Powered By Blogger

جمعرات, مارچ 03, 2022

مہاراشٹر حکومت نے IPL میں 25 فیصد شائقین کی اجازت ، 26 مارچ سے ممبئی اور پونے IPL طئے دی

مہاراشٹر حکومت نے IPL میں 25 فیصد شائقین کی اجازت ، 26 مارچ سے ممبئی اور پونے IPL طئے دیممبئی: مہاراشٹر حکومت نے بدھ کے روز آنے والے انڈین پریمیئر لیگ میچوں کے لیے اسٹیڈیم کی گنجائش کے 25 فیصد شائقین کی اجازت دی ہے۔ انڈین پریمیئر لیگ میچوں (IPL) 26 مارچ سے ممبئی اور پونے میں منعقد ہونے والے ہیں۔ یہاں شام کو جاری ایک سرکاری بیان میں ریاستی حکومت نے کہا کہ اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ عالمی وبا کورونا وائرس کے کیسوں میں کمی آرہی ہے۔ ہجوم کی حد 25 فیصد تک محدود کردی گئی ہے اور صرف مکمل ویکسین شدہ تماشائیوں کو ہی اسٹیڈیم میں داخل ہونے کی اجازت ہوگی۔

یہ اس وقت ہوا جب مہاراشٹر حکومت نے بدھ کو بی سی سی آئی اور ممبئی کرکٹ ایسوسی ایشن (ایم سی اے) کے ساتھ آئی پی ایل کے ہموار انعقاد کے لیے میٹنگ کی، جو کہ اب 10 ٹیموں کا معاملہ ہے۔ ریاستی حکومت کے وزراء - آدتیہ ٹھاکرے اور ایکناتھ شندے - کے ساتھ ایم سی اے کے سربراہ وجے پاٹل اور اعلیٰ کونسل کے ارکان اجنکیا نائک اور ابھے ہڈپ، خزانچی جگدیش اچریکر، میٹنگ میں موجود تھے۔

میٹنگ کے بعد ٹویٹس کی ایک سیریز میں آدتیہ ٹھاکرے نے کہا کہ @IPL کے ہموار بہاؤ کو یقینی بنانے کے لیے وزیر @ mieknathshinde جی اور میں نے IPL، @BCCI کی پولیس اور ممبئی کی میونسپل کارپوریشن کے افسران کے ساتھ ایک مشترکہ میٹنگ تھانے، نوی ممبئی میں کی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ جلد ہی آئی پی ایل کے دوسرے مقام پونے کے لیے بھی اسی طرح کی میٹنگ کریں گے۔ کہ ٹورنامنٹ ہمارے تمام شہر کے مقامات پر کامیابی کے ساتھ منعقد کیا گیا ہے۔ جو مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے کے بیٹے ہیں۔

''مہاراشٹر میں آنے والا آئی پی ایل اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ کھیل بیرون ملک نہیں کھیلے جائیں۔ معیشت، حوصلے اور کرکٹ کے شائقین کے جذبے کے لحاظ سے یہ ملک کے ساتھ ساتھ مہاراشٹر کے لیے ایک بہت بڑا فروغ ہے۔ قبل ازیں یہ معلوم ہوا تھا کہ آئی پی ایل کی ٹیمیں 14 یا 15 مارچ سے شہر میں ٹریننگ شروع کریں گی۔ ان کے لیے پریکٹس کے مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے۔

یہ سمجھا جاتا ہے کہ مضافاتی باندرہ کرلا کمپلیکس میں ایم سی اے گراؤنڈ، تھانے میں ایم سی اے گراؤنڈ، ڈاکٹر ڈی وائی پاٹل یونیورسٹی گراؤنڈ اور سی سی آئی (کرکٹ کلب آف انڈیا) اور ریلائنس کارپوریٹ کے ساتھ فٹ بال پچ۔ گھنسولی میں پارک گراؤنڈ کو حکام نے نقد رقم سے بھرپور ٹورنامنٹ کے لیے پریکٹس کے مقامات کے طور پر شناخت کیا ہے۔


کھلاڑیوں کا 8 مارچ سے شہر میں آنا شروع ہونے کا امکان ہے۔ یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ تمام شرکاء کو ممبئی پہنچنے سے 48 گھنٹے قبل RT-PCR ٹیسٹ کروانا ہوں گے۔ کھلاڑیوں کو اپنے متعلقہ بلبلوں میں داخل ہونے سے پہلے 3-5 دن کے قرنطینہ سے بھی گزرنا پڑے گا۔

بدھ, مارچ 02, 2022

قرآن پاک کا سنہالی ترجمہ:لنکائی ہائی کمیشنر کاجمعیۃ علماء کوتحفہ

قرآن پاک کا سنہالی ترجمہ:لنکائی ہائی کمیشنر کاجمعیۃ علماء کوتحفہ

نئی دہلی : سری لنکا کے ہائی کمیشنر اور دیگر اعلی عہدیداروں نے پیر کو جمعیۃ کے صدردفتر پہنچ کر اس کے ذمہ داروں کو قرآن پاک کا سنہالی ترجمہ پیش کیا۔

