Powered By Blogger

جمعرات, مارچ 24, 2022

روس نے گوگل کوبلاک کیا

روس نے گوگل کوبلاک کیا

ماسکو،روس کے کمیونیکیشن ریگولیٹر نے یہ اعلان کیا ہے کہ ان کے ذریعہ الفابیٹ انک کے گوگل کی نیوز ایگریگیٹر سروس کو بلاک کیاجارہا ہے۔
الجزیرہ نے جمعرات کو یہ اطلاع دی۔
ریگولیٹر نے الزام لگایا ہے کہ گوگل یوزرس کو یوکرین میں روسی فوجی مہم کے بارے میں غلط خبریں بتا رہا ہے۔
اس سے قبل، یوٹیوب نے روسی حکومت کی میڈیا تنظیم آرٹی سمیت کئی روسی چینلز کو اپنے ویڈیوز کے ساتھ چلنے والے اشتہارات سے پیسہ کمانے پر روک لگادی تھی یعنی کہ انہیں ڈیمونیٹائزکردیاتھا۔ اس کے علاوہ گوگل نے بھی روس میں آن لائن اشتہارات کی فروخت روک دی تھی۔
روسی فوج کو بدنام کرنے والے کسی بھی واقعہ کی رپورٹ کو غیرقانونی قراردئے جانے کے ایک نئے روسی قانون کی منظوری کے بعد روس کے اسٹیٹ میڈیا واچ ڈاگ روسکومناڈزور نے روسی پراسیکیوٹر جنرل کے دفتر کی درخواست پریہ کارروائی کی ہے۔

کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
حجاب مسئلہ پر کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ جو پانچ ریاستوں کے انتخاب کی وجہ سے محفوظ رکھا گیا تھا ، آگیا ہے ، یہ فیصلہ خلاف توقع نہیں ہے ، بابری مسجد، داڑھی، تین طلاق وغیرہ پر جو فیصلہ پہلے آچکا تھا اور جس تسلسل سے آیا تھا، اس کی وجہ سے حجاب میں بھی معزز جج صاحبان کا جو رخ ہوگا وہ پہلے سے معلوم تھا، پہلے اسے سنگل بینچ سے سہ نفری بینچ کو منتقل کیا گیا، اس سہ نفری بینچ میں ایک مسلم خاتون جج کو بھی رکھا گیا، تاکہ فیصلہ کو متوازن کہنے کے لیے ان کی رائے کا بھی حوالہ دیا جا سکے، اب مقدمہ سپریم کورٹ میں چلے گا، جو پہلے ہی سے وہاں دائر ہے ۔عدالت عظمیٰ کو آگے کی کاروائی  کے لیے  کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار تھا، جو اب سامنے آگیا ہے اس فیصلہ سے ان تمام لوگوں کو مایوسی ہاتھ لگی ہے جو عدالت عالیہ سے بڑی امیدیں لگائے بیٹھے تھے، کرناٹک ہائی کورٹ نے اس فیصلہ کے ساتھ ان تمام عرضیوں کو خارج کر دیا ہے جو اس مسئلہ پر دائر کی گئی تھیں، عدالت عالیہ نے اپنے فیصلے میں واضح کر دیا ہے کہ حجاب اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے ، اسکول کو یو نی فارم کی تعیین کا اختیار ہے اس معاملہ پر اسے چیلنج نہیں  کیا جاسکتا اس فیصلہ کے لیے جن کتابوں کے حوالے دیے گیے ان میں کوئی  بھی فرسٹ ریفرنس بک اولین حوالہ جاتی کتب میں شامل نہیں ہے ، اور نہ ہی قرآن واحادیث کی گہری سمجھ رکھنے والے کی تحریر کردہ ہیں ، سارے تحقیقی مقالوں میں فرسٹ ریفرنس بک کو ہی اہمیت دی جاتی ہے اور ثانوی ماخذ اس کے مقابلہ میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے، لیکن عدالت غیر معتبر ثانوی ماخذ پر اعتماد کرکے فیصلے سنا دیتی ہے ، یہ بڑا المیہ ہے ۔ مسلم فریق کے وکیل نے قرآن کریم اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے  حجاب کو شرعی حکم کا حصہ قرار دینے کی مثالی کوشش کی، لیکن فاضل جج صاحبان کے نزدیک ایک بھی بات دلیل اور حجت نہ بن سکی۔
 عدالت نے حجاب کے فیصلے میں بھی سابقہ تکنیک استعمال کیا کہ اگر داڑھی شریعت کا حصہ ہے تو وکیل صاحب بھی مسلمان ہیں ان کے چہرے پر داڑھی کیوں نہیں ہے ، حجاب اگر عورتوں کے لیے شریعت میں ضروری ہے تو اسی(80) فی صد عورتیں حجاب میں کیوں نہیں رہتیں، ہم اپنی کمی کوتاہی ، بد عملی اور بے عملی کو انفرادی اور ذاتی عمل کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں، لیکن عدالت ہماری بے عملی کو ہی دلیل کے طور پر استعمال کر لیتی ہے ، اگر حالت یہی رہی تو تمام شعائر اسلام دھیرے دھیرے عدلیہ کے فیصلے کی زد میں آجائیں گے اورہم کچھ نہیں کر پائیں گے ، تین طلاق، بابری مسجد وغیرہ کا فیصلہ ہمارے سامنے ہے ۔
 ان حالات میں قانونی لڑائی لڑنے کے ساتھ ہمیں اپنے طرز عمل کی بھی اصلاح کرنی ہوگی ، شریعت کا قانون ہم اپنے عمل سے نہیں توڑیں گے تو کسی کی ہمت نہیں ہوگی کہ وہ اس پر انگلی اٹھائے، آخر سکھوں کی پگڑی ، کڑے، کرپان غیر مسلموں کے جنو،بندی،سندور اور عیسائیوں کے گلے میں لٹکی صلیب کو یونی فارم کے خلاف کیوں نہیں سمجھا جاتا ، اس لیے کہ وہ مضبوطی سے اس پر عامل ہیں، اور اپنے مذہبی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کسی حد تک جا سکتے ہیں۔ کاش مسلمان بھی اپنے شعائر پر پورے طور پر عامل ہوتے تو یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا۔

