیمینار میں بیشترمقررین اوردانشوروں نے اس مضمون کا اعادہ کیا۔

سیمینار کا عنوان تھا ’’تحریک آزادی میں اردوزبان وادب کا کردار‘‘ جس کا اہتمام رحمانیہ نیشنل فائونڈیشن کی جانب سے ملی ماڈل اسکول(ابوالفضل انکلیو،نئی دہلی)میں کیا گیا تھا جسے قومی کونسل برائے زبان اردوکا مالی تعاون حاصل تھا۔

پروگرام کا افتتاح ڈاکٹرغلام یحیٰ انجم ،شعبہ دینیات، ہمدردیونیورسٹی نے کیااور کہا کہ جنگ آزادی میں علما نے بڑی قربانیاں پیش کیں۔

ہزاروں علما کو درختوں کی شاخوں پر پھانسی دیا گیا۔صدر جلسہ پروفیسرخالدمحمود نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ اردو زبان وادب میں حب الوطنی کے عناصر پائے جاتے ہیں کیونکہ مجاہدین آزادی کی زبان اردو تھی۔

انھوں نے مقالہ نگاروں کے مقالوں کا تجزیہ بھی پیش کیا۔ سیمینار کے مقالہ نگاروں میں سہیل انجم(نمائندہ وائس آف امریکہ)،ڈاکٹر خالدمبشراسسٹنٹ پروفیسرجامعہ ملیہ اسلامیہ،ڈاکٹرنعمان قیصر(جامعہ ملیہ اسلامیہ)ڈاکٹرمظہرحسنین(صحافی روزنامہ انقلاب)،محمداشرف یاسین،ریسرچ اسکالردہلی یونیورسٹی شامل تھے۔ رحمانیہ نیشنل فائونڈیشن کے صدر محمدرفیق نے حاضرین کا شکریہ اداکیا اور ظہرانہ پیش کیا۔


یوپی میں پانچویں مرحلے کے لیے ووٹنگ شروع ، 12 اضلاع کی 61 سیٹوں پر ووٹ ڈالے جا رہے ہیں ۔

یوپی میں پانچویں مرحلے کے لیے ووٹنگ شروع ، 12 اضلاع کی 61 سیٹوں پر ووٹ ڈالے جا رہے ہیں ۔

 کروڑ ووٹر 90 خواتین امیدواروں سمیت 693 امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔

الیکشن کمیشن کی ہدایت پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات، پولنگ اسٹیشنز پر نیم فوجی دستے تعینات

لکھنو¿، 27 فروری (ہ س)۔ اترپردیش میں 18ویں قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں پانچویں مرحلے کے 12 اضلاع کی 61 سیٹوں پر سخت حفاظتی انتظامات کے درمیان آج صبح 7 بجے ووٹنگ شروع ہوئی۔ ووٹنگ شام 6 بجے تک جاری رہے گی۔ پانچویں مرحلے میں 90 خواتین امیدواروں سمیت کل 693 امیدوار میدان میں ہیں۔ تقریباً 2.25 کروڑ ووٹر آج ان تمام امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔

پولنگ شروع کرنے سے پہلے پولنگ اہلکاروں نے فرضی پول کے ذریعے ای وی ایم کی جانچ کی جس کے بعد ووٹرز کو پولنگ بوتھ میں ووٹ ڈالنے کی اجازت دی گئی۔ منصفانہ اور پرامن پولنگ کے لیے سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ پولنگ بوتھ کے علاوہ حساس مقامات پر نیم فوجی دستوں کی بڑی تعداد کو تعینات کیا گیا ہے۔ 50 فیصد بوتھس پر ویب کاسٹنگ کے ذریعے براہ راست نگرانی کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ جن علاقوں میں انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی کا مسئلہ ہے وہاں ویڈیو کیمروں کا انتظام کیا گیا ہے۔ اس مرحلے کی کل 61 نشستوں میں سے 13 درج فہرست ذاتوں کے لیے مخصوص ہیں۔

1941 سیکٹر اور 250 زونل مجسٹریٹ تعینات

چیف الیکٹورل آفیسر اجے کمار شکلا نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے 60 جنرل آبزرور، 11 پولس آبزرور اور 20 ایکسپینڈیچر آبزرور بھی تعینات کیے گئے ہیں تاکہ پانچویں مرحلے کی پولنگ پر کڑی نظر رکھی جا سکے۔ اس کے علاوہ 1941 سیکٹر مجسٹریٹ، 250 زونل مجسٹریٹ، 207 اسٹیٹک مجسٹریٹ اور 2627 مائیکرو آبزرور بھی تعینات کیے گئے ہیں۔ پولنگ کی نگرانی کے لیے ہر ضلع کے 50 فیصد پولنگ مقامات پر لائیو ویب کاسٹنگ کا انتظام کیا گیا ہے۔

