پیر, اپریل 18, 2022
عظمت والا مہینہ ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

آندھرا مسجد کے سامنے اونچی آواز میں موسیقی بجانے پردو فرقوں میں تصادم ۱۵زخمی ۲۰گذفتار
آندھرا مسجد کے سامنے اونچی آواز میں موسیقی بجانے پردو فرقوں میں تصادم ۱۵زخمی ۲۰گذفتار
پولیس کا کہنا ہے کہ صورت حال مکمل طور پر پرامن ہے۔ قصبے کے ہولاگنڈہ علاقے میں اس وقت جھڑپیں شروع ہوئیں جب دو گروپوں نے ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا۔ حالات کشیدہ اس وقت ہوئے جب شام کو ایک مسجد کے سامنے سے جلوس نکل رہا تھا۔ چونکہ مسجد میں 'افطار' اور 'نماز' کا وقت تھا، لہذا نمازیوں نے جلوس کے دوران اونچی آواز میں موسیقی بجانے پر اعتراض کیا۔
اس کے بعد دونوں طرف تو تو میں میں شروع ہو گئی۔ دونوں دھڑوں نے نعرے بازی شروع کر دی جس سے صورتحال کشیدہ ہو گئی۔ انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق کرنول کے ایس پی سدھیر ریڈی نے کہا "وی ایچ پی نے ہولاگنڈہ میں ہنومان جینتی کی تقریبات کا اہتمام کیا تھا۔ پولیس کے منع کرنے کے باوجود جلوس کے دوران ڈی جے کا استعمال کیا گیا۔ جلوس جب مسجد کے قریب پہنچا تو پولیس نے ڈی جے کی آواز کم کرنے کو کہا لیکن وہ مسجد کے سامنے رک گئے اور 'جے شری رام' کے نعرے لگانے لگے۔ اس پر پر مسلم کمیونٹی کے لوگوں نے 'اللہ ہو اکبر' کا نعرہ لگانا شروع کر دیا۔''
انہوں نے مزید کہا کہ پولیس نے مداخلت کرتے ہوئے صورتحال کو قابو میں کیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ جلوس مسجد سے آگے بڑھے۔ تاہم کچھ دور چلنے کے بعد جلوس کے منتظمین نے ڈی جے کی آواز کو تیز کر دیا، جس پر مسلمانوں نے اعتراض ظاہر کیا۔ اس کے کچھ دیر بعد دونوں جانب سے پتھراؤ ہونے لگا۔
پولیس نے واقعے کی ویڈیو فوٹیج کی بنیاد پر 20 افراد کو حراست میں لیا ہے۔ ایس پی نے کہا کہ انہوں نے احتیاط کے طور پر علاقے میں اضافی فورس تعینات کر دی ہے۔ اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے آندھرا پردیش کی بی جے پی یونٹ کے صدر سومویر راجو نے جلوس پر مبینہ حملہ کرنے والوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ دریں اثنا، واقعہ کے پیش نظر ہولاگنڈہ شہر میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔

اتوار, اپریل 17, 2022
مدھیہ پردیش:حکومت کے خلاف نعرہ بازی پرکیس درج
مدھیہ پردیش:حکومت کے خلاف نعرہ بازی پرکیس درج
درحقیقت جمعہ کو ضلع مسلم اتحاد کمیٹی کے بینر تلے پولیس سپرنٹنڈنٹ کو ایک میمورنڈم پیش کیا گیا جس میں کھرگون واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے اس کاروائی کو غلط ٹھہرایا گیا،لیکن اس دوران دیکھا گیا کہ بازار میں کچھ لوگوں نے وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان اور وزیر داخلہ نروتم مشرا کے خلاف نعرے لگائے۔
اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے۔ نیمچ پولیس نے پورے معاملے میں 11 لوگوں کو نامزد کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر آئی پی سی کی دفعہ 188 کے تحت کاروائی کی گئی ہے۔ وہی نوٹس دے کر بانڈ بھرنے کی کاروائی کی گئی ہے۔

ہندوستانی مسلمان: دو طرفہ پریشانیوں کا شکار
