Powered By Blogger

بدھ, مارچ 23, 2022

حیدرآباد آتشزدگی واقعہ میں ہلاک 11 افراد کے خاندانوں کو فی کس 5 لاکھ روپے ایکس گریشیا دینے چیف منسٹر کا اعلان

حیدرآباد آتشزدگی واقعہ میں ہلاک 11 افراد کے خاندانوں کو فی کس 5 لاکھ روپے ایکس گریشیا دینے چیف منسٹر کا اعلان

حیدرآباد _ 23 مارچ ( اردولیکس) تلنگانہ کے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے سکندرآباد کے بھوئی گوڈہ ٹمبر ڈپو میں آگ لگنے کے واقعہ پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔جس میں 11 افراد زندہ جل کر ہلاک ہوگئے۔چیف منسٹر کے سی آر نے آتشزدگی میں بہار کے مزدوروں کی موت پر افسوس کا اظہار کیا۔انھوں نے آتشزدگی میں مرنے والوں کے لئے فی کس 5 لاکھ روپئے ایکس گریشیا کا اعلان کیا۔

چیف منسٹر نے چیف سکریٹری سومیش کمار کو ہدایت دی کہ وہ حادثے میں ہلاک بہار کے تارکین وطن مزدوروں کی نعشوں کی وطن واپسی کے انتظامات کریں۔

حیدرآباد کے ایک گودام میں بھیانک آگ لگنے سے 11 افراد زندہ جل گئے

حیدرآباد کے سکندرآباد علاقے میں ایک اسکراپ کے گودام میں بھیانک آگ لگنے کے واقعہ میں 11 افراد زندہ جل کر فوت ہوگئے ۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق سکندرآباد کے بھوئی گوڑہ میں واقع گودام میں شارٹ سرکٹ کی وجہ سے چہارشنبہ کی صبح تین بجے کے قریب اچانک آگ بھڑک اٹھی جس میں 11 افراد زندہ جل کر فوت ہوگئے۔بتایا گیا ہے گودام میں 12 افراد سو رہے تھے ان میں سے ایک شخص زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔11 زندہ جل گئے ۔پولیس اور فائر بریگیڈ کو آگ کو بجھانے کے لئے کئی گھنٹوں کا وقت لگا 5 فائر بریگیڈ کی مدد سے آگ پر قابو پایا گیا ۔حکام نے بتایا کہ حادثے میں گیارہ افراد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔ ان میں سے کچھ آگ میں جل گئے، جب کہ کچھ دم گھٹنے سے مر گئے۔ حکام نے بتایا کہ حادثے کے وقت گودام میں 12 افراد موجود تھے۔ تمام مرنے والے بہار کے مہاجر مزدور تھے۔ مرنے والوں کی شناخت بٹو، سکندر، دامودر، ستیندر، چنٹو، دنیش، راجیش، راجو، دیپک اور پنکج کے طور پر ہوئی ہے۔مزید کی شناخت باقی ہے