پانچویں مرحلے میں کل 25995 پولنگ مقامات

پانچویں مرحلے کی پولنگ میں 2.25 کروڑ ووٹر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ ان میں سے 1.20 کروڑ مرد، 1.05 کروڑ خواتین اور 1727 تیسری جنس کے ووٹر ہیں۔ اس مرحلے میں ووٹنگ کے لیے 14030 پولنگ اسٹیشن اور 25995 پولنگ مقامات بنائے گئے ہیں۔ ان میں سے 560 آدرش پولنگ اسٹیشن اور 171 تمام خواتین ورکرز پولنگ کے مقامات ہیں۔ انتخابی عمل کو انجام دینے کے لیے کل 1,14,089 پولنگ اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔

ووٹنگ کے لیے ووٹر شناختی کارڈ کے علاوہ 12 دیگر آپشنز

ووٹنگ کے لیے الیکشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق ووٹر کے شناختی کارڈ کے علاوہ 12 دیگر شناختی کارڈز کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ ان میں آدھار کارڈ، منریگا جاب کارڈ، بینکوں اور ڈاکخانوں سے جاری کردہ تصویری پاس بک، وزارت محنت کی اسکیم کے تحت جاری کردہ ہیلتھ انشورنس اسمارٹ کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس، پین کارڈ، این پی آر کے تحت آر جی آئی کے ذریعہ جاری کردہ اسمارٹ کارڈ، ہندوستانی پاسپورٹ، تصویری پنشن، دستاویزات مرکزی یا ریاستی حکومت کی طرف سے جاری کردہ فوٹو سروس شناختی کارڈ، پبلک سیکٹر انڈرٹیکنگس، پبلک لمیٹڈ کمپنیاں اپنے ملازمین کو اور سرکاری شناختی کارڈ جو ایم پیز، ایم ایل ایز اور لیجسلیٹیو کونسل کے ممبران کو جاری کیے گئے ہیں، منفرد معذوری ID (UDID) کارڈز، جوسماجی انصاف کی وزارت اور بااختیار بنانا، حکومت ہند) سے جاری کئے گئے ہیں شامل ہیں۔

ووٹنگ کووڈ پروٹوکول کے تحت ہو رہی ہے۔

کووڈ-19 کے پیش نظر پولنگ کے وقت پولنگ مقامات پر تھرمل ا سکینر، ہینڈ سینیٹائزر، دستانے، چہرے کے ماسک، فیس شیلڈز، پی پی ای کٹس، صابن، پانی وغیرہ کا خاطر خواہ انتظام کیا گیا ہے۔ ووٹرز کی سہولت کے لیے ووٹر گائیڈز بھی تقسیم کیے گئے ہیں۔ اس میں کوویڈ 19 سے متعلق ہدایات کا ذکر ہے۔

چیف الیکٹورل آفیسر کے مطابق کووڈ-19 کے پیش نظر الیکشن کمیشن کی طرف سے پولنگ کے مقامات پر زیادہ سے زیادہ 1250 ووٹروں کو رکھنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ تمام پولنگ مقامات پر ریمپ، بیت الخلا اور پینے کے پانی کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ ووٹنگ کے دوران تمام بی ایل اوز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ووٹر لسٹ کے ساتھ ہیلپ ڈیسک پر موجود رہیں اور آنے والے ووٹرز کی مدد کریں۔ چیف الیکٹورل آفیسر نے تمام ووٹرز سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے ووٹ کاسٹ کریں۔

ان 12 اضلاع میں پانچویں مرحلے کی پولنگ جاری ہے۔

پانچویں مرحلے کے 12 اضلاع میں امیٹھی، رائے بریلی، سلطان پور، چترکوٹ، پرتاپ گڑھ، کوشامبی، پریاگ راج، بارہ بنکی، ایودھیا، بہرائچ، شراوستی اور گونڈہ شامل ہیں۔

یہ پانچویں مرحلے کی نشستیں ہیں۔

پانچویں مرحلے کی 61 اسمبلی سیٹوں میں تلوئی، سیلون (ایس سی)، جگدیش پور (ایس سی)، گوری گنج، امیٹھی، اسولی، سلطان پور، صدر، لمبھوا، کادی پور (ایس سی)، چترکوٹ، مانک پور، رام پور خاص، بابا گنج (ایس سی) ، کنڈا، وشوناتھ گنج، پرتاپ گڑھ، پٹی، رانی گنج، سیراتھو، مانجھن پور (ایس سی)، چیل، پھپھاماو¿، سوراواں (ایس سی)، پھول پور، پرتاپ پور، ہنڈیا، میجا، کرچھنا، الہ آباد ویسٹ، الہ آباد شمالی، الہ آباد جنوبی، بارہ (ایس سی) )، کورون (ایس سی)، کرسی، رام نگر، بارہ بنکی، زید پور (ایس سی)، دریا آباد، رودولی، حیدر گڑھ (ایس سی)، ملکی پور (ایس سی)، بیکاپور، ایودھیا، گوسائی گنج، بلہا (ایس سی)، نانپارہ، ماترا، مہسی، بہرائچ، پیاگ پور، قیصر گنج، بھنگہ، شراوستی، مہنون، گونڈہ، کٹرا بازار، کرنل گنج، تراب گنج، مانکاپور (ایس سی) اور گورہ کی سیٹیں شامل ہیں۔

