Powered By Blogger

اتوار, جون 05, 2022

بی جے پی کے ترجمان نُپور شرما کے ذریعے کیے گئے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نازیبا تبصرہ ناقابل برداشت ہے

بی جے پی کے ترجمان نُپور شرما کے ذریعے کیے گئے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نازیبا تبصرہ ناقابل برداشت ہے

بی جے پی کے ترجمان نُپور شرما کے ذریعے کیے گئے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نازیبا تبصرہ ناقابل برداشت ہے۔ کسی بھی ٹی وی ڈیبیٹ میں ان پر ایسے تبصرے سے بچنا چاہیے۔ بھارت کے کرڑوں ہندو بھائی پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام کرتے ہیں اور کلمہ گو مسلمان دل و جان سے ان کی عزت کرتا ہے۔ Unparliamentary Comment on the Prophet is Unacceptable

کانپور، اترپردیش: 3 جون بروز جمعہ کو کانپور میں ہونے والے دو فریقوں میں پتھر بازی و تشدد کے واقعات Communal Violence in Kanpur سامنے آئے جس کے بعد ریاست کے متعدد سیاسی رہنماؤں کا رد عمل سامنے آیا ہے۔ اترپردیش حج کمیٹی کے چیئرمین محسن رضا نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے کردار پر سوالیہ نشان قائم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس طریقے سے سی اے اے اور این آر سی مظاہرے میں ہونے والی پتھر بازی میں پی ایف آئی کا کردار سامنے آیا تھا اس طریقے سے کانپور میں ہونے والے تشدد میں پی ایف آئی شامل ہوسکتی ہے اس جہت سے بھی جانچ ہونی چاہیے۔ Unparliamentary Comment on the Prophet is Unacceptable

نبی کریم ﷺ پر غیر پارلیمانی تبصرہ ناقابل قبول: محسن رضا ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کانپور کی پولیس انتظامیہ نے ایک بہت بڑے تشدد کو روک کر اپنی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا ہے یہ تشدد ایسے وقت میں کانپور میں رونما ہوا ہے جب بھارت کے صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور وزیر اعظم نریندر مودی کان پور میں موجود تھے۔ پولیس انتظامیہ دیہی علاقوں میں موجود تھی تاہم شہری علاقوں میں پولیس انتظامیہ کی تعداد کم تھی اس کے باوجود بھی مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حالات کو قابو میں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی شرپسند عناصر ہیں ان پر سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔ حکومت اس معاملے میں پوری طریقے سے مستعد ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بی جے پی کے ترجمان نُپور شرما کے ذریعے کیے گئے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نازیبا تبصرہ ناقابل برداشت ہے۔ کسی بھی ٹی وی ڈیبیٹ میں ان پر ایسے تبصرے سے بچنا چاہیے۔ بھارت کے کرڑوں ہندو بھائی پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام کرتے ہیں اور کلمہ گو مسلمان دل و جان سے عزت کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اگر کوئی بھی قانون ہاتھ میں لے گا تو اس پر قانونی کارروائی کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں

واضح رہے کہ کانپور میں نماز جمعہ کے بعد اقلیتی طبقہ کے کچھ افراد جمعہ بعد بی جے پی کی ترجمان نپور شرما کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے جس کے بعد دکان بند کرانے کے سلسلے میں دو فریقوں میں پتھر بازی ہونی شروع ہوئی اور یہ معاملہ طول پکڑ گیا اور شہر کے متعدد علاقوں میں تشدد ہوئے۔ جس کو پولیس نے قابو میں کیا اب تک متعدد افراد کی گرفتاری ہوچکی ہے۔

فرقہ واریت کے خلاف دو اجتماعات

فرقہ واریت کے خلاف دو اجتماعات

پروفیسر اخترالواسع،نئی دہلی

اتوار (29مئی)کو دہلی سے دیوبند تک مسلمانوں کا موجودہ حالات میں کیالائحہ عمل ہو؟ فرقہ پرستوں اور اشرار کے خلاف ان کا کیا رویہ ہو؟ اس پر دو اہم اجتماعات میں غور و خوض ہوا۔

دیوبند کا اجتماع مولانا سید محمود اسعد مدنی کی قیادت والی جمعیۃ علماء ہند کے عہدیداروں کا دو روزہ اجلاس تھا اور اس کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ اس میں حضرت مولانا سید ارشد مدنی جو کہ جمعیۃ علماء ہند کے دوسرے گٹ کے سربراہ ہیں وہ بھی نہ صرف موجود تھے بلکہ انہوں نے دونوں جمعیۃ کے اتحاد اور انضمام کا جو اشارہ دیا وہ اس اجلاس میں موجود اور غیرموجود ہر شخص کے دل کی آواز تھی جس کا بلند و بانگ نعرہ ہائے تکبیر سے استقبال کیا گیا۔

