Powered By Blogger

اتوار, اپریل 24, 2022

بہار میں مدارس منتظمہ کمیٹی پر نکیل ؟ -پروفیسر مشتاق احمد

بہار میں مدارس منتظمہ کمیٹی پر نکیل ؟ -پروفیسر مشتاق احمد

موبائل:9431414586
ای میل: rm.meezan@gmail.com

بہار کے مسلم اقلیت طبقے کی تعلیمی شرح کے اضافے میں مدارس کا اہم کردار ہے۔ اگر چہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بیشتر مدارس معیار ووقار کے تقاضوں کو پورے نہیں کرتے اور ایک تلخ سچائی یہ بھی ہے کہ مدارسِ اسلامیہ کی منتظمہ کمیٹی رسّہ کشی کی شکار رہی ہے۔ نتیجہ ہے کہ بہارریاستی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ، پٹنہ جو ریاست بہار کے تمام مدارس کے امتحانات اور اس کے نتائج کے عمل کو پورا کرنے کا کام کرتا ہے اس کے کام بھی مدارس کے تنازعوں کی وجہ سے متاثر ہوتے رہے ہیں اور بعض مدارس کے مقدمے ضلعی عدالت سے لے کر ہائی کورٹ پٹنہ تک پہنچے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ان تنازعوں کی وجہ سے اکثر مدرسے میں گروپ بندی پروان چڑھتی رہی ہے اور بعض مدرسوں میں تصادم کے حالات پیدا ہوتے رہے ہیں اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ اب تک ریاست بہار میں مدارس انتظامیہ کو یہ آئینی اختیار حاصل رہا ہے کہ وہ اساتذہ اور دیگر ملازمین کی بحالی کے لئے خود مختار رہی ہیں۔ دراصل اساتذہ اور ملازمین بحالیوں کو لے کر ہی بیشتر مدارس میں تنازعے پیدا ہوتے رہے ہیں اور گروپ بندی کا ماحول سازگار ہوتا رہا ہے جس کا اثر تعلیمی ماحول پر براہِ راست پڑا ہے ۔ نتیجہ ہے کہ حکومت کو اب یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ تمام تر تنازعوں کی بنیادی جڑیں اساتذہ اور ملازمین کی بحالی کے اختیار کو منتظمہ کمیٹی سے الگ کیا جائے اور یہ اختیار حکومت نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے ۔ اگر چہ یہ آئین کی رو سے مناسب نہیں ہے کہ آئین نے اقلیت طبقے کو اپنے مزاج کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور انتظام وانصرام کی آزادی دی ہے ۔ لیکن اب نئے قانون سے یہ اختیار سلب ہو جائے گا ۔ یوں تو محکمۂ تعلیم نے وضاحت کی ہے کہ حکومت کا نظریہ بالکل صاف ہے کہ مدارس کی جدید کاری کے ساتھ ساتھ اس کے انتظام وانصرام کو بھی صاف وشفاف بنایا جائے۔ مگر اقلیت طبقے کے حلق سے نیچے یہ بات اتر نہیں رہی ہے۔لہذا اس نئے قانون پر بحث ومباحثہ شروع ہو گیاہے ۔ ایک طبقہ حکومت کے فیصلے کی حمایت میں بیان بازی کر رہاہے تو دوسرا طبقہ اسے اقلیت طبقے کے ساتھ نا انصافی قرار دے رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس قانون کے نفاذ کے معاملے میں کون سا رخ اختیار کرتی ہے ۔
واضح ہو کہ ریاست بہار میں 1981ء میں بہار مدرسہ تعلیم کے لئے قانون بنایا گیا تھا اور اس کے تحت اس وقت 1945غیر سرکاری مدارس چل رہے ہیں جسے محض امتحان تک کی منظوری دی گئی ہے لیکن اسے کوئی مالی امداد نہیں دی جاتی ۔ جب کہ 814سرکاری مدارس ہیں جنہیں حکومت کی طرف سے انتظامی امور کے لئے فنڈ فراہم کئے جاتے ہیں ۔ یہا ں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ضروری ہے کہ حکومت کی جانب سے سرکاری مدارس کے اساتذہ کو صرف ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے ، وہ نہ پنشن اسکیم کے دائرے میں کبھی رہے ہیں اور نہ انہیں دیگر سرکاری مراعات حاصل ہیں ۔ان مدارس کے لئے کوئی مخصوص تعمیری فنڈ بھی نہیں ہے۔ غرض کہ انتظامیہ عوامی چندے اوردیگر عطیات کی بدولت تعمیری کام کو انجام دیتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر مدارس کے اندر اب بھی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے ۔