اس مرحلے میں ڈپٹی چیف منسٹر سمیت کئی سابق فوجیوں کی ساکھ داو¿ پر لگی ہوئی ہے۔

پانچویں مرحلے کے انتخابات میں نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ سمیت چھ وزراءکی ساکھ داو¿ پر لگ گئی ہے۔ ان میں کیشو موریہ کوشامبی کے سیراتھو سے الیکشن لڑ رہے ہیں، جب کہ دیہی ترقی کے وزیر راجندر پرتاپ سنگھ عرف موتی سنگھ پرتاپ گڑھ کی پٹی سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ کابینی وزیر سدھارتھ ناتھ سنگھ الہ آباد ویسٹ سے اور کابینہ وزیر نند گوپال گپتا نندی الہ آباد ساو¿تھ سے امیدوار ہیں۔ اسی طرح یوگی حکومت کے کابینہ وزیر رماپتی شاستری مانکاپور سے اور ریاستی وزیر چندریکا پرساد اپادھیائے چترکوٹ صدر سیٹ سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سابق ریاستی وزیر اور جن ستا دل کے سربراہ رگھوراج پرتاپ سنگھ عرف راجہ بھیا پرتاپ گڑھ کی کنڈا سیٹ سے میدان میں ہیں۔

ہندوستھان سماچار

ہفتہ, فروری 26, 2022

خانگی زندگی مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

خانگی زندگی 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 انسان علمی ، سائنسی اور تحقیقی میدان میں آگے بڑھ رہا ہے اور اس نے اپنے علم وعمل سے تسخیر کائنات کے قرآنی نظریہ اور الٰہی فرمان کو سچ کر دکھایا ہے، لیکن اس کے بر عکس دین وشریعت سے دوری نے اس کی ذاتی زندگی کو اجیرن بنا رکھا ہے، خاندان ٹوٹ رہا ہے اور ذہنی سکون چھنتا جا رہا ہے، حالاں کہ اللہ رب العزت نے انسانی زندگی میں مرد وعورت کے نکاحی رشتے کو مودت ومحبت اور پر سکون زندگی کا سبب قرار دیا تھا ، لیکن  ہماری بے عملی، بدعملی اور اس رشتے کے احترام کی لازمی اہمیت کے نظر انداز کرنے کی وجہ سے گھر میں سکون وطمانینت جیسی کوئی چیز باقی نہیں رہی، بیش تر گھروں میں خانگی زندگی کو آپسی جھگڑے اور غلط فہمیوں نے بر باد کر رکھا ہے ، اس لیے گھر کے نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے، یہ درستگی گھر کو پر سکون بنا نے کے لیے اصول کے درجے میں ہے، ہماری خانگی زندگی کی بے تربیتی کے اثرات بچوں کی ذہنی نشو ونما پر پڑتے ہیں، ہم نے بچوں کی تربیت کا کام اسکولوں اور کنونٹوں کے ذمہ کر دیا ہے، جہاں اعلیٰ اخلاق اقدار کے فروغ کا کام تمام ہو چکا ہے، مادہ پرستی نے ا نہیں ایک صنعتی کار خانہ بنا دیا ہے جہاں نصاب پڑھا دیا جاتا ہے ، اقدار نہیں پڑھائے جاتے ،ایسے میںہماری ذمہ داری کا فی بڑھ گئی ہے، ہمیں اپنے گھر کے نظام کو چست درست رکھنا ہوگا، اور اس کے لیے ملکی قوانین وضوابط کی طرح کچھ اصولوں کو گھر میں رائج کر نا ہوگا ، تاکہ ہماری خانگی زندگی اور گھر یلونظام دوسروں کے لیے بھی اسوہ اور نمونہ بن سکے اور پر سکون ماحول میں بچے اچھی تربیت پا سکیں۔
 سب سے پہلا کام یہ کرنا ہوگا کہ گھر کا ہر فرد نماز وقت پر ادا کرے،قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام کرے، نماز بندگی ، عاجزی، در ماندگی، بے کسی اور بے بسی کے اظہار کا بڑا ذریعہ ہے، نماز کی پابندی سے تواضع اور انکساری پیدا ہوتی ہے اور اپنے کو بڑا سمجھنے کے بجائے اللہ کی بڑائی کا خیال ذہن ودماغ پر جمتا ہے، جو سار ے جھگڑوں کے ختم کرنے کا سبب بنتا ہے ، اس لیے کہ جھگڑے اپنی بڑائی کے خیال سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔
گھر کا ہر فرد کسی نہ کسی درجہ میں اپنے مقام مرتبہ اور حیثیت کے اعتبار سے انا کا شکار ہوتا ہے، اور اس انانیت کی وجہ سے وہ دوسرے لوگوں کو اپنے سے کم تر سمجھتا ہے، ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرتا ہے، اس لیے معاملہ بگڑتا چلا جاتاہے، یہ بیماری ختم نماز کے ذریعہ ہی ہو سکتی ہے، ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ تواضع اختیار کریں، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے تواضع کو رفع درجات کا سبب بتایا ہے۔ من تواضع رفعہ اللہ
