*عید کی نماز عیدگاہ میں*
چھوٹی چھوٹی مسجدوں میں بھی پچھلے دوسالوں میں عید کی نماز پڑھی گئی ہے،اس کی وجہ ہم سبھوں کو معلوم ہے، افسوس تو اس بات پر ہے کہ آج بھی کچھ بھائیوں کواس پر اصرار ہے کہ جب اس مسجد میں عید کی نماز ہوچکی ہے،تو اب کیوں نہیں ہوسکتی ہے؟یہ سوال ایک بڑامسئلہ بن کر آج ہمارے درمیان کھڑا ہوگیا ہے۔
اس تعلق سے یہ عرض ہے کہ عید کی نماز حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عید گاہ میں ہی پڑھی ہے، بلاعذر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسجد میں عید کی نماز پڑھنا ثابت نہیں ہے،
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، بخاری شریف کی یہ حدیث ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عیدالاضحٰی کے موقع پر عیدگاہ تشریف لے جاتے ،سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو نماز پڑھاتے، نماز سے فارغ ہونے کے بعد لوگوں کی طرف رخ کرکے خطبہ کے لئے کھڑے ہوجاتے، اور لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے "۔
اس حدیث سے عیدین کی نماز کی ادائیگی عیدگاہ پر مسنون قرار دی گئی ہے، عام حالات میں شرعی حکم یہی ہے، البتہ ابوداؤد شریف کی ایک حدیث میں جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،ایک مرتبہ عید کے دن بارش ہورہی تھی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو مسجد نبوی میں نماز پڑھائی ہے۔
اس بنیاد پر یہ مسئلہ عام لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ عذر کی بنیاد پر ہی عید کی نماز مسجد میں پڑھی جاسکتی ہے، اللہ کے رسول نے بھی اپنے اصحاب کو پڑھائی ہے،اپنے یہاں وبائی بیماری کی شدت اور حکومت وقت کی پابندیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے پچھلےدو سالوں میں چھوٹی چھوٹی مسجدوں میں نماز عید پڑھی گئی ہے، بحمداللہ اب وہ معاملہ نہیں رہا ہے ، موجودہ وقت میں اس پر اصرار سنت وشریعت کی صریح خلاف ورزی معلوم ہوتی ہے۔بالخصوص سیمانچل کے علاقہ میں جہاں ہر گاؤں سے نکلتے ہی عید گاہ پر نظر جاتی ہے۔
حضرت مولانا علی میاں رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:عید کی نمازکی اصل یہ تھی کہ مسلمان جس طرح ہفتہ میں ایک بار جمعہ کے لئے جمع ہوتے ہیں، اسی طرح سال میں دوبار ایک کھلے اور وسیع میدان میں جمع ہوں لیکن اس میں بھی مسلمانوں نے جمعہ کی طرح غفلت اور سہل انگاری سے کام لیا اور ہر چھوٹی بڑی مسجد میں عید کی نماز پڑھی جانے لگی،اس کی وجہ سے اس نماز کا بھی وہ اثر جاتا رہا، اور بہت سے وہ مقاصد فوت ہوگئے، جو شریعت کے پیش نظر تھے"(بحوالہ ارکان اربعہ،ص:88)
مذکورہ بالا تحریر میں علی میاں رحمۃ اللہ نے جن مقاصد کے فوت ہونے کی بات کہی ہےوہ کیا ہیں؟
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مایہ ناز تصنیف حجتہ البالغہ میں انہیں ہمارے سامنے کھول کھول کررکھ دیا یے،فرماتے ہیں:"ہر ملت کے لئے ایک ایسا مظاہرہ اور اجتماع ضروری ہوتا ہے جس میں اس کے سب ماننے والے جمع ہوں تاکہ ان کی شان وشوکت وکثرت تعداد ظاہر ہو،اور اسی لئے عیدین میں تمام لوگ حتی کے عورتوں اور بچوں کا نکلنا بھی مستحب قرار دیا گیا ہے، ان کو عیدگاہ سے علیحدہ ایک جگہ بیٹھنے اور مسلمانوں کی دعوت واجتماع میں شریک ہونے کا حکم ہے،اور اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانے میں دوسرا اور آنے میں دوسرا راستہ اختیار فرماتے تھے، تاکہ مسلمانوں کی شان وشوکت کا نقشہ دونوں طرف کے لوگوں کے سامنے آجائے"(بحوالہ سابق،ص:90)
شاہ صاحب کی یہ تحریرسنت وشریعت کی روشنی میں نماز عیدکی جامع تشریح ہے،اس مختصر تحریر کے ذریعہ نماز عید کا مکمل خلاصہ حضرت نے کردیا ہے، باوجود اس کے اگر کوئی بغیر کسی عذر کےاس کے خلاف جاتا ہے تو وہ سنت وشریعت کےخلاف عمل پیرا ہےاور مقاصد شریعت سے روگردانی کررہا ہے،ہمارے واقعی افسوس صد افسوس کی بات ہے۔
آج غیروں نے ہمارا طریقہ اپنا لیا ہے اور اپنی شان وشوکت کے اظہار کے لئے اپنے رسمی تہواروں کو اس کا ذریعہ بنالیا ہے، اور ہم مسلمان اپنے شرعی عید کو رسمی طور پر منانے لگے ہیں، جبکہ موجودہ وقت میں اسے شرعی طور پر اپنانے کی ضرورت ہے، بلکہ جس طرح اہل مکہ کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو مدینہ کی آب وہوا نے کمزور کردیا ہے ،وبائی بخاروامراض کےیہ سبھی شکار ہوگئے ہیں، اس بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے بعد ادائے عمرہ کے موقع پر یہ حکم دیا کہ طواف کرتے وقت پہلے تین پھیروں میں شانے ہلاکر بہادر کی چال چلیں،اور اہل مکہ کے اس خیال کو غلط ثابت کردیں کہ ہم کمزور ہوئے ہیں، عربی زبان میں اسی چال کو رمل کہتے ہیں، یہ سنت آج بھی باقی ہے اور زندہ ہے،طواف کے موقع پر اسے عمل میں لایا جاتا ہے،
اپنے ملک میں بھی کرونا وائرس اور نفرتی وائرس کی وبائی بیماری آنے کے بعد یہ خیال پیدا ہوگیا ہے کہ مسلمان کمزور ہوئےہیں اور بزدل ہوگئے ہیں،ساتھ ہی حجروں میں معتکف ہوگئے ہیں، اعتکاف ختم ہوگیا ہے، یہ بتلانے کے لئے بھی مسجد سے نکلنا ناگزیر ہے۔اور عید کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے مومن قوی کی طرح ایک راستے سے جانا ہےتو دوسرے راستے سے آنا ہے،اور اپنی اجتماعیت کا ثبوت پیش کردیناوقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ
۳۰/رمضان المبارک ۱۴۴۳ھ