پیر, مئی 02, 2022
*عید کی نماز عیدگاہ میں*

اتوار, مئی 01, 2022
دارالعلوم دیوبندمیں داخلہ قوانین ہوئے سخت ، اب بغیرپولس ویری فکیشن کے نہیں مل پائے گاایڈمیشن دیوبند ( ایجنسی )
دی وائر ہندی کی رپورٹ کے مطابق دارالعلوم کے نائب مہتمم مولانا عبدالخالق مدراسی نے جمعہ کو ایک بیان میں کہا کہ داخلہ لینے والے طلباء کو آدھار کارڈ کے ساتھ اپنے شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی جمع کرانی ہوگی، جس کی تصدیق مقامی انٹیلی جنس یونٹ (LIU) اور دیگر سرکاری ایجنسیوں سے کرائے جائے گی اور شناختی کارڈ غلط پائے جانے پرنہ صرف دارالعلوم دیوبند سے نکال دیا جائے گا بلکہ قانونی کارروائی بھی کی جائے گی۔انہوں نے بتایا کہ جو طلباء اس سال دارالعلوم میں داخلہ لینا چاہتے ہیں انہیں پچھلے مدرسہ کا سرٹیفکیٹ، وہاں سے حاصل کردہ مارک شیٹ اور آدھار کارڈ، اپنا اور اپنے والد کا موبائل نمبر دینا ہوگا۔
نائب مہتمم نے کہا ہے کہ ملک کے جموں و کشمیر، مغربی بنگال، منی پور، تریپورہ اور آسام وغیرہ کے طلباء کو اپنے ساتھ رہائشی سرٹیفکیٹ اور حلف نامہ لانا ہوگا، اس کے بغیر داخلہ کا عمل مکمل نہیں ہو گا۔ اور اس سلسلے میں بھی کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ جو طالب علم مطلوبہ دستاویزات جمع نہیں کرا سکتا ہے وہ داخلے کے لیے دارالعلوم دیوبند نہ آئے کیونکہ ایسے طلبہ کو داخلہ نہیں دیا جائے گا۔
ماہرین کے مطابق 1866 میں قائم ہونے والے دارالعلوم دیوبند کے قیام کا مقصد مسلمانوں کو اسلامی تعلیم فراہم کرنا ہے۔ دارالعلوم کی بنیاد قاسم نانوتوی، فضل الرحمان عثمانی، سید محمد عابد اور دیگر نے رکھی تھی