 گھر کے ماحول کو خوشگوار بنانے کے لیے برائے مہربانی اور شکریہ کے کلمات کو رواج دینا چاہے اس سے ایک دوسرے کی وقعت دل میں بڑھتی ہے، آتے جاتے سلام کے الفاظ دل کے دروازے ایک دوسرے کے لیے کھولتے ہیں، یہ آداب ملاقات بھی ہے اور لوگوں کے لیے سلامتی کی دعا بھی ، گھریلو مسائل جو بھی ہوں انہیں آپس میں ادب واحترام کے ساتھ ایک دوسرے کو منتقل کر نا چاہیے ، مار پٹائی ، گالی گلوج، لعن طعن سے بچنا چاہیے، عورتوں اور بچوں پر ہاتھ اٹھانا انتہائی غلط حرکت ہے، یہ ہمارے خاندان کے کمزور افراد ہوتے ہیں، اور کمزوروں پر ہاتھ اٹھانا انتہائی بزدلی کی بات ہے، تنبیہ کی گنجائش تو ہے لیکن اس کا اسلوب بھی جارحانہ نہ ہو، اس لیے کہ یہی جارحیت خانگی زندگی کو جو الا مکھی اور آتش فشاں بنا دیتی ہے۔
 خانگی نظام کو ٹھیک رکھنے میں ادب واحترام کے ساتھ خوش سلیقگی کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے،خوش سلیقگی یہ ہے کہ جب کوئی بات کرے تو توجہ سے سنی جائے ، خواہ وہ بچہ ہی کیوں نہ ہو ،ا س سے اس کے اندر یہ احساس جاگے گا کہ میری بات توجہ سے سنی گئی اور اسے اہمیت دی گئی ، اہمیت کا یہ احساس گھروں میں جو باغیانہ تیور نئی نسلوں میں پیدا ہو رہے ہیں، اسے ختم کر نے میں معاون ومدد گار ہوگا ، یہ سلیقہ گھروں میں نظر بھی آئے اس کا طریقہ یہ ہے کہ گھر کا ہر فرد اپنے ذمہ لازم کر لے کہ جو چیز جہاں سے اٹھائے گا وہیں رکھے گا ، دروازہ اور کھڑکی کھولا ہے تو ضرورت پوری ہونے کے بعد اسے بند بھی کرے گا ، رات کو بارہ بجے کے بعد کوئی جاگا نہیں رہے گا ، فضول گفتگو نہیں کرے گا ، رات کے اس حصہ میں وہاٹس ایپ اور دوسرے ذرائع کا استعمال بھی نہیں کرے گا ، یہ پابندی آپسی مجلسی گفتگو کے وقت بھی جاری رہے گی ۔
 انفرادی طور پر کھانے کے بجائے اجتماعی طور پر خورد ونوش بھی گھر کے ماحول کو ساز گار بنانے میں انتہائی معاون ہوتا ہے، اوراس سے بہت ساری غلط فہمیوں کا دروازہ بند ہوتا ہے،اپنے ضروری کام خود انجام دے لینا بھی اسوۂ رسول ہے، اپنے چھوٹوں پر رعب ودبدبہ کے ساتھ حکم جمانا بچوں کی نفسیات کے لیے مضر ہے، البتہ تربیتی نقطۂ نظر سے ایسا ماحول بچوں کو فراہم کرنا چاہیے کہ وہ اپنے بڑوں کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور اسے اپنی سعادت سمجھیں ، در اصل یہ دو طرفہ الفت ومحبت کا معاملہ ہے ، آپ چھوٹوں  پر رحم کریں گے تو وہ اپنے بڑے کی تو قیر کریں گے، گھر میں اگر وسعت ہو اور ہر ایک کے لیے الگ الگ کمرے مختص ہوں تو حتی الامکان دوسرے کے کمرے میں جانا اس کے سامان کو الٹ پلٹ کرنا بھی ممنوع ہونا چاہیے، جانا ضروری ہو تو دروازہ پہلے کھٹکھٹا یا جائے، سلام کیا جائے، یہ سلام استیذانی کہلاتا ہے،سلام کا جواب مل جائے اور صاحب کمرہ استقبال کی پوزیشن میں ہو تو ضرور جانا چاہیے، بچوں کی تربیت کے لیے اچھے کاموں اورامتحان میں اچھے نتائج کے موقع سے حوصلہ افزائی بھی ضروری ہے، اس سے آگے بڑھنے کا حوصلہ اور جذبہ پیدا ہوتا ہے، گھر کے کسی فرد کی بیماری پر تیمار داری اور عیادت سے بھی آپسی محبت  پروان چڑھتی ہے، اس لیے اس کام کو دوسری ضروریات پر مقدم رکھنا چاہیے، خانگی زندگی کو پر سکون رکھنے کے لیے اصول اور بھی ہیں فی الوقت اتنا ہی ، باقی پھر کبھی۔

خاص پیغام اعلان برائے اجلاس دستار بندیحضرات مسلمانانِ ڈومریا

خاص پیغام اعلان برائے اجلاس دستار بندی
حضرات مسلمانانِ ڈومریا!


