Powered By Blogger

اتوار, اپریل 03, 2022

دبستان خیر آباد مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

دبستان خیر آباد 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
خیر آباد دوران طالب علمی ہی سے میرے ذہن ودماغ پر چھایا رہا ہے، عربی دوم کے سال مرقات نصاب کا جز تھا، جس کے مصنف مولانا فضل امام خیر آبادی (۱۸۲۱) ہیں، استاذ نے مصنف کے احوال وکوائف سے آگاہ کیا تو خیر آباد کی محبت دل میں بیٹھ گئی، پھر ان کے نامور صاحب زادے علامہ فضل حق خیر آبادی کی علمی خدمات تک رسائی ہوئی، جد وجہد آزادی میں ان کی قربانی سے واقفیت ہوئی تو خیر آباد کی عظمت دل میں بیٹھی اور ا ب ان دنوں خیر آباد کے میرے مخلص وکرم فرما عارف علی انصاری نے میرے دل ودماغ پر قبضہ جما رکھا ہے، انہیں کی دعوت پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈکے کانپور اجلاس کے موقع سے خیرآباد کی زیارت کا شرف حاصل ہوا، اپنوں کے ستائے ہوئے عارف علی انصاری اکابر کے معتقد، علم کے شیدائی، محبت کے پیکر ہیں، متوسط قد ان کے معتدل مزاج ہونے کی غماز ہے، چہرے پر داڑھی اور پیشانی پر زمانہ کے نرم وگرم ،نشیب وفراز کی سلوٹیں ان کی شناخت ہیں،علم لوگوں تک پہونچا نے کے لیے کتاب کی تجارت کرتے ہیں، میں خیر آباد سے واپس ہونے لگا تو ان پر رقت طاری ہو گئی، کتابوں کا اچھا خاصہ ہدیہ دیا، ان میں ایک کتاب ’’دبستان خیر آباد‘‘ بھی تھی۔
 خیر آباد عربی، فارسی اور اردو شعر وادب کا ممتاز مرکز رہا ہے، اس مرکزیت کو واضح کرنے اور شعراء کو زندگی نَوعطاکرنے کے لیے فرید بلگرامی نے دبستان خیر آباد کی تصنیف کی ہے، اس میں ۱۵۰۰ء سے تا حال خیر آباد کے دو سو ستہتر مسلم اور دس غیر مسلم شعراء کو جگہ دی گئی ہے، اس فہرست میں نامور اور گم نام مبتدی اور استاذشعراء کا ذکر نمونۂ کلام کے ساتھ مذکور ہے، کتاب کا انتساب انہوںنے اپنی والدہ ہاجرہ بیگم بلگرامی، مفتی سید نجم الحسن رضوی ، عبد الشاہد شیروانی، ڈاکٹر رابعہ بصری (بسوانی) کے نام کیا ہے، جن کی کتابوں سے فرید بلگرامی نے فائدہ اٹھایا اور اسے ماخذ کے طور پر استعمال کیا ہے، کتاب کے شروع میں ظفر علی قادری نے ’’دعائیں‘‘، ڈاکٹر عزیز خیر آبادی نے ’’جام نو میں شراب کہن‘‘، پروفیسر سید احسن رضوی نے ’’حرفے چند‘‘ اور ڈاکٹر رابعہ بصری نے ’’حرف حرف معتبر‘‘ کے عنوان سے کتاب کی اہمیت وافادیت ، دبستان خیر آباد کی خصوصیت اور تاریخ کے مختلف ادوار میں خیر آباد کی ادبی خدمات سے قارئین کو روشناش کرایا ہے، اسی باب میں فرید بلگرامی نے بھی خیر آباد میں ادب کا ارتقا، خیر آباد کے ادب کے فروغ میں کایستھوں کا حصہ ، امیر مینائی اور دبستان خیر آباد، خیرآباد کی صحافتی خدمات ، خیر آباد کے ناول نگار، شعراء خیر آباد کی اصناف سخن ، خیر آباد کی محفلیں ، خیرآبادیوں کی تصانیف وتالیفات کے عنوان سے انتہائی تحقیقی مقالہ لکھا ہے، اسے اس کتاب کا مقدمہ سمجھنا چاہیے، یہ تفصیلات نہ ہوتیں تو قارئین خیر آباد کے در وبست سے واقف نہیں ہو پاتے۔
