Powered By Blogger

ہفتہ, اپریل 23, 2022

نتیش نے وجے اوتسو پرویر کنور سنگھ کو خراج عقیدت پیش کیا

نتیش نے وجے اوتسو پرویر کنور سنگھ کو خراج عقیدت پیش کیاپٹنہ ، 23 اپریل ۔ بابو ویر کنور سنگھ وجے اوتسو کے موقع پر وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے پٹنہ کے ویر کنور سنگھ ا?زادی پارک میں منعقدہ ریاستی تقریب میں ان کے گھڑ سواری کے مجسمے پرگلپوشی کر انہیں دلی خراج عقیدت پیش کیا۔
پروگرام کے بعد نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے کہا کہ ا?ج بابو ویر کنور سنگھ کی یاد میں وجیوتسو کی تقریبات کا اہتمام کیا گیا ہے۔ کورونا کے دور سے پہلے بہار میں بابو ویر کنور سنگھ کی جینتی کے موقع پر کئی تقریبات کا اہتمام کیا گیا تھا۔ کورونا دور کے دو سال بعد ا?ج مجھے اس پروگرام میں شرکت کا موقع ملا ہے۔
نتیش نے کہا کہ بابو ویر کنور سنگھ کے تعاون کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس ملک میں ا?زادی کی جنگ پہلی بار ان کی قیادت میں 1857 میں لڑی گئی۔ بابو ویر کنور سنگھ جدوجہد ا?زادی کے دوران ملک کے کئی حصوں میں گئے۔ اس وقت ملک کی فوج میں حصہ ڈالنے والے بہت سے لوگوں نے بغاوت کر دی تھی اور ان سب نے اس لڑائی میں بابو کنور سنگھ کا ساتھ دیا تھا۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ہم نے اس پارک میں بابو کنور سنگھ کا مجسمہ نصب کرایا ہے اور اس پارک کا نام بھی ان کے نام سے ویر کنور سنگھ ا?زادی پارک رکھا گیا ہے۔ اس پارک میں بہت زیادہ ترقی کی گئی ہے ، تاکہ یہاں ا?نے والی نئی نسل ان کے تعاون کے بارے میں معلومات حاصل کر سکے۔ یونیورسٹی پہلے ہی بابو ویر کنور سنگھ کی یاد میں بنائی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ گنگا ندی پر پل کا نام بھی ان کے نام پر رکھا گیا ہے۔ زرعی کالج بھی ان کے نام سے منسوب تھا۔ بابو کنور سنگھ کی جائے پیدائش جگدیش پور کو ترقی دی گئی ہے۔ ا?ر جے ڈی کے افطار پارٹی میں شامل ہونے کے بارے میں صحافیوں کے سوال پر وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس قسم کی افطار پارٹی میں سب کو مدعو کیا جاتا ہے۔
اس موقع پر نائب وزیر اعلیٰ تارکشور پرساد ، وزیر تعلیم و پارلیمانی امور کے وزیر وجے کمار چو دھری ، ا?بی وسائل کے ساتھ اطلاعات اور تعلقات عامہ کے وزیر سنجے کمار جھا ، خوراک اور صارفین تحفظ کے وزیر متی لیشی سنگھ ، محنت وسائل اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر جیویش کمار ، سابق ایم پی مینا سنگھ ، سابق وزیر کرشن نندن پرساد ورما ، سابق وزیر وکرم کنور ، بہار اسٹیٹ سٹیزن کونسل کے سابق جنرل سکریٹری اروند کمار اور دیگر کئی سیاسی و سماجی کارکنوں نے بابو ویر کنور سنگھ کے گھڑ سوار مجسمہ پر گلپوشی کر خراج عقیدت پیش کیا

قرآن کریم صحت کے ساتھ پڑھنا ضروریات دین سے ہے۔۔مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی

قرآن کریم صحت کے ساتھ پڑھنا ضروریات دین سے ہے۔۔مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی 
مظفرپور٢٣اپریل/(پریس ریلیز) قرآن کریم اللہ کا کلام ہے اللہ جس طرح عظیم ہے اس کا کلام بھی اسی قدر عظیم ہے۔اس کی عظمت کو سمجھنا چاہیے ۔یہ کتا ب ہدایت ہے اسلئے اس کے احکام پر عمل کرنا چاہیے ۔اس کی تلاوت کار نبوت ہے اسلئے تلاوت کا اہتمام کرنا چاہیے ۔قرآن کریم کو تر تیل سے پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے اس لیے حروف کی صفات کی رعایت اور مخارج سے ادائیگی کا خیال رکھنا چاہئے ۔اپنی مشغولیات میں تھوڑا وقت روزآنہ تلاوت قرآن کے لیے ضرور نکالنا چاہیے ۔ان خیالات کا اظہار معروف اسلامی اسکالرمفتی محمد ثناءالہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑ کھنڈ نے کیا وہ یہاں حافظہ شائستہ پروین کے ذریعہ تراویح میں ختم قرآن کی دعائیہ مجلس سے خطاب فر مار ہے تھے۔زکریا کالونی مظفرپور کی اس دعائیہ مجلس میں خواتین سے خطاب کرتے ہوۓ مفتی صاحب نے فرما یا کہ یقینا عورتوں کی مشغولیات بہت ہیں ۔انہیں صبح سویرے سے ہی شوہر اور بچوںکی خدمت میں لگ جا نا ہوتا ہے۔اس کے باوجود جب کام سے فراغت ہو، تلاوت قرآن میں مشغول ہو جانا چاہیے یہ دنیا اور آخرت دونوں کے لیے مفید ہے۔مفتی صاحب نے اس موقع سے اپنی طویل دعا میں خصوصیت کے ساتھ ملک میں امن وامان اور سلامتی کی دعا فر مائ۔