یہ ترجمہ سری لنکا کی آل سیلون جمعیت العلما کے صدر مفتی محمد رضوی کے ذریعہ شائع کیا گیا ہے۔

بذات خود سری لنکا کے ہائی کمشنر ملندا موراگوڈا دفتر جمعیۃ علماء ہند پہنچے اور جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی ، سکریٹری مولانا نیاز احمد فاروقی کو قرآن مجید کا نسخہ پیش کیا۔

ایک شفاف ڈسپلے باکس کے اندر نصب قرآن پاک کا یہ نسخہ اگلے جمعہ کو جمعیۃ کے دفتر میں واقع 500 سالہ پرانی مسجد ’’ مسجد عبدالنبی‘‘میں رکھا جائے گا اور اس کے بعد اسے مستقل نمائش کے طور پرجمعیۃ کے میوزیم میں نصب کیا جائے گا۔

ملاقاتی تقریب کے دوران سری لنکا کے ہائی کمشنر ملندا موراگوڈا اور جمعیۃ کے عہدیداروں نے سری لنکا اور ہندوستان کے درمیان اسلامی ثقافتی تعلقات کو فروغ دینے پر تبادلہ خیال کیا۔ اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند کے کئی سینئر عہدیداران اور ہائی کمیشن کے افسران بھی موجود تھے۔قرآن پاک کا سنہالی ترجمہ پیش کرنے کے بعد ہائی کمشنر اور ان کے رفقا نے جمعیۃ کے ذمہ دا روں کی معیت میں جمعیۃ میوزیم اور لائبریری کا دورہ کیا جہاں اسلام، تاریخ ہند اور دیگر موضوعات پر تقریباً 18000 کتابیں رکھی گئی ہیں۔


نواب ملک کی گرفتاری ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

نواب ملک کی گرفتاری ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 سات گھنٹوں کی پوچھ تاچھ کے بعد انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ (ای ڈی) نے مہاراشٹر کے کابینی وزیر نواب ملک کو گرفتار کر لیا، ان پر داؤد ابراہیم کے ساتھ مل کر منی لانڈرنگ کا الزام ہے، نواب ملک این سی پی کے قد آور لیڈر ہیں، بلکہ کہنا چاہیے کہ مہاراشٹر میں وہ شرد پوار کے دایاں بازو سمجھے جاتے ہیں۔ اس لیے ان کی گرفتاری کو انتقامی کاروائی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ کیوں کہ نواب ملک مرکزی حکومت اور اس کی تفتیشی ایجنسیوں کے خلاف مسلسل بولتے رہے ہیں، انہوں نے ’’ڈرگ آن کروزکیس‘‘ میں بھی تفتیشی ایجنسیوں اور اس کے افسر سمیر وانکیڑے کے خلاف زبردست محاذ کھولا تھا، اسی وقت سے یہ امید لگائی جا رہی تھی کہ دیر سویر ان کی گرفتاری ہونی طے ہے۔
 ہندوستان کی تفتیشی ایجنسیوں کو جو غیر معمولی اختیارات حاصل ہیں اس کے تحت جانچ کے بعد گرفتاری بھی عمل میں آسکتی ہے ، ایجنسیاں غیر جانب دار ہوں تو کوئی بات نہیں، لیکن جب ایجنسیاں بھی مقید ہوں اور ان کے فیصلے بھی چشم وابرو کے مرہون منت ہوں تو سوالات کھڑے ہونے لگتے ہیں۔
 نواب ملک کی گرفتاری جس طرح ہوئی ہے اس کے طریقہ کار پر میڈیا میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، پچیس برسوں سے مسلسل منتخب ہونے والے ایک عوامی نمائندہ کو چار بجے صبح اس کے گھر سے اٹھانا ، گھنٹوں تفتیش کرنا اور کچھ نہ ملے تو عدم تعاون کا الزام لگا کر گرفتار کر لینا قانون اوردستوری تقاضوں کے خلاف ہے، نواب ملک کا کہنا ہے کہ ان کے سمن پر دستخط ای ڈی کے دفتر میں کرایاگیا، تمام حزب مخالف اس مسئلے پر متحد ہیں کہ نواب ملک کو سچ بولنے کی پاداش میں پریشان کیا جا رہا ہے، انہوںنے واضح طور پر گرفتاری کے بعد کہا کہ ہم لڑیں گے،جیتیں گے، جھکیں گے نہیں، نواب ملک کی گرفتاری سے مہاراشٹر کی مہاوکاس اگھاڑی حکومت کو وقتی پریشانیوں کا سامنا ہے، وزیر اعلیٰ پر نواب ملک سے استعفا لینے کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت میں کسانوں کو روندوانے والے وزیر سے استعفیٰ نہیں لیا گیا، حالاں کہ یہ عوامی مطالبہ تھا۔ ببیں تفاوت رہ از کجا است تا بکجا۔

کرناٹک ہائی کورٹ کا حیرت انگیز اقدام : بنیادی حقوق پر عارضی روک - منو سیبسٹین ( مدیر مسئول ، لائیو لا ) ترجمہ : عمیر اعظمی

