Powered By Blogger

جمعہ, اپریل 01, 2022

سعودی عرب میں رمضان المبارک کا چاند نظر آگیا



سعودی عرب میں رمضان المبارک کا چاند نظر آگیا

سعودی میڈیا کے مطابق سعودی عرب کےعلاقےحوطہ سدیر میں رمضان کا چاند نظر آیا، سعودی شہر تمیر میں بھی چاند نظر آنے کی شہادت ملی ہے— فوٹو: فائل
سعودی میڈیا کے مطابق سعودی عرب کےعلاقےحوطہ سدیر میں رمضان کا چاند نظر آیا، سعودی شہر تمیر میں بھی چاند نظر آنے کی شہادت ملی ہے— فوٹو: فائل

ریاض: سعودی عرب میں رمضان المبارک کا چاند نظر آگیا اور وہاں پہلا روزہ کل یعنی 2 اپریل کو ہوگا۔

سعودی میڈیا کے مطابق سعودی عرب کےعلاقےحوطہ سدیر میں رمضان کا چاند نظر آیا، سعودی شہر تمیر میں بھی چاند نظر آنے کی شہادت ملی ہے۔

علاوہ ازیں ملائیشیا اور انڈونیشیا میں رمضان کا چاند نظر نہیں آیا اور ان ممالک میں پہلا روزہ 3 اپریل کو ہوگا۔

عرب میڈیا کے مطابق برونائی میں بھی چاند نظر نہیں آیا اور وہاں بھی 3 اپریل بروز اتوار کو یکم رمضان ہوگا۔

امام کونسل ساؤتھ آسٹریلیا نے اعلان کیا ہے کہ آسٹریلیا میں پہلا روزہ 2 اپریل کو رکھا جائے گا۔

پاکستان میں رمضان کا چاند کل دیکھا جائے گا

*اخلاقیات وقت کی اہم ضرورت*

*اخلاقیات وقت کی اہم ضرورت* 
جس معاشرے میں جھوٹ اور بددیانتی عام ہوجائے وہاں کبھی امن و سکون نہیں ہوسکتا۔ جس ماحول یا معاشرہ میں اخلاقیات کوئی قیمت نہ رکھتے ہوں اور جہاں شرم و حیاء کی بجائے اخلاقی باختگی اور حیا سوزی کو منتہائے مقصود سمجھا جاتا ہو اُس قوم اور معاشرہ کا صفحہ ہستی سے مٹ جانا یقینی ہوتا ہے خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ دنیا میں عروج و ترقی حاصل کرنے والی قوم ہمیشہ اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہے جبکہ برے اخلاق کی حامل قوم زوال پذیرہوجاتی ہے۔ یہ منظر آپ اِس وقت دنیا میں اپنے شرق و غرب میں نظر دوڑا کر دیکھ سکتے ہیں کہ عروج و ترقی کہا ں ہے اور ذلت و رسوائی کہاں ہے؟
     اخلاقیات ہی انسان کو جانوروں ںسے الگ کرتی ہیں۔اگر اخلاق نہیں تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں۔ اخلاق کے بغیر انسانوں کی جماعت انسان نہیں بلکہ حیوانوں کا ریوڑ کہلائیگی۔
لہذا اہل مدارس و آئمہ مساجد سے بندہء ناچیز کی گذارش ہیکہ کے اخلاقیات پر زور دیں 
تاکہ یہ امت زوال سے نکلے اور عروج کی طرف پلٹے
 
            *نتیجہءفکر*

محمد کلیم الزماں قاسمی مہتمم دارالعلوم رشیدیہ میمن سادات ضلع بجنور یوپی

نتیش کمار بہار نہیںچھوڑیں گے جے ڈی یو نے راجیہ سبھا جانے کی قیاس آرائیوں کو کیا مسترد

نتیش کمار بہار نہیںچھوڑیں گے جے ڈی یو نے راجیہ سبھا جانے کی قیاس آرائیوں کو کیا مسترد

بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار ریاست کی سیاست سے مطمئن نہیں ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں سے یہ بحث گرم ہے کہ وہ نائب صدر بن سکتے ہیں یا راجیہ سبھا میں جا سکتے ہیں، لیکن جمعہ کو ان کی پارٹی جے ڈی یو نے انہیں یکسر مسترد کر دیا۔ بہار کے وزیر اور جے ڈی یو لیڈر سنجے جھا نے کہا کہ یہ افواہ اور شرارت ہے۔ یہ باتیں حقیقت سے بالاتر ہیں۔

جھا نے یہ بھی کہا کہ وہ اس افواہ پر حیران ہیں کہ 

نتیش کمار راجیہ سبھا جانے پر غور کر رہے ہیں!انہیں بہار کی خدمت کرنے کا مینڈیٹ ملا ہے۔ وہ وزارت اعلیٰ کے پورے دور میں عوام کی خدمت کرتے رہیں گے۔ نتیش کمار کہیں نہیں جا رہے ہیں۔ نتیش کمار 2020 کے بہار اسمبلی انتخابات میں این ڈی اے کے سی ایم چہرہ رہے ہیں اور عوام نے اتحاد کو حکومت بنانے کا مینڈیٹ دیا۔

دراصل، ماضی میں، نتیش کمار نے مبینہ طور پر اپنے طویل سیاسی کیریئر میں ایک بار بھی راجیہ سبھا نہ جانے کا ذکر کیا تھا۔ اس بارے میں قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ انہوں نے بہار کی سیاست میں اپنا دماغ بھرنا شروع کر دیا ہے۔ حالانکہ بہار میں اقتدار کی تبدیلی کو لے کر بی جے پی اور جے ڈی یو کے درمیان کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے لیکن سیاسی قیاس آرائیوں کی دوڑ شروع ہو گئی ہے۔ اسی لیے وزیر سنجے جھا نے یہ وضاحت دی ہے۔ وہ صاف کہتے ہیں کہ یہ فساد ہے اور ان کا حق سے کوئی تعلق نہیں۔