پریاگ راج میں ایک ہی خاندان کے 5 افراد کا قتل کر دیا گیا۔ تھروئی تھانہ علاقہ کے کھیوراج پور گاؤں میں بدمعاشوں نے گھر میں گھس کر راج کمار یادو سمیت خاندان کے 5 افراد کا قتل کر دیا۔ Five People Murdered in Prayagraj

پریاگ راج میں ایک ہی خاندان کے 5 افراد کا قتل کر دیا گیا۔ تھروئی تھانہ علاقہ کے کھیوراج پور گاؤں میں بدمعاشوں نے گھر میں گھس کر راج کمار یادو سمیت خاندان کے 5 افراد کا قتل کر دیا۔ Five People Murdered in Prayagraj

بےخوف شرپسندوں نے راج کمار کو اس کی بیوی، معذور بیٹی، بہو اور معصوم پوتی پر حملہ کرکے قتل کردیا۔ قتل کے بعد بدمعاشوں نے گھر کو آگ لگا دی، جس کے بعد صبح گھر سے دھواں نکلتا دیکھ کر راہگیر نے پولیس کو واقعہ کی اطلاع دی۔ پولیس نے موقع پر پہنچ کر تمام افراد کو ہسپتال بھیج دیا۔ جہاں ڈاکٹروں نے سب کو مردہ قرار دے دیا۔ Five People Murdered in Prayagraj

 پریاگ راج میں ایک ہی خاندان کے 5 افراد کا قتل

یہ بھی پڑھیں:

راج کمار یادو اپنے اہل خانہ کے ساتھ تھروئی تھانہ علاقہ میں گاراپور سے سکندرا جانے والی سڑک کے کنارے رہتے تھے۔ جہاں فجر کے وقت گھر میں گھس کر شرپسندوں نے پورے خاندان کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ بدمعاشوں نے راج کمار یادو، ان کی بیوی کُسم دیوی، بہو سویتا، معذور بیٹی منیشا اور معصوم پوتی ساکشی کا قتل کر دیا۔ منیشا معذور تھی اور جب پولیس موقع پر پہنچی تو اس کے کپڑے بکھرے ہوئے تھے جس کی وجہ سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اسے قتل کرنے سے پہلے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ واقعہ کی اطلاع پر پہنچی پولیس معاملے کی جانچ کررہی ہے۔ فی الحال قتل کے پیچھے کیا وجہ ہے اس کا پتہ لگایا جا رہا ہے۔

زکوٰۃ: اسلام کا اہم رکنمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ و جھارکھنڈ