کرناٹک ہائی کورٹ کا حیرت انگیز اقدام : بنیادی حقوق پر عارضی روک - منو سیبسٹین ( مدیر مسئول ، لائیو لا ) ترجمہ : عمیر اعظمی

کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب کے معاملہ میں ناقابل تصور عمل کیا ہے۔ کرناٹک کے سرکاری کالیجوں میں لگائی گئی حجاب پر باندی کے خلاف مسلمان طالبات کی طرف سے دائر کردہ مقدمہ کی سنوائی میں مکمل بینچ نے عارضی فیصلہ کے ذریعہ مقدمہ مکمل ہونے تک بلا تفریق مذہب مذہبی لباس پر پابندی عائد کر دی ہے۔ حجاب پر پابندی کے نتیجے میں ہونے والے ہنگاموں کے چلتے حکومت نے تعلیمی اداروں کی بندی کا اعلان کیا تھا، تعلیمی اداروں کو کھولنے کا حکم دیتے ہوئے عدالت نے کہا:

"ان تمام عرضیوں کی سنوائی کے اثنا میں ہم بلا تفریق مذہب تمام طلباء کے کلاس میں بھگوا شال اور اس سے متعلقہ اشیاء دوپٹہ، حجاب، مذہبی جھنڈے وغیرہ زیب تن کرنے پر پابندی عائد کرتے ہیں۔" بنچ کے ارکان چیف جسٹیس ریتو راج اوستھی، جسٹیس کرشنا دکشت اور جے ایم قاضی نے وضاحت کی کہ اس فیصلے کا اطلاق صرف انھی اداروں پر ہوگا جن میں یونیفارم نافذ ہے۔ بظاہر تو یہ حکم غیر جانبدارانہ لگتا ہے، مگر اس سے متاثر صرف وہ طالبات ہوں گی جو حجاب کو اپنے مذہب کا حصہ ہونے کی بنیاد پر اس پر عمل کرنا چاہتی ہیں۔

یہ عارضی فیصلہ شدید ترین مذمت کا مستحق ہے کیوں کہ مقدمہ کی سماعت کے دوران شہریوں کے بنیادی حقوق کو معطل کر دینا ایک انوکھا عمل ہے جس میں مدعی کی دلیلوں کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے اور "سہولت میں توازن" (balance of convenience) اور "ناقابل تلافی نقصان" (irreparable injury) کے مسلم قانونی اصولوں کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔

اس مضمون کا مقصد نہ تو حجاب کے اسلام کا بنیادی جزو ہونے کی دلیل دینا ہے، نہ ہی تعلیمی اداروں میں یونیفارم کی افادیت کی وکالت کرنا ہے۔ موضوع بحث صرف عدالت کا عارضی فیصلہ ہے، جس نے عملاً حکومت کے اسی فیصلے کو نافذ کیا ہے، جس کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا تھا اور جس کے نتیجے میں مسلمان خواتین کے لئے تعلیم کا حصول اپنے مذہب پر عمل نہ کرنے کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے تا آں کہ ان کے اٹھائے ہوئے "کلیدی اہمیت کے حامل سوالات" کا فیصلہ نہ ہو جائے۔ مسَلم قانونی اصولوں کے مطابق عارضی راحت کے لئے تین بنیادیں ہیں۔ اول یہ کہ بادی النظر میں کیس کی بنیاد ہو۔ دوم سہولت میں توازن۔ سوم ناقابل تلافی نقصان۔

بادی النظر میں اپنے موقف کی تائید میں مدعیوں نے کیرالا اور مدراس کے دو فیصلے پیش کئے، جن میں حجاب کو مذہب کا ضروری جزو تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سوپریم کورٹ کے بیجوئے ایمانویل فیصلہ کا بھی حوالۂ ضمیر پر عمل پیرا ہونے کے آئینی بنیادی حق ہونے کی تائید میں پیش کیا گیا۔ یہ معاملہ جیہوا وٹنیس (Jehovah Witness) طلبہ کا تھا جنھیں مذہبی وجوہات کی بنا پر قومی ترانہ نہ پڑھنے کی پاداش میں اسکول سے نکال دیا گیا تھا اور عدالت نے انھیں اپنے فیصلے میں راحت دی تھی۔ حجاب کو اسلام کا ضروری جزو ثابت کرنے کے لئے قرآن کی آیات اور احادیث کے حوالے پیش کئے گئے۔ دفعہ ۲۵ کے تحت مذہبی آزادی کے علاوہ یہ بھی دلیل پیش کی گئی کہ لباس شناخت کا حصہ ہونے کی بنا پر دفعہ ۱۹ (الف) کے تحت بنیادی حق کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ دلیل دی گئی کہ لباس کا اختیار دفعہ ۲۱ کے تحت پرائیویسی کے حق میں شامل ہے اور ریاست کو لباس تھوپنے کا حق حاصل نہیں ہے۔