کانگریس کا زوال ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

کانگریس کا زوال ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخاب کے نتائج نے ثابت کر دیا ہے کہ کانگریس پارٹی تاریخ کا حصہ بن گئی ہے اور بھاجپا کا یہ نعرہ کہ ہم کانگریس مُکت بھارت بنائیں گے ، کامیاب ہوتا جا رہا ہے ، بے اختیار یہ مصرعہ نوک قلم پر آگیا کہ ’’پستی کا کوئی حد سے گذرنا دیکھے‘‘
کانگریس کی اس پستی میں گاندھی خاندان کا بڑا ہاتھ ہے، اندرا گاندھی کے دنیا چھوڑ نے کے بعد کانگریس کو مضبوط قیادت نہیں ملی، راجیو گاندھی ، اندراجی کے کفن پر اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے، جس طرح کسی سرکاری ملازم کے انتقال کے بعد ہمدردی ّ(انوکمپا) کی بناء پر ملازمت دیدی جاتی ہے، راجیو گاندھی بھی وزیر اعظم بن گیے، نر سمہا راؤ کے دور میں بابری مسجد کا انہدام ہوا، پارٹی کا مستقبل اسی وقت سے اندھیرے میں جانے لگا، مسجد توڑنے کی نحوست اس پارٹی کو لگ گئی اور اس کی قیادت کرنے والے لال کرشن اڈوانی کی مٹی جس طرح پلید ہوئی وہ جگ ظاہر ہے ، لالو پرشاد یادو نے ایک بار اڈوانی جی کو پارلیامنٹ میں کہا تھا کہ آپ کبھی وزیر اعظم نہیں بن سکتے، اس لیے کہ آپ نے مسجد توڑوائی ہے ، لالو جی کی یہ پیشین گوئی سچ ثابت ہوئی۔
 کانگریس کی ڈوبتی کشتی کو پار  اتارنے کے لیے سونیا گاندھی نے جد وجہد کی اور راہل گاندھی کو صدر بنانے تک مسلسل لگی رہیں، اب ان کی صحت بھی خراب رہتی ہے، اس کے باوجود انہوں  نے من موہن سنگھ کے ذریعہ ہندوستان کا اقتدار سنبھالا اور کامیابی کے ساتھ چلایا، لیکن راہل گاندھی کے دور میں کانگریس سمٹنے لگی اور مسلسل شکست سے دوچار ہونے کے بعد انہوں نے کانگریس کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا، چنانچہ اس ملک گیر پارٹی کو دوسرا صدر آج تک نہیں مل سکا، سونیا گاندھی کے ذریعہ کام چلایا جا رہا ہے ۔
 سونیا گاندھی نے اپنی بیٹی پرینکا گاندھی کو اتر پردیش میں کانگریس کو مضبوط کرنے کے لیے اتارا ، توقع تھی کہ وہ اس کے مردہ جسم میں  روح پھونک سکیں گی ، لیکن ایسانہیں ہو سکا، ان کی ساری محنت کے باوجود اتر پردیش میں کانگریس کو منہہ کی کھانی پڑی اور وہ اپنی روایتی سیٹ رائے بریلی کو بھی نہیں بچا پائیں، اب صورت حال یہ ہے کہ کانگریس راجستھان اور چھتیس گڈھ میں حکومت میں ہے، بعض ریاستیں مثلا مہاراشٹر وغیرہ میں اشتراک کے ساتھ حکومت چلا رہی ہے جس میں اس کی دخل اندازی بھی برائے نام ہی ہے۔
 کانگریس کی اس بگڑتی صورت حال کو دیکھ کر بعض قد آور لیڈران  نےجن میں غلام نبی آزاد اور کپل سبل جیسے لوگ شامل ہیں، اصلاح کی آواز بلند کی اور جی 23کے نام سے ایک گروپ بنایا ، لیکن یہ لوگ گاندھی خاندان کے نزدیک مطعون اور مشکوک قرار پائے اور ان کی باتوں کو نہیں سنا گیا،  شکست کے بعد جو کانگریس کی میٹنگ حال میں  ہوئی اس میں بھی ان حضرات نے آواز بلند کی ، لیکن صدا بصحرا ثابت ہوئی ۔ ایسے میں زوال کے علاوہ اور کیا مقدر ہوگا۔
 در اصل کانگریس عرصۂ دراز سے نہرو گاندھی خاندان کی مرہون منت رہی ہے ، جمہوری حکومت میں خاندانی نظام دیر پا نہیں ہوتا، کانگریس کو گاندھی خاندان سے باہر نکلنا ہوگا، داخلی آزادی بحال کرنی ہوگی، لیڈران کے مشورے پر کان دھرنا ہوگا، تبھی اس پارٹی کے تنِ مردہ میں جان ڈالی جا سکے گی ، ورنہ کانگریس مُکت بھارت بنانے کا بھاجپا کا خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے گا۔