بدھ, مارچ 23, 2022

چارہ گھوٹالہ کیس میں سزاکاٹ رہےبہار کے سابق ایم پی آر کے رانا انتقال کر گئے

چارہ گھوٹالہ کیس میں سزاکاٹ رہےبہار کے سابق ایم پی آر کے رانا انتقال کر گئے

مشہور چارہ گھوٹالے سے جڑی اس وقت کی بڑی خبر آ رہی ہے۔ چارہ گھوٹالے میں سزا یافتہ سابق ایم پی آر کے رانا کا انتقال ہو گیا ہے۔ رانا ڈورانڈا گاون کیس میں رانچی کی ہوتوار جیل میں ٹریژری سے سزا کاٹ رہے تھے۔ انہیں خرابی صحت کی وجہ سے 16 مارچ کو ریمس رانچی میں داخل کرایا گیا تھا۔ لیکن رانا کی صحت مسلسل بگڑ رہی تھی۔ ڈاکٹر کے مطابق آر کے رانا ملٹی آرگن فیل ہونے کا شکار تھے۔ اس کے کئی اعضاء ایک ساتھ خراب ہو گئے۔ اس کی وجہ سے اسے ریمس رانچی سے دہلی ریفر کر دیا گیا۔ منگل کو جیل کی کارروائی مکمل کرنے کے بعد انہیں ایمس لایا گیا تھا۔ رانا نے دہلی میں ہی آخری سانس لی۔

