Powered By Blogger

ہفتہ, مارچ 05, 2022

سرینگر کی جامع مسجد میں ۳۰ہفتوں کے بعد نماز جمعہ ادا

سرینگر کی جامع مسجد میں ۳۰ہفتوں کے بعد نماز جمعہ ادا

مصلیوں کے چہرو ں پر خوشی ، دور درازعلاقوں سے عوام پہنچے ، سخت حفاظتی انتظاما ت

سری نگر: سری نگر کے نوہٹہ علاقے میں واقع وادی کشمیر کی قدیم ترین اور تاریخی جامع مسجد میں تیس ہفتوں کی طویل مدت کے بعد لوگوں کی بھاری تعداد نے نماز جمعہ ادا کی۔بتادیں کہ صوبائی کمشنر کشمیر پی کے پولی اور کشمیر زون پولیس کے انسپکٹر جنرل وجے کمار نے 28 فروری کو جامع مسجد کا دورہ کرکے وہاں نماز جمعہ کی ادئیگی کے لئے انتظامات کا جائزہ لیا تھا۔یو این آئی کے ایک نامہ نگار نے بتایا کہ میناروں سے جب اذان گونجنے لگی تو لوگوں کی بھاری تعداد جامع مکی جمع ہوگئے بلکہ دور افتادہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ پہلے ہی آئے ہوئے تھے ۔انہوں نے کہا کہ نمازیوں کے چہروں پر خوشی و شادمانی کے آثار نمایاں تھے اور وہ ایک دوسرے کا گرمجوشی کے ساتھ استقبال کرتے تھے ۔ان کا کہنا تھا کئی عمر رسیدہ افراد جن میں مرد و زن شامل تھے ، کی آنکھیں جامع کو دیکھتے ہی آبدیدہ ہوگئیں اور کئی لوگوں کو فرط عشق میں جامع کے در ودیواروں کو بوسہ دیتے ہوئے دیکھا گیا۔حاجی غلام محمد نامی ایک نمازی نے کہا کہ کافی عرصے کے بعد آج جامع میں نماز جمعہ ادا کرنے کا موقع نصیب ہوا جو میری بے انتہا شادمانی کا باعث ہے ۔انہوں نے کہا کہ گرچہ ہم دوسرے جامع مساجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کا فریضہ انجام دیتے تھے لیکن اس قدیم جامع میں نماز جمعہ ادا کرنے سے جو روحانی سکون حاصل ہوتا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ اس جامع کے ساتھ ہمارے اسلاف کا روحانی رابطہ ہے جس کو ہم بھی تا عمر جاری رکھیں گے ۔ایک خاتون نے کہا کہ اس جامع میں نماز جمعہ ادا کرنے سے مجھے جو سکون حاصل ہوتا ہے اس کی تازگی اگلے جمعہ تک باقی رہتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ میرے تمام دینی و دنیوی حاجات اسی در پر روا ہوجاتے ہیں لہذا میں ہر جمعہ کو یہاں حاضر ہونا چاہتی ہوں۔انجمن اوقاف جامع کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ میر واعظ مولوی عمر فاروق کی خانہ نظر بندی کے باعث خطبہ جمعہ دینے کے فرائض امام حی سید احمد نقشبندی نے انجام دئے ۔انہوں نے کہا کہ جامع میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے تمام تر انتظامات کو عملی جامہ پہنایا گیا تھا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ وادی کے گوشہ وکنار سے کافی بڑی تعداد میں لوگ یہاں نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے آئے ہوئے تھے ۔دریں اثنا حکام نے جامع کے گرد و پیش سیکورٹی کے سخت انتطامات کئے تھے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی روک تھام کو یقینی بنایا جاسکے ۔حکام نے حساس علاقوں میں سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری کو تعینات کیا تھا۔قابل ذکر ہے کہ جامع مسجد وادی کی قدیم ترین عبادت گاہ ہے جہاں جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لئے نہ صرف مقامی و ملحقہ علاقوں کے لوگ جمع ہوجاتے ہیں بلکہ دور افتادہ دیہات کے لوگوں کی بڑی تعداد بھی اسی جامع میں نماز جمعہ کی ادائیگی کو ترجیح دیتی ہے ۔

جمعہ, مارچ 04, 2022

بہار میں تعلیم معاملے پر اپوزیشن نے حکومت کو ایوان میں گھیرا

بہار میں تعلیم معاملے پر اپوزیشن نے حکومت کو ایوان میں گھیرا

پٹنہ، 04 مارچ (ہ س)۔

بہار کی قانون ساز کونسل میں جمعہ کو پانچویں دن اپوزیشن جماعتوں نے تعلیم کے معاملے پر حکومت کو گھیرا۔ کانگریس کے ایم ایل سی پریم چند مشرا نے سوال اٹھایا کہ پانچ سال کے بچوں کو کمپیوٹر کی تعلیم نہیں مل رہی ہے۔ پریم چند مشرا نے سوال کیا کہ تربیت یافتہ کمپیوٹر اساتذہ کو کیوں ہٹایا گیا؟