ہندوستانی مسلمان: دو طرفہ پریشانیوں کا شکار
پروفیسر اخترالواسع،نئی دہلی
ہندوستانی مسلمان جس پرآشوب دور سے گزر رہے ہیں وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں۔ ایک طرف ملک میں وہ مٹھی بھر لوگ ہیں جو کہ اس ملک کو یرغمال بنا لینا چاہتے ہیں اور ہندوستان جنت نشان کو اپنی فرقہ پرستی اور فسطائیت کی تجربہ گاہ بنا لینا چاہتے ہیں۔ اس ملک میں کون کیا کھائے پیئے، کیا پہنے اوڑھے، کیسے رہے سہے اور چلے پھرے اس کا فیصلہ خود نہیں بلکہ ان مٹھی بھر لوگوں کی مرضی کے مطابق کرے۔
اب جب کہ بعض جگہوں پر مسجدوں پر حملے ہو رہے ہیں ایک مخصوص مذہبی شناخت کے جھنڈے ان پر لہرا کر اپنی سینہ زوری دکھائی جا رہی ہے، جلسے جلوسوں میں اشتعال انگیز اور منافرت آمیز نعرے لگا کر دریدہ دہنی کا مظاہرہ ہو رہا ہے اور ان سب پر ستم یہ کہ پولیس اور سرکار بھی انہیں کا ساتھ دے رہی ہے۔
انتہا یہ کہ ایک معزز جج نے ابھی حال میں یہ فیصلہ بھی سنا دیا کہ اگر مسکرا کر غلط بات بھی کہی جائے تو اس میں قباحت نہیں۔ اب سرکاریں عدلیہ کو نظر انداز کرکے خود اپنے ہاتھ میں قانون لے کر ایک فرقے کے گھروں کو بلڈوزر سے منہدم کرا رہی ہیں اور ایک ریاست کے وزیر داخلہ نے تو غرور و تکبر کی تمام حدوں کو پھلانگتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ جن گھروں سے پتھر آئیں گے انہیں پتھروں میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ ایک وزیر اعلیٰ نے تو یہ بھی کہہ کہ فسادیوں کو بخشا نہیں جائے گا۔ ہم بھی ان کی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ فسادیوں کو بخشا جانا نہیں چاہیے لیکن کون فسادی ہے کون نہیں، اس کا فیصلہ عدالتیں کریں گی نہ کہ وزیر اعلی اور ان کے ماتحت سرکاری کارکنان۔
لیکن اس ماحول میں بھی سول سوسائٹی کے ارکان نے جس ہمت و عزیمت کے ساتھ اس سب کے خلاف آواز اٹھائی وہ قابل تعریف ہے اور اتنا ہی نہیں کرناٹکا کے سابق وزیر اعلیٰ شری یدورپّا جو جنوبی ریاست میں بی جے پی کے عروج کے لئے ہمیشہ ذمہ دار مانے جاتے رہے ہیں، نے کرناٹکا کی حکومت سے کہا ہے کہ مسلمانوں کو آزادی اور وقار کے ساتھ جینے اور رہنے دیا جائے۔ یہی آواز کرناٹکا کی حکمراں جماعت کے دو ممبرانِ اسمبلی نے بھی اٹھائی ہے۔ اتنا ہی نہیں سابق وزیر اعلی مدھیہ پردیش شری دگوجے سنگھ اور راجستھان کے موجودہ وزیر اعلیٰ شری اشوک گہلوت نے بھی اس یک طرفہ جور و ستم کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔
لیکن مسلمانوں کی پریشانی یہ ہے کہ انہیں اپنے مخالفوں سے ہی پریشانی نہیں پہنچ رہی ہے بلکہ کچھ ان کے اپنے مہربان بھی سوشل میڈیا پر اس طرح کا مواد اپنے بیانات کے ذریعے مشتعل کر رہے ہیں جس سے کہ مسلمانوں کے مخالفوں کے ہاتھ مضبوط ہوں اور وہ اسلام اور مسلمانوں کو اسی طرح دشنام اور فساد و عناد کا نشانہ بناتے رہیں۔ اسی طرح کا ایک ویڈیو ہمیں ہمارے بعض غیرمسلم دوستوں نے جن کے سیکولر، محب وطن اور مسلمان دوست ہونے میں کوئی شبہ نہیں، بھیجا ہے جس میں سات کے قریب لوگوں نے اس بات کا بار بار اعادہ کیا ہے کہ غیرمسلموں کو ان کے تہواروں پر مبارکباد دینا درست نہیں ہے۔ اتفاق سے ان میں سے اکثر وہ لوگ ہیں جو غالب ترین مسلم اکثریتی معاشروں میں رہ رہے ہیں اور جو قرآن و سنت سے زیادہ اپنی رائے کو مقدم سمجھتے ہیں۔ اس لئے کہ اس مسئلے میں قرآن و حدیث میں اجازت یا ممانعت کی کوئی صراحت نہیں ہے۔ ایک عربی شاعر کا بہت عمدہ شعر ہے جس کا اردو ترجمہ یوں ہے کہ ''لوگوں کے دلوں پر راج کرنا ہے تو حسن سلوک سے پیش آؤ: ایسا بہت ہوا ہے کہ حسن سلوک نے انسانوں پر راج کیا ہے۔''
