جمعرات, مارچ 03, 2022
مہاراشٹر حکومت نے IPL میں 25 فیصد شائقین کی اجازت ، 26 مارچ سے ممبئی اور پونے IPL طئے دی
یہ اس وقت ہوا جب مہاراشٹر حکومت نے بدھ کو بی سی سی آئی اور ممبئی کرکٹ ایسوسی ایشن (ایم سی اے) کے ساتھ آئی پی ایل کے ہموار انعقاد کے لیے میٹنگ کی، جو کہ اب 10 ٹیموں کا معاملہ ہے۔ ریاستی حکومت کے وزراء - آدتیہ ٹھاکرے اور ایکناتھ شندے - کے ساتھ ایم سی اے کے سربراہ وجے پاٹل اور اعلیٰ کونسل کے ارکان اجنکیا نائک اور ابھے ہڈپ، خزانچی جگدیش اچریکر، میٹنگ میں موجود تھے۔
میٹنگ کے بعد ٹویٹس کی ایک سیریز میں آدتیہ ٹھاکرے نے کہا کہ @IPL کے ہموار بہاؤ کو یقینی بنانے کے لیے وزیر @ mieknathshinde جی اور میں نے IPL، @BCCI کی پولیس اور ممبئی کی میونسپل کارپوریشن کے افسران کے ساتھ ایک مشترکہ میٹنگ تھانے، نوی ممبئی میں کی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ جلد ہی آئی پی ایل کے دوسرے مقام پونے کے لیے بھی اسی طرح کی میٹنگ کریں گے۔ کہ ٹورنامنٹ ہمارے تمام شہر کے مقامات پر کامیابی کے ساتھ منعقد کیا گیا ہے۔ جو مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے کے بیٹے ہیں۔
''مہاراشٹر میں آنے والا آئی پی ایل اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ کھیل بیرون ملک نہیں کھیلے جائیں۔ معیشت، حوصلے اور کرکٹ کے شائقین کے جذبے کے لحاظ سے یہ ملک کے ساتھ ساتھ مہاراشٹر کے لیے ایک بہت بڑا فروغ ہے۔ قبل ازیں یہ معلوم ہوا تھا کہ آئی پی ایل کی ٹیمیں 14 یا 15 مارچ سے شہر میں ٹریننگ شروع کریں گی۔ ان کے لیے پریکٹس کے مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے۔
یہ سمجھا جاتا ہے کہ مضافاتی باندرہ کرلا کمپلیکس میں ایم سی اے گراؤنڈ، تھانے میں ایم سی اے گراؤنڈ، ڈاکٹر ڈی وائی پاٹل یونیورسٹی گراؤنڈ اور سی سی آئی (کرکٹ کلب آف انڈیا) اور ریلائنس کارپوریٹ کے ساتھ فٹ بال پچ۔ گھنسولی میں پارک گراؤنڈ کو حکام نے نقد رقم سے بھرپور ٹورنامنٹ کے لیے پریکٹس کے مقامات کے طور پر شناخت کیا ہے۔
کھلاڑیوں کا 8 مارچ سے شہر میں آنا شروع ہونے کا امکان ہے۔ یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ تمام شرکاء کو ممبئی پہنچنے سے 48 گھنٹے قبل RT-PCR ٹیسٹ کروانا ہوں گے۔ کھلاڑیوں کو اپنے متعلقہ بلبلوں میں داخل ہونے سے پہلے 3-5 دن کے قرنطینہ سے بھی گزرنا پڑے گا۔

بدھ, مارچ 02, 2022
قرآن پاک کا سنہالی ترجمہ:لنکائی ہائی کمیشنر کاجمعیۃ علماء کوتحفہ
قرآن پاک کا سنہالی ترجمہ:لنکائی ہائی کمیشنر کاجمعیۃ علماء کوتحفہنئی دہلی : سری لنکا کے ہائی کمیشنر اور دیگر اعلی عہدیداروں نے پیر کو جمعیۃ کے صدردفتر پہنچ کر اس کے ذمہ داروں کو قرآن پاک کا سنہالی ترجمہ پیش کیا۔
یہ ترجمہ سری لنکا کی آل سیلون جمعیت العلما کے صدر مفتی محمد رضوی کے ذریعہ شائع کیا گیا ہے۔