پریم چندر مشرا نے پوچھا کہ بیلٹرون بہار اسٹیٹ ایجوکیشنل انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے ذریعہ آؤٹ سورسنگ پر آئی سی ٹی اسکیم کے تحت تقریباً 1,832 کمپیوٹر اساتذہ کا تقرر کیا گیا تھا۔ سال 2017 میں ان تمام کمپیوٹر اساتذہ کو ملازمت سے فارغ کر دیا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے طلبہ کی بڑی تعداد کمپیوٹر اساتذہ سے محروم ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت بتائے گی کہ ریٹائرڈ کمپیوٹر اساتذہ کی تقرری کی کوئی تجویز زیر غور ہے یا نہیں؟۔

اس کے جواب میں وزیر تعلیم وجے چودھری نے کہا کہ آئی سی ٹی اسکول پروگرام کے تحت سیکنڈری اسکولوں میں زیر تعلیم طلباء کو کمپیوٹر کی تعلیم فراہم کرنے کے لیے سرکاری ایجنسی بیلٹرون نے ایک ہزار سیکنڈری اسکولوں اور 832 سیکنڈری اسکولوں کوبی ایس ای آئی ڈی سی کے ذریعے کمپیوٹر کے ذریعے ایجنسی کے ذریعے منتخب کیا ہے۔ مسلسل پانچ سال کے لئے مواد پر معاہدے کی مدت اکتوبر 2017 میں ختم ہو گئی۔

ایم ایل سی پریم چندر مشرا نے کہا کہ موجودہ وزیر نے تدریسی دنیا کو برباد کر دیا ہے۔ شراب تلاش کرنے کے لیے اساتذہ کی خدمات حاصل کی گئیں۔ عام عوام غمزدہ ہے۔ مجرموں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ پولیس انتظامیہ کسی سے ڈرنے والی نہیں۔ جرائم پیشہ افراد سے عوام میں خوف کی فضا ہے اور جب وزیر تعلیم سے تعلیم پر سوال کیا جاتا ہے تو وہ مسکرا کر عوام کو ایوان سے الجھاتے ہیں۔

اس کے جواب میں وزیر وجے چودھری نے کہا کہ ہم نے کبھی ٹیچروں سے شراب کی نگرانی کے لئے نہیں کہا۔ صرف درخواست کی گئی ہے، جس میں بیداری ہے جو سمپل ہے کہ آپ ان لوگوں کو مطلع کریں جو شراب پیتے ہیں، بیچتے ہیں یا شراب کا ذخیرہ رکھتے ہیں۔ حکومت پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ ان تمام چیزوں کے بارے میں معلومات دینے والوں کی شناخت خفیہ رکھی جائے گی۔ کوئی ٹاسک نہیں دیا گیا۔ جس طرح حکومت ایک عام ذمہ دار شہری سے توقع رکھتی ہے، اسی طرح اساتذہ سے بھی توقع کی گئی ہے کہ اگر وہ اپنے قریب کہیں بھی شراب خریدتے ہوئے دیکھیں تو اطلاع دیں، یہ کوئی غیر متوقع بات نہیں ہے۔

بہار کے بھاگلپور دھماکے میں مرنے والوں کی تعداد 14 ہوئی ، ملبہ ہٹانے کا کام جاری

بہار کے بھاگلپور دھماکے میں مرنے والوں کی تعداد 14 ہوئی ، ملبہ ہٹانے کا کام جاری

بھاگلپور ڈی آئی جی نے آئی بی کے ان پٹ سے انکار کیا

-وزیراعظم نے وزیراعلیٰ سے بات کی

-وزیراعلیٰ نے واقعہ پر دکھ کا اظہار کیا، تحقیقات کا حکم دیا

بھاگلپور، 04 مارچ (ہ س) ۔

بہار میں بھاگلپور ضلع کے تاتارپور تھانہ علاقہ کے کجولی چک علاقہ میں جمعرات کی دیر رات پٹاخے بنانے والے کے گھر میں ہوئے بم دھماکہ میں مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 14 ہوگئی ہے۔ جس گھر میں دھماکہ ہوا اس گھر میں شیلا دیوی اور لیلا دیوی رہتی تھیں۔ دونوں دیورانی-جیٹھانی (گوتنی) ہیں۔

سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) بابورام نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔انہوں نے کہا کہ جمعہ کی صبح تک ملبے سے پانچ لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔ ملبہ ہٹاتے ہوئے نو افراد کی لاشیں نکال لی گئی ہیں۔ اس دھماکے میں کل چار مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔ خاتون، دو بچوں سمیت 14 جاں بحق ہوئے ہیں ۔ جائے وقوعہ کے قریب واقع چند دیگر مکانات کو بھی نقصان پہنچا۔ ملبہ ہٹانے کا کام جاری ہے۔ دوسری جانب ایک درجن سے زائد زخمی مایا گنج اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ ان میں سے کئی کی حالت تشویشناک ہے۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ اور ایف ایس ایل کی ٹیم موقع پر پہنچ کر تحقیقات کر رہی ہے۔ ایس ڈی آر ایف کی ٹیم بھی موقع پر پہنچ گئی ہے اور اپنا کام شروع کر دیا ہے۔