منگل, مارچ 22, 2022

مرضی مولی از ہمہ اولی ___✍️مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مرضی مولی از ہمہ اولی ___
✍️مفتی محمد ثناءالہدی  قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
انسان اس دنیا میں اپنے مقاصد کی تکمیل اور اپنی خواہشات کے مطابق زندگی گذارنے کے لیے قسم قسم کی تدبیریں کرتا رہتا ہے، ان تدبیروں کو کار گر کرنے کے لیے کسی بھی سطح تک جانے کو تیار رہتا ہے، جادو، ٹونے، ٹوٹکے کے ذریعہ بھی اگر ممکن ہو تو مقاصد تک پہونچنے کے لیے زور لگا تا ہے، بس میں ہو تو اپنے مخالفین کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے منصوبے بناتا ہے، اللّٰہ رب العزت ان منصوبوں کو ناکام کرنے اور اپنی مشیت کے مطابق کاموں کو انجام دیا کرتا ہے، اللّٰہ کی مشیت کسی  چیز کی محتاج نہیں ، اللّٰہ  جیسا چاہتا ہے ویساہی ہوجاتا ہے، انسانی فہم سے بات کو قریب کرنے کے لیے اللّٰہ تعالیٰ نے اسے ’’مکر‘‘ یعنی تدبیر سے تعبیر کیا ہے، بندہ بھی تدبیریں کرتا ہے اور اللّٰہ بھی تدبیریں کرتے ہیں اور اللّٰہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے، وہ جو کرتا ہے ا چھا کرتا ہے، یہ الگ سی بات ہے کہ بندہ کے عقل وشعور کی رسائی اور اس کی ذہنی رَو کا ادراک وہاں تک نہیں پہونچ پاتا اور وہ سوچتا ہے کہ یہ میرے حق میں اچھا نہیں ہوا، لیکن اللّٰہ کی نظر میں اس کی ضرورت وحاجت ہوتی ہے اور اس کے بغیر معاملہ صحیح رخ کی طرف نہیں جاتا ، اس لیے ایسے واقعات کا ظہور ہوتا ہے ، جو انسان کو جھنجھوڑے اور اس کے دل ودماغ کوبے چین کردے کہ یہ سب کیوں ہو گیا ؛کیسے ہو گیا ، اس کی وجہ سے نقصانات کے امکانات بڑھ گیے ، لیکن ہم ایمان والوں کا ایمان ویقین ہے کہ کوئی کام اللّٰہ کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا ، اگر کوئی پتّہ بھی حرکت کرتا ہے تو اس میں اللّٰہ کی مرضی شامل ہوتی ہے، اور یہ مرضی سب چیزوں پر مقدم ہے، مرضی مولیٰ از ہمہ او لیٰ کا مفہوم یہی ہے، بندہ جن احوال وواقعات کو پسند نہیں کرتا، وہ اللّٰہ کی نظر میں بندہ کے حق میں ہوتا ہے، اور کبھی بندہ جس چیز کوپسند کرتا ہے ،وہ اس کے لئے مناسب نہیں ہوتا ، اس لیے کہ اللّٰہ جانتا ہے، بندہ نہیں جانتا ۔
پانچ ریاستوں کے حالیہ انتخاب کے نتائج کو ہمیں اسی پس منظر میں دیکھنا چاہیے، یہ نتائج خلاف توقع ہیں اور ایک ایسی پارٹی کے حق میں گیے ہیں، جس کی مسلم دشمنی سورج کی روشنی سے زیادہ واضح ہے، حکومت پانے کے بعد فرقہ پرستوں کے حوصلے اتنے بلند ہو گیے ہیں کہ کئی گاؤں میں مسلم مخالف نعرے لگ رہے ہیں، مسجدوں  سے مائک اتار نے کے واقعات سا ملنے آرہے ہیں   بعض گاؤں میں نکسلیوں کے طرز پر مسلمانوں کو گاؤں خالی کرنے کی نوٹس لگائی گئی ہے اور نوٹس کی تعمیل نہ کرنے پر سخت نتائج کی دھمکی دی جا رہی ہے، ایک نوٹس میں  امریکہ کے طرز پر مسلمانوں کو ہراساں اور پریشان کرنے کی بات کہی گئی ہے، ظاہر ہے یہ طرز عمل اس ملک کے لیے انتہائی خطرناک ہے، مسلمان پہلے بھی ، صبر، عدم تشدد ، تحمل ، برداشت کے ساتھ زندگی گذارتے رہے ہیں،اس حقیقت کے با وجود کہ ہم نے چوڑیاں نہیں پہن رکھی ہیں اور نہ ہی چوڑیاں ہم نے توڑی ہیں، مسلمانوں کا طرز عمل بقائے باہم کے اصول پر زندگی گذارنے کا رہا ہے، اور یہ صرف آج کی بات نہیں ہے ، مسلمان جب اس ملک میں حکمراں تھے، اس وقت بھی ان کی رواداری مثالی تھی اور اسی رواداری کے طفیل مسلم عہد حکومت میں مختلف مذاہب کو پھلنے پھولنے کا یہاں موقع ملا ، ورنہ جس طرح دس  سال کی حکومت میں ہندو احیا پسندوں نے مسلمانوں کے خلاف ہنگامہ مچا رکھا ہے، اگر مسلمانوں نے یہ طرز عمل اپنایا ہوتا تو ہندوستان میں دوسرے کسی مذہب کا وجود باقی نہیں رہتا ۔
ان حالات میں غور وفکر کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ’’ اعمالکم عمالکم‘‘ کہا گیا ہے ، یعنی تمہارے اعمال ہی در اصل تمہارے حکمرانوں کی صورت میں جلوہ گر ہوتے ہیں ، اعمال اچھے ہوں گے تو حکمراں اچھے آئیں گے ، اعمال خراب ہوں گے تو ظالم حکمراں مسلط کر دیے جائیں گے ، اس لیے سوچنا چاہیے کہ یہ ہمارے بد اعمالیوں کی سزا تو نہیں ہے، اگر ایسا ہے اور یقینا ہے، تو ہمیں اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے اور انابت الی اللہ کے ساتھ اپنے ا عمال کو صالح اور صحیح رخ دینا چاہیے۔ جو احکام خدا وندی اور طریقہ نبوی کے مطابق ہو ، اللّٰہ کی رحمت وسیع ہے، ہمارے اعمال بد لیں گے تو ہم رحمت خدا وندی کے مستحق قرار پائیں گے، یوں بھی اللّٰہ کی رحمت ونصرت ہمیں حاصل نہیں ہوتی تو کب کا ہمارا کام تمام ہوجاتا ، اقبال کا یہ شعر غیری اختیار ی طور پر قلم کی نوک پر آگیا ہے۔
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
صدیوں رہا ہے دشمن دور زماں ہمارا 

