Powered By Blogger

ہفتہ, جون 11, 2022

جامع مسجد کے باہر مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی : پولیس

جامع مسجد کے باہر مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی : پولیس

دہلی پولیس نے جمعہ کو کہا کہ جمعہ کی نماز کے فوراً بعد جامع مسجد کے باہر مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

وسطی ضلع کی ڈپٹی کمشنر پولیس شویتا چوہان نے بتایا کہ جمعہ کی نماز کے فوراً بعد تقریباً 300 لوگ پلے کارڈز اٹھائے ہوئے جامع مسجد کے باہر جمع ہوئے اور نعرے بازی کرنے لگے۔

انہوں نے کہا کہ عام طور پر ہر جمعہ کو تقریباً 1500 لوگ نماز کے لیے جامع مسجد آتے ہیں۔ لیکن آج نماز کے فوراً بعد 300 کے قریب لوگ جامع مسجد کے باہر جمع ہوئے اور نعرے بازی کرنے لگے۔ الرٹ پولیس نے صورتحال پر قابو پانے اور گاڑیوں کی ہموار نقل و حرکت کو یقینی بنانے کے لیے انہیں فوری طور پر منتشر کردیا۔

ڈپٹی کمشنر آف پولیس نے کہا کہ مظاہرین میں سے کچھ کی شناخت کرلی گئی ہے اور دیگر کی جلد ہی شناخت کر لی جائے گی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

مظاہرین نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے معطل ترجمان نوپور شرما اور نوین جندل کو مبینہ طور پر متنازعہ مذہبی تبصرے کرنے پر گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا۔

پیغمبر اسلام ﷺ کا حضرت عائشہؓ سے نکاح مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

پیغمبر اسلام ﷺ کا حضرت عائشہؓ سے نکاح 

 مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
___________________________