پٹنہ پولس ہیڈکوارٹر جلد ہی اس واقعہ کی تحقیقات کا حکم جاری کرے گا۔پٹنہ میں اے ڈی جی لا اینڈ آرڈر سنجے سنگھ نے بتایا کہ دھماکہ بھاگلپور کے تاتارپور تھانے کے تحت کجولی چک علاقے میں ہوا۔ پولیس ہیڈکوارٹر کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ یہ واقعہ پٹاخے بنانے کے دوران پیش آیا۔اے ڈی جی کے مطابق بھاگلپور کے ایس ایس پی کی طرف سے تفصیلی تحقیقاتی رپورٹ دی جائے گی۔ اے ڈی جی نے کہا کہ یہ درست ہے کہ دھما کہ بہت زبردست تھا ۔ اس کی وجہ سے آس پاس کے مکانات کو بھی نقصان پہنچا ہے، معاملے کی تحقیقات کے لیے ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔ کچھ دن پہلے بھی بھاگلپور میں دھماکے کے واقعات پیش آئے تھے۔ اس وقت بھی اے ٹی ایس کو جانچ کی ذمہ داری دی گئی تھی۔

بھاگلپور کے ڈی آئی جی سوجیت کمار نے میڈیا سے بات چیت میں آئی بی کی طرف سے کوئی ان پٹ ملنے سے صاف انکار کیا ہے۔ سوجیت کمار کے مطابق زیادہ تر لوگوں کی موت دھماکے کے ساتھ ساتھ ملبے تلے دبنے سے ہوئی۔ شب برات اور شادی بیاہ کے موقع پر غیر قانونی پٹاخے بنانے کا کام جاری تھا کہ اسی دوران دھماکہ ہوا۔ فی الحال پورے معاملے کی تفتیش جاری ہے۔ضلع انتظامیہ نے ملبے میں مزید لوگوں کے پھنسے ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے۔

وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے بھاگلپور دھماکے کی تحقیقات کرنے اور ضروری کارروائی کرنے کی ہدایت دی ہے۔ انہوں نے چیف سکریٹری اور ڈی جی پی کو بلایا اور ان سے واقعہ کی مکمل معلومات لی۔ وزیراعلیٰ نے واقعہ پر دکھ کا اظہار کیا۔ انہوں نے مرنے والوں کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار بھی کیا۔ وزیر اعلیٰ نے حکام کو زخمیوں کو بہتر علاج فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔

اس واقعہ پر غم کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار سے بھی بات کی ہے۔ وزیر اعظم مودی نے ٹویٹ کرکے اس کی جانکاری دی۔ وزیر اعظم مودی نے ٹویٹ کر کے لکھا ہے کہ بہار کے بھاگلپور میں دھماکے سے جانی نقصان کی خبر تکلیف دہ ہے۔ زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا بھی کی ہے ۔ وزیر اعلیٰ نتیش کمار سے بھی واقعہ سے متعلق صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ انتظامیہ راحت اور بچاؤ کے کاموں میں مصروف ہے، اور متاثرین کو ہر ممکن مدد فراہم کی جا رہی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ متاثرین خاندان کاایک فرد پٹاخے بناتا تھا۔ جن کے گھر میں ماضی میں دھماکے کا واقعہ ہو چکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے گھر میں دھماکہ خیز مواد پھٹا ہے۔ پٹاخے بنانے کے لیے یہاں دھماکہ خیز مواد رکھا گیا تھا۔ دھماکہ اتنا خوفناک تھا کہ آس پاس کا علاقہ لرز اٹھا۔ لوگوں کو زلزلے کے جھٹکے محسوس ہونے لگے۔ دھماکا اتنا زوردار تھا کہ تاتارپور چوک اور گھنٹہ گھر تک لوگ گھروں سے باہر نکل آئے۔ کاجولیچک میں یہ دھماکہ 14 سال بعد ہوا ہے۔ وہ جگہ جہاں جمعرات کی شب کاجولیچک کے علاقے میں دھماکہ ہوا۔ اسی جگہ 2008 میں بھی دھماکہ ہوا تھا۔ جس میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

جمعرات, مارچ 03, 2022

مہاراشٹر حکومت نے IPL میں 25 فیصد شائقین کی اجازت ، 26 مارچ سے ممبئی اور پونے IPL طئے دی

