Powered By Blogger

پیر, اپریل 18, 2022

آندھرا مسجد کے سامنے اونچی آواز میں موسیقی بجانے پردو فرقوں میں تصادم ۱۵زخمی ۲۰گذفتار

آندھرا مسجد کے سامنے اونچی آواز میں موسیقی بجانے پردو فرقوں میں تصادم ۱۵زخمی ۲۰گذفتار

امراوتی: قومی راجدھانی دہلی کے بعد آندھرا پردیش کے کرنول سے بھی فرقہ وارانہ تشدد کی اطلاع موصول ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ شب ہنومان جینتی کے موقع پر نکالے گئے جلوس کے دوران دو گروپوں کے درمیان پتھراؤ ہوا۔ اس واقعہ میں کم از کم 15 افراد زخمی ہو گئے۔ پولیس نے 20 افراد کو گرفتار کیا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ صورت حال مکمل طور پر پرامن ہے۔ قصبے کے ہولاگنڈہ علاقے میں اس وقت جھڑپیں شروع ہوئیں جب دو گروپوں نے ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا۔ حالات کشیدہ اس وقت ہوئے جب شام کو ایک مسجد کے سامنے سے جلوس نکل رہا تھا۔ چونکہ مسجد میں 'افطار' اور 'نماز' کا وقت تھا، لہذا نمازیوں نے جلوس کے دوران اونچی آواز میں موسیقی بجانے پر اعتراض کیا۔

اس کے بعد دونوں طرف تو تو میں میں شروع ہو گئی۔ دونوں دھڑوں نے نعرے بازی شروع کر دی جس سے صورتحال کشیدہ ہو گئی۔ انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق کرنول کے ایس پی سدھیر ریڈی نے کہا "وی ایچ پی نے ہولاگنڈہ میں ہنومان جینتی کی تقریبات کا اہتمام کیا تھا۔ پولیس کے منع کرنے کے باوجود جلوس کے دوران ڈی جے کا استعمال کیا گیا۔ جلوس جب مسجد کے قریب پہنچا تو پولیس نے ڈی جے کی آواز کم کرنے کو کہا لیکن وہ مسجد کے سامنے رک گئے اور 'جے شری رام' کے نعرے لگانے لگے۔ اس پر پر مسلم کمیونٹی کے لوگوں نے 'اللہ ہو اکبر' کا نعرہ لگانا شروع کر دیا۔''

انہوں نے مزید کہا کہ پولیس نے مداخلت کرتے ہوئے صورتحال کو قابو میں کیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ جلوس مسجد سے آگے بڑھے۔ تاہم کچھ دور چلنے کے بعد جلوس کے منتظمین نے ڈی جے کی آواز کو تیز کر دیا، جس پر مسلمانوں نے اعتراض ظاہر کیا۔ اس کے کچھ دیر بعد دونوں جانب سے پتھراؤ ہونے لگا۔

پولیس نے واقعے کی ویڈیو فوٹیج کی بنیاد پر 20 افراد کو حراست میں لیا ہے۔ ایس پی نے کہا کہ انہوں نے احتیاط کے طور پر علاقے میں اضافی فورس تعینات کر دی ہے۔ اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے آندھرا پردیش کی بی جے پی یونٹ کے صدر سومویر راجو نے جلوس پر مبینہ حملہ کرنے والوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ دریں اثنا، واقعہ کے پیش نظر ہولاگنڈہ شہر میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔

اتوار, اپریل 17, 2022

مدھیہ پردیش:حکومت کے خلاف نعرہ بازی پرکیس درج

 

مدھیہ پردیش:حکومت کے خلاف نعرہ بازی پرکیس درج

نیمچ: سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہا ہے، جس میں کچھ لوگ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان اور وزیر داخلہ نروتم مشرا کے خلاف نعرے لگاتے نظر آ رہے ہیں۔

درحقیقت جمعہ کو ضلع مسلم اتحاد کمیٹی کے بینر تلے پولیس سپرنٹنڈنٹ کو ایک میمورنڈم پیش کیا گیا جس میں کھرگون واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے اس کاروائی کو غلط ٹھہرایا گیا،لیکن اس دوران دیکھا گیا کہ بازار میں کچھ لوگوں نے وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان اور وزیر داخلہ نروتم مشرا کے خلاف نعرے لگائے۔

اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے۔ نیمچ پولیس نے پورے معاملے میں 11 لوگوں کو نامزد کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر آئی پی سی کی دفعہ 188 کے تحت کاروائی کی گئی ہے۔ وہی نوٹس دے کر بانڈ بھرنے کی کاروائی کی گئی ہے۔


ہندوستانی مسلمان: دو طرفہ پریشانیوں کا شکار

ہندوستانی مسلمان: دو طرفہ پریشانیوں کا شکار

پروفیسر اخترالواسع،نئی دہلی

ہندوستانی مسلمان جس پرآشوب دور سے گزر رہے ہیں وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں۔ ایک طرف ملک میں وہ مٹھی بھر لوگ ہیں جو کہ اس ملک کو یرغمال بنا لینا چاہتے ہیں اور ہندوستان جنت نشان کو اپنی فرقہ پرستی اور فسطائیت کی تجربہ گاہ بنا لینا چاہتے ہیں۔ اس ملک میں کون کیا کھائے پیئے، کیا پہنے اوڑھے، کیسے رہے سہے اور چلے پھرے اس کا فیصلہ خود نہیں بلکہ ان مٹھی بھر لوگوں کی مرضی کے مطابق کرے۔

اب جب کہ بعض جگہوں پر مسجدوں پر حملے ہو رہے ہیں ایک مخصوص مذہبی شناخت کے جھنڈے ان پر لہرا کر اپنی سینہ زوری دکھائی جا رہی ہے، جلسے جلوسوں میں اشتعال انگیز اور منافرت آمیز نعرے لگا کر دریدہ دہنی کا مظاہرہ ہو رہا ہے اور ان سب پر ستم یہ کہ پولیس اور سرکار بھی انہیں کا ساتھ دے رہی ہے۔

