Powered By Blogger

جمعہ, مئی 20, 2022

وارانسی کورٹ کی سماعت پر روک ، سپریم کورٹ میں آج غور

وارانسی کورٹ کی سماعت پر روک ، سپریم کورٹ میں آج غور

گیان واپی مسجد احاطے کی ویڈیو گرافی سروے رپورٹ عدالت میں پیش، جلد فیصلہ سنائے جانے کی امید

نئی دہلی : سپریم کورٹ نے وارانسی کی ایکسیول عدالت سے کہا کہ وہ گیانواپی مسجد میں ویڈیو گرافی سروے تنازعہ کے معاملے میں جمعرات کو سماعت نہ کرے اور نہ ہی کوئی فیصلہ کرے ۔جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس پی ایس نرسمہا کی بنچ نے ہندو فریق کے وکیل وشنو شنکر جین کی عرضی پر سماعت 19 مئی تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملے کی مزید سماعت جمعہ کو سہ پہر 3 بجے کریں گے ۔مسجد کی طرف سے پیش ہوئے ایڈوکیٹ ایچ احمدی نے سپریم کورٹ کی آج کی سماعت ملتوی کرنے کی ہندو درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اب ایک اور مسجد کو بھی سیل کرنے کی درخواست کی جا سکتی ہے ۔ اترپردیش کے ضلع وارانسی میں گیان واپی مسجداحاطے کی ویڈیو گرافی سروے رپورٹ جمعرات کو اسپیشل ایڈوکیٹ کمشنر وشال سنگھ نے عدالت میں پیش کردی۔سول جج(سینئر ڈیویژن) کی عدالت میں پیش کی گئی رپورٹ پر جلد ہی فیصلہ سنائے جانے کی امید ہے ۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے آج وارانسی کی مقامی عدالت میں اس معاملے کی سماعت پر جمعہ تک کے لئے روک لگا دی ہے ۔اس سے پہلے مسجد احاطے کی ویڈیو گرافی سروے کے لئے عدالت کے ذریعہ نامزد کئے گئے ایڈوکیٹ کمشنر اجئے کمار مشرا نے بدھ کو ویڈیو گرافی سروے کی ابتدائی رپورٹ عدالت کے سامنے پیش کردی تھی۔قابل ذکر ہے کہ عدالت نے 17مئی کو مشرا کو فرائض کی ادائیگی میں لاپرواہی برتنے کے الزام میں ایڈوکیٹ کمشنر کے عہدے سے برطرف کردیا تھا۔

مسجد میں ہندو آثار دستیاب ، رپورٹ میں دعویٰ
وارانسی : ایڈوکیٹ کمشنر اجئے مشرا جنہوں نے /6 اور /7 مئی کو گیان واپی مسجد کامپلکس میں سروے منعقد کیا تھا ، انہوں نے آج اپنی رپورٹ پیش کردی جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مسجد کے اندرون ہندو مذہبی علامتیں اور مندر کا ملبہ پائے گئے ہیں ۔ مشرا کو بعد میں سروے رپورٹ کے افشا کی پاداش میں پیانل سے ہٹادیا گیا تھا ۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ شمال مغربی دیوار پر مندر کے آثار اور دیوی دیوتاؤں کی علامتیں پائی گئی ہیں ۔ پتھروں پر کنول کی علامتیں بھی کندہ دیکھی گئیں ۔ مسجد کے شمال مغربی گوشہ میں نئے پلیٹ فارم کی تعمیر کا پتہ چلتا ہے ۔

جمعرات, مئی 19, 2022

اعظم خان کو سپریم کورٹ سے راحت : مقدمہ کے ' عجیب و غریب حقائق ' کی بنیاد پر عبوری ضمانت کی درخواست منظور

اعظم خان کو سپریم کورٹ سے راحت : مقدمہ کے ' عجیب و غریب حقائق ' کی بنیاد پر عبوری ضمانت کی درخواست منظور

