Powered By Blogger

ہفتہ, اپریل 02, 2022

استقبالِ رمضانمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

استقبالِ رمضان
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
ہر کام کا سیزن اور موسم ہوتا ہے او ر اپنے متعلقہ کاموں کے سیزن کا لوگوںکو انتظار رہتا ہے ، کیوں کہ اس کی نفع بخشی سے کاروبار زندگی میں رونق آتی ہے اور سال بھر معاشی زندگی پر اس کے اثرات باقی رہتے ہیں، ایمان والوں کو بھی ایک سیزن کا انتظار رہتا ہے اور وہ سیزن ہے نیکیوں کے موسم بہار کا، جسے ہم رمضان المبارک کے نام سے جانتے ہیں، اس موسم کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ شرپھیلانے والی بڑی قوت شیطان کو پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے ، خیر کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، قلب ونظر اور ذہن ودماغ پر اس سیزن کے اثرات خوش کن ہوتے ہیں، خیر کے کاموں کی طرف رجحان بڑھتا ہے اور برائیوں سے فطری طور پر دل میں نفور پیدا ہوجاتا ہے ، مسجدیں نماز یوں سے بھر جاتی ہیں، تلاوت قرآن کریم کی آواز ہر گھر سے آنے لگتی ہے ، خیرات وزکاۃ دینے والے، ادارے، تنظیمیں افراد کی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے آگے آتی ہیں، مسلمان غریبوں، مسکینوں ہی کے لئے نہیں، محلہ میں اہل ثروت روزہ داروں کے لیے بھی دستر خوان سجاتا ہے کیوں کہ اسے معلوم ہے کہ افطار کا ثواب روزہ کے ثواب کے برابر ہے ، دستر خوان پر جتنی چیزیں رمضان میں جمع ہوجاتی ہیں، اس کا چوتھا حصہ بھی عام دنوں میں دسترخوان پر دیکھنے کو نہیں ملتا ، روزہ کو حدیث میں ڈھال کہا گیا ہے اور اس ڈھال کے ذریعہ ایمان والا خیر کو اپنا تا اور شر کو چھوڑ تا ہے ، دھوپ کی تمازت ، پیاس کی شدت اور غضب کی بھوک میں بھی اسے یقین ہوتا ہے کہ یہ عمل رضائے الٰہی کا سبب ہے اور جو ثواب ملے گا اس کا پیمانہ مقرر نہیں ہے ، حدیث قدسی ہے، روزہ میرے لیے ہے اور میںہی اس کا بدلہ دوں گا ، عام طور سے نیک اعمال میں ثواب کا فارمولہ ایک پر دس کا ہے،قرآن کریم میں مَنْ جَائَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہُ عَشَرُ اَمْثَالِھَا مذکور ہے یعنی ایک نیکی کیجئے دس پائیے؛ روزہ ظاہر کے اعتبار سے ایک مخفی عبادت ہے ،لیکن بندے کا روزہ کس پائے کا ہے، اللہ ہی جانتا ہے ، اس لئے روزہ کے اجر و ثواب کا فارمولہ الگ ذکر کیا گیا کہ وہ اللہ کے لئے ہے اور اللہ ہی اس کے روزے کے اعتبار سے بدلہ عطا فرمائیں گے۔ ایک روایت میں ہے کہ میں ہی اس کا بدلہ ہوں، ظاہر ہے اللہ جس کو مل جائے اسے کسی اور چیز کی ضرورت باقی نہیں رہے گی، اس لیے ایمان والوں کو اس موسم بہار سے اس طرح فائدہ اٹھانا چاہیے کہ دل کی دنیا بدل جائے اور زندگی اس راستے پر چل پڑے جو اللہ اور اس کے رسول کو مطلوب ہے ، اس کے لئے روزہ کے ساتھ تراویح،تہجد اور تلاوت قرآن کا اہتمام بھی کرنا چاہیے اور خود کو منکرات سے بچانا بھی چاہیے، اس حد تک کہ کوئی جھگڑے پر اُتارو ہو تو آپ کہدیجئے، میرا روزہ ہے ، ایسا روزہ انسان کے اندر تقویٰ پیدا کرتا ہے ، اور تقویٰ ہی رضائے الٰہی تک لے جانے والی شاہ راہ ہے ۔
 رمضان کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر جو حضرت سلمان فارسی کے حوالے سے احادیث کی کتابوں میں مذکور ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ لوگو !ایک باعظمت مہینہ آپہونچاہے، یہ ماہ رمضان ہے۔ اس ماہ میں جو شخص کوئی نیک کام کریگا، اس کا ثواب فرض کے برابراور فرض اداکریگا تو اس کا ثواب ستر فرض کے برابر ملے گا، جو روزہ دار کو افطار کرائے گا وہ جہنم سے خلاصی پائے گا ۔اوراسے روزہ دار کے بقدر ثواب ملے گا، جب کہ روز ہ دار کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی ۔اوریہ ثواب محض ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی سے افطار کرانے پر بھی ملے گا۔اور اگر کسی نے روزہ دار کو پیٹ بھر کھانا کھلادیا تو حوض کوثر سے ایسی سیرابی ہوگی کہ جنت میں داخلے تک پیاس نہیں لگے گی اورجنت بھوک پیاس کی جگہ نہیں ہے ، فرمایا : اس ماہ کا پہلا حصہ رحمت ، دوسر ا مغفرت اورتیسرادوزخ سے آزادی کا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس ماہ میںاپنی خاص رحمت سے ایسا انتظام کرتے ہیں کہ شیطان بندوں کو گمراہ نہ کرسکے ، اور بُرائی پر آمادہ کرنے سے بازآجائے اسی لئے جنات اورسرکش شیاطین کو پابند سلاسل کردیاجاتاہے۔جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور جنت کے دروازے پورے ماہ کے لئے کھول دیئے جاتے ہیں ۔اور منادی خدا کی طرف سے آواز لگاتا ہے کہ خیر کے طالب آگے بڑھو اورشر کی طرف مائل لوگو رک جائو ، باز آئو، اتنے اہتمام کے باوجود اگر کوئی مسلمان  اس ماہ سے فائدہ نہیںا ٹھاتا اور جنت کے حصول کے سامان نہیں کرتاتو بدبختی اور شقاوت کی انتہا ہے ۔
روزہ کا ایسا اہتمام کیاجائے جو شریعت کو مطلوب ہے ، اور جس سے تقوی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے ، روزہ صرف کھانے پینے اور شہوانی خواہشات سے پرہیز تک محدود نہ رکھا جائے ، بلکہ آنکھ ، دل ، دماغ ، کان ، زبان ، ہاتھ ، پائوں ، اور سبھی اعضا و جوارح کا روزہ رکھا جائے، آنکھ غلط چیزوں کو نہ دیکھے ، دل گناہوں کی طرف مائل نہ ہو ،دماغ خدا کے احکام کے خلاف نہ سوچے ، کان غلط نہ سنے ، زبا ن غیبت ، چغل خوری ، جھوٹ، طعن وتشنیع گالی گلوج سے محفوظ رہے ، اوراعضا وجوارح خداکی مرضیات پر لگ جائیں ، ایسا روزہ ہی دراصل روزہ ہے ،  چونکہ یہ غم گساری کا بھی مہینہ ہے اس لیے جہاں کہیں بھی رہے، جس کام میں لگا ہوا ہو۔ اس میں اس کو ملحوظ رکھے ، حسب استطاعت غربا کے خورد ونوش اورمحتاجوں کی ضروریات کی کفالت کا بھی نظم کرے کہ یہ بھی روزہ کے مقاصد میں سے ایک ہے، ہم لوگ جنہیں اللہ تعالی نے خوردونوش کی سہولتیں دے رکھی ہیں اور بھوک پیاس کی تکلیف کا احساس پورے سال نہیں ہوتا، بلکہ شادی اور دیگرتقریبات میں کھانے پینے کی اشیاء کو ضائع کرتے ہیں ، انہیںروزہ میں جب بھوک پیاس لگے تو ان کے اندریہ احساس جاگناچاہئے کہ سماج کے دبے کچلے لوگ جن کے گھرچولہا بڑی مشکل سے جلتاہے ۔ اور کئی بار فاقہ میںرات گذرجاتی ہے، کس قدر پریشانیاں محسوس کرتے ہوں گے ، اس وجہ سے اکابر نے اس بات پر زوردیا کہ افطار اورکھانے میں تلافیٔ مافات کی غرض سے اتنا نہ کھالے کہ روزہ رکھنے سے جو شہوانی قوت میںتھوڑی کمی آئی تھی وہ جاتی رہے اورسحری میں اس قدر نہ کھالے کہ دن بھر بھوک پیاس کا احساس ہی نہ ہو ۔ اس ماہ میں مدارس کے اساتذہ اوراکابر علماء ، ادارے تنظیموں اور مدارس کی فراہمی مالیات کے لئے کوشاں اور متفکرہوتے ہیں۔ ان کا اکرام کیاجائے ، اور محسوس کیا جائے کہ وہ امراء پراحسان کرتے ہیں کہ ان کی زکوۃ بروقت مناسب جگہ پہنچ جاتی ہے ، اس لئے جھڑک کر اوربار بار انہیں دوڑا کر اپنے عمل کو ضائع نہیں کرنا چاہیے، اس سے علماء کی بے وقعتی بھی ہوتی ہے اور ثواب بھی ضائع ہوتا ہے۔
اس موقع سے یہ بتانا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ بہت سارے لوگ ٹی وی کے ان پروگراموں کو دیکھنے میں وقت بر باد کر تے ہیں، جو استقبال رمضان یا رمضان کے لیے خصوصی پروگرام کے حوالہ سے پیش کیے جاتے ہیں، ان پروگراموں کو دیکھنے میں وقت برباد کرنا کسی طور مناسب نہیں ہے ، کیوں کہ ان پروگراموں میں بھی منکرات کی بھر مار ہوتی ہے ، لہو ولعب کے وہ مناظر اشتہار کے طور پر دکھائے جاتے ہیں جو شرعی طور پر منکرات کے ذیل میں آتے ہیں، یقینا قرآن کریم کی تلاوت، نعت خوانی اور روزہ رمضان کی مناسبت سے ترغیبی گفتگو اچھی چیز ہے ، لیکن اس اچھے کام کے ساتھ منکرات کی ایک لمبی فہرست اس میں ہوتی ہے ، اس لیے بہتر یہی ہے کہ ٹی وی بند کردیں اور سارا وقت تلاوت کلام پاک اور ذکر واذکار میں لگائیں،یہ آپ کی اخروی زندگی کے لیے فائدہ مند اور رمضان المبارک کے تقاضوں کے عین مطابق ہوگا ۔