انتہا یہ کہ ایک معزز جج نے ابھی حال میں یہ فیصلہ بھی سنا دیا کہ اگر مسکرا کر غلط بات بھی کہی جائے تو اس میں قباحت نہیں۔ اب سرکاریں عدلیہ کو نظر انداز کرکے خود اپنے ہاتھ میں قانون لے کر ایک فرقے کے گھروں کو بلڈوزر سے منہدم کرا رہی ہیں اور ایک ریاست کے وزیر داخلہ نے تو غرور و تکبر کی تمام حدوں کو پھلانگتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ جن گھروں سے پتھر آئیں گے انہیں پتھروں میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ ایک وزیر اعلیٰ نے تو یہ بھی کہہ کہ فسادیوں کو بخشا نہیں جائے گا۔ ہم بھی ان کی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ فسادیوں کو بخشا جانا نہیں چاہیے لیکن کون فسادی ہے کون نہیں، اس کا فیصلہ عدالتیں کریں گی نہ کہ وزیر اعلی اور ان کے ماتحت سرکاری کارکنان۔

لیکن اس ماحول میں بھی سول سوسائٹی کے ارکان نے جس ہمت و عزیمت کے ساتھ اس سب کے خلاف آواز اٹھائی وہ قابل تعریف ہے اور اتنا ہی نہیں کرناٹکا کے سابق وزیر اعلیٰ شری یدورپّا جو جنوبی ریاست میں بی جے پی کے عروج کے لئے ہمیشہ ذمہ دار مانے جاتے رہے ہیں، نے کرناٹکا کی حکومت سے کہا ہے کہ مسلمانوں کو آزادی اور وقار کے ساتھ جینے اور رہنے دیا جائے۔ یہی آواز کرناٹکا کی حکمراں جماعت کے دو ممبرانِ اسمبلی نے بھی اٹھائی ہے۔ اتنا ہی نہیں سابق وزیر اعلی مدھیہ پردیش شری دگوجے سنگھ اور راجستھان کے موجودہ وزیر اعلیٰ شری اشوک گہلوت نے بھی اس یک طرفہ جور و ستم کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔

لیکن مسلمانوں کی پریشانی یہ ہے کہ انہیں اپنے مخالفوں سے ہی پریشانی نہیں پہنچ رہی ہے بلکہ کچھ ان کے اپنے مہربان بھی سوشل میڈیا پر اس طرح کا مواد اپنے بیانات کے ذریعے مشتعل کر رہے ہیں جس سے کہ مسلمانوں کے مخالفوں کے ہاتھ مضبوط ہوں اور وہ اسلام اور مسلمانوں کو اسی طرح دشنام اور فساد و عناد کا نشانہ بناتے رہیں۔ اسی طرح کا ایک ویڈیو ہمیں ہمارے بعض غیرمسلم دوستوں نے جن کے سیکولر، محب وطن اور مسلمان دوست ہونے میں کوئی شبہ نہیں، بھیجا ہے جس میں سات کے قریب لوگوں نے اس بات کا بار بار اعادہ کیا ہے کہ غیرمسلموں کو ان کے تہواروں پر مبارکباد دینا درست نہیں ہے۔ اتفاق سے ان میں سے اکثر وہ لوگ ہیں جو غالب ترین مسلم اکثریتی معاشروں میں رہ رہے ہیں اور جو قرآن و سنت سے زیادہ اپنی رائے کو مقدم سمجھتے ہیں۔ اس لئے کہ اس مسئلے میں قرآن و حدیث میں اجازت یا ممانعت کی کوئی صراحت نہیں ہے۔ ایک عربی شاعر کا بہت عمدہ شعر ہے جس کا اردو ترجمہ یوں ہے کہ ''لوگوں کے دلوں پر راج کرنا ہے تو حسن سلوک سے پیش آؤ: ایسا بہت ہوا ہے کہ حسن سلوک نے انسانوں پر راج کیا ہے۔''

قرآن حکیم کی سورہ النحل کی آیت نمبر 90 میں فرمایا گیا ہے کہ ''اللہ عدل، احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔'' اسی طرح حدیث کی مستند کتاب ترمذی اور مسند احمد میں بھی اللہ کے رسولؐ کے مروی ہے کہ آپ نے حضرت ابو زرؓ کو وصیت فرمائی کہ ''جہاں بھی رہو اللہ سے ڈرو، گنا ہ کے بعد نیکی کر لیا کرو تاکہ گناہ مٹ جائے اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آؤ۔'' اس حدیث پاک میں آپؐ نے لوگوں کے ساتھ۔۔۔ چاہے وہ مسلم ہوں یا غیرمسلم، حسن سلوک کی وصیت فرمائی۔ حسن سلوک کا معاملہ صرف مسلمانوں کے ساتھ خاص نہیں ہے۔

سراپا رحمت جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات طیبہ سے ایسی بہت سی مثالیں مل جاتی ہیں جو غیرمسلموں کے ساتھ حسن سلوک اور صلہ رحمی کی طرف ہماری رہنمائی کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کی صاحبزادی حضرت اسمہؓ کی والدہ جو اسلام نہیں لائی تھیں، ان کے یہاں آئیں، انہوں نے جناب محمد رسول اللہؐ سے پوچھا کہ کیا میں اپنی والدہ کے ساتھ صلہ رحمی کر سکتی ہوں؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں، اپنی والدہ کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔

اسی طرح رسول پاکؐ کی زندگی میں نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد مدینہ منورہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے نہ صرف ان کا استقبال کیا بلکہ ان کی میزبانی کی اور انہیں ان کے طریقے پر عبادت کرنے کی بھی اجازت دی۔ اسی لیے آپ کو قرآن کریم نے ''خلق عظیم'' قرار دیا ہے۔ اسی طرح قرآن پاک میں اللہ نے خود فرمایا ہے کہ ''اور جب تمہیں سلامتی کی کوئی دعا دی جائے تو تم بھی سلامتی کی اس سے بہتر دعا دو۔''

