Powered By Blogger

جمعرات, جون 02, 2022

10 ہزارکیلئے پورا خاندان جان دینے پرہوا مجبور ۔ تحقیقات میں انکشاف

10 ہزارکیلئے پورا خاندان جان دینے پرہوا مجبور ۔ تحقیقات میں انکشاف

حیدرآباد: پرانا شہرسے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے چارافراد کی خودکشی کے معاملہ میں معلوم ہوا ہے کہ 10ہزارروپئے کیلئے انھوں نے یہ انتہائی اقدام کیا ہے۔ واضح رہے کہ حیدرآباد کے سنتوش نگرسے تعلق رکھنے والے 37 سالہ قدوس نے اپنی بیوی 28 سالہ فاطمہ اوردونوں بچوں 9 سالہ مہر 6 سالہ فردوس کے ساتھ کل زہرپینے کے بعد تالاب می چھلانگ لگا کرخودکشی کرلی تھی۔

تحقیقات کے دوران پولیس کومعلوم ہوا کہ پیشہ سے ویلڈرقدوس نے 20 ہزارروپئے بطورقرض حاصل کئے تھے، قرض کی واپسی کیلئے ان پردباو ڈالا جارہا تھا، انھوں نے اپنے سسرالی رشتہ دارسے 10 ہزارروپئے طلب کئے تاکہ قرض کی رقم لوٹا سکیں،تاہم وہ اس کا انتظام نہیں کرسکے۔ اس مسئلہ پرشوہربیوی کے درمیان جھگڑا ہوا اورانھوں نے بچوں کے ساتھ ملکرخودکشی کرلینے کا فیصلہ کیا۔

بدھ, جون 01, 2022

مضمون نگار، مشتاق احمد قاسمی گنگولی صاحب*ہرنفس کو موت کا مزہ چجھناہے

مضمون نگار، مشتاق احمد قاسمی گنگولی صاحب*ہرنفس کو موت کا مزہ چجھناہے*
دنیامیں جو آیا اسے جاناہے,ہربقا کو فنا ہے سواءے اللہ کے ,"مال کء چاہت نے تمییں غافل کردیا یہانتک کہ تم قبرستان جاپہنچے," )سورہ تکاثر) -- مال کی چاہت ایسی چیز یے کہ حضرت انسان اس میں لگ کر آخرت کو بالکل بھولا دیتا ہے اور یہ چاہت ختم ہونے والی چیز نہیں ,ہاں جسے اللہ بچاءے ,موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا,ہم آءے دن اپنے رشتہ دار,پڑوسی,اہل تعلق,اور دیگر اہل ایمان کے جنازوں میں آءے دن شریک ہوتے رہتے ہیں مگر عبرت حاصل نہیں کرتےیعنی آخرت کی تیاری سے غافل ہیں,--# حدیث میں آتاہیکہ کل قیامت کے دن آدمی کے قدم آگے نہیں بڑھ سکتا جبتک پانچ سوالوں کے جواب نہ مل جاءے,عمر کہاں لگایا,مال کہاں سے کمایا,کہاں خرچ کیا,جوانی کہاں بیتائ اور جتنا جانتاتھا کتنا عمل کیا,؟؟ # رسول اللہ علیہ السلام نےایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوءے فرمایا" پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو,اپنی جوانی کو اپنے بڑھاہے سے پہلے,صحت کو مرض سے پہلے,اپنے مالدار کو اپنی محتاجی سے پہلے,اپنی فراغت کو مصروفیت سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے "(مشکوۃ/ترمذی)---#فرمایا رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے" دنیا اسکا گھر ہے جسکا کوئ گھر نہیں,اسکا مال ہے جسکا کوءی مال نہیں,اور اس دنیا کے لیے وہی جمع کرتاہے جو عقلمند نہیں"(مشکوۃ/ احمد/بیہقی) # جب فوت ہونے والا فوت ہوتاہے تو فرشتےکہتے ہیں اس نے اعمال میں سے آگے کیا بھیجا؟ اور انسان کہتایے کہ اس نے مال میں سے کیا چھوڑا,
مذکورہ باتیں گزشتہ (30/5/022) سیتامڑھی ضلع کے جعفرپور گاؤں میں ایک دینی پروگرام محمد خلیل صاحب جعفر پور کی اہلیہ کے انتقال کے موقع پر مولانا مشتاق احمد قاسمی گنگولوی نے کہی,
# حدیث میں فرمایاگیاہے کہ مرنے والے کی خوبیوں کو بیان کرو اور براءیوں کو نظ انداز ,یعنی برائیوں کا تذکرہ مت کرو, ---- گنگولوی نے مزید فرمایاکہ دینی پروگرام کے ذریعے ایمان میں تازگی پیدا کیجیے اور آخرت کی فکر و تیاری,
آگے فرمایا آخرت (قبر ) کے سوالوں کا پرچہ آؤٹ ہوچکاہے اسی کے مطابق تیاری کریں,دنیا میں امتحان کا پرچہ آؤٹ ہوتاہے تو اسے سزاءیں ملتی ہے مگر اللہ نے آخرت کا پرچہ حضرت انسان پر رحم کیاکہ آؤٹ کرکے تیاری کرنے کو کہا,