نئی دہلی: سماج وادی پارٹی (ایس پی) لیڈر اعظم خان کو سپریم کورٹ سے بڑی راحت ملی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے زمین پر قبضے اور دھوکہ دہی کے مقدمے میں ان کی عبوری ضمانت کی درخواست منظور کر لی۔ یہ ضمانت آرٹیکل 142 کے تحت استحقاق کا استعمال کرتے ہوئے دی گئی ہے۔ وہیں، عدالت عظمیٰ نے ہدایت دی کہ وہ ٹرائل کورٹ میں دو ہفتوں کے اندر مستقل ضمانت کی درخواست پیش کر سکتے ہیں۔ مستقل ضمانت پر فیصلہ آنے تک عبوری ضمانت جاری رہے گی۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ کیس کے عجیب و غریب حقائق کے پیش نظر عبوری ضمانت دی جا رہی ہے۔خیال رہے کہ اعظم خان فروری 2020 سے سیتاپور جیل میں قید ہیں۔ اس سے قبل منگل کے روز سپریم کورٹ نے ایس پی لیڈر کی عبوری ضمانت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ یوپی حکومت نے عدالت سے کہا تھا، ''درخواست گزار اور معاملے کے تفتیشی افسر کو بھی دھمکی دی گئی تھی۔ جب اعظم خان کا بیان ریکارڈ کیا جا رہا تھا، اس وقت بھی تفتیشی افسر کو دھمکی دی گئی تھی۔ اعظم خان لینڈ مافیا اور عادی مجرم ہیں۔''

دوسری جانب ارنب کیس کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت میں کہا گیا کہ دونون مقدمات کی نوعیت ایک جیسی ہے، مگر اعظم خان کے خلاف مختلف کیسز میں ایف آئی آر درج ہیں۔ جبکہ اعظم کے وکیل کپل سبل نے کہا کہ اعظم پچھلے دو سال سے جیل میں قید ہیں، تو دھمکی کی بات کہاں آتی ہے؟ نیز یوپی حکومت ان کے مؤکل کو سیاسی بد دیانتی کا شکار بنا رہی ہے۔

گزشتہ سماعت کے دوران عدالت نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تمام مقدمات میں ضمانت ہو گئی تو اعظم کے خلاف نیا مقدمہ کیسے درج کر لیا گیا۔ کیا یہ محض اتفاق ہے یا کچھ اور؟ یوپی حکومت کو اس پر جواب داخل کرنا چاہئے۔ سپریم کورٹ نے ایس پی لیڈر اعظم خان کی ضمانت پر فیصلے کی عدم تعمیل پر بھی برہمی کا اظہار کیا تھا۔

اس سے قبل سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ اعظم خان کو 87 میں سے 86 مقدمات میں ضمانت مل چکی ہے۔ 137 دن گزر گئے، ایک کیس کا فیصلہ نہیں ہوا۔ یہ انصاف کا مذاق ہے۔ ہائی کورٹ نے فیصلہ نہ کیا تو ہم مداخلت کریں گے۔ جسٹس ایل ناگیشور راؤ اور جسٹس بی آر گاوائی کی بنچ نے یہ سماعت کی تھی۔

گیان واپی مسجد:عدالت میں پیش کی گئی سروے کی رپورٹ

گیان واپی مسجد:عدالت میں پیش کی گئی سروے کی رپورٹ

وارانسی: گیان واپی مسجد سے متعلق آج عدالت میں چار درخواستوں پر سماعت ہونے والی ہے۔ کورٹ کمشنر اجے کمار مشرا نے 6 اور 7 مئی کو کئے گئے سروے کی رپورٹ عدالت میں پیش کر دی ہے۔ اس معاملے میں سماعت اگرچہ کل ہونی تھی تاہم وکلاء کی ہڑتال کے باعث سماعت نہ ہو سکی۔

ضلعی عدالت ان دو درخواستوں کی بھی سماعت کرے گی جن کی بدھ کو سماعت نہیں ہوئی۔ جن چار درخواستوں پر سماعت ہونی ہے، ان میں پہلی درخواست مچھلیوں کے تحفظ، مسجد کی دیوار گرانے، تیسری درخواست ہندو فریق کی جانب سے ہے، جس میں اجے مشرا کی رپورٹ درج کرنے کا حق مانگا گیا ہے۔

اس کے علاوہ مسلم فریق کی درخواست پر سماعت کی جائے گی جس میں اعتراض داخل کرنے کے لیے وقت مانگا گیا ہے۔