اس معاملے میں28 اگست سے یکم ستمبر 2000ء میں یورپی افتا کونسل نے مشہورِ زمانہ فقیہ اور عالم اسلام کے علما کے سرخیل امام یوسف القرضاوی کی سربراہی میں اسی مسئلے پر غور و خوض کے بعد یہ فیصلہ کیا تھا کہ بطور حسن تعلق کے اظہار کے غیرمسلموں کو ان کے تہواروں کے دن پر خیرسگالی کے طور پر مبارکباد دینا جائز ہی نہیں پسندیدہ ہے۔ اس پر ایک ہندوستانی مسلمان عالم مولانا یحیٰ نعمانی نے کہا ہے کہ موجودہ دنیا کی ایسی صورتحال میں جب مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد غیرمسلم ممالک میں رہائش پذیر ہو گئی ہے، بڑی تعداد میں غیر مسلم مسلمانوں کے ساتھ حسن معاشرت کا برتاؤ رکھتے ہیں بلکہ ان میں ایک بڑی تعداد مسلمانوں کے حقوق کے لئے لڑتی ہے اور جد وجہد کرتی ہے۔۔۔ ان ممالک میں مسلمانوں کے ملّی وجود کی بقا کے لئے ضروری ہے کہ غیرمسلموں کے ساتھ حسن معاشرت اور شرکت عمل کی راہیں ہموار ہوں۔

یورپی افتاء کونسل کے اسی فیصلے کی تائید کرتے ہوئے نوجوان عالم دین، ندوہ کے فاضل، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی مرحوم کے تربیت یافتہ اور آج کل مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے پروفیسر و صدر، شعبہ اسلامک اسٹڈیز ڈاکٹر فہیم اختر ندوی کا کہنا ہے کہ ''مسئلے کا پس منظر یہ ہے کہ سماج میں مختلف مواقع پر مسلمانوں کے روابط غیرمسلموں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ تعلیم گاہوں میں اساتذہ اورطلبہ اور ساتھیوں کے ساتھ گہرے روابط قائم ہو جاتے ہیں۔ ملازمت کے اداروں میں اپنے ذمہ داروں اور کارکنوں کے ساتھ مراسم ہوتے ہیں۔علاج معالجے میں کبھی غیرمسلم ڈاکٹر کا بے انتہا مخلصانہ رویہ مسلم میریض کے ساتھ رابطہ پیدا کر دیتا ہے۔ کبھی مکان کے پڑوس میں بااخلاق و مددگار غیرمسلم ہوتے ہیں۔۔۔ایسے مواقع پر ان کو مبارکباد پیش کی جا سکتی ہے۔

پروفیسر فہیم اخترندوی کے نزدیک کونسل کا یہ فتویٰ نہ صرف اسلام کے حسن اخلاق اور داعیانہ کرادار کا مظہر ہے بلکہ موجودہ وقت میں تیزی سے تبدیل شدہ حالات میں یہ مسلمانوں کی ایک دینی ضرورت بھی ہے، کیوں کہ اسلام جہاں دینِ فطرت، مکمل و متوازن نظام زندگی اور سراپا عدل و انصاف ہے وہی اس کی بنیاد اخلاقی بلندی پر ہے۔ انہوں نے اس فتویٰ کو مزاج شریعت کا مظہر، اسلامی اخلاق کا نمونہ اور موجودہ سماجی منظر نامے میں اسلام کے دعوتی تقاضوں کے لئے ضروری قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ضرورت ہے کہ ہمارے ملک کے اندر بھی سماجی روابط کو مضبوط کرنے والے اس رویے کو مضبوطی کے ساتھ اختیار کیا جائے۔

اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے مشہور عالم دین، مذہبی مفکر اور جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے اور زیادہ زور دے کر کہا ہے کہ ''کسی سماج میں جو انسان رہائش پذیر ہوتے ہیں ان کا آپس میں ملنا جلنا، ایک دوسرے کی مسرتوں میںشریک ہونا، ایک دوسرے کا غم بانٹنا اور ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرنا عین تقاضہ فطرت ہے۔ کسی بھی متمدن سماج کی یہ نمایاں پہچان ہوتی ہے۔ جس سماج میں یہ قدریں نہ پائی جائیں اسے غیرمتمدن اور دورِ وحشت کی یادگار کہا جاتا ہے۔۔۔ انسانی تعلقات کو مضبوطی اور استحکام بخشنے میں تقریبات کا اہم کردار ہوتا ہے۔ یہ تقریبات سماجی بھی ہوتی ہیں اور مذہبی بھی۔ غیرمسلموں کی سماجی تقریبات میں اگر ناجائز اور غیر شائستہ کام نہ کیے جا رہے ہوں تو ان میں شرکت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

البتہ ان مذہبی تقریبات اور تہواروں کا جو حصہ سماجی ہوتا ہے، جس میں مختلف قریبی اور اہلِ تعلق افراد سے محض ملاقات کے لئے پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں اور فرقے وارانہ ہم آہنگی اور خیرسگالی کا مظاہرہ کرنے کے لئے دیگر مذاہب کے لوگوں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے ، ان میں شرکت مسلمانوں کے لئے جائز ہے۔ البتہ ان مواقع پر ان کے لئے ضروری ہے کہ کھانے پینے کے معاملے میں اسلامی تعلیمات پر عمل کریں۔ چنانچہ اگر کھانے پینے کی چیزوں میں کسی حرام جانور کا گوشت، شراب یا دیگر نشہ آور مشروبات شامل ہوں تو ان سے بچیں۔ ''

ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی صاحب نے آگے چل کر یہ وضاحت بھی کی ہے کہ ''جہاں تک غیرمسلموں کے تہواروں کے موقعے پر انہیں مبارکباد دینے کا معاملہ ہے تو اسے فقہ و فتاویٰ کی کتابوں میں عموماً ناجائز کہا گیا ہے۔ اس کی دلیل یہ دی گئی ہے کہ انہیں مبارکباد دینے سے کفر شرک کی تائید اور عظمت کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ دلیل قوی نہیں معلوم ہوتی۔ مبارکباد دینا ایک سماجی عمل ہے اس سے دنیوی معاملات میں حسن سلوک کا اظہار ہوتا ہے جس کی قرآن و حدیث میں تلقین کی گئی ہے۔