ہم عصر شعری جہات " میرے مطالعہ کی روشنی میں

"ہم عصر شعری جہات " میرے مطالعہ کی روشنی میں 

✍️قمر اعظم صدیقی ، بانی و ایڈمن ایس آر میڈیا ، 9167679924

زیر مطالعہ کتاب " ہم عصر شعری جہات " ڈاکٹر بدر محمدی کی تازہ ترین تصنیف ہے ۔ ڈاکٹر بدر محمدی صاحب ادبی دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں ۔ اس تصنیف کے قبل بھی آپ کی تین تصانیف " بنت فنون کا رشتہ " (مجموعہ غزل) " امعان نظر" (تبصرے) اور "خوشبو کے حوالے" (مجموعہ غزل) بھی منظر عام پر آ کر داد و تحسین کے مرحلے سے گزر چکی ہیں ۔ " ہم عصر شعری جہات" (تنقیدی مضامین )کا مجموعہ ہے جو چوبیس مضامین پر مشتمل ہے ۔ 
بدر محمدی صاحب کی تحریروں کے مطالعہ کے بعد اس بات کا اندازہ بھی بخوبی ہوتا ہے کہ آپ کی فکری صلاحیت ادبی ہونے کے ساتھ ساتھ دینی بھی ہے جس بات کا اندازہ ان کی تحریر "جہت اول" سے ہوتا ہے ۔ 
"تنقید کا تخلیق سے دیرینہ رشتہ ہے ۔ دونوں کے مابین اٹوٹ نسبت روز ازل سے قائم ہے ۔ خالق کائنات نے جب تخلیق آدم کا اعلان کیا تو فرشتوں نے تائید کے بجائے اپنی محدود فکر و فہم کے مطابق تنقید کی ۔ فرشتوں کے ذریعہ شروع کیا گیا یہ سلسلہ انسانوں نے اپنایا اور آج تک اسے برقرار رکھے ہوئے ہیں ۔زندگی کا کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جس میں ہم تنقیدی فیصلے نہیں کرتے ہوں ۔ ہر مقام پر ہر بات میں تنقیدی صلاحیت ہماری رہنمائی کرتی ہے ۔ " ہم عصر شعری جہات" (صفحہ 7) 
بدر محمدی کے حوالے سے ڈاکٹر اسلم حنیف لکھتے ہیں : 
 " بدر محمدی امتزاج پسند تخلیق کار بھی ہیں اور ناقد بھی ۔ ان کی زیر بحث تنقیدی کتاب کا عنوان" ہم عصر شعری جہات " اس بات کا مظہر ہے کہ انہوں نے تنقید کے لئے جن شخصیات کا انتخاب کیا ہے وہ ان کے عہد سے تعلق رکھتے ہیں اور ان سب کا تعلق شاعری سے ہے ۔ 
بدر محمدی کی کتاب میں چوبیس شاعر شامل ہیں زیادہ تر شعرا کی غزل گوئی کو موضوع بحث بنایا گیا ہے مگر غزل کے علاوہ حمد نعت رباعی' قطعہ' دوہا اور نثری رشحات ( نظم ) پر توجہ دینے والوں کو نظر انداز نہیں کیا گیا ہے۔ بدر محمدی نے نے جس صنف کے حوالے سے شعر پر گفتگو کی ہے وہ اس کے ادبی مقام کے تعین میں کامیاب نظر آتے ہیں ۔ "
(صفحہ 14)
" ہم عصر شعری جہات" کے حوالے سے مشہور و معروف ادیب جناب حقانی القاسمی نے" نقد شعر اور بدر محمدی" کے عنوان سے بہت ہی جامع تفصیلی اور معلوماتی تحریر رقم کی ہے جس میں تنقید کے حوالے سے بھی گہرائی میں ڈوب کر سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اور مصنف کے حوالے سے بھی طویل گفتگو موجود ہے جو کہ گیارہ صفحات پر مشتمل ہے ۔ کتاب کے حوالے سے حقانی القاسمی یوں رقم طراز ہیں : 
" ان کے اس تنقیدی مضامین کے مجموعہ میں بیشتر وہ شعرا شامل ہیں جنہیں بڑے ناقدین کی بہت کم سطریں نصیب ہوتی ہوں گی بلکہ بعض تو وہ ہیں جن سے بڑے ناقدین تو دور کی بات ہے متوسط درجے کے ناقدین بھی واقف نہیں ہیں ۔ اس خصوص میں دیکھا جائے تو بدر محمدی نے بہت سے ذروں کو آفتاب و مہتاب بنانے کی کوشش کی ہے ۔ اور اس میں کوئ شک نہیں کہ یہ شعرا اپنی تخلیقی قوتوں کی بنیاد پر عظمتوں ، شہرتوں کے حقدار بھی ہیں ۔ بدر محمدی نے ان شعرا کی شعری تشکیلات اور تخلیقی تفاعلات سے ایک بڑے طبقہ کو روبرو یا روشناس کرانے کی عمدہ کوششکی ہے ۔‌" ( صفحہ 18 )
ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی بدر محمدی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ : 
" بدر محمدی جب تفہیم شعر و ادب کی وادی میں شہسواری کا مظاہرہ کرتے ہیں تو قطعی محسوس نہیں ہوتا ہے کہ کوئ شاعر جو اپنی شاعرانہ افتاد کا مظاہرہ کرتا ہوا اتفاق سے تفہیم شعر و ادب کی وادی میں آگیا ہے ۔ اور نثری جملے تراشتے ہوئے شاعرانہ مکر سے کام لے رہا ہے ۔ یہی وہ خوبی ہے جو ان کے ناقدانہ کردار کو اجالتا ہے اور ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ بدر محمدی آسان راستوں کا مسافر نہیں ہے ان کی زیر طبع کتاب " ہم عصر شعری جہات " کے دیکھنے سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں ادب کے میدان میں مہم جوئی کا شوق ہے ۔ اور وہ تفہیم شعر و ادب کے لیے کسی بھی طرح کا جوکھم اٹھانے کو تیار ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو وہ اپنے ہمعصروں کو اپنے مطالعہ کا حصہ نہیں بناتے ۔ " (صفحہ26)