قانونی اصطلاح میں بادی النظر کا مطلب اتمام حجت ہرگز نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب فقط یہ دکھانا ہوتا ہے کہ دعوٰی کی کوئی بنیاد موجود ہے۔ بے بنیاد نہ ہونے کے دعوی کے حق میں دو ہائی کورٹ کے فیصلوں اور دینی صحیفوں کے متعلقہ حوالوں کے بعد آخر اور کیا درکار ہے؟ مگر حیرت ہے کہ عارضی فیصلے میں معاملہ کے ان پہلووں کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ سہولت میں توازن کے قانونی اصول کے مطابق عدالت کو مدعی کو راحت دینے کی صورت میں مدعا علیہ کو ہونے والی دقت کا موازنہ اس تکلیف سے کرنا ہے جو راحت نہ دینے کی صورت میں مدعی پر لاحق ہوگی۔ ان کے ما بین توازن قائم کر کے یہ دیکھنا ہے کہ کدھر کا پلڑا بھاری ہے۔

یہاں مدعیان کا دعوٰی ہے کہ وہ کورس کی ابتدا سے ہی حجاب پہن کر کلاس جاتی رہی ہیں اور دسمبر ۲۰۲۱ میں اس میں خلل اندازی ہوئی۔ یہ بھی دعوٰی کیا گیا ہے کہ کچھ کالجوں میں یونیفارم کے رنگ کے حجاب سے متعلق ضوابط بھی موجود ہیں۔ اب جب کہ تعلیمی سال کی تکمیل میں صرف دو مہینے باقی ہیں، انھیں کلاس میں حجاب کے ساتھ داخل ہونے سے روکا جا رہا ہے۔ لمبے عرصے سے چلے آرہے طریقے پر انھیں تعلیمی سال مکمل کرنے اور امتحانات دینے کی اجازت دینے میں کیا دقت ہے؟ حکومت کا دعوٰی ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں مذہبی شناخت ہٹاکر یکسانیت لاکر بھائی چارہ کو فروغ دینا چاہتی ہے۔ (یہ الگ بحث ہے کہ آیا اس عمل سے بھائی چارہ کو فروغ مل رہا ہے یا طلبہ کے ما بین دوریاں بڑھ رہی ہیں؟) کیا یہ تبدیلیاں دو مہینے تک ملتوی نہیں کی جا سکتیں؟ کیا ایسے حساس موضوع سے متعلق اتنی بڑی تبدیلی بنا مذاکرات کے اچانک طلبہ پر تھوپی جا سکتی ہے؟ عدالت نے ان سوالات کو لائق التفات ہی نہیں سمجھا۔ عارضی فیصلے میں سہولت میں توازن کا اصول کہیں پر بھی کار فرما نہیں ہے۔

عدالت نے مسلمان خواتین کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ مذہب اور تعلیم کے بیچ ایک کا انتخاب کریں۔ ایک حق کے استعمال کے نتیجے میں دوسرے سے دست بردار ہونا ہوگا۔ چیف جسٹیس نے سنوائی کے دوران فرمایا کہ "بس کچھ دنوں کی بات ہے۔" جب کوئی شخص اپنے کسی مذہبی عمل کا عادی ہے تو کیا اس سے یہ کہنا کہ اپنے مذہبی عمل کو "کچھ دنوں" کے لئے چھوڑ دو اگر تعلیم حاصل کرنی ہے، کوئی معقول بات ہے؟ کیا کسی شہری کے سرکاری ادارہ میں تعلیم حاصل کرنے کو اس کے مذہبی اور ثقافتی حقوق سے دست برداری کے ساتھ مشروط کرنا درست ہے؟ ایک آئینی عدالت کا ذمہ ہوتا ہے کہ وہ حقوق کے ما بین ہم آہنگی پیدا کرے۔ مگر یہاں عدالت نے حق مذہب اور حق تعلیم کے بیچ تضاد کی صورت پیدا کر دی ہے۔ ناقابل تلافی نقصان کے امکانات پر غور کرنے سے بھی عارضی فیصلہ عاری ہے۔

عدالت کی صوابدید پر مبنی عارضی فیصلوں کا اصل مقصد بھی عدل وانصاف ہی ہوتا ہے۔ مگر اس فیصلہ نے مسلمانوں کے خلاف اور خاص طور سے مسلمان خواتین کے خلاف تفریق کو مزید تقویت دی ہے۔ تعلیم کے معطل ہونے پر عدالت کی فکرمندی یقیناً بجا ہے مگر اس کو مسلمان لڑکیوں کے حجاب سے دست بردار ہونے کے ساتھ مشروط کرنے کی کوئی وجہ نہیں پیش کی گئی ہے۔

عدالت کا کہنا ہے کہ "طلبہ کے حق میں یہی بہتر ہے کہ احتجاج اور اس کے نتیجے میں اداروں کے بند ہونے کے بجاے وہ کلاس میں لوٹ جائیں"۔ مگر حجاب پہننے کی اجازت کے ساتھ اور انتظامیہ کو سختی سے اداروں میں امن قائم کی ہدایات کے ذریعے تعلیمی نظام معمول پر کیوں نہیں آسکتا اس کی کوئی وجہ عدالت نے پیش نہیں کی ہے۔ وقتی امن کی خاطر حالت اصلی کو بدل کر مدعی کے موقف کو رد کرنا صرف جبر ہے، انصاف نہیں۔