معلومات کے مطابق سابق ایم پی آر کے رانا کا بیٹا ان کے ساتھ ہے، سابق ایم پی کی میت کو رانچی لانے کی تیاریاں جاری ہیں۔ 21 فروری کو رانچی کی سی بی آئی عدالت نے آر جے ڈی سربراہ لالو پرساد یادو کے ساتھ آر کے رانا کو پانچ سال قید کی سزا سنائی تھی۔ ان پر 60 لاکھ کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔ آر کے رانا بہار کے کھگڑیا سے ایم پی تھے

حیدرآباد آتشزدگی واقعہ میں ہلاک 11 افراد کے خاندانوں کو فی کس 5 لاکھ روپے ایکس گریشیا دینے چیف منسٹر کا اعلان

حیدرآباد آتشزدگی واقعہ میں ہلاک 11 افراد کے خاندانوں کو فی کس 5 لاکھ روپے ایکس گریشیا دینے چیف منسٹر کا اعلان

حیدرآباد _ 23 مارچ ( اردولیکس) تلنگانہ کے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے سکندرآباد کے بھوئی گوڈہ ٹمبر ڈپو میں آگ لگنے کے واقعہ پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔جس میں 11 افراد زندہ جل کر ہلاک ہوگئے۔چیف منسٹر کے سی آر نے آتشزدگی میں بہار کے مزدوروں کی موت پر افسوس کا اظہار کیا۔انھوں نے آتشزدگی میں مرنے والوں کے لئے فی کس 5 لاکھ روپئے ایکس گریشیا کا اعلان کیا۔

چیف منسٹر نے چیف سکریٹری سومیش کمار کو ہدایت دی کہ وہ حادثے میں ہلاک بہار کے تارکین وطن مزدوروں کی نعشوں کی وطن واپسی کے انتظامات کریں۔

حیدرآباد کے ایک گودام میں بھیانک آگ لگنے سے 11 افراد زندہ جل گئے

حیدرآباد کے سکندرآباد علاقے میں ایک اسکراپ کے گودام میں بھیانک آگ لگنے کے واقعہ میں 11 افراد زندہ جل کر فوت ہوگئے ۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق سکندرآباد کے بھوئی گوڑہ میں واقع گودام میں شارٹ سرکٹ کی وجہ سے چہارشنبہ کی صبح تین بجے کے قریب اچانک آگ بھڑک اٹھی جس میں 11 افراد زندہ جل کر فوت ہوگئے۔بتایا گیا ہے گودام میں 12 افراد سو رہے تھے ان میں سے ایک شخص زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔11 زندہ جل گئے ۔پولیس اور فائر بریگیڈ کو آگ کو بجھانے کے لئے کئی گھنٹوں کا وقت لگا 5 فائر بریگیڈ کی مدد سے آگ پر قابو پایا گیا ۔حکام نے بتایا کہ حادثے میں گیارہ افراد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔ ان میں سے کچھ آگ میں جل گئے، جب کہ کچھ دم گھٹنے سے مر گئے۔ حکام نے بتایا کہ حادثے کے وقت گودام میں 12 افراد موجود تھے۔ تمام مرنے والے بہار کے مہاجر مزدور تھے۔ مرنے والوں کی شناخت بٹو، سکندر، دامودر، ستیندر، چنٹو، دنیش، راجیش، راجو، دیپک اور پنکج کے طور پر ہوئی ہے۔مزید کی شناخت باقی ہے