یورپی افتاء کونسل کے فتوی کی روشنی میں ماہنامہ ''زندگی نوع'' دسمبر 2019 سے مستعار ہندوستانی علما کی اس بحث کا خلاصہ پیش کرنے کے ساتھ ہم یہاں یہ بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ جہاں تک خالص مذہبی رسوم کی ادائیگی کا معاملہ ہے اس میں ہر شخص کو اپنے ہی مذہبی معتقدات کے مطابق عمل کی پوری آزادی ہے اور کوئی مسلمان اس میں شریک نہیں ہوگا کیوں کہ اسلام توحید باری تعالی کا مذہب ہے اور اس سلسلے میں قرآن سیدھا فرمان ہے کہ ''تمہارا دین تمہارے لیے اور میرا دین میرے لیے ہے۔''

نہ آپ کسی غیرمسلم کو اپنے طریقے سے عبادت کرنے کے لئے مجبور کریں گے اور نہ ہی اس کی طرح عبادت میں شامل ہوں گے کیوں کہ قرآن ہی کے لفظوں میں ''دین میں کوئی جبر نہیں۔'' اب رہا سوال اس ویڈیو کا جس کے حوالے سے اس مضمون کو لکھا گیا و ہ بنیادی طور پر اسی اکثریتی رعب و دبش کے حامی لوگ ہیں جو اپنی رائے کو عین اسلام سمجھتے ہیں اور اس طرح کے خیالات کا اظہار کرکے غیرمسلم اکثریتی معاشروں میں بسنے والے مسلمانوں کے لئے پریشانی پیدا کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور اس طرح اسلام اور مسلمان دشمن عناصر کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں۔

نوٹ:مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسڈیز) ہیں۔

ہفتہ, اپریل 16, 2022

مسجدوں سے لائوڈ اسپیکر استعمال مہنگا ئ پر بحث کے لئے ہو: آدتیہ ٹھاکرے

مسجدوں سے لائوڈ اسپیکر استعمال مہنگا ئ پر بحث کے لئے ہو: آدتیہ ٹھاکرے

ممبئی: مہاراشٹر حکومت کے وزیر آدتیہ ٹھاکرے نے جمعہ کو مہاراشٹر نونرمان سینا کے سربراہ راج ٹھاکرے کو نشانہ بنایا۔

راج ٹھاکرے نے دھمکی دی ہے کہ اگر 3 مئی تک مساجد سے لاؤڈ اسپیکر نہیں ہٹائے گئے تو احتجاج کیا جائے گا۔

جب ممبئی میں نامہ نگاروں نے ٹھاکرے سے بی جے پی اور ایم این ایس کے مفت لاؤڈ اسپیکر تقسیم کرنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا، "یہ ٹھیک ہے، لاؤڈ اسپیکر کو ہٹانے کے بجائے، اسے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے بارے میں بات کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔

ہمیں بغیر پیچھے ہٹے ڈیزل، سی این جی کی قیمتوں کے بارے میں بات کرنی چاہیے۔آئیے بات کرتے ہیں کہ پچھلے دو تین سالوں میں کیا ہوا۔"

راج ٹھاکرے کے لاؤڈ اسپیکر پر بیان کے بعد گزشتہ چند دنوں سے ریاست میں سیاسی پارا گرم ہوا ہے۔

راج ٹھاکرے نے مہا وکاس اگھاڑی (ایم وی اے) حکومت کو خبردار کیا ہے کہ وہ 3 مئی تک مساجد سے لاؤڈ اسپیکر ہٹا دیں، ایسا نہ کرنے پر ایم این ایس کے کارکنان مساجد کے باہر لائوڈ اسپیکر لگائیں گے اور ہنومان چالیسہ کا پاٹھ کریں گے۔

ٹھاکرے نے اسے ایک سماجی مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ وہ اس معاملے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ایم این ایس کے سربراہ نے کہا، یہ ایک سماجی مسئلہ ہے، مذہبی نہیں، میں ریاستی حکومت کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم اس میں پیچھے نہیں ہیں۔ جو کرنا چاہتے ہو کرو۔"

اس کے ساتھ ہی ٹھاکرے نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ممبئی کے مسلم علاقوں میں مساجد پر چھاپے مارنے کی بھی اپیل کی اور کہا کہ وہاں رہنے والے لوگ ''پاکستان کے حامی'' ہیں۔

انہوں نے کہا، "میں پی ایم مودی سے مسلمانوں کی کچی آبادیوں میں مدرسوں پر چھاپہ مارنے کی اپیل کرتا ہوں۔ پاکستانی حامی ان جھونپڑیوں میں رہ رہے ہیں۔

ممبئی پولیس جانتی ہے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ ہمارے ایم ایل اے انہیں ووٹ بینک کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔" ایسے لوگوں کے پاس آدھار بھی نہیں ہے، لیکن ایم ایل اے وہی بنواتے ہیں۔

عکسِ خیالمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند پھلواری شریف پٹنہ