ریاست بہار میں دو طرح کے مدارس ہیں ۔ اول نظامیہ جسے کسی طرح کی سرکاری امداد حاصل نہیں ہے اور دوسرے عالیہ جسے سرکاری امداد فراہم ہوتی ہے۔ مدارس کے لئے حکومتِ بہار نے جو نیا حکم نامہ جاری کیا ہے وہ صرف اور صرف ان مدارس پر نافذ ہوگا جو سرکار سے فنڈ فراہم کرتے ہیں یعنی ویسے عالیہ مدارس جن کے اساتذہ کو حکومت تنخواہ دیتی ہے۔ ریاست میں تین زمرے کے مدارس ہیں ۔ اول جہاں درجہ وسطانیہ اول تا وسطانیہ چہارم تک کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ اس کے بعددرجہ میٹرک کے مساوی فوقانیہ اور درجہ بارہویں کے مساوی یعنی مولوی درجے تک کے مدارس ہیں اور تیسرے زمرے کے مدارس میں گریجویشن تا پوسٹ گریجویٹ یعنی درجہ عالم وفاضل تک کی تعلیم دی جاتی ہے۔ وسطانیہ درجے کے مدارس میں کل سات عہدے میں چار دینی تعلیم اور زبان وادب کے ساتھ دو عصری تعلیم یعنی سائنس ، انگریزی اور ہندی وغیرہ کے اساتذہ کے ساتھ ایک غیر تدریسی ملازم کی پوسٹ کو منظوری دی گئی ہے۔وہیں دوسرے زمرے کے مدارس میں بارہ پوسٹیں دی گئی ہیں ۔ ان میں سات دینیات اورزبان وادب، تین عصری تعلیم کے اساتذہ کے ساتھ دو غیرتدریسی ملازمین کے عہدے منظور کئے گئے ہیں۔ جب کہ تیسرے زمرے کے مدارس میں کل پندرہ عہدوں میں نو دینیات اور زبان وادب ، تین عصری مضامین کے اساتذہ ساتھ تین غیر تدریسی ملازمین رکھے جا سکیں گے۔ حکومت بہار نے اپنے حالیہ مکتوب نمبر-28/2016 new-396 10/o1مورخہ 19-04-2022میں اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ اب مدارس میں کوئی بھی نئی بحالیاں محکمہ تعلیم حکومتِ بہار کی تعلیمی پالیسی اور قوانین کے مطابق ہی ہو سکے گی اور ان بحالیوں میں مدارس انتظامیہ کو کوئی دخل نہیں ہوگا۔ جس طرح ریاست کے اسکولوں میں بی ۔ایڈ، ڈی ایل ایڈ یعنی ٹرینڈ اساتذہ کی بحالیاں ہوتی ہیں اسی طرح اب مدارس میںبھی نئے قوانین کے تحت ریاستی سطح پر مدارس کے لئے اسامیاں نکالی جائیں گی اور تقرری کا عمل پورا کیا جائے گااور جن مدارس کی انتظامیہ اس نئے حکم نامے پر عمل نہیں کرے گی ان کے اساتذہ کو سرکاری تنخواہ نہیں مل سکے گی۔ظاہر ہے کہ جب ریاستی سطح پر اسامیاں نکالی جائیں گی تو یہ قیدبھی ختم ہو جائے گی کہ مدارس میں غیرمسلم اساتذہ کی نہیں ہوگی۔اب تک مدارس میں دینیات کے ساتھ ساتھ انگریزی، ہندی اور سائنس کی تعلیم کے لئے بھی مسلم اساتذہ کی ہی بحالیاں ہوتی رہی ہیںلیکن اب سائنس ، انگریزی اور ہندی کے لئے یہ قید ختم ہو جائے گی۔یوں تو حکومت نے حافظ کے عہدے کے لئے ٹرینڈ ہونے کی شرط نہیں رکھی ہے لیکن اس کی بحالی بھی حکومت کے ذریعہ ہی ہوگی۔ بہار کے وزیر تعلیم وجے کمار چودھری نے اس نئے قانون کے متعلق وضاحت کی ہے کہ اس سے مسلم طبقے کو کسی بھی طرح کے اندیشے میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ نیا قانون صرف اور صرف مدرسہ تعلیم کے معیار ووقار کو بلند کرنے کے لئے بنایا گیا ہے اور بالخصوص مدارس انتظامیہ میں جو آپسی تنازعے ہیں اس کے خاتمے کے لئے یہ نیاقانون مفیدثابت ہوگااور مدارس میں تعلیمی ماحول سازگار ہو سکیں گے ۔ کیوں کہ بیشتر مدارس انتظامیہ میں رسّہ کشی کا ماحول ہے اور اس سے تعلیمی نظام متاثر ہو رہا ہے۔ وزیر تعلیم کی وضاحت کسی حد تک حقیقت پر مبنی ہے لیکن سب سے بڑاسوال یہ ہے کہ مدارس کے قیام کا جو اصل مقصد ہے کہیں نہ کہیں اس نئے قانون سے وہ مقصد فوت ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ مدارس کے قیام کا اصل مقصد دینی تعلیم کو فروغ دینا ہے اور مذہبی تشخص کو مستحکم کرنا ہے۔ عصری تعلیم کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور مدارس کے طلباء کو بھی سائنس، کمپیوٹر کے ساتھ دیگر جدید علوم کی تعلیم دینے کی پہل ہونی چاہئے اور ایک دہائی سے مرکزی حکومت وریاستی حکومت کی طرف سے مدارس کی جدید کاری کے اقدام کئے بھی جا رہے ہیں ۔ گذشتہ ایک دہائی سے سرکاری مدرسوں میں سائنس کے اساتذہ کی بحالیاں کی گئی ہیں اور دینیات کے علاوہ اردو، فارسی، عربی کے ساتھ ساتھ انگریزی، ہندی اور سائنس کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مدارس انتظامیہ نے کبھی معیاری تعلیم کے لئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار نہیں کیا ۔نتیجہ ہے کہ روایتی روش عام رہی اور مدارس کے فارغین عصری تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ لیکن حالیہ دنوں میں نظامیہ مدارس کی انتظامیہ کے ذریعہ عصری تقاضوں کی اہمیت کے مدنظر کمپیوٹر سائنس، کامرس اور دیگر پیشہ وارانہ تعلیم کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ بالخصوص مہاراشٹر، گجرات، مغربی بنگال کے مدارس کے طلباء سی بی ایس سی اوردیگرریاستی بورڈوںکے امتحان میں بھی اپنی شناخت مستحکم کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ندوۃ العلماء لکھنؤکا نصاب تو ایک زمانے سے عصری تقاضوں کو پورا کرنے والا رہاہے اور دارالعلوم دیوبند میں بھی اب دینیات کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم پر توجہ دی جا رہی ہے۔مگر ریاست بہار کے مدارس میں اس طرح کی کوششیں کم دکھائی دیتی ہیں۔ الّا ماشاء اللہ چند مدرسے ایسے ہیں جہاں کی انتظامیہ عصری علوم وفنون کی طرف توجہ دے رہی ہے ورنہ بیشتر مدارس میں داخلہ ، امتحان فارم بھرنے اور امتحان میں شامل ہونے کی روش عام رہی ہے جس سے کہیں نہ کہیں مسلم اقلیت طبقے کو نقصان پہنچا ہے ۔ اب جب کہ تعلیم شعبے میں مقابلہ جاتی مزاج عام ہوا ہے ایسے وقت میں مدارس انتظامیہ کو بھی اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ مدارس کو بھی دینیات کی تعلیم کے ساتھ طلباء کو معیاری تعلیم دے کر عصری تعلیم کا مرکز بنایا جا سکتا ہے۔