کانگریس کا زوال ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

کانگریس کا زوال ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخاب کے نتائج نے ثابت کر دیا ہے کہ کانگریس پارٹی تاریخ کا حصہ بن گئی ہے اور بھاجپا کا یہ نعرہ کہ ہم کانگریس مُکت بھارت بنائیں گے ، کامیاب ہوتا جا رہا ہے ، بے اختیار یہ مصرعہ نوک قلم پر آگیا کہ ’’پستی کا کوئی حد سے گذرنا دیکھے‘‘
کانگریس کی اس پستی میں گاندھی خاندان کا بڑا ہاتھ ہے، اندرا گاندھی کے دنیا چھوڑ نے کے بعد کانگریس کو مضبوط قیادت نہیں ملی، راجیو گاندھی ، اندراجی کے کفن پر اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے، جس طرح کسی سرکاری ملازم کے انتقال کے بعد ہمدردی ّ(انوکمپا) کی بناء پر ملازمت دیدی جاتی ہے، راجیو گاندھی بھی وزیر اعظم بن گیے، نر سمہا راؤ کے دور میں بابری مسجد کا انہدام ہوا، پارٹی کا مستقبل اسی وقت سے اندھیرے میں جانے لگا، مسجد توڑنے کی نحوست اس پارٹی کو لگ گئی اور اس کی قیادت کرنے والے لال کرشن اڈوانی کی مٹی جس طرح پلید ہوئی وہ جگ ظاہر ہے ، لالو پرشاد یادو نے ایک بار اڈوانی جی کو پارلیامنٹ میں کہا تھا کہ آپ کبھی وزیر اعظم نہیں بن سکتے، اس لیے کہ آپ نے مسجد توڑوائی ہے ، لالو جی کی یہ پیشین گوئی سچ ثابت ہوئی۔
 کانگریس کی ڈوبتی کشتی کو پار  اتارنے کے لیے سونیا گاندھی نے جد وجہد کی اور راہل گاندھی کو صدر بنانے تک مسلسل لگی رہیں، اب ان کی صحت بھی خراب رہتی ہے، اس کے باوجود انہوں  نے من موہن سنگھ کے ذریعہ ہندوستان کا اقتدار سنبھالا اور کامیابی کے ساتھ چلایا، لیکن راہل گاندھی کے دور میں کانگریس سمٹنے لگی اور مسلسل شکست سے دوچار ہونے کے بعد انہوں نے کانگریس کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا، چنانچہ اس ملک گیر پارٹی کو دوسرا صدر آج تک نہیں مل سکا، سونیا گاندھی کے ذریعہ کام چلایا جا رہا ہے ۔
 سونیا گاندھی نے اپنی بیٹی پرینکا گاندھی کو اتر پردیش میں کانگریس کو مضبوط کرنے کے لیے اتارا ، توقع تھی کہ وہ اس کے مردہ جسم میں  روح پھونک سکیں گی ، لیکن ایسانہیں ہو سکا، ان کی ساری محنت کے باوجود اتر پردیش میں کانگریس کو منہہ کی کھانی پڑی اور وہ اپنی روایتی سیٹ رائے بریلی کو بھی نہیں بچا پائیں، اب صورت حال یہ ہے کہ کانگریس راجستھان اور چھتیس گڈھ میں حکومت میں ہے، بعض ریاستیں مثلا مہاراشٹر وغیرہ میں اشتراک کے ساتھ حکومت چلا رہی ہے جس میں اس کی دخل اندازی بھی برائے نام ہی ہے۔
 کانگریس کی اس بگڑتی صورت حال کو دیکھ کر بعض قد آور لیڈران  نےجن میں غلام نبی آزاد اور کپل سبل جیسے لوگ شامل ہیں، اصلاح کی آواز بلند کی اور جی 23کے نام سے ایک گروپ بنایا ، لیکن یہ لوگ گاندھی خاندان کے نزدیک مطعون اور مشکوک قرار پائے اور ان کی باتوں کو نہیں سنا گیا،  شکست کے بعد جو کانگریس کی میٹنگ حال میں  ہوئی اس میں بھی ان حضرات نے آواز بلند کی ، لیکن صدا بصحرا ثابت ہوئی ۔ ایسے میں زوال کے علاوہ اور کیا مقدر ہوگا۔
 در اصل کانگریس عرصۂ دراز سے نہرو گاندھی خاندان کی مرہون منت رہی ہے ، جمہوری حکومت میں خاندانی نظام دیر پا نہیں ہوتا، کانگریس کو گاندھی خاندان سے باہر نکلنا ہوگا، داخلی آزادی بحال کرنی ہوگی، لیڈران کے مشورے پر کان دھرنا ہوگا، تبھی اس پارٹی کے تنِ مردہ میں جان ڈالی جا سکے گی ، ورنہ کانگریس مُکت بھارت بنانے کا بھاجپا کا خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے گا۔