جمعہ, اپریل 01, 2022

بیگوسراے ضلع انتظامیہ نے نور جہاں کی لاش کی تدفین سے روکا

بیگوسراے ضلع انتظامیہ نے نور جہاں کی لاش کی تدفین سے روکابیگوسرائے آیورویدک کالج کے نزدیک 100 سال پرانا ایک قبرستان ہے جس میں کئی مزار بھی ہیں ۔ شہر کے تلک نگر محلہ اور لوہیا نگر کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ضلع میں ریل حادثہ یا سڑک حادثہ میں ہلاک ہونے والے لوگوں کو اسی قبرستان میں ایک سو سال سے زائد عرصہ سے دفن کیا جاتا رہا ہے مگر اچانک کچھ دن پہلے انیل سنگھ نے قبرستان میں کچھ لوگوں کو بھیج کر دیوار کو توڑ کر قبضہ جمانے کی کوشش کی ۔ جب مسلمانوں کو پتہ چلا تو قبرستان پہنچ کر دیکھا ، تب تک مزدور بھاگ چکے تھے۔ اس دن سے معاملہ کچھ ٹھنڈا پڑ گیا تھا لیکن جمعہ کو معین الدین کی 60 سالہ اہلیہ نور جہاں بیگم کی موت ہوگئی ۔ تو محلہ کے لوگوں نے نماز جمعہ کے بعد مدرسہ بدر الاسلام میں جنازہ کی نماز پڑھانے کے بعد میت لے کر جب قبرستان پہنچے تو دیکھا کہ اس میں ایک بڑا تالا لگا ہوا ہے ۔ بعد میں پتہ چلا کہ صدر بلاک سرکل افسر نے یہ تالا لگوایا ہے۔ اس کے بعد شدید غم وغصے سے لبریز مسلمانوں نے ڈی ایم دفتر پہنچ کر سڑک پر جنازہ رکھ دیا اور مظاہرہ کیا ۔ بیگوسرائے کلکٹر اروند کمار ورما نے سرکل انسپکٹر کو بھیجا۔ انیل سنگھ لوہیا نگر تھانہ حلقہ کے سوہید نگر باشندہ انیل سنگھ ٹھیکہ داری کرتا ہے۔ انہوں نے بیگوسرائے صدر ایس ڈی او کی عدالت میں درخواست دے کر دفعہ 144 نافذ کروایا ہے۔ سرکل انسپکٹر نے یقین دہانی کرائی کہ معاملہ بہت جلد آپ لوگوں کے حق میں جائے گاابھی جنازہ دیگر کسی قبرستان میں دفن کردے۔ آئندہ 15 دن کے اندر میں معاملہ حل کر لیا جائے گا۔ اقلیتی طبقہ کے لوگوں نے مجبور ہو کر جنازہ کو لیکر شہر کے جاگیر محلہ قبرستان پہنچے اور وہاں لاش دفن کی۔