ہفتہ, اپریل 23, 2022

نتیش نے وجے اوتسو پرویر کنور سنگھ کو خراج عقیدت پیش کیا

نتیش نے وجے اوتسو پرویر کنور سنگھ کو خراج عقیدت پیش کیاپٹنہ ، 23 اپریل ۔ بابو ویر کنور سنگھ وجے اوتسو کے موقع پر وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے پٹنہ کے ویر کنور سنگھ ا?زادی پارک میں منعقدہ ریاستی تقریب میں ان کے گھڑ سواری کے مجسمے پرگلپوشی کر انہیں دلی خراج عقیدت پیش کیا۔
پروگرام کے بعد نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے کہا کہ ا?ج بابو ویر کنور سنگھ کی یاد میں وجیوتسو کی تقریبات کا اہتمام کیا گیا ہے۔ کورونا کے دور سے پہلے بہار میں بابو ویر کنور سنگھ کی جینتی کے موقع پر کئی تقریبات کا اہتمام کیا گیا تھا۔ کورونا دور کے دو سال بعد ا?ج مجھے اس پروگرام میں شرکت کا موقع ملا ہے۔
نتیش نے کہا کہ بابو ویر کنور سنگھ کے تعاون کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس ملک میں ا?زادی کی جنگ پہلی بار ان کی قیادت میں 1857 میں لڑی گئی۔ بابو ویر کنور سنگھ جدوجہد ا?زادی کے دوران ملک کے کئی حصوں میں گئے۔ اس وقت ملک کی فوج میں حصہ ڈالنے والے بہت سے لوگوں نے بغاوت کر دی تھی اور ان سب نے اس لڑائی میں بابو کنور سنگھ کا ساتھ دیا تھا۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ہم نے اس پارک میں بابو کنور سنگھ کا مجسمہ نصب کرایا ہے اور اس پارک کا نام بھی ان کے نام سے ویر کنور سنگھ ا?زادی پارک رکھا گیا ہے۔ اس پارک میں بہت زیادہ ترقی کی گئی ہے ، تاکہ یہاں ا?نے والی نئی نسل ان کے تعاون کے بارے میں معلومات حاصل کر سکے۔ یونیورسٹی پہلے ہی بابو ویر کنور سنگھ کی یاد میں بنائی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ گنگا ندی پر پل کا نام بھی ان کے نام پر رکھا گیا ہے۔ زرعی کالج بھی ان کے نام سے منسوب تھا۔ بابو کنور سنگھ کی جائے پیدائش جگدیش پور کو ترقی دی گئی ہے۔ ا?ر جے ڈی کے افطار پارٹی میں شامل ہونے کے بارے میں صحافیوں کے سوال پر وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس قسم کی افطار پارٹی میں سب کو مدعو کیا جاتا ہے۔
اس موقع پر نائب وزیر اعلیٰ تارکشور پرساد ، وزیر تعلیم و پارلیمانی امور کے وزیر وجے کمار چو دھری ، ا?بی وسائل کے ساتھ اطلاعات اور تعلقات عامہ کے وزیر سنجے کمار جھا ، خوراک اور صارفین تحفظ کے وزیر متی لیشی سنگھ ، محنت وسائل اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر جیویش کمار ، سابق ایم پی مینا سنگھ ، سابق وزیر کرشن نندن پرساد ورما ، سابق وزیر وکرم کنور ، بہار اسٹیٹ سٹیزن کونسل کے سابق جنرل سکریٹری اروند کمار اور دیگر کئی سیاسی و سماجی کارکنوں نے بابو ویر کنور سنگھ کے گھڑ سوار مجسمہ پر گلپوشی کر خراج عقیدت پیش کیا

قرآن کریم صحت کے ساتھ پڑھنا ضروریات دین سے ہے۔۔مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی

قرآن کریم صحت کے ساتھ پڑھنا ضروریات دین سے ہے۔۔مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی 
مظفرپور٢٣اپریل/(پریس ریلیز) قرآن کریم اللہ کا کلام ہے اللہ جس طرح عظیم ہے اس کا کلام بھی اسی قدر عظیم ہے۔اس کی عظمت کو سمجھنا چاہیے ۔یہ کتا ب ہدایت ہے اسلئے اس کے احکام پر عمل کرنا چاہیے ۔اس کی تلاوت کار نبوت ہے اسلئے تلاوت کا اہتمام کرنا چاہیے ۔قرآن کریم کو تر تیل سے پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے اس لیے حروف کی صفات کی رعایت اور مخارج سے ادائیگی کا خیال رکھنا چاہئے ۔اپنی مشغولیات میں تھوڑا وقت روزآنہ تلاوت قرآن کے لیے ضرور نکالنا چاہیے ۔ان خیالات کا اظہار معروف اسلامی اسکالرمفتی محمد ثناءالہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑ کھنڈ نے کیا وہ یہاں حافظہ شائستہ پروین کے ذریعہ تراویح میں ختم قرآن کی دعائیہ مجلس سے خطاب فر مار ہے تھے۔زکریا کالونی مظفرپور کی اس دعائیہ مجلس میں خواتین سے خطاب کرتے ہوۓ مفتی صاحب نے فرما یا کہ یقینا عورتوں کی مشغولیات بہت ہیں ۔انہیں صبح سویرے سے ہی شوہر اور بچوںکی خدمت میں لگ جا نا ہوتا ہے۔اس کے باوجود جب کام سے فراغت ہو، تلاوت قرآن میں مشغول ہو جانا چاہیے یہ دنیا اور آخرت دونوں کے لیے مفید ہے۔مفتی صاحب نے اس موقع سے اپنی طویل دعا میں خصوصیت کے ساتھ ملک میں امن وامان اور سلامتی کی دعا فر مائ۔