حجاب کے معاملے کو ملک میں ہندوتوا سیاست کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی مسلم مخالف فضا کے پس منظر میں دیکھنا لازمی ہے۔ کرناٹک حکومت کے حکم کو شہریت ترمیم بل، لو جہاد کے نام پر قوانین، گئوکشی سے متعلق قوانین کی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے جن کا قوی ترین اثر مسلمانوں پر ہی پڑا ہے۔

عارضی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ "ایک مہذب سماج میں کسی بھی شخص کو مذہب، ثقافت وغیرہ کے نام پر ایسے اعمال کی اجازت نہیں دی جا سکتی جس سے امن وامان برہم ہو۔" مگر اس کی تحقیق کرنے کی زحمت نہیں کی گئی ہے کہ امن وامان برہم کرنے کے پیچھے کون ہے؟ ایک تنہا لڑکی کو کالج میں جاتے وقت بھگوا شال اوڑھے لڑکوں کے ذریعے ہراساں کرنے کی وائرل ویڈیو موجود ہے۔ کالج کیمپس میں بھگوا جھنڈا پھہرانے کی ویڈیو بھی موجود ہیں۔ کئی ویڈیو میں مستعمل بھگوا شال اور پگڑی کا پھینکا جانا بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ کچھ تحقیقاتی رپورٹ حجاب کے خلاف تحریک کو منصوبہ بند عمل بھی قرار دے رہی ہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل کا دعویٰ ہے کہ حالات حکومت کے قابو میں ہیں، اس کے باوجود عدالت نے صوبائی حکومت سے یہ سوال کرنا ضروری کیوں نہیں سمجھا کہ ان ہنگاموں کے پیچھے کون لوگ ہیں؟ اگر ایک گروہ حکومت کی پشت پناہی کے ساتھ ماحول خراب کرتا ہے تو کیا اس کی وجہ سے دوسری جماعت کا اپنے جائز مقاصد کے لئے احتجاج کرنے کا حق سلب کر لیا جائے گا؟ کیا حکومت خود ہاتھ پر ہاتھ دھر کر حالات خراب ہونے کے بعد یہ دعوی کر سکتی ہے کہ مدعی ہی اس ہنگامے کا ذمہ دار ہے؟

کچھ خبروں کے مطابق ایک کالج نے مسلمان طالبات کو الگ بٹھایا جو امریکہ کے خوفناک نسلی امتیاز کے قوانین کی یاد دلاتا ہے۔ اس پرسنگل بینچ کی توجہ دلائی گئی تھی جس پر جج نے سوال کیا تھا کہ کیا یہ "علاحدہ مگر مساوی" کے نظریہ پر مبنی تھا، جسے امریکی عدالتیں رد کر چکی ہیں، اس پر ایڈووکیٹ جنرل بھڑک گئے اور ان خبروں کو بے بنیاد قرار دیا۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ کورٹ اس خبر کے متعلق تحقیق کرواتی مگر عدالت نے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا۔

اس معاملہ میں ایک عجیب وغریب حرکت بھگوا شال پہننے کا بھی ہے جو حجاب پہننے کی مخالفت میں بظاہر پلاننگ کے ساتھ شروع ہوا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پہلے سے چل رہے حجاب پہننے کے عمل کو اور احتجاجاً شروع ہونے والے شال پہننے کے عمل کوعدالت نے یکساں قرار دیا ہے۔ عدالت اسے برابری پر محمول کرے گی جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے اثرات فریقین پر برابر نہیں ہوں گے۔

ایسی صورت حال کے لئے فرانسیسی مصنف اناتول فرانسے کا قول نہایت موزوں ہے۔ "مساوات کے شاندار تصور کا تقاضا ہے کہ یکسانیت کے ساتھ سبھی کے لئے سڑکوں پر سونے کو، بھیک مانگنے کو اور روٹی چرانے کو خلاف قانون قرار دیا جائے، خواہ کرنے والا امیر ہو یا غریب۔" طالبات نے عدالت سے امیدیں وابستہ کیں ان پرعدالت نے پانی ڈالا ہے اور حقیقتاً حکومت اور کالجوں کے کارندہ کا کام کیا ہے، باوجودیکہ کہ سرکاری احکام کے خلاف مضبوط آئینی دلائل پیش کئے گئے، ضروری سوالات سے گریز کرکے اور اہم نکات کو نظر انداز کر کے افراد کے بنیادی حقوق کو معطل کر دیا گیا ہے۔ اگر اس فیصلے کو جلد ہی درست نہ کیا گیا، تو یہ ہماری عدلیہ کی تاریخ پر ایک قابل شرم داغ ہوگا