بذات خود سری لنکا کے ہائی کمشنر ملندا موراگوڈا دفتر جمعیۃ علماء ہند پہنچے اور جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی ، سکریٹری مولانا نیاز احمد فاروقی کو قرآن مجید کا نسخہ پیش کیا۔
ایک شفاف ڈسپلے باکس کے اندر نصب قرآن پاک کا یہ نسخہ اگلے جمعہ کو جمعیۃ کے دفتر میں واقع 500 سالہ پرانی مسجد ’’ مسجد عبدالنبی‘‘میں رکھا جائے گا اور اس کے بعد اسے مستقل نمائش کے طور پرجمعیۃ کے میوزیم میں نصب کیا جائے گا۔
ملاقاتی تقریب کے دوران سری لنکا کے ہائی کمشنر ملندا موراگوڈا اور جمعیۃ کے عہدیداروں نے سری لنکا اور ہندوستان کے درمیان اسلامی ثقافتی تعلقات کو فروغ دینے پر تبادلہ خیال کیا۔ اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند کے کئی سینئر عہدیداران اور ہائی کمیشن کے افسران بھی موجود تھے۔قرآن پاک کا سنہالی ترجمہ پیش کرنے کے بعد ہائی کمشنر اور ان کے رفقا نے جمعیۃ کے ذمہ دا روں کی معیت میں جمعیۃ میوزیم اور لائبریری کا دورہ کیا جہاں اسلام، تاریخ ہند اور دیگر موضوعات پر تقریباً 18000 کتابیں رکھی گئی ہیں۔

نواب ملک کی گرفتاری ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

کرناٹک ہائی کورٹ کا حیرت انگیز اقدام : بنیادی حقوق پر عارضی روک - منو سیبسٹین ( مدیر مسئول ، لائیو لا ) ترجمہ : عمیر اعظمی
کرناٹک ہائی کورٹ کا حیرت انگیز اقدام : بنیادی حقوق پر عارضی روک - منو سیبسٹین ( مدیر مسئول ، لائیو لا ) ترجمہ : عمیر اعظمی
کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب کے معاملہ میں ناقابل تصور عمل کیا ہے۔ کرناٹک کے سرکاری کالیجوں میں لگائی گئی حجاب پر باندی کے خلاف مسلمان طالبات کی طرف سے دائر کردہ مقدمہ کی سنوائی میں مکمل بینچ نے عارضی فیصلہ کے ذریعہ مقدمہ مکمل ہونے تک بلا تفریق مذہب مذہبی لباس پر پابندی عائد کر دی ہے۔ حجاب پر پابندی کے نتیجے میں ہونے والے ہنگاموں کے چلتے حکومت نے تعلیمی اداروں کی بندی کا اعلان کیا تھا، تعلیمی اداروں کو کھولنے کا حکم دیتے ہوئے عدالت نے کہا:"ان تمام عرضیوں کی سنوائی کے اثنا میں ہم بلا تفریق مذہب تمام طلباء کے کلاس میں بھگوا شال اور اس سے متعلقہ اشیاء دوپٹہ، حجاب، مذہبی جھنڈے وغیرہ زیب تن کرنے پر پابندی عائد کرتے ہیں۔" بنچ کے ارکان چیف جسٹیس ریتو راج اوستھی، جسٹیس کرشنا دکشت اور جے ایم قاضی نے وضاحت کی کہ اس فیصلے کا اطلاق صرف انھی اداروں پر ہوگا جن میں یونیفارم نافذ ہے۔ بظاہر تو یہ حکم غیر جانبدارانہ لگتا ہے، مگر اس سے متاثر صرف وہ طالبات ہوں گی جو حجاب کو اپنے مذہب کا حصہ ہونے کی بنیاد پر اس پر عمل کرنا چاہتی ہیں۔