پریاگ راج میں ایک ہی خاندان کے 5 افراد کا قتل کر دیا گیا۔ تھروئی تھانہ علاقہ کے کھیوراج پور گاؤں میں بدمعاشوں نے گھر میں گھس کر راج کمار یادو سمیت خاندان کے 5 افراد کا قتل کر دیا۔ Five People Murdered in Prayagraj

پریاگ راج میں ایک ہی خاندان کے 5 افراد کا قتل کر دیا گیا۔ تھروئی تھانہ علاقہ کے کھیوراج پور گاؤں میں بدمعاشوں نے گھر میں گھس کر راج کمار یادو سمیت خاندان کے 5 افراد کا قتل کر دیا۔ Five People Murdered in Prayagraj

بےخوف شرپسندوں نے راج کمار کو اس کی بیوی، معذور بیٹی، بہو اور معصوم پوتی پر حملہ کرکے قتل کردیا۔ قتل کے بعد بدمعاشوں نے گھر کو آگ لگا دی، جس کے بعد صبح گھر سے دھواں نکلتا دیکھ کر راہگیر نے پولیس کو واقعہ کی اطلاع دی۔ پولیس نے موقع پر پہنچ کر تمام افراد کو ہسپتال بھیج دیا۔ جہاں ڈاکٹروں نے سب کو مردہ قرار دے دیا۔ Five People Murdered in Prayagraj

 پریاگ راج میں ایک ہی خاندان کے 5 افراد کا قتل

یہ بھی پڑھیں:

راج کمار یادو اپنے اہل خانہ کے ساتھ تھروئی تھانہ علاقہ میں گاراپور سے سکندرا جانے والی سڑک کے کنارے رہتے تھے۔ جہاں فجر کے وقت گھر میں گھس کر شرپسندوں نے پورے خاندان کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ بدمعاشوں نے راج کمار یادو، ان کی بیوی کُسم دیوی، بہو سویتا، معذور بیٹی منیشا اور معصوم پوتی ساکشی کا قتل کر دیا۔ منیشا معذور تھی اور جب پولیس موقع پر پہنچی تو اس کے کپڑے بکھرے ہوئے تھے جس کی وجہ سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اسے قتل کرنے سے پہلے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ واقعہ کی اطلاع پر پہنچی پولیس معاملے کی جانچ کررہی ہے۔ فی الحال قتل کے پیچھے کیا وجہ ہے اس کا پتہ لگایا جا رہا ہے۔

زکوٰۃ: اسلام کا اہم رکنمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ و جھارکھنڈ