درحقیقت خواتین کی جانب سے دائر درخواست میں نندی کے سامنے بند دیوار کو توڑ کر شیولنگ کے مقام پر پوجا کرنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے، جب کہ ایک اور درخواست میں وضو خانہ میں موجود مچھلیوں کو کہیں اور منتقل کیا جائے اور نمازیوں کو نماز پڑھنے دی جائے اور سیل شدہ جگہ سے بیت الخلاء کا انتظام ہٹانے کی درخواست دی گئی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ دوسرے مرحلے کی سروے رپورٹ وارانسی کی ضلعی عدالت میں پیش کی گئی ہے۔

اجے کمار مشرا کو کورٹ کمشنر کی ذمہ داری سے ہٹائے جانے کے بعد گیان واپی میں وشال سنگھ کی نگرانی میں 14 مئی سے 16 مئی کے درمیان سروے کا کام کیا گیا جس کی رپورٹ پیش کر دی گئی ہے۔

یہ رپورٹ جج روی کمار دیواکر کے چیمبر میں داخل کی گئی ہے۔ اسسٹنٹ کورٹ کمشنر بھی رپورٹ کے ہمراہ موجود تھے۔ یہ رپورٹ سیل بند لفافے میں دی گئی ہے۔ تین بکس جمع کرائے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک ویڈیو گرافی، ایک چپ اور ایک دیگر مواد ہے۔

سپریم کورٹ اور وارانسی کی عدالت میں گیان واپی کیس کی سماعت آج سے دوبارہ شروع

سپریم کورٹ اور وارانسی کی عدالت میں گیان واپی کیس کی سماعت آج سے دوبارہ شروع

نئی دہلی : سپریم کورٹ اور وارانسی کی مقامی عدالت دونوں جمعرات کو گیان واپی مسجد کیس کی دوبارہ سماعت شروع کریں گی۔

یہ مقدمہ ایک عرضی پر مرکوز ہے جس میں ہندوؤں کو گیان واپی مسجد احاطے میں عبادت کرنے کی اجازت مانگی گئی تھی کہ کاشی وشوناتھ مندر کے ایک حصے کو منہدم کر دیا گیا تھا اور 16ویں صدی میں اس پر مسجد تعمیر کی گئی تھی۔

منگل کے روز، سپریم کورٹ نے وارانسی کے ضلع مجسٹریٹ سے کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ کمپلیکس میں جہاں 'شیولنگ' پایا گیا ہے، مسلم کمیونٹی کے پوجا کے حق پر پابندی لگائے بغیر اس کی حفاظت کی جائے۔ دریں اثنا، وارانسی کی عدالت نے اس کی طرف سے مقرر کردہ سروے ٹیم کو اپنی رپورٹ پیش کرنے کے لیے مزید دو دن کا وقت دیا ہے۔

گیان واپی کیس کے سلسلے میں وارانسی کی عدالت کا ایجنڈا

عدالت احاطے میں پائے جانے والے 'شیولنگ' پر نماز کی اجازت دینے کی درخواست پر سماعت کرے گی۔ اسی پٹیشن میں مزید شواہد اکٹھے کرنے کے لیے تہہ خانے کی دیواروں کو گرانے اور ملبہ ہٹانے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔

گیان واپی مسجد کے سیل شدہ علاقے سے پائپ لائنوں (جس کے ذریعے نمازیوں کو 'وضو' کرنے کے لیے پانی فراہم کیا جاتا ہے) کو منتقل کرنے کے لیے ہدایات مانگنے والی ایک اور درخواست سرکاری وکیل مہندر پرساد پانڈے نے دائر کی تھی۔ اس پر بھی جمعرات کو سماعت ہوگی۔

عدالت ہندو فریق کی طرف سے دائر درخواست کی بھی سماعت کرے گی جس میں کہا گیا ہے کہ اجے کمار مشرا کو سروے کے کام میں شامل کیا جائے۔ وارانسی کی عدالت نے منگل کو اسے اپنی تین رکنی سروے ٹیم سے "اپنے فرائض کی انجام دہی میں غیر ذمہ دارانہ رویہ" کا مظاہرہ کرنے پر ہٹا دیا تھا جب یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے میڈیا کو معلومات لیک کرنے کے لیے ایک ذاتی کیمرہ مین تعینات کیا تھا۔

سپریم کورٹ میں ایجنڈے پر کیا ہے

سپریم کورٹ نے اپنی سماعت دو دن کے لیے ملتوی کرنے سے پہلے منگل کو ہندو درخواست گزاروں کو نوٹس جاری کیے تھے۔