مہاراشٹر حکومت نے IPL میں 25 فیصد شائقین کی اجازت ، 26 مارچ سے ممبئی اور پونے IPL طئے دیممبئی: مہاراشٹر حکومت نے بدھ کے روز آنے والے انڈین پریمیئر لیگ میچوں کے لیے اسٹیڈیم کی گنجائش کے 25 فیصد شائقین کی اجازت دی ہے۔ انڈین پریمیئر لیگ میچوں (IPL) 26 مارچ سے ممبئی اور پونے میں منعقد ہونے والے ہیں۔ یہاں شام کو جاری ایک سرکاری بیان میں ریاستی حکومت نے کہا کہ اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ عالمی وبا کورونا وائرس کے کیسوں میں کمی آرہی ہے۔ ہجوم کی حد 25 فیصد تک محدود کردی گئی ہے اور صرف مکمل ویکسین شدہ تماشائیوں کو ہی اسٹیڈیم میں داخل ہونے کی اجازت ہوگی۔

یہ اس وقت ہوا جب مہاراشٹر حکومت نے بدھ کو بی سی سی آئی اور ممبئی کرکٹ ایسوسی ایشن (ایم سی اے) کے ساتھ آئی پی ایل کے ہموار انعقاد کے لیے میٹنگ کی، جو کہ اب 10 ٹیموں کا معاملہ ہے۔ ریاستی حکومت کے وزراء - آدتیہ ٹھاکرے اور ایکناتھ شندے - کے ساتھ ایم سی اے کے سربراہ وجے پاٹل اور اعلیٰ کونسل کے ارکان اجنکیا نائک اور ابھے ہڈپ، خزانچی جگدیش اچریکر، میٹنگ میں موجود تھے۔

میٹنگ کے بعد ٹویٹس کی ایک سیریز میں آدتیہ ٹھاکرے نے کہا کہ @IPL کے ہموار بہاؤ کو یقینی بنانے کے لیے وزیر @ mieknathshinde جی اور میں نے IPL، @BCCI کی پولیس اور ممبئی کی میونسپل کارپوریشن کے افسران کے ساتھ ایک مشترکہ میٹنگ تھانے، نوی ممبئی میں کی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ جلد ہی آئی پی ایل کے دوسرے مقام پونے کے لیے بھی اسی طرح کی میٹنگ کریں گے۔ کہ ٹورنامنٹ ہمارے تمام شہر کے مقامات پر کامیابی کے ساتھ منعقد کیا گیا ہے۔ جو مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے کے بیٹے ہیں۔

''مہاراشٹر میں آنے والا آئی پی ایل اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ کھیل بیرون ملک نہیں کھیلے جائیں۔ معیشت، حوصلے اور کرکٹ کے شائقین کے جذبے کے لحاظ سے یہ ملک کے ساتھ ساتھ مہاراشٹر کے لیے ایک بہت بڑا فروغ ہے۔ قبل ازیں یہ معلوم ہوا تھا کہ آئی پی ایل کی ٹیمیں 14 یا 15 مارچ سے شہر میں ٹریننگ شروع کریں گی۔ ان کے لیے پریکٹس کے مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے۔

یہ سمجھا جاتا ہے کہ مضافاتی باندرہ کرلا کمپلیکس میں ایم سی اے گراؤنڈ، تھانے میں ایم سی اے گراؤنڈ، ڈاکٹر ڈی وائی پاٹل یونیورسٹی گراؤنڈ اور سی سی آئی (کرکٹ کلب آف انڈیا) اور ریلائنس کارپوریٹ کے ساتھ فٹ بال پچ۔ گھنسولی میں پارک گراؤنڈ کو حکام نے نقد رقم سے بھرپور ٹورنامنٹ کے لیے پریکٹس کے مقامات کے طور پر شناخت کیا ہے۔


کھلاڑیوں کا 8 مارچ سے شہر میں آنا شروع ہونے کا امکان ہے۔ یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ تمام شرکاء کو ممبئی پہنچنے سے 48 گھنٹے قبل RT-PCR ٹیسٹ کروانا ہوں گے۔ کھلاڑیوں کو اپنے متعلقہ بلبلوں میں داخل ہونے سے پہلے 3-5 دن کے قرنطینہ سے بھی گزرنا پڑے گا۔

بدھ, مارچ 02, 2022

قرآن پاک کا سنہالی ترجمہ:لنکائی ہائی کمیشنر کاجمعیۃ علماء کوتحفہ

قرآن پاک کا سنہالی ترجمہ:لنکائی ہائی کمیشنر کاجمعیۃ علماء کوتحفہ

نئی دہلی : سری لنکا کے ہائی کمیشنر اور دیگر اعلی عہدیداروں نے پیر کو جمعیۃ کے صدردفتر پہنچ کر اس کے ذمہ داروں کو قرآن پاک کا سنہالی ترجمہ پیش کیا۔

یہ ترجمہ سری لنکا کی آل سیلون جمعیت العلما کے صدر مفتی محمد رضوی کے ذریعہ شائع کیا گیا ہے۔