دوسری جانب بی جے پی ذرائع کا کہنا ہے کہ نتیش کمار نے صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت میں مذکورہ ارادے کا ذکر کیا تھا۔ بی جے پی یا اتحادی جماعتوں کی سطح پر اس نے ابھی تک اس سلسلے میں کچھ نہیں کہا ہے۔ اگر نتیش بی جے پی کے سامنے اپنی اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں تو ریاست کی سیاست میں تبدیلی کے ممکنہ فارمولے پر بات ہوگی۔ اس دوران بحث کا بازار گرم ہے کہ بی جے پی اتفاق رائے سے انہیں نائب صدر بنانے کی پیشکش کر سکتی ہے۔ ایسے میں بہار میں بی جے پی وزیر اعلیٰ بنے گی اور جے ڈی یو کو نائب وزیر اعلیٰ کے دو عہدے ملیں گے۔
اس فارمولے پر عمل درآمد آسان نہیں ہے۔ اگر نتیش کمار نائب صدر بنتے ہیں تو وہ فعال سیاست سے دور ہو جائیں گے۔ ایسے میں جے ڈی یو کے پاس ایسا کوئی لیڈر نہیں ہے جو پارٹی کو سنبھال سکے۔ کسی ایک لیڈر پر اتفاق رائے حاصل کرنا بھی آسان نہیں۔ یہ جے ڈی (یو) میں بھگدڑ کا باعث بن سکتا ہے، لہذا وہ یہ خطرہ مول لینا پسند نہیں کرے گا۔

بہار اسمبلی میں جے ڈی یو کے پاس اس بار بی جے پی کے مقابلے نصف سیٹیں ہیں۔ نتیش پھر سے وزیر اعلیٰ بن گئے ہیں، لیکن حکومت کو ان کی آخری میعاد جیسا خطرہ نہیں ہے۔ انہیں کئی بار بی جے پی کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے ہیں۔ حال ہی میں، اتحادی پارٹنر وی آئی پی کے تین ایم ایل ایز کے رخ بدلنے کے بعد بی جے پی کے ایم ایل ایز کی تعداد 77 ہوگئی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کانگریس کے کئی ایم ایل اے بی جے پی کے رابطے میں ہیں

تسبیح تراویح میں لفظ العظمۃ کے تلفظ کی تحقیق

تسبیح تراویح میں لفظ العظمۃ کے تلفظ کی تحقیق 
 سوال:  عموما" مسجدوں میں تراویح کی دعا کے پوسٹر لگے ہوتے ہیں جس میں یہ دعا لکھی ہوتی ہے۔«سبحان ذی الملک والملکوت، سبحان ذی العزة والعظمة والهیبة والقدرة ۔۔۔۔۔» اس میں جو لفظ"العظمة"ہے اس کے حرف "ظ "پر جزم / سکون لگا ہوتا ہے۔ مجھے پتا چلا ہے کہ اس کے معنی "ہڈی "کے ہوتے ہیں۔ جب کہ اگر" ظ "پر زبر ہو تو اس کے معنی عظمت /بزرگی کے ہوتے ہیں۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟ اگر صحیح ہے تو کیا یہ (یعنی ظ پر جزم) اللہ کے نام کی بے حرمتی میں شمار ہوگا؟ کیا اس غلطی کو فورا" صحیح کردینا چاہیے؟
جواب: عربی زبان میں لفظ ( العَظَمة) ظاء پر زبر کے ساتھ ہو ،تواس کا معنی ہے : بزرگی ، بڑائی، شان وشوکت، تو (ذی العزة والعظمة)کا معنی ہوا : عزت اور کبریائی والا ۔ جب کہ جزم کے ساتھ ( العَظْمة ) کے معنی ہیں: ہڈی کا ٹکڑا، تو معنی بنے گا: ہڈی والا، اور یقینا یہ معنی اللہ تعالی کے حق میں بولنا بہت غلط ہے ۔ 
لیکن صرف لغت ومعنی کا سہارا لے کر یہ کہنا کہ تسبیح تراویح میں لفظ « العظمة» میں "ظ" کو ساکن پڑھنا بالکلیہ ممنوع ہے تو یہ بات درست نہیں، قواعد لغت کی رو سے دوسرا تلفظ یعنی ظ کے سکون کے ساتھ لفظ " العظمة " کی ادائیگی بھی پہلے معنی میں کی جاسکتی ہے، اور اس صورت میں لفظ "العظمة " کو ظ کی حرکت اور سکون دونوں طرح پڑھنے کی گنجائش ہوگی۔
 قاعدہ یہ ہے کہ لفظ (العظمة) میں عین ظاء میم تینوں حروف پر حرکت ہے، اور ملاکر پڑھنے میں گول تاء پر چوتھی حرکت آئے گی، عربی میں اس کو (تَوَالی حَرَکات ) کہا جاتا ہے ۔ اور عربی لغت کا قاعدہ ہے کہ: جس لفظ میں تین یا اس سے زائد حروف لگاتار متحرک ہوں، تو اس لفظ میں دوسرے حرف پر تخفیفاً جزم لگاکر پڑھنا جائز ہے۔ یہ قاعدہ «النحو الوافی » جلد ۱، مسئلہ ۱۶، صفحہ ۱۹۹ پر لکھا ہے ، اور اس طرح کے جزم کو (سکون تخفیف ) کا نام دیا ہے ۔ کتبِ تفسیر وقراءات میں سورہ بقرہ کی آیت ۵۴ میں لفظ ( بارئکم ) کی ذیل میں ،جہاں امام ابو عمرو بصری کی قراءت (بسکون الہمز) ذکر کی جاتی ہے ، وہاں امام نحو ابو علی فارسی کی یہ بات مذکور ہے : قَالَ أَبُو عَلِی: وَأَمَّا حرکة الْبِنَاءِ فَلَمْ یخْتَلِفِ النُّحَاة فِی جَوَازِ تَسْکینِها مَعَ تَوَالِی الْحَرَکاتِ۔ اور یہاں پر (العَظَمة) کی ظاء پر بھی جو حرکت ہے وہ حرکتِ بناء ہے ۔دوسری بات یہ کہ عموما عربی زبان میں حرکات کو تلفظ میں ثقل ( بھاری پن ) کا باعث سمجھا جاتا ہے ، اسی لیے توالی حرکات کے وقت اہل عرب لفظ میں تخفیف پیدا کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں ، جیسے : ادغام ، حذف ، ابدال ، اختلاس ، جزم۔ جو شخص قواعد صرف اور علم قراءات سے واقف ہوگا ، اس کو معلوم ہوگا کہ لفظ کے ثقل کو دور کرنے کے لیے عربی زبان میں یہ سب طریقے بے شمار الفاظ میں رائج ہیں ، اور ان سے لفظ کا اصل معنی نہیں بدلتا ، اور نہ دوسرا معنی متکلم کے یہاں مراد ہوتا ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ: عوام الناس جو (العظمة) کی ظاء پر جزم لگاتے ہیں وہ اردو کے تلفظ سے متاثر ہونے کی وجہ سے کرتے ہیں ، اور سہولت کی بنا پر بھی ۔اور اس طرح سے کرنا عربی زبان کے قواعد کے اعتبار سے درست ہے ، اس سے فاسد معنی نمودار نہیں ہوتا ہے ، اور نہ وہ مقصود ہوتا ہے ۔ اس لیے جو حضرات ان باتوں سے نا واقفیت کی بنا پر عوام الناس کے بارے میں شدت اختیار کرتے ہیں ، ان کا رویہ درست نہیں ہے ، ہاں بہتر یہ ہے کہ اس لفظ کو زبر کی حرکت کے ساتھ بولا جائے ، جیساکہ اس کا اصل تلفظ ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143809200028
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