زکوٰۃ: اسلام کا اہم رکن
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ و جھارکھنڈ
اسلام کا نظام معیشت عدل وانصاف پر مبنی ایسا کامل ومکمل نظام ہے، جس کی نظیر دنیا کے کسی قدیم وجدید نظام میں نہیں ملتی۔ یہ نظام خشک وبے جان نظریات پر مبنی نہیں؛ بلکہ اس کی جڑیں دل وجذبات سے لے کر عمل تک اور معاشرہ کی نچلی سطح سے لے کر اوپری سطح تک پیوست ہیں، جس میں جبر واستبداد اور ظلم وجورکی کوئی گنجائش نہیں، اسلام پہلے انسانی زندگی پر احکم الحاکمین کا دبدبہ قائم کرتا ہے اور اس کے احسانات یا د دلاتا ہے، اور انسانی ذہنوں میں یہ راسخ کرتا ہے کہ تمہارے پاس جو مال ودولت ہے وہ سب رب العالمین کا عطیہ ہے،یہ مال در حقیقت اللہ تعالی کا ہے جو بطور امانت تمہارے سپرد کیا گیا: (وَآتُوْ ھُمْ مِنْ مَالِ اللّٰہِ الَّذِیْ اٰتٰکُمْ) (النور:۳۳) اور اللہ کے ا س مال میں سے انہیں دو جواس نے تمہیں عطا کیا؛لیکن  اسلام انسانوں کو اپنے مال ومتاع کی مالکیت سے کمیونزم کی طرح محروم بھی نہیں کرتا ہے،اسی لئے اللہ تعالی نے مال ودولت کا انتساب بار بار انسان کی طرف کیا ہے؛ تاکہ انسان کی خود اعتمادی اور جذبہئ مسابقت نہ صرف یہ کہ محفوظ رہے بلکہ پر وان چڑھتا رہے، ارشاد باری ہے:(اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ أمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ) (البقرہ:۷۶۲) جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔
اسلا م کے عادلانہ نظام معیشت کے بہت سارے حصے ہیں؛لیکن ان میں اہم ترین شعبہ زکوٰۃ ہے یہ اسلام کا تیسرا رکن اوراہم ترین فریضہ ہے، اس کی اہمیت کااندازہ محض اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں ایک دوجگہ نہیں بلکہ ۲۸ مقامات پر نماز کے ساتھ زکوٰۃ کا ذکر آیا ہے،(أقِیْمُوْ االصَّلوٰۃَ وآتُو الزَّکَوٰۃ) سے پورا قرآن بھر ہوا ہے۔ قرآن کریم میں مسلمانوں کے جو اوصاف بیان کئے گئے ہیں، ان میں (یُوْتُوْنَ الزَّکَوٰۃَ) بار بار آیا ہے۔ اس موضوع پر احادیث حد تواتر تک پہنچ چکی ہیں، اور امت کااس پر اجماع ہے کہ زکوٰۃ نماز کے ساتھ لازم وملزوم ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ دین کاخلاصہ حقوق اللہ او ر حقوق العباد کی ادائیگی ہے، پہلے کا عنوان نماز ہے او ردوسرے کا زکوٰۃ۔ ان کی بھر پورانداز میں تکمیل کے بعد ہی اقامت دین کا تصور کیا جا سکتا ہے؛ بلکہ ایک روایت میں یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ زکوٰ ۃ نہ دینے والوں کی نماز بھی مقبول نہیں ہوتی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:(لا یقبل اللہ تعالی صلوٰۃ رجل لا یودی الزکوٰۃ حتی یجمعھما فإن اللہ تعالی قد جمعھما فلا تفرقوا بینھما (کنز العمال: ۳/۵۲)کہ اللہ تعالی اس شخص کی نماز قبول نہیں کرتا جو زکوٰۃ ادا نہیں کر تا، یہاں تک کہ وہ ان دونوں کو جمع کرے یعنی نماز اور زکوٰۃ دونوں ادا کرے، اس لئے کہ اللہ تعالی نے نماز اور زکوٰۃ کو ایک ساتھ بیان فرمایا ہے۔
زکوٰۃ کا مقصد یہ ہے کہ زکوٰۃ دینے والا اپنے نفس کو بخل، خود غرضی، انانیت، فقراء کی حق تلفی اور قلب کی قساوت سے پاک وصاف کرکے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: (خُذْ مِنْ اَئمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِِّرُھُمْ وَتُزَکِّیْھِمْ بِھَا) (توبہ: ۳۰۱) آپ ان کے مالوں سے صدقہ لے لیجئے آپ اس کے ذریعہ انہیں پاک وصاف کردیں گے۔ ا سکا مقصد یہ بھی ہے کہ فقراء وضعفاء اور حاجت مندوں کی حاجت رسی کی جائے، جس کی وجہ سے پاکی ونورانیت اور خیر و برکت کاظہور ہوگا۔(مَنْ ذَاالَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضَاً حَسَناً فَیُضَاعِفُہُ لَہُ اَضْعَافَاً کَثِیْرَۃً) (البقرۃ: ۵۴۲) کون شخص ہے جو اللہ کے لئے قرض حسن (زکوٰۃ یا صدقات) دیتا ہے؛ تا کہ اللہ تعالی اس کو اس شخص کے لئے بہت زیادہ بڑھا ئے ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہر شخص کے پاس اپنی لازمی ضرریات کی تکمیل کے لئے کچھ نہ کچھ مال ہو۔ معاشرے میں کوئی بھوکا یا ننگا نہ رہے۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (إن اللہ فرض علی الأغنیاء فی أموالھم بقدر ما یکفی فقرائھم وإن جاعوا وعرووجھدو فیمنع الأغنیاء وحق علی اللہ أن یحاسبھم یوم القیٰمۃویعذبھم علیہ)۔ کہ اللہ تعالی نے مالدارلوگوں پر انکے مال میں اس انداز سے زکوٰۃ فرض قرار دیا ہے جو فقیروں کے لئے کافی ہوجائے، اب اگر فقراء، بھوکے، ننگے رہتے ہیں یا تکلیف میں رہتے ہیں تو یہ مالدار لوگوں کے زکوٰۃ نہیں ادا کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالی کا حق ہے کہ وہ قیامت کے دن ان سے محاسبہ کرے اور زکوٰۃنہیں ادا کرنے پر عذاب دے۔
زکوٰۃ کے جو مقاصد ومصالح اور اس کے فوائد ذکر کئے گئے، ان کا حصول اسی صورت میں ممکن ہے جب اس کی وصولیابی اور تقسیم کیلئے ایک جماعتی نظام موجود ہو، اس لئے کہ فرضیت زکوٰۃکے احکام و مصالح کی عمارت اسی پر کھڑی ہے۔ جس طرح نماز، روزہ اور حج میں اجتماعیت کی روح کار فرما ہے کہ نماز کو جماعت کیساتھ ادا کرنا ہے، روزہ کی فرضیت پوری دنیا کے مسلمانوں پر ایک ہی مہینے میں ہے، مناسک حج کی ادائیگی بھیڑ وازدہام، دشواری وپریشانی کے باوجود چند مخصوص ایام ہی میں کرنی ہے،