سعودی عرب میں رمضان المبارک کا چاند نظر آگیا



سعودی عرب میں رمضان المبارک کا چاند نظر آگیا

سعودی میڈیا کے مطابق سعودی عرب کےعلاقےحوطہ سدیر میں رمضان کا چاند نظر آیا، سعودی شہر تمیر میں بھی چاند نظر آنے کی شہادت ملی ہے— فوٹو: فائل
سعودی میڈیا کے مطابق سعودی عرب کےعلاقےحوطہ سدیر میں رمضان کا چاند نظر آیا، سعودی شہر تمیر میں بھی چاند نظر آنے کی شہادت ملی ہے— فوٹو: فائل

ریاض: سعودی عرب میں رمضان المبارک کا چاند نظر آگیا اور وہاں پہلا روزہ کل یعنی 2 اپریل کو ہوگا۔

سعودی میڈیا کے مطابق سعودی عرب کےعلاقےحوطہ سدیر میں رمضان کا چاند نظر آیا، سعودی شہر تمیر میں بھی چاند نظر آنے کی شہادت ملی ہے۔

علاوہ ازیں ملائیشیا اور انڈونیشیا میں رمضان کا چاند نظر نہیں آیا اور ان ممالک میں پہلا روزہ 3 اپریل کو ہوگا۔

عرب میڈیا کے مطابق برونائی میں بھی چاند نظر نہیں آیا اور وہاں بھی 3 اپریل بروز اتوار کو یکم رمضان ہوگا۔

امام کونسل ساؤتھ آسٹریلیا نے اعلان کیا ہے کہ آسٹریلیا میں پہلا روزہ 2 اپریل کو رکھا جائے گا۔

پاکستان میں رمضان کا چاند کل دیکھا جائے گا

*اخلاقیات وقت کی اہم ضرورت*

*اخلاقیات وقت کی اہم ضرورت* 
جس معاشرے میں جھوٹ اور بددیانتی عام ہوجائے وہاں کبھی امن و سکون نہیں ہوسکتا۔ جس ماحول یا معاشرہ میں اخلاقیات کوئی قیمت نہ رکھتے ہوں اور جہاں شرم و حیاء کی بجائے اخلاقی باختگی اور حیا سوزی کو منتہائے مقصود سمجھا جاتا ہو اُس قوم اور معاشرہ کا صفحہ ہستی سے مٹ جانا یقینی ہوتا ہے خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ دنیا میں عروج و ترقی حاصل کرنے والی قوم ہمیشہ اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہے جبکہ برے اخلاق کی حامل قوم زوال پذیرہوجاتی ہے۔ یہ منظر آپ اِس وقت دنیا میں اپنے شرق و غرب میں نظر دوڑا کر دیکھ سکتے ہیں کہ عروج و ترقی کہا ں ہے اور ذلت و رسوائی کہاں ہے؟
     اخلاقیات ہی انسان کو جانوروں ںسے الگ کرتی ہیں۔اگر اخلاق نہیں تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں۔ اخلاق کے بغیر انسانوں کی جماعت انسان نہیں بلکہ حیوانوں کا ریوڑ کہلائیگی۔
لہذا اہل مدارس و آئمہ مساجد سے بندہء ناچیز کی گذارش ہیکہ کے اخلاقیات پر زور دیں 
تاکہ یہ امت زوال سے نکلے اور عروج کی طرف پلٹے
 