جمعرات, مارچ 31, 2022

حجاب -عورتوں کی ضرورتمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

حجاب -عورتوں کی ضرورت
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
آج سماج ومعاشرہ میں بے حیائی، فحاشی اور عریانیت نے جس قدر راہ پالیا ہے، اس کی بڑی وجہ ستر وحجاب کے سلسلہ میں اسلامی احکام کی ان دیکھی ہے، مغرب نے آزادیٔ نسواں کے نام پر عورتوں کو گھر سے باہر نکالا، حجاب اور پردہ کو دقیانوسی قرار دے کر ایسا پروپیگنڈہ کیا کہ عورتوں کو حجاب، قید وبند نظر آنے لگا، چنانچہ وہ بے محابا بازاروں، گلیوں، کوچوں اور حد یہ کہ کوٹھوں کی زینت بننے لگیں، انہوں نے صرف حجاب نہیں اتارا، وہ مادر وپدر آزاد ہوگئیں، اس آزادی کے نتیجے میں ان کی عریاں تصویریں ماچس کے ڈبے سے لے کر بڑی بڑی مصنوعات کے پیکٹوں پر چھپنے لگیں، عورتیں ناقص العقل ہوتی ہیں، وہ مردوں کی اس سازش کو نہ سمجھ سکیں کہ مردوں نے اپنی تفریح طبع اور آنکھ سیکنے کے لیے انہیں چادر اور چہار دیواری سے نکالا ہے، مرد عورتوں کا ہاتھ بچوں کی ولادت اور دودھ پلانے میں تو نہیں بٹا سکتا، مگر روزی روٹی کے حصول میں مردوں نے عورتوں کو اپنا شریک وسہیم بنالیا، اب عورت گھریلو ذمہ داری بھی ادا کرتی ہے، نسل کی بقا کا بوجھ بھی اس پر ہے اور دن بھر آفس میں غیر مردوں کی نگاہوں کا نشانہ بنتی ہے اور گھر جب تھکی ماری آتی ہے تو گھر کا کچن اس کا انتظار کررہا ہوتا ہے، اس طرح آزادی کے نام پر عورتوں کے استحصال کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔
اسلام نے آزادی نہ مردوں کو دی، نہ عورتوں کو، دونوں کو احکام الہی کا پابند بنایا، صنفی رجحانات کے پیش نظر ان کی ذمہ داریاں الگ الگ قرار دیں، دونوں کے حقوق مقرر کیے اور دونوں کو فرائض بھی سونپے اور اس قدر حقوق دیئے کہ دوسرے مذاہب میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی، دونوں کی خدمت کا دائرہ کار مقرر کیا، مرد کو نفقہ کے حصول کے لیے تگ ودو کا مکلف بنایا اور عورتوں کو بچوں کی پرورش وپرداخت، شوہر کے مال کی نگہداشت اور امور خانہ داری کی انجام دہی کا ذمہ دیا۔
عورتوں نے اس تقسیم کو پسند نہیں کیا اور وہ مردوں کے محاذ میں جاگھسیں اور یہ بات بھول گئیں کہ یہ محاذ ان کی صنفی صلاحیتوں کے اعتبار سے قطعا غیر مناسب ہے، وہ گھر کے ماحول کو اسلامی رکھ کر اور بچوں میں غیرت اسلامی پیدا کرکے انہیں مجاہد بنانے کے لیے جد وجہد کرسکتی ہیں، لیکن وہ مجاہد بنانے کے بجائے خود میدان کارزار میں کودنا چاہتی ہیں، اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ کسی اسلحہ ساز کمپنی کو محاذ پر لے جا کر رکھ دیا جائے تو یہ کمپنی میدان کارزار میں کیا کرلے گی، بلکہ ہوسکتا ہے اس کی حفاظت کی جدو جہد میں جیتی جنگ بھی ہار میں بدل جائے، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ عورت خود مجاہدہ نہیں؛بلکہ وہ مجاہد پیدا کرنے کا کارخانہ ہے اور جب سے اس کارخانہ نے اپنا یہ کام چھوڑ دیا، مجاہد کی تعداد گھٹتی چلی گئی۔
آزادی کے نام پر عورتوں کا ایک طبقہ تو وہ ہے جس نے حجاب اتار پھینکا ہے، اور ان کا خیال ہے کہ نقاب لگانے سے مردوں کی نگاہ اس طرف زیادہ اٹھتی ہے، حضرت تھانویؒ کے ایک خلیفہ صوفی عبد الرب تھے، وہ کہا کرتے تھے کہ چلو حجاب اتار دو، اب جو لوگ گھوریں گے تو کون کون سے کپڑے اس ڈر سے اتاروگی۔
عورتوں کی ایک جماعت وہ ہے جس نے حجاب کو بے حجابی کا ذریعہ بنا رکھا ہے، ایسا پرکشش، اعضا کے سارے ابھار کو نمایاں کرنے والا نقاب پہنتی ہیں کہ خواہی نخواہی آنکھیں اٹھ جاتی ہیں، یہ کاسیات عاریات کی قبیل سے ہیں، اور دعوت گناہ کی مرتکب ہیں۔ ماضی قریب کے مشہور بزرگ حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحبؒ بار بار فرماتے تھے کہ آئوٹ لک(Out Luck)پر اگر نگاہ ٹک گئی تو ان پٹ (In Put) تک پہنچنے کی خواہش جوان ہوجاتی ہے۔اس لیے شریعت نے ہر دو کو غض بصر کا حکم دیا، بلکہ عورتوں سے پہلے مردوں کو حکم دیا کہ وہ غص بصر کریں اور شرمگاہ کی حفاظت کریں۔ حضرت حکیم صاحب کبھی یہ بھی فرماتے کہ اگر کسی نے اوپری منزل پر جگہ بنا لی، تو گرائونڈ فلور تک پہنچنے سے اسے روکا نہیں جاسکتا، اس جملہ کی معنویت پر جتنا غور کریں گے،نگاہ اور شرمگاہ کی حفاظت کی معنویت اتنی ہی واضح ہوجائے گی۔