 ٹھیک اسی طرح زکوٰۃ بھی ایک اہم ترین عبادت ہے اورا س کیلئے بھی اسلام نے ایک اجتماعی طریقہ کار مقرر کیا ہے کہ امیر کے تحت بیت المال قائم ہو، وہ لوگوں سے زکوٰۃ وصول کرے اور مستحقین تک با عزت طریقے پر پہنچا ئے۔ جیساکہ اللہ تعالی نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتے ہوئے فرمایا: (خُذْ مِنْ اَمْوالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُ ھُمْ وَتُزَکِّیْھِمْ بِھا) (التوبہ: ۳۰۱)کہ اے پیغمبر آپ مسلمانوں کے مالوں سے صدقہ وصول کیجئے اس کے ذریعہ ان کو پاک اور مزکی بنائیے۔ یہ آیت کریمہ واضح طور پر اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیاگیا ہے کہ آپ صاحب نصا ب مالداروں سے زکوٰہ وصول کیجئے؛ یعنی زکوٰۃ کی وصولی امام کے ذریعہ ہو امام وامیر کے تحت حسب مصالح زکوٰۃ کی رقم مصارف زکوٰۃ میں صرف ہو اور ”خذ“ میں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کیا گیا ہے وہ ”خطاب مواجہہ“ ہے چناں چہ علامہ نووی شارح مسلم تحریر فرماتے ہیں:(وخطااب مواجھۃ للنبی صلی  اللہ علیہ وسلم وھو جمیع امتہ فی المراد سواء) (نووی:۱/۸۳)اور خذ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جو خطاب ہے وہ ”خطاب مواجہہ‘‘ ہے، اسلئے حکم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت دونوں شامل ہیں۔
زکوٰۃ کے اجتماعی نظام سے زکوٰۃ کی وصولی زیادہ سے زیادہ مقدارمیں ہو سکے گی۔ اور زیادہ سے زیادہ ضرورت مند افراد کا تعاون ممکن ہو سکے گا۔ لوگوں کا تعاون انکی ضرورت کے لحاظ سے ہو گا۔ محتاج اور ضرورت مند لوگ سوال کرنے کی ذلت سے بچ سکیں گے۔ زکوٰۃ کی رقم کوڑیوں میں بٹنے کے بجائے حسب ضرورت لوگوں کو ایک جگہ سے مل جائے گی، ان لوگوں تک بھی زکوٰۃ پہنچ جائے گی جن کی زبانیں حیا وخوددار ی کی و جہ سے بند رہتی ہیں، انفرادی زکوٰۃ کی مقدار، تقسیم کے بعد اتنی کم ہو جاتی ہے کہ وہ کسی غریب شخص کو اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں کر سکتی،
زکوٰۃ کا اجتماعی نظام اس ضرورت کو پوراکر تا ہے اور گدا گری کا خاتمہ کرتا ہے۔
حجۃ الاسلام ابو بکر جصاص رازی ؒ اپنی کتاب احکام القرآن میں لکھتے ہیں:”خُذْمِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً“کی آیت اس امر پردلالت کرتی ہے کہ زکوٰۃ کی وصولی کا حق امام کو ہے اور بلا شبہ جن پر زکوٰۃ فرض ہے اگر وہ خود مساکین کو دے دیں گے تو یہ جائز نہ ہوگا، اس لئے کہ زکوٰۃ کی وصولی کا حق امام کے لئے ثابت وقائم ہے۔ لہذا صاحب زکوٰۃکو امام کے اس حق کو ساقط کرنے کا کوئی اختیار نہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانوروں کی زکوٰۃ کے لئے عاملین کو بھیجا کرتے تھے اور حکم فرماتے تھے کہ انکی زکوٰۃ ان کی جگہ پر جا کر لیا کریں اور یہی حکم پھلوں کی زکوٰۃ کا ہے؛ بقیہ رہ گئی سونے، چاندی، در اہم ودنانیر کی زکوٰۃ تو یہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمر، حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کی خدمت میں داخل کی جاتی تھی۔ پھر حضرت عثمان غنی نے ایک مرتبہ خطبہ دیا کہ یہ زکوٰۃ کا مہینہ ہے، جس پر قرض ہو وہ اپنے قرض کو ادا کرے پھر باقی مال کی زکوٰۃ ادا کرے، حضرت عثمان غنیؓ نے ارباب مال کو اختیار دیا کہ وہ زکوٰۃ مسکینوں کو ادا کریں۔ (احکام القرآن: ۳/۵۵۱) علامہ ابن الہمام حنفی لکھتے ہیں کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپکے دونوں خلیفہ اس پر قائم رہے۔ جب حضرت عثمان ؓکا زمانہ آیا اور لوگوں کا تغیر ظاہر ہونے لگا تو انہوں نے خیال کیا کہ لوگوں کے پوشیدہ مالوں کا خفیہ طریقہ سے پتہ لگا نا مناسب نہیں، اس لئے انہوں نے اس مال کی ادائیگی ان کے مالکان کے سپرد کردی اور صحابہ نے بھی اس مسئلہ میں ان سے کوئی اختلاف نہیں کیا۔ اس کی حیثیت امام کے حقِ وصول کو باقاعدہ ساقط کر دینے اور گزشتہ حکم کو منسوخ کر دینے کی نہیں تھی۔ (فتح القدیر: ۱/۱۱۳)
 اس تفصیل سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ زکوٰۃ کا مزاج اور شرعی تقاضہ ہے کہ وہ بیت المال میں جمع کی جائے اوران خلفاء وامراء کے سپرد کی جائے جو اس کے منتظم وذمہ دار ہیں۔ چناں چہ اسلامی خلافت اپنے درجات کے تفاوت کے باوجود برابر زکوٰۃ کی تحصیل اور اس کی تقسیم کا عمل انجام دیتی رہی۔ خلافت عباسیہ کے آخری دور تک یہ صورت حال بر قرار رہی بالآخر آہستہ آہستہ آنے والی مختلف حکومتوں نے اس نظام کی پابندی کو ختم کردیا، اس کے نتیجے میں تمام اسلامی ملکوں میں سخت انتشار بر پا ہوا، مسلمان شریعت اسلامی کی بر کتوں سے محروم ہوتے چلے گئے اور اسی کی سزا ہے کہ آج انکو ظالمانہ سرمایہ داری، پُر فریب سوشلزم اور انتہا پسندانہ وغیر متوازن کمیو نزم کا مزا چکھنا پڑرہا ہے۔
یہ ایک بڑی سچائی ہے کہ اسلام کا کامل تصور بغیر جماعت اور امارت کے ممکن نہیں، زندگی کے ہر شعبہ میں ایک مسلمان کے لیے اجتماعیت سے محرومی اور انتشار میں مبتلا رہنا بہت بڑا نقصان اور دینی ودنیوی خسران کا سبب ہے۔ اسی لئے حضرت عمر ؓ نے فرمایا: (لا اسلام الا بجماعۃ ولا جماعۃ إلا بامارۃ) جب جماعت اور امارت قائم ہوگی تو ان شاء اللہ پوری امت  پراللہ کی خاص رحمت کا نزول ہوگا، ارشاد نبوی ہے: ید اللہ علی الجماعۃ۔