تاتاریوں کے غلبہ کے بعد ایک شہزادی نے مسلمانوں سے سوال کیا کہ تمہارے اللّٰہ نے حکومت ہمارے حوالہ کر دیا اور تم کو ذلت وخواری کا سامنا کرنا پڑا ، کیا اس سے یہ نہیں لگتا کہ تمہارے اللّٰہ ہم سے زیادہ خوش ہیں اور اس کی محبت ونصرت کے ہم حقدار ہیں، ایک اہل اللّٰہ نے بڑا قیمتی جواب دیا ، کہا کہ بکریاں اپنے ریوڑ سے نکل کر ادھر ادھر ہونے لگتی ہیں تو اس کو پھر سے ریوڑ میں لانے کے لیے اس کے پیچھے کتے دوڑائے جاتے ہیں، یہ کتے ان بکریوں کے پاس آگے ، پیچھے دائیں بائیں اس قدر بھونکتے ہیں کہ  بکریاں خوف کھا کر پھر سے ریوڑ میں آجاتی ہیں، کتے یہ کام اس وقت تک کرتے رہتے ہیں ،جب تک بکریاں ریوڑ میں واپس نہیں آئیں بکریاں جیسے ہی ریوڑ میں آئیں ان کتوں کا کام ختم ہوجاتا ہے،ا س لیے حکومت فرقہ پرستوں کے حوالہ کرنے کا مقصد یہی ہے کہ بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لا یا جائے ، جس دن یہ مقصد پورا ہو گیا، سب کچھ بدل جائے گا یہ تدبیر الٰہی ہے اور اللّٰہ اچھی تدبیر کرنے والا ہے۔