اپریل فول کا شرعی حکم____شمشیر عالم مظاہری دربھنگویامام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار

اپریل فول کا شرعی حکم____
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار
  بندوں پر سب سے پہلے اس چیز کا جاننا ضروری ہے جس کے لئے اللہ نے ان کو پیدا کیا ہے؟ اور جس کا اللہ نے ان سے عہد لیا ہے اور جس کے لئے ان کی طرف اپنے رسولوں کو بھیجا ہے اور جس کے لئے ان پر اپنی کتابیں نازل کیں ہیں اور جس کے لئے دنیا و آخرت اور جنت و جہنم پیدا کی گئی ہے اور جس کے سبب آخرت کی حقیقت ثابت کی جائے گی اور یہ ہونے والی بات ہو کر رہے گی اور جس کے لئے عدل کی ترازو کھڑی کی جائے گی اور نامۂ اعمال بکھیر دئیے جائیں گے اور جس میں لوگوں کی سعادت اور بد بختی ہوگی اور اسی کے حساب سے نور ایمان تقسیم ہوگا اللہ جس کے لئے نور نہ دے اس کے لئے کوئی نور نہیں ۔
دین اسلام اللّٰہ رب العزت کے ان احکام کا نام ہے جو اس نے اپنے حبیب پاک نبی العرب والعجم فخر عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اور اپنی کتاب قرآن مجید کے واسطہ سے ہم تک بھیجے ہیں احکام خداوندی عقائد سے بھی متعلق ہیں اور عبادات سے بھی معاملات سے بھی اور معاشرت سے بھی تجارت سے بھی اور زراعت سے بھی ظاہر سے بھی اور باطن سے بھی جسم سے بھی اور مال سے بھی غرضیکہ انسانی زندگی کا ہر شعبہ اور گوشہ احکام خداوندی میں جکڑا ہوا ہے ۔
صرف مسلمان کا بیٹا ہونے سے کوئی مسلمان نہیں ہو جاتا ہے آج کل کے مسلمان اکثر نام کے مسلمان ہیں اسلام کو نہ خود سیکھتے ہیں نہ اپنی اولاد کو دینی تعلیم دلاتے ہیں حالانکہ یہ بہت بڑا قصور ہے جب علم نہ ہوگا تو کیوں کر عمل صحیح کر سکیں گے اور عقائد کیوں کر درست ہونگے ۔
مسلمانوں کے لئے نصاریٰ کی پیروی اپریل فول منانا یعنی لوگوں کو جھوٹ بول کر فریب دینا یا ہنسنا ہنسانا جائز نہیں حرام ہے سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے (ویل للذی یحدث فیکذب یضحک به القوم ویل له!ویل له) یعنی ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جو اس مقصد کے لئے جھوٹی بات کرے کہ اس کے ذریعہ لوگوں کو ہنسائے اس کے لئے ہلاکت ہے اس کے لئے ہلاکت ہے۔ (ابو داؤد)
نیز ارشاد ہے : لا یؤ من العبد ا لا یمان کله حتیٰ یترک الکذب فی مزاحه ویترک المرأ وان کان صادقا : یعنی بندہ اس وقت تک پورا ایماندار نہیں ہو سکتا جب تک مزاح میں بھی غلط بیانی نہ چھوڑ دے اور سچا ہونے کے باوجود جھگڑا نہ چھوڑ دے (کنز العمال)
ایک مرتبہ آپ صلی اللہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ دو فرشتے آپ کو آسمان پر لے گئے ہیں وہاں آپ نے دو آدمیوں کو دیکھا ایک کھڑا ہوا ہے دوسرا بیٹھا ہے کھڑا ہوا شخص بیٹھے ہوئے آدمی کے کلے کو لوہے کی زنبور سے گدی تک کاٹتا ہے پھر دوسرے کے کلے کو اسی طرح کاٹتا ہے اتنے میں پہلا کلا ٹھیک ہو جاتا ہے اس کے ساتھ یہ عمل برابر جاری ہے آپ نے اپنے ساتھی فرشتوں سے دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا جس کو آپ نے دیکھا کہ اس کے کلے چیرے جارہے ہیں وہ ایسا بڑا جھوٹا ہے جس نے ایسا جھوٹ بولا کہ وہ اس  سے نقل ہو کر دنیا جہاں میں پہنچ گیا لہذا اس کے ساتھ قیامت تک یہی معاملہ کیا جاتا رہے گا (بخاری شریف)
اپریل فول جس میں آج کل بہت لوگ مبتلا ہیں اپریل فول کی رسم مغرب  سے ہمارے یہاں آئی ہے اور یہ بہت سے کبیرہ گناہوں کا مجموعہ ہے
اول:۔۔۔  اس دن صریح جھوٹ بولنے کو لوگ جائز سمجھتے ہیں، جھوٹ کو اگر گناہ سمجھ کر بولا جائے تو گناہ کبیرہ ہے اور اگر اس کو حلال اور جائز سمجھ کر بولا جائے تو اندیشۂ کفر ہے (شرح فقہ اکبر)