ایک طرف مولانا سید ارشد مدنی صاحب نے یہ رہنمائی کی کہ موجودہ صورتحال میں مسلمانوں کا کیا طرز عمل ہونا چاہیے تو دوسری طرف مولانا سید محمود اسعد مدنی نے انتہائی جرأت اور فراست کے ساتھ بالکل صحیح کہا کہ مسلمان خوف، مایوسی اور جذباتیت سے دور رہ کر اپنے مستقبل کے تعمیر کی فکر کریں۔ وہیں مولانا ارشد مدنی صاحب نے بالکل صحیح کہا کہ ہماری لڑائی فرقہ پرست طاقتوں سے ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ہندوستان ابھی بھی عدل و انصاف کو چاہنے والوں سے خالی نہیں ہے۔ مولانا محمود مدنی نے واضح لفظوں میں کہا کہ ملک کے لیے ہماری جو ذمہ داری ہے ہم اسے ضرور نبھائیں گے۔ اگر اس ملک کی حفاظت کے لیے ہماری جان بھی جائے گی تو یہ ہمارے لیے سعادت کی بات ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی کو ہماری شناخت اور وطن سے ہماری محبت برداشت نہیںہے تو وہ کہیں اور چلے جائیں۔

میں یہ کہتا ہوں کہ یہ وطن ہمارا ہے اور ہماری سوچ اور فکر کی اکثریت یہاں رہتی ہے۔ اس اجلاس میں کشمیر سے کنیا کماری تک اور مشرق سے مغرب تک ہندوستان کے ہر علاقے سے جمعیۃ کے عہدیداران شامل ہوئے۔ اس اجلاس میں مسلم پرسنل لاء، برادرانِ وطن کے ساتھ ہم آہنگی اور ان کی غلط فہمیوں کے ازالے کے لئے طویل مدتی پالیسی، گیان واپی اور متھرا کی عیدگاہ پر بہت معنی خیز انداز سے اور وطن دوستی کے جذبے کے ساتھ قرار دادیں منظور ہوئیں جس میں یہ کہا گیا کہ ایودھیا تنازعہ کی وجہ سے پہلے ہی سماجی ہم آہنگی اور فرقہ وارانہ امن و امان کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ اب نئے تنازعات کے ذریعے محاذ آرائی اور اکثریتی غلبے کی منفی سیاست کو نئے مواقع فراہم نہ کیے جائیں۔

اس اجلاس میں جہاں ایک طرف اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق تجویز میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ جلد از جلد کوئی ایسا قانون وضع کرے جس سے نظم و نسق کی بے بسی اور لاچاری ختم ہو اور اس طرح شرمناک اور ناقابل بیان حرکتوں کا انسداد ہو اور ہر مذہب کے پیشواؤں کا احترام محفوظ رہنا چاہیے۔

اس اجلاس میں ہندی زبان کے حوالے سے بھی ایک بہت مثبت تجویز پاس کی گئی جس میں تمام مسلمانوں بالخصوص اہل علم حضرات سے اپیل کی گئی کہ اردو کے ساتھ ہندی اور علاقائی زبانوں کا استعمال کریں اور سب سے اہم بات یہ کہ تمام ائمہ اور واعظین سے یہ اپیل کی گئی کہ وہ اپنے خطبات میں مواعظ حسنہ کو ہندی میں بھی دیں تاکہ سب تک اسلام کی حقانیت اور انسان دوستی کا پیغام پہنچ سکے۔

جمعیۃ علماء ہند (مولانا سید محمود اسعد مدنی گروپ) کے اس اجلاس نے میرا خیال یہ ہے کہ ان تمام لوگوں کے شکوے شکایت کو دور کر دیا ہوگا جو مسلمانوں کی جماعتوں اورعلماء کرام سے ایک واضح رول کے متقاضی ہیں۔

دیوبند کے اس اجتماع میں مولاناسید ارشد مدنی کی پیرانہ سالی اور مولانا سید محمود اسعد مدنی کی جواں سالی نے اپنے جوش، جذبے، عزم اور حوصلے سے جو اثرات مرتب کئے ہیں وہ انشاء اللہ آنے والے دنوںمیں بہتر نتائج مرتب کریں گے۔ ویسے بھی مولانا ارشد مدنی ہوں یا مولانا محمود مدنی، دونوں اپنے اپنے انداز سے جس طرح جیلوں میں قید و بند کی زندگی گزار رہے معصوم اور مظلوم لوگوں کی قانونی چارہ جوئی کر رہے ہیں، ان کی رہائی کو یقینی بنا رہے ہیں وہ انتہائی قابل ستائش ہے۔

دہلی میں سابق ممبر راجیہ سبھا اور دلِ دردمند رکھنے والے حساس طبیعت محمد ادیب صاحب نے جس طرح انڈین مسلم انٹلکچول میٹ کا انعقاد کیا اور جس کے اندر سابق مرکزی وزراء، سابق بیروکریٹس، سابق جج، سیاسی اور سماجی افراد، تعلیم اور وکالت کے میدانوں سے وابستہ اہم افراد نے شرکت کی اور اس موقعہ پر جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے بہت صحیح کہا کہ جو لوگ یہاں پر جمع ہیں انہیں صرف مسلمانوںکی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کی فکر ہے۔