منگل, مارچ 22, 2022

مرضی مولی از ہمہ اولی ___✍️مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مرضی مولی از ہمہ اولی ___
✍️مفتی محمد ثناءالہدی  قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
انسان اس دنیا میں اپنے مقاصد کی تکمیل اور اپنی خواہشات کے مطابق زندگی گذارنے کے لیے قسم قسم کی تدبیریں کرتا رہتا ہے، ان تدبیروں کو کار گر کرنے کے لیے کسی بھی سطح تک جانے کو تیار رہتا ہے، جادو، ٹونے، ٹوٹکے کے ذریعہ بھی اگر ممکن ہو تو مقاصد تک پہونچنے کے لیے زور لگا تا ہے، بس میں ہو تو اپنے مخالفین کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے منصوبے بناتا ہے، اللّٰہ رب العزت ان منصوبوں کو ناکام کرنے اور اپنی مشیت کے مطابق کاموں کو انجام دیا کرتا ہے، اللّٰہ کی مشیت کسی  چیز کی محتاج نہیں ، اللّٰہ  جیسا چاہتا ہے ویساہی ہوجاتا ہے، انسانی فہم سے بات کو قریب کرنے کے لیے اللّٰہ تعالیٰ نے اسے ’’مکر‘‘ یعنی تدبیر سے تعبیر کیا ہے، بندہ بھی تدبیریں کرتا ہے اور اللّٰہ بھی تدبیریں کرتے ہیں اور اللّٰہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے، وہ جو کرتا ہے ا چھا کرتا ہے، یہ الگ سی بات ہے کہ بندہ کے عقل وشعور کی رسائی اور اس کی ذہنی رَو کا ادراک وہاں تک نہیں پہونچ پاتا اور وہ سوچتا ہے کہ یہ میرے حق میں اچھا نہیں ہوا، لیکن اللّٰہ کی نظر میں اس کی ضرورت وحاجت ہوتی ہے اور اس کے بغیر معاملہ صحیح رخ کی طرف نہیں جاتا ، اس لیے ایسے واقعات کا ظہور ہوتا ہے ، جو انسان کو جھنجھوڑے اور اس کے دل ودماغ کوبے چین کردے کہ یہ سب کیوں ہو گیا ؛کیسے ہو گیا ، اس کی وجہ سے نقصانات کے امکانات بڑھ گیے ، لیکن ہم ایمان والوں کا ایمان ویقین ہے کہ کوئی کام اللّٰہ کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا ، اگر کوئی پتّہ بھی حرکت کرتا ہے تو اس میں اللّٰہ کی مرضی شامل ہوتی ہے، اور یہ مرضی سب چیزوں پر مقدم ہے، مرضی مولیٰ از ہمہ او لیٰ کا مفہوم یہی ہے، بندہ جن احوال وواقعات کو پسند نہیں کرتا، وہ اللّٰہ کی نظر میں بندہ کے حق میں ہوتا ہے، اور کبھی بندہ جس چیز کوپسند کرتا ہے ،وہ اس کے لئے مناسب نہیں ہوتا ، اس لیے کہ اللّٰہ جانتا ہے، بندہ نہیں جانتا ۔
پانچ ریاستوں کے حالیہ انتخاب کے نتائج کو ہمیں اسی پس منظر میں دیکھنا چاہیے، یہ نتائج خلاف توقع ہیں اور ایک ایسی پارٹی کے حق میں گیے ہیں، جس کی مسلم دشمنی سورج کی روشنی سے زیادہ واضح ہے، حکومت پانے کے بعد فرقہ پرستوں کے حوصلے اتنے بلند ہو گیے ہیں کہ کئی گاؤں میں مسلم مخالف نعرے لگ رہے ہیں، مسجدوں  سے مائک اتار نے کے واقعات سا ملنے آرہے ہیں   بعض گاؤں میں نکسلیوں کے طرز پر مسلمانوں کو گاؤں خالی کرنے کی نوٹس لگائی گئی ہے اور نوٹس کی تعمیل نہ کرنے پر سخت نتائج کی دھمکی دی جا رہی ہے، ایک نوٹس میں  امریکہ کے طرز پر مسلمانوں کو ہراساں اور پریشان کرنے کی بات کہی گئی ہے، ظاہر ہے یہ طرز عمل اس ملک کے لیے انتہائی خطرناک ہے، مسلمان پہلے بھی ، صبر، عدم تشدد ، تحمل ، برداشت کے ساتھ زندگی گذارتے رہے ہیں،اس حقیقت کے با وجود کہ ہم نے چوڑیاں نہیں پہن رکھی ہیں اور نہ ہی چوڑیاں ہم نے توڑی ہیں، مسلمانوں کا طرز عمل بقائے باہم کے اصول پر زندگی گذارنے کا رہا ہے، اور یہ صرف آج کی بات نہیں ہے ، مسلمان جب اس ملک میں حکمراں تھے، اس وقت بھی ان کی رواداری مثالی تھی اور اسی رواداری کے طفیل مسلم عہد حکومت میں مختلف مذاہب کو پھلنے پھولنے کا یہاں موقع ملا ، ورنہ جس طرح دس  سال کی حکومت میں ہندو احیا پسندوں نے مسلمانوں کے خلاف ہنگامہ مچا رکھا ہے، اگر مسلمانوں نے یہ طرز عمل اپنایا ہوتا تو ہندوستان میں دوسرے کسی مذہب کا وجود باقی نہیں رہتا ۔
ان حالات میں غور وفکر کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ’’ اعمالکم عمالکم‘‘ کہا گیا ہے ، یعنی تمہارے اعمال ہی در اصل تمہارے حکمرانوں کی صورت میں جلوہ گر ہوتے ہیں ، اعمال اچھے ہوں گے تو حکمراں اچھے آئیں گے ، اعمال خراب ہوں گے تو ظالم حکمراں مسلط کر دیے جائیں گے ، اس لیے سوچنا چاہیے کہ یہ ہمارے بد اعمالیوں کی سزا تو نہیں ہے، اگر ایسا ہے اور یقینا ہے، تو ہمیں اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے اور انابت الی اللہ کے ساتھ اپنے ا عمال کو صالح اور صحیح رخ دینا چاہیے۔ جو احکام خدا وندی اور طریقہ نبوی کے مطابق ہو ، اللّٰہ کی رحمت وسیع ہے، ہمارے اعمال بد لیں گے تو ہم رحمت خدا وندی کے مستحق قرار پائیں گے، یوں بھی اللّٰہ کی رحمت ونصرت ہمیں حاصل نہیں ہوتی تو کب کا ہمارا کام تمام ہوجاتا ، اقبال کا یہ شعر غیری اختیار ی طور پر قلم کی نوک پر آگیا ہے۔
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
صدیوں رہا ہے دشمن دور زماں ہمارا 