  جھوٹ کی برائی اور مذمت کے لئے یہی کافی ہے کہ قرآن کریم نے  لعنت اللہ علی الکذبین ،،(آل عمران) فرمایا ہے گویا جو لوگ اپریل فول مناتے ہیں وہ قرآن میں ملعون ٹھراۓ  گئے ہیں اور ان پر خداتعالیٰ کی، رسولوں کی، فرشتوں کی، انسانوں کی، اور ساری مخلوق کی لعنت ہے ۔
دوم :۔۔۔  اس میں خیانت کا بھی گناہ ہے چنانچہ حدیث شریف میں ہے : کبرت خیانۃ أن تحدث أخاک حدیثا ھو لک مصدق وأ نت به کاذب ۔ یعنی بہت بڑی خیانت ھے کہ تم اپنے بھائی سے ایک بات کہو جس میں وہ تمہیں سچا سمجھے حالانکہ تم جھوٹ بول رہے ہو (ابوداؤد)
اور خیانت کا کبیرہ گناہ ہونا بالکل ظاہر ہے 
سوم:۔۔۔ اس میں دوسرے کو دھوکہ دینا ہے یہ بھی گناہ کبیرہ ہے حدیث میں ہے من غشنا فلیس منا،  جو شخص ہمیں یعنی مسلمانوں کو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں (مشکوۃ)
چہارم :۔۔۔ اس میں مسلمانوں کو ایذا پہنچانا ہے یہ بھی گناہ کبیرہ ہے قرآن کریم میں ہے 
مفہوم بے شک جو لوگ نا حق ایذا پہنچاتے ہیں مومن مردوں اور عورتوں کو انہوں نے بہتان اور بڑا گناہ اٹھا یا (الاحزاب)
پنجم !۔۔۔ اپریل فول منانا گمراہ اور بے دین قوموں کی مشابہت ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ، من تشبه بقوم فھو منھم ، جس شخص نے کسی قوم کی مشابہت کی وہ انہی میں سے ہوگا (جامع الصغیر ، مشکوۃ)
جھوٹ کا معاملہ کتنا نازک ہے اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے، حضرت عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے مکان میں تشریف فرما تھے میری والدہ نے میری جانب بند مٹھی بڑھا کر کہا یہاں آؤ میں تمہیں دوں گی جیسے مائیں بچے کو پاس بلانے کے لئے ایسا کرتی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا اسے کیا دینے کا ارادہ تھا والدہ نے جواب دیا کہ میں اسے کھجور دینا چاہتی تھی آپ نے فرمایا کھجور نہ دیتی تو تمہارے نامۂ اعمال میں ایک جھوٹ لکھا جاتا (الترغیب والترہیب)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ  بہت سی ایسی باتیں جنہیں معاشرہ میں جھوٹ نہیں سمجھا جاتا ہے ان پر بھی جھوٹ کا گناہ ہو سکتا ہے۔ بچوں کو جھوٹی تسلیاں دینا اور جھوٹے وعدے کرنا عام طور پر ہر جگہ رائج ہے اور اسے جھوٹ سمجھا ہی نہیں جاتا  حالانکہ ارشاد نبوی کے مطابق یہ بھی جھوٹ میں داخل ہے۔  اسی طرح ہنسانے کے لئے اور محض تفریح طبع کے لئے جھوٹ بولنے کو گویا کہ حلال سمجھا جاتا ہے اور اسے قطعاً عیب کی چیز شمار نہیں کیا جاتا جبکہ اس مقصد سے جھوٹ بولنا بھی سخت گناہ ہے
جھوٹ سے بچنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی ضمانت لی ہے۔ آپ نے فرمایا ، انا زعیم بیت فی وسط الجنۃ لمن ترک الکذب وان کان مازحا،  میں اس شخص کے لئے بیچ جنت میں گھر کی کفالت لیتا ہوں جو جھوٹ کو چھوڑ دے اگرچہ مذاق ہی میں کیوں نہ ہو (الترغیب والترہیب، بیقہی فی شعب الایمان)
 جو لوگ فیشن کے طور پر اپریل فول مناتے ہیں ان کے بارے میں اندیشہ ہے کہ وہ قیامت کے دن یہود و نصاریٰ کی صف میں اٹھائے جائیں جب یہ اتنے بڑے گناہوں کا مجموعہ ہے تو جس شخص کو اللہ تعالی نے معمولی عقل بھی دی ہو وہ انگریزوں کی اندھی تقلید میں اس کا ارتکاب نہیں کر سکتا اس لئے تمام مسلمان بھائیوں کو نہ صرف اس سے توبہ کرنی چاہیے بلکہ مسلمانوں کے مقتدا لوگوں کا فرض ہے کہ اپریل فول پر قانونی پابندی کا مطالبہ کریں اور اس باطل رسم کو سختی سے روکیں