 دوسرے باب میں خیر آباد کے شعراء وادباء کا تذکرہ مع نمونۂ کلام درج کیا گیا ہے، جن کو بڑی محنت کے ساتھ تلاش کرکے کتاب کا حصہ بنا دیا گیا ہے، کہنا چاہیے کہ یہ ’’کار‘‘ نہیں ’’کارنامہ‘‘ ہے، چیونٹی کے منہہ سے دانہ دانہ جمع کرنا آسان کام نہیں ہوتا، اس قسم کی کتابوں کی ترتیب میں مواد جمع کرنے کا عمل بڑا جاں گسل ہوتا ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ دبستان خیر آباد پر جو کچھ لکھا گیا ہے اس کے لیے ماخذ ومواد اس قدر جمع کیے گیے کہ پوری لائبریری بن گئی ، چنانچہ کتابیات کی فہرست میں آپ دیکھیں گے کہ جہاں سے مواد لیا گیا ہے وہ سب فرید بلگرامی کی ذاتی لائبریری میں موجود ہیں، صرف ایک کتاب انہوں نے خدیجہ لائبریری کی استعمال کیا ہے، جس کے بانی ہمارے کرم فرما عارف علی انصاری ہیں۔ اس کتاب کی تصنیف میں جو پریشانی ان کو اٹھانی پڑی اور جن مراحل اور کرب سے مصنف کو گذرنا پڑا، اس کا اظہار انہوں نے ان جملوں میں کیا ہے ، لکھتے ہیں: میرا خیال ہے کہ تذکرہ قسم کی کتاب لکھنا دریوزہ گری یاگدا گری سے زیادہ مختلف نہیں ہے، میں اس کام کے لیے دروازے دروازے گیاہوں اور کئی کئی بار گیا ہوں، کچھ نے تو میرے دامن میں وہ سب کچھ ڈال دیا جو ان کے پاس تھا، کچھ نے بہت بخل سے کام لیا۔ (صفحہ ۲۶)
 جن شعراء کی تصویریں ملیں ان کو شامل کتاب کیا گیا ہے، فہرست میں پہلے تخلص پھر پورا نام بھی درج کیا گیا ہے، جس سے اصلی اور قلمی نام تک ایک نظر میں قارئین پہونچ جاتے ہیں، مختلف شعراء کے مجموعۂ کلام کے سرورق کی عکسی تصویر نے بھی کتاب کی اہمیت وافادیت میں چار چاند لگا دیا ہے۔
یہ سارا ذخیرہ سید فرید الدین احمد فرید بلگرامی (ولادت ۱۸؍ ستمبر ۱۹۵۲)کی کاوش دل پذیر کا نتیجہ ہے، ان کی کئی کتابیں پہلے بھی طبع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں، ان کتابوں میں حکیم عابد علی کوثر خیر آبادی ، بلگرام کی شعری وادبی خدمات ، آقائے سخن وسیم خیر آبادی ، متاع وسیم خیرآبادی ، اردو اور بلگرام ’’راجنیتک ایوم ساہتیک اتہاس‘‘ ہندی میں خاص طور پر قابل ذکر ہیں، فرید بلگرامی کی تحریرمیں ساد گی اور سلیقہ مندی وافر مقدار میں موجود ہے۔
چار سو چھ صفحہ کی یہ کتاب نعمانی پرنٹنگ پریس سے چھپی ہے، سرورق دیدہ زیب ہے عارف عزیز خیر آبادی نے کمپوزنگ اور اس کی ڈیزائننگ کی ہے اور چاروں طرف مختلف شعراء کے تخلص کو ایک خاص ترتیب سے سجا کر سرورق کی معنویت میں اضافہ کیا ہے، اتنی تحقیقی اور ضخیم کتاب کی قیمت چار سو پچاس روپے زائد نہیں ہے، خصوصا اس صورت میں جب کتاب فروشوں کو اچھی خاصی کمیشن بھی دینی پڑ رہی ہو ، ملنے کے پتے تین ہیں، آپ چاہیں تو عارف علی انصاری بک سیلر لطیف مارکیٹ خیرآباد ضلع سیتا پور سے اسے حاصل کر سکتے ہیں، لکھنؤ میں ہوں تو دانش محل ، امین الدولہ پارک، امین آباد لکھنؤ اور خود مصنف کے پتہ بلگرام بلڈنگ میاں سرائے، خیر آباد سیتاپور سے بھی یہ کتاب مل سکتی ہے۔ڈاکٹر عزیز خیر آبادی کے ان جملوں پر اپنا یہ تبصرہ ختم کرتا ہوں ، لکھتے ہیں کہ ’’مجھے یقین ہے کہ آپ اس کتاب کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے اور خیر آباد سے متعلق تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے یہ کتاب مشعل راہ ثابت ہوگی‘‘۔