لہذا وہ علاقے اور خطے جہاں اسلامی نظام امارت قائم نہیں، وہاں کے مسلمانوں کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ نظام امارت قائم کریں اور اپنے میں سے کسی ایک لائق شخص کو امیر منتخب کرلیں، جیسا کہ علامہ ابن نجیم مصری نے لکھا ہے:(اما فی بلاد علیھا ولاۃ الکفار فیجوز للمسلمین إقامۃالجمعۃ والأعیاد ویصیر القاضی قاضیا بتراضی المسلمین ویجب علیھم طلب وال مسلم)۔
جب امارت شرعیہ قائم ہو جائے جیسا کہ الحمد للہ صوبہ بہار، ڈڑیسہ وجھارکھنڈ وغیرہ میں قائم ہے تو اس کے تحت فوری طور پر بیت المال کا شعبہ قائم کیا جائے، جس میں کام کرنے والے عاملین کی ایک بڑی تعداد ہو۔ وہ لوگوں سے زکوٰۃ اور دیگر صدقات واجبہ مثلا عشرہ وغیرہ وصول کریں اوربیت المال کے ذریعہ اسے اسکے صحیح مصارف میں خرچ کیا جائے۔
زکوٰۃ کی تقسیم کہاں کی جائے:
زکوٰۃ کا مصرف کیا ہے؟ اور زکوٰۃ کی تقسیم کن لوگوں کے مابین ہونی چاہئے اس کیلئے خود اللہ تعالی نے سورہ برأۃ میں واضح حکم نازل فرمایا:ارشاد ہے(اِنَّمَا الَّصَدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاکِیْنَ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْھَا وَالمُوَئلَّفَۃِ قُلُوْبِھِمْ وَفِیْ الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیْنَ وَفِی سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْن السَّبِیْل فَرِیْضَۃً مِنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَلِیْمُ‘ حَکِیْمُ‘) (توبہ: ۰۶) صدقات واجبہ تو صرف غریبوں، محتاجوں اوران کارکنوں کے لئے ہیں،جواس کام پر مقرر ہیں، نیز ان کاجنکی دلجوئی مقصود ہے، اور صدقات کو صرف کیاجائے گردنوں کے چھڑانے میں اور قرض داروں کے قرضہ ادا کرنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کی امدادمیں،یہ فرض ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ بڑا علم والا، بڑاحکمت والا ہے۔
حاصل یہ ہے کہ صدقات کرنے والے کو اختیار نہیں کہ اپنی پسندیدگی سے اس کیلئے مصرف تجویز کرے اور اس میں خرچ کرے؛ بلکہ اللہ تعالی نے اسکے لئے خود مصرف مقرر فرمادیا ہے اور طے فرمادیا ہے کہ ان مدات کے سوا ان کو دوسری جگہ خرچ نہیں کیا جاسکتاہے۔ مذکورہ آیت میں کل آٹھ مصارف بیان ہوئے، یہ منصوص مصارف، زکوٰۃ کے حکم کے ساتھ دائمی ہیں؛ البتہ مؤلفۃ القلوب کے بارے میں اکثر علماء، ائمہ اور فقہاء کا خیال ہے کہ اسلام کی اشاعت اور غلبہ کی وجہ سے اب ان کے حصہ کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اس سلسلے میں قاضی ابو بکر ابن العربی وغیرہ کی رائے یہ ہے کہ اگر اسلام کو غلبہ واقتدار حاصل ہو تو ضرورت نہیں، لیکن اگر اس کی ضرورت محسوس کی جائے تو ان کو اسی طرح دینا چاہئے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیتے تھے۔۔ قاضی ابو بکر کی اس رائے کو علامہ مناظر احسن گیلانیؒ، مفکر اسلام مولاناابو الحسن علی ندویؒ اور دیگر علماء نے پسند فرمایا ہے۔
مدارس اسلامیہ میں زیرتعلیم طلبہ بالاتفاق زکوٰۃ کا مصرف ہیں، بعض علماء انہیں ابن سبیل میں اور بعض انہیں فی سبیل اللہ یا فقراء ومساکین میں داخل مانتے ہیں۔ ان طلبہ کے لئے ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے مدارس اسلامیہ کی طرف سے زکوٰۃ کی وصولی کا انتظام ہو تا ہے، اور زکوٰۃ کی وصولی کا کام مدرسہ کے اساتذہ،سفر اء اور مبلغین انجام دیتے ہیں؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ زکوٰۃ کی رقم کا نو ے فیصد حصہ مدارس پر خرچ ہوتا ہے اور مدارس کا اتنا عظیم ڈھانچہ زکوٰۃ وصدقات کی رقم پرہی اصلاً قائم ہے۔ اور بلاشبہ یہ مدارس دین کے مختلف میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں؛لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مدارس کا منتشر طور پر زکوٰۃ وصول کرنا اور اس کے لئے نت نئے طریقے اختیار کرنا، کمیشن وغیرہ پر چندہ کروانا، شریعت اسلامیہ کی روح سے ہم آہنگ نہیں ہے؛ لہذا جن صوبوں میں امارت شرعیہ کا نظام قائم ہے اور اس کے تحت بیت المال ہے۔ ان صوبوں کے مدارس کیلئے لازم ہے کہ وہ اپناانسلاک بیت المال سے کریں،اگر یہ ممکن نہ ہو تو امیر شریعت کی طرف سے انہیں باضابطہ رقم کی وصولی کی اجازت دی جائے اور وہ اس کی آمد وخرچ کاحساب بیت المال میں داخل کریں، اگر ایسی صورت ہوجائے تو زکوٰۃ وصول کرنے والے سفراء ومحصلین ”عاملین علیھا“ کے مصرف میں داخل ہو سکتے ہیں۔ لیکن کمیشن پر چندہ کرنا بہرصورت ناجائز رہے گا۔ جن صوبوں میں نظام امارت قائم نہیں ہے، ان میں اس نظام کو قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، جب تک یہ نظام قائم نہ ہوجائے ارباب مدارس اس علاقے کے اربابِ حل وعقد کے مشورے سے اس کام کوکر سکتے ہیں، یا اس کے لئے کوئی انجمن، تنظیم وغیرہ بنائی جا سکتی ہے جو صالح وبہترین افراد پر مشتمل ہو اور زکوٰۃ کو اس کے صحیح مصرف میں خرچ کر سکے۔ آج مختلف ناموں سے غیر معتبر تنظیموں کے قیام کا ایک فیشن ساچل پڑا ہے، جو اپنے اثر ورسوخ کا استعمال کر کے امراء سے رقمیں حاصل کرتے ہیں اور من مانے طور پر جائز وناجائز مصارف میں اسے خرچ کرتے ہیں۔ ایسی انجمن، تنظیم اور فاؤنڈیشن کی قطعا حو صلہ افزائی نہیں کی جاسکتی۔ ورنہ زکوٰۃ کے اجتماعی نظام کی جو روح ہے، وہ ختم ہو کر رہ جائے گی اور وہ انفرادی نظام کی طرح ہو جائے گا۔