عکسِ خیال
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند پھلواری شریف پٹنہ 
 ’’عکس خیال‘‘ مولانا احمد حسین قاسمی مدنی متخلص محرمؔ قاسمی دربھنگوی معاون ناظم امارت شرعیہ، ساکن بردی پور (بستوارہ) دربھنگہ کا پہلا مجموعۂ کلام ہے، جسے اردو ڈائرکٹوریٹ حکومت بہار کے مالی تعاون سے انہوں نے شائع کرایا ہے۔
 ’’عکس خیال‘‘ میں ایک حمد، چار مناجات، ایک نعت پاک، اکتیس (31) غزلیں ، چونتیس (34)نظمیں، قطعات وابیات اور مختلف عنوانات کے تحت متفرق اشعار ہیں، محرم ؔدربھنگوی بنیادی طور پر غزلوں اور نظموں کے شاعر ہیں، دوسرے اصناف میں انہوں نے شاعری ضرور کی ہے، لیکن ان کا اصل رنگ انہیں دونوں میں واضح ہوتا ہے ، اس  کا یہ مطلب قطعا نہیں ہے کہ وہ حمد ونعت ، مناجات، قطعات وابیات کے کہنے پر قادر نہیں ہیں، قادر ہیں اور خوب قادر ہیں، ان چیزوں پر ان کی قدرت کا اندازہ اسی مجموعہ میں شامل ان کی حمد ومناجات اور نعت سے لگایا جا سکتا ہے، لیکن جس کو ذہنی افتاد کہتے ہیں اس کا رخ غزل اور نظموں کی طرف زیادہ ہے ۔
 محرمؔ کی شاعری کے جو بنیادی عناصر ہیں اس میں مذہبی اقدار، شرعی احکام کا پاس ولحاظ ، عمل پر آمادہ کرنے کی کوشش اور کاکل وگیسو سے اجتناب کا غلبہ ہے، انہوں نے خود ہی کہا ہے کہ 
پیتا ہوں مگر طرز قدح خوار سے کر
کہتا ہوں غزل میں لب ورخسار سے ہٹ کر
لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ انہوں نے بالکلیہ اس سے نظر موڑ لیا ہے ، غالب کو ہر چند کہ مسائل تصوف پر گفتگو کرنی ہو تی بادہ وساغرہ کہے بغیر بات بنتی نہیں تھی، محرمؔ ہر چند کہ عارض ورخسار، کاکل وگیسو ، ہجر وصال کی حکایات شعر کے قالب میں ڈھالنے سے گریز کرتے ہیں، لیکن غزل تو محبوبہ سے گفتگو کا ہی نام ہے اور محبوبہ کے قد وقامت دیکھ کر سبحان اللہ کہا جا سکتاہے، لیکن گفتگو آیات قرآنی کے ذریعہ تو نہیں کی جا سکتی، اس لیے غزل میںان خصوصیات کا انہیں پاس ولحاظ ہے، شعر دیکھ لیجئے
 شب ہجر جس کی نہ ہو سکی کبھی سحر وصل سے آشنا
 یہ اسی کا درد فراق ہے، اسی غم زدہ کا پیام ہے
 ایک شعر اور پڑھیے
 کبھی شوق وصل نے خود دل ناز کو ستایا 
کبھی ہجر نے مصیبت کا پہاڑ مجھ پہ ڈھایا
محرمؔ شاعری عالمانہ شان کے ساتھ کرتے ہیں، لیکن اسے مولوی کا وعظ نہیں بناتے، باتیں سلیقے سے کہتے ہیں اور سلیقہ سے کہنے کا یہ فن انہوں نے کلیم عاجز سے سیکھا ہے، جنہوں نے محرمؔ دربھنگوی کی بہت ساری غزلوں پر اصلاح دی ہے ، محرمؔ ان سے بہت متاثر ہیں۔اسی لیے انہوں نے ایک غزل میں کلیم عاجز کے اسلوب ’’کروہو‘‘ کی پیروی کی ہے ۔
 محرمؔ دربھنگوی اوزان وقافیہ اور بحور سے پورے طور پر واقف ہیں، اس لیے انہوں نے اپنے اشعار میں قافیہ ردیف کے ریشمی تاروں پر بل نہیں آنے دیا ہے ، بحور کی پابندی میں بھی انہوں نے اپنا کمال دکھایا ہے ، اسی لیے ان کی شاعری میں فکر کی پختگی اور فنی گرفت کا پتہ چلتا ہے۔
 محرم کی شاعری کی عمران کی اپنی عمر سے کافی کم ہے، ابھی ان کو بہت اوپر جانا ہے ، کسی بھی شاعر کے پہلے مجموعہؔ کلام کو دیکھ کر اس کی قدر ومنزلت اور مقام ومرتبہ کی تعیین نہیں کی جا سکتی ، البتہ یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ شاعر کی قوت پرواز کا کیا حال ہے، اور اُٹھان کس قدر ہے، عکس خیال کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی قوت پرواز اونچی ہے اور وہ بھیگے ہوئے پروں سے بھی پرواز کا حوصلہ رکھتے ہیں، ان کی اُٹھان بھی زبر دست ہے، انہوں نے اپنے پہلے مجموعۂ کلام کے اشعار سے قاری کو اپنی جانب متوجہ ہی نہیں کیا چونکا بھی دیا ہے اور ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ایسی چنگاری بھی یارب ہمارے خاکستر میں ہے ۔
 محرمؔ کے اشعار کی بڑی خوبی اس کی سلاست اور روانی ہے ، ترکیب میں، تنافر حروف اور غرابت لفظی کا گذر نہیں ہے، معنی کی ترسیل کا فن انہیں خوب آتا ہے اس لیے وہ تعقید لفظی اور معنوی کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ، وہ باتیں صاف صاف کہتے ہیں اور اس طرح کہتے ہیں کہ سناتے وقت تحت اللفظ مزہ دے جائے اور جب ترنم سے پڑھا جائے تو اس کی غنائیت میں فرق نہ آئے، محرم خود بھی تحت اللفظ اور ترنم میں پڑھتے ہیں، اس لیے ان کی نظر اس پر گہری رہتی ہے ۔