یہ عارضی فیصلہ شدید ترین مذمت کا مستحق ہے کیوں کہ مقدمہ کی سماعت کے دوران شہریوں کے بنیادی حقوق کو معطل کر دینا ایک انوکھا عمل ہے جس میں مدعی کی دلیلوں کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے اور "سہولت میں توازن" (balance of convenience) اور "ناقابل تلافی نقصان" (irreparable injury) کے مسلم قانونی اصولوں کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔
اس مضمون کا مقصد نہ تو حجاب کے اسلام کا بنیادی جزو ہونے کی دلیل دینا ہے، نہ ہی تعلیمی اداروں میں یونیفارم کی افادیت کی وکالت کرنا ہے۔ موضوع بحث صرف عدالت کا عارضی فیصلہ ہے، جس نے عملاً حکومت کے اسی فیصلے کو نافذ کیا ہے، جس کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا تھا اور جس کے نتیجے میں مسلمان خواتین کے لئے تعلیم کا حصول اپنے مذہب پر عمل نہ کرنے کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے تا آں کہ ان کے اٹھائے ہوئے "کلیدی اہمیت کے حامل سوالات" کا فیصلہ نہ ہو جائے۔ مسَلم قانونی اصولوں کے مطابق عارضی راحت کے لئے تین بنیادیں ہیں۔ اول یہ کہ بادی النظر میں کیس کی بنیاد ہو۔ دوم سہولت میں توازن۔ سوم ناقابل تلافی نقصان۔
بادی النظر میں اپنے موقف کی تائید میں مدعیوں نے کیرالا اور مدراس کے دو فیصلے پیش کئے، جن میں حجاب کو مذہب کا ضروری جزو تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سوپریم کورٹ کے بیجوئے ایمانویل فیصلہ کا بھی حوالۂ ضمیر پر عمل پیرا ہونے کے آئینی بنیادی حق ہونے کی تائید میں پیش کیا گیا۔ یہ معاملہ جیہوا وٹنیس (Jehovah Witness) طلبہ کا تھا جنھیں مذہبی وجوہات کی بنا پر قومی ترانہ نہ پڑھنے کی پاداش میں اسکول سے نکال دیا گیا تھا اور عدالت نے انھیں اپنے فیصلے میں راحت دی تھی۔ حجاب کو اسلام کا ضروری جزو ثابت کرنے کے لئے قرآن کی آیات اور احادیث کے حوالے پیش کئے گئے۔ دفعہ ۲۵ کے تحت مذہبی آزادی کے علاوہ یہ بھی دلیل پیش کی گئی کہ لباس شناخت کا حصہ ہونے کی بنا پر دفعہ ۱۹ (الف) کے تحت بنیادی حق کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ دلیل دی گئی کہ لباس کا اختیار دفعہ ۲۱ کے تحت پرائیویسی کے حق میں شامل ہے اور ریاست کو لباس تھوپنے کا حق حاصل نہیں ہے۔
قانونی اصطلاح میں بادی النظر کا مطلب اتمام حجت ہرگز نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب فقط یہ دکھانا ہوتا ہے کہ دعوٰی کی کوئی بنیاد موجود ہے۔ بے بنیاد نہ ہونے کے دعوی کے حق میں دو ہائی کورٹ کے فیصلوں اور دینی صحیفوں کے متعلقہ حوالوں کے بعد آخر اور کیا درکار ہے؟ مگر حیرت ہے کہ عارضی فیصلے میں معاملہ کے ان پہلووں کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ سہولت میں توازن کے قانونی اصول کے مطابق عدالت کو مدعی کو راحت دینے کی صورت میں مدعا علیہ کو ہونے والی دقت کا موازنہ اس تکلیف سے کرنا ہے جو راحت نہ دینے کی صورت میں مدعی پر لاحق ہوگی۔ ان کے ما بین توازن قائم کر کے یہ دیکھنا ہے کہ کدھر کا پلڑا بھاری ہے۔