جمعہ, اپریل 22, 2022

دہلی: جہانگیر پوری میں تشدد کے بعد جمعہ کی نماز پرامن ماحول میں ادا کی گئی

دہلی: جہانگیر پوری میں تشدد کے بعد جمعہ کی نماز پرامن ماحول میں ادا کی گئی

ابوشحمہ انصاری، نئی دہلی

خوف ودہشت کے ماحول کے دوران جہانگیرپوری میں تشدد کے بعد آج پہلی جمعہ کی نماز پرامن ماحول میں اداکی گئی، نماز جمعہ کے حوالے سے پولیس چوکس رہی، اس دوران مسجد کا مین دروازہ بند رہا اور اندر والے دروازے سے لوگ مسجد میں داخل ہوئے۔

اس کے ساتھ ہی علاقے میں کسی بھی قسم کی سرگرمی سے نمٹنے کے لیے مناسب تعداد میں سیکیورٹی اہلکار بھی تعینات کیے گئے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے دورے سے قبل جہانگیرپوری میں سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ دراصل جہانگیر پوری میں فسادات کے بعد علاقے کی سیکوریٹی اور نگرانی کے نظام کو مضبوط بنانے پر زور دیا جا رہا ہے۔

بدھ کو اس علاقے میں غیر قانونی تعمیرات بتا مکانات پر بلڈوزر چلا گیا۔ کل، سپریم کورٹ نے جہانگیر پوری میں شمالی دہلی میونسپل کارپوریشن (این ڈی ایم سی) کی طرف سے تجاوزات پر بلڈوزر چلانے کی ہدایت کو اگلے حکم تک بڑھا دیا۔

جانئے کیا ہے رمضان کے آخری عشرے میں حرمین میں معتکفین کے لئے انتظامات

جانئے کیا ہے رمضان کے آخری عشرے میں حرمین میں معتکفین کے لئے انتظاماتحرمین شریفین انتظامیہ کا کہنا ہے کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنے والوں کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔ مسجد نبوی میں اعتکاف کرنے والوں کے لیے دروازے مخصوص کیے گئے ہیں۔
عاجل ویب سائٹ کے مطابق معاون سیکریٹری برائے امن و سلامتی سعود الصاعدی نے کہا کہ اعتکاف کرنے والوں کے لیے جگہیں مختص ہیں اور ان کی نگرانی کے لیے متعدد انسپکٹرز بھی تعینات کیے ہیں۔
الصاعدی نے مزید بتایا کہ مسجد نبوی میں زائرین کی آمدورفت کے لیے دروازوں کی تعداد بڑھا دی گئی ہے۔
علاوہ ازیں الیکٹرانک زینوں کی تعداد میں بھی اضافہ کیا گیا ہے جبکہ اس بات کا بھی اطمینان کرلیا گیا ہے کہ ایمرجنسی گیٹ درست حالت میں ہے اور ضرورت پڑنے پر استعمال کیے جاسکتے ہیں۔
اعتکاف کرنے والوں کو خصوصی لاکرز فراہم کیے گئے ہیں جبکہ انہیں افطاری اورسحری بھی فراہم کی جا رہی ہے۔
معتکفین کے لیے مختلف زبانوں میں دینی کتب بھی فراہم کی جارہی ہیں تاکہ وہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت عبادت میں گزار سکیں۔
الصاعدی نے بتایا کہ رمضان کے آخری عشرے میں مسجد نبوی میں زائرین کو سونے کی اجازت نہیں ہے۔ اس حوالے سے کی جانے والی خلاف ورزیاں روکی جائیں گی۔ اس مقصد کے لیے ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔
الصاعدی نے بتایا کہ تہجد کے دوران نمازیوں کی آمدورفت میں سہولت کے لیے پارکنگ لاٹس کی نگراں کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے۔
یاد رہے کہ اس سال اعتکاف کرنے والوں کے لیے مسجد نبوی کی چھت پر انتظام کیا گیا ہے جہاں مرد حضرات اعتکاف کریں گے اور اس کے نیچے والے حصے میں خواتین کے لیے اعتکاف کی جگہ مقرر کی گئی ہے

جمعرات, اپریل 21, 2022

۲۳/اپریل عالمی یوم کتاب:ایک ایسی لڑکی کی کہانی جس نے ایک سال میں بچوں کے لئے ۲۵لائبریاں قائم کیں