ہفتہ, اپریل 02, 2022

دہلی: رمضان المبارک سے قبل عوام ملی مفت میں کمر توڑ مہنگا ئی

دہلی: رمضان المبارک سے قبل عوام ملی مفت میں کمر توڑ مہنگا ئی

نئی دہلی: رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ رمضان کے آغاز سے قبل بازاروں میں رونقیں تو بحال ہو گئی ہیں لیکن آسمان چھوتی مہنگائی نے عوام کا جینا دشوار کر دیا ہے۔ گزشتہ سال کے مقابلے رواں سال اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں میں 50 سے 60 فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے، جس کے نتیجہ میں عام لوگوں کو گھر چلانے میں سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ رسوئی گیس، دال، چینی، چاول، کھجور، تیل، گوشت، سبزیاں، آٹا، مصالحے، چائے کی پتی، سحری میں خصوصی طور پر کھائے جانے والا کھجلا، فینی، ٹوسٹ، بند وغیرہ کی قیمتیں بڑھنے سے دہلی کے تمام چھوٹے و بڑے دکاندار سخت پریشان ہیں۔ مُسلسل بڑھتی مہنگائی پر قابو پانے میں مرکزی و ریاستی دونوں حکومتیں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔

قومی آواز کے نمائندہ نے شمال مشرقی دہلی کے مسلم اکثریتی علاقہ جعفرآباد اور سیلم پور مارکیٹ کا دورہ کیا اور مہنگائی کے تعلق سے دکانداروں سے بات کی۔ مہنگائی کے تعلق سے پرچون کی دکان کے مالک محمد فرقان نے کہا کہ رمضان المبارک سے قبل آسمان چھوتی مہنگائی روزے داروں کے لئے پریشان کن ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے بھی مہنگائی بڑھتی رہی ہے لیکن جس طرح روزانہ ہر چیز کے دام بڑھ رہے ہیں اس سے ہرکس و ناکس جیب پر خاصا فرق پڑ رہا ہے۔ تاہم آمدنی ہے کہ بڑھنے کا نام نہیں لے رہی اور بے روزگاری میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

فرقان نے اپنی گفتگو میں بتایا کہ گزشتہ رمضان میں چینی 35 روپے فی کلو تھی جو آج 40 روپے ہے، آٹا 22 روپے تھا جو اب 30 روپے ہوگیا، اور سب سے اونچی چھلانگ تیل نے لگائی ہے، ایک سال پہلے سرسوں اور ریفائنڈ تیل 100 روپے فی لیٹر تھا جس کی قیمت اب 180 روپے فی لیٹر ہوگئی ہے اور آگے بھی بڑھنے کے امکانات ہیں۔ اس کے علاوہ رمضان میں پکوڑی کے بغیر افطار ادھورا ہے۔ پکوڑی بنانے کے لئے بیسن ضروری ہے، گزشتہ سال اس کی قیمت60 روپے تھی وہی بیسن آج 90 روپے کلو تک پہنچ چکا ہے۔ تاہم روح افزا کی بوتل 160 روپے کی ہوگئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سال ہر چیز مہنگی ہے جس کے سبب جو صارفین کلو کے حساب سے سامان لے جاتے تھے وہ اب ضرورت کے مطابق ہی را شن خرید کر لے جاتے ہیں۔ مہنگائی ڈائن ذات نے سحری و افطار میں کھائی جانے والی کھجوروں اور کھجلا، فینی، ٹوسٹ، پا پے، بند کو بھی نہیں بخشا، ماہ صیام میں کھجور دسترخوان کی رونق کو بڑھا دیتا ہے لیکن اس کی خریداری سے لوگوں کی جیب ڈھیلی ہو رہی ہے۔

نمائندہ سے بات کرتے ہوئے جعفر آباد روڈ پر کھجوروں کا ٹھیلا لگانے والے محمد شمیم نے بتایا کہ میں تقریباً دس سالوں سے کھجوروں کا کاروبار کر رہا ہوں، لیکن بیتے دس سالوں میں جس طرح مہنگائی روزانہ بڑھ رہی ہے اس نے ہمیں اور صارفین کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی پر انہوں نے کہا کہ جب کو ئی صارف ہم سے 200 روپے کلو والی کھجور لے جاتا ہے اور کچھ دن بعد وہ دوبارہ آتا ہے تو قیمت بڑھنے پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ پچھلی مرتبہ والے دام میں ہی کھجو ر چاہئے۔ اب گاہک کو کون سمجھائے کہ پیچھے سے کھجوریں مہنگی آرہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس عنبر، براری، فرہاد، کیمیا، نامی کھجور زیادہ فروخت ہوتی ہیں جو گزشتہ برس 200 روپے فی کلو ہوا کرتیں تھیں لیکن اب ان کی قیمت 300 روپے فی کلو ہے۔