یہاں مدعیان کا دعوٰی ہے کہ وہ کورس کی ابتدا سے ہی حجاب پہن کر کلاس جاتی رہی ہیں اور دسمبر ۲۰۲۱ میں اس میں خلل اندازی ہوئی۔ یہ بھی دعوٰی کیا گیا ہے کہ کچھ کالجوں میں یونیفارم کے رنگ کے حجاب سے متعلق ضوابط بھی موجود ہیں۔ اب جب کہ تعلیمی سال کی تکمیل میں صرف دو مہینے باقی ہیں، انھیں کلاس میں حجاب کے ساتھ داخل ہونے سے روکا جا رہا ہے۔ لمبے عرصے سے چلے آرہے طریقے پر انھیں تعلیمی سال مکمل کرنے اور امتحانات دینے کی اجازت دینے میں کیا دقت ہے؟ حکومت کا دعوٰی ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں مذہبی شناخت ہٹاکر یکسانیت لاکر بھائی چارہ کو فروغ دینا چاہتی ہے۔ (یہ الگ بحث ہے کہ آیا اس عمل سے بھائی چارہ کو فروغ مل رہا ہے یا طلبہ کے ما بین دوریاں بڑھ رہی ہیں؟) کیا یہ تبدیلیاں دو مہینے تک ملتوی نہیں کی جا سکتیں؟ کیا ایسے حساس موضوع سے متعلق اتنی بڑی تبدیلی بنا مذاکرات کے اچانک طلبہ پر تھوپی جا سکتی ہے؟ عدالت نے ان سوالات کو لائق التفات ہی نہیں سمجھا۔ عارضی فیصلے میں سہولت میں توازن کا اصول کہیں پر بھی کار فرما نہیں ہے۔
عدالت نے مسلمان خواتین کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ مذہب اور تعلیم کے بیچ ایک کا انتخاب کریں۔ ایک حق کے استعمال کے نتیجے میں دوسرے سے دست بردار ہونا ہوگا۔ چیف جسٹیس نے سنوائی کے دوران فرمایا کہ "بس کچھ دنوں کی بات ہے۔" جب کوئی شخص اپنے کسی مذہبی عمل کا عادی ہے تو کیا اس سے یہ کہنا کہ اپنے مذہبی عمل کو "کچھ دنوں" کے لئے چھوڑ دو اگر تعلیم حاصل کرنی ہے، کوئی معقول بات ہے؟ کیا کسی شہری کے سرکاری ادارہ میں تعلیم حاصل کرنے کو اس کے مذہبی اور ثقافتی حقوق سے دست برداری کے ساتھ مشروط کرنا درست ہے؟ ایک آئینی عدالت کا ذمہ ہوتا ہے کہ وہ حقوق کے ما بین ہم آہنگی پیدا کرے۔ مگر یہاں عدالت نے حق مذہب اور حق تعلیم کے بیچ تضاد کی صورت پیدا کر دی ہے۔ ناقابل تلافی نقصان کے امکانات پر غور کرنے سے بھی عارضی فیصلہ عاری ہے۔
عدالت کی صوابدید پر مبنی عارضی فیصلوں کا اصل مقصد بھی عدل وانصاف ہی ہوتا ہے۔ مگر اس فیصلہ نے مسلمانوں کے خلاف اور خاص طور سے مسلمان خواتین کے خلاف تفریق کو مزید تقویت دی ہے۔ تعلیم کے معطل ہونے پر عدالت کی فکرمندی یقیناً بجا ہے مگر اس کو مسلمان لڑکیوں کے حجاب سے دست بردار ہونے کے ساتھ مشروط کرنے کی کوئی وجہ نہیں پیش کی گئی ہے۔
عدالت کا کہنا ہے کہ "طلبہ کے حق میں یہی بہتر ہے کہ احتجاج اور اس کے نتیجے میں اداروں کے بند ہونے کے بجاے وہ کلاس میں لوٹ جائیں"۔ مگر حجاب پہننے کی اجازت کے ساتھ اور انتظامیہ کو سختی سے اداروں میں امن قائم کی ہدایات کے ذریعے تعلیمی نظام معمول پر کیوں نہیں آسکتا اس کی کوئی وجہ عدالت نے پیش نہیں کی ہے۔ وقتی امن کی خاطر حالت اصلی کو بدل کر مدعی کے موقف کو رد کرنا صرف جبر ہے، انصاف نہیں۔