 ڈاکٹر بدر محمدی نے" سعید رحمانی" کے حمد کے مختلف اشعار کی تشریح بہت ہی عمدہ انداز میں کی ہے جس کے چند اشعار اور تشریح ملاحظہ فرمائیں : 

"(وہ دور ہو کے بھی نزدیک تر ہے شہ رگ سے 
 ہمارے قریٔہ جاں میں قیام اس کا ہے )

 ( اس کے زیر نگیں ہیں تمام ارض و سما
     ہر اک مقام پہ جاری نظام اس کا ہے)

 (اس کی یاد کے پرتو سے زندگی روشن
 یہ میرا دل بھی تو گویا مکاں اسی کا ہے ) "

تشریح : کہا جاتا ہے کہ خدا دکھائی نہیں دیتا ہے ۔ خدا کیسے دکھائی نہیں دیتا ہے ۔ جب کوئی دکھائی نہیں دیتا ہے تو خدا ہی دکھائی دیتا ہے ۔ خدا شہ رگ سے بھی نزدیک ہے ۔ وہ قریٔہ جاں میں قیام کرتا ہے ۔ وہ بلند و بالا ہے ۔ بشر کی سونچ سے اس کا مقام اونچا ہے ۔ سعید رحمانی نے خدا کو جاننے اور پہچاننے کا کام کیا ہے ۔ ( صفحہ 35 )
ظفر انصاری ظفر کے تعلق سے بدر محمدی لکھتے ہیں : 
" ظفر انصاری ظفر ایک زمانے سے حسینہ غزل کے گیسو سنوارنے میں مصروف ہیں ۔ انہوں نے خود کو تبعاً اور فطرتاً شاعر ٹھہرایا ہے اور شاعری سے اپنا تعلق دیرینہ بتاتے ہوئے اسے بچپن کا ساتھی کہا ہے ۔ ظفر انصاری کی غزل گوئی سے دلچسپی ہونے اور اچھی غزلیں کہنے کا اعتراف متعدد صاحبان نظر نے کیا ہے ۔ ان کے یہاں موضوعات کی فراوانی ہے مگر سارے خیالات غزل کے لیے موزوں نہیں لہذا انہوں نے دوہا کی طرف رجوع کیا ۔
 ( صفحہ 90 )
عطا عابدی کی" زندگی زندگی اور زندگی" کے عنوان سے ڈاکٹر بدر محمدی نے بہت ہی تفصیل کے ساتھ عطا عابدی کے حالات اور ان کی شاعری خصوصاً نظم نگاری کے حوالے سے عنوان کے ساتھ اس کے پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ عطا عابدی کے تعلق سے بدر محمدی لکھتے ہیں : 
" ان میں خود اعتمادی اور جواں عزم و حوصلہ ہے۔ عطا عابدی کا شمار نامساعد حالات میں نکھرنے والے شعرا میں ہے ۔ ان کی حقیقت یہ ہے کہ وہ خوابوں کی طرح ٹوٹے ہوۓ ہیں تاہم ان کی سالمیت برقرار ہے ۔ انہوں نے اپنی زندگی کے صحت مند تجربات کو ہنر مندی سے پیش کیا ہے ان کی شاعری تجربات کی شاعری ہے شخصیت اور زندگی کا منظر نامہ ہے ۔ وہ اپنے جگر میں جہاں کا درد رکھتے ہیں ۔ ( صفحہ 114 )
" حمید ویشالوی بحیثیت استاد شاعر " کے عنوان سے اپنی تحریر میں بدر محمدی لکھتے ہیں کہ : " ویشالی کو کسی زمانہ میں شعر وادب کی ایک زرخیز زمین ہونے کی حیثیت حاصل تھی۔یہاں عبدالطیف اوج کے علا وہ ریاض حسن خاں خیال ، حکیم حادی حسن نایاب ، احسان حسن خاں احسان ، جمیل سلطان پوری ، خیر وسطوی ، حسرت نعمانی اور شیدا وسطوی جیسے شعراء  گلشن شعر و شخن کی آبیاری کر چکے ہیں ۔  اس گلستان سخن کو سرسبز و شاداب کرنے والوں میں اور  بھی نام اہم ہیں مگر ان میں خصوصیت کا حامل جو نام ہے وہ حمید ویشالوی کا ہے ۔ ویشالی میں اگر داغ کے شاگرد کی  سکونت رہی ہے تو حمید ویشالوی جیسے   استاد کا تعلق بھی اس دیار سے رہا ہے ۔ لفظیات و موضوعات دونوں اعتبار سے ندرت اور جدت ان کے کمال ہنر سے عبارت ہے لیکن افسوس کہ انہیں وہ شہرت نہ مل سکی جس کے وہ حقدار تھے ۔ " ( صفحہ 135 )