نبی کی حیثیت عام انسانوں کی نہیں ہوتی، وہ خالق کائنات کا نمائندہ اور اس کی مرضیات کا ترجمان ہوتا ہے، اس کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، کھانا پینا، دوستوں اور دشمنوں کے ساتھ اس کا رویہ، سفر وحضر، غرض کہ زندگی کا ایک ایک لمحہ اور ایک ایک حرکت وعمل انسانیت کے لئے اسوہ اور نمونہ ہوتا ہے، اس کے بولنے میں بھی انسانیت کے لئے سبق ہے اور اس کی خاموشی میں بھی، نبوت کا سلسلہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل ہوگیا، آپ کے بعد نہ کوئی نبی آیا ہے اور نہ آسکتا ہے؛ اس لئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات سو دو سو اور ہزار دو ہزار سال کے لئے نہیں؛ بلکہ قیامت تک کے لئے نمونہ ہے، اور آپ کی سیرت وسنت کی اتباع میں آخرت کی بھی فلاح ہے اور دنیا کی بھی کامیابی ہے۔
زندگی کا ایک اہم شعبہ ازدواجی اور خاندانی زندگی ہے، جس سے ہر انسان گزرتا ہے، ہر شخص حاکم اور قاضی نہیں بنتا، ہر شخص تجارت اور کاروبار نہیں کرتا؛ لیکن تقریبا ہر شخص خاندان کا حصہ ہوتا ہے، شادی بیاہ کے مرحلہ سے گزرتا ہے اور اس کے ذریعہ ایک نیا خاندان وجود میں آتا ہے، خاندان کا حصہ مرد بھی ہوتے ہیں اور عورتیں بھی ہوتی ہیں، اس کوقدم قدم پر رہنمائی کی ضرورت پیش آتی ہے، اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو عام لوگوں کے مقابل زیادہ نکاح کی اجازت دی گئی، آپ نے مختلف قبائل میں نکاح کئے، جس سے اسلام کی اشاعت میں مدد ملی، خواتین نیز خاندانی زندگی سے متعلق احکام کی تفصیلات مہیا ہوئیں، آپ نے بحیثیت مجموعی جن خواتین سے نکاح کیا، ان کی تعداد گیارہ ہے، ان میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ سب کی سب بیوہ یا مطلقہ تھیں، آپ نے پہلا نکاح حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کیا جو عمر میں آپ سے پندرہ سال بڑی تھیں، اور ایک بیوہ خاتون تھیں، بچپن ۵۵؍ سال کی عمر ہونے تک آپ کے نکاح میں ایک ہی بیوی رہیں: حضرت خدیجہؓ اور ان کے بعد حضرت سودہؓ، زندگی کے آخری آٹھ سالوں میں بقیہ ازواج آپ کے نکاح میں آئیں۔
غرض کہ پہلا نکاح آپ نے پچیس سال کی عمر میں چالیس سال کی خاتون سے کیا ، دوسرے: ایک کے سو ا آپ کی تمام بیویاں بیوہ یا مطلقہ تھیں، تیسرے: جو انسانی زندگی میں اصل زمانۂ شباب ہوتا ہے، اس میں آپ نے ایک ہی بیوی پر اکتفا فرمایا اور عمر کے آخری مرحلہ میں متعدد نکاح کئے، اگر ان نکات کو ملحوظ رکھا جائے تو وہ بہت سے غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی، جو اعداء اسلام کی طرف سے پھیلائی جاتی ہیں،جن میں سے ایک حضرت عائشہؓ سے نکاح بھی ہے، حقیقت یہ ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کا رشتہ پہلے جبیر ابن مطعم کے لڑکے سے طئے ہو چکا تھا، یہ خاندان ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا، جبیر کی بیوی نے کہا کہ اگر ابو بکر کی لڑکی ہمارے گھر آگئی تو ہمارا گھر بھی بددین ہو جائے گا؛ اس لئے ہم کو یہ رشتہ منظور نہیں (مسند احمد: ۶؍۲۱۱) ؛ اس لئے یہ رشتہ ختم ہو گیا، پھر جب حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہوگیا تو حضرت خولہؓ نے آپ سے حضرت سودہؓ اور حضرت عائشہؓ کا رشتہ پیش کیا، حضرت سودہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم عمر تھیں، آپ نے ان سے نکاح فرمایا اور بعض غیبی اشاروں کی بنا، پر حضرت عائشہؓ کے رشتہ کو بھی قبول فرمالیا، اور حضرت خولہؓ سے خواہش کی کہ وہ اس بات کو آگے بڑھائیں، حضرت خولہؓ نے حضرت ابو بکرؓ کے سامنے یہ بات رکھی، حضرت ابو بکر کو یوں تو یہ رشتہ دل وجان سے محبوب تھا؛ لیکن چوں کہ زمانہ جاہلیت میں منھ بولے بھائی کی بیٹی سے نکاح کو حرام سمجھا جاتا تھا؛ اس لئے اس پر تأمل ہوا، جب حضرت خولہؓ نے حضور سے یہ بات بتائی تو آپ نے فرمایا کہ ابو بکرؓ دینی بھائی ہیں نہ کہ سگے بھائی، اس لئے ان کی بچی سے میرا نکاح ہو سکتا ہے، تو پھر وہ کھٹک بھی دور ہوگئی، اس طرح حضرت عائشہؓ سے آپ کا نکاح ہوا، نکاح کے وقت راجح قول کے مطابق حضرت عائشہؓ کی عمر چھ سال تھی اور رخصتی کے وقت نو سال ، دوسرے قول کے مطابق نکاح کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر اٹھارہ سال تھی؛ لیکن نو سال والی روایت کو امام بخاریؒ نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے، اور اہل علم کے نزدیک یہی روایت زیادہ صحیح ہے۔