محرم کی شاعری میں عصری حسیت کی پوری جلوہ گری ہے، اس لیے پڑھنے اور سننے والے کا احساس ہے کہ محرمؔ ماضی سے زیادہ حال میں جیتے ہیں، ماضی پیچھے چھوٹ چکا ہے ، ہم اس سے اپنا رشتہ توڑ تو نہیں سکتے، لیکن حال کی پریشانی، سیاسی جماعتوں کی بازی گری، بڑھتی ہوئی نفرت ، ٹوٹتے رشتوں کا کرب، مقصد کے حصول کے لیے جائز وناجائز طریقوں کے استعمال کو دیکھ کر شاعر خاموش نہیں رہ سکتا، اس کے دل کا کرب الفاظ کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے، اسی کو عصری حسیت کہتے ہیں، اگر شاعری میں عصری حسیت نہ ہو تو وہ شاعری سے زیادہ تاریخ نگاری اور وقائع نویسی بن جاتی ہے ، او رادب کا رنگ وآہنگ پھیکا پڑ جاتا ہے، محرمؔ کے یہاں تاریخ کے حوالہ سے جو باتیں آئی ہیں، ان میںانہوں نے تلمیح کاسہارا لیا ہے، وہ ایک لفظ استعمال کرتے ہیں اور تاریخ کے مختلف ادوار اور اس کے نتائج ہمارے سامنے آجاتے ہیں، مثال کے طور پر یہ شعر دیکھئے۔
 جس میں ہو جائے کوئی فاتح بیت المقدس
 پھر وہی دو ر خلافت تو دوبارہ دیدے
 خدا یا پھر سے دے عبرت تو اس مرحوم امت کو
 حکومت چھن گئی یا رب حجازی شہ سواروں کی
محرمؔ کی نظموں کا رخ کریں تو ان میں غزلوں کی بہ نسبت پھیلاؤ زیادہ ہے، نظمیں رواں ہیں اور ان میں ایک قسم کی سبک روی پائی جاتی ہے، جیسے ہَولے ہَولے آبشاروں سے نکلتا پانی، (بقیہ صفحہ ۱۴؍ پر)
ان نظموں میں مسلمانوں کی بے عملی اور بد عملی کا گلہ شکوہ بھی ہے اور آئندہ کے لائحہ عمل کی طرف رہنمائی بھی ، ان نظموں میں کائنات کا غم شاعر کا ذاتی غم بن گیا ہے ، باتیں وسیع کینوس اور پس منظر میں میں کہی گئی ہیں، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ شاعر کا اپنا غم ہے، اس طرح دیکھیں تو ہمیں کہنا پڑتا ہے کہ محرمؔ دربھنگوی کو کائنات کو ذات میں سمیٹنے کا فن آتا ہے۔ 
محرم دربھنگوی بنیادی طور پر عالم ہیں، اس لیے ان کی شاعری کی لفظیات پوری کی پوری مذہبی اقدار کی آئینہ دار ہے، وہ جو الفاظ استعمال کرتے ہیں ان میں ایک طرح کی پاکیزگی اور تقدس کاگمان ہوتا ہے، ان کے پاس الفاظ کا وافر ذخیرہ ہے، اس لیے اپنے خیالات کی وسعت کو شعر میں ڈھالنے کے لیے ساختیات اور تشکیلیات کا سہارا نہیں لینا پڑتاہے ۔
 محرمؔ کی شاعری کلاسیکی انداز کی شاعری ہے، رومانیت اور حقیقت کا آمیزہ ہے، انہوں نے ترقی پسند شاعری کے انداز کو کہیں نہیں برتا ہے، وہ مجھ پہلی سی محبت میرے محبوب ن مانگ کے انداز کی شاعری نہیں کرتے۔
وہ کائنات کی حقیقت کو سمجھتے ہیں، آخرت کو اپنی منزل اور محبت کومتاع جاں مانتے ہیں، اس لیے ان کے یہاں محبت اور زندگی کی ضرورتوں کے درمیان ایک اعتدال اور توازن پایا جاتا ہے، وہ ترقی پسندوں کی طرح شاعری کو ضروریات زندگی کی فہرست اور بنیے کا روزنامچہ نہیں بناتے ، محرم نے اپنے کو کسی خانے میں نہیں رکھا ہے، وہ نہ جدیدیت کی بات کرتے ہیں اور نہ ہی ما بعد جدیدیت کی ، وہ کلاسیکی رنگ وآہنگ میں اپنی فکر کو شعر کا جامہ پہناتے ہیں اور اس میں وہ بہت کامیاب ہیں۔ بعض اشعار کوپڑھتے ہوئے ہمیں ایسالگتا ہے کہ خیالات کا توارد ہوا ہے ، فکر کی یکسانیت کبھی کبھی توارد تک پہونچا دیتی ہے ،جب محرمؔ سمندر کے سکوت کی بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں :
کہہ رہا ہے آدمی سے اس سمندر کا سکوت
کس قدر ہے میرے ظرف ناز میں پانی نہ پوچھ
 تو ہمیں معاًوہ مشہور شعر یاد آتا ہے 
 کہہ رہا ہے موج دریا سے سمندر کا سکوت
 جس میں جتنا ظرف ہے اتناہی خاموش ہے
گو محرمؔ کے شعر میں موج دریا کے بجائے ’’آدمی سے‘‘ نے پہلے مصرعہ کو انتہائی کمزور کر دیا ہے، دوسرے مصرعیہ سے معنی میں تبدیلی آئی ہے،لیکن وہ جس میں جتنا ظرف ہے کا بدل نہیں بن سکا ہے۔
کہنا چاہیے کہ عکس خیال شاعر کے فکر وفن کا حسین عکس ہے، ادب کی دنیا میں ہم اس کا استقبال کرتے ہیں، اور معیاری ہونے کا اعتراف بھی۔
 اس کتاب کو مکتبہ امارت شرعیہ پھلواری شریف کے علاوہ نیو جنریشن انٹرنیشنل اکیڈمی راج ٹولی دربھنگہ ، معہد الطیبات امام باڑی دربھنگہ اور نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی ، بکساما ویشالی سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے، جتنی رقم دے کر مل جائے غنیمت جائیے، مفت مل جائے تو اپنے کو مقدر کا سکندر سمجھئے۔