            *نتیجہءفکر*

محمد کلیم الزماں قاسمی مہتمم دارالعلوم رشیدیہ میمن سادات ضلع بجنور یوپی

نتیش کمار بہار نہیںچھوڑیں گے جے ڈی یو نے راجیہ سبھا جانے کی قیاس آرائیوں کو کیا مسترد

نتیش کمار بہار نہیںچھوڑیں گے جے ڈی یو نے راجیہ سبھا جانے کی قیاس آرائیوں کو کیا مسترد

بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار ریاست کی سیاست سے مطمئن نہیں ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں سے یہ بحث گرم ہے کہ وہ نائب صدر بن سکتے ہیں یا راجیہ سبھا میں جا سکتے ہیں، لیکن جمعہ کو ان کی پارٹی جے ڈی یو نے انہیں یکسر مسترد کر دیا۔ بہار کے وزیر اور جے ڈی یو لیڈر سنجے جھا نے کہا کہ یہ افواہ اور شرارت ہے۔ یہ باتیں حقیقت سے بالاتر ہیں۔

جھا نے یہ بھی کہا کہ وہ اس افواہ پر حیران ہیں کہ 

نتیش کمار راجیہ سبھا جانے پر غور کر رہے ہیں!انہیں بہار کی خدمت کرنے کا مینڈیٹ ملا ہے۔ وہ وزارت اعلیٰ کے پورے دور میں عوام کی خدمت کرتے رہیں گے۔ نتیش کمار کہیں نہیں جا رہے ہیں۔ نتیش کمار 2020 کے بہار اسمبلی انتخابات میں این ڈی اے کے سی ایم چہرہ رہے ہیں اور عوام نے اتحاد کو حکومت بنانے کا مینڈیٹ دیا۔

دراصل، ماضی میں، نتیش کمار نے مبینہ طور پر اپنے طویل سیاسی کیریئر میں ایک بار بھی راجیہ سبھا نہ جانے کا ذکر کیا تھا۔ اس بارے میں قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ انہوں نے بہار کی سیاست میں اپنا دماغ بھرنا شروع کر دیا ہے۔ حالانکہ بہار میں اقتدار کی تبدیلی کو لے کر بی جے پی اور جے ڈی یو کے درمیان کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے لیکن سیاسی قیاس آرائیوں کی دوڑ شروع ہو گئی ہے۔ اسی لیے وزیر سنجے جھا نے یہ وضاحت دی ہے۔ وہ صاف کہتے ہیں کہ یہ فساد ہے اور ان کا حق سے کوئی تعلق نہیں۔

دوسری جانب بی جے پی ذرائع کا کہنا ہے کہ نتیش کمار نے صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت میں مذکورہ ارادے کا ذکر کیا تھا۔ بی جے پی یا اتحادی جماعتوں کی سطح پر اس نے ابھی تک اس سلسلے میں کچھ نہیں کہا ہے۔ اگر نتیش بی جے پی کے سامنے اپنی اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں تو ریاست کی سیاست میں تبدیلی کے ممکنہ فارمولے پر بات ہوگی۔ اس دوران بحث کا بازار گرم ہے کہ بی جے پی اتفاق رائے سے انہیں نائب صدر بنانے کی پیشکش کر سکتی ہے۔ ایسے میں بہار میں بی جے پی وزیر اعلیٰ بنے گی اور جے ڈی یو کو نائب وزیر اعلیٰ کے دو عہدے ملیں گے۔
اس فارمولے پر عمل درآمد آسان نہیں ہے۔ اگر نتیش کمار نائب صدر بنتے ہیں تو وہ فعال سیاست سے دور ہو جائیں گے۔ ایسے میں جے ڈی یو کے پاس ایسا کوئی لیڈر نہیں ہے جو پارٹی کو سنبھال سکے۔ کسی ایک لیڈر پر اتفاق رائے حاصل کرنا بھی آسان نہیں۔ یہ جے ڈی (یو) میں بھگدڑ کا باعث بن سکتا ہے، لہذا وہ یہ خطرہ مول لینا پسند نہیں کرے گا۔