لوک سبھا کے ایم پی کنور دانش علی نے ایک ایسے لیگل فریم بنانے کی ضرورت پر زور دیا جس سے کہ جھوٹے مقدمات میں ماخوذ مسلم نوجوانوں کی مدد کر سکیں۔ انہوں نے ایک ایسا گروپ بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا جو ہندوستانی قوم کو متحد کر سکے اور امت کی رہنمائی کر سکے۔ اتراکھنڈ، اترپردیش اور میزورم کے سابق گورنر جناب عزیز قریشی نے بڑی بے باکی سے کہا جس کے لئے وہ جانے جاتے ہیں کہ کبھی اذان، حجاب کے مسئلے اٹھائے جاتے ہیں اور ہمیں خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

انہوں نے دو ٹوک لفظوں میں کہا کہ کوئی بھی سرکار یا کوئی طاقت ہمیں اس ملک سے الگ نہیں کر سکتی۔ موجودہ وقت کے تحت ہمیں اپنی لڑائی خود ہمت سے لڑنی ہوگی۔ سابق مرکزی وزیر جناب سلمان خورشید نے ایک غیرسیاسی تنظیم بنائے جانے پر زور دیا اور اس کے قیام کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا۔ انہوں نے اختلافات کو دور کرنے پر بھی زور دیا کیوں کہ بقول ان کے ''اگر ہم الگ الگ خیموں میں تقسیم رہے تو کبھی کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔'' سابق مرکزی وزیراور بزرگ سیاسی رہنما کے۔

رحمن خاں نے اس موقعے پر بڑے پتے کی بات کہی کہ ''ہمیں اپنے تجربات کے ساتھ ملک کا اسٹرکچر بنانے کی ضرورت ہے۔ ہماری جماعتوں کا منصوبہ کیوں فیل ہوا اس پر تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی نوجوانوں اور خواتین کو بھی جوڑنے کی ضرورت ہے۔ اتحاد ملت کونسل کے چیئرمین اور اعلیٰ حضرت فاضل بریلی مولانا احمد رضا خاںؒ کے نبیرہ مولانا توقیر رضا خاں نے کہا کہ یہ گھر میں بیٹھنے کا وقت نہیں ہے بلکہ گاندھی جی کے طریقے پر چل کر ستیہ گرہ کرنا ہوگا جو کہ ہمارا آئینی حق ہے۔

اس موقعے پر خواتین کی نمائندگی پدم شری ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید اور طالب علم رہنما صفورا زرگر، ثمینہ رعنا، ہدیٰ زرّیں والا، صدف جعفری اور ڈاکٹر فریدہ بیگم نے کی۔ ان کے علاوہ موجودہ ممبر پارلیمنٹ حسنین مسعودی اور شفیق الرحمن برق صاحب کے علاوہ سابق ارکانِ پارلیمنٹ جناب عزیز پاشا اور جناب انور علی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

یہ دو اجتماعات اگرچہ دوالگ الگ شہروںمیں منعقد ہوئے لیکن ان کے پیچھے جو مقصد کارفرماتھا اور وہ ایک ہی تھا کہ جس طرح مسلمانوں کو، ان کے دین کو، ان کے رسولؐ کو، ان کی شریعت کو، ان کی مساجد، اداروں اور درگاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اس کے خلاف کھل کر آواز اٹھائی جائے اور منظم ہو کر ان سب کا دفاع کیا جائے۔ آج سوال صرف مسلمانوں کا نہیں ہے بلکہ ہندوستان کا ہے۔

وہ لوگ جو بظاہر مسلمانوں ک خلاف ہیں وہ صرف مسلمانوں ہی کے خلاف نہیں ہیں بلکہ مہاتما گاندھی، دستورِ ہند اور ترنگے کے بھی خلاف ہیں۔ وہ دیگر اقلیتوں جیسے عیسائیوں، سکھوں،بودھوں اور دلتوں کے بھی خلاف ہیں اور اس سے بڑھ کر وہ اس ملک کی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے خلاف ہیں اور وہ یہ بھول رہے ہیں کہ ہندوستان کو اگر معاشی اعتبار سے ترقی کرنی ہے تو اس کے لئے پہلی لازمی شرط امن و امان اور خیرسگالی کی ہے۔

مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔ (

ہفتہ, جون 04, 2022

کانپور تشدد : مسلمانوں کا بازار بند کا اعلان ، ' کلیدی ملزم ' ظفر ہاشمی گرفتار

کانپور تشدد : مسلمانوں کا بازار بند کا اعلان ، ' کلیدی ملزم ' ظفر ہاشمی گرفتار

کانپور: صنعتی شہر کانپور میں جمعہ، 3 مئی کو ہونے والے تشدد کے بعد حالات کشیدہ ہیں اور یہاں کے بیکن گنج علاقے میں بڑی تعداد میں پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔ صدر رام ناتھ کووند بھی آج شہر میں موجود ہیں، لہذا سیکورٹی ایجنسیاں پوری طرح سے مستعد ہیں۔ پولیس نے تین ایف آئی آر درج کرتے ہوئے 40 افراد کو نامزد کیا ہے، جبکہ 350 سے زیادہ نامعلوم افراد کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے، پہلے یہ تعداد ایک ہزار بتائی جا رہی تھی۔پولیس کا کہنا ہے کہ حیات ظفر ہاشمی تشدد کے معاملہ میں کلیدی ملزم ہیں اور انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ظفر ہاشمی مولانا محمد جوہر علی فینز ایسوسی ایشن سے وابستہ ہیں اور وہ سی اے اے، این آر سی کے خلاف کئے گئے احتجاج میں سرگرم رہے تھے۔ ظفر ہاشمی سے وابستہ مولانا محمد جوہر علی فینز ایسوسی ایشن سے ہفتہ کے روز کانپور میں بازار بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔

تشدد کے واقعہ پر ہندو اور مسلم فریقوں کے متضاد بیان سامنے آ رہے ہیں۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ان کی جانب سے بعد نمازِ جمعہ توہینِ رسالت کے خلاف پرامن احجاج کیا جا رہا تھا، جبکہ ہندو فریق کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کی دکانوں کو جبراً بند کرانے کی کوشش کی گئی تھی۔

نیوز پورٹل 'آج تک' پر شائع تفصیلی رپورٹ کے مطابق ہنگامہ آرائی کی شروعات یتیم خانہ کے علاقے کی اہم سڑک اور بازار سے ہوئی، جس کے بعد ہندو اور مسلمان آمنے سامنے آ گئے اور بحث ہونے لگی۔ اس کے بعد آپسی تصادم کے ساتھ پتھراؤ شروع ہو گیا۔ رپورٹ کے مطابق جب پولیس موقع پر پہنچی تو سڑک پر پتھر بکھرے پڑے تھے، بازار بند ہو چکے تھے اور کئی گاڑیوں میں توڑ پھوڑ کی جا چکی تھی۔

رپورٹ کے مطابق پولیس نے جب فسادیوں کو منتشر کرنا شروع کیا تو یہ لوگ اندرونی بستی اور تنگ گلیوں میں داخل ہو گئے اور وہاں سے ہی پولیس کو نشانہ بنانا شروع کر دیا، جس میں کئی پولیس اہلکار زخمی ہو گئے۔ پتھراؤ کا سلسلہ کافی دیر تک جاری رہا۔ قریبی تھانوں سے بھی پولیس کو طلب کرنا پڑا۔ اس دوران پولیس نے فسادیوں کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا بھی استعمال کیا۔ پولیس نے رات دیر گئے حالات پر قابو پا لیا۔ اس کے بعد ضلع مجسٹریٹ اور پولس کمشنر نے پوری فورس، پی اے سی اور آر اے ایف کے ساتھ تشدد سے متاثرہ علاقوں میں فلیگ مارچ کیا۔

آج تک نے تشدد کے سلسلہ میں مسلم فریق کا بیان شائع کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کا کہنا ہے ''ہم پرامن طریقے سے جلوس نکال رہے تھے۔ اس میں بچے بھی شامل تھے۔ اچانک پتھراؤ شروع ہو گیا۔ چھوٹے چھوٹے بچے تھے جن پر پتھراؤ شروع کیا گیا تھا۔ ہم نے ہر کسی سے دکان بند کرنے کو نہیں کہا تھا۔ جس کی مرضی وہ بند کرے یا نا کرے۔ اس کے باوجود لوگوں نے جلوس پر پتھراؤ شروع کر دیا۔ ان بچوں کا کیا قصور تھا جو جلوس نکال رہے تھے؟''

دوسری جانب ہندو فریق کے لوگوں کا الزام ہے ''جلوس نکال رہے لوگوں نے ہماری دکانیں جبراً بند کرانے کی کوشش کی تھی۔ ہم نے کہا کہ ہماری دکانیں بند نہیں ہوں گی تو وہ اینٹ اور پتھر برسانے لگے۔ پولیس بروقت نہ آتی تو یہ پورا علاقہ ان کے قبضے میں ہوتا۔''اے ڈی جی یوپی پرشانت کمار کا کہنا ہے ''تاحال 35 فسادی پکڑے جا چکے ہیں اور ملزمان پر گینگسٹر ایکٹ عائد کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ ملزمان کے گھروں پر بلڈوزر بھی چلے گا۔'' اس کیس میں مولانا محمد جوہر علی فینز ایسوسی ایشن کے حیات ظفر ہاشمی سمیت احتشام کباڑی، ذیشان، عاقب، نظام، عزیز، عامر جاوید اور عمران کالے سمیت 40 افراد کو ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا ہے۔