زکوٰۃ: اسلام کا اہم رکن
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ و جھارکھنڈ
اسلام کا نظام معیشت عدل وانصاف پر مبنی ایسا کامل ومکمل نظام ہے، جس کی نظیر دنیا کے کسی قدیم وجدید نظام میں نہیں ملتی۔ یہ نظام خشک وبے جان نظریات پر مبنی نہیں؛ بلکہ اس کی جڑیں دل وجذبات سے لے کر عمل تک اور معاشرہ کی نچلی سطح سے لے کر اوپری سطح تک پیوست ہیں، جس میں جبر واستبداد اور ظلم وجورکی کوئی گنجائش نہیں، اسلام پہلے انسانی زندگی پر احکم الحاکمین کا دبدبہ قائم کرتا ہے اور اس کے احسانات یا د دلاتا ہے، اور انسانی ذہنوں میں یہ راسخ کرتا ہے کہ تمہارے پاس جو مال ودولت ہے وہ سب رب العالمین کا عطیہ ہے،یہ مال در حقیقت اللہ تعالی کا ہے جو بطور امانت تمہارے سپرد کیا گیا: (وَآتُوْ ھُمْ مِنْ مَالِ اللّٰہِ الَّذِیْ اٰتٰکُمْ) (النور:۳۳) اور اللہ کے ا س مال میں سے انہیں دو جواس نے تمہیں عطا کیا؛لیکن  اسلام انسانوں کو اپنے مال ومتاع کی مالکیت سے کمیونزم کی طرح محروم بھی نہیں کرتا ہے،اسی لئے اللہ تعالی نے مال ودولت کا انتساب بار بار انسان کی طرف کیا ہے؛ تاکہ انسان کی خود اعتمادی اور جذبہئ مسابقت نہ صرف یہ کہ محفوظ رہے بلکہ پر وان چڑھتا رہے، ارشاد باری ہے:(اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ أمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ) (البقرہ:۷۶۲) جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔
اسلا م کے عادلانہ نظام معیشت کے بہت سارے حصے ہیں؛لیکن ان میں اہم ترین شعبہ زکوٰۃ ہے یہ اسلام کا تیسرا رکن اوراہم ترین فریضہ ہے، اس کی اہمیت کااندازہ محض اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں ایک دوجگہ نہیں بلکہ ۲۸ مقامات پر نماز کے ساتھ زکوٰۃ کا ذکر آیا ہے،(أقِیْمُوْ االصَّلوٰۃَ وآتُو الزَّکَوٰۃ) سے پورا قرآن بھر ہوا ہے۔ قرآن کریم میں مسلمانوں کے جو اوصاف بیان کئے گئے ہیں، ان میں (یُوْتُوْنَ الزَّکَوٰۃَ) بار بار آیا ہے۔ اس موضوع پر احادیث حد تواتر تک پہنچ چکی ہیں، اور امت کااس پر اجماع ہے کہ زکوٰۃ نماز کے ساتھ لازم وملزوم ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ دین کاخلاصہ حقوق اللہ او ر حقوق العباد کی ادائیگی ہے، پہلے کا عنوان نماز ہے او ردوسرے کا زکوٰۃ۔ ان کی بھر پورانداز میں تکمیل کے بعد ہی اقامت دین کا تصور کیا جا سکتا ہے؛ بلکہ ایک روایت میں یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ زکوٰ ۃ نہ دینے والوں کی نماز بھی مقبول نہیں ہوتی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:(لا یقبل اللہ تعالی صلوٰۃ رجل لا یودی الزکوٰۃ حتی یجمعھما فإن اللہ تعالی قد جمعھما فلا تفرقوا بینھما (کنز العمال: ۳/۵۲)کہ اللہ تعالی اس شخص کی نماز قبول نہیں کرتا جو زکوٰۃ ادا نہیں کر تا، یہاں تک کہ وہ ان دونوں کو جمع کرے یعنی نماز اور زکوٰۃ دونوں ادا کرے، اس لئے کہ اللہ تعالی نے نماز اور زکوٰۃ کو ایک ساتھ بیان فرمایا ہے۔
زکوٰۃ کا مقصد یہ ہے کہ زکوٰۃ دینے والا اپنے نفس کو بخل، خود غرضی، انانیت، فقراء کی حق تلفی اور قلب کی قساوت سے پاک وصاف کرکے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: (خُذْ مِنْ اَئمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِِّرُھُمْ وَتُزَکِّیْھِمْ بِھَا) (توبہ: ۳۰۱) آپ ان کے مالوں سے صدقہ لے لیجئے آپ اس کے ذریعہ انہیں پاک وصاف کردیں گے۔ ا سکا مقصد یہ بھی ہے کہ فقراء وضعفاء اور حاجت مندوں کی حاجت رسی کی جائے، جس کی وجہ سے پاکی ونورانیت اور خیر و برکت کاظہور ہوگا۔(مَنْ ذَاالَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضَاً حَسَناً فَیُضَاعِفُہُ لَہُ اَضْعَافَاً کَثِیْرَۃً) (البقرۃ: ۵۴۲) کون شخص ہے جو اللہ کے لئے قرض حسن (زکوٰۃ یا صدقات) دیتا ہے؛ تا کہ اللہ تعالی اس کو اس شخص کے لئے بہت زیادہ بڑھا ئے ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہر شخص کے پاس اپنی لازمی ضرریات کی تکمیل کے لئے کچھ نہ کچھ مال ہو۔ معاشرے میں کوئی بھوکا یا ننگا نہ رہے۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (إن اللہ فرض علی الأغنیاء فی أموالھم بقدر ما یکفی فقرائھم وإن جاعوا وعرووجھدو فیمنع الأغنیاء وحق علی اللہ أن یحاسبھم یوم القیٰمۃویعذبھم علیہ)۔ کہ اللہ تعالی نے مالدارلوگوں پر انکے مال میں اس انداز سے زکوٰۃ فرض قرار دیا ہے جو فقیروں کے لئے کافی ہوجائے، اب اگر فقراء، بھوکے، ننگے رہتے ہیں یا تکلیف میں رہتے ہیں تو یہ مالدار لوگوں کے زکوٰۃ نہیں ادا کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالی کا حق ہے کہ وہ قیامت کے دن ان سے محاسبہ کرے اور زکوٰۃنہیں ادا کرنے پر عذاب دے۔
زکوٰۃ کے جو مقاصد ومصالح اور اس کے فوائد ذکر کئے گئے، ان کا حصول اسی صورت میں ممکن ہے جب اس کی وصولیابی اور تقسیم کیلئے ایک جماعتی نظام موجود ہو، اس لئے کہ فرضیت زکوٰۃکے احکام و مصالح کی عمارت اسی پر کھڑی ہے۔ جس طرح نماز، روزہ اور حج میں اجتماعیت کی روح کار فرما ہے کہ نماز کو جماعت کیساتھ ادا کرنا ہے، روزہ کی فرضیت پوری دنیا کے مسلمانوں پر ایک ہی مہینے میں ہے، مناسک حج کی ادائیگی بھیڑ وازدہام، دشواری وپریشانی کے باوجود چند مخصوص ایام ہی میں کرنی ہے،