حضرت عائشہؓ سے نکاح کے کئی بڑئ فوائد حاصل ہوئے:
ایک تو جاہلیت کی یہ رسم ختم ہو گئی کہ منھ بولا بھائی سگے بھائی کی طرح ہے اور سگے بھائی کی بیٹی کی طرح اس کی بیٹی سے بھی نکاح کی ممانعت ہے، اگر آپ نے اپنے عمل کے ذریعہ اس جاہلانہ رسم کے خاتمہ کا اعلان نہ کیا ہوتا، اور صرف زبانی ہدایت پر اکتفا کیا ہوتا تو شاید بھائی اور بھتیجی کے مصنوعی رشتہ کا تصور آسانی سے ختم نہیں ہوتا، اور صدیوں سے آئے ہوئے اس رواج کی مخالفت لوگوں کو گوارا نہیں ہوتی؛ لیکن جب آپ نے خود منھ بولے بھائی کی صاحبزادی سے نکاح کر لیا تو ہمیشہ کے لئے یہ تصور ختم ہوگیا۔
دوسرے: اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو غیر معمولی ذکاوت وذہانت سے نوازا تھا، ۳۵۰؍صحابہ وتابعین نے ان سے حدیث حاصل کی اور ان سے جو حدیثیں منقول ہیں، ان کی تعداد ۲۲۱۰؍ ہے، (سیر اعلام النبلاء، ۲؍۱۳۹)سات صحابہ وہ ہیں، جن کو روایت حدیث میں مکثرین کہا جاتا ہے، یہ وہ صحابہ ہیں، جنھوں نے ایک ہزار سے زیادہ حدیثیں آپ سے نقل کی ہیں، ان میں جہاں چھ مردوں کے نام ہیں، وہیں ایک نام حضرت عائشہ صدیقہؓ کا بھی ہے، فتاویٰ میں بھی حضرت عائشہؓ کا پایہ بہت بلند تھا اور ان کا شمار عہد صحابہ کے ان اصحاب فتویٰ میں ہوتاتھا، جنھوں نے کثرت سے فتاویٰ دئیے ہیں، ماضی قریب کے معروف عالم وفقیہ ڈاکٹر رواس قلعہ جی نے حضرت عائشہؓ کے فتاویٰ کو ’’ موسوعہ فقہ عائشہ‘‘ کے نام سے جمع کیا ہے، جو ۷۶۷؍ صفحات پر مشتمل ہے، اس سے فقہ وفتاویٰ کے میدان میں ان کی خدمات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، عربی زبان میں ایک اصطلاح ’’استدراک‘‘ کی ہے، کسی شخص کی بات یا تصنیف میں کوئی غلطی یا غلط فہمی ہو گئی ہو تو اس کی اصلاح کو استدراک کہتے ہیں، حضرت عائشہؓ نے اکابر صحابہ پر استدراک کیا ہے، جس کو علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے ’’ عین الاصابۃ فی استدراک عائشۃ علی الصحابۃ‘‘ کے نام سے جمع کیا ہے، اور اہل علم کی رائے ہے کہ عموما ان استدراکات میں حضرت عائشہؓ کا نقطہ نظر زیادہ درست ہے، پھر یہ کہ حضرت عائشہؓ جیسی ذہین خاتون کے آپ کے نکاح میں ہونے کی وجہ سے خواتین اور خاندانی زندگی سے متعلق بہت سارے مسائل کا حل ان ہی کی روایات سے ہوا ہے؛ اس لئے امت کو آپ کے ذریعہ جو علمی اور فکری فائدہ پہنچا، وہ بظاہر کسی اور سے نہیں ہو سکتا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۴۷؍ سال زندہ رہیں، اور ان کی ہدایت واصلاح اور تعلیم وتربیت کا چشمہ جاری رہا، کہا جاتا ہے کہ بیس سال میں ایک نسل بدل جاتی ہے، اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی دو نسلیں ان سے فیضیاب ہوئیں، یہ اسی لئے ممکن ہو سکا کہ وہ کم عمری میں آپ کے نکاح میں آگئی تھیں۔
اس سکے ساتھ ساتھ ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ اس نکاح کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سب سے بڑے معاون ومددگار حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے خاندان کو عزت سے سرفراز فرمایا، چار رفقاء نے سب سے بڑھ کر آپ کی مدد کی، ان میں سے دو حضرت ابو بکر وحضرت عمرؓ کی صاحبزادیوں کو آپ نے اپنے نکاح میں لے کر عزت بخشی، اور دو رفقاء حضرت عثمانؓ وحضرت علیؓ کے نکاح میں اپنی صاحبزادیوں کو دے کر عزت افزائی کی، اور اس طرح آپ نے ان چاروں دوستوں کی قربانی کے مقابلہ دلداری فرمائی، آپ حضرت ابو بکر کو کتنی ہی نعمتیں دے دیتے؛ لیکن حضرت عائشہؓ سے نکاح کی وجہ سے اس خاندان کو جو عزت ملی، اور جو سعادت حاصل ہوئی، وہ کسی اور طرح نہیں ہو سکتی تھی؛ اس لئے نہ کبھی حضرت ابو بکر کو پچھتاوا ہوا کہ عمر کے کافی تفاوت کے ساتھ آپ نے اپنی صاحبزادی کا نکاح کر دیا اور نہ خود حضرت عائشہؓ کو؛ بلکہ وہ اس نسبت کو اپنے لئے باعث عزت وافتخار سمجھتے تھے، اور جب ایک موقع پر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کو اختیار دیا کہ چوں کہ آپ کے ساتھ رہتے ہوئے بہت صبرو شکیب کی زندگی گزارنی پڑتی تھی، اس لئے ازواج مطہرات اگر چاہیں تو اپنے حقوق لے کر علیحدگی اختیار کر لیں تو سب سے پہلے حضرت عائشہؓ نے اس کو رد کر دیا، اور کہا کہ وہ ہر حال میں آپ کے ساتھ ہی رہیں گی، رشتہ نکاح کا تعلق اصل میں بیوی کے ساتھ ہوتا ہے، تو جب بیوی خود اس رشتہ کو اپنے لئے باعث سعادت سمجھتی ہو اور خوش دلی کے ساتھ باعث افتخار جانتے ہوئے اس پر راضی رہے تو کیسے کسی کو اس پر اعتراض کا حق ہو سکتا ہے؟