ہفتہ, اپریل 30, 2022
سپریم کورٹ نے دیا عید کا تحفہ : شہریت کا ثبوت نہ ہونے کے باوجود رہائی
سپریم کورٹ نے دیا عید کا تحفہ : شہریت کا ثبوت نہ ہونے کے باوجود رہائی
عید سے عین قبل عید ۔ زندگی کی سب سے بڑی عید ۔ جی ہاں! ایسا ہی کچھ ہوا 63 سالہ محمد قمر کے ساتھ ۔جن کو ہندوستان کی سپریم کورٹ سے عید پر آزادی کا تحفہ اور ممکنہ طور پر ہندوستانی شہریت ملی ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ ثابت کرنے میں ناکامی کے باوجود کہ ان کی پیدائش ہندوستان کی ہے انہیں آزاد کرنے کا حکم دیا ہے۔ جس نے اس بزرگ کو کئی دہائیوں سے جاری آزمائش کو ختم کردیا ہے۔ جس کی وجہ سے انہیں تین سال سے زائد عرصے تک حراستی مرکز میں گزارنا پڑا تھا۔
خیال رہے کہ محمد قمرگذشتہ کئی سالوں سے جیل میں بند ہیں۔ وہ برسوں سے یہ ثابت کرنے میں ناکام رہےکہ پیدائشی طور پرایک ہندوستانی شہری ہیں، کیوں کہ ان کے پاسئی کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے۔ شہریت کا کوئی دستیاویزی ثبوت نہ ہونے کے سبب انہیں جیل میں رہنا پڑا۔ محمد قمر عرف محمد کامل کی یہ ایک المناک کہانی ہے۔ وہ پانچ بڑے بچوں کے باپ ہیں، جنہیں اگست 2011 میں میرٹھ سے ہندوستان میں زیادہ دیر قیام کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ان کے پاس اپنی پیدائش اور شہریت کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ جس کی انہیں سزا ملی اور انہوں نے تقریبا ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سلاخوں کے پیچھے گزار دیا۔
محمد قمر یوپی کے شہر میرٹھ میں پیدا ہوئے اور جب وہ سات آٹھ سال کے تھے تو اپنی والدہ کے ساتھ پاکستان کے سفر پر چلے گئے۔ ان کی والدہ کا وہیں انتقال ہو گیا اور وہ اپنے رشتہ داروں کی دیکھ بھال میں رہنےلگے۔ جنہوں نے ایک پاکستانی کے طور پر ان کی پرورش کی۔ تاہم کچھ سالوں کے بعد وہ میرٹھ میں واقع اپنےگھر پر واپس لوٹ آئے۔ یہاں انہوں نے ایک مقامی لڑکی سے شادی کی اور ویزا کی میعاد ختم ہونے یا اپنی ہندوستانی شہریت کو دوبارہ حاصل کرنے کی کم از کم پرواہ کے بغیر وہ زندگی گزارنے لگے۔
حکومت پاکستان نے اس کی ملکیت سےانکارکردیا حالانکہ وہ ایک درست پاکستانی پاسپورٹ کے ساتھ ہندوستان میں داخل ہوئے تھے اور ان کے پاس کوئی بھی کاغذی ثبوت نہیں تھا۔ محمد قمر کا کہنا تھا کہ اس کے ہندوستانی پاسپورٹ کو اس کے پاکستانی رشتہ داروں نے کسی کام کے نہ ہونے کے باعث ضائع کردیا۔ گذشتہ سماعت پر سپریم کورٹ نے مرکز سے پوچھا تھا کہ آپ اس شخص کو کب تک حراست میں رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔جب کہ اس نے اپنی سچائی کو تسلیم کرلیا ہے اور اس نے اپنا پاکستانی پاسپورٹ بھی ضائع کر دیا ہے۔
جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور ہیما کوہلی کی بنچ نے محمد قمر کو دہلی کے لامپور حراستی مرکز سے رہا کرنے کا حکم دیا جہاں وہ 2015 سے غیر ملکی قانون کے تحت حراست میں ہیں جب اس نے اپنی ساڑھے تین سال کی سزا پوری کی تھی۔ جمعہ کو سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا کہ چوں کہ مرکز اور یوپی حکومت اسے سیکورٹی کے لیے خطرہ نہیں سمجھتی اور ان کی شادی ہندوستان سے ہوئی تھی اور اس کے پانچ بچے ہیں۔ جو سبھی ہندوستانی ہیں۔اس لیے 63 سالہ بوڑھے کو تلاش کیا جا سکتا ہے۔
اس بڑھاپے کی عمر میں ان کچھ مدد کی جائے۔ خاص طور پر جب پاکستانی ہائی کمیشن کونسلر کو دو بار رسائی دینے کے باوجود ان کی پاکستانی شہریت کی تصدیق نہیں کر رہا ہے۔ قمر عرف محمد کامل نے عدالت کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ وہ ہندوستانی شہریت حاصل کرنے کا خواہشمند ہے اور اس کے لیے درخواست دینے کے قابل ہونے کے لیے اسے حراست سے رہا کیا جانا چاہیے۔ درخواست گزاروں کے مطابق محمد قمر کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں۔ محمد قمر1958 میں میرٹھ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ (قمر) اپنی ماں کے ساتھ 1967-1968 میں تقریباً 7-8 سال کے بچے کے طور پر ہندوستان سے پاکستان گئے تھے تاکہ وہاں اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لیے ویزہ پر چلے گئے تھے۔ تاہم، ان کی والدہ کا وہیں انتقال ہو گیا، اور وہ اپنے رشتہ داروں کی دیکھ بھال میں پاکستان میں ہی رہنے۔
یہ باتیں کہ سپریم کورٹ نے میں دائر کی گئی ہیبیس کارپس کی درخواست میں کہی گئی ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ قمر بالغ ہونے پر 1989-1990 میں پاکستانی پاسپورٹ پر ہندوستان واپس آئے اور میرٹھ کی شہناز بیگم سے شادی کرکے وہیں سکونت اختیار کر لی۔ محمد قمرکواندازہ نہیں تھا کہ اسے ویزا میں توسیع کی ضرورت ہے۔
اسے پولیس نے گرفتار کیا اور عدالت نے اسے پاکستان کا شہری اور غیر قانونی طور پرہندوستان میں رہنے کا مجرم قرار دیا۔ اس نے6 فروری 2015 کو اپنی تین سال اور چھ ماہ کی سزا مکمل کی اور اس کے بعد محمد قمر کو نئی دہلی کے نریلا میں لام پور کے حراستی مرکز میں بھیج دیا گیا۔
تاہم پاکستان کی حکومت نے ان کی ملک بدری کو قبول نہیں کیا اور وہ مرکز میں بدستور رہے۔ اسے وہاں رہتے ہوئے سات سال گزر چکے ہیں۔ درخواست گزاروں نے قبول کیا کہ ان کے والد کے پاس کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہو کہ وہ اپنی والدہ کے ساتھ 1967-68 کے قریب پاکستان گئے تھے اور ان کی والدہ کا وہیں انتقال ہو گیا تھا۔ اس کے باوجود غیر متنازعہ حقیقت یہ ہے کہ وہ پاکستانی پاسپورٹ پر 1989-90 کے آس پاس ہندوستان آئے تھےاور تعلیم کی کمی کی وجہ سے اپنے ویزے میں توسیع نہیں کی اور بعد ازاں یہاں شادی کرلی۔
محمد قمر کے بچوں نے سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ ان کے والد کو رہا کیا جائے تاکہ وہ ہندوستانی شہریت کے لیے درخواست دے سکیں کیونکہ ان کے پانچ بچے ہندوستانی شہری ہیں۔