حجاب کیس: ججوں کے خلاف بیانات ، توہین عدالت کی کارروائی کا مطالبہ

حجاب کیس: ججوں کے خلاف بیانات ، توہین عدالت کی کارروائی کا مطالبہ

بنگلورو: پچھلے ہفتے کے شروع میں، ایک وکیل نے کرناٹک ہائی کورٹ کے رجسٹرار جنرل کو خط لکھا تھا کہ حجاب تنازعہ کے فیصلے کے سلسلے میں ججوں اور عدالت کے خلاف مختلف بیانات دینے پر کم از کم سات تنظیموں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے۔

خط میں درج ذیل تنظیموں کے نام درج کیے گئے ہیں:  کرناٹک ودیارتھی سنگٹھن، اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا، کرناٹک، اسٹوڈنٹ کرسچن موومنٹ آف انڈیا، ، دلت ودیارتھی پریشد، کرناٹک،اجتماعی، بنگلور، گرلز اسلامک آرگنائزیشن، کرناٹک، امارت شرعیہ کرناٹک کے صغیر احمد رشدی اور دیگر تنظیمیں، جنہوں نے کرناٹک بند کی کال دی تھی۔

 یہ درخواست ایڈوکیٹ امریش این پی کے ذریعہ کی گئی تھی، جس نے الزام لگایا تھا کہ فیصلے کے خلاف کرناٹک بند کی کال سمیت تنظیموں کی کارروائیوں کا مقصد عدالت کو بدنام کرنا، اس کے اختیار کو کم کرنا اور انصاف کی انتظامیہ میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔

 کرناٹک ہائی کورٹ نے 15 مارچ کو گورنمنٹ آرڈر کو برقرار رکھا جس میں ریاستی سرکاری کالجوں کی کالج ڈیولپمنٹ کمیٹیوں کو کالجوں کے لیے یونیفارم تجویز کرنے کا اختیار دیا گیا تھا اور اس طرح مسلم طالبات کو کالج کے احاطے میں حجاب (ہیڈ اسکارف) پہننے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔

چیف جسٹس ریتو راج اوستھی اور جسٹس کرشنا ایس ڈکشٹ اور جسٹس جے ایم کھاجی پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کہا تھا کہ- حجاب اسلام کے ضروری مذہبی طریقوں کا حصہ نہیں ہے۔

 یونیفارم کی ضرورت آرٹیکل 19(1)(اے) کے تحت اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی حق پر ایک معقول پابندی ہے۔

 حکومت کو حکم پاس کرنے کا حق ہے؛ اسے باطل کرنے کا کوئی مقدمہ نہیں بنایا گیا ہے۔

 فیصلہ سنانے والے تینوں ججوں کو بعد میں چیف جسٹس اوستھی کو جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے کے بعد وائی کلاس سیکیورٹی فراہم کی گئی۔ اس سلسلے میں بنگلورو کے ودھانا سودھا پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی گئی ہے۔