قرآن حکیم کی سورہ النحل کی آیت نمبر 90 میں فرمایا گیا ہے کہ ''اللہ عدل، احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔'' اسی طرح حدیث کی مستند کتاب ترمذی اور مسند احمد میں بھی اللہ کے رسولؐ کے مروی ہے کہ آپ نے حضرت ابو زرؓ کو وصیت فرمائی کہ ''جہاں بھی رہو اللہ سے ڈرو، گنا ہ کے بعد نیکی کر لیا کرو تاکہ گناہ مٹ جائے اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آؤ۔'' اس حدیث پاک میں آپؐ نے لوگوں کے ساتھ۔۔۔ چاہے وہ مسلم ہوں یا غیرمسلم، حسن سلوک کی وصیت فرمائی۔ حسن سلوک کا معاملہ صرف مسلمانوں کے ساتھ خاص نہیں ہے۔
سراپا رحمت جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات طیبہ سے ایسی بہت سی مثالیں مل جاتی ہیں جو غیرمسلموں کے ساتھ حسن سلوک اور صلہ رحمی کی طرف ہماری رہنمائی کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کی صاحبزادی حضرت اسمہؓ کی والدہ جو اسلام نہیں لائی تھیں، ان کے یہاں آئیں، انہوں نے جناب محمد رسول اللہؐ سے پوچھا کہ کیا میں اپنی والدہ کے ساتھ صلہ رحمی کر سکتی ہوں؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں، اپنی والدہ کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔
اسی طرح رسول پاکؐ کی زندگی میں نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد مدینہ منورہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے نہ صرف ان کا استقبال کیا بلکہ ان کی میزبانی کی اور انہیں ان کے طریقے پر عبادت کرنے کی بھی اجازت دی۔ اسی لیے آپ کو قرآن کریم نے ''خلق عظیم'' قرار دیا ہے۔ اسی طرح قرآن پاک میں اللہ نے خود فرمایا ہے کہ ''اور جب تمہیں سلامتی کی کوئی دعا دی جائے تو تم بھی سلامتی کی اس سے بہتر دعا دو۔''
اس معاملے میں28 اگست سے یکم ستمبر 2000ء میں یورپی افتا کونسل نے مشہورِ زمانہ فقیہ اور عالم اسلام کے علما کے سرخیل امام یوسف القرضاوی کی سربراہی میں اسی مسئلے پر غور و خوض کے بعد یہ فیصلہ کیا تھا کہ بطور حسن تعلق کے اظہار کے غیرمسلموں کو ان کے تہواروں کے دن پر خیرسگالی کے طور پر مبارکباد دینا جائز ہی نہیں پسندیدہ ہے۔ اس پر ایک ہندوستانی مسلمان عالم مولانا یحیٰ نعمانی نے کہا ہے کہ موجودہ دنیا کی ایسی صورتحال میں جب مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد غیرمسلم ممالک میں رہائش پذیر ہو گئی ہے، بڑی تعداد میں غیر مسلم مسلمانوں کے ساتھ حسن معاشرت کا برتاؤ رکھتے ہیں بلکہ ان میں ایک بڑی تعداد مسلمانوں کے حقوق کے لئے لڑتی ہے اور جد وجہد کرتی ہے۔۔۔ ان ممالک میں مسلمانوں کے ملّی وجود کی بقا کے لئے ضروری ہے کہ غیرمسلموں کے ساتھ حسن معاشرت اور شرکت عمل کی راہیں ہموار ہوں۔