مداخلت کار ہندو سینا نے مسجد کمیٹی کی درخواست کے جواب میں عدالت میں حلف نامہ داخل کیا ہے۔ اپنے حلف نامہ میں ہندو سینا نے کہا کہ کاشی وشوناتھ-گیان واپی تنازعہ کی تاریخ کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ گروپ نے دلیل دی کہ عبادت گاہ کا قانون لاگو نہیں ہے کیونکہ یہ تنازعہ آزادی سے پہلے سے چل رہا ہے۔ جمعرات کو، سپریم کورٹ وارانسی میں گیان واپی مسجد کا انتظام کرنے والی انجمن انتظاریہ مسجد کی کمیٹی کی درخواست پر سماعت کرے گی۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی قانونی کمیٹی گیان واپی مسجد کیس میں مسلم فریق کی مسلم فریق کی مدد کرے گی

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی قانونی کمیٹی گیان واپی مسجد کیس میں مسلم فریق کی مسلم فریق کی مدد کرے گی

نئی دہلی: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے گیان واپی مسجد کیس اور دیگر مسائل پر گزشتہ روز وارانسی میں اپنی ایگزیکٹو کمیٹی کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا، جس میں کچھ اہم فیصلے لیے گئے۔ گیان واپی کا معاملہ چونکہ عدالت میں زیر سماعت ہے، لہذا یہ فیصلہ لیا گیا کہ بورڈ کی لیگل کمیٹی کیس لڑنے میں مسلم فریق کی ہر ممکن مدد کرے گی۔ اس کے علاوہ پلیس آف ورشپ ایکٹ 1991 پر مرکزی حکومت سمیت دیگر سیاسی جماعتوں سے ان کا موقف معلوم کیا جائے گا۔ بورڈ کے مطابق عوام کے سامنے ہر چیز ادھوری پیش کی جا رہی ہے، اس کے لیے پمفلٹ اور کتابیں شائع کرنے کا کام کیا جائے گا، جن میں حقائق کے ساتھ معلومات ہوں اور انہیں عوام تک پہنچایا جائے گا۔

اجلاس میں گیان واپی مسجد، ٹیپو سلطان مسجد سمیت ملک کے دیگر موجودہ مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اجلاس تقریباً 2 گھنٹے تک جاری رہا، بورڈ کے 45 ممبران آن لائن میڈیم کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے۔

آئی اے این ایس کو معلومات دیتے ہوئے ذرائع نے بتایا کہ بورڈ کی قانونی کمیٹی مسلم فریق کی مکمل مدد کرے گی جبکہ منگل کو عدالت میں جو باتیں سامنے آئی ہیں ان پر کام کرتے ہوئے ان کی مزید مدد کرے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر طرح کی باتیں عوام کے سامنے لائی جا رہی ہیں تاکہ تقسیم ہو لیکن ہماری آواز عوام تک نہیں پہنچ رہی کیونکہ لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ اس لیے ہم پمفلیٹ، کتابوں اور دیگر ذرائع کے ذریعے عوام تک پہنچیں گے۔

دراصل، 1991 میں اس وقت کے وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ کی حکومت نے عبادت گاہ کا قانون (پلیس آف ورشپ ایکٹ) منظور کیا تھا۔ اس قانون کے مطابق 15 اگست 1947 سے پہلے وجود میں آنے والی کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ کو کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ جو بھی ایسا کرنے کی کوشش کرے گا اسے ایک سے تین سال تک قید اور جرمانہ ہو سکتا ہے۔ ایودھیا کا معاملہ اس وقت عدالت میں تھا، اس لیے اسے اس قانون سے باہر رکھا گیا۔

اس کے علاوہ اجلاس میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں بھی فیصلہ کیا گیا، بدھ کے روز بورڈ اپنے فیصلوں کو تفصیل کے ساتھ سب کے سامنے پیش کرے گا، جبکہ ملک میں جاری موجودہ معاملات کے حوالے سے حکمت عملی تیار کی گئی۔

گزشتہ روز گیان واپی مسجد معاملہ کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی، جس میں عدالت نے کہا کہ ہم نوٹس جاری کر رہے ہیں اور مقامی ڈی ایم کو حکم دینا چاہتے ہیں کہ جس جگہ سے شیولنگ ملنے کا دعویٰ کیا گیا ہے اسے محفوظ رکھا جائے لیکن لوگوں کو نماز سے نہ روکا جائے۔ خیال رہے کہ ہندو فریق نے گیان واپی سے شیولنگ برآمد ہونے کا دعویٰ کیا ہے، جبکہ مسلم فریق کا کہنا ہے کہ جو چیز برآمد ہوئی ہے وہ ایک 'فوارہ' ہے، جو وضوخانہ کے بیچ میں نصب تھا