بدھ, مارچ 30, 2022

اردو صحافت: دو سو سال کا تاریخی سفر مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

اردو صحافت: دو سو سال کا تاریخی سفر 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
با خبر ہونا اور رہنا انسان کی ضرورت ہے ، اس سے انسان کے تجسس کی تسکین ہوتی ہے اور ملکی اور تنظیمی کاموں کی انجام دہی اور فیصلے لینے میں سہولت بھی ، قرآن کریم میں حضرت سلیمان علیہ السلام تک خبر پہونچا نے کے لیے ہُد ہُد کا ذکر ہے، بعد کے دور میں یہ کام کبوتر سے لیا جانے لگا ، مغل بادشاہوں نے اس کے لیے منزل اور چوکیاں بنائیں ؛تاکہ تیز رفتاری کے ساتھ خبروں کے ارسال اور ترسیل کا کام کیا جا سکے ، یہ کام زیادہ منظم انداز میں ہو اور عوام تک بھی احوال وکوائف پہونچیں اس کے لیے مختلف ملکوں میں اخبارات کا سلسلہ شروع ہوا اور ہر ملک نے اپنی زبان میں اس کو رائج کیا، ہندوستان میں مغلیہ دور میں فارسی کا چلن تھا اس لیے اخبارات فارسی میں جاری کیے گیے ، پھر دھیرے دھیرے اردو کا چلن ہوا، شاعری اردو میں ہونے لگی، جامع مسجد کی سیڑھیوں پر اردو زبان کو فروغ ملا ، اور یہ پلنے اور بڑھنے لگی، چنانچہ ضرورت محسوس ہوئی کہ اخبارات بھی اردو میں نکالے جائیں، اس طرح اردو کا پہلا اخبار جام جہاں نما کے نام سے ۲۷؍ مارچ ۱۸۲۲ء کو نکلا، اور اب۲۷؍ مارچ ۲۰۲۲ء کو اردو صحافت نے دوسو  سال کا کامیاب تاریخی سفر مکمل کر لیا۔
 دوسو سال کی تاریخ کو مختصر مضمون میں سمیٹنا ایک دشوار تر عمل ہے ، خصوصا اس لیے کہ اردو صحافت ان دو سو سالوں میں تناور درخت ہی نہیں، شاخ در شاخ ہو گئی ہے ، اب صحافت صرف نامہ نگاری اور خبروں کی ترسیل ہی کا نام نہیں ہے ، اس میں مضامین ، تبصرے، تجزیے ، کالم نگاری سب کا دخول ہو گیا ہے، پھر موضوعاتی اعتبار سے بھی اس میں خاصہ تنوع پیدا ہو گیا ہے ، اب مذہبیات ، معاشیات ، فلمیات، کھیل کود وغیرہ کے لیے صفحات مختص ہیں، خواتین اور اطفال کے صفحات اس پر مستزاد، اسی طرح پہلے اخبارات روزنامے ہوا کرتے تھے، لیکن اب صحافت کے دائرے میں ہفتہ واری پرچے، ماہانہ ، سہ ماہی، شش ماہی رسائل ، جرنل اور خبر ناموں نے بھی اپنی جگہ بنا لیاہے، عوامی ذرائع ابلاغ کا عصری منظرنامہ بھی کافی بدل گیا ہے ، پہلے صرف پرنٹ میڈیا تھا پھر الکٹرونک میڈیا آیا اور اب سوشل میڈیا کی وسعت نے صحافت کو ایک نئے رنگ وآہنگ سے دو چار کر دیا ہے ، اب صحافت انٹرنیٹ کے ذریعہ بھی ہو رہی ہے ، بڑی تعداد میں برقی اخبارات ورسائل آن لائن نکل رہے ہیں اور ان کے قاری کا حلقہ پرنٹ میڈیا سے کہیں زیادہ ہے ، بصیرت، ملت ٹائمس ،قندیل، علماء بہار، ارباب دانش وبینش ، امارت سوشل میڈیا ڈسک، اردو میڈیا فوم ، اردو دنیا، اس آر میڈیا، العزیز میڈیا گروپ وغیرہ کے قاری کا پرنٹ میڈیا سے کہیں زیادہ ہے، ان تمام قسم کے اخبارات ورسائل میں کسی حیثیت سے بھی جو جڑگیا ہے ، وہ صحافی کہلاتا ہے، المیہ یہ بھی ہے کہ اخبارات کے مالکان جن میں کئی دو چار سطر لکھنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے، وہ بھی بڑے صحافی کہلاتے ہیں۔ ایڈیٹر مالکان ہوتے ہیں اور ان کی طرف سے دوسرے لوگ مضامین اداریے تبصرے لکھتے رہتے ہیں اور مالک مدیر کی حیثیت سے مشہور اور معروف ہوجاتا ہے ، میں اسے استحصال سمجھتا ہوں ان حضرات کا جو واقعتا صحافی ہیں، لیکن ایسا ہوتا ہے اور خوب ہوتا ہے ، اردو صحافت کے اس دو سو سال کے آخری پڑاؤ پر ہم لوگ جس دور میں جی رہے ہیں اردو صحافت یہاں تک پہونچ گئی ہے ، اس کے بعد اور کون کون مراحل آئیں گے ، اللہ جانے۔اس معاملہ میں روزنامہ ہمارا سماج کی تعریف کرنی ہوگی کہ جو اداریہ لکھتا ہے اس کا نام اس کالم میں باضابطہ درج ہوتا ہے۔