پیر, مارچ 21, 2022

جموں میں مقیم فوج کی ٹائیگر ڈویژن نے اپنا 80واں یوم تاسیس منایا

جموں میں مقیم فوج کی ٹائیگر ڈویژن نے اپنا 80واں یوم تاسیس منایاجموں,21 مارچ (ہ س),فوج کے جموں میں مقیم ٹائیگر ڈویژن نے پیر کو اپنا 80 واں یوم تاسیس منایا جس میں قوم کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے والے فوجیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے پھولوں کی چادر چڑھائی گئیں۔ جموں کے پی آر او (دفاع) لیفٹیننٹ کرنل دیویندر آنند نے کہا کہ ''رائزنگ اسٹار کور کے ٹائیگر ڈویژن نے آج یہاں اپنا 80 واں یوم تاسیس منایا۔ "اس موقع کو یادگار بنانے کے لیے، بریگیڈیئر گوتم سیگن، ڈپٹی جی او سی ٹائیگر ڈویژن اور لیفٹیننٹ کرنل رشما سرین نے ٹائیگر وار میموریل پر پھولوں کی چادر چڑھائی، سرونگ آفیسرز، جے سی اوز اور ڈویژن کے دیگر رینک نے بہادروں کو ان کی عظیم قربانی کے لیے خراج عقیدت پیش کیا،" کرنل آنند نے کہا کہ "ڈویژن کے تمام شہید جوانوں کے احترام میں دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ کرنل آنند نے مزید کہا کہ میجر جنرل نیرج گوسائین، جی او سی ٹائیگر ڈویژن تمام رینک اور ان کے اہل خانہ کو تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتے ہیں اور تمام رینکس کو قوم کی خدمت کے لیے خود کو وقف کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ کرنل آنند نے کہا کہ "ڈویژن کو ابتدائی طور پر 1942 میں اٹھایا گیا تھا اور اس نے دوسری جنگ عظیم میں حصہ لیا تھا، انہوں نے مزید کہا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد، اسے غیر متحرک کر دیا گیا تھا اور پہلی پاک بھارت جنگ کے دوران مارچ 1948 میں دوبارہ اٹھایا گیا تھا۔ کرنل آنند نے کہا کہ اس کے بعد سے اس نے 1965 اور 1971 کی جنگوں میں حصہ لیا ہے، اور مختلف آپریشنز جیسے او پی وجے، او پی پراکرم اور او پی غفران میں، جہاں اس نے اپنی بہادری کے لیے نام کمائے ہیں۔اصغر

جامعہ ملیہ :آج وی سی نجمہ اختر کو پدم شری اعزاز سے نواز اجائے گا

جامعہ ملیہ :آج وی سی نجمہ اختر کو پدم شری اعزاز سے نواز اجائے گا

عزت مآب صدر جمہوریہ رام ناتھ کوندپروفیسر نجمہ اختر،شیخ الجامعہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ کومؤرخہ اکیس مارچ دوہزار بائیس کو ملک کے چوتھے سب سے اعلی شہری اعزاز پدم شری سے سرفراز کریں گے۔واضح رہے کہ انعام واعزاز کی یہ تقریب راشٹرپتی بھون کے دربار ہال میں منعقد ہوگی۔حکومت ہند نے پروفیسر نجمہ اختر کو ادب اور تعلیم کے میدان میں ان کی نمایاں اور گراں قدر خدمات کے پیش نظر اس اعزاز کے لیے منتخب کیاہے۔ اعزازیہ تقریب کی ویڈیو پدم ایوارڈ پورٹل