منگل, مارچ 01, 2022

جہانِ آرزومفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

جہانِ آرزو
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
محترم جناب محمد نجم الثاقب آرزوؔ (ولادت ۱۶؍نومبر ۱۹۵۸) بن الحاج محمد زکریا مرحوم دربھنگہ کی مشہور ومعروف بستی رسول پور نستہ کے رہنے والے ہیں، تعلیم کے اعتبار سے زولوجی میں ایم اس سی ہیں، لیکن شاعری اردو میں کرتے ہیں، حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کے قائم کردہ قاضی احمد ڈگری کالج جالے میں زولوجی کے پروفیسر ہیں، کاروبار اینٹ بھٹہ کا کر رکھا ہے، دیندارانہ مزاج اور شریفانہ اخلاق واطوار کی وجہ سے علاقہ میں معروف ومشہور ہیں، حق بولنا اور حق کے لئے لڑنا بھی جانتے ہیں، صلبی اولاد تو کوئی ہے نہیں، اللہ کی مرضی، اپنی شاعری کو ہی اپنی اولاد سمجھتے ہیں، کیونکہ ادب کی زبان میں یہ بھی ایک تخلیقی عمل ہے، حالاںکہ اصل خالق تو اللہ ہی ہے، مجازاً بہت سارے لفظوں کا اطلاق غلط صحیح دوسری چیزوں پر بھی کیا جانے لگا ہے، جناب آرزو کا ’’جہان آرزو‘‘ عرف کے اعتبار سے ایک شعری تخلیق ہے۔
ایک سو برانوے (۱۹۲) صفحات پر مشتمل ’’جہان آرزو‘‘ کا انتساب جناب آرزوؔ نے اپنے گاؤں رسول پور نستہ کے نام کیاہے، جس کی گود میں آرزو پلے بڑھے، یہ انتساب ان کی جائے پیدائش سے والہانہ محبت اور غیرمعمولی تعلق کا اظہار ہے، کتاب کا آغاز اپنی بات سے ہوتا ہے، جس میں شاعر نے اپنی زندگی کے اتار چڑھاؤ اور خاندانی احوال وکوائف بیان کئے ہیں، اسی سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آرزوؔ کی شاعری کو آگے بڑھانے، پروان چڑھانے میں جناب نقی احمد رحمانی، ارم انصاری اور مشہور وباکمال شاعر اور محیر العقول شخصیت جناب ڈاکٹر عبد المنان طرزیؔ کا بڑا ہاتھ رہا ہے، عبد المنان طرزیؔ کے آرزوؔ تلمیذ رشید کہے جا سکتے ہیں، کیونکہ طرزی نے ’’جہان آرزو‘‘ میں شامل چند نعت، غزل اور نظموں کے نوک وپلک استاذانہ مہارت کے ساتھ سنوارے ہیں اور اس طرح یہ کتاب اشاعت کے مرحلہ تک پہونچی ہے۔
پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی مرحوم بھی سیال قلم کے مالک تھے انہوں نے حوصلہ افزائی کرکے بہتوں کو شاعر اور نقاد بنا دیا، نجم الثاقب آرزو کے بھی وہ ہاتھ لگ گئے اور انہوں نے پوری تنقیدی مہارت کے ساتھ آرزوؔ کی شاعری کا جائزہ لیا، یہ تنقیدی جائزہ ’’نجم الثاقب آرزوؔ کی غزلوں میں اظہار کی صورتیں‘‘ کے عنوان سے شامل کتاب ہے، اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ 
’’نجم الثاقب آرزو کے یہاں غزل کے مقتضیات کا شعور اور اس کی روایت کو برتنے کا خیال کا ر فرمانظر آتا ہے، کہا جاسکتا ہے کہ وہ محسوسات کے شاعر ہیں، انہوں نے آس پاس کے ماحول اور گرد وپیش کے سماجی ومعاشرتی حالات کا گہری نظر سے مشاہدہ کیا ہے اور حالات کی نباضی کی ہے (ص:۱۷) 
آگے لکھتے ہیں ’’نجم الثاقب کلاسیکی انداز بیان کے ساتھ نئے تلازمات اور نئے پیمانے کو اپنائے ہیں، ذات اور کائنات کو مخصوص میزان ومعیار پر پرکھتے ہیں ۔اوردو قبول کی منزل سے گذرتے ہیں( ص:۱۷) 
اور بالآخر انہوں اپنا فیصلہ سنا دیا ہے کہ ’’نجم الثاقب آرزوؔ کی غزلوں میں جذبۂ طہارت کے مسائل اور اظہار کی صورتوں میں مطابقت پائی جاتی ہے ، بیش تر اشعار میں معانی کی گونج اس طرح سنی جاتی ہے جیسے سیپ میں سمندر کی آواز سنائی دیتی ہے، صوتی تاثر اور نفسیاتی توانائی کی ہم کاری بھی ان کے یہاں ملتی ہے‘‘ (ص:۲۰) 