کرناٹک :ہندو تنظیموں نے کیا مسجد میں پوجا کا اعلان،دفعہ 144 نافذ

کرناٹک :ہندو تنظیموں نے کیا مسجد میں پوجا کا اعلان،دفعہ 144 نافذ

بنگلورو:کرناٹک کے منڈیا شہر کے سری رنگا پٹنا ضلع میں ہفتہ کی صبح 6 بجے سے شام 6 بجے تک دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔ ایسا وی ایچ پی کے سری رنگا پٹنا چلو کے مطالبے کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ موقع پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے۔

کرناٹک کے منڈیا ضلع کے سری رنگا پٹنا قصبے میں سی آر پی سی کی دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔ اس کا اطلاق ہفتہ کی صبح 6 بجے سے شام 6 بجے تک ہوگا۔ یہ قدم وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کی جانب سے 'سری رنگا پٹنا چلو' کی آج کی کال کے پیش نظر اٹھایا گیا ہے۔

وی ایچ پی کی کال کے پیش نظر500 سے زیادہ پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ چار چیک پوسٹیں قائم کی گئی ہیں۔ ایس پی این یتیش کی موجودگی میں روٹ مارچ بھی نکالا گیا۔ وہیں اس سب کے باوجود ہندو تنظیموں کے ارکان منڈیا ضلع کے سری رنگا پٹنا قصبے کے کرنگور جنکشن پر جمع ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ انہوں نے آج یہاں جامع مسجد تک مارچ کی کال دی تھی، یہ کہتے ہوئے کہ وہ مسجد میں داخل ہوں گے اور وہاں پوجا کریں گے۔

ڈپٹی کمشنر اشواتھی ایس نے کہا کہ ہفتہ وار بازار جو عام طور پر ہر ہفتہ کو لگتا ہے آج نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ آج سری رنگا پٹنا کے 5 کلومیٹر کے دائرے میں شراب کی فروخت پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

ڈپٹی کمشنر نے کہا، 'آج مسجد روڈ بند کر دی گئی ہے۔ لوگوں کو مسجد میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے گئے ہیں۔ مشکوک سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔

منڈیا کے ایس پی نے کہا کہ سری رنگا پٹنا نگر پنچایت حدود میں تالق انتظامیہ کی طرف سےممنوعہ احکامات کی وجہ سےریلیوں/جلوسوں/احتجاج کی اجازت نہیں ہے۔ اس حکم کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے شہر اور اس کے اطراف میں مناسب انتظامات کو یقینی بنایا ہے تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔

انہوں نے کہا کہ شہراب مکمل طور پر پرسکون ہے۔ آنے والے دنوں میں بھی ایسا ہی رہے گا۔ ہم نے ضروری انتظامات کر لیے ہیں۔ ہم نے اپنے جوانوں کو تعینات کیا ہے، لیڈروں سے بات کی ہے اور انہیں دفعہ 144کے نفاذ سے آگاہ کیا ہے۔ اگر کوئی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

درحقیقت وارانسی کی گیان واپی مسجد کی طرح منڈیا ضلع کے سری رنگا پٹنہ کی جامع مسجد کو لے کر بھی تنازع شروع ہو گیا ہے۔ ہندو تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ مسجد ہنومان مندر کے کھنڈرات پر بنائی گئی ہے۔ انہوں نے اس معاملے میں عدالت سے رجوع کرنے کی بات بھی کی۔ اس سلسلے میں ہندو تنظیموں نے منڈیا کے ڈپٹی کمشنر اشواتھی ایس کو ایک میمورنڈم بھی پیش کیا اور مسجد کے سروے کا مطالبہ کیا۔

خیال کیا جاتا ہے کہ جامع مسجد میسورکے سابق حکمران ٹیپو سلطان نے بنوائی تھی۔ یہ مسجد اس وقت روشنی میں آئی جب ہندو تنظیموں نے 16 اپریل2022 کو ہنومان جینتی کے موقع پر چھ لاکھ مالا پوش عقیدت مندوں کی سری رنگا پٹنا آمد کا اعلان کیا تھا۔ اس کے لیے انہوں نے انتظامیہ سے اجازت بھی مانگی تھی۔ جس کی وجہ سے وہاں امن و امان کی صورتحال پیدا ہوگئی۔ مسجد کمیٹی نے انتظامیہ سے سیکورٹی فراہم کرنے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔

جامع مسجد کو مسجد الاعلی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ سری رنگا پٹنا قلعہ کے اندر واقع ہے۔ 1786-87 میں تعمیر کی گئی اس مسجد میں دو مینار ہیں، جو ایک اونچے چبوترے پر بنائے گئے ہیں۔ یہ مسجد دو منزلہ ہے۔ اس کا کوئی گنبد نہیں ہے۔ یہ مسجد آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے بنگلور سرکل کے زیر انتظام ہے۔

کانپور تشدد : امن و امان کے بغیر یوپی میں سرمایہ کاری کس طرح ممکن ہے ؟ مایاوتی کا سوال