 ٹھیک اسی طرح زکوٰۃ بھی ایک اہم ترین عبادت ہے اورا س کیلئے بھی اسلام نے ایک اجتماعی طریقہ کار مقرر کیا ہے کہ امیر کے تحت بیت المال قائم ہو، وہ لوگوں سے زکوٰۃ وصول کرے اور مستحقین تک با عزت طریقے پر پہنچا ئے۔ جیساکہ اللہ تعالی نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتے ہوئے فرمایا: (خُذْ مِنْ اَمْوالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُ ھُمْ وَتُزَکِّیْھِمْ بِھا) (التوبہ: ۳۰۱)کہ اے پیغمبر آپ مسلمانوں کے مالوں سے صدقہ وصول کیجئے اس کے ذریعہ ان کو پاک اور مزکی بنائیے۔ یہ آیت کریمہ واضح طور پر اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیاگیا ہے کہ آپ صاحب نصا ب مالداروں سے زکوٰہ وصول کیجئے؛ یعنی زکوٰۃ کی وصولی امام کے ذریعہ ہو امام وامیر کے تحت حسب مصالح زکوٰۃ کی رقم مصارف زکوٰۃ میں صرف ہو اور ”خذ“ میں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کیا گیا ہے وہ ”خطاب مواجہہ“ ہے چناں چہ علامہ نووی شارح مسلم تحریر فرماتے ہیں:(وخطااب مواجھۃ للنبی صلی  اللہ علیہ وسلم وھو جمیع امتہ فی المراد سواء) (نووی:۱/۸۳)اور خذ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جو خطاب ہے وہ ”خطاب مواجہہ‘‘ ہے، اسلئے حکم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت دونوں شامل ہیں۔
زکوٰۃ کے اجتماعی نظام سے زکوٰۃ کی وصولی زیادہ سے زیادہ مقدارمیں ہو سکے گی۔ اور زیادہ سے زیادہ ضرورت مند افراد کا تعاون ممکن ہو سکے گا۔ لوگوں کا تعاون انکی ضرورت کے لحاظ سے ہو گا۔ محتاج اور ضرورت مند لوگ سوال کرنے کی ذلت سے بچ سکیں گے۔ زکوٰۃ کی رقم کوڑیوں میں بٹنے کے بجائے حسب ضرورت لوگوں کو ایک جگہ سے مل جائے گی، ان لوگوں تک بھی زکوٰۃ پہنچ جائے گی جن کی زبانیں حیا وخوددار ی کی و جہ سے بند رہتی ہیں، انفرادی زکوٰۃ کی مقدار، تقسیم کے بعد اتنی کم ہو جاتی ہے کہ وہ کسی غریب شخص کو اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں کر سکتی،
زکوٰۃ کا اجتماعی نظام اس ضرورت کو پوراکر تا ہے اور گدا گری کا خاتمہ کرتا ہے۔
حجۃ الاسلام ابو بکر جصاص رازی ؒ اپنی کتاب احکام القرآن میں لکھتے ہیں:”خُذْمِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً“کی آیت اس امر پردلالت کرتی ہے کہ زکوٰۃ کی وصولی کا حق امام کو ہے اور بلا شبہ جن پر زکوٰۃ فرض ہے اگر وہ خود مساکین کو دے دیں گے تو یہ جائز نہ ہوگا، اس لئے کہ زکوٰۃ کی وصولی کا حق امام کے لئے ثابت وقائم ہے۔ لہذا صاحب زکوٰۃکو امام کے اس حق کو ساقط کرنے کا کوئی اختیار نہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانوروں کی زکوٰۃ کے لئے عاملین کو بھیجا کرتے تھے اور حکم فرماتے تھے کہ انکی زکوٰۃ ان کی جگہ پر جا کر لیا کریں اور یہی حکم پھلوں کی زکوٰۃ کا ہے؛ بقیہ رہ گئی سونے، چاندی، در اہم ودنانیر کی زکوٰۃ تو یہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمر، حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کی خدمت میں داخل کی جاتی تھی۔ پھر حضرت عثمان غنی نے ایک مرتبہ خطبہ دیا کہ یہ زکوٰۃ کا مہینہ ہے، جس پر قرض ہو وہ اپنے قرض کو ادا کرے پھر باقی مال کی زکوٰۃ ادا کرے، حضرت عثمان غنیؓ نے ارباب مال کو اختیار دیا کہ وہ زکوٰۃ مسکینوں کو ادا کریں۔ (احکام القرآن: ۳/۵۵۱) علامہ ابن الہمام حنفی لکھتے ہیں کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپکے دونوں خلیفہ اس پر قائم رہے۔ جب حضرت عثمان ؓکا زمانہ آیا اور لوگوں کا تغیر ظاہر ہونے لگا تو انہوں نے خیال کیا کہ لوگوں کے پوشیدہ مالوں کا خفیہ طریقہ سے پتہ لگا نا مناسب نہیں، اس لئے انہوں نے اس مال کی ادائیگی ان کے مالکان کے سپرد کردی اور صحابہ نے بھی اس مسئلہ میں ان سے کوئی اختلاف نہیں کیا۔ اس کی حیثیت امام کے حقِ وصول کو باقاعدہ ساقط کر دینے اور گزشتہ حکم کو منسوخ کر دینے کی نہیں تھی۔ (فتح القدیر: ۱/۱۱۳)
 اس تفصیل سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ زکوٰۃ کا مزاج اور شرعی تقاضہ ہے کہ وہ بیت المال میں جمع کی جائے اوران خلفاء وامراء کے سپرد کی جائے جو اس کے منتظم وذمہ دار ہیں۔ چناں چہ اسلامی خلافت اپنے درجات کے تفاوت کے باوجود برابر زکوٰۃ کی تحصیل اور اس کی تقسیم کا عمل انجام دیتی رہی۔ خلافت عباسیہ کے آخری دور تک یہ صورت حال بر قرار رہی بالآخر آہستہ آہستہ آنے والی مختلف حکومتوں نے اس نظام کی پابندی کو ختم کردیا، اس کے نتیجے میں تمام اسلامی ملکوں میں سخت انتشار بر پا ہوا، مسلمان شریعت اسلامی کی بر کتوں سے محروم ہوتے چلے گئے اور اسی کی سزا ہے کہ آج انکو ظالمانہ سرمایہ داری، پُر فریب سوشلزم اور انتہا پسندانہ وغیر متوازن کمیو نزم کا مزا چکھنا پڑرہا ہے۔
یہ ایک بڑی سچائی ہے کہ اسلام کا کامل تصور بغیر جماعت اور امارت کے ممکن نہیں، زندگی کے ہر شعبہ میں ایک مسلمان کے لیے اجتماعیت سے محرومی اور انتشار میں مبتلا رہنا بہت بڑا نقصان اور دینی ودنیوی خسران کا سبب ہے۔ اسی لئے حضرت عمر ؓ نے فرمایا: (لا اسلام الا بجماعۃ ولا جماعۃ إلا بامارۃ) جب جماعت اور امارت قائم ہوگی تو ان شاء اللہ پوری امت  پراللہ کی خاص رحمت کا نزول ہوگا، ارشاد نبوی ہے: ید اللہ علی الجماعۃ۔