چھوٹی سی تحریر میں یہ ممکن نہیں ہے کہ تمام تحریروں کا احاطہ کیا جاۓ اس لیے قارئین بقیہ مضامین کے عنوانات ملاحظہ فرمائیں : 
فرحت حسین خوشدل کی دعائیہ نظمیں ، نوید کی نثری نعتوں پر ایک نظر ، طالب القادری کی نعتیہ شاعری ، ناوک حمزہ پوری کی نظمیہ رباعیات ، حافظ کرناٹکی کی قطعات نگاری ، ف س اعجاز کی چند پابند نظمیں ، اندھیرے میں نور کی نظمیں ، ظہیر صدیقی کا شاعرانہ اختصاص ، شگفتہ سہسرامی کی شعری شگفتگی ، صبا نقوی کی شعری جمالیات، ضیا عظیم آبادی کی شاعرانہ ضیاپاشی ، اوج ثریا کے شاعر کا زمینی وابستگی ، علیم الدین علیم کی غزلوں کا رنگ و آہنگ ، ساۓ ببول کے ، اور اظہر نیر ، لفظ لفظ آئینہ اور اسکی تصویر ، تیکھے لہجے کا شاعر : ظفر صدیقی ، اشرف یعقوبی کا شعری آہنگ ، منظور عادل کا سرمایہ سخن ، مینو بخشی کی اردو شاعری ، "کرب نارسائی" کی شاعرہ : شہناز سازی  ان تمام عنوان سے اس کتاب میں مضامین شامل ہیں ۔ 
ہم عصر شعری جہات میں بدر محمدی نے معروف کم معروف اور غیر معروف تمام طرح کے شعرا اور ان کے کلام کے حوالے سے بات کی ہے اور  ان کو قارئین سے رو برو کرا کر ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے جس کے لیے بدر محمدی صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ ان کی اس کاوش کو ادبی دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جایے گا اور باقی دوسری کتابوں کی طرح یہ کتاب بھی مقبول ہوگی ۔ 
216 صفحات پر مشتمل یہ کتاب قومی کونسل کے مالی تعاون سے شائع ہوئی ہے جس کی قیمت صرف 138 روپیہ ہے ۔ کتاب کا سر ورق بھی دلکش ہے بیک کاور پر پروفیسر نجم الہدی ، سابق صدر شعبہ اردو بہار یونیورسٹی مظفرپور کے تاثرات قلمبند ہیں ۔ پہلے فلیپ پر بدر محمدی کے " کوائف " موجود ہیں جبکہ دوسرے فلیپ پر شفیع مشہدی ، صدر نشین صابق اردو مشاورتی کمیٹی حکومت بہار کے تاثرات درج ہیں ۔ کتاب کا انتساب ڈاکٹر بدر محمدی نے ان بہی خواہوں کے نام کیا ہے جنہوں نے ان کو تنقید کی طرف راغب کیا ہے ۔ حصول کتاب کے لیے مندرجہ ذیل پتے پر قارئین رجوع کر سکتے ہیں ۔ 
بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ 4 ، منظور عادل 28 بی میکلو ڈاسٹریٹ کولکاتا 17، تنظیم ارباب ادب چاند پور فتح ویشالی یا پھر مصنف کے موبائل نمبر  9939311612 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔

سری لنکا : دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو__مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

سری لنکا : دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو__
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
سری لنکا ایک چھوٹا سا ملک ہے، ہندوستان کے نقشے میں چھوٹا ساجو لٹکا ہوا نظر آتا ہے وہی سری لنکا ہے، سری لنکا کی اہمیت ہندوؤں کے نزدیک ہندوستانی دیو مالائی روایات کے مطابق سیتا جی کے اغوا کی کہانی سے جڑے ہونے کی وجہ سے ہے، راون، ہنومان، رام اور سیتا اس کہانی کے مرکزی کردار ہیں اور جس لڑائی کی وجہ سے سونے کی لنکا کو جلا کر خاکستر کر دیا گیا تھا ، اس کا مظاہرہ ہر سال ’’راون دہن‘‘ کے ذریعہ ہر چھوٹے بڑے شہر اور گاؤں میں کیا جاتا ہے، ہندوستان اور سری لنکا کے درمیان رام تالاب کی کھدائی کا نزاع بھی قدیم ہے، یہاں ہندوستانی نزاد تامل اور سری لنکا کے سنہالیوں کے درمیان خون ریز لڑائیاں ہوتی رہی ہیں، یہ لڑائیاں ۱۹۸۳ء سے ۲۰۰۹ء تک جاری رہیں۔
 سری لنکا ۱۸۱۵ء سے برطانیہ کی نو آبادی تھی، اسے ۴؍ فروری۱۹۴۸ء میں آزادی نصیب ہوئی، یہاں سنہالیوں کی آبادی ۹ ئ۷۴؍ فی صد اور تاملوں کی ۲ء ۱۱؍ فی صد ہے، مذہب کی بنیاد پر یہاں کی آبادی کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ یہاںبدھسٹوں کی آبادی ۲ء ۷۰، ہندوؤں کی ۶ء ۱۲؍ مسلمانوں کی ۷ء ۹ ؍ اور عیسائیوں کی ۴ء ۷؍ فی صد ہے،سری لنکا کا پورا نام ڈیموکریٹک سوشلسٹ ری پبلک ہے، گذشتہ ستر سالوں میں وقفے وفقے سے دائیں اور بائیں بازو کے درمیان یہاں کی حکومت ادلتی بدلتی رہی ہے ، سری لنکا فریڈم پارٹی کی بنیاد بندرانا ئیکے نے ڈالی تھی، تین سال انہوں نے حکومت بھی کی ،پھر انہیں قتل کر دیا گیا، یہاں سری ما بندر انا ئیکے نے ۱۹۷۰ء سے ۱۹۷۷ء تک حکومت کی، ۱۹۷۷ء سے ۱۹۸۹ء تک بارہ سالہ اقتدار جے وردھنے کے پاس رہا، وزیر اعظم کی حیثیت سے ملک کی باگ ڈور ایک سال اور صدر کی حیثیت سے گیارہ سال ان کے ہاتھ رہی، بائیں بازو کی یونائیٹیڈ نیشنل پارٹی کے قائد کی حیثیت سے چندریکا کمارا تنگا نے ۱۹۹۴ء سے ۲۰۰۰ء تک بحیثیت صدر کام کیااس درمیان وزیر اعظم ان کی والدہ رہیں، ۲۰۰۶ء میں ایک بڑی تبدیلی یہ ہوئی کہ سری لنکا فریڈم پارٹی کی قیادت جندریکا کے ہاتھ سے نکل کر مہندرا راج پکشے کے ہاتھ آگئی اس وقت سے سیاست میں پکشے خاندان کا عروج شروع ہوا، اور دھیرے دھیرے یہ سری لنکا کا سب سے با وزن ، با اختیار اور با اثر خاندان بن گیا، ۲۰۱۸ء میں یہ خاندان پھر سے بر سر اقتدار آ گیا اوراتفاق سے دو حقیقی بھائی یہاں کی سیاست پر قابض ہو گیے، وزیر اعظم مہنداراج پکشے اور صدر گوبابا راج پکشے کے ساتھ اسی خاندان کا ایک فرد وزیر خزانہ بھی بن گیا،اور انہوں نے بھاجپا کی طرح وہاں اکثریت کے ووٹوں کی سیاست شروع کر دی؛ تاکہ ان کا اقتدار دیر تک باقی رہے ، جس نے حکومت کی مخالفت میں کچھ لکھایا بولا اسے گولی مار دی گئی ، یا اسے مجبور ہو کر ملک بدر ہوجانا پڑا، لاسنتا وکرما تنگے، پکشے حکومت پر تنقید کرتے رہتے تھے، انہیں گولی مار دی گئی ، بدھسٹ مذہبی پیشواؤں نے حلال گوشت کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا، عوامی مقامات پر برقع پہن کر جانے پر پابندی لگادی گئی، مسجدوں پر حملے کیے گیے، ہندوستان کے یونیفارم سول کوڈ کی طرح وہاں کی حکومت نے ’’ایک ملک ایک قانون‘‘ کی ترتیب کے لیے جو کمیٹی بنائی اس کی قیادت مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے والے شخص ’’گالا گوداتا گنا نا سارا‘‘ کو سونپ دی گئی، ملک کی معیشت بدحال ہوتی رہی اور حکومت سنہالیوں کو بدھ ازم کی گولیاں دے دے کر سلاتی رہی ، سنہالی خوش تھے کہ ملک بدھسٹ بن رہا ہے، اوردیگر مذاہب کے لوگ دوسرے درجہ کے شہری بنتے جا رہے ہیں ، جیسا کہ ہندوستان کے غیر مسلم اور فرقہ پرست سوچتے ہیں، آخر میں نوبت یہاں تک پہونچی کہ ملک کنگال