حجاب کے معاملے کو ملک میں ہندوتوا سیاست کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی مسلم مخالف فضا کے پس منظر میں دیکھنا لازمی ہے۔ کرناٹک حکومت کے حکم کو شہریت ترمیم بل، لو جہاد کے نام پر قوانین، گئوکشی سے متعلق قوانین کی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے جن کا قوی ترین اثر مسلمانوں پر ہی پڑا ہے۔
عارضی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ "ایک مہذب سماج میں کسی بھی شخص کو مذہب، ثقافت وغیرہ کے نام پر ایسے اعمال کی اجازت نہیں دی جا سکتی جس سے امن وامان برہم ہو۔" مگر اس کی تحقیق کرنے کی زحمت نہیں کی گئی ہے کہ امن وامان برہم کرنے کے پیچھے کون ہے؟ ایک تنہا لڑکی کو کالج میں جاتے وقت بھگوا شال اوڑھے لڑکوں کے ذریعے ہراساں کرنے کی وائرل ویڈیو موجود ہے۔ کالج کیمپس میں بھگوا جھنڈا پھہرانے کی ویڈیو بھی موجود ہیں۔ کئی ویڈیو میں مستعمل بھگوا شال اور پگڑی کا پھینکا جانا بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ کچھ تحقیقاتی رپورٹ حجاب کے خلاف تحریک کو منصوبہ بند عمل بھی قرار دے رہی ہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل کا دعویٰ ہے کہ حالات حکومت کے قابو میں ہیں، اس کے باوجود عدالت نے صوبائی حکومت سے یہ سوال کرنا ضروری کیوں نہیں سمجھا کہ ان ہنگاموں کے پیچھے کون لوگ ہیں؟ اگر ایک گروہ حکومت کی پشت پناہی کے ساتھ ماحول خراب کرتا ہے تو کیا اس کی وجہ سے دوسری جماعت کا اپنے جائز مقاصد کے لئے احتجاج کرنے کا حق سلب کر لیا جائے گا؟ کیا حکومت خود ہاتھ پر ہاتھ دھر کر حالات خراب ہونے کے بعد یہ دعوی کر سکتی ہے کہ مدعی ہی اس ہنگامے کا ذمہ دار ہے؟
کچھ خبروں کے مطابق ایک کالج نے مسلمان طالبات کو الگ بٹھایا جو امریکہ کے خوفناک نسلی امتیاز کے قوانین کی یاد دلاتا ہے۔ اس پرسنگل بینچ کی توجہ دلائی گئی تھی جس پر جج نے سوال کیا تھا کہ کیا یہ "علاحدہ مگر مساوی" کے نظریہ پر مبنی تھا، جسے امریکی عدالتیں رد کر چکی ہیں، اس پر ایڈووکیٹ جنرل بھڑک گئے اور ان خبروں کو بے بنیاد قرار دیا۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ کورٹ اس خبر کے متعلق تحقیق کرواتی مگر عدالت نے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
اس معاملہ میں ایک عجیب وغریب حرکت بھگوا شال پہننے کا بھی ہے جو حجاب پہننے کی مخالفت میں بظاہر پلاننگ کے ساتھ شروع ہوا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پہلے سے چل رہے حجاب پہننے کے عمل کو اور احتجاجاً شروع ہونے والے شال پہننے کے عمل کوعدالت نے یکساں قرار دیا ہے۔ عدالت اسے برابری پر محمول کرے گی جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے اثرات فریقین پر برابر نہیں ہوں گے۔