کانپور تشدد : امن و امان کے بغیر یوپی میں سرمایہ کاری کس طرح ممکن ہے ؟ مایاوتی کا سوال

کانپور: یوپی کے صنعتی شہر کانپور میں جمعہ کے روز ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ اور بی ایس پی کی سربراہ مایاوتی نے کہا ہے کہ اگر ریاست میں امن و امان ہی نہیں ہوگا تو یہاں سرمایہ کاری کس طرح ممکن ہے۔ انہوں نے تشدد کے واقعہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرا کر قصورواروں پر سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔

خیال رہے کہ کانپور میں گزشتہ روز تشدد اس وقت بھڑکا جب بی جے پی کی ایک ترجمان کے قابل اعتراض بیان کے خلاف مسلمانوں نے بعد نماز جمعہ احتجاج و بند کا اہتمام کیا۔ اس دوران دو فرقوں میں پتھربازی شروع ہو گئی اور حالات بے قانون ہوتے دیکھ پولیس کو طاقت کا استعمال کرنا پڑا۔ رپورٹ کے مطابق واقعہ میں کم از کم 13 پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔

مایاوتی نے اپنے ٹوئٹر ہینڈ پر لکھا، ''صدر اور وزیر اعظم کے دورے کے دوران ہی کانپور میں فساد اور تشدد بھڑکنا انتہائی تکلیف دہ، افسوسناک، تشویش ناک ہے اور پولیس کے خفیہ نظام کی ناکامی کا عکاس ہے۔ حکومت کو سمجھنا ہو گا کہ امن و امان کی غیر موجودگی میں ریاست میں سرمایہ کاری اور یہاں کی ترقی کس طرح ممکن ہے۔

انہوں نے مزید کہا، ''حکومت اس واقعہ کی مذہب، ذات اور پارٹی سیاست سے بالاتر ہو کر آزادانہ اور غیرجانبدارانہ اعلیٰ سطحی انکوائری کراکر قصورواروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائے تاکہ ایسے واقعہ آگے نہ ہوں۔ ساتھ ہی، لوگوں سے بھی اپیل ہے کہ امن اور نظم و نسق برقرار رکھیں اور مشتعل بیانات وغیر سے اجتناب کریں۔''

کانپور کے تشدد پر پولیس کمشنر وجے سنگھ مینا نے کہا، ''حالات اب معمول پر ہیں اور ہر جگہ سیکورٹی فورسز تعینات ہیں۔ 3 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں، 36 افراد کی شناخت کر لی گئی ہے۔ تصاویر کی مدد سے دیگر افراد کی شناخت کی جا رہی ہے اور ان کی گرفتاری کے لئے کوششیں جاری ہیں۔ جلد ہی تمام سازش کرنے والوں اور موقع پر موجود افراد کو گرفتار کر کے ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ ان کے خلاف گینگسٹر ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی اور ان کی املاک بھی ضبط کی جائے گی۔ قومی سلامتی قانون بھی عائد کیا جائے گا، تاکہ ماحول خراب کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جا سکے

جمعہ, جون 03, 2022

پٹرول پمپ ملازمین کسٹمر کے ساتھ کر رہے ہیں دھوکہ دہی ، جانئے کس طرح جھونک رہے آنکھوں میں دھول

پٹرول پمپ ملازمین کسٹمر کے ساتھ کر رہے ہیں دھوکہ دہی ، جانئے کس طرح جھونک رہے آنکھوں میں دھولعام لوگ پہلے ہی پٹرول کی قیمتوں سے پریشان ہیں۔ پٹرول پمپوں پر اس کے ساتھ ہونے والا فراڈ ان کی مشکلات میں اضافہ کر رہا ہے۔ کچھ پٹرول پمپ ملازمین مختلف طریقوں سے صارفین کو بے وقوف بنا کر اپنی جیبیں گرم کر رہے ہیں۔ اگر ہم کرناٹک کی راجدھانی بنگلورو کی بات کریں تو یہاں کے پٹرول پمپ ملازمین نے دھوکہ دہی کا ایک الگ طریقہ نکالا ہے۔ صارفین کی آنکھوں میں دھول جھونک کر یہ ملازمین بڑی آسانی سے انہیں لوٹ رہے ہیں۔ دھاندلی والے میٹر (Rigged Meters) ایک ایسا ہی طریقہ ہے جس کی مدد سے پٹرول پمپ کے ملازمین لوگوں کو دھوکہ دینے کا کام کر رہے ہیں۔ دکن ہیرالڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق جب کوئی کسٹمر اپنی گاڑی میں پٹرول بھروانے آتا ہے تو پمپ کا ملازم ایندھن بھرنے کے دوران پیٹرول کا بہاؤ روک دیتا ہے۔ آپ اسے اس طرح سمجھ سکتے ہیں۔ اگر کوئی کسٹمر 1000 روپے کا پٹرول مانگتا ہے تو پمپ کا ملازم پہلے 400 روپے کا پیٹرول ڈالتا ہے۔ پھر اس دوران وہ گاہک کو بتاتا ہے کہ بجلی چلی گئی ہے یا کوئی اور مسئلہ آ گیا ہے۔ اس لیے پٹرول گاڑی کی ٹنکی میں نہیں جا رہا ہے۔ پھر کچھ دیر بعد وہ وہاں سے دوبارہ پٹرول ڈالنا شروع کر دیتا ہے اور 600 روپے پر رک جاتا ہے، جب کہ اسے زیرو سے شروع کرنا چاہیے تھا۔ اس کے بدلے وہ کسٹمر سے 1000 روپے لیتا ہے جبکہ حقیقت میں وہ صرف 600 روپے کا پٹرول ڈالتا ہے۔ باقی 400 روپے پیٹرول پمپ کا ملازم اپنی جیب میں رکھتا ہے۔ خام تیل 10ڈالر سستا، کیا Petrol۔Diesel کی قیمتیں بھی ہوئیں کم، جانئے آج کے نئے دام