جہاں تک نکاح کے وقت کم سنی کی بات ہے تو اس کا تعلق اصل میں سماجی تعامل ورواج، موسمی حالات اور غذا سے ہے؛ اسی لئے مختلف علاقوں میں بلوغ کی عمریں الگ الگ ہوتی ہیں، عرب میں کم عمری میں لڑکیوں کے نکاح کا رواج تھا، عہد نبوت میں بھی اور آپ کے بعد بھی اس کی کئ مثالیں ملتی ہیں، جن میں دس سال سے کم عمر میں لڑکیوں کا نکاح کر دیا گیا، اور جلد ہی وہ ماں بھی بن گئیں، خود حضرت عائشہؓ کے نکاح میں حضرت خولہ ؓ نے رشتہ پیش کیا، اور حضرت ابو بکرؓ نے رضاعی بھائی ہونے کا بھی عذر کیا؛ لیکن عمر کے تفاوت پر کسی تامل کا اظہار نہیں کیا، پھر یہ کہ حجاز کا موسم گرم ہوتا ہے اور اس زمانے میں وہاں کی غذا کھجور اور اونٹنی کا دودھ ہوا کرتا تھا، جس میں بہت زیادہ غذائیت پائی جاتی تھی؛ اس لئے وہاں کے حالات کو ہندوستان پر قیاس نہیں کرنا چاہئے۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ دنیا کے دوسرے مذاہب میں بھی کم عمر لڑکیوں کی شادی کا رواج رہا ہے، مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کسی کی بیوی نہیں بنیں، اور معجزاتی طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی؛ لیکن عیسائیوں کے بعض فرقوں کا خیال ہے کہ جوسف نامی شخص سے حضرت مریمؑ کا نکاح ہوا تھا، اس وقت جوسف کی عمر ۹۹؍ برس اور حضرت مریم کی بارہ برس تھی، ۱۹۸۳ء تک کیتھولک کینان نے اپنے پادریوں کو بارہ سال کی لڑکی سے شادی کرنے کی اجازت دے رکھی تھی، ۱۹۲۹ء سے پہلے برطانیہ میں چرچ آف انگلینڈ نے بھی بارہ سال کی لڑکی سے شادی کی اجازت دی تھی، امریکہ کے اسٹیٹ آف ڈیلویرا میں ۱۸۸۰ء تک لڑکی کی شادی کی کم سے کم عمر ۸؍ سال اور کیلی فورنیا میں ۱۰؍ سال مقرر تھی، یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی بعض ریاستوں میں لڑکیوں کی شادی کی عمر کافی کم رکھی گئی ہے، امریکہ کی ایک ریاست ’’ میسیچوسس‘‘ ہے، جہاں لڑکیوں کی شادی کی عمر ۱۲؍ سال مقرر ہے، اور ایک دوسری ریاست نیوہیمسفر‘‘ میں ۱۳؍ سال مقرر ہے۔
اگر ہندو مذہب کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں کم عمری کی شادی کی بہت حوصلہ افزائی کی گئی ہے، منوسمرتی میں ہے کہ لڑکی کے بالغ ہونے سے پہلے اس کی شادی کر دینی چاہئے، (گوتما: ۱۵۔۔۲۱) اور یہ کہ باپ کو چاہئے کہ اپنی لڑکی کی شادی اسی وقت کر دے جب وہ بے لباس گھوم رہی ہو؛ کیوں کہ اگر وہ بلوغت کے بعد بھی گھر میں رہے تو اس کا گناہ باپ کے سر ہوگا۔ (بہ حوالہ: many ix, 88,htpp:/www.payer.de.dharam shastra/dharmash083 htm)منوسمرتی میں میاں بیوی کی شادی کی عمر یوں مقرر کی گئی ہے: لڑکا ۳۰؍ سال اور لڑکی ۱۲؍ سال، یا لڑکا ۲۴؍سال اور لڑکی ۸؍ سال کی ۔
مہا بھارت میں شادی سے متعلق جو ہدایت دی گئی ہے، اس میں لڑکی کی عمر ۱۰؍ سال اور۷؍ سال ہے، جب کہ شلوکاس میں شادی کی کم از کم عمر ۴؍ سے ۶؍ سال اور زیادہ سے زیادہ ۸؍ سال مقرر ہے۔
آج کل برادران وطن رام جی کو سب سے آئیڈیل شخصیت مانتے ہیں تو رامائن سے پتہ چلتا ہے کہ رام اور سیتا کی شادی کے وقت سیتا کی عمر صرف چھ سال تھی (رامائن، ارینہ کانڈ، سرگ: ۴۷، اشلوک: ۱۱،۴،۱۰)
غرضیکہ کم عمری میں لڑکی کا نکاح اور بیوی وشوہر کے درمیان عمر کا فرق طرفین کی باہمی رضامندی ، معاشی رواج، موسم، صحت اور بلوغ سے متعلق ہے، مشرق ومغرب کے اکثر سماج میں کم عمر لڑکیوں کا نکاح ہوتا رہا ہے، مختلف مذہبی کتابوں میں نہ صرف اس کی اجازت دی گئی ہے؛ بلکہ اس کی ترغیب دی گئی ہے، اور خاص کر ہندو سماج میں اس کا رواج زیادہ رہا ہے، اور مذہب کی مقدس شخصیتوں نے اس عمر میں نکاح کیا ہے۔