https://www.padmaawards.gov.in

پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے

 پروفیسر نجمہ اخترکو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی خاتون شیخ الجامعہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ ایسا ادارہ ہے جسے نیشنل ایکریڈیشن اینڈ اسیسمنٹ کونسل (ناک) نے دسمبر دوہزار اکیس میں اے پلس پلس گریڈ دیا ہے۔ ملک کے اعلی تعلیمی اداروں میں معیاری تعلیم کی فراہمی میں انقلاب لانے والی ماہر تعلیم خاتون کے بطور بڑے پیمانے پر ان کی شناخت قائم ہوئی ہے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ نے ان کی فعال قیاد ت میں نیشنل انسٹی ٹیوشنل رنکنگ فریم ورک(این آئی آر ایف) وزارت تعلیم،حکومت ہند کی رینکنگ میں چھٹا مقام حاصل کیا ہے۔سال دوہزار انیس اور بیس کے لیے وزارت تعلیم کی جانب سے کیے جانے والے جملہ مرکزی یونیورسٹیوں میں مظاہرہ کی جانچ میں پنچانوے اعشاریہ دوتین فی صد کے ساتھ نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔

پروفیسرنجمہ اختر مؤرخہ تیرہ نومبر انیس سو ترپن میں پیدا ہوئیں۔انھوں نے تعلیم کے میدان میں ’اے کمپری ہینسیو اسٹڈی آن کنوینشنل اینڈ ڈسٹینس ایجوکیشن سسٹم آف ہائر ایجوکیشن‘ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ایم۔اے میں طلائی تمغہ بھی حاصل کیاساتھ ہی تعلیم میں ایم اے اور نباتیات سے ایم ایس سی بھی کیا ہے۔ 

انھوں نے نیشنل یونیورسٹی آف ایجوکیشنل پلاننگ اینڈ ایڈمنسٹریشن (این یوای پی اے) نئی دہلی میں ڈپارٹمنٹ آف ٹریننگ اینڈ کیپی سیٹی بلڈنگ ان ایجوکیشن میں بطورپروفیسر اور صدر کے اپنے فرائض انجام دیے ہیں۔انھوں نے اگنو دہلی میں بھی فاصلاتی نظام تعلیم پروگرام میں خدمات انجام دی ہیں اور الہ آباد اترپردیش میں اسٹیٹ ڈائریکٹر آ ف دی اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشنل مینجمنٹ اینڈ ٹریننگ (ایس آئی ای ایم اے ٹی) کی فاؤنڈنگ ڈائریکٹر بھی رہی ہیں۔اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں کنٹرولر امتحانات اور داخلہ کے ساتھ ساتھ اکیڈمک پروگرام کی ڈائریکٹر بھی رہ چکی ہیں۔

 پروفیسر اختر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی(مانو) حیدرآباد، دہلی یونیورسٹی، آسام یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تقرری کمیٹی اور داخلہ کمیٹی کی ویزیٹر نامنی بھی رہی ہیں۔وہ دہلی پبلک اسکول کی مینجمنٹ کمیٹی میں بھی رہی ہیں،بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈکی اعلی بااختیار کمیٹی کی رکن بھی رہی،وزارت دفاع کی اعلی سطحی اکسپرٹ کمیٹی کی رکن بھی رہیں،وزارت تعلیم،حکومت ہند کی نیشنل اسٹیرنگ کمیٹی کی رکن رہیں،بورڈ آف مینجمنٹ، جامعہ ہمدرد،دہلی ممبر آف جنرل اسمبلی آف کونسل انڈین کونسل آف کلچرل ریلیشنز(آئی سی سی آر) نئی دہلی،رکن نیشنل اکیڈمک مشاورتی کمیٹی انڈین سوشل سائنس اکیڈمی اینڈ سرچ کمیٹی فار اپوائنٹمنٹ آف نیو وائس چانسلر آف کشمیریونیورسٹی۔،این ای پی دوہزاربیس کے ماہرین کے گروپ کی رکن،اسپیکر آف سینیٹ،آئی آئی ٹی دہلی، رکن یونیورسٹی کونسل کلسٹر یونیورسٹی،سری نگراور رکن گورننگ کونسل،ایسوسی ایشن آف انڈین یونیورسٹیز۔


اتوار, مارچ 20, 2022

Nizamuddin markaz: تبلیغی جماعت کے مرکز کو ایک دن کے لئے کھولنا مسلمانوں کے ساتھ مذاق