گلشن بیکری کے مالک محمد گلفام نے کہا کہ دو برس سے عالمی وبا کورونا انفیکشن اور لاک ڈاؤن نے کاروبار کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کی تلافی برسوں میں جاکر پوری ہوگی۔ انہوں نے آگے کہا کہ کورونا کے بڑھتے معاملوں کے سبب پورے دو سال بعد زندگی پوری طرح پٹری پر آئی بھی نہیں تھی کہ اب مہنگائی کا جن چراغ سے نکل آیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کھجلا، فینی، بند، ٹوسٹ، پاپے وغیرہ میں تیل کا زیادہ استعمال ہوتا ہے اور آج تیل کے کنستر کی قیمت 2480 روپے ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے اس سال کھجلا 240 روپے فی کلو ہے جو گزشتہ برس 180 تھا اور فینی 200 روپے کلو ہے جو پہلے 160 روپے کلو تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ سحری میں کھائے جانے والا بریڈ جس کو عام زبان میں (بند) کہتے ہیں اس کی قیمت میں دو گنا اضافہ ہوا ہے، 10 روپے والا بند اس سال 20 روپے کا ہوگیا ہے۔

محمد گلفام نے کہا کہ مہنگائی لوگوں کا دم نکال رہی ہے لیکن موجودہ حکومتیں سیاسی داؤ پیچ کھیلنے میں مصروف ہیں۔ مہنگائی سے عوام کا برا حال ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی سے کپڑے تاجروں کا کاروبار متاثر ہوا ہے، رمضان میں جہاں ایک جانب مومنین کثرت سے عبادات کرتے ہیں وہیں دوسری جانب مومینین اچھا لباس، خاص طور پر کرتا پاجامہ پٹھانی سوٹ، پہننا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ تیزی سے بڑھتی مہنگائی سے کپڑوں کی قیمتوں میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ کرتے کے کپڑوں کے لیے مشہور کاٹن ہاٹ نامی دکان کے ملک محمد شریف نے کہا کہ کبھی نوٹ بندی، پھر جی ایس ٹی، اور اب مہنگائی نے کاروباریوں کو پریشان کیا ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری دکان پر 150 روپے میٹر سے لیکر 3 ہزار روپے میٹر تک کا کپڑا دستیاب ہے۔ لیکن امسال کپڑے کی قیمت میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے اور صارفین کو سستا کپڑا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی سے ان کا کاروبار متاثر تو ہو ہی رہا ہے ساتھ میں دکان پر کام کرنے والے لڑکوں کی تنخوہیں ادا کر پانا کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس طرف توجہ دے تاکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پایا جا سکے