۲۳/اپریل عالمی یوم کتاب:ایک ایسی لڑکی کی کہانی جس نے ایک سال میں بچوں کے لئے ۲۵لائبریاں قائم کیںاورنگ آباد(پریس ریلیز)
23/ اپریل یونیسکو کی جانب سے مشہور مصنف ولیم سیکسپیئر کی یاد میں عالمی یومِ کتاب کے طور پر منایا جاتاہے۔جس کا مقصدعالمی سطح پر عوام میں کتابوں کے تئیں بیدار ی ودلچشپی پیدا کرنا،کتابوں کی اشاعت اور اس کے حقوق کے تحفظ کے بارے میں بیداری پیدا کرنا ہوتا ہے۔ 1995؁ٓ؁ء یہ دن ہر سال دنیابھر میں منایاجاتاہے۔
اس مناسبت سے مہاراشٹر کے مشہور تاریخی شہر اورنگ آباد کی ساتویں جماعت کی طالبہ مریم مرزا نے اپنی سہلیوں اور گلی کے بچوں کے لیے اپنی نجی تین سو کتابوں سے شہر کی پہلی محلہ بچوں کی لائبریری شروع کی تھی،مریم مرزا کی اس کوشش کو اتنا سہرایا گیا کہ ہر محلہ سے فرائش آنے لگی کہ ہمارے یہاں لائبریری شروع کیجے،ہم اپنا کمرہ دیتے ہیں، مسجدوالوں نے کہاکہ ہم جگہ دیتے ہیں۔پہلی لائبریری کا ابتداء 8/جنوری 2021؁ء کو ہوئی تھی۔21/ فروری کوعالمی یومِ مادری زبان کے موقع پر شہر کی گیارہویں مسجدمیں مریم مرز ا کی تحریک محلہ محلہ لائبریری کی سلور جبلی منائی گئی۔اس کے بعد مزید تین محلوں میں بچوں کی لائبریریاں شروع کی گئی ہیں۔ اس طرح اورنگ آباد کے مختلف محلوں میں پندرہ مہینے کے مختصر عرصہ میں 28لائبریریاں قائم ہوچکی ہیں۔
مریم مرزا کی یہ تحریک ریڈاینڈ لیڈ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام چلائی جارہی ہے۔فاؤنڈیشن کے صدر مرزا عبدالقیوم ندوی کاکہنا ہے کہ اگر ہمیں ملک کی بڑی بڑی لائبریریوں کو بچانا ہے،ان میں رکھیں کروڑوں کتابوں کو قاری مہیا کرنا ہو تو ہمیں چھوٹی چھوٹی لائبرریاں قائم کرنی ہوں گی،اس کے لیے پرائمری وہائی اسکول کے بچوں کو رستہ کتابوں سے جوڑنا ہوگا، ان میں کتابوں کے تئیں بیداری اور شوق پیدا کرنا ہوگا، کل یہی بچے جب کالج و یونیورسٹیوں میں جائیں گے تو وہاں کی بڑی بڑی لائبریوں میں بھی جائیں گے اور وہاں سالہاسال سے رکھیں کتابوں سے دھول صاف کریں گے کتابیں بھی پڑھیں گے۔مریم مرزا کی تحریک کا سب سے بڑا فائدہ ہوا کہ اردو ودیگر علاقائی زبانوں کو قاری مل رہا ہے۔زبانوں کو فروغ حاصل ہورہا ہے۔ہزاروں کی تعدادمیں بچوں ان لائبریوں سے کتابیں اپنے گھروں میں لے جارہے ہیں، گھروں میں چھوٹے بڑے بھائی بہن،والدین اور بڑے بزرگ بھی بچوں کو یا تو پڑھ کر سنا رہے ہیں یا سن رہے ہیں۔
تو چلیے آج ہم آپ کو مہاراشٹر کے مشہور شہر اورنگ آباد کی ایک ایسی لڑکی کا تعارف کراتے ہیں جس نے اپنے ایک انوکھے اور مثالی کارنامے کے سبب ان سارے الزامات کو جو بچو ں پر لگائے جاتے ہیں غلط ثابت کردیا ہے۔ اس نے ایک تحریک شروع کی ہے گلی محلوں کے بچوں کے لیے 'محلہ محلہ لائبریری'
مرزا مریم جمیلہ مہا راشٹر کے ضلع اورنگ آباد میں رہنے والی کم عمر لڑکی ہے اقراء پرائمری اسکول جماعت ہشتم کی طالبہ ہے۔ مریم جمیلہ،ادب اطفال کی شروع سے قاری رہی ہیں۔ ان کے والدنے جو کتابوں کا کاروبار کرتے ہیں 'بچوں کی دنیا' کی نکاسی میں عالمی ریکارڈقائم کیا ہے۔ ساٹھ دن میں تین شماروں کی ایک لاکھ پانچ سو کاپیاں فروخت کر چکے ہیں۔ 6سال میں پانچ لاکھ چھپن ہزار آٹھ سو کاپیاں فروخت ہوئی ہیں۔ مرزا مریم بھی 'بچوں کی دنیا' کی خریدار ہیں۔ ان کے پاس پوری فائل محفوظ ہے۔ اب جو انہوں نے لائبریوں کے قیام کا بیڑا اٹھایا ہے تو نہ صرف ادب اطلفال کی کتابیں اور بچوں کی دنیا بلکہ دیگر بچوں کے پرچے جیسے امنگ، گل بوٹے، اچھا ساتھی، جنت کے پھول، گلشن اطفال،پھول،روشن ستارے بھی بچوں کو پڑھنے ملیں گے۔ بچوں کے ا ن رسالوں کے توسط سے بچے قلمی دوستی سے واقف ہوں گے،رسائل سے متعارف ہوں گے اور زبان کی ترویج و اشاعت کے نئے افق روشن ہوں گے۔