ہو گیا، اب لوگ روٹی کے لیے پریشان ہیں، جنگ شروع گئی، ضروری غذائی اجناس اور پٹرول وڈیزل خریدنے کے لیے مارکیٹ میں روپے نہیں رہے، اس لیے ، پیٹ کی آگ باہر نکل کر عمارتوں تک منتقل ہو گئی ہے، وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر حملے ہوئے ، ایک وزیر کی خود کشی کی خبر بھی سوشل میڈیا پر آ رہی تھی، حالات اس قدر خراب ہوئے کہ پوری کابینہ کو مستعفی ہوجانا پڑا، اوروزیر اعظم مہنداراج پکشے کو استعفیٰ کے بعد زندگی بچانے کے لیے اپنے خاندان کے ساتھ کولمبو سے سینکڑوں میل دور ٹرنکوں مالی کے ایک بحری اڈہ میں پناہ گزیں ہوجانا پڑا، صدر گوٹ بابا راج پکشے نے نئے وزیر اعظم تہتر سالہ سیاسی رہنما رانیل وکرما سنگھے کا تقرر کیا، یہ پانچ بار پہلے بھی مختلف موقعوں پر وزیر اعظم رہ چکے ہیں،وکرما سنگھے نے۱۹۹۳ء سے ۱۹۹۴ء ، ۲۰۰۱ء سے ۲۰۰۴ئ، ۲۰۱۵ء سے ۲۰۱۸ء اور ۲۰۱۸ء سے ۲۰۱۹ء تک بحیثیت وزیر اعظم ملک کی خدمت کی ہے،  وہ۱۹۹۴ء سے یو ان پی کے قائد ہیں، ۱۹۹۴ء سے ۲۰۰۱ء اور ۲۰۰۴ء سے ۲۰۱۵ء تک حزب مخالف کے لیڈر رہے ہیں، ان کے پاس سری لنکا کی سیاست وقیادت کا طویل تجربہ ہے، اس کی وجہ سے لوگوں کو امید ہے کہ وہ سری لنکا کو موجودہ بحران سے نکالنے میں کامیاب ہوں گے، صدر نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ حکومت میں نو جوانوں کو موقع دیا جائے گا، اور نئی حکومت میں پکشے خاندان کا کوئی فرد شامل نہیں ہوگا۔
سری لنکا چین کے قرض میں سر سے پاؤں تک ڈوبا ہوا ہے، بڑا علاقہ اس کے پاس لیز پر ہے، امریکہ سری لنکا میں چین کی بڑھتی سرگرمیوں کا مخالف ہے، ہندوستان بھی اس معاملہ میں امریکہ کی رائے سے اتفاق کرتا ہے، کیونکہ چین سے ہندوستان کے تعلقات زمانہ دراز سے خراب ہیں، اور اب بھی وہ ہندوستان کو وقفے وقفے سے آنکھ دکھاتا رہتا ہے، وہاں کی معیشت کے برباد کرنے میں پکشے برادران کا بڑا ہاتھ رہا ہے، ۲۰۱۸ء میں بر سر اقتدار آنے کے بعد تاجروں کو خوش کرنے کے لیے ٹیکسوں میں بھاری کمی کر دی گئی ،جبکہ چین کے قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا گیا، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے سری لنکا نے جو قرض لیا تھا اس کے ویلو ایڈیڈ ٹیکس (VAT)کو مالیاتی فنڈ نے بڑھا کر گیارہ فی صد سے پندرہ فی صد کر دیا، پیدا وار میں کمی آئی تو بجٹ کا خسارہ بڑھنے لگا اور قرض کی مقدار بھی بڑھتی چلی گئی، اس وقت ملک کا قرض جی ڈی پی(GDP) کا ڈیڑھ سو فی صد ہے، ایسے میں اب اسے قرض دینے کو کوئی تیار نہیں، بعض ملک انسانی بنیادوں پر مدد کر رہے ہیں، جن میں ایک ہندوستان بھی ہے، جنوری ۲۰۲۲ء سے اب تک ہندوستان تین ملین امریکی ڈالر سری لنکا کو دے چکا ہے۔ لیکن وہاں کے اقتصادی بحران پر قابوپانے کے لیے دوسرے ملکوں کو بھی آگے آنے کی ضرورت ہے۔
 سری لنکا کے موجودہ حالات ذرا تفصیل سے اس لیے پیش کیے گیے کہ ہندوستان بھی سری لنکا کی طرح اقتصادی بحران کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے ، یہاں بھی اسی(۸۰) اور بیس(۲۰) فی صد کا نعرہ لگا کر ہندوتوا کے راہ پر ایک خاص مذہب کے لوگوں کو ڈالا جا رہا ہے اور یہاں کی بڑی اکثریت مطمئن ہے کہ ملک ہندو راشٹر کی طرف بڑھ رہا ہے، اور اقلیتوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کے لیے منصوبہ بند انداز میں کام ہو رہا ہے، یہی سب کچھ سری لنکا میں ہو رہا تھا، لیکن جب آگ لگی تو پورا ملک اس کی زد میں آگیا، خانہ جنگی روکنے کے لیے وکرما سنگھے کو جو محنت کرنی پڑ رہی ہے، اس سے کہیں زیادہ ہندوستان کو قابو میں رکھنے کے لیے کرنی پڑے گی، کیوں کہ ہندوستان بہت بڑا ملک ہے، سری لنکا کی آبادی تو صرف سوا دو کروڑ ہے، ہندوستان کی کثیر آبادی کا اس سے موازنہ کیا ہی نہیں جا سکتا، اس لیے ہندوستانی قیادت کو سری لنکا کے حالات سے سبق لے کر اپنا قبلہ کعبہ درست کر لینا چاہیے، ورنہ 
ع-کسی دیوار نے سیل جنوں روکا نہیں اب تک