بدھ, مئی 18, 2022

قانون بغاوت ہند کے استعمال پر عبوری روکمفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

قانون بغاوت ہند کے استعمال پر عبوری روک
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
=====================================
سپریم کورٹ (عدالت عظمیٰ) نے ایک اہم فیصلہ میں قانون بغاوت ہند کے استعمال پر روک لگادی ہے، چیف جسٹس این وی رمنا، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس ہیما کولی کی سہ نفری کمیٹی نے سرکار سے کہا ہے کہ اس قانون کے تحت اب کوئی اف آئی آر درج نہیں ہوگی، اور جو لوگ اس قانون سے ماخوذ ہوئے اور جیلوں میں محبوس ہیں، ان کی ضمانت کی درخواست قابل سماعت ہوگی، اور وہ عدالت میں ضمانت کی عرضی لگا سکتے ہیں، یہ روک اس وقت تک رہے گی جب تک حکومت دفعہ ۱۲۴ ؍اے اور اس کے متعلقات پر نظر ثانی نہیں کرلیتی، اس طرح کہنا چاہیے کہ یہ عبوری روک ہے، عدالت چاہتی ہے کہ اس متنازع قانون کے ختم کرنے کی راہ ہموار کی جائے۔
ہندوستانی قانون آئی پی سی کی دفعہ ۱۲۴؍اے کے مطابق اگر کوئی شخص اپنی تقریر ، تحریر، اشارے او رمنظر کشی کے ذریعہ قانونی طور پر منتخب حکومت کے خلاف نفرت اور بے اطمینانی کی فضا پیدا کرتا ہے یاا س کی کوشش کرتا ہے تو اسے عمر قید یا تین سال قید اور جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے ۔
 یہ قانون ہندوستان میں برطانیہ سے بر آمد کیا گیاہے، برطانیہ میں۱۸۳۷ء میں تھامس بیبگٹن میکالے نے یہ قانون ’’ویسٹ منسٹر قانون‘‘ کی زد سے باد شاہ کو بچانے کی غرض سے بنایا تھا، پھر اس قانون پر نظر ثانی کا کام۱۸۶۰ء میں ہوا اور اسے باقی رکھا گیا ۔ ۱۸۷۰ء میں جیمس فِٹوج جیمس اسٹیفن کی تجویز پریہ قانون آئی پی سی میں جوڑا گیا، انگریز حکومت میں چوں کہ فرد کی آزادی کا تصور نہیں تھا، اس لیے دور غلامی میں یہ قانون آزادی کے متوالوں کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا ،۱۹۲۱ء میں جب انگریزوں کے خلاف ترک موالات کا فیصلہ دوبارہ شائع ہوا، جس میں انگریزوں کی جانب سے دیے گیے خطابات ، عہدے، کونسل کی ممبری، فوج کی ملازمت ، تجارتی تعلقات، سرکاری تعلیم، حکومتی امداد اور مقدمات کی پیروی کے بائیکاٹ کی بات کہی گئی تھی، تو انگریز حکومت نے اس قانون کا استعمال کیا،چنانچہ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، پیر غلام مجددی سندھی، مولانا نثار احمد کانپوری اور جگت گرو شنکر آچاریہ پر اسی دفعہ کے تحت مقدمہ چلایا گیا جو کراچی مقدمہ کے نام سے مشہور ہے۔اسی قانون کے تحت لوک مانیہ تلک اور مہاتما گاندھی کوجیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا، ہندوستان کی آزادی کے بعد ۱۹۶۲ء میں سپریم کورٹ نے اس قانون کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون کا نفاذ صرف اس شکل میں ہوگا جب تشدد کے لیے اُکسانا یا پُرتشدد طریقے سے منتخب سرکار کو اکھاڑ پھینکنا مقصد ہو۔ اس تشریح سے یہ بات واضح ہو گئی کہ سرکار کی مذمت یا اس کے خلاف پُر امن تحریک چلانا اس قانون کے تحت نہیں آتا، لیکن ہر دور میں حکومتوں نے اس تشریح کی ان دیکھی کی اور مخالفین کو جیلوں میں بند کیا۔ اس سے قبل ۱۸۹۸ئ، ۱۹۳۷ئ، ۱۹۴۸ئ، ۱۹۵۰ء اور ۱۹۵۱ء میں اس قانون میں وقتا فوقتا جزوی تبدیلیاں کی جاتی رہیں، ۱۹۵۸ء میں الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلہ رام نندن بنام ریاست میں اس قانون کو کلیۃً رد کر دیا تھا، اس کے بعد ۱۹۶۲ء میں سپریم کورٹ نے اس قانون کی جو تشریح کی اس کا ذکر اوپر آچکا ہے۔