جہاں تک اخبارات کے مشمولات کا معاملہ ہے وہ ہر دور میں اپنی ضرورت کے اعتبار سے رہا ہے ، شاہی دور حکومت میں تونہیں؛ البتہ انگریزی عہد حکومت اور اس کے بعد بھی اردو اخبارات نظریاتی اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم رہے ، ایک حصہ حکومت موافق رہا اور دوسرا حکومت مخالف ، آج بھی حالات کچھ ایسے ہی ہیں، البتہ پہلے جو رویہ اختیار کیا جاتا تھا اس میں کہیں نہ کہیں ضمیر کی آواز بھی شامل ہوتی تھی ، اب ایسا نہیں ہے ، اب حکومت کی موافقت میں ہرنا جائز کو جائز کہنے کا جو طریقہ رائج ہو گیا ہے اور جو گودی میڈیا کا طرۂ امتیاز ہے وہ ضمیر کی آواز پر نہیں حکمراں طبقے کی حصول رضا مندی اور قوت خرید پر موقوف ہے ، اب کم صحافی ہیں، جو حق کی بات کہتے ہیں او راعلان کرتے ہیں کہ ہم غیر جانب دار نہیں، حق کے طرف دار ہیں، جن لوگوں نے اس انداز کی صحافت کی ان میں اردو کے اولین شہید صحافی مولوی محمد باقر تھے، جن کے  ہفت روزہ دہلی اردو اخبار نے انگریزوں کی ناک میں دم کر دیا تھا، بعد کے دور میں مولانا ابو الکلام آزاد کے الہلال، مولانا محمد علی جوہر کے ہم درد،مولانا غلام رسول مہر اور عبد المجید سالک کے’’انقلاب‘‘ مولانا حسرت موہانی کے اردو معلیٰ او رمولانا ظفر علی خان کے زمیندار کا شمار ایسے ہی اخبارات میں ہوتا ہے، جس نے حق کی آواز بن کر عوامی بیداری کا کام کیا اور ملک کی آزادی کے لیے راستے ہموار کیے، مذہبی اور مشرقی اقدار کا صحافت میں ذکر ہو تو مولانا عبد الماجد دریا آبادی کے صدق اور سچ کوکس طرح فراموش کیا جا سکتا ہے، مولانا عبد الماجد دریا آبادی صاحب طرز ادیب وصحافی تھے، وہ چھوٹے چھوٹے جملے میں پتے کی بات کہہ جاتے تھے، کبھی کبھی ان کے ایک جملہ کا تبصرہ دوسروں کے بڑے بڑے مقالوں پر بھاری پڑجاتا تھا، جب جوش ملیح آبادی کی یادوں کی برات آئی تو انہوں نے مختصر ترین تبصرہ کیا اور لکھا کہ’’ ننگی اور گندی کتاب ہے‘‘، صحافت کی دنیا میں مولانا عبد الماجد دریا آبادی کے طرز کو تو کوئی برت نہیں سکا ، لیکن مذہبی روایات اور سچی خبروں کی اشاعت کے اس سلسلہ کومولانا عثمان فارقلیط نے الجمعیۃ کے ذریعہ اور مولانا عثمان غنی نے پہلے ’’امارت‘‘ اور پھر’’ نقیب‘‘ کے ذریعہ تسلسل عطا کیا، مولانا عثمان غنی کے بے باک اداریوں نے انگریزوں کو اس قدر اپنی طرف متوجہ کیا کہ ’’امارت‘‘ سے ضمانت طلب کی گئی ، جرمانہ لگایا گیا ، مدیر کو قید کی سزا سنائی گئی اور ضمانت کی رقم ادا نہ ہونے کی وجہ سے ’’امارت‘‘ کو بند کر دینا پڑا، کم وبیش نوے سال سے جاری نقیب ترجمانِ امارت شرعیہ آج بھی اسی روش پر قائم ہے اور ان دنوں اس کے اداریے ملک کے اخبارات ورسائل میں نقل کیے جاتے ہیں اور اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے ۔ ہفت روزہ اخبار میں نئی دنیا دہلی بھی قارئین کو زمانۂ دراز تک اپنی گرفت میں رکھنے میں کامیاب رہا، اس کے جذباتی مضامین اور اداریے شاہد صدیقی کی ادارت میں انتہائی مقبول رہے، ’’عوام‘‘ نے بھی اس روش پر چلنا چاہا لیکن اسے کامیابی نہیں ملی۔
دو سو سالہ اس سفر کے آخری ستر سالوں کو دیکھیں تو جمیل مہدی کے عزائم ، پٹنہ سے نکلنے والے صدائے عام، سنگم، ساتھی، قومی تنظیم، پندار، فاروقی تنظیم وغیرہ نے قارئین کے بڑے حلقے کو اپنے فکر ونظر سے متاثر کیا، اردو صحافت کی بد نصیبی رہی کہ صدائے عام، ساتھی وغیرہ کو بند ہوجانا پڑا، سنگم نکل رہا ہے لیکن غلام سرور کا قلم موجود نہیں ہے ، غلام سرور صحافت کی دنیا کا شیر تھا، اور بجا طور پر انہیں شیر بہار کہا جاتا تھا، جو بقول کلیم عاجز عمر کی آخری منزل میں سیاست کے پنجرے میں قید ہو گیا تھا، بڑی زیادتی ہو گی اگر ہم یہاں پر راشٹر یہ سہارا کا ذکر نہ کریں ، جو عزیز برنی کی ادارت کے دور میں مسلمانوں کا انتہائی پسندیدہ اخبار تھا اور تاریخ کے حوالہ سے عزیز برنی کے مضامین ومقالات اور اداریے کو قارئین حق کی ترجمانی سمجھا کرتے تھے۔ 