عبد المنان طرزیؔ جنہوں نے آرزوؔ کی شرط کے مطابق ناگزیر ہونے ہی پر ہی اشعار میں ہلکی تبدیلی کی ہے جس سے آرزوؔ کے جذبات واحساسات اور خیالات میں واضح تبدیلی نہیں آئی ہے، طرزی صاحب نے آرزوؔ کے کلام کے محاسن ومعائب پر جو گفتگو کی ہے، اس کے مطابق ان کی غزلوںمیں عشقیہ جذبات اور خالص تغزل کا گذر نہیں ہے، سیدھے سادے الفاظ میں پیکر تراشی کی گئی ہے، نثرسیل وتفہیم میں تعقید نہیں پایا جاتا، فلسفیانہ اور مفکرات خیالات، رمز واشارہ، کنایہ، تلمیح و استعارہ سے گریز کیا گیا ہے، البتہ تخیلات میں اخلاق کریمانہ اور اقدار حسنہ کی پاسداری پائی جاتی ہے، اس وضاحت کے بعد طرزیؔ صاحب نے اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’یہ بجا ہے کہ اسلوب بہت حد تک عالمانہ اور شاعرانہ نہیں ہے، آرزو صاحب اردو وادب کے طالب علم نہیں رہے، اس لئے ان سے عالمانہ اسلوب کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی، ان کا جو طرز بیان ہے وہ ان کی اردو دانی کے دائرے میں ہے‘‘ (ص:۲۳) 
خود آرزوؔ نے اسی مجموعہ کے ایک نظم میں واضح کردیا ہے کہ  ؎
اپنے فن کے بارے میں ہے ایک وضاحت لازمی
میں نے سیدھے سادے لفظوں میں کی ہے شاعری
واسطہ ہے دینی اور اخلاقی قدروں سے مرا
اور سلوک اہل حکومت کا بھی موضوع بن گیا
گیسو ورخسار میرے فن کی دولت ہے نہیں
اور ہجر ووصل کی تلخی، مسرت ہے نہیں 
در اصل آرزوؔ سچی شاعری کو پسند کرتے ہیں اور سچی شاعری میں منافقت نہیں ہوتی کہ دل میں کچھ ہے اور زبان پر کچھ ،چوں کہ آرزوؔ کے خیالات اسلامی اقدار وافکار سے ماخوذ ہیں، اس لئے ان کا اسلوب سادہ ہو گیا ہے، وہ چاہتے ہیں کہ ان کا شمار ان شعراء میں نہ ہو جنہیں ٹامک ٹوئیاں مارنے والا قرار دیا گیا ہے اور جن کی کہنی اور کرنی میں فرق ہوتا ہے، آرزوؔ اپنی شاعری میں سچ کی آواز بلند کرتے ہیں اور حکومت کے طریقہ کار پر سچے انداز میں تنقید کرتے ہیں، اسے نقادوں کی اصطلاح میں عصری حست سے تعبیر کیا جاتا ہے، گو عصری حست کا دائرہ صرف حکمرانوں پر تنقید سے عبارت نہیں ہے، اس کے دائرہ میں، آنکھیں جو کچھ دیکھتی ہیں، دماغ جو محسوس کرتا ہے، سب سما جاتا ہے، یہ صحیح ہے کہ آرزو کے یہاں شوکت الفاظ، ندرت خیال اور ادبی صنعتوں کا گزر نہیں ہے، تخیلات اعلیٰ وارفع ہیں، لیکن شوکت الفاظ کی کمی نے اسے عام سا بنا دیا ہے، اس اعتبار سے فکری ترفع کے باوجود ان کی شاعری فنی اعتبار سے کمزور معلوم ہوتی ہے، ادب نہ تو بنیے کا روز نامچہ ہے اور نہ ہی مولانا صاحب کی واعظانہ نصیحت، ادب کو ان دونوں سے اوپر ہونا چاہئے، نہ تو بنیے کے روزنامچہ کی طرح خشک اور کھردے اعداد وشمار ہوں اور نہ ہیئت واسلوب کے اعتبار سے وعظ،ادب میں کیا کہا جارہا ہے کی اصل اہمیت ہے، لیکن ہم ہیئت، فورم اور ادبی سلیقگی کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتے۔
’’جہانِ آرزو‘‘ ایک حمدایک نعت، ایک وضاحت ، باسٹھ غزلوں اور پندرہ نظموں پر مشتمل ہے، طباعت، روشان پرنٹرس دہلی اور اشاعت ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس کی ہے، دو سو روپے دے کر ارشاد بک ڈپو دربھنگہ بُک گیلری قلعہ گھاٹ دربھنگہ سے منگا سکتے ہیں، لائبریری کے لئے لینا ہو تو پچاس روپے مزید نکالنے پڑیں گے، نمونۂ کلام
اپنے دشمن ہی پہ ہم جان فدا کرتے ہیں
ہائے نادان بھی ہم کیسے ہیں کیا کرتے ہیں
ہم تو اس کو بھی سمجھتے ہیں ترا کوئی فریب
تجھ سے تعریف اگر اپنی سنا کرتے ہیں
تم کو آتا نہیں کچھ کرنا بُرائی کے سوا
ہم کو آتا ہے بھلا کرنا، بھلا کرتے ہیں
آپ میں، ہم میں جو ہے فرق فقط اتنا ہے
ہم وفا کرتے ہیں اور آپ جفا کرتے ہیں