استقبالِ رمضانمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

استقبالِ رمضان
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
ہر کام کا سیزن اور موسم ہوتا ہے او ر اپنے متعلقہ کاموں کے سیزن کا لوگوںکو انتظار رہتا ہے ، کیوں کہ اس کی نفع بخشی سے کاروبار زندگی میں رونق آتی ہے اور سال بھر معاشی زندگی پر اس کے اثرات باقی رہتے ہیں، ایمان والوں کو بھی ایک سیزن کا انتظار رہتا ہے اور وہ سیزن ہے نیکیوں کے موسم بہار کا، جسے ہم رمضان المبارک کے نام سے جانتے ہیں، اس موسم کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ شرپھیلانے والی بڑی قوت شیطان کو پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے ، خیر کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، قلب ونظر اور ذہن ودماغ پر اس سیزن کے اثرات خوش کن ہوتے ہیں، خیر کے کاموں کی طرف رجحان بڑھتا ہے اور برائیوں سے فطری طور پر دل میں نفور پیدا ہوجاتا ہے ، مسجدیں نماز یوں سے بھر جاتی ہیں، تلاوت قرآن کریم کی آواز ہر گھر سے آنے لگتی ہے ، خیرات وزکاۃ دینے والے، ادارے، تنظیمیں افراد کی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے آگے آتی ہیں، مسلمان غریبوں، مسکینوں ہی کے لئے نہیں، محلہ میں اہل ثروت روزہ داروں کے لیے بھی دستر خوان سجاتا ہے کیوں کہ اسے معلوم ہے کہ افطار کا ثواب روزہ کے ثواب کے برابر ہے ، دستر خوان پر جتنی چیزیں رمضان میں جمع ہوجاتی ہیں، اس کا چوتھا حصہ بھی عام دنوں میں دسترخوان پر دیکھنے کو نہیں ملتا ، روزہ کو حدیث میں ڈھال کہا گیا ہے اور اس ڈھال کے ذریعہ ایمان والا خیر کو اپنا تا اور شر کو چھوڑ تا ہے ، دھوپ کی تمازت ، پیاس کی شدت اور غضب کی بھوک میں بھی اسے یقین ہوتا ہے کہ یہ عمل رضائے الٰہی کا سبب ہے اور جو ثواب ملے گا اس کا پیمانہ مقرر نہیں ہے ، حدیث قدسی ہے، روزہ میرے لیے ہے اور میںہی اس کا بدلہ دوں گا ، عام طور سے نیک اعمال میں ثواب کا فارمولہ ایک پر دس کا ہے،قرآن کریم میں مَنْ جَائَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہُ عَشَرُ اَمْثَالِھَا مذکور ہے یعنی ایک نیکی کیجئے دس پائیے؛ روزہ ظاہر کے اعتبار سے ایک مخفی عبادت ہے ،لیکن بندے کا روزہ کس پائے کا ہے، اللہ ہی جانتا ہے ، اس لئے روزہ کے اجر و ثواب کا فارمولہ الگ ذکر کیا گیا کہ وہ اللہ کے لئے ہے اور اللہ ہی اس کے روزے کے اعتبار سے بدلہ عطا فرمائیں گے۔ ایک روایت میں ہے کہ میں ہی اس کا بدلہ ہوں، ظاہر ہے اللہ جس کو مل جائے اسے کسی اور چیز کی ضرورت باقی نہیں رہے گی، اس لیے ایمان والوں کو اس موسم بہار سے اس طرح فائدہ اٹھانا چاہیے کہ دل کی دنیا بدل جائے اور زندگی اس راستے پر چل پڑے جو اللہ اور اس کے رسول کو مطلوب ہے ، اس کے لئے روزہ کے ساتھ تراویح،تہجد اور تلاوت قرآن کا اہتمام بھی کرنا چاہیے اور خود کو منکرات سے بچانا بھی چاہیے، اس حد تک کہ کوئی جھگڑے پر اُتارو ہو تو آپ کہدیجئے، میرا روزہ ہے ، ایسا روزہ انسان کے اندر تقویٰ پیدا کرتا ہے ، اور تقویٰ ہی رضائے الٰہی تک لے جانے والی شاہ راہ ہے ۔
 رمضان کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر جو حضرت سلمان فارسی کے حوالے سے احادیث کی کتابوں میں مذکور ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ لوگو !ایک باعظمت مہینہ آپہونچاہے، یہ ماہ رمضان ہے۔ اس ماہ میں جو شخص کوئی نیک کام کریگا، اس کا ثواب فرض کے برابراور فرض اداکریگا تو اس کا ثواب ستر فرض کے برابر ملے گا، جو روزہ دار کو افطار کرائے گا وہ جہنم سے خلاصی پائے گا ۔اوراسے روزہ دار کے بقدر ثواب ملے گا، جب کہ روز ہ دار کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی ۔اوریہ ثواب محض ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی سے افطار کرانے پر بھی ملے گا۔