تاتاریوں کے غلبہ کے بعد ایک شہزادی نے مسلمانوں سے سوال کیا کہ تمہارے اللّٰہ نے حکومت ہمارے حوالہ کر دیا اور تم کو ذلت وخواری کا سامنا کرنا پڑا ، کیا اس سے یہ نہیں لگتا کہ تمہارے اللّٰہ ہم سے زیادہ خوش ہیں اور اس کی محبت ونصرت کے ہم حقدار ہیں، ایک اہل اللّٰہ نے بڑا قیمتی جواب دیا ، کہا کہ بکریاں اپنے ریوڑ سے نکل کر ادھر ادھر ہونے لگتی ہیں تو اس کو پھر سے ریوڑ میں لانے کے لیے اس کے پیچھے کتے دوڑائے جاتے ہیں، یہ کتے ان بکریوں کے پاس آگے ، پیچھے دائیں بائیں اس قدر بھونکتے ہیں کہ  بکریاں خوف کھا کر پھر سے ریوڑ میں آجاتی ہیں، کتے یہ کام اس وقت تک کرتے رہتے ہیں ،جب تک بکریاں ریوڑ میں واپس نہیں آئیں بکریاں جیسے ہی ریوڑ میں آئیں ان کتوں کا کام ختم ہوجاتا ہے،ا س لیے حکومت فرقہ پرستوں کے حوالہ کرنے کا مقصد یہی ہے کہ بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لا یا جائے ، جس دن یہ مقصد پورا ہو گیا، سب کچھ بدل جائے گا یہ تدبیر الٰہی ہے اور اللّٰہ اچھی تدبیر کرنے والا ہے۔