جمعہ, اپریل 29, 2022
رمضان کاآخری عشرہ____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

جمعرات, اپریل 28, 2022
مذہبی مقامات سے غیر قانونی لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کے لیے بارہ بنکی انتظامیہ اور پولیس کی مشترکہ ٹیم کی جانب سے شروع کی گئی مہم
مذہبی مقامات سے غیر قانونی لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کے لیے بارہ بنکی انتظامیہ اور پولیس کی مشترکہ ٹیم کی جانب سے شروع کی گئی مہم
ابوشحمہ انصاری، بارہ بنکی
انتظامیہ اور پولیس کی مشترکہ ٹیم مذہبی مقامات سے غیر قانونی لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کی مہم چلا رہی ہے، جس میں مذہبی مقامات پر آواز کی حد کے اصولوں کی عدم تعمیل/معیار کے خلاف چلائے جانے والے لاؤڈ اسپیکر مذہبی مقامات سے ہٹاے جا رہے ہیں۔
اس سلسلے میں بارہ بنکی ضلع میں انتظامیہ اور پولیس کی مشترکہ ٹیم کے ذریعہ کل 614 غیر قانونی لاؤڈ اسپیکر ہٹائے گئے اور 207 لاؤڈ اسپیکر کم کیے گئے اور 571 لوگوں کو نوٹس بھیجے گئے۔

پاکستان میں نئی حکومت___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

اترپردیش : ملحقہ مدارس کی جانچ کاحکم ، بڑے پیمانے پرتبدیلیوں کی تیاری
ریاستی حکومت یوپی میں مدارس کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے جا رہی ہے۔ حکومت نے مدرسہ ماڈرنائزیشن اسکیم چلانے والے مدارس کی جانچ کا حکم دیا ہے۔ حکومت نے عمارت، زمین، کرایہ نامہ، اساتذہ، طلباء وغیرہ کی موقع پر جانچ کے لیے ایک کمیٹی بنانے کو کہا ہے۔ اس سلسلے میں رجسٹرار مدرسہ ایجوکیشن کونسل نے تمام ضلع مجسٹریٹس کو خط بھیجا ہے۔ جانچ کے بعد جو رپورٹ سامنے آئے گی اس کی بنیاد پر حکومت مدارس کی تعلیم میں بڑی تبدیلیاں کرنے جا رہی ہے، جس میں جدید تعلیم پر زیادہ زور دیا جائے گا۔
ضلع مجسٹریٹ اب ایس ڈی ایم، بلاک ایجوکیشن آفیسر، بلاک ڈیولپمنٹ آفیسر کو اس کی جانچ کا حکم دے رہے ہیں۔ ریاستی حکومت نے 15 مئی 2022 تک انکوائری رپورٹ طلب کی ہے۔
مدرسہ ماڈرنائزیشن اسکیم کے تحت اتر پردیش میں ساڑھے سات ہزار سے زیادہ مدارس چل رہے ہیں۔
یوپی کے جدید مدارس میں اساتذہ کی 8129 آسامیاں ہیں۔ ان میں سے 6455 اساتذہ انگریزی، تاریخ، جغرافیہ، سائنس جیسے مضامین پڑھانے والے ہیں۔ ان کے علاوہ دینی تعلیم والے 5339 اساتذہ ہیں۔ ریاستی حکومت کی نظریں انہی دینی تعلیم والے ٹیچروں پر ہے ۔ یوپی محکمہ تعلیم کے افسران کا کہنا ہے کہ جب مدارس میں جدید مضامین پڑھائے جارہے ہیں تو پھر وہاں دینی تعلیم والے اساتذہ کی کیا ضرورت ہے ۔
ان مدارس کو حکومت سے گرانٹ ملتی ہے۔ اس لیے حکومت اپنے افسران کے ذریعے یہ معلوم کرنا چاہتی ہے کہ مدارس میں کتنے جدید مضامین پڑھائے جا رہے ہیں اور کیا اب بھی دینی تعلیم پر زور ہے؟ کسی بھی مدرسے میں اساتذہ کی بنیاد پر یہ آسانی سے معلوم ہو جائے گا کہ وہاں جدید مضامین پڑھائے جا رہے ہیں یا دینی مضامین۔
یوپی میں تقریباً 588 مدارس ہیں جن میں 8129 اساتذہ اور 558 پرنسپل ہیں۔ حکومت ہر سال ان پر 866 کروڑ روپے خرچ کرتی ہے۔ لیکن حکومت کے پاس اطلاعات ہیں کہ مدارس میں بچوں کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے۔ حکومت کے پاس معلومات ہیں کہ چونکہ مدارس میں جدید مضامین نہیں پڑھائے جا رہے ہیں اس لیے وہاں کے بچے مقابلے جاتی امتحانات میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں، اس لیے یوگی حکومت چاہتی ہے کہ مدارس کے نصاب میں تبدیلیاں کی جائیں۔
ریاستی حکومت کے پاس اطلاعات ہیں کہ کئی جگہوں پر مدارس کے نام پر کاروبار ہو رہا ہے۔ کئی تنظیموں کے تیس سے چالیس مدارس ہیں۔ لکھنؤ میں ہی ایسے مدارس کا ایک سلسلہ ہے جہاں اساتذہ کو آدھی تنخواہ ملتی ہے جبکہ ان سے پوری تنخواہ پر دستخط کرائے جاتے ہیں۔ ایسے اساتذہ سے استعفیٰ پہلے ہی لے لیے جا چکے ہیں، تاکہ اگر وہ احتجاج کریں تو انہیں فوراً باہر کا راستہ دکھایا جائے۔
عام طور پر پہلی جماعت سے پانچویں جماعت تک کے مدارس میں پانچ ٹیچر دینی تعلیم والے ہوتے ہیں ۔ چھٹی کلاس سے لے کر آٹھویں تک کے مدارس میں دو دینی تعلیم والے ہیں اور ایک عام مضامین کے لیے۔ لیکن عالیہ کلاس (9ویں اور 10ویں) میں دینی تعلیم کے لیے تین اساتذہ اور عمومی مضامین کے لیے ایک استاد ہے۔ اس طرح کلاس ششم سے عالیہ کی کلاس تک دیگر مضامین پڑھانے والے اساتذہ کم اوردینی تعلیم والے زیادہ ہیں ۔ سرکار اس میں تبدیلی کرنا چاہتی ہے ۔ اس سے ٹیچروں کا استحصال بھی رکے گا۔