السّلام عليکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ سب کو معلوم ہے کہ دو سال قبل جامعہ ممتاز العلوم کا قيام عمل ميں آيا ۔ جامعہ کا خاص مقصد حفاظ پيداکرنا اور ڈومريا واطراف کے ہر گھر ميں حافظ پہنچانا تھا۔ آپ حضرات کے مالی اور جانی تعاون سے الحمد للہ جامعہ اپنے مقصد ميں کامياب ہو رہا ہے۔ دوسال کے عرصہ ميں آٹھ طلبہ عزيز نے حفظ قرآن مکمل کر ليا ہے ۔ يہ يقينًا آپ حضرات کی حوصلہ افزائی کا نتيجہ ہے ۔ ابھی جامعہ ميں پچاس طلبہ زير تعليم ہيں ۔ جن کی کفالت کھانے پينے اور رہنے کا نظم خود جامعہ کرتاہے اور آپ حضرات سے لے کر کرتا ہے ۔ جامعہ کاالگ سے کوئی مستقل آمدنی کا ذريعہ نہيں ہے۔ آپ کےاس ديرينہ توجہات پر جتنا جامعہ شکریہ ادا کرے کم ہے۔
علماء ودانشوران ڈومرياکو جب آٹھ طلبہ عزیزکے حافظ بننےکی اطلاع ہوئی تو وہ بہت خوش ہوئے اور اجلاس دستار بندی کی تجويز پيش کی ۔ان کے ساتھ متعدد ميٹنگيں ہوئی جس میں21/22 مارچ کی تاريخ رکھی گئ۔لیکن طے شده تاریخ کا اعلان باضابطہ آپ حضرات کے مشورے سے کیا جائے گا



کوشش کیجائے گی کہ: ان شاء اللہ دار العلوم ديوبند، دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ اور جامعہ رحمانی، خانقاہ، مونگير سےاکابردین علماء کرام کو بلایا جائے ۔ اور ڈومریا کی سرزمين ایک مرتبہ پھر بزرگان دین و علمائے کرام کی تشريف آوری سے لالہ زار ہو جائے

۔ آپ تمام باشندگان ڈومریاسے بالخصوص درخواست کی جاتی ہے کہ: اس اجلاس کو کامياب بنانے ميں جامعہ ہذا کا ہر طرح سے تعاون کريں۔ بلکہ خود آگے بڑھ کر اجلاس کی ذمہ داری قبول کریں۔



نوٹ: اس سلسلے ميں بروز اتوار 27 /فروری2022ء،آٹھ بجے صبح جامعہ ممتاز العلوم کے احاطے ميں ميٹنگ رکھی گئی ہے۔ آپ تمام حضرات سے شرکت کی درخواست ہے ۔