۱۹۷۳ء میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اپنے دور حکومت میں اس قانون کے اطلاق پر غیر ضمانتی وارنٹ جاری کرنے کا اضافہ کیا، اس طرح یہ قانون اور سخت ہو گیا، اور ۱۸۹۸ء میں کی گئی ترمیم کے سارے خد وخال بدل ڈالے گیے۔
اب جب کہ ہر پانچ سال کے بعد انتخاب ہو رہا ہے، او رحکومتیں الٹ پلٹ ہوتی رہتی ہیں، ایسے میں حکومت کے خلاف بولنا ملک سے غداری اور بغاوت کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے ، المیہ یہ ہے کہ برطانیہ میں ۲۰۰۹ء میں ہی اسے کالعدم قرار دے دیا گیا ، لیکن ہندوستان میں یہ آج بھی بر قرار ہے اور حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو اس کے ذریعہ نہ صرف ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے؛ بلکہ اس کا استعمال کرکے حق کی آواز کو دبانے کی کوشش بھی کی جاتی رہی ہے ، قانون دانوں کا خیال ہے کہ یہ پورے جمہوری نظام کے لیے ایک چیلنج ہے ، اب عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) نے بھی کہا ہے کہ اس قانون کی تشریح کا وقت آگیا ہے، اس قانون پر پہلے بھی اعتراضات کیے جاتے رہے ہیں، گاندھی جی نے کہا تھا کہ اس قسم کے کالے قانون کی طاقت سے سرکار کے تئیں محبت کا ماحول نہیں پیدا کیا جا سکتا، غلام ہندوستان میں ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی ، رام منوہر لوہیابھی اس قانون کے خلاف تھے، ڈاکٹر راجندر پرشاد کی رائے تھی کہ باہری طور سے پابندیاں لگا کر حب الوطنی پیدا نہیں کی جا سکتی، اس لیے نئے ایوان کی تشکیل کے بعد اس قسم کے قانون کو رد کیا جا نا چاہیے۔
لیکن ہر دور میں حکومت کی یہ خواہش رہی کہ حکومت کے خلاف اٹھنے والی آواز کو غداریٔ وطن اوربغات کا مترادف قرار دیا جائے، حالاں کہ یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ حکومت کے خلاف آواز اٹھانا اور ملک سے غداری دونوں الگ الگ چیزیں ہیں، لیکن قانونی کمیٹی (ودھی آیوگ) نے ۱۹۷۱ء میں اپنی تینتالیسویں رپورٹ میں حکومت اور وطن کی غداری کو ایک قرار دے دیا، اس نے اس قانون میں سرکار کے ساتھ، دستور، مقننہ اور عدلیہ کو شامل کرنے کی بے تُکی سفارش کر ڈالی، جس کی ضرورت اس لیے نہیں تھی کہ ان امور کی حفاظت کے لیے دستور اور آئی پی سی میں پہلے ہی سے الگ الگ دفعات موجود ہیں، ملک کی سالمیت ، تحفظ کے ساتھ کھلواڑ کرنے ملک مخالف اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے یو اے پی اے، مکوکا جیسے قانون پہلے ہی سے موجود ہیں، ایسے میں حکومت اور ملک سے غداری اور بغاوت کے فرق کو ختم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ دونوں کو ایک ماننے کی حماقت دستور اور ملک دونوں کے ساتھ دھوکہ ہی کہا جائے گا، سرکار کے خلاف اور غداری وطن کے اس قانون کو ۱۹۵۱ء میں پہلی دستوری ترمیم کے موقع سے دفعہ (۲) ۱۹؍ کے ذریعہ مضبوط کیا گیا، حزب مخالف نے سرکار مخالف تحریک کو غداری اور بغاوت ملک ووطن سے جوڑ کر دیکھنے کی ہر دور میں مخالفت کی ، چنانچہ ۲۰۱۱ء میں کمیونسٹ رکن پارلیان ڈی راجہ نے ایک نجی بل پارلیامنٹ میںاس کے خلاف پیش کیا؛ لیکن حکومت نے اس پرکوئی توجہ نہیں دی، بھاجپا سرکار آنے کے بعد خود کانگریس کا رخ بدلا ، چنانچہ کانگریس کے رکن پارلیمان ششی تھرور نے ایک دوسرا بل پیش کیا، لیکن اس کا حشر وہی ہوا جو کانگریسی دور حکومت میں ڈی راجہ کے ذیعہ پیش کردہ بل کا ہوا تھا، بعد میںکانگریس نے اسے اپنا انتخای مُدّا بنایا اور وعدہ کیا کہ ہماری حکومت آئے گی تو ہم اس قانون کو ختم کر دیں گے، حکومت بھاجپا کی آگئی اور بھاجپا والے جنہوں نے اس قانون کے تحت اذیتیں جھیلی تھیں اپنا کرب بھول کر ملکی مفاد کے عنوان سے اسے باقی رکھنے کے اپنے ارادے کا اعلان کردیا،واقعہ یہ ہے کہ ہر دور میں حکومتوں نے اپنے تحفظ کے لیے اس قانون کی عصمت کو تار تار کیاہے ۔
مشہور وکیل کپل سبل نے سپریم کورٹ کو موجودہ صورت حال کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت پورے ملک میں آٹھ سو سے زیادہ مقدمات عدالتوں میں زیر التوا ہیں اور تیرہ ہزار لوگ آئی پی سی دفعہ ۱۲۴؍اے کے تحت جیلوں میں بند ہیں، اس قانون کے غلط استعمال کے واقعات اس قدر زائد ہیں کہ ان کا احاطہ کرنا مشکل ہے، اس قانون کا استعمال ڈرامہ میں شامل چھوٹے نا بالغ بچوں ، فیس بُک پوسٹ کو پسند کرنے، سنیما گھروں میں قومی ترانہ بجائے جانے کے وقت کھڑے نہ ہونے پر بھی کیا گیاہے۔ 
۲۰۱۲ء میں کوڈن کولم میں ایٹمی تنصیبات کی مخالفت کرنے والوں پر اجتماعی طور پر اس قانون کے سہارے ایف آئی آر درج کیا گیا، نوسو لوگ اس کی زد میں آئے، ۲۰۱۷ء میں پتھل گڑی تحریک جھارکھنڈسے جڑے دس ہزار لوگوں کو اس قانون کے سہارے مقدمہ سے گذرنا پڑا، تحریک کاروں میں ارون دھتی رائے، وینایک سین، ہاردک پٹیل، دشاروی، سدھا بھاردواج،کنہیا کمار، عمر خالد، عائشہ سلطانہ کے ساتھ ذرائع ابلاغ کے کئی لوگ اس قانون کی گرفت میں آئے جن میں اسیم ترویدی منال پانڈے، راجدیپ سرڈیسائی ، ونود دا کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
صرف ۲۰۱۵ء سے ۲۰۲۰ء کے درمیان چھ سال میں بغاوت اور غداری کے اس قانون کے تحت پانچ سو اڑتالیس(۵۴۸) افراد پر مقدمات کیے گیے اور تین سو چھپن (۳۵۶)افراد کو گرفتار کیا گیا، لطیفہ یہ ہے کہ ان میں سے سات(۷) مقدمات میں صرف بارہ(۱۲) آدمی پر ہی جرم ثابت ہو سکااور وہ سزا یاب ہوئے، اعداد وشمار کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ۲۰۱۵ء میں تیس(۳۰) ۲۰۱۶ء میں پینتیس(۳۵)  ۲۰۱۷ء میں اکاون (۵۱) ۲۰۱۸ء میں ستر (۷۰) ۲۰۱۹ء میں ننانوے(۹۹) اور ۲۰۲۰ء میں چوالیس(۴۴) افراد گرفتار ہوئے، ۲۰۱۴ء کے بعد سے اس کا استعمال عام طور سے اٹھارہ (۱۸) سے تیس (۳۰) سال کے مسلم نو جوانوں پر کثرت سے کیا گیا، اس کے علاوہ مودی حکومت نے اس قانون کا استعمال اظہار رائے کی آزادی کو سلب کرنے، بی جے پی کے خلاف اٹھنے والی آواز کو دبانے اور آر ایس ایس کی غیر قانونی سر گرمیوں کے خلاف جو لوگ تھے ان کو کچلنے کے لیے کیا اور اس کی زد میں طالب علم، رضا کار تنظیموں کے افراد ، سیاسی مخالفین، صحافی وغیرہ سب آئے، سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے ان لوگوں کو اب راحت ملنے کی امید ہے۔
 یہ صورت حال اس وقت ہے، جب ۱۹۶۲ء میں ہی سپریم کورٹ نے اس قانون کے غلط استعمال پر روک لگانے کے لیے کئی ہدایات دی تھیں، ضرورت ہے کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے مختلف مقدمات میں جو تبصرے کیے ہیں اور ہدایات دی ہیں، اس کی روشنی میں اس قانون کو رد کر دیا جائے؛ تاکہ ملک میں جمہوریت باقی رہ سکے۔