بذات خود سری لنکا کے ہائی کمشنر ملندا موراگوڈا دفتر جمعیۃ علماء ہند پہنچے اور جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی ، سکریٹری مولانا نیاز احمد فاروقی کو قرآن مجید کا نسخہ پیش کیا۔

ایک شفاف ڈسپلے باکس کے اندر نصب قرآن پاک کا یہ نسخہ اگلے جمعہ کو جمعیۃ کے دفتر میں واقع 500 سالہ پرانی مسجد ’’ مسجد عبدالنبی‘‘میں رکھا جائے گا اور اس کے بعد اسے مستقل نمائش کے طور پرجمعیۃ کے میوزیم میں نصب کیا جائے گا۔

ملاقاتی تقریب کے دوران سری لنکا کے ہائی کمشنر ملندا موراگوڈا اور جمعیۃ کے عہدیداروں نے سری لنکا اور ہندوستان کے درمیان اسلامی ثقافتی تعلقات کو فروغ دینے پر تبادلہ خیال کیا۔ اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند کے کئی سینئر عہدیداران اور ہائی کمیشن کے افسران بھی موجود تھے۔قرآن پاک کا سنہالی ترجمہ پیش کرنے کے بعد ہائی کمشنر اور ان کے رفقا نے جمعیۃ کے ذمہ دا روں کی معیت میں جمعیۃ میوزیم اور لائبریری کا دورہ کیا جہاں اسلام، تاریخ ہند اور دیگر موضوعات پر تقریباً 18000 کتابیں رکھی گئی ہیں۔


نواب ملک کی گرفتاری ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

نواب ملک کی گرفتاری ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 سات گھنٹوں کی پوچھ تاچھ کے بعد انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ (ای ڈی) نے مہاراشٹر کے کابینی وزیر نواب ملک کو گرفتار کر لیا، ان پر داؤد ابراہیم کے ساتھ مل کر منی لانڈرنگ کا الزام ہے، نواب ملک این سی پی کے قد آور لیڈر ہیں، بلکہ کہنا چاہیے کہ مہاراشٹر میں وہ شرد پوار کے دایاں بازو سمجھے جاتے ہیں۔ اس لیے ان کی گرفتاری کو انتقامی کاروائی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ کیوں کہ نواب ملک مرکزی حکومت اور اس کی تفتیشی ایجنسیوں کے خلاف مسلسل بولتے رہے ہیں، انہوں نے ’’ڈرگ آن کروزکیس‘‘ میں بھی تفتیشی ایجنسیوں اور اس کے افسر سمیر وانکیڑے کے خلاف زبردست محاذ کھولا تھا، اسی وقت سے یہ امید لگائی جا رہی تھی کہ دیر سویر ان کی گرفتاری ہونی طے ہے۔
 ہندوستان کی تفتیشی ایجنسیوں کو جو غیر معمولی اختیارات حاصل ہیں اس کے تحت جانچ کے بعد گرفتاری بھی عمل میں آسکتی ہے ، ایجنسیاں غیر جانب دار ہوں تو کوئی بات نہیں، لیکن جب ایجنسیاں بھی مقید ہوں اور ان کے فیصلے بھی چشم وابرو کے مرہون منت ہوں تو سوالات کھڑے ہونے لگتے ہیں۔
 نواب ملک کی گرفتاری جس طرح ہوئی ہے اس کے طریقہ کار پر میڈیا میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، پچیس برسوں سے مسلسل منتخب ہونے والے ایک عوامی نمائندہ کو چار بجے صبح اس کے گھر سے اٹھانا ، گھنٹوں تفتیش کرنا اور کچھ نہ ملے تو عدم تعاون کا الزام لگا کر گرفتار کر لینا قانون اوردستوری تقاضوں کے خلاف ہے، نواب ملک کا کہنا ہے کہ ان کے سمن پر دستخط ای ڈی کے دفتر میں کرایاگیا، تمام حزب مخالف اس مسئلے پر متحد ہیں کہ نواب ملک کو سچ بولنے کی پاداش میں پریشان کیا جا رہا ہے، انہوںنے واضح طور پر گرفتاری کے بعد کہا کہ ہم لڑیں گے،جیتیں گے، جھکیں گے نہیں، نواب ملک کی گرفتاری سے مہاراشٹر کی مہاوکاس اگھاڑی حکومت کو وقتی پریشانیوں کا سامنا ہے، وزیر اعلیٰ پر نواب ملک سے استعفا لینے کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت میں کسانوں کو روندوانے والے وزیر سے استعفیٰ نہیں لیا گیا، حالاں کہ یہ عوامی مطالبہ تھا۔ ببیں تفاوت رہ از کجا است تا بکجا۔

کرناٹک ہائی کورٹ کا حیرت انگیز اقدام : بنیادی حقوق پر عارضی روک - منو سیبسٹین ( مدیر مسئول ، لائیو لا ) ترجمہ : عمیر اعظمی

کرناٹک ہائی کورٹ کا حیرت انگیز اقدام : بنیادی حقوق پر عارضی روک - منو سیبسٹین ( مدیر مسئول ، لائیو لا ) ترجمہ : عمیر اعظمی

کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب کے معاملہ میں ناقابل تصور عمل کیا ہے۔ کرناٹک کے سرکاری کالیجوں میں لگائی گئی حجاب پر باندی کے خلاف مسلمان طالبات کی طرف سے دائر کردہ مقدمہ کی سنوائی میں مکمل بینچ نے عارضی فیصلہ کے ذریعہ مقدمہ مکمل ہونے تک بلا تفریق مذہب مذہبی لباس پر پابندی عائد کر دی ہے۔ حجاب پر پابندی کے نتیجے میں ہونے والے ہنگاموں کے چلتے حکومت نے تعلیمی اداروں کی بندی کا اعلان کیا تھا، تعلیمی اداروں کو کھولنے کا حکم دیتے ہوئے عدالت نے کہا:

"ان تمام عرضیوں کی سنوائی کے اثنا میں ہم بلا تفریق مذہب تمام طلباء کے کلاس میں بھگوا شال اور اس سے متعلقہ اشیاء دوپٹہ، حجاب، مذہبی جھنڈے وغیرہ زیب تن کرنے پر پابندی عائد کرتے ہیں۔" بنچ کے ارکان چیف جسٹیس ریتو راج اوستھی، جسٹیس کرشنا دکشت اور جے ایم قاضی نے وضاحت کی کہ اس فیصلے کا اطلاق صرف انھی اداروں پر ہوگا جن میں یونیفارم نافذ ہے۔ بظاہر تو یہ حکم غیر جانبدارانہ لگتا ہے، مگر اس سے متاثر صرف وہ طالبات ہوں گی جو حجاب کو اپنے مذہب کا حصہ ہونے کی بنیاد پر اس پر عمل کرنا چاہتی ہیں۔

یہ عارضی فیصلہ شدید ترین مذمت کا مستحق ہے کیوں کہ مقدمہ کی سماعت کے دوران شہریوں کے بنیادی حقوق کو معطل کر دینا ایک انوکھا عمل ہے جس میں مدعی کی دلیلوں کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے اور "سہولت میں توازن" (balance of convenience) اور "ناقابل تلافی نقصان" (irreparable injury) کے مسلم قانونی اصولوں کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔

اس مضمون کا مقصد نہ تو حجاب کے اسلام کا بنیادی جزو ہونے کی دلیل دینا ہے، نہ ہی تعلیمی اداروں میں یونیفارم کی افادیت کی وکالت کرنا ہے۔ موضوع بحث صرف عدالت کا عارضی فیصلہ ہے، جس نے عملاً حکومت کے اسی فیصلے کو نافذ کیا ہے، جس کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا تھا اور جس کے نتیجے میں مسلمان خواتین کے لئے تعلیم کا حصول اپنے مذہب پر عمل نہ کرنے کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے تا آں کہ ان کے اٹھائے ہوئے "کلیدی اہمیت کے حامل سوالات" کا فیصلہ نہ ہو جائے۔ مسَلم قانونی اصولوں کے مطابق عارضی راحت کے لئے تین بنیادیں ہیں۔ اول یہ کہ بادی النظر میں کیس کی بنیاد ہو۔ دوم سہولت میں توازن۔ سوم ناقابل تلافی نقصان۔

بادی النظر میں اپنے موقف کی تائید میں مدعیوں نے کیرالا اور مدراس کے دو فیصلے پیش کئے، جن میں حجاب کو مذہب کا ضروری جزو تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سوپریم کورٹ کے بیجوئے ایمانویل فیصلہ کا بھی حوالۂ ضمیر پر عمل پیرا ہونے کے آئینی بنیادی حق ہونے کی تائید میں پیش کیا گیا۔ یہ معاملہ جیہوا وٹنیس (Jehovah Witness) طلبہ کا تھا جنھیں مذہبی وجوہات کی بنا پر قومی ترانہ نہ پڑھنے کی پاداش میں اسکول سے نکال دیا گیا تھا اور عدالت نے انھیں اپنے فیصلے میں راحت دی تھی۔ حجاب کو اسلام کا ضروری جزو ثابت کرنے کے لئے قرآن کی آیات اور احادیث کے حوالے پیش کئے گئے۔ دفعہ ۲۵ کے تحت مذہبی آزادی کے علاوہ یہ بھی دلیل پیش کی گئی کہ لباس شناخت کا حصہ ہونے کی بنا پر دفعہ ۱۹ (الف) کے تحت بنیادی حق کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ دلیل دی گئی کہ لباس کا اختیار دفعہ ۲۱ کے تحت پرائیویسی کے حق میں شامل ہے اور ریاست کو لباس تھوپنے کا حق حاصل نہیں ہے۔