جمعہ, جون 10, 2022

رانچی میں جمہوری طریقہ پر اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہے نوجوانوں پر پولیس کا گولیاں چلانا افسوس ناک : امارت شرعیہ

رانچی میں جمہوری طریقہ پر اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہے نوجوانوں پر پولیس کا گولیاں چلانا افسوس ناک : امارت شرعیہ
امارت شرعیہ کا وفد زخمی بچوںسے ملاقات کے لیے انتظامیہ کے رابطہ میں،پر امن مظاہرہ جمہوری حق ہے ، مظاہرین پر گولیاں چلانے والوں پر کارروائی کا مطالبہ
 

 آج جمعہ کی نماز کے بعد جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی میں توہین رسالت کے مجرمین کے خلاف ا پنے دکھ اور تکلیف کا اظہار کرنے کے لیے جمہوری طریقہ پر جمع ہوئے نوجوانوں پر پولیس کا گولیاں چلانا افسوس ناک ہے۔امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ کے امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب نے پولیس کی اس ظالمانہ کارروائی پراپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک کے آئین نے ہمیں جمہوری طریقہ پر اپنی ناراضگی کا اظہار اور احتجاج کرنے کا حق دیا ہے ۔رانچی میں نوجوانوں کی جماعت حکمراں جماعت بی جے پی کے ترجمانوں نوپور شرما اور نوین کمار جندل کے ذریعہ  پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں توہین آمیز الفاظ کہے جانے کے خلاف پر امن اور جمہوری طریقہ پر اپنی ناراضگی ظاہر کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے ۔ لیکن پولیس نے ان کے خلاف بے رحمانہ طریقہ اپنا یا اور گولیاں برسائیں جس کی بنا پر ایک لڑکا مدثر ولد محمد پرویز ساکن لیک روڈ رانچی شدید زخمی ہوا ہے اور رمس(RIMS) میں وینٹی لیٹر پر زندگی اور موت کے درمیان ہے ، اس کے علاوہ درجنوں بچے زخمی ہو کر اسپتال میں پڑے ہیں، کئی بچوں کو رمس لے جا یا گیا ہے اور بہت سے انجمن اسپتال میں ہیں۔

حضرت امیر شریعت نے کہا کہ اگر پولیس کو احتجاج ختم ہی کرانا تھا تو پولیس کے پاس احتجاج کو ختم کرنے کے لیے کئی طریقے ہیں ، ایسے موقعوں پر پولیس آنسو گیس، پانی کی بوچھاڑ یا ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا کرتی ہے۔ لیکن اس معاملہ میں پولیس نے لاٹھی چارج اور گولیاں برسانے سے ہی آغاز کیا جو کہ پولیس کے تعصب اور دوہرے رویہ کی واضح علامت ہے ۔