اردودنیانیوز۷۲
ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!
ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے! Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...
-
ٹرین میں ناری شکتی پردرشن Urduduniyanews72 عالمی یوم خواتین سے سبھی واقف ہیں، یہ ہرسال مارچ کی آٹھویں تاریخ کوپوری دنیا میں من...
-
گستاخ نبی کی قرآنی سزا اردودنیانیوز۷۲ مکہ میں سب سے پہلےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنےوالا کوئی اور نہیں بل...
-
یہ بیماری نہیں عذاب الہی ہے ! Urduduniyanews72 سی این این یہ امریکی نشریاتی ادارہ ہے،اس کی ایک رپورٹ جسے ملک کے اکثر اخبارات ...
-
بچیوں کی تربیت: ایک اہم ذمہ داری Urduduniyanews72 1. بچیوں کی تربیت کی اہمیت بچیوں کی تربیت ایک معاشرتی فریضہ ہے۔ ایک اچھی تربی...
-
مدارس اسلامیہ کنونشن میں منظور شدہ تجاویز اردودنیانیوز۷۲ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھن...
-
ملکِ ہند میں اسلامی انگریزی اسکول: وقت کی اہم ضرورت Urduduniyanews72 ہندوستان میں مسلمان قوم کا شمار ملک کی سب سے بڑی اقلیت میں...
-
نئے سال کا آغاز: ایک نیا سفر Urduduniyanews72 نیا سال ایک نیا آغاز، ایک نئی امید اور نئی جدوجہد کا پیغام لے کر آتا ہے۔ یہ دن نہ...
-
پیام انسانیت کے وفد کا سیمانچل دورہ Urduduniyanews72 Urduduniyanews72 @gmail.com ملک میں ایک ایسی تحریک جو خالص انسانی بنیاد پ...
-
سنبھل میں کرفیو کی ایک رات ) * انس مسرورانصاری Urduduniyanews72 رات آئی تو خوف کا عفریت...
-
خنساء اسلامک انگلش اسکول بہیڑہ دربہنگہ، بہار کی دینی و عصری تعلیم اور اصلاحی خدمات۔ Urduduniyanews72 تعارف: خنساء اسلامک انگلش ...