سی،ایم،بی،کالج،گھوگھرڈیہا مدھوبنی میں عالمی یوم انسداد تمباکو نوشی تقریب کا انعقاد__

سی،ایم،بی،کالج،گھوگھرڈیہا مدھوبنی میں عالمی یوم انسداد تمباکو نوشی تقریب کا انعقاد__
   عہد کریں تمباکو نوشی کل سے نہیں آ ج ہی سے ترک کریں گے۔ڈاکٹر عبد الودود قاسمی____
31/مئی مدھوبنی ( پریس ریلیز )عالمی  تمباکونوشی ڈے کی مناسبت سے سی، ایم،بی کالج گھو گھر ڈیہا مدھوبنی میں قائم این، ایس،ایس،اکائی کے زیر اہتمام" عالمی یوم انسداد تمباکو نوشی" پر مشتمل ایک خاص محفل منعقد کی گئی. اس پروگرام کی صدارت کالج کے پرنسپل ڈاکٹر کیرتن ساہو نے کی جب کہ نظامت کے فرائص ڈاکٹر عبدالودود قاسمی( پروگرام آفیسر ان ایس ایس )نے بحسن وخوبی انجام دی۔ پروگرام کے آغاز میں آج کے دن کو منانے کی اہمیت و افادیت اور اس کے تاریخی پس منظر کو بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر قاسمی نے کہا کہ "عالمی ادارہ صحت" کے زیر اہتمام دنیا بھر میں ہر سال 31/ مئی کو انسداد  تمباکو نوشی کا عالمی دن ایک خاص مقصد کے پیش نظر منایا جاتا ہے۔تمباکو نوشی ہمارے ماحول، معاشرہ اور انسانیت کے لیے خطرہ اور زہرہلاہل ہے۔ آج دنیا بھر میں تمباکو نوشی کے مختلف ذرائع ہیں اور سب کے سب مہلک ومضر ہیں ۔ماحول اور انسانی جان کی محافاظت کی نیت سے آج کے دن کا انعقاد کیا جانا شروع ہوا۔(WHO)کے رکن ممالک نے ایک قرارداد منظور کی تھی،جس کے ذریعے 17 اپریل 1988ء سے ایک دن تمباکو نوشی کے انسداد کے لیے منانے کا فیصلہ لیا گیا، اس قرارداد کے پاس ہونے کے بعد سے ہی ہر سال 31 مئی کو "یوم انسداد تمباکو ڈے" منایا جاتا ہے اس موقع پر لوگوں کو تمباکو نوشی کے مضر اثرات سے بچنے اور بیدار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے. اس پروگرام میں این،ایس،ایس کے رضاکار طلباء و طالبات میں سے چند رضاکاروں نے دیے گئے عنوان" تمباکو نوشی صحت کے لیے مہلک ہے" پر تقاریر بھی پیش کیے اس مقابلہ میں اول دوم اور سوم مقام حاصل کرنے والی طالبات کو این،ایس،ایس،کی سند بھی دی گئی ۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر کیرتن ساہو نے کہا کہ تمباکو نوشی نہایت ہی مضر اور مہلک ہے تمباکو نوشی سے جہاں اس کے استعمال کرنے والے اس کی زد میں آ تے ہیں وہیں تمباکو نوشی برے اثرات ہمارے ماحول پر بھی پڑتے ہیں اور اس کی زد میں وہ لوگ بھی آ جاتے ہیں جو تمباکو نوشی نہیں کرتے یہ بہت ہی بری اور مہلک چیز ہے اس سے بچنا چاہئے اور اپنے سماج میں بھی اس سے بچنے کے لئے لوگوں کو بیدار کرنے کی خوب کوشش کر نی چاہئے میں اپنے کالج کے این ایس ایس کے سارے رضاکار طلباء وطالبات سے گذارش کرونگا کہ آپ سب مل کر سماج کو بیدار کرنے کی بھر پور کوشش کریں۔  تقریب سے خطاب کرنے والے دیگر لوگوں میں پروفیسر نتیش کمار وردھن، ڈاکٹر نیروپما سوربھی لکڑا،ڈاکٹر رتن کماری جھا، ڈاکٹر گجیندر بھاردواج، ڈاکٹر چندر موہن پر بھا کر، ڈاکٹر ہری شنکر رائے، کے نام اہم ہیں ہیں اس تقریب میں شرکت کرنے والوں میں دلیپ کمار،ودیا نند،اشا کماری،سچیدانند،جیتیندر کمار یادو (صدر طلبا یونین،سی،ایم،بی،کالج۔)پپو کمار یادو،پوجاکماری,پشپا کمار ی،کے نام اہم ہیں۔ناظم محفل ڈاکٹر عبد الودود قاسمی کے کلمات تشکر پر محفل کے خاتمی کا اعلان کیا گیا__

منگل, مئی 31, 2022

فری ریچارج والے لنک پر کلک کرنا بہت خطرناک، پولس نے جاری کیا الرٹ، سبھی لوگ چوکنا ہوجائیں

فری ریچارج والے لنک پر کلک کرنا بہت خطرناک، پولس نے جاری کیا الرٹ، سبھی لوگ چوکنا ہوجائیں

Latest news in urdu for tata ipl free reacharge fraud link
Latest news in urdu for tata ipl free reacharge fraud link

سورت :- ٹاٹا آئی پی ایل میں گجرات ٹائٹنز کی جیت کی خوشی میں سائبر سیل نے تمام ہندوستانیوں کو 599 کا 3 ماہ کا مفت ریچارج دینے کا بہانہ کرکے دھوکہ بازوں کے خلاف الرٹ جاری کیا ہے۔ حال ہی میں گجرات ٹائٹنز نے ٹاٹا آئی پی ایل کا فائنل میچ جیتا۔ کچھ سماج دشمن عناصر نے پیغام کے ساتھ ایک لنک وائرل کر دیا ہے۔ پیغام میں کہا گیا ہے کہ ٹاٹا خوشی سے مفت ریچارج کی پیشکش کر رہا ہے۔

بتایا جا رہا ہے کہ اس لنک پر کلک کرنے سے کئی لوگوں کے اکاؤنٹ سے پیسے کاٹ لیے گئے ہیں۔ سائبر کرائم پولیس نے لوگوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ ایسے لنکس پر بھروسہ نہ کریں۔

کیونک ایسے لنک میں ایک چھپا ہوا لنک ہوتا ہے جب آپ اس پر کلک کرتے ہیں تو مطلب ہوتا ہیکہ آپ اسکے ذریعہ اپنے اکاؤنٹ کی سبھی پرمیشن انکو دے رہے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بعض اکاؤنٹ سے کچھ روپے اور بعض اکاؤنٹ پورے کے پورے خالی ہوجاتے ہیں

خود بھی اس سے بچیں اور اس کو خوب وائرل کرکے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس دھوکہ سے بچائیں

قرآن کی آیت اقراء کا مفہوم سمجھیں نوجوان اور اپنی زندگی کو علم کی شمع سے روشن کریں : ڈاکٹر ریحان اختر