فقط والسلام
مجلس منتظمہ: جامعہ ممتاز العلوم، ڈومريا، رانیگنج،ارریہ بہار۔

جمعہ, فروری 25, 2022

کہنہ مشق قاری،ماہرفن استاذ قاری عبد الصمد صاحب کاانتقالچینئی (ساجد حسین ندوی


کہنہ مشق قاری،ماہرفن استاذ قاری عبد الصمد صاحب کاانتقال
چینئی (ساجد حسین ندوی) کہنہ مشق قاری،تجربہ کار استاذِ حفظ اور اپنے فن اور تجربے سے ہزاروں افراد کو حفظِ قرآن کی دولت سے مالا مال کرنے والے خادم قرآن،استاذ الاساتذہ، شہرکانپور کی قدیم اور مرکزی درسگاہ مدرسہ جامع العلوم پٹکاپور، کانپور کے سابق استاذِ حفظ حضرت قاری عبدالصمد صاحب فرقانی ؒکا بتاریخ 23 اکتوبر 2022 بروز بدھ کو تقریبا دوپہر 1بجکر  40 منٹ میں حرکتِ قلب بند ہونے کی وجہ سے دارِ فانی سے دارِ بقا کی طرف کوچ کرگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
گذشتہ ہفتہ مرحوم کو اچانک برین اسٹوک ہوگیا تھاجس کے بعد ان کو فوری طور پرتمل ناڈو گورنمنٹ سوپر اسپیشلٹی، ماونٹ روڈ چینئی میں داخل کیا گیا جہاں ماہرڈاکٹروں کی نگرانی میں علاج ہوا اور طبیعت بحال ہونے لگی، ایک دو دن میں ڈاکٹر نے ڈسچارج کرنے کو کہا تھا لیکن 23/ فروری کو تقریبا دو پہرساڑھے بجے طبیعت بگڑنے لگی، ڈاکٹروں نے آخری حد تک کوشش کی،لیکن وقت موعود آچکا تھا۔اللہ کے فیصلے کے سامنے انسانی طاقت بے بس ہوگئی اور 1/ بجکر 40منٹ پر قاری صاحب کی روح دارِ فانی سے دارِ بقا کی طرف کوچ کرگئی۔ 24فروری کو 1:45بجے قائد ملت جمعہ مسجد چینئی میں قاری صاحب کے منجھلے فرزند قاری محمد اسجد صاحب نے جنازے کی نماز پڑھائی جس میں کثیر تعداد میں لوگو ں نے شرکت کی اور سوگواروں کی موجودگی میں امیرالنساء قبرستان رائے پیٹھہ میں سپرد خاک کیا گیا۔
 قاری صاحب مرحوم کی پیدائش بہار کے ضلع مونگیر کے ایک گاؤں محلہ حاجی سبحان میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم پنج ویر نامی ایک گاؤں میں حاصل کی، اس کے بعد جامعہ محمودیہ،گوگری ضلع کھگڑیا،بہار میں قرآن کریم کا دور مکمل کرنے کے بعد لکھنو کی مشہور درسگاہ مدرسہ تجوید الفرقان میں قرأت کی تعلیم مکمل کی۔ قرأت کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد تدریسی خدمات کے لیے آپ کا تقرر شہر کانپور کی قدیم درسگاہ مدرسہ جامع العلوم،پٹکاپور،کانپور میں ہوا،جہاں آپ نے تقریبا 24/ سالوں تک بحیثیت استاذ حفظ خدمات انجام دی اور لاکھوں کی تعداد میں حفاظ تیار کئے۔ کچھ ناگزیر حالات کی وجہ سے آپ نے مدرسہ جامع العلوم سے استعفی دے دیا اس کے بعد دارالعلوم آگرہ، مدھیہ پردیش اور مدرسہ اشاعت العلوم کانپور میں صدر شعبہ حفظ کے طور پر کام کرتے رہے۔ اسی دوران قاری صاحب کی رفیق حیات کا انتقال ہوگیا اس کے بعد قاری صاحب کافی ٹوٹ گئے اور تدریسی خدمات چھوڑ کر شہر مدراس میں اپنے لڑکوں کے ساتھ رہنے لگے۔لیکن تدریس ان کی طبیعت میں رچی بسی تھی، اس لیے فارغ رہنا ان کے لیے مشکل لگنے لگا۔بہر کیف وہ شہر مدراس سے سیدھا اپنے گاؤں آگئے اور پنج ویر مدرسہ جہاں سے آپ نے ابتدائی تعلیم اور حفظ مکمل کیا تھا وہیں درس وتدریس میں لگ گئے۔ آخری عمر تک اسی ادارہ سے منسلک رہ کر قرآن کی خدمت کرتے رہے۔
قاری صاحب کے انتقال پر ہزاروں علماء،حفاظ، قراء اور شاگردوں نے اپنے رنج و غم کا اظہار کیا اور پسماندگان سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے رفع درجات اور مغفرت کے لیے دعائیں کی۔
پسماندگان میں قاری صاحب کے چار لڑکے اور ایک لڑکی ہے، الحمدللہ چاروں لڑکے حافظ و قاری ہیں اور شہرمدراس میں دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرماکر درجات کو بلند فرمائے اوراپنے نیک بندوں میں شامل فرمائے۔ پسماندگان اور شاگردوں کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین، ثم آمین۔
اللھم اغفرلہ وارحمہ واعف عنہ وادخلہ الجنۃ بغیر حساب

سر پر رہے اے بیٹیو ہر آن ڈوپٹہشمشیر عالم مظاہری دربھنگوی

سر پر رہے اے بیٹیو ہر آن ڈوپٹہ
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار
آج کل اسلام دشمن قوتوں نے عجیب پروپیگنڈہ شروع کر دیا ہے جس سے مسلمان عورتوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں پر بہت زیادہ پابندیاں لگا دی ہیں ہمارے معاشرے کی پڑھی لکھی مستورات خواتین اور بچیاں غلط فہمی کا شکار ہو جاتی ہیں اور وہ یہ سمجتی ہیں کہ شاید ہمارے جائز حقوق نہیں دیے گئے حالانکہ بات ہرگز ایسی نہیں ہے سب سے پہلی بات تو یہ کی جاتی ہے کہ اسلام نے پردے میں رہنے کا حکم دیا ہے جبکہ غیر مسلم معاشرہ میں عورت بے پردہ پھرتی ہے تو یہ بات سمجھنی بہت آسان ہے کہ عورت پردہ میں رہے تو اس کا فائدہ عورت کو بھی ہے مرد کو بھی 
کتاب اللہ کے بعد اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا مطالعہ کریں تو آپ یقین کریں کہ پردہ کے بارے میں اس قدر احادیث ہیں کہ تعجب ہوتا ہے کہ بعض لوگ کیسے حضور  صلی اللہ وسلم کا نام بھی لیتے ہیں اور بے پردگی بھی کرتے ہیں عشق  کے دعوے بھی کرتے ہیں اور زمانہ سازی کے لئے بہو بیٹیوں کو عریانیت کی اجازت بھی دیتے ہیں بلکہ بعض تو نماز بھی پڑھتے ہیں حج بھی کرتے ہیں صدقہ خیرات بھی کرتے ہیں لیکن محض قدامت پرستی اور دقیانوسیت کے طعنوں سے بچنے کے لیے بے غیرتی بھی کرتے ہیں زمانۂ جاہلیت میں عورتوں کا دستور تھا کہ دوپٹوں سے اپنے سروں کو ڈھانک کر باقی دوپٹہ کمر پر ڈال لیتی تھیں مسلمان عورتوں کو حکم ہوا کہ اپنے دوپٹوں سے سر بھی ڈھانکیں اور گلے اور سینے پر ڈالے رہا کریں چونکہ صحابیات کے پاس مال و دولت کی اس قدر فراوانی نہ تھی کہ وہ نئے دوپٹے خریدتیں اس لیے انہوں نے اس حکم کو سن کر موٹی موٹی چادروں کے دوپٹے بنالیے اور ان سے اپنے گلوں اور سینوں کو بھی ڈھکنے لگی 
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (قال المرأ ۃ عورۃ) عورت سر تا پا پوشیدہ رہنے کے قابل ہے یعنی سر سے پاؤں تک عورت ستر ہے تو سر بھی ستر ہوا پس عورتیں ننگے سر نہ پھرا کریں کہ بے پردگی ہے (ترمذی)
کئی پردہ دار عورتیں برقع کے ساتھ باہر جاتی ہیں استانیہ اسکول جاتی ہیں جب گھر آتی ہیں تو ننگے سر گھر کا کام کاج کرتی ہیں اور ننگے سر پھرتی رہتی ہیں یہ حرام ہے سر چھپانے کی چیز ہے ستر ہے اسے مستور رکھا کریں گھر میں بھی ننگے سر نہ پھرا کریں یہ بات اکثر لڑکیوں اور عورتوں کے لئے سخت کوفت کا موجب ہے بڑی جانکاہ ہے جگر خراش ہے اور اس سے ان پر اتنا بوجھ ہوگا کہ گویا ان کے دل پر ایک پہاڑ پر لا کر رکھ دیا گیا ہے۔ یاد رکھیں اسلام اسی بات کا نام ہے کہ اپنے آپ کو اسلام کے حوالے کر دیا جائے اپنی خواہشات اور چاہت کو اسلام کے حکم کے آگے دبا دیا جائے نفس پر اسلام کے قانون اور حکم کا خنجر پھیر دیا جائے پھر مسلمان ہو سکتے ہیں جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ عورتیں ننگے سر نہ پھریں تو عورتوں کو خدا تعالی کا یہ حکم مان لینا چاہیے اللہ کے حکم کے آگے باتیں نہیں بنانا چاہیے اور نہ انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ احکام الہی سے منہ پھیر یں یا بے اعتنائی برتیں اور پھر یہ عاجز انسان جو ہر وقت اس کے رحم و کرم پر زندہ ہے چلتا پھرتا ہے اور سانس لیتا ہے خدا تعالی کے آگے دم مارے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے حکم سے بولتے ہیں خدا کے احکام کا نور پھیلاتے ہیں ہر عورت مرد کو اس نور میں گام فرسا رہنا چاہیے
حجاب اور پردے کا مقصد یہ ہے کہ معاشرے کے اندر بےپردگی کے نتیجے میں جو فتنہ پیدا ہو سکتا ہے اس کا سد باب کیا جائے ۔ حجاب کا حکم اللہ تعالی نے قرآن کریم میں نازل فرمایا اور حضور صلی اللہ وسلم نے احادیث میں اس کی تفصیل بیان فرمائی اور ازواج مطہرات اور صحابیات نے اس حکم پر عمل کرکے دکھایا اب اہل مغرب نے یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ مسلمانوں نے عورتوں کے ساتھ بڑا ظالمانہ سلوک کیا ہے کہ ان کو گھروں میں بند کر دیا ان کے چہروں پر نقاب ڈال دی اور ان کو ایک کارٹون بنادیا تو کیا مغرب کے اس مذاق اور پروپیگنڈے کے نتیجے میں ہم اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم کے ان احکام کو چھوڑ دیں؟  