قانونی اصطلاح میں بادی النظر کا مطلب اتمام حجت ہرگز نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب فقط یہ دکھانا ہوتا ہے کہ دعوٰی کی کوئی بنیاد موجود ہے۔ بے بنیاد نہ ہونے کے دعوی کے حق میں دو ہائی کورٹ کے فیصلوں اور دینی صحیفوں کے متعلقہ حوالوں کے بعد آخر اور کیا درکار ہے؟ مگر حیرت ہے کہ عارضی فیصلے میں معاملہ کے ان پہلووں کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ سہولت میں توازن کے قانونی اصول کے مطابق عدالت کو مدعی کو راحت دینے کی صورت میں مدعا علیہ کو ہونے والی دقت کا موازنہ اس تکلیف سے کرنا ہے جو راحت نہ دینے کی صورت میں مدعی پر لاحق ہوگی۔ ان کے ما بین توازن قائم کر کے یہ دیکھنا ہے کہ کدھر کا پلڑا بھاری ہے۔

یہاں مدعیان کا دعوٰی ہے کہ وہ کورس کی ابتدا سے ہی حجاب پہن کر کلاس جاتی رہی ہیں اور دسمبر ۲۰۲۱ میں اس میں خلل اندازی ہوئی۔ یہ بھی دعوٰی کیا گیا ہے کہ کچھ کالجوں میں یونیفارم کے رنگ کے حجاب سے متعلق ضوابط بھی موجود ہیں۔ اب جب کہ تعلیمی سال کی تکمیل میں صرف دو مہینے باقی ہیں، انھیں کلاس میں حجاب کے ساتھ داخل ہونے سے روکا جا رہا ہے۔ لمبے عرصے سے چلے آرہے طریقے پر انھیں تعلیمی سال مکمل کرنے اور امتحانات دینے کی اجازت دینے میں کیا دقت ہے؟ حکومت کا دعوٰی ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں مذہبی شناخت ہٹاکر یکسانیت لاکر بھائی چارہ کو فروغ دینا چاہتی ہے۔ (یہ الگ بحث ہے کہ آیا اس عمل سے بھائی چارہ کو فروغ مل رہا ہے یا طلبہ کے ما بین دوریاں بڑھ رہی ہیں؟) کیا یہ تبدیلیاں دو مہینے تک ملتوی نہیں کی جا سکتیں؟ کیا ایسے حساس موضوع سے متعلق اتنی بڑی تبدیلی بنا مذاکرات کے اچانک طلبہ پر تھوپی جا سکتی ہے؟ عدالت نے ان سوالات کو لائق التفات ہی نہیں سمجھا۔ عارضی فیصلے میں سہولت میں توازن کا اصول کہیں پر بھی کار فرما نہیں ہے۔

عدالت نے مسلمان خواتین کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ مذہب اور تعلیم کے بیچ ایک کا انتخاب کریں۔ ایک حق کے استعمال کے نتیجے میں دوسرے سے دست بردار ہونا ہوگا۔ چیف جسٹیس نے سنوائی کے دوران فرمایا کہ "بس کچھ دنوں کی بات ہے۔" جب کوئی شخص اپنے کسی مذہبی عمل کا عادی ہے تو کیا اس سے یہ کہنا کہ اپنے مذہبی عمل کو "کچھ دنوں" کے لئے چھوڑ دو اگر تعلیم حاصل کرنی ہے، کوئی معقول بات ہے؟ کیا کسی شہری کے سرکاری ادارہ میں تعلیم حاصل کرنے کو اس کے مذہبی اور ثقافتی حقوق سے دست برداری کے ساتھ مشروط کرنا درست ہے؟ ایک آئینی عدالت کا ذمہ ہوتا ہے کہ وہ حقوق کے ما بین ہم آہنگی پیدا کرے۔ مگر یہاں عدالت نے حق مذہب اور حق تعلیم کے بیچ تضاد کی صورت پیدا کر دی ہے۔ ناقابل تلافی نقصان کے امکانات پر غور کرنے سے بھی عارضی فیصلہ عاری ہے۔

عدالت کی صوابدید پر مبنی عارضی فیصلوں کا اصل مقصد بھی عدل وانصاف ہی ہوتا ہے۔ مگر اس فیصلہ نے مسلمانوں کے خلاف اور خاص طور سے مسلمان خواتین کے خلاف تفریق کو مزید تقویت دی ہے۔ تعلیم کے معطل ہونے پر عدالت کی فکرمندی یقیناً بجا ہے مگر اس کو مسلمان لڑکیوں کے حجاب سے دست بردار ہونے کے ساتھ مشروط کرنے کی کوئی وجہ نہیں پیش کی گئی ہے۔

عدالت کا کہنا ہے کہ "طلبہ کے حق میں یہی بہتر ہے کہ احتجاج اور اس کے نتیجے میں اداروں کے بند ہونے کے بجاے وہ کلاس میں لوٹ جائیں"۔ مگر حجاب پہننے کی اجازت کے ساتھ اور انتظامیہ کو سختی سے اداروں میں امن قائم کی ہدایات کے ذریعے تعلیمی نظام معمول پر کیوں نہیں آسکتا اس کی کوئی وجہ عدالت نے پیش نہیں کی ہے۔ وقتی امن کی خاطر حالت اصلی کو بدل کر مدعی کے موقف کو رد کرنا صرف جبر ہے، انصاف نہیں۔