لاک ڈاؤن جیسے سنگین حالات میں اپنے اطراف کے حالات کو دیکھتے ہوئے اپنا منشا ء طے کرتی ہیکہ اپنے محلّے کے بچوں کیلئے وہ ایک لا ئبریری قائم کرے گی تا کہ بچے اپنے وقت کا صحیح استعمال کرسکے۔ بے کار کاموں میں خو د کو ملوث نہ کریں۔ ساتھ ہی وہ مستقبل کے قاری بنیں کیونکہ یہی بچے آنے والے مستقبل کے معما ر ہوں گے۔ مرزا مریم جمیلہ کے ذہن میں یہ تصور یہ جذبہ کہا ں سے آیا ہوگا؟یہ سوال سب کے ذہنوں میں انتشار پیدا کررہا ہوگا۔در اصل یہ مثبت تخلیقی صلاحیتوں اور،قوم و ملت کے فوائد کے تما م تر جذبات مریم نے مطالعہ سے حاصل کئے ہیں۔ اُسے کتب بینی کا بے حد شوق ہے۔
مریم جب بھی والد کی دکان پر جاتی ہیں تو ضرو ر ایک کتا ب اپنے ساتھ لے آتی ہیں۔ اس طرح مریم کے پاس ۰۵۱کتا بیں اب تک جمع ہوچکی تھیں۔مریم کے شوق کو دیکھتے ہوئے اس کے والد نے ۰۵۱ / کتابیں اپنی دختر کو14/ نومبر کو یو م اطفال کے موقع پر تحفے میں دیں۔مریم نے ان۰۰۳ کتابوں پر اپنی لائبریری کا آغاز ۸/جنوری ۱۲۰۲؁ء کو کیا۔جس کی افتتاحی تقریب کے لئے ڈاکٹر فو زیہ خان ]رکن راجیہ سبھا[کو مدعو کیا گیا تھا۔ بچوں کے چہیتے سابق صدرجمہوریہ ہند ڈاکٹر اے۔ پی۔ جے عبدالکلام کے نام سے موسوم لائبریری کا افتتاح بد ست ڈاکٹر فوزیہ خان کے ذریعے عمل میں آیا تھا۔
مرزا مریم نے اپنا یہ مشن صر ف اپنے محلے کی لائبریری تک محدو د نہیں رکھا بلکہ وہ اپنے شہرمیں ۰۵لائبریریاں قائم کرنے کا عز م کرچکی ہے۔ مریم کے والد مرزا عبد القیوم ندوی Read & Lead Foundatio کے صدر ہیں۔ وہ اپنی شہزادی کی طرح ہمدرد دل رکھتے ہیں۔ محلے کے بچے غلط روش اور بُرائی کی طر ف مائل نہ ہوں بلکہ اُن کے اخلاق و عادتیں بھی اچھی ہوں اس کی خاطر اپنی بیٹی کے مقاصد کی تکمیل کیلئے Fameاور Read & Lead Foundation نے اس تقریب کو منظم طریقے سے انجام دیا۔ مریم کانعرہ ہے کہ'تم مجھے 10000/- روپئے دو،میں تمہیں ایک لائبریری دوں گی۔' مریم کے اس جذبے نے پو رے محلے میں ایک امنگ پید اکی۔ کم وبیش 87 بچوں نے لا ئبریری سے کتابیں لی تھیں جسکی تعداد 167تک پہنچ گئی۔ اب تک جائزے سے یہ معلوم ہو ا کہ ا ن بچوں نے دس دفعہ کتابیں تبدیل کیں اور کتابوں کو گھر لے جاکراُن کا مطالعہ کیا۔ بچوں سے بات کرنے پر یہ بات بھی سامنے آئی کہ اُن کی والدہ، دادی اور دادا وغیرہ بھی اُنھیں کہانیاں پڑھ کر سُناتے ہیں۔ ساتھ ہی مریم نے جو عزم کیا تھا کہ اُسے 50 لائبریریاں قائم کرنا ہے۔ وہ بھی یکے بعد دیگر قائم ہوتی جارہی ہیں۔یہ تمام لائبریاں قومی شخصیات،سیاسی رہنماؤں اور ادبی خدمات انجام دینے والی قد آورشخصیتوں،عظیم شعراء حضرا ت کے ناموں سے موسوم کی جائیں گی،جن کے کارناموں سے بچے واقف ہوسکیں گے اور ان کے تئیں ادب کا یہ خراچ عقیدت بھی ہوگا۔ اس میں صرف اردو ہی کی معروف شخصیات نہیں بلکہ دیگر زبانوں کے دانشور بھی شامل ہیں۔ مریم کا یہ اقدام کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے۔
مریم نے ان محلہ لائبریوں کے قیام میں یہ مقصد بھی پیش نظر رکھا ہے کہ بچوں میں اوائل عمر ہی میں مطالعہ کا ذوق پروان چڑھے۔موبائل پر گیمس اور دیگر تفریحی aapsمیں عمر عزیز کے گھنٹوں ضائع کرنے کی بجائے بچوں کو اگر مطالعے کی صحیح سمت مل جائے تو بڑی حد تک یہ ان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہوگی۔ یہ بات طے ہے کہ مطالعہ کی عادت ذہن کے دریجوں کو کھولنے میں اہم کرداراداکرتی۔اگربچپن ہی میں بچوں کو یہ عادت ہوجائے تو بلاشبہ مستقبل میں بھی وہ کتابیں خرید کر پڑھتے رہیں گے۔زندگی کتاب سے جڑی رہے گی۔اور جن کی زندگی کتاب سے جڑی ہوتی ہے۔ ان کی سو چ،ان کی گفتگواور زندگی کے تعلق سے ان کے رویوں کانکھارہی کچھ اور ہوتاہے،یہ اس لیے بھی ضر وری ہے کہ یہی بچے قوم کا مستقبل ہیں۔ تحریک مریم مرزا کے تحت شہرکی گیار ہ مسجدوں میں بچوں کی محلہ لائبریاں چل رہی ہیں اوراب یہ کوشش کی جارہی ہے کہ مسجدوں کو اسٹیڈی سینٹر بنایاجائیں جہاں طلباء اپنی نصابی کتابیں لے کرآئیں اور یہاں پڑھیں گے۔ ان لائبریوں میں امسال یہ بھی کوشش کی جائے گی کہ طلباء کی نصابی کتابیں جو وہ پڑھ چکے ہیں انہیں جمع کیاجائے گا اور دوسرے غریب ضرورت مند بچوں کو وہ کتابیں دی جائیں گی۔مریم مرزا کی محلہ لائبریوں سے پانچ ہزار سے زائد بچے وابستہ ہیں۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...