یورپی افتاء کونسل کے اسی فیصلے کی تائید کرتے ہوئے نوجوان عالم دین، ندوہ کے فاضل، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی مرحوم کے تربیت یافتہ اور آج کل مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے پروفیسر و صدر، شعبہ اسلامک اسٹڈیز ڈاکٹر فہیم اختر ندوی کا کہنا ہے کہ ''مسئلے کا پس منظر یہ ہے کہ سماج میں مختلف مواقع پر مسلمانوں کے روابط غیرمسلموں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ تعلیم گاہوں میں اساتذہ اورطلبہ اور ساتھیوں کے ساتھ گہرے روابط قائم ہو جاتے ہیں۔ ملازمت کے اداروں میں اپنے ذمہ داروں اور کارکنوں کے ساتھ مراسم ہوتے ہیں۔علاج معالجے میں کبھی غیرمسلم ڈاکٹر کا بے انتہا مخلصانہ رویہ مسلم میریض کے ساتھ رابطہ پیدا کر دیتا ہے۔ کبھی مکان کے پڑوس میں بااخلاق و مددگار غیرمسلم ہوتے ہیں۔۔۔ایسے مواقع پر ان کو مبارکباد پیش کی جا سکتی ہے۔
پروفیسر فہیم اخترندوی کے نزدیک کونسل کا یہ فتویٰ نہ صرف اسلام کے حسن اخلاق اور داعیانہ کرادار کا مظہر ہے بلکہ موجودہ وقت میں تیزی سے تبدیل شدہ حالات میں یہ مسلمانوں کی ایک دینی ضرورت بھی ہے، کیوں کہ اسلام جہاں دینِ فطرت، مکمل و متوازن نظام زندگی اور سراپا عدل و انصاف ہے وہی اس کی بنیاد اخلاقی بلندی پر ہے۔ انہوں نے اس فتویٰ کو مزاج شریعت کا مظہر، اسلامی اخلاق کا نمونہ اور موجودہ سماجی منظر نامے میں اسلام کے دعوتی تقاضوں کے لئے ضروری قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ضرورت ہے کہ ہمارے ملک کے اندر بھی سماجی روابط کو مضبوط کرنے والے اس رویے کو مضبوطی کے ساتھ اختیار کیا جائے۔
اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے مشہور عالم دین، مذہبی مفکر اور جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے اور زیادہ زور دے کر کہا ہے کہ ''کسی سماج میں جو انسان رہائش پذیر ہوتے ہیں ان کا آپس میں ملنا جلنا، ایک دوسرے کی مسرتوں میںشریک ہونا، ایک دوسرے کا غم بانٹنا اور ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرنا عین تقاضہ فطرت ہے۔ کسی بھی متمدن سماج کی یہ نمایاں پہچان ہوتی ہے۔ جس سماج میں یہ قدریں نہ پائی جائیں اسے غیرمتمدن اور دورِ وحشت کی یادگار کہا جاتا ہے۔۔۔ انسانی تعلقات کو مضبوطی اور استحکام بخشنے میں تقریبات کا اہم کردار ہوتا ہے۔ یہ تقریبات سماجی بھی ہوتی ہیں اور مذہبی بھی۔ غیرمسلموں کی سماجی تقریبات میں اگر ناجائز اور غیر شائستہ کام نہ کیے جا رہے ہوں تو ان میں شرکت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
البتہ ان مذہبی تقریبات اور تہواروں کا جو حصہ سماجی ہوتا ہے، جس میں مختلف قریبی اور اہلِ تعلق افراد سے محض ملاقات کے لئے پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں اور فرقے وارانہ ہم آہنگی اور خیرسگالی کا مظاہرہ کرنے کے لئے دیگر مذاہب کے لوگوں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے ، ان میں شرکت مسلمانوں کے لئے جائز ہے۔ البتہ ان مواقع پر ان کے لئے ضروری ہے کہ کھانے پینے کے معاملے میں اسلامی تعلیمات پر عمل کریں۔ چنانچہ اگر کھانے پینے کی چیزوں میں کسی حرام جانور کا گوشت، شراب یا دیگر نشہ آور مشروبات شامل ہوں تو ان سے بچیں۔ ''
ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی صاحب نے آگے چل کر یہ وضاحت بھی کی ہے کہ ''جہاں تک غیرمسلموں کے تہواروں کے موقعے پر انہیں مبارکباد دینے کا معاملہ ہے تو اسے فقہ و فتاویٰ کی کتابوں میں عموماً ناجائز کہا گیا ہے۔ اس کی دلیل یہ دی گئی ہے کہ انہیں مبارکباد دینے سے کفر شرک کی تائید اور عظمت کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ دلیل قوی نہیں معلوم ہوتی۔ مبارکباد دینا ایک سماجی عمل ہے اس سے دنیوی معاملات میں حسن سلوک کا اظہار ہوتا ہے جس کی قرآن و حدیث میں تلقین کی گئی ہے۔
یورپی افتاء کونسل کے فتوی کی روشنی میں ماہنامہ ''زندگی نوع'' دسمبر 2019 سے مستعار ہندوستانی علما کی اس بحث کا خلاصہ پیش کرنے کے ساتھ ہم یہاں یہ بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ جہاں تک خالص مذہبی رسوم کی ادائیگی کا معاملہ ہے اس میں ہر شخص کو اپنے ہی مذہبی معتقدات کے مطابق عمل کی پوری آزادی ہے اور کوئی مسلمان اس میں شریک نہیں ہوگا کیوں کہ اسلام توحید باری تعالی کا مذہب ہے اور اس سلسلے میں قرآن سیدھا فرمان ہے کہ ''تمہارا دین تمہارے لیے اور میرا دین میرے لیے ہے۔''
نہ آپ کسی غیرمسلم کو اپنے طریقے سے عبادت کرنے کے لئے مجبور کریں گے اور نہ ہی اس کی طرح عبادت میں شامل ہوں گے کیوں کہ قرآن ہی کے لفظوں میں ''دین میں کوئی جبر نہیں۔'' اب رہا سوال اس ویڈیو کا جس کے حوالے سے اس مضمون کو لکھا گیا و ہ بنیادی طور پر اسی اکثریتی رعب و دبش کے حامی لوگ ہیں جو اپنی رائے کو عین اسلام سمجھتے ہیں اور اس طرح کے خیالات کا اظہار کرکے غیرمسلم اکثریتی معاشروں میں بسنے والے مسلمانوں کے لئے پریشانی پیدا کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور اس طرح اسلام اور مسلمان دشمن عناصر کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں۔
نوٹ:مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسڈیز) ہیں۔

ہفتہ, اپریل 16, 2022
مسجدوں سے لائوڈ اسپیکر استعمال مہنگا ئ پر بحث کے لئے ہو: آدتیہ ٹھاکرے
مسجدوں سے لائوڈ اسپیکر استعمال مہنگا ئ پر بحث کے لئے ہو: آدتیہ ٹھاکرے
ممبئی: مہاراشٹر حکومت کے وزیر آدتیہ ٹھاکرے نے جمعہ کو مہاراشٹر نونرمان سینا کے سربراہ راج ٹھاکرے کو نشانہ بنایا۔
راج ٹھاکرے نے دھمکی دی ہے کہ اگر 3 مئی تک مساجد سے لاؤڈ اسپیکر نہیں ہٹائے گئے تو احتجاج کیا جائے گا۔
جب ممبئی میں نامہ نگاروں نے ٹھاکرے سے بی جے پی اور ایم این ایس کے مفت لاؤڈ اسپیکر تقسیم کرنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا، "یہ ٹھیک ہے، لاؤڈ اسپیکر کو ہٹانے کے بجائے، اسے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے بارے میں بات کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔
ہمیں بغیر پیچھے ہٹے ڈیزل، سی این جی کی قیمتوں کے بارے میں بات کرنی چاہیے۔آئیے بات کرتے ہیں کہ پچھلے دو تین سالوں میں کیا ہوا۔"
راج ٹھاکرے کے لاؤڈ اسپیکر پر بیان کے بعد گزشتہ چند دنوں سے ریاست میں سیاسی پارا گرم ہوا ہے۔
راج ٹھاکرے نے مہا وکاس اگھاڑی (ایم وی اے) حکومت کو خبردار کیا ہے کہ وہ 3 مئی تک مساجد سے لاؤڈ اسپیکر ہٹا دیں، ایسا نہ کرنے پر ایم این ایس کے کارکنان مساجد کے باہر لائوڈ اسپیکر لگائیں گے اور ہنومان چالیسہ کا پاٹھ کریں گے۔