ایسی صورت حال کے لئے فرانسیسی مصنف اناتول فرانسے کا قول نہایت موزوں ہے۔ "مساوات کے شاندار تصور کا تقاضا ہے کہ یکسانیت کے ساتھ سبھی کے لئے سڑکوں پر سونے کو، بھیک مانگنے کو اور روٹی چرانے کو خلاف قانون قرار دیا جائے، خواہ کرنے والا امیر ہو یا غریب۔" طالبات نے عدالت سے امیدیں وابستہ کیں ان پرعدالت نے پانی ڈالا ہے اور حقیقتاً حکومت اور کالجوں کے کارندہ کا کام کیا ہے، باوجودیکہ کہ سرکاری احکام کے خلاف مضبوط آئینی دلائل پیش کئے گئے، ضروری سوالات سے گریز کرکے اور اہم نکات کو نظر انداز کر کے افراد کے بنیادی حقوق کو معطل کر دیا گیا ہے۔ اگر اس فیصلے کو جلد ہی درست نہ کیا گیا، تو یہ ہماری عدلیہ کی تاریخ پر ایک قابل شرم داغ ہوگا

منگل, مارچ 01, 2022
جہانِ آرزومفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ریلوے نے مسافروں کو دی بڑی راحت ، اب لوگ جنرل ٹکٹ کے ساتھ ٹرینوں میں کر سکیں گے سفر

یوکرین کے لئے بھیجی جائے گی راحت سامگری کی پہلی کھیپ : مودی

اردودنیانیوز۷۲
ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!
ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے! Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...
-
ٹرین میں ناری شکتی پردرشن Urduduniyanews72 عالمی یوم خواتین سے سبھی واقف ہیں، یہ ہرسال مارچ کی آٹھویں تاریخ کوپوری دنیا میں من...
-
گستاخ نبی کی قرآنی سزا اردودنیانیوز۷۲ مکہ میں سب سے پہلےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنےوالا کوئی اور نہیں بل...
-
یہ بیماری نہیں عذاب الہی ہے ! Urduduniyanews72 سی این این یہ امریکی نشریاتی ادارہ ہے،اس کی ایک رپورٹ جسے ملک کے اکثر اخبارات ...
-
بچیوں کی تربیت: ایک اہم ذمہ داری Urduduniyanews72 1. بچیوں کی تربیت کی اہمیت بچیوں کی تربیت ایک معاشرتی فریضہ ہے۔ ایک اچھی تربی...
-
مدارس اسلامیہ کنونشن میں منظور شدہ تجاویز اردودنیانیوز۷۲ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھن...
-
ملکِ ہند میں اسلامی انگریزی اسکول: وقت کی اہم ضرورت Urduduniyanews72 ہندوستان میں مسلمان قوم کا شمار ملک کی سب سے بڑی اقلیت میں...
-
نئے سال کا آغاز: ایک نیا سفر Urduduniyanews72 نیا سال ایک نیا آغاز، ایک نئی امید اور نئی جدوجہد کا پیغام لے کر آتا ہے۔ یہ دن نہ...
-
پیام انسانیت کے وفد کا سیمانچل دورہ Urduduniyanews72 Urduduniyanews72 @gmail.com ملک میں ایک ایسی تحریک جو خالص انسانی بنیاد پ...
-
سنبھل میں کرفیو کی ایک رات ) * انس مسرورانصاری Urduduniyanews72 رات آئی تو خوف کا عفریت...
-
خنساء اسلامک انگلش اسکول بہیڑہ دربہنگہ، بہار کی دینی و عصری تعلیم اور اصلاحی خدمات۔ Urduduniyanews72 تعارف: خنساء اسلامک انگلش ...