Nizamuddin markaz: تبلیغی جماعت کے مرکز کو ایک دن کے لئے کھولنا مسلمانوں کے ساتھ مذاق

اے آئی ایم آئی ایم کے صدر کلیم الحفیظ نے کہا کہ دہلی کے شراب خانےکھلے ہیں،تمام مندر اور گروداوروں میں عقیدت مند وں کا ہجوم ہے،مسجدیں بھی کھلی ہیں تو پھر مرکز پر تالا کیوں ہے؟Nizamuddin Markaz Reopened For Two Days on Delhi HC's Orders

کل ہند مجلس اتحاد المسلمین دہلی یونٹ نے تبلیغی جماعت کے مرکز کوشب برأت کے موقع پر ایک دن کے لیےکھولا جانا مسلمانوں کے ساتھ بھونڈا مذاق قرار دیا ہے۔ایم آئی ایم کے دہلی صدر کلیم الحفیظ نے کہا کہ دہلی میں تمام اسکولز کھول دیے گئے،سنیما گھر کھل گئے،تمام عبادت گاہیں بھی کھلی ہیں،ریلیاں اور روڈ شو بھی ہورہے ہیں،لیکن تبلیغی جماعت کے مرکز کو کھولنے کے لیے کر دہلی حکومت اورمرکزی حکومت کا متعصبانہ رویہ جاری ہے۔Reopening of Nizamuddin Markaz During Shab-e Barat اے آئی ایم آئی ایم کے صدر کلیم الحفیظ نے کہا کہ دہلی کے شراب خانےکھلے ہیں،تمام مندر اور گروداوروں میں عقیدت مند وں کا ہجوم ہے،مسجدیں بھی کھلی ہیں تو پھر مرکز پر تالا کیوں ہے؟

کلیم الحفیظ

انہوں نے کہا کہ دہلی حکومت نے کورونا پھیلانے کا جھوٹا اور گھناؤنا الزام تبلیغی جماعت سے وابستہ ارکان پر عائد کیا تھا، اور تبلیغی جماعت کے کارکنان پر ملک بھر میں ایف آئی آر درج ہوئی تھیں،جن کو عدالتوں نے نہ صرف باعزت بری کردیا ہے بلکہ حکومتوں کو پھٹکار بھی لگائی ہے اس کے باوجود مرکز کا تالاکھولے جانے پر آنا کانی کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شب برأت کے موقع پر وقف بورڈ نے ایک دن کے لیے مرکز کھلواکر مذاق کیا ہے۔یہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا اظہار ہے۔مگر اسے یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا میں بھی اس کا حساب ہوگا اور اوپر والا حشر میں بھی حساب لے گا۔ کلیم الحفیظ نے سوال کیا کہ کیا مرکز میں کوئی غیر قانونی کا م ہوتا ہے؟۔کیا عبادت کرنے سے ملک کے امن و امان کو خطرہ ہے۔کیا بیرون ملک سے آنے والوں سے ہندوستانی معیشت کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا؟دراصل یہ سب وقف بورڈ کی لاپرواہی ہے۔ وقف بورڈ کو عدالت سے معلوم کرنا چاہئے کہ مرکز ابھی تک بند کیوں ہے؟ اور اس سلسلے میں جو لوگ قصور وار ہیں ان کے خلاف مقدمات قائم کرنے چاہئے۔

مزید پڑھیں: 'مرکز نظام الدین اور تبلیغی جماعت کے اراکین کو بدنام کرنے کی منظم کوششیں ناکام ہوئیں'

کلیم الحفیظ نے کہا کہ مرکز پر حاضری سے اپنے منتخب نمائندوں کی بے بسی اور حماقت پر افسوس ہوا۔ہمارا مطالبہ ہے کہ مرکز کو فوراً کھولا جائے اوراس پر سے تمام پابندیاں ہٹائی جائیں۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...