مدرسوں کو اب کوئی مالی امداد حاصل نہیں ہوگی ، یوگی کی کابینہ کا فیصلہ

مدرسوں کو اب کوئی مالی امداد حاصل نہیں ہوگی ، یوگی کی کابینہ کا فیصلہ

لکھنؤ: اتر پردیش میں نئے مدرسوں کو اب کوئی گرانٹ نہیں دی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اس فیصلے پر مہر ثبت کر دی ہے۔ یوگی حکومت کی سابقہ مدت کار کے دوران بھی مدرسوں کو گرانٹ نہیں دی گئی تھی۔ تاہم اب کابینہ نے باضابطہ طور پر اس تجویز کو منظور کر لیا ہے۔ عدالت میں جانے سے بھی مدارس کو ریلیف نہیں ملے گا۔ اس حکومت نے اکھلیش حکومت کی پالیسی ختم کر دی ہے۔ فی الحال یوپی میں صرف 558 مدارس ایسے ہیں جنہیں سرکاری گرانٹ دی جا رہی ہے۔

اقلیتی بہبود اور وقف کے وزیر دھرم پال سنگھ نے بتایا کہ عالیہ (دسویں) سطح کے مستقل تسلیم شدہ مدارس کو سال 2003 تک گرانٹ لسٹ سے متعلق پالیسی کو ختم کرنے کی تجویز کابینہ میں رکھی گئی تھی۔ اس تجویز کی منظوری کے بعد اب کسی نئے مدرسے کو گرانٹ لسٹ میں شامل نہیں کیا جائے گا۔

یوگی حکومت کی سابقہ مدت کار میں 146 مدرسوں کی جانب سے گرانٹ دینے کی درخواست کی گئی تھی، جن میں سے 100 مدارس کو تو فہرست میں شامل کر لیا گیا تھا، تاہم باقی 46 مدارس کا معاملہ ابھی زیر سماعت ہے۔ وزیر کے مطابق یہ مدارس معیار پر پورا نہیں اتر رہے تھے۔ اب اس پالیسی کو کابینہ میں ختم کر دیا گیا ہے، اس لیے گرانٹ کی فہرست میں کوئی نیا مدرسہ شامل نہیں کیا جائے گا۔

اسلامی مدرسہ ماڈرنائزیشن ٹیچرس ایسوسی ایشن آف انڈیا (آئی ماس) کے قومی صدر اعجاز احمد نے یوگی حکومت کے اس فیصلہ پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مدرسوں کو اگر مالی امداد نہیں دی جائے گی تو ان کی تجدید کا کام ٹھہر جائے گا۔ اس کا سب سے زیادہ اثر ان اساتذہ پر پڑے گا جو ان مدرسوں میں درس و تدریس کا کام انجام دیتے ہیں۔ انہیں اپنا مستقبل محفوظ نہیں لگے گا، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بہترین ٹیچرز مدرسوں سے اپنا منہ موڑ لیں گے۔'' اعجاز احمد نے کہا کہ اگر مدرسوں کو مرکزی دھارے میں لانا ہے تو حکومت کو اپنے فیصلہ پر از سر نو غور کرنا چاہئے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...