بہار اسمبلی میں جے ڈی یو کے پاس اس بار بی جے پی کے مقابلے نصف سیٹیں ہیں۔ نتیش پھر سے وزیر اعلیٰ بن گئے ہیں، لیکن حکومت کو ان کی آخری میعاد جیسا خطرہ نہیں ہے۔ انہیں کئی بار بی جے پی کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے ہیں۔ حال ہی میں، اتحادی پارٹنر وی آئی پی کے تین ایم ایل ایز کے رخ بدلنے کے بعد بی جے پی کے ایم ایل ایز کی تعداد 77 ہوگئی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کانگریس کے کئی ایم ایل اے بی جے پی کے رابطے میں ہیں

تسبیح تراویح میں لفظ العظمۃ کے تلفظ کی تحقیق

تسبیح تراویح میں لفظ العظمۃ کے تلفظ کی تحقیق 
 سوال:  عموما" مسجدوں میں تراویح کی دعا کے پوسٹر لگے ہوتے ہیں جس میں یہ دعا لکھی ہوتی ہے۔«سبحان ذی الملک والملکوت، سبحان ذی العزة والعظمة والهیبة والقدرة ۔۔۔۔۔» اس میں جو لفظ"العظمة"ہے اس کے حرف "ظ "پر جزم / سکون لگا ہوتا ہے۔ مجھے پتا چلا ہے کہ اس کے معنی "ہڈی "کے ہوتے ہیں۔ جب کہ اگر" ظ "پر زبر ہو تو اس کے معنی عظمت /بزرگی کے ہوتے ہیں۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟ اگر صحیح ہے تو کیا یہ (یعنی ظ پر جزم) اللہ کے نام کی بے حرمتی میں شمار ہوگا؟ کیا اس غلطی کو فورا" صحیح کردینا چاہیے؟
جواب: عربی زبان میں لفظ ( العَظَمة) ظاء پر زبر کے ساتھ ہو ،تواس کا معنی ہے : بزرگی ، بڑائی، شان وشوکت، تو (ذی العزة والعظمة)کا معنی ہوا : عزت اور کبریائی والا ۔ جب کہ جزم کے ساتھ ( العَظْمة ) کے معنی ہیں: ہڈی کا ٹکڑا، تو معنی بنے گا: ہڈی والا، اور یقینا یہ معنی اللہ تعالی کے حق میں بولنا بہت غلط ہے ۔ 
لیکن صرف لغت ومعنی کا سہارا لے کر یہ کہنا کہ تسبیح تراویح میں لفظ « العظمة» میں "ظ" کو ساکن پڑھنا بالکلیہ ممنوع ہے تو یہ بات درست نہیں، قواعد لغت کی رو سے دوسرا تلفظ یعنی ظ کے سکون کے ساتھ لفظ " العظمة " کی ادائیگی بھی پہلے معنی میں کی جاسکتی ہے، اور اس صورت میں لفظ "العظمة " کو ظ کی حرکت اور سکون دونوں طرح پڑھنے کی گنجائش ہوگی۔
 قاعدہ یہ ہے کہ لفظ (العظمة) میں عین ظاء میم تینوں حروف پر حرکت ہے، اور ملاکر پڑھنے میں گول تاء پر چوتھی حرکت آئے گی، عربی میں اس کو (تَوَالی حَرَکات ) کہا جاتا ہے ۔ اور عربی لغت کا قاعدہ ہے کہ: جس لفظ میں تین یا اس سے زائد حروف لگاتار متحرک ہوں، تو اس لفظ میں دوسرے حرف پر تخفیفاً جزم لگاکر پڑھنا جائز ہے۔ یہ قاعدہ «النحو الوافی » جلد ۱، مسئلہ ۱۶، صفحہ ۱۹۹ پر لکھا ہے ، اور اس طرح کے جزم کو (سکون تخفیف ) کا نام دیا ہے ۔ کتبِ تفسیر وقراءات میں سورہ بقرہ کی آیت ۵۴ میں لفظ ( بارئکم ) کی ذیل میں ،جہاں امام ابو عمرو بصری کی قراءت (بسکون الہمز) ذکر کی جاتی ہے ، وہاں امام نحو ابو علی فارسی کی یہ بات مذکور ہے : قَالَ أَبُو عَلِی: وَأَمَّا حرکة الْبِنَاءِ فَلَمْ یخْتَلِفِ النُّحَاة فِی جَوَازِ تَسْکینِها مَعَ تَوَالِی الْحَرَکاتِ۔ اور یہاں پر (العَظَمة) کی ظاء پر بھی جو حرکت ہے وہ حرکتِ بناء ہے ۔دوسری بات یہ کہ عموما عربی زبان میں حرکات کو تلفظ میں ثقل ( بھاری پن ) کا باعث سمجھا جاتا ہے ، اسی لیے توالی حرکات کے وقت اہل عرب لفظ میں تخفیف پیدا کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں ، جیسے : ادغام ، حذف ، ابدال ، اختلاس ، جزم۔ جو شخص قواعد صرف اور علم قراءات سے واقف ہوگا ، اس کو معلوم ہوگا کہ لفظ کے ثقل کو دور کرنے کے لیے عربی زبان میں یہ سب طریقے بے شمار الفاظ میں رائج ہیں ، اور ان سے لفظ کا اصل معنی نہیں بدلتا ، اور نہ دوسرا معنی متکلم کے یہاں مراد ہوتا ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ: عوام الناس جو (العظمة) کی ظاء پر جزم لگاتے ہیں وہ اردو کے تلفظ سے متاثر ہونے کی وجہ سے کرتے ہیں ، اور سہولت کی بنا پر بھی ۔اور اس طرح سے کرنا عربی زبان کے قواعد کے اعتبار سے درست ہے ، اس سے فاسد معنی نمودار نہیں ہوتا ہے ، اور نہ وہ مقصود ہوتا ہے ۔ اس لیے جو حضرات ان باتوں سے نا واقفیت کی بنا پر عوام الناس کے بارے میں شدت اختیار کرتے ہیں ، ان کا رویہ درست نہیں ہے ، ہاں بہتر یہ ہے کہ اس لفظ کو زبر کی حرکت کے ساتھ بولا جائے ، جیساکہ اس کا اصل تلفظ ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143809200028
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