جمعہ, اپریل 15, 2022

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی اور "آوازہء لفظ و بیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی اور "آوازہء لفظ و بیاں 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مبصر : فخرالدین عارفی 
رابطہ : 9234422559 
۔.......................................
 محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی ایک کتاب " آوازہء لفظ و بیاں " آج ہی مجھے ملی ہے ۔ مفتی صاحب کی کوئی نصف درجن کتابیں مجھے گزشتہ چند ماہ میں ملی ہیں ۔ مفتی صاحب بہت مصروف انسان ہیں ، پھر بھی وہ ادب کے لیےء اتنا وقت کیسے نکال لیتے ہیں ؟اس بات پر مجھے بہت حیرت ہوتی ہے ۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مصروف لوگ ہی دنیا کو مصروف رکھتے ہیں ۔ میرے خیال میں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کی انگلی ہمیشہ وقت کی نبض پر ہوتی ہے ۔ وہ وقت کی اہمیت اور اس کی قدرو قیمت خوب جانتے ہیں ۔ یہ بہت بڑی بات ہے ۔  اس بڑی بات سے مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب بھی اچھی طرح واقف ہیں ۔ 
مذکورہ بالا کتاب کی اہمیت اور افادیت میرے لیےء اس لیےء بھی بہت بڑھ جاتی ہے کہ اس کتاب کے آخری فلیپ پر مفتی صاحب نے اس خاکسار کی تحریر کو جگہ دی ہے اور "حرف چند " میں اس خاکسار کے لیےء بھی چند قیمتی جملے قلم بند کیےء ہیں ۔ اس عنایت خاص کے لیےء میں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کا از حد ممنون و مشکور ہوں ۔ 
مذکورہ بالا کتاب دراصل مذہبی،ادبی،تعلیمی اور  تاریخی کتابوں ں پرمفتی صاحب کے قیمتی پیش لفظ،تقریظ،تاثرات تبصرے اور عملی تنقید پر مشتمل  نگارشات  کا  بیش قیمت تازہ ترین مجموعہ ہے ، جس کی اشاعت کے لیےء مالی تعاون "اردو ڈائریکٹوریٹ حکومت بہار نے پیش کیا ہے ۔ جس کے لیےء اردو ڈائرکٹوریٹ کے ساتھ ساتھ جناب احمد محمود بھی مبارک باد کے مستحق ہیں جو فی الوقت اردو ڈائریکٹوریٹ کے فعال اور متحرک سربراہ ہیں ۔ کتاب میں 304 صفحات ہیں اور قیمت صرف 300 روپےء ہے ۔ سال اشاعت 2022 ہے اور یہ کتاب " دی پرنٹو اسٹیشنری دریا پور ، سبزی باغ پٹنہ سے شائع ہوئ ہے ۔ اب پٹنہ میں بھی اچھی ، عمدہ اور خوب صورت کتابوں کی اشاعت ممکن ہے یہ کتاب اس بات کی تصدیق و توثیق کرتی ہے ۔ اس کتاب کو مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب نے مختلف ابواب میں تقسیم کردیا ہے ۔ پہلا باب مذہبی نوعیت کی کتابوں پر تبصرے  کے لیےء وقف کیا گیا ہے ۔  اس باب میں 55 کتابوں پر مفتی صاحب کی تحریریں  جمع کی گئ  ہیں ۔ ساری کتابیں  اہم اور ہماری روز مرّہ کی زندگی سے متعلق  ہیں ۔ یہ کتابیں  سب کی سب مذہبی موضوعات پر تحریر کی گئ ہیں ۔ چند اہم کتا بچوں کے نام درج ذیل ہیں  
مساجد کی شرعی حیثیت اور ائمہ کرام کی ذمہ داریاں ، مسائل صوم و رمضان ، درس حدیث ، خطبات جمہ، شراب ایک تجزیاتی مطالہ ، قرآن کریم کا تاریخی معجزہ ، ازدواجی زندگی اور حجاب کے فوائد اور بے حجابی کے نقصانات وغیرہ ۔۔۔۔

باب دوم ادبی کتا بوں پر تبصرے  کے لیےء قائم کیا گیا ہے ۔ اس باب میں ادب کی مختلف اصناف پر تصنیف کی گئ کتا بوں کے تعلق سے تاثراتی مضامین قلم بند کیےء گےء ہیں ۔ بعض اہم ادبی شخصیتوں کی ادبی خدمات پر بھی بھر پور روشنی ڈالی گئ ہے ۔ جن میں انوار قمر کا نام خاص اہمیت کا حامل ہے ۔  ان تبصروں میں ملک کی مختلف اہم ریاستوں کی ادبی سرگرمیوں اور سمت و رفتار پر بھی اطمینان بخش گفتگو کی گئ  ہے ۔
باب سوم کا تعلق تاریخی کتابوں سے ہے  جبکہ باب چہارم  تعلیم اور تعلیمی سرگرمیوں سے متعلق کتا بوں کے تبصروں پر مشتمل ہے   ۔ 
کتاب میں میرے چھوٹے بھائی پروفیسر صفدر امام قادری کا ایک دیباچہ " مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی : مبصر کی حیثیت سے " کے عنوان سے شریک اشاعت ہے ۔ یہ مضمون 7 صفحات پر مشتمل ہے اور برادرم صفدر امام قادری نے بعض اہم نکات کا اچھا تجزیہ کیا ہے ۔ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی تحریریں اس لیےء بھی بہت اہم ہوجاتی ہیں کہ موصوف کم از کم تین زبانوں عربی ، فارسی اور اردو پر قدرت رکھتے ہیں ۔ اس کتاب کے نام میں بھی مفتی صاحب نے اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ عرب کی خوشبو کے ساتھ ساتھ عجم کا رنگ و آہنگ بھی اہل ہند تک پہونچے اور "ریختہ " کی روحانیت میں بھی اضافہ ہو ۔ اس خوب صورت احساسات و جذبات کی خوب صورت آمیزش کا نادر نمونہ پیش کرنے پر میں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کو اپنے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک باد دیتا ہوں ۔ 
مبصر : فخرالدین عارفی 
محمد پور ، شاہ گنج ، پوسٹ آفس مہندرو ۔ پٹنہ 800006 ( بہار )

روزگار کے مواقع کی تلاش مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند پھلواری شریف پٹنہ