قرآن کی آیت اقراء کا مفہوم سمجھیں نوجوان اور اپنی زندگی کو علم کی شمع سے روشن کریں : ڈاکٹر ریحان اختر

شاہین اکیڈمی کی شاخ کی افتتاحی تقریب سے مقررین کا اظہار خیال

ابوشحمہ انصاری، علی گڑھ

جو قومیں اپنے اسلاف کی تعلیمات کو بھلا دیتی ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی، سر سیّد احمد خان کا مشن صرف مدرسہ کا قیام نہیں ایک ایسے ادارے کی سوچ تھی جس کی آغوش میں آ کے ہندوستان اور بیرون ہند کے نونہالوں کو مستقبل بنانے کا موقع دوسرے بڑے اداروں سے بہتر وسائل کے ساتھ مہیّا ہو سکے۔ اسی ضمن میں سر سیّد نے تمام اختلافات کی آندھیوں کو اپنے رفقاء کے ساتھ برداشت کیا تب جا کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا لہلہاتا ہوا سمندر جانے کتنوں کی علمی تشنگی کو بجھانے کا کام انجام دے رہی ہے، آج کوئی ایسی شاخ نہیں جو اس ادارے میں موجود نا ہو، فخر کی بات یہ ہے کہ سر سیّد احمد خان جیسی شخصیت سے متاثر شاہین اکیڈمی کے چیئرمین ڈاکٹر عبد القدیر نے علیگڑھ کے طلبا و طالبات کے لیئے آسان طرز کی نیٹ اور دوسرے مسابقتی امتحانات میں کامیابی کے لیے کوشاں ہیں۔ اس اکیڈمی کی افتتاحی تقریب کا انعقاد سٹی مال کے کرسٹل اوک آڈیٹوریم میں منعقد ہوا جس میں علی گڑھ اور دوسرے اضلاع کے تعلیمی مراکز سے جڑے ذی علم مہمانان نے شرکت کی۔

سیّد نفیس الحسن نے تلاوت کلام پاک سے تقریب کا آغاز کیا اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر ریحان اختر اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ دینیات (اے ایم یو) نے بہ حسن و خوبی انجام دیئے اور سر سیّد احمد خان کی ابتدائی کاوش سے لے کر عہد حاضر تک کی کامیابیوں کا تذکرہ انتہائی مدلل طریقے سے حاضرین کے سامنے پیش کیا۔ آر بی گروپ آف ایجوکیشن کا اجمالی تعارف تعلیمِ اسلام کانفرنس کے چیف کنوینر محمد اظہر نور اعظمی نے پیش کیا۔

شعبہ طبقات الارض کی چیئر مین ڈاکٹر کنور فراہیم خان نے "علم دین کی ضرورت اور آج کی نسل" کے عنوان سے انتہائی گہرائی لیے ہوئے خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ اللہ کی پہلی وحی "اقراء" اسی لئے آئی کہ قوم اس کے مفہوم کو سمجھے اور علم کی اہمیت گردانے سچ تو یہ ہے کہ علم نوری شمع ہے اور اسکو جس قدر جلاتے رہیں روشنی کبھی مدّھم نہیں پڑ سکتی۔ بانی شاہین اکیڈمی ڈاکٹر عبد القدیر نے بتایا کہ بیس ہزار سے تجاوز طلباء و طالبات کی فہرست اس بات کی غماز ہے کہ ہم تعلیم کو مکمل ایمانداری کے ساتھ طلباء و طالبات تک پہنچاتے ہیں اور تب تک یہ سلسلہ چلتا ہے جب تک وہ کامیاب نہیں ہو جاتا۔ ہمارے یہاں زیرِ تعلیمِ طلباء باہر کہیں بھی کوچنگ نہیں لیتا کیوں کہ ہم خود اس لائق تعلیم دے دیتے ہیں کہ باہر کوئی مزید ضرورت نہیں ہوتی، دنیاوی علم کے علاوہ دینی تعلیم کہ بیڑا بھی شاہین اکیڈمی نے بہ حسن خوبی اٹھایا ہوا ہے اور کئی حفاظ قرآن میدانِ عمل میں نمایاں کارکردگی پیش کر رہے ہیں۔

مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی کی نائب صدر ڈاکٹر ریحان فاروق نے بھی اپنے ناصحانہ کلمات سے نوازا اور کہا کہ شاہین اکیڈمی کہیں نا کہیں سر سیّد احمد خان کے خوابوں کی تعبیر کا ایک حصّہ ہے کیوں کہ اس کا بھی مقصد وہی ہے جو سر سیّد احمد خان کا تھا۔ بلا تفریق مذہب و ملت سبھی کے لئے بہتر تعلیم ہمارا مقصد ہے۔ پہلا سیشن سات جون سے شروع ہوگا۔ واضح رہے کہ شاہین اکیڈمی تیرہ ریاست میں 64 الگ الگ برانچ کے ساتھ علمی شمع روشن کر رہی ہے۔ اس موقع پر شہزاد عالم برنی، حاجی رضوان بیگ ، اے ایم یو موذك استاد جونی فوسٹر، عامل برکاتی، کنور عارف، ناصر خان، سیّد شاہ نواز علی، ڈاکٹر عبد المنان ، مولانا عبید اللہ، گلناز ، شیریں حسن، فیوچر پیراڈائز کوچنگ سینٹر سے شائستہ حسن، فرّخ وغیرہ موجود رہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...