حجاب کیس: ججوں کے خلاف بیانات ، توہین عدالت کی کارروائی کا مطالبہ

حجاب کیس: ججوں کے خلاف بیانات ، توہین عدالت کی کارروائی کا مطالبہ

بنگلورو: پچھلے ہفتے کے شروع میں، ایک وکیل نے کرناٹک ہائی کورٹ کے رجسٹرار جنرل کو خط لکھا تھا کہ حجاب تنازعہ کے فیصلے کے سلسلے میں ججوں اور عدالت کے خلاف مختلف بیانات دینے پر کم از کم سات تنظیموں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے۔

خط میں درج ذیل تنظیموں کے نام درج کیے گئے ہیں:  کرناٹک ودیارتھی سنگٹھن، اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا، کرناٹک، اسٹوڈنٹ کرسچن موومنٹ آف انڈیا، ، دلت ودیارتھی پریشد، کرناٹک،اجتماعی، بنگلور، گرلز اسلامک آرگنائزیشن، کرناٹک، امارت شرعیہ کرناٹک کے صغیر احمد رشدی اور دیگر تنظیمیں، جنہوں نے کرناٹک بند کی کال دی تھی۔

 یہ درخواست ایڈوکیٹ امریش این پی کے ذریعہ کی گئی تھی، جس نے الزام لگایا تھا کہ فیصلے کے خلاف کرناٹک بند کی کال سمیت تنظیموں کی کارروائیوں کا مقصد عدالت کو بدنام کرنا، اس کے اختیار کو کم کرنا اور انصاف کی انتظامیہ میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔

 کرناٹک ہائی کورٹ نے 15 مارچ کو گورنمنٹ آرڈر کو برقرار رکھا جس میں ریاستی سرکاری کالجوں کی کالج ڈیولپمنٹ کمیٹیوں کو کالجوں کے لیے یونیفارم تجویز کرنے کا اختیار دیا گیا تھا اور اس طرح مسلم طالبات کو کالج کے احاطے میں حجاب (ہیڈ اسکارف) پہننے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔

چیف جسٹس ریتو راج اوستھی اور جسٹس کرشنا ایس ڈکشٹ اور جسٹس جے ایم کھاجی پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کہا تھا کہ- حجاب اسلام کے ضروری مذہبی طریقوں کا حصہ نہیں ہے۔

 یونیفارم کی ضرورت آرٹیکل 19(1)(اے) کے تحت اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی حق پر ایک معقول پابندی ہے۔

 حکومت کو حکم پاس کرنے کا حق ہے؛ اسے باطل کرنے کا کوئی مقدمہ نہیں بنایا گیا ہے۔

 فیصلہ سنانے والے تینوں ججوں کو بعد میں چیف جسٹس اوستھی کو جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے کے بعد وائی کلاس سیکیورٹی فراہم کی گئی۔ اس سلسلے میں بنگلورو کے ودھانا سودھا پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی گئی ہے۔


اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...