ریلوے نے مسافروں کو دی بڑی راحت ، اب لوگ جنرل ٹکٹ کے ساتھ ٹرینوں میں کر سکیں گے سفر

ریلوے نے مسافروں کو دی بڑی راحت ، اب لوگ جنرل ٹکٹ کے ساتھ ٹرینوں میں کر سکیں گے سفرملک میں کورونا کے حوالے سے صورتحال بہتر ہونے کے بعد انڈین ریلوے نے ٹرینوں میں دوبارہ غیر ریزروڈ کوچز شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ غور طلب ہے کہ اب تک کووڈ کی وجہ سے جنرل کوچوں کے لیے بھی ریزرویشن کرانا پڑتا تھا۔ جو ٹرینیں ایک زون سے دوسرے زون میں جاتی تھیں، وہ تمام ٹرینیں ‘صرف ریزرویشن ٹرینوں’ کی لائنوں پر چل رہی تھیں۔ تاہم، کووڈ کے نئے کیسز کی تعداد میں کمی کے بعد اب مسافر عام ٹکٹ لے کر عام ڈبے میں سفر کر سکیں گے، لیکن یہ سہولت اگلے 4 ماہ تک بک کرائی گئی سیٹوں کے لیے دستیاب نہیں ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن ٹرینوں میں ٹکٹ پہلے سے بک کر لیے گئے ہیں، وہاں پیشگی ریزرویشن کی مدت ختم ہونے کے بعد معمولات بحال ہو جائیں گے۔ تاہم ہولی کے لیے چلنے والی ٹرینوں میں لوگ عام مسافروں کے ڈبے میں عام ٹکٹ لے کر سفر کر سکیں گے۔

یوکرین کے لئے بھیجی جائے گی راحت سامگری کی پہلی کھیپ : مودی

یوکرین کے لئے بھیجی جائے گی راحت سامگری کی پہلی کھیپ : مودینئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے پیر کو کہا کہ یوکرین کی سرحدوں پر پیدا ہونے والی انسانی صورتحال سے نمٹنے کے لیے منگل کو امدادی سامان کی پہلی کھیپ یوکرین بھیجی جائے گی۔ مودی نے پیر کو جنگ زدہ یوکرین میں پھنسے ہوئے ہندوستانیوں کو واپس لانے کے لیے آپریشن گنگا کے تحت جاری کوششوں کا جائزہ لینے کے لیے ایک میٹنگ کی صدارت کی۔ یوکرین کے معاملے پر وزیر اعظم کی یہ دوسری اعلی سطحی ملاقات تھی۔ اس دوران انہوں نے یوکرین بھیجے جانے والے امدادی سامان کے بارے میں معلومات دی۔ انہوں نے کہا کہ پوری سرکاری مشینری اس بات کو یقینی بنانے کے لیے چوبیس گھنٹے کام کر رہی ہے کہ وہاں رہنے والے تمام ہندوستانی شہری محفوظ رہیں۔ انہوں نے کہا کہ چار سینئر وزرا کے خصوصی ایلچی کے طور پر مختلف ممالک کے دورے سے ہندوستانی شہریوں کے انخلا میں تیزی آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس سے حکومت کی اس معاملے میں ترجیح ظاہر ہوتی ہے۔ دنیا کے لیے ایک خاندان ہونے کے ہندوستان کے نعرے سے متاثر ہو کر وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان پڑوسی ممالک اور ترقی پذیر ممالک کے ان لوگوں کی مدد کرے گا جو یوکرین میں پھنسے ہوئے ہیں اور وہ ہم سے مدد کے لیے کہہ سکتے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل آپریشن گنگا پر اپنی پہلی اعلی سطحی میٹنگ کی صدارت کرتے ہوئے مودی نے روس اور یوکرین کے درمیان بڑھتی ہوئی دشمنی کے درمیان انخلا کے مشن کو مربوط کرنے اور پھنسے ہوئے طلبا کی مدد کے لیے یوکرین کے پڑوسی ممالک میں چار سرکاری ایجنسیوں سے بات کی۔ وزرا ان وزرا میں ہاؤسنگ اور شہری ترقی کے وزیر ہردیپ پوری، شہری ہوا بازی کے وزیر جیوترادتیہ سندھیا، وزیر قانون اور انصاف کرن رجیجو اور سابق آرمی چیف اور سڑک، ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز کے وزیر مملکت جنرل وی کے شامل ہیں۔ اس میٹنگ میں یوکرین سے ہندوستان کے انخلا کے مشن پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔مودی نے اتوار کو کہا تھا کہ یوکرین میں پھنسے ہندوستانی طلبا کی حفاظت اور انخلا کو یقینی بنانا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ انہوں نے اتوار کی شام دیر گئے ایک اعلی سطحی اجلاس کی صدارت بھی کی جو دو گھنٹے سے زائد جاری رہی تھی

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...