ٹھاکرے نے اسے ایک سماجی مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ وہ اس معاملے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ایم این ایس کے سربراہ نے کہا، یہ ایک سماجی مسئلہ ہے، مذہبی نہیں، میں ریاستی حکومت کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم اس میں پیچھے نہیں ہیں۔ جو کرنا چاہتے ہو کرو۔"
اس کے ساتھ ہی ٹھاکرے نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ممبئی کے مسلم علاقوں میں مساجد پر چھاپے مارنے کی بھی اپیل کی اور کہا کہ وہاں رہنے والے لوگ ''پاکستان کے حامی'' ہیں۔
انہوں نے کہا، "میں پی ایم مودی سے مسلمانوں کی کچی آبادیوں میں مدرسوں پر چھاپہ مارنے کی اپیل کرتا ہوں۔ پاکستانی حامی ان جھونپڑیوں میں رہ رہے ہیں۔
ممبئی پولیس جانتی ہے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ ہمارے ایم ایل اے انہیں ووٹ بینک کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔" ایسے لوگوں کے پاس آدھار بھی نہیں ہے، لیکن ایم ایل اے وہی بنواتے ہیں۔

عکسِ خیالمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند پھلواری شریف پٹنہ

جمعہ, اپریل 15, 2022
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی اور "آوازہء لفظ و بیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اردودنیانیوز۷۲
ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!
ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے! Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...
-
ٹرین میں ناری شکتی پردرشن Urduduniyanews72 عالمی یوم خواتین سے سبھی واقف ہیں، یہ ہرسال مارچ کی آٹھویں تاریخ کوپوری دنیا میں من...
-
گستاخ نبی کی قرآنی سزا اردودنیانیوز۷۲ مکہ میں سب سے پہلےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنےوالا کوئی اور نہیں بل...
-
یہ بیماری نہیں عذاب الہی ہے ! Urduduniyanews72 سی این این یہ امریکی نشریاتی ادارہ ہے،اس کی ایک رپورٹ جسے ملک کے اکثر اخبارات ...
-
بچیوں کی تربیت: ایک اہم ذمہ داری Urduduniyanews72 1. بچیوں کی تربیت کی اہمیت بچیوں کی تربیت ایک معاشرتی فریضہ ہے۔ ایک اچھی تربی...
-
مدارس اسلامیہ کنونشن میں منظور شدہ تجاویز اردودنیانیوز۷۲ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھن...
-
ملکِ ہند میں اسلامی انگریزی اسکول: وقت کی اہم ضرورت Urduduniyanews72 ہندوستان میں مسلمان قوم کا شمار ملک کی سب سے بڑی اقلیت میں...
-
نئے سال کا آغاز: ایک نیا سفر Urduduniyanews72 نیا سال ایک نیا آغاز، ایک نئی امید اور نئی جدوجہد کا پیغام لے کر آتا ہے۔ یہ دن نہ...
-
پیام انسانیت کے وفد کا سیمانچل دورہ Urduduniyanews72 Urduduniyanews72 @gmail.com ملک میں ایک ایسی تحریک جو خالص انسانی بنیاد پ...
-
سنبھل میں کرفیو کی ایک رات ) * انس مسرورانصاری Urduduniyanews72 رات آئی تو خوف کا عفریت...
-
خنساء اسلامک انگلش اسکول بہیڑہ دربہنگہ، بہار کی دینی و عصری تعلیم اور اصلاحی خدمات۔ Urduduniyanews72 تعارف: خنساء اسلامک انگلش ...