امارت شرعیہ حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ اس معاملہ کی غیر جانبدارانہ تحقیق ہو اور مظاہرین پر گولی چلانے والے پولیس والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔جو پولیس کی گولیوں سے زخمی ہوئے ہیں ان کا بہتر علاج و معالجہ سرکاری خرچ سے کرایا جائے اور معاوضہ بھی دیا جائے ۔

امارت شرعیہ  کا ایک وفد لگاتار ڈی ایم اور انتظامیہ کے دیگر ذمہ داران  سے بات کر رہا ہے تاکہ  زخمی بچوں سے ملا قات کی  جا سکے اور ان کا بہتر علاج و معالجہ کرایا جا سکے ۔ امارت شرعیہ کے ذمہ داران مسلسل حکومت کے عہدے داران سے رابطہ میں ہیں اور حالات کو قابو میں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ حضرت امیر شریعت نے مسلمانوں سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ اشتعال میں نہ آئیں اور جنازہ کے وقت کوئی پر تشدد طریقہ نہ اپنائیں، امن و امان قائم کرنے میں مدد کریں ۔ امارت شرعیہ کی جانب سے بھی زخمیوں کے علاج میں تعاون کیا جائے گا ۔

جہان ادب کے سیاح ڈاکٹر امام اعظم " ایک جائزہ ✍️ قمر اعظم صدیقی ، بانی و ایڈمن ایس آر میڈیا

" جہان ادب کے سیاح ڈاکٹر امام اعظم " ایک جائزہ 
✍️ قمر اعظم صدیقی ،  بانی و ایڈمن ایس آر میڈیا 9167679924

زیر مطالعہ کتاب" جہان ادب کے سیاح :  ڈاکٹر امام اعظم " کے مصنف کا نام پروفیسر ڈاکٹر خالد حسین خاں ہے ۔ آپ ادبی دنیا میں محتاج تعارف نہیں ہیں ۔  آپ میرٹھ کالج میرٹھ یونیورسٹی میں صدر شعبہ اردو کے عہدے پر فائز تھے چند سال قبل آپ سبکدوش ہوئے ہیں ۔  آپ درجنوں معتبر اداروں کے سرپرست اور رکن رہ چکے ہیں حتیٰ کہ بہت سارے اداروں کے اب بھی  سرپرست ہیں ۔  آپ کے  امتیازات ، اعزازات ، انعامات ، کی فہرست بھی  طویل ہے ‌۔  آپ کی تصنیفات اور تالیفات کی تعداد بھی دو درجن کے قریب ہے ۔  آپ کی  لکھی  ہوئے بہت سارے  نوٹس مثلاً   " ارمغان  ادب " 
(اردو نثر کی تنقید  اور اردو شاعری کی تنقید ) ، "  خضر راہ " (  تنقید ،  تجزیہ اور تشریح ) ، "  تصویر درد " (تنقید ،  تجزیہ اور تشریح ) ،  " اقبال کی تین نظمیں "  تجزیاتی مطالعہ  اور اردو کے منتخب سوانح اور  خاکے میرٹھ یونیورسٹی کے بی اے اور ایم اے کے نصاب میں شامل رہ چکے ہیں ۔ آپ کے تین درجن ریڈیو ٹاک آل انڈیا ریڈیو و دیگر جگہوں سے نشر ہو چکے ہیں ۔ دو درجن کے قریب طلباء نے آپ کے زیر نگرانی اپنے ریسرچ کا کام مکمل کیا ہے ۔ 
دراصل یہ کتاب ڈاکٹر امام اعظم پر لکھی گئ کتاب یا امام اعظم صاحب کی لکھی ہوئی کتاب کے تجزیے کا مجموعہ کہا جا سکتا ہے ۔ جس میں مصنف نے ڈاکٹر امام اعظم کی سیرت ، ذکر ، فکر ، فن اور کارناموں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی  ہے ۔
 اس کتاب کے مطالعہ کے بعد بخوبی اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر خالد حسین خاں صاحب نے بہت ہی محبت ، عقیدت اور محنت کے ساتھ اس کتاب کو تیار کیا ہے ۔ مصنف کی ڈاکٹر امام اعظم صاحب سے کبھی رو برو ملاقات نہیں ہوئ ہے باوجود اسکے انہوں نے اپنی فراخ دلی اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کیا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ڈاکٹر خالد صاحب امام اعظم