اور اگر کسی نے روزہ دار کو پیٹ بھر کھانا کھلادیا تو حوض کوثر سے ایسی سیرابی ہوگی کہ جنت میں داخلے تک پیاس نہیں لگے گی اورجنت بھوک پیاس کی جگہ نہیں ہے ، فرمایا : اس ماہ کا پہلا حصہ رحمت ، دوسر ا مغفرت اورتیسرادوزخ سے آزادی کا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس ماہ میںاپنی خاص رحمت سے ایسا انتظام کرتے ہیں کہ شیطان بندوں کو گمراہ نہ کرسکے ، اور بُرائی پر آمادہ کرنے سے بازآجائے اسی لئے جنات اورسرکش شیاطین کو پابند سلاسل کردیاجاتاہے۔جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور جنت کے دروازے پورے ماہ کے لئے کھول دیئے جاتے ہیں ۔اور منادی خدا کی طرف سے آواز لگاتا ہے کہ خیر کے طالب آگے بڑھو اورشر کی طرف مائل لوگو رک جائو ، باز آئو، اتنے اہتمام کے باوجود اگر کوئی مسلمان  اس ماہ سے فائدہ نہیںا ٹھاتا اور جنت کے حصول کے سامان نہیں کرتاتو بدبختی اور شقاوت کی انتہا ہے ۔
روزہ کا ایسا اہتمام کیاجائے جو شریعت کو مطلوب ہے ، اور جس سے تقوی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے ، روزہ صرف کھانے پینے اور شہوانی خواہشات سے پرہیز تک محدود نہ رکھا جائے ، بلکہ آنکھ ، دل ، دماغ ، کان ، زبان ، ہاتھ ، پائوں ، اور سبھی اعضا و جوارح کا روزہ رکھا جائے، آنکھ غلط چیزوں کو نہ دیکھے ، دل گناہوں کی طرف مائل نہ ہو ،دماغ خدا کے احکام کے خلاف نہ سوچے ، کان غلط نہ سنے ، زبا ن غیبت ، چغل خوری ، جھوٹ، طعن وتشنیع گالی گلوج سے محفوظ رہے ، اوراعضا وجوارح خداکی مرضیات پر لگ جائیں ، ایسا روزہ ہی دراصل روزہ ہے ،  چونکہ یہ غم گساری کا بھی مہینہ ہے اس لیے جہاں کہیں بھی رہے، جس کام میں لگا ہوا ہو۔ اس میں اس کو ملحوظ رکھے ، حسب استطاعت غربا کے خورد ونوش اورمحتاجوں کی ضروریات کی کفالت کا بھی نظم کرے کہ یہ بھی روزہ کے مقاصد میں سے ایک ہے، ہم لوگ جنہیں اللہ تعالی نے خوردونوش کی سہولتیں دے رکھی ہیں اور بھوک پیاس کی تکلیف کا احساس پورے سال نہیں ہوتا، بلکہ شادی اور دیگرتقریبات میں کھانے پینے کی اشیاء کو ضائع کرتے ہیں ، انہیںروزہ میں جب بھوک پیاس لگے تو ان کے اندریہ احساس جاگناچاہئے کہ سماج کے دبے کچلے لوگ جن کے گھرچولہا بڑی مشکل سے جلتاہے ۔ اور کئی بار فاقہ میںرات گذرجاتی ہے، کس قدر پریشانیاں محسوس کرتے ہوں گے ، اس وجہ سے اکابر نے اس بات پر زوردیا کہ افطار اورکھانے میں تلافیٔ مافات کی غرض سے اتنا نہ کھالے کہ روزہ رکھنے سے جو شہوانی قوت میںتھوڑی کمی آئی تھی وہ جاتی رہے اورسحری میں اس قدر نہ کھالے کہ دن بھر بھوک پیاس کا احساس ہی نہ ہو ۔ اس ماہ میں مدارس کے اساتذہ اوراکابر علماء ، ادارے تنظیموں اور مدارس کی فراہمی مالیات کے لئے کوشاں اور متفکرہوتے ہیں۔ ان کا اکرام کیاجائے ، اور محسوس کیا جائے کہ وہ امراء پراحسان کرتے ہیں کہ ان کی زکوۃ بروقت مناسب جگہ پہنچ جاتی ہے ، اس لئے جھڑک کر اوربار بار انہیں دوڑا کر اپنے عمل کو ضائع نہیں کرنا چاہیے، اس سے علماء کی بے وقعتی بھی ہوتی ہے اور ثواب بھی ضائع ہوتا ہے۔
اس موقع سے یہ بتانا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ بہت سارے لوگ ٹی وی کے ان پروگراموں کو دیکھنے میں وقت بر باد کر تے ہیں، جو استقبال رمضان یا رمضان کے لیے خصوصی پروگرام کے حوالہ سے پیش کیے جاتے ہیں، ان پروگراموں کو دیکھنے میں وقت برباد کرنا کسی طور مناسب نہیں ہے ، کیوں کہ ان پروگراموں میں بھی منکرات کی بھر مار ہوتی ہے ، لہو ولعب کے وہ مناظر اشتہار کے طور پر دکھائے جاتے ہیں جو شرعی طور پر منکرات کے ذیل میں آتے ہیں، یقینا قرآن کریم کی تلاوت، نعت خوانی اور روزہ رمضان کی مناسبت سے ترغیبی گفتگو اچھی چیز ہے ، لیکن اس اچھے کام کے ساتھ منکرات کی ایک لمبی فہرست اس میں ہوتی ہے ، اس لیے بہتر یہی ہے کہ ٹی وی بند کردیں اور سارا وقت تلاوت کلام پاک اور ذکر واذکار میں لگائیں،یہ آپ کی اخروی زندگی کے لیے فائدہ مند اور رمضان المبارک کے تقاضوں کے عین مطابق ہوگا ۔