جمعرات, مارچ 31, 2022

حجاب -عورتوں کی ضرورتمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

حجاب -عورتوں کی ضرورت
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
آج سماج ومعاشرہ میں بے حیائی، فحاشی اور عریانیت نے جس قدر راہ پالیا ہے، اس کی بڑی وجہ ستر وحجاب کے سلسلہ میں اسلامی احکام کی ان دیکھی ہے، مغرب نے آزادیٔ نسواں کے نام پر عورتوں کو گھر سے باہر نکالا، حجاب اور پردہ کو دقیانوسی قرار دے کر ایسا پروپیگنڈہ کیا کہ عورتوں کو حجاب، قید وبند نظر آنے لگا، چنانچہ وہ بے محابا بازاروں، گلیوں، کوچوں اور حد یہ کہ کوٹھوں کی زینت بننے لگیں، انہوں نے صرف حجاب نہیں اتارا، وہ مادر وپدر آزاد ہوگئیں، اس آزادی کے نتیجے میں ان کی عریاں تصویریں ماچس کے ڈبے سے لے کر بڑی بڑی مصنوعات کے پیکٹوں پر چھپنے لگیں، عورتیں ناقص العقل ہوتی ہیں، وہ مردوں کی اس سازش کو نہ سمجھ سکیں کہ مردوں نے اپنی تفریح طبع اور آنکھ سیکنے کے لیے انہیں چادر اور چہار دیواری سے نکالا ہے، مرد عورتوں کا ہاتھ بچوں کی ولادت اور دودھ پلانے میں تو نہیں بٹا سکتا، مگر روزی روٹی کے حصول میں مردوں نے عورتوں کو اپنا شریک وسہیم بنالیا، اب عورت گھریلو ذمہ داری بھی ادا کرتی ہے، نسل کی بقا کا بوجھ بھی اس پر ہے اور دن بھر آفس میں غیر مردوں کی نگاہوں کا نشانہ بنتی ہے اور گھر جب تھکی ماری آتی ہے تو گھر کا کچن اس کا انتظار کررہا ہوتا ہے، اس طرح آزادی کے نام پر عورتوں کے استحصال کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔
اسلام نے آزادی نہ مردوں کو دی، نہ عورتوں کو، دونوں کو احکام الہی کا پابند بنایا، صنفی رجحانات کے پیش نظر ان کی ذمہ داریاں الگ الگ قرار دیں، دونوں کے حقوق مقرر کیے اور دونوں کو فرائض بھی سونپے اور اس قدر حقوق دیئے کہ دوسرے مذاہب میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی، دونوں کی خدمت کا دائرہ کار مقرر کیا، مرد کو نفقہ کے حصول کے لیے تگ ودو کا مکلف بنایا اور عورتوں کو بچوں کی پرورش وپرداخت، شوہر کے مال کی نگہداشت اور امور خانہ داری کی انجام دہی کا ذمہ دیا۔
عورتوں نے اس تقسیم کو پسند نہیں کیا اور وہ مردوں کے محاذ میں جاگھسیں اور یہ بات بھول گئیں کہ یہ محاذ ان کی صنفی صلاحیتوں کے اعتبار سے قطعا غیر مناسب ہے، وہ گھر کے ماحول کو اسلامی رکھ کر اور بچوں میں غیرت اسلامی پیدا کرکے انہیں مجاہد بنانے کے لیے جد وجہد کرسکتی ہیں، لیکن وہ مجاہد بنانے کے بجائے خود میدان کارزار میں کودنا چاہتی ہیں، اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ کسی اسلحہ ساز کمپنی کو محاذ پر لے جا کر رکھ دیا جائے تو یہ کمپنی میدان کارزار میں کیا کرلے گی، بلکہ ہوسکتا ہے اس کی حفاظت کی جدو جہد میں جیتی جنگ بھی ہار میں بدل جائے، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ عورت خود مجاہدہ نہیں؛بلکہ وہ مجاہد پیدا کرنے کا کارخانہ ہے اور جب سے اس کارخانہ نے اپنا یہ کام چھوڑ دیا، مجاہد کی تعداد گھٹتی چلی گئی۔
آزادی کے نام پر عورتوں کا ایک طبقہ تو وہ ہے جس نے حجاب اتار پھینکا ہے، اور ان کا خیال ہے کہ نقاب لگانے سے مردوں کی نگاہ اس طرف زیادہ اٹھتی ہے، حضرت تھانویؒ کے ایک خلیفہ صوفی عبد الرب تھے، وہ کہا کرتے تھے کہ چلو حجاب اتار دو، اب جو لوگ گھوریں گے تو کون کون سے کپڑے اس ڈر سے اتاروگی۔
عورتوں کی ایک جماعت وہ ہے جس نے حجاب کو بے حجابی کا ذریعہ بنا رکھا ہے، ایسا پرکشش، اعضا کے سارے ابھار کو نمایاں کرنے والا نقاب پہنتی ہیں کہ خواہی نخواہی آنکھیں اٹھ جاتی ہیں، یہ کاسیات عاریات کی قبیل سے ہیں، اور دعوت گناہ کی مرتکب ہیں۔ ماضی قریب کے مشہور بزرگ حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحبؒ بار بار فرماتے تھے کہ آئوٹ لک(Out Luck)پر اگر نگاہ ٹک گئی تو ان پٹ (In Put) تک پہنچنے کی خواہش جوان ہوجاتی ہے۔اس لیے شریعت نے ہر دو کو غض بصر کا حکم دیا، بلکہ عورتوں سے پہلے مردوں کو حکم دیا کہ وہ غص بصر کریں اور شرمگاہ کی حفاظت کریں۔ حضرت حکیم صاحب کبھی یہ بھی فرماتے کہ اگر کسی نے اوپری منزل پر جگہ بنا لی، تو گرائونڈ فلور تک پہنچنے سے اسے روکا نہیں جاسکتا، اس جملہ کی معنویت پر جتنا غور کریں گے،نگاہ اور شرمگاہ کی حفاظت کی معنویت اتنی ہی واضح ہوجائے گی۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...