چانچ ہوئی تیز
ایک حکام کا کہنا ہے کہ پچھلے دو سالوں میں ریاست میں پٹرول پمپس پر دھوکہ دہی کے معاملات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ افسر کا کہنا ہے کہ کورونا وبا کے دوران پیٹرول پمپ کے معائنہ کے کام میں کمی آئی تھی جس کا فائدہ پمپ کے ملازمین نے اٹھایا تاہم اب دوبارہ تحقیقات تیز کردی گئی ہیں۔



پمپ آپریٹر نے کیا کہا؟
وہیں پیٹرول پمپ آپریٹرز petrol pump operators کا کہنا ہے کہ ملازمین کی دھوکہ دہی کی وجہ سے ان پر اکثر جرمانے لگائے گئے ہیں۔ آل کرناٹک فیڈریشن آف پٹرولیم ٹریڈرس کے صدر کے ایم۔ بسوے گوڑا کا کہنا ہے کہ الیکٹرانک میٹر کی وجہ سے دھوکہ دہی کا امکان بہت کم ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر پیرول پمپ چلانے والوں نے 25 ملی لیٹر پلس یا مائنس کا غلط استعمال کیا ہے تو اس پر کوئی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ لیکن حکام صرف 10 ملی لیٹر کی کمی پر ہی مقدمہ درج کرلیتے ہیں۔ پٹرول پمپ آپریٹرز نے گزشتہ سال بھی اس کی مخالفت کی تھی۔