حجاب کے معاملے کو ملک میں ہندوتوا سیاست کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی مسلم مخالف فضا کے پس منظر میں دیکھنا لازمی ہے۔ کرناٹک حکومت کے حکم کو شہریت ترمیم بل، لو جہاد کے نام پر قوانین، گئوکشی سے متعلق قوانین کی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے جن کا قوی ترین اثر مسلمانوں پر ہی پڑا ہے۔

عارضی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ "ایک مہذب سماج میں کسی بھی شخص کو مذہب، ثقافت وغیرہ کے نام پر ایسے اعمال کی اجازت نہیں دی جا سکتی جس سے امن وامان برہم ہو۔" مگر اس کی تحقیق کرنے کی زحمت نہیں کی گئی ہے کہ امن وامان برہم کرنے کے پیچھے کون ہے؟ ایک تنہا لڑکی کو کالج میں جاتے وقت بھگوا شال اوڑھے لڑکوں کے ذریعے ہراساں کرنے کی وائرل ویڈیو موجود ہے۔ کالج کیمپس میں بھگوا جھنڈا پھہرانے کی ویڈیو بھی موجود ہیں۔ کئی ویڈیو میں مستعمل بھگوا شال اور پگڑی کا پھینکا جانا بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ کچھ تحقیقاتی رپورٹ حجاب کے خلاف تحریک کو منصوبہ بند عمل بھی قرار دے رہی ہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل کا دعویٰ ہے کہ حالات حکومت کے قابو میں ہیں، اس کے باوجود عدالت نے صوبائی حکومت سے یہ سوال کرنا ضروری کیوں نہیں سمجھا کہ ان ہنگاموں کے پیچھے کون لوگ ہیں؟ اگر ایک گروہ حکومت کی پشت پناہی کے ساتھ ماحول خراب کرتا ہے تو کیا اس کی وجہ سے دوسری جماعت کا اپنے جائز مقاصد کے لئے احتجاج کرنے کا حق سلب کر لیا جائے گا؟ کیا حکومت خود ہاتھ پر ہاتھ دھر کر حالات خراب ہونے کے بعد یہ دعوی کر سکتی ہے کہ مدعی ہی اس ہنگامے کا ذمہ دار ہے؟

کچھ خبروں کے مطابق ایک کالج نے مسلمان طالبات کو الگ بٹھایا جو امریکہ کے خوفناک نسلی امتیاز کے قوانین کی یاد دلاتا ہے۔ اس پرسنگل بینچ کی توجہ دلائی گئی تھی جس پر جج نے سوال کیا تھا کہ کیا یہ "علاحدہ مگر مساوی" کے نظریہ پر مبنی تھا، جسے امریکی عدالتیں رد کر چکی ہیں، اس پر ایڈووکیٹ جنرل بھڑک گئے اور ان خبروں کو بے بنیاد قرار دیا۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ کورٹ اس خبر کے متعلق تحقیق کرواتی مگر عدالت نے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا۔

اس معاملہ میں ایک عجیب وغریب حرکت بھگوا شال پہننے کا بھی ہے جو حجاب پہننے کی مخالفت میں بظاہر پلاننگ کے ساتھ شروع ہوا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پہلے سے چل رہے حجاب پہننے کے عمل کو اور احتجاجاً شروع ہونے والے شال پہننے کے عمل کوعدالت نے یکساں قرار دیا ہے۔ عدالت اسے برابری پر محمول کرے گی جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے اثرات فریقین پر برابر نہیں ہوں گے۔

ایسی صورت حال کے لئے فرانسیسی مصنف اناتول فرانسے کا قول نہایت موزوں ہے۔ "مساوات کے شاندار تصور کا تقاضا ہے کہ یکسانیت کے ساتھ سبھی کے لئے سڑکوں پر سونے کو، بھیک مانگنے کو اور روٹی چرانے کو خلاف قانون قرار دیا جائے، خواہ کرنے والا امیر ہو یا غریب۔" طالبات نے عدالت سے امیدیں وابستہ کیں ان پرعدالت نے پانی ڈالا ہے اور حقیقتاً حکومت اور کالجوں کے کارندہ کا کام کیا ہے، باوجودیکہ کہ سرکاری احکام کے خلاف مضبوط آئینی دلائل پیش کئے گئے، ضروری سوالات سے گریز کرکے اور اہم نکات کو نظر انداز کر کے افراد کے بنیادی حقوق کو معطل کر دیا گیا ہے۔ اگر اس فیصلے کو جلد ہی درست نہ کیا گیا، تو یہ ہماری عدلیہ کی تاریخ پر ایک قابل شرم داغ ہوگا

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...