روزگار کے مواقع کی تلاش 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند پھلواری شریف پٹنہ 
 انتخاب کے موقع سے رائے دہندگان کو سبز باغ دکھانے کی جو روایت رہی ہے ، وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے ، ہر پارٹی اپنے منشور اور مینی فیسٹو میں بڑے بڑے اعلان کرتی ہے، جن کے پورے کرنے کی نوبت عام طور سے نہیں آتی ہے، سیاسی لیڈران خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ یہ تو وعدہ ہے اور وعدوں کا کیا کرنا ۔
 ان وعدوں میں ایک بڑا وعدہ بے روزگاری دور کر نے اور نئی بحالیوں کے مواقع اور امکانات تلاش کرنے کا ہے، لیکن سب جگہ یا تو لوگ پہلے سے ہی ضرورت سے زائد ہیں یا پھر مشینوں کے استعمال کی وجہ سے افرادی قوت کی ضرورت کم ہو گئی ہے، بڑے بڑے اسٹیل پلانٹ، صنعتی کار خانے اور کمپنیوں میں پہلے کی بہ نسبت چوتھا ئی لوگوں سے کام چلا یا جا رہا ہے، جو سبکدوش (ریٹائر) ہو گیا اس کی جگہ نئی بحالیاں نہیں ہو رہی ہیں، کورونا نے چھوٹی صنعت اور غیر منظم سکٹر کے کام کو بری طرح متاثر کیا ہے اور کام بند ہوجانے کی وجہ سے بہت سارے لوگ بے روزگار ہو گیے ہیں۔
 ایسے میں بیس ، پچیس لاکھ روزگار کے نئے مواقع کس طرح پیدا ہو سکتے ہیں، نئی آسامیاں کس طرح نکالی جا سکتی ہیں، یہ ایک سوال ہے جو حکمراں طبقہ کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے اپنے بجٹ بھاشن میں اس موضوع پرکہا کہ پائپ لائن کا جو کام حکومت کے زیر غور ہے اس میں اگلے پانچ سالوں میں ساٹھ(۶۰) لاکھ ملازمت کے مواقع ہیں، یعنی سالانہ بارہ (۱۲)لاکھ نوکریاں ۔ کیا یہ بے روزگار نو جوانوں کے لیے کافی ہے؟ یقینا یہ کافی نہیں ہے ، اس کے علاوہ ہر سال ایک کروڑ اسی لاکھ لڑکے اٹھارہ سال کے ہوجاتے ہیں اور ان کے ہاتھوں کو بھی کام چاہیے، زراعتی میدان میں جو لوگ کام سے لگے ہوئے ہیں،ا نہیں بھی کم تنخواہ اور مختلف زمینی وآسمانی آفتوں کی وجہ سے اس حلقہ کو خیر آباد کہنا پڑ رہا ہے، ایک اندازہ کے مطابق زراعت کے میدان سے ہٹ کر دس کروڑ لوگ دوسرے کاموں میں مشغول ہو کر اپنی معاشی ضروریات کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں، ایسے افراد بھی بے روزگار کے زمرے میں داخل ہوجاتے ہیں، اس طرح دیکھیں توکم وبیش ہر سال بیس(۲۰) کروڑ لوگ بے روزگار ہوتے ہیں اور انہیں روزگار فراہم کرنا آسان نہیں ہے ، وزیر اعظم نریندر مودی کی تجویز کے مطابق پکوڑے اور پان بیچنے والوں کو بھی بر سر روزگار مان لیا جائے تو بھی یہ مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آتا ۔
 اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ نئے پروجکیٹ شروع کیے جائیں، ایک کروڑ کی آبادی والے ہر علاقہ میں نئے شہر آباد کرنے کا منصوبہ بنایا جائے تو ان منصوبوں کی تکمیل کے لیے بہت سارے لوگوں کی ضرورت پڑے گی، یہ ضرورت ملازمت میں تبدیل ہو سکتی ہے، چھوٹی اور گھریلو صنعتوں کے فروغ کے ذریعہ بھی بڑی حد تک بے روزگاری دور کی جا سکتی ہے، لیکن اس کے لیے سرکاری سطح پر مالیات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا، جو کار خانے پہلے سے کام کر رہے ہیں ان کی پیدا واری صلاحیت بڑھا نے کے منصوبوں میں بھی بہت سے لوگ کھپ سکتے ہیں، پیداوار زیادہ ہوگی تو اس کی مار کیٹنگ کے لیے بھی اچھے خاصے افراد کی ضرورت ہوگی ،اسی طرح نئے کار خانے لگا کر ملکی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے ، اور جی ڈی پی (GDP)کی شرح دس فی صد تک بڑھائی جا سکتی ہے، لیکن اس میں بڑی رکاوٹ محنت سے متعلق ہندوستانی قانون ہے، جس میں مذکور شرائط مزدوروں اور بے روزگاروں کے حق میں کم اور مالکان کے حق میں زیادہ ہیں، جس کی وجہ سے کام کرنے الوں کا استحصال ہوا کرتا ہے، جن شرائط اور مطلوبہ صلاحیت کا ذکر ان قوانین میں موجود ہیں، اس کے پیش نظرایک غیر ملکی مزدور تنظیم نے یہ پیش گوئی کی ہے کہ آنے والے سالوں میں صلاحیتوں کی کمی کی وجہ سے ۲۰۳۰ء تک ہمارے پاس دو کروڑ نوے لاکھ نوکریاں متعینہ صلاحیتوں کے نہ ملنے کی وجہ سے کم ہوجائیں گی اور کام رہتے ہوئے بے روزگاری کا تناسب بڑھے گا، اگر یہ پیشین گوئی صحیح ہے تو ہمیں صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے بڑے پیمانے پر تربیتی نظام کی ضرورت ہوگی ، یہ تربیتی نظام سرکار ہی چلا سکتی ہے اس لیے کہ اس میں بھی کثیر رقم کی ضرورت ہوتی ہے ۔
 ان حالات میں حکومت کو خواہ وہ ریاستی ہو یا ملکی، بہت سوچ سمجھ کر طویل منصوبہ بندی کرنی چاہیے؛ تاکہ ان نا گفتہ بہہ حالات پر قابو پایا جا سکے، نو جوانوں کو روزگار نہیں ملے گا،تو وہ تیزی سے مجرمانہ کاموں کی طرف بڑھیں گے اس طرح ملک کا مستقبل تباہ ہوگا،جو انتہائی غلط ہوگا، خود ان کی ذات کے لیے بھی اور ملک کے لیے بھی۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...