جمعہ, اپریل 01, 2022

بیگوسراے ضلع انتظامیہ نے نور جہاں کی لاش کی تدفین سے روکا

بیگوسراے ضلع انتظامیہ نے نور جہاں کی لاش کی تدفین سے روکابیگوسرائے آیورویدک کالج کے نزدیک 100 سال پرانا ایک قبرستان ہے جس میں کئی مزار بھی ہیں ۔ شہر کے تلک نگر محلہ اور لوہیا نگر کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ضلع میں ریل حادثہ یا سڑک حادثہ میں ہلاک ہونے والے لوگوں کو اسی قبرستان میں ایک سو سال سے زائد عرصہ سے دفن کیا جاتا رہا ہے مگر اچانک کچھ دن پہلے انیل سنگھ نے قبرستان میں کچھ لوگوں کو بھیج کر دیوار کو توڑ کر قبضہ جمانے کی کوشش کی ۔ جب مسلمانوں کو پتہ چلا تو قبرستان پہنچ کر دیکھا ، تب تک مزدور بھاگ چکے تھے۔ اس دن سے معاملہ کچھ ٹھنڈا پڑ گیا تھا لیکن جمعہ کو معین الدین کی 60 سالہ اہلیہ نور جہاں بیگم کی موت ہوگئی ۔ تو محلہ کے لوگوں نے نماز جمعہ کے بعد مدرسہ بدر الاسلام میں جنازہ کی نماز پڑھانے کے بعد میت لے کر جب قبرستان پہنچے تو دیکھا کہ اس میں ایک بڑا تالا لگا ہوا ہے ۔ بعد میں پتہ چلا کہ صدر بلاک سرکل افسر نے یہ تالا لگوایا ہے۔ اس کے بعد شدید غم وغصے سے لبریز مسلمانوں نے ڈی ایم دفتر پہنچ کر سڑک پر جنازہ رکھ دیا اور مظاہرہ کیا ۔ بیگوسرائے کلکٹر اروند کمار ورما نے سرکل انسپکٹر کو بھیجا۔ انیل سنگھ لوہیا نگر تھانہ حلقہ کے سوہید نگر باشندہ انیل سنگھ ٹھیکہ داری کرتا ہے۔ انہوں نے بیگوسرائے صدر ایس ڈی او کی عدالت میں درخواست دے کر دفعہ 144 نافذ کروایا ہے۔ سرکل انسپکٹر نے یقین دہانی کرائی کہ معاملہ بہت جلد آپ لوگوں کے حق میں جائے گاابھی جنازہ دیگر کسی قبرستان میں دفن کردے۔ آئندہ 15 دن کے اندر میں معاملہ حل کر لیا جائے گا۔ اقلیتی طبقہ کے لوگوں نے مجبور ہو کر جنازہ کو لیکر شہر کے جاگیر محلہ قبرستان پہنچے اور وہاں لاش دفن کی۔

سعودی عرب میں رمضان المبارک کا چاند نظر آگیا



سعودی عرب میں رمضان المبارک کا چاند نظر آگیا

سعودی میڈیا کے مطابق سعودی عرب کےعلاقےحوطہ سدیر میں رمضان کا چاند نظر آیا، سعودی شہر تمیر میں بھی چاند نظر آنے کی شہادت ملی ہے— فوٹو: فائل
سعودی میڈیا کے مطابق سعودی عرب کےعلاقےحوطہ سدیر میں رمضان کا چاند نظر آیا، سعودی شہر تمیر میں بھی چاند نظر آنے کی شہادت ملی ہے— فوٹو: فائل

ریاض: سعودی عرب میں رمضان المبارک کا چاند نظر آگیا اور وہاں پہلا روزہ کل یعنی 2 اپریل کو ہوگا۔

سعودی میڈیا کے مطابق سعودی عرب کےعلاقےحوطہ سدیر میں رمضان کا چاند نظر آیا، سعودی شہر تمیر میں بھی چاند نظر آنے کی شہادت ملی ہے۔

علاوہ ازیں ملائیشیا اور انڈونیشیا میں رمضان کا چاند نظر نہیں آیا اور ان ممالک میں پہلا روزہ 3 اپریل کو ہوگا۔

عرب میڈیا کے مطابق برونائی میں بھی چاند نظر نہیں آیا اور وہاں بھی 3 اپریل بروز اتوار کو یکم رمضان ہوگا۔

امام کونسل ساؤتھ آسٹریلیا نے اعلان کیا ہے کہ آسٹریلیا میں پہلا روزہ 2 اپریل کو رکھا جائے گا۔

پاکستان میں رمضان کا چاند کل دیکھا جائے گا

*اخلاقیات وقت کی اہم ضرورت*

*اخلاقیات وقت کی اہم ضرورت* 
جس معاشرے میں جھوٹ اور بددیانتی عام ہوجائے وہاں کبھی امن و سکون نہیں ہوسکتا۔ جس ماحول یا معاشرہ میں اخلاقیات کوئی قیمت نہ رکھتے ہوں اور جہاں شرم و حیاء کی بجائے اخلاقی باختگی اور حیا سوزی کو منتہائے مقصود سمجھا جاتا ہو اُس قوم اور معاشرہ کا صفحہ ہستی سے مٹ جانا یقینی ہوتا ہے خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ دنیا میں عروج و ترقی حاصل کرنے والی قوم ہمیشہ اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہے جبکہ برے اخلاق کی حامل قوم زوال پذیرہوجاتی ہے۔ یہ منظر آپ اِس وقت دنیا میں اپنے شرق و غرب میں نظر دوڑا کر دیکھ سکتے ہیں کہ عروج و ترقی کہا ں ہے اور ذلت و رسوائی کہاں ہے؟
     اخلاقیات ہی انسان کو جانوروں ںسے الگ کرتی ہیں۔اگر اخلاق نہیں تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں۔ اخلاق کے بغیر انسانوں کی جماعت انسان نہیں بلکہ حیوانوں کا ریوڑ کہلائیگی۔
لہذا اہل مدارس و آئمہ مساجد سے بندہء ناچیز کی گذارش ہیکہ کے اخلاقیات پر زور دیں 
تاکہ یہ امت زوال سے نکلے اور عروج کی طرف پلٹے
 