اردو صحافت کی اصول سازی کی بات کریں تو اس میں’’ قومی آواز‘‘ کا کردار بڑا اہم رہا ہے ، اسی طرح اردو صحافت پر جو نشیب وفراز آئے اور اسے جو ارتقاء کے مراحل نصیب ہوئے، ان میں بھوپال، کشمیر، بنگلور، پٹنہ، لکھنؤ، کولکاتہ وغیرہ کے اخبارات ورسائل کی جد وجہد اور تعمیری انداز میں کام آگے بڑھانے کے ذوق وجذبہ کا بھی بڑا عمل دخل رہا ہے، اردو صحافت کو آگے بڑھانے میںجدید ٹکنالوجی کے استعمال اور اردو نیوز ایجنسیوں کی خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اس طرح اردو صحافت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور خبروں کو مصدق بنانے کے لیے پروگرام کی تصویروں کے استعمال نے اردو اخبارات کو قارئین کی پسند بنایا، ان اخبارات نے اردو کی ترویج واشاعت اور اسے گھر گھر پہونچانے کی مثالی خدمات بھی انجام دی، اس طرح ہم اردو کو مقبول بنانے میں اردو اخبارات کے اس اہم کردار کو فراموش نہیں کر سکتے۔
 اخبارات سے آگے بڑھ کر تحقیقی ، مذہبی ، تعلیمی اور ادبی رسائل کا رخ کریں تو تہذیب الاخلاق علی گڈھ ، معارف اعظم گڈھ ، تحقیقات اسلامی علی گڈھ، مطالعات دہلی، بیسویں صدی ، ہدیٰ ،دربھنگہ ٹائمز، تمثیل نو ہما، پاکیزہ آنچل، شب خوں، تعمیر حیات اوربرہان دہلی کی اپنی اہمیت رہی ہے ، معارف آج بھی پرانی آب وتاب کے ساتھ نکل رہا ہے ، برہان کے مرحوم ہونے کا غم تو آج بھی ستا رہا ہے ، بیسویں صدی کا سالنامہ تو نکل جاتا ہے لیکن خوش تر گرامی کے دور کے ماہنامہ بیسویں صدی کو اب مرحوم سمجھنا چاہیے، رحمن نیر کے وقت تک اس میںزندگی کی کچھ رمق باقی تھی ، لیکن اب وہ بات کہاں، اردو میں اکلوتا فلمی رسالہ’’ شمع‘‘ بھی بجھ گیا ہے ایک زمانہ میں اس کے معمے بڑے مقبول تھے اور فلموں پر تبصرے پڑھنے تصویریں دیکھنے کے ساتھ معمے بھرنے کے لیے بھی لوگ اس کے خریداربنتے تھے، مذہبی رسائل میں عامر عثمانی کی زندگی تک ’’تجلی‘‘ بر صغیر ہندو پاک کا مقبول ترین رسالہ تھا اس کے اداریے، تجلی کی ڈاک ، کھرے کھوٹے اور ملا ابن العرب کا مزاحیہ کالم مسجد سے مئے خانے تک پڑھنے کے لیے لوگ بے تاب رہتے تھے، بعد میں ان کے داماد حسن صدیقی نے اسی انداز پر نکالنے کی کوشش کی لیکن چلا نہیں پا ئے او ررخ بدل کر’’ طلسماتی دنیا‘‘ نکالنے لگے، عامر عثمانی پوری زندگی جن اوہام ورسومات کے خلاف لکھتے رہے ان کے بعد ان کے وارثوں نے اپنی معاشی مضبوطی کے لیے انہیں خطوط پر کام شروع کردیا۔ 
 ان دنوں جو مذہبی رسائل نکل رہے ہیں ان میں رسالہ دار العلوم ، آئینہ دار العلوم، آئینہ مظاہر علوم، شارق، دین مبیں ،ارمغان، راہ اعتدال، کنزالایمان، اشرفیہ، مخدوم، الرسالہ وغیرہ مذہبی بیداری پیدا کرنے میں اہم رول ادا کر رہے ہیں،ان میں سے بیش تر مدارس اسلامیہ کے ترجمان ہیں اور متعلقہ اداروں کا رنگ وآہنگ ان پر غالب رہتا ہے، ان میں سے بعضے اپنے مسلک کی ترویج واشاعت کے لیے بھی اپنے رسائل کا استعمال کر تے ہیں۔
 واقعہ یہ ہے کہ اردو اخبارات قاری کے تقاضوں کی تکمیل اب بھی نہیں کر پا رہے ،وجہ وسائل کی کمی ہے، یہ کمی کبھی تو اس لیے محسوس ہوتی ہے کہ اردو اخبار کے مالکان رقم ضرورت کے مطابق نکالنا نہیں چاہتے یا واقعتا چھوٹے اخبار ہونے کی وجہ سے وہ اخبارات کے لیے رقم فراہم نہیں کر پاتے، اردو اخبارات (کارپوریٹ گھرانے کے اخبارکو چھوڑ کر) مضامین، مقالات، مزاحیہ کالم اور تبصرہ وغیرہ لکھنے والوں پر ایک روپیہ بھی صرف نہیں کرتے، ان کے نزدیک اردو مضامین ومقالات کا اپنے اخبار میں چھاپ دینا ہی قلم کاروں پر احسان ہے، اس کی وجہ سے وہ لوگ جو قلم کی مزدوری کرتے ہیں اردو اخبارات کو معیاری ، تحقیقی مضامین دے نہیں پاتے، بلکہ کئی اردو کے ادیب جو ہندی انگریزی میں لکھنے پر قادر ہیں اردو اخبارات کے بجائے ہندی انگریزی میں لکھنا پسند کرتے ہیں ؛ کیوںکہ وہاں سے انہیں کچھ یافت ہوجاتی ہے، اس معاملہ میں ماہانہ رسائل جو سرکاری اکیڈمیوں کی طرف سے نکلا کرتے ہیں، متثنیٰ ہیں، لیکن ان کے یہاں بھی مضامین کے انتخاب کا جو معیار ہے اس میں بھی بہت ساری ترجیحات ہیں، مضمون نگار اگر ان ترجیحات پر پورا نہیں اتر تا تو وہاں بھی معاملہ خالی ہی خالی ہے ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...