لہذا وہ علاقے اور خطے جہاں اسلامی نظام امارت قائم نہیں، وہاں کے مسلمانوں کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ نظام امارت قائم کریں اور اپنے میں سے کسی ایک لائق شخص کو امیر منتخب کرلیں، جیسا کہ علامہ ابن نجیم مصری نے لکھا ہے:(اما فی بلاد علیھا ولاۃ الکفار فیجوز للمسلمین إقامۃالجمعۃ والأعیاد ویصیر القاضی قاضیا بتراضی المسلمین ویجب علیھم طلب وال مسلم)۔
جب امارت شرعیہ قائم ہو جائے جیسا کہ الحمد للہ صوبہ بہار، ڈڑیسہ وجھارکھنڈ وغیرہ میں قائم ہے تو اس کے تحت فوری طور پر بیت المال کا شعبہ قائم کیا جائے، جس میں کام کرنے والے عاملین کی ایک بڑی تعداد ہو۔ وہ لوگوں سے زکوٰۃ اور دیگر صدقات واجبہ مثلا عشرہ وغیرہ وصول کریں اوربیت المال کے ذریعہ اسے اسکے صحیح مصارف میں خرچ کیا جائے۔
زکوٰۃ کی تقسیم کہاں کی جائے:
زکوٰۃ کا مصرف کیا ہے؟ اور زکوٰۃ کی تقسیم کن لوگوں کے مابین ہونی چاہئے اس کیلئے خود اللہ تعالی نے سورہ برأۃ میں واضح حکم نازل فرمایا:ارشاد ہے(اِنَّمَا الَّصَدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاکِیْنَ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْھَا وَالمُوَئلَّفَۃِ قُلُوْبِھِمْ وَفِیْ الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیْنَ وَفِی سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْن السَّبِیْل فَرِیْضَۃً مِنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَلِیْمُ‘ حَکِیْمُ‘) (توبہ: ۰۶) صدقات واجبہ تو صرف غریبوں، محتاجوں اوران کارکنوں کے لئے ہیں،جواس کام پر مقرر ہیں، نیز ان کاجنکی دلجوئی مقصود ہے، اور صدقات کو صرف کیاجائے گردنوں کے چھڑانے میں اور قرض داروں کے قرضہ ادا کرنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کی امدادمیں،یہ فرض ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ بڑا علم والا، بڑاحکمت والا ہے۔
حاصل یہ ہے کہ صدقات کرنے والے کو اختیار نہیں کہ اپنی پسندیدگی سے اس کیلئے مصرف تجویز کرے اور اس میں خرچ کرے؛ بلکہ اللہ تعالی نے اسکے لئے خود مصرف مقرر فرمادیا ہے اور طے فرمادیا ہے کہ ان مدات کے سوا ان کو دوسری جگہ خرچ نہیں کیا جاسکتاہے۔ مذکورہ آیت میں کل آٹھ مصارف بیان ہوئے، یہ منصوص مصارف، زکوٰۃ کے حکم کے ساتھ دائمی ہیں؛ البتہ مؤلفۃ القلوب کے بارے میں اکثر علماء، ائمہ اور فقہاء کا خیال ہے کہ اسلام کی اشاعت اور غلبہ کی وجہ سے اب ان کے حصہ کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اس سلسلے میں قاضی ابو بکر ابن العربی وغیرہ کی رائے یہ ہے کہ اگر اسلام کو غلبہ واقتدار حاصل ہو تو ضرورت نہیں، لیکن اگر اس کی ضرورت محسوس کی جائے تو ان کو اسی طرح دینا چاہئے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیتے تھے۔۔ قاضی ابو بکر کی اس رائے کو علامہ مناظر احسن گیلانیؒ، مفکر اسلام مولاناابو الحسن علی ندویؒ اور دیگر علماء نے پسند فرمایا ہے۔
مدارس اسلامیہ میں زیرتعلیم طلبہ بالاتفاق زکوٰۃ کا مصرف ہیں، بعض علماء انہیں ابن سبیل میں اور بعض انہیں فی سبیل اللہ یا فقراء ومساکین میں داخل مانتے ہیں۔ ان طلبہ کے لئے ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے مدارس اسلامیہ کی طرف سے زکوٰۃ کی وصولی کا انتظام ہو تا ہے، اور زکوٰۃ کی وصولی کا کام مدرسہ کے اساتذہ،سفر اء اور مبلغین انجام دیتے ہیں؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ زکوٰۃ کی رقم کا نو ے فیصد حصہ مدارس پر خرچ ہوتا ہے اور مدارس کا اتنا عظیم ڈھانچہ زکوٰۃ وصدقات کی رقم پرہی اصلاً قائم ہے۔ اور بلاشبہ یہ مدارس دین کے مختلف میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں؛لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مدارس کا منتشر طور پر زکوٰۃ وصول کرنا اور اس کے لئے نت نئے طریقے اختیار کرنا، کمیشن وغیرہ پر چندہ کروانا، شریعت اسلامیہ کی روح سے ہم آہنگ نہیں ہے؛ لہذا جن صوبوں میں امارت شرعیہ کا نظام قائم ہے اور اس کے تحت بیت المال ہے۔ ان صوبوں کے مدارس کیلئے لازم ہے کہ وہ اپناانسلاک بیت المال سے کریں،اگر یہ ممکن نہ ہو تو امیر شریعت کی طرف سے انہیں باضابطہ رقم کی وصولی کی اجازت دی جائے اور وہ اس کی آمد وخرچ کاحساب بیت المال میں داخل کریں، اگر ایسی صورت ہوجائے تو زکوٰۃ وصول کرنے والے سفراء ومحصلین ”عاملین علیھا“ کے مصرف میں داخل ہو سکتے ہیں۔ لیکن کمیشن پر چندہ کرنا بہرصورت ناجائز رہے گا۔ جن صوبوں میں نظام امارت قائم نہیں ہے، ان میں اس نظام کو قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، جب تک یہ نظام قائم نہ ہوجائے ارباب مدارس اس علاقے کے اربابِ حل وعقد کے مشورے سے اس کام کوکر سکتے ہیں، یا اس کے لئے کوئی انجمن، تنظیم وغیرہ بنائی جا سکتی ہے جو صالح وبہترین افراد پر مشتمل ہو اور زکوٰۃ کو اس کے صحیح مصرف میں خرچ کر سکے۔ آج مختلف ناموں سے غیر معتبر تنظیموں کے قیام کا ایک فیشن ساچل پڑا ہے، جو اپنے اثر ورسوخ کا استعمال کر کے امراء سے رقمیں حاصل کرتے ہیں اور من مانے طور پر جائز وناجائز مصارف میں اسے خرچ کرتے ہیں۔ ایسی انجمن، تنظیم اور فاؤنڈیشن کی قطعا حو صلہ افزائی نہیں کی جاسکتی۔ ورنہ زکوٰۃ کے اجتماعی نظام کی جو روح ہے، وہ ختم ہو کر رہ جائے گی اور وہ انفرادی نظام کی طرح ہو جائے گا۔