            *نتیجہءفکر*

محمد کلیم الزماں قاسمی مہتمم دارالعلوم رشیدیہ میمن سادات ضلع بجنور یوپی

نتیش کمار بہار نہیںچھوڑیں گے جے ڈی یو نے راجیہ سبھا جانے کی قیاس آرائیوں کو کیا مسترد

نتیش کمار بہار نہیںچھوڑیں گے جے ڈی یو نے راجیہ سبھا جانے کی قیاس آرائیوں کو کیا مسترد

بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار ریاست کی سیاست سے مطمئن نہیں ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں سے یہ بحث گرم ہے کہ وہ نائب صدر بن سکتے ہیں یا راجیہ سبھا میں جا سکتے ہیں، لیکن جمعہ کو ان کی پارٹی جے ڈی یو نے انہیں یکسر مسترد کر دیا۔ بہار کے وزیر اور جے ڈی یو لیڈر سنجے جھا نے کہا کہ یہ افواہ اور شرارت ہے۔ یہ باتیں حقیقت سے بالاتر ہیں۔

جھا نے یہ بھی کہا کہ وہ اس افواہ پر حیران ہیں کہ 

نتیش کمار راجیہ سبھا جانے پر غور کر رہے ہیں!انہیں بہار کی خدمت کرنے کا مینڈیٹ ملا ہے۔ وہ وزارت اعلیٰ کے پورے دور میں عوام کی خدمت کرتے رہیں گے۔ نتیش کمار کہیں نہیں جا رہے ہیں۔ نتیش کمار 2020 کے بہار اسمبلی انتخابات میں این ڈی اے کے سی ایم چہرہ رہے ہیں اور عوام نے اتحاد کو حکومت بنانے کا مینڈیٹ دیا۔

دراصل، ماضی میں، نتیش کمار نے مبینہ طور پر اپنے طویل سیاسی کیریئر میں ایک بار بھی راجیہ سبھا نہ جانے کا ذکر کیا تھا۔ اس بارے میں قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ انہوں نے بہار کی سیاست میں اپنا دماغ بھرنا شروع کر دیا ہے۔ حالانکہ بہار میں اقتدار کی تبدیلی کو لے کر بی جے پی اور جے ڈی یو کے درمیان کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے لیکن سیاسی قیاس آرائیوں کی دوڑ شروع ہو گئی ہے۔ اسی لیے وزیر سنجے جھا نے یہ وضاحت دی ہے۔ وہ صاف کہتے ہیں کہ یہ فساد ہے اور ان کا حق سے کوئی تعلق نہیں۔

دوسری جانب بی جے پی ذرائع کا کہنا ہے کہ نتیش کمار نے صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت میں مذکورہ ارادے کا ذکر کیا تھا۔ بی جے پی یا اتحادی جماعتوں کی سطح پر اس نے ابھی تک اس سلسلے میں کچھ نہیں کہا ہے۔ اگر نتیش بی جے پی کے سامنے اپنی اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں تو ریاست کی سیاست میں تبدیلی کے ممکنہ فارمولے پر بات ہوگی۔ اس دوران بحث کا بازار گرم ہے کہ بی جے پی اتفاق رائے سے انہیں نائب صدر بنانے کی پیشکش کر سکتی ہے۔ ایسے میں بہار میں بی جے پی وزیر اعلیٰ بنے گی اور جے ڈی یو کو نائب وزیر اعلیٰ کے دو عہدے ملیں گے۔
اس فارمولے پر عمل درآمد آسان نہیں ہے۔ اگر نتیش کمار نائب صدر بنتے ہیں تو وہ فعال سیاست سے دور ہو جائیں گے۔ ایسے میں جے ڈی یو کے پاس ایسا کوئی لیڈر نہیں ہے جو پارٹی کو سنبھال سکے۔ کسی ایک لیڈر پر اتفاق رائے حاصل کرنا بھی آسان نہیں۔ یہ جے ڈی (یو) میں بھگدڑ کا باعث بن سکتا ہے، لہذا وہ یہ خطرہ مول لینا پسند نہیں کرے گا۔

بہار اسمبلی میں جے ڈی یو کے پاس اس بار بی جے پی کے مقابلے نصف سیٹیں ہیں۔ نتیش پھر سے وزیر اعلیٰ بن گئے ہیں، لیکن حکومت کو ان کی آخری میعاد جیسا خطرہ نہیں ہے۔ انہیں کئی بار بی جے پی کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے ہیں۔ حال ہی میں، اتحادی پارٹنر وی آئی پی کے تین ایم ایل ایز کے رخ بدلنے کے بعد بی جے پی کے ایم ایل ایز کی تعداد 77 ہوگئی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کانگریس کے کئی ایم ایل اے بی جے پی کے رابطے میں ہیں

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...