یاد رکھیں جب تک خود ہمارے اپنے دلوں میں یہ ایمان اور اعتقاد پیدا نہ ہو کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ وسلم سے جو طریقہ سیکھا ہے وہی طریقہ برحق ہے کوئی مذاق اڑاتا ہے تو اڑایا کرے کوئی طعنے دیتا ہے تو دیا کرے یہ طعنے تو مسلمان کے گلے کا زیور ہیں انبیاء علیہم السلام جو اس دنیا میں تشریف لائے کیا انہوں نے کچھ کم طعنے سہے؟ جتنے انبیاء علیہم السلام اس دنیا میں تشریف لائے ان کو یہ طعنے دیئے گئے کہ یہ تو پسماندہ لوگ ہیں یہ قیانوس اور رجعت پسند ہیں یہ ہمیں زندگی کی راحتوں سے محروم کرنا چاہتے ہیں یہ سارے طعنے انبیاء کو دیے گئے اور ہم آپ جب مومن ہیں تو انبیاء کے وارث ہیں جس طرح وراثت میں اور چیزیں ملیں گی یہ طعنے بھی ملیں گے کیا ان طعنوں سے گھبرا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کار کو چھوڑ دیں گے؟ اگر اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم پر ایمان ہے تو پھر ان طعنوں کو سننے کے لیے کمر کو مضبوط کر کے بیٹھنا ہوگا (اصلاحی خطبات) 
ام المومنین حضرت ام سلمہ کا بیان ہے کہ میں اور میمونہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھیں کہ اچانک عبداللہ بن ام مکتوم ( نابینا)  سامنے سے آ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے پاس آنے لگے چونکہ عبداللہ نابینا تھے اس لئے ہم دونوں نے پردہ کرنے کا ارادہ نہیں کیا اور اسی طرح اپنی جگہ بیٹھی رہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان سے پردہ کرو میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم کیا وہ نابینا نہیں ہیں؟ ہم کو تو وہ دیکھ نہیں رہے ہیں اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا تم دونوں بھی نابینا ہو؟ کیا تم ان کو دیکھ نہیں رہی ہو ؟ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتوں کو بھی جہاں تک ممکن ہوسکے مردوں پر نظر ڈالنے سے پرہیز کرنا چاہئے حضرت عبداللہ نابینا تھے پاکباز صحابی تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں بیویاں نہایت پاک دامن تھیں اس کے باوجود بھی آپ نے دونوں بیویوں کو حکم فرمایا کہ عبداللہ سے پردہ کریں یعنی ان پر نظر نہ ڈالیں اسلام میں مرد و زن کو حکم ہے کہ وہ اپنی نظروں کی حفاظت کریں تاک جھانک نہ کریں نگاہیں نیچی رکھیں تاکہ مرد اسے دیکھ ہی نہ سکے اگر عورتیں بے پردہ رہیں گی تو وہ صورتحال پیش آۓ گی جسے کسی دل جلے شاعر نے بیان کیا ہے 
سبھی مجھ کو کہتے ہیں نظریں نیچی رکھ اپنی
کوئی ان کو نہیں کہتا نہ نکلیں یوں بے حجاب ہوکر
آیات و احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت سر سے لے کر پاؤں تک مستورہ ہے سارا جسم اس کا ستر ہے جسے ڈھانکنا ضروری ہے اب تو کئی عورتیں کہہ دیں گی کہ یہ پردہ تو پنجرہ ہے جس میں ہم کو قید کر دیا گیا ہے یاد رکھیں  کہ اللہ تعالی عورتوں کا خالق ہے وہ ان کی طبیعت مزاج اور جبلت کو خوب جانتا ہے اس نے اپنے علم اور حکمت سے عورتوں کے لیے یہ پردہ کا حکم نازل فرمایا ہے جو قرونِ اولیٰ کی عورتوں نے بسر و چشم قبول کیا اور دین اور دنیا کی خوبیاں اور بھلائیاں سمیٹ کر لے گئیں تاریخ ان کی روحوں پر تحسین اور آفرین کے پھول برساتی ہیں آج اگر عورتیں اپنی خواہش نفس اور ماحول کی کشش اور رواج اور فیشن کی نیلم پری کو خدا تعالی کے حکم کی چھری سے ذبح کر دیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے پردے کو اپنا لیں تو ان کے اولیاء اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں ہوگا بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں شیطان مایوس ہو گیا تھا کہ اس کی پرستش کی جائے وحی کے نزول کے سامنے اس پر مردنی چھائی ہوئی تھی لیکن آج ابلیس مع اپنی ذریت کے ننگا ناچ رہا ہے تمام دنیا فسق و فجور اور بے حیائی سے بھری ہوئی ہے آج اگر عورتیں شرم و حیا کازلال پی کر پردہ قبول کرلیں تو فرشتے ان پر رحمتوں کے پھول برسائیں  اور حوروں کی عفت انہیں سلام کرے اور یہ اپنے لیے جنت کے دروازے کھلے پائیں 
سر پر رہے اے بیٹیو ہر آن ڈوپٹہ
ہے خانہ نشینوں کی حسیں شان دوپٹہ

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...