جمعہ, اپریل 22, 2022

دہلی: جہانگیر پوری میں تشدد کے بعد جمعہ کی نماز پرامن ماحول میں ادا کی گئی

دہلی: جہانگیر پوری میں تشدد کے بعد جمعہ کی نماز پرامن ماحول میں ادا کی گئی

ابوشحمہ انصاری، نئی دہلی

خوف ودہشت کے ماحول کے دوران جہانگیرپوری میں تشدد کے بعد آج پہلی جمعہ کی نماز پرامن ماحول میں اداکی گئی، نماز جمعہ کے حوالے سے پولیس چوکس رہی، اس دوران مسجد کا مین دروازہ بند رہا اور اندر والے دروازے سے لوگ مسجد میں داخل ہوئے۔

اس کے ساتھ ہی علاقے میں کسی بھی قسم کی سرگرمی سے نمٹنے کے لیے مناسب تعداد میں سیکیورٹی اہلکار بھی تعینات کیے گئے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے دورے سے قبل جہانگیرپوری میں سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ دراصل جہانگیر پوری میں فسادات کے بعد علاقے کی سیکوریٹی اور نگرانی کے نظام کو مضبوط بنانے پر زور دیا جا رہا ہے۔

بدھ کو اس علاقے میں غیر قانونی تعمیرات بتا مکانات پر بلڈوزر چلا گیا۔ کل، سپریم کورٹ نے جہانگیر پوری میں شمالی دہلی میونسپل کارپوریشن (این ڈی ایم سی) کی طرف سے تجاوزات پر بلڈوزر چلانے کی ہدایت کو اگلے حکم تک بڑھا دیا۔

جانئے کیا ہے رمضان کے آخری عشرے میں حرمین میں معتکفین کے لئے انتظامات

جانئے کیا ہے رمضان کے آخری عشرے میں حرمین میں معتکفین کے لئے انتظاماتحرمین شریفین انتظامیہ کا کہنا ہے کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنے والوں کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔ مسجد نبوی میں اعتکاف کرنے والوں کے لیے دروازے مخصوص کیے گئے ہیں۔
عاجل ویب سائٹ کے مطابق معاون سیکریٹری برائے امن و سلامتی سعود الصاعدی نے کہا کہ اعتکاف کرنے والوں کے لیے جگہیں مختص ہیں اور ان کی نگرانی کے لیے متعدد انسپکٹرز بھی تعینات کیے ہیں۔
الصاعدی نے مزید بتایا کہ مسجد نبوی میں زائرین کی آمدورفت کے لیے دروازوں کی تعداد بڑھا دی گئی ہے۔
علاوہ ازیں الیکٹرانک زینوں کی تعداد میں بھی اضافہ کیا گیا ہے جبکہ اس بات کا بھی اطمینان کرلیا گیا ہے کہ ایمرجنسی گیٹ درست حالت میں ہے اور ضرورت پڑنے پر استعمال کیے جاسکتے ہیں۔
اعتکاف کرنے والوں کو خصوصی لاکرز فراہم کیے گئے ہیں جبکہ انہیں افطاری اورسحری بھی فراہم کی جا رہی ہے۔
معتکفین کے لیے مختلف زبانوں میں دینی کتب بھی فراہم کی جارہی ہیں تاکہ وہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت عبادت میں گزار سکیں۔
الصاعدی نے بتایا کہ رمضان کے آخری عشرے میں مسجد نبوی میں زائرین کو سونے کی اجازت نہیں ہے۔ اس حوالے سے کی جانے والی خلاف ورزیاں روکی جائیں گی۔ اس مقصد کے لیے ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔
الصاعدی نے بتایا کہ تہجد کے دوران نمازیوں کی آمدورفت میں سہولت کے لیے پارکنگ لاٹس کی نگراں کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے۔
یاد رہے کہ اس سال اعتکاف کرنے والوں کے لیے مسجد نبوی کی چھت پر انتظام کیا گیا ہے جہاں مرد حضرات اعتکاف کریں گے اور اس کے نیچے والے حصے میں خواتین کے لیے اعتکاف کی جگہ مقرر کی گئی ہے

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...