یوپی کے یوگی___ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

یوپی کے یوگی___
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
یوپی کی یوگی حکومت مرکزکی مودی حکومت سے مسلم مخالف فیصلے لینے اور کرنے میں آگے بڑھنا چاہتی ہے، تاکہ وہ فرقہ پرست تنظیموں اور آر ایس ایس کی منظور نظر بن جائے، اور ریاست سے مرکز تک پہونچنے کا خواب حقیقت کا روپ دھارن کر سکے، اس کے لیے پہلا فرمان اپنے پہلے دور حکومت میں مدارس اسلامیہ کے لیے یوگی جی نے جاری کیا کہ مدارس والے اپنی معلومات ویب پورٹل پر اپ لوڈ کریں، مدارس کے ذمہ داران بھی اپنے طرز پر جینے کے عادی ہیں، اس لیے اپ لوڈ کرنے کی تاریخ میں توسیع کے با وجود اس کام کو کرکے نہیں دیا ۔
اتر پردیش میں حکومت سے منظور شدہ مدارس کی تعداد ۱۹۱۴۳ہے، حکومت سے امداد صرف پانچ سو ساٹھ مدارس کو ملتی ہے، ڈاٹا اپ لوڈ کرنے کا حکم منظور شدہ سبھی مدارس کے لیے تھا ، ۱۶۴۶۱ مدارس نے ہی اس حکم کو تسلیم کیا ، ۲۶۸۲ مدارس کی تفصیلات اپ لوڈ نہیں ہوئیں، جن میں عالیہ سطح کے ۸۳۶ غیر امدادیافتہ مدارس بھی شامل ہیں، جب کہ عالیہ سطح کے منظور شدہ مدارس کی تعداد وہاں ۴۵۳۶ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف ۳۷۰۰ نے ہی ان میں سے ڈاٹا آن لائن اپ لوڈ کیا ہے۔ خبر ہے کہ وزیر تعلیم نے ایک بار پھر ڈاٹا فراہم کرنے کی تاریخ میں توسیع کر دی ہے اور کہا ہے کہ مدارس کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے حکومت کے پاس تفصیلات کا ہونا ضروری ہے ، اس کا مطلب ہے کہ حکومت کی نیت صاف ہے ، اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ہمیں تو کچھ دال میں کالا ہی نظر آتا ہے ، اور اس کو تقویت اس فرمان سے ملتی ہے جس میں مدارس کو حب الوطنی کے ثبوت کے طور پر ۲۶؍ جنوری اور ۱۵؍ اگست کے پروگرام کی دیڈیو گرافی کرکے بھیجنے کو کہا گیا تھا۔اپنی نئی پاری میں یوگی جی نے نئے مدارس کو منظور ی دینے سے صاف انکار کر دیا ہے، اب کسی نئے مدرسہ کا الحاق نہیں ہوگا، اور نہ تنخواہ دی جائے گی۔
 مدارس والوں کو پریشان کرنے کے لیے یوگی حکومت نے ایک دوسرا فرمان یہ جاری کیا ہے کہ مدارس اسلامیہ میں بھی دوسرے مذاہب کے تہواروں کے موقع سے چھٹی دی جائے گی، اس کے لیے مدارس کی معمولات والی تعطیلات میں کٹوتی کرکے نئے سال کے لیے فرصت کی فہرست سازی کی گئی ہے،  اور ۹۲ سے گھٹا کر ۸۶ کر دیا گیا ہے، اس کی وجہ سے رمضان ، عید، بقرعید کی چھٹیاں کم ہو گئی ہیں اور درگا پوجا، دیوالی، ہولی پر مدارس بند رکھنے کا فرمان جاری کیا گیا ہے، ایسا کسی دوسری ریاست میں نہیں ہے، یوگی حکومت کی مسلم مخالفت کا یہی حال رہا تو ممکن ہے آسام کی طرح جمعہ کی چھٹی منسوخ کرکے اتوار کو تعطیل کا دن نہ قرار دے دیا جائے، حالاں کہ اتوار بھی ہندو تو کے لیے کوئی ’’شبھ‘‘ دن تو ہے نہیں، اس فرمان پر مدارس والوں نے احتجاج درج کرایا تو اعلان آیا ہے کہ چھٹیاں کم نہیں کی گئی ہیں، بڑھا دی گئی ہیں، لیکن اس بڑھانے کے نتیجے میں تعلیم وتدریس کے ایام مزید کم ہوجائیں گے ، اور طلبہ کا سخت تعلیمی نقصان ہوگا، جو پہلے ہی اساتذہ کے غیر تدریسی کاموں میں مشغول ہو نے کی وجہ سے نصابی تعلیم کی تکمیل میں رکاوٹ کا سبب رہا ہے۔ 
تیسرا فرمان عدالت کے حکم کی روشنی میں مذہبی مقامات پر لاؤڈ اسپیکرسے متعلق آیا ہزاروں مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ آواز کی ترسیل کے چونگے اتار لیے گیے ہے اس فرمان کا اثر دوسرے مذاہب پر تو ہونے سے رہا ، وہ مثل مشہور ہے کہ ’’سیاں بھئے کوتوال اب ڈرکاہے کا‘‘ ان کے لیے تو یہی معاملہ ہوگا، رہ گیے مسلمان تو اس حکم کا اطلاق اس سختی سے مسلمانوں پر ہوگا، کہ مسجد کے منارے مائیک سے خالی ہو جائیں گے اورمحلہ کے لوگ اذان کی آواز سننے کے لیے ترس جائیں گے، دوسری اقلیتوں کو بھی فوری طور پر اس کام کے لیے تگ ودو شروع کرنی چاہیے، تاکہ بعد میں ان کے لیے مسائل نہ کھڑے ہوں، یہ توقع کرنا کہ یوگی جی کا یہ فرمان آخری ہے، بیوقوفوں کی دنیا میں رہنے کے مترادف ہوگا،کیوں کہ خود ان کی اپنی ذہنیت فرقہ واریت کے جراثیم سے تیار ہوئی ہے، دوسرے وہ اپنے آقا کو خوش کرنے کے لیے کوئی بھی حکم دے سکتے ہیں اور چوں کہ وہ بھاری اکثریت سے یوپی کی گدی پر براجمان ہوئے ہیں، اس لیے ان کا فرمان نافذ العمل بھی ہوگا۔اب اتر پردیش کی صور ت حال یہ ہے کہ سڑکوں پر جمعہ اور عیدین کی نمازوں پر بھی پابندی لگی ہوتی ہے ۔
ضرورت مسلمانوں کو تحمل برداشت کے ساتھ حالات سے مقابلہ کرنے کی ہے، وہاں کے علماء اور تنظیم کے ذمہ داروں کو بہت سوچ سمجھ کر منصوبہ بندی کرنی چاہیے، تاکہ مسلمانوں میں جو مایوسی پائی جا رہی ہے اس کو دور کیا جا سکے، اور اس بات کی کوشش کی جائے کہ مسلمانوں کے لیے وہاں عرصۂ حیات تنگ نہ ہو، مسلمانوں نے انتخاب کے موقع سے منصوبہ بندی نہیں کی، اس کی سزا وہ بھگت رہے ہیں، کم از کم جینے اور زندگی گزارنے کی منصوبہ بندی تو ایسی کرلیں کہ نئی نسلوں کے ایمان کی حفاظت ہو سکے، اور وہ پورے مذہبی اقدار کے ساتھ زندگی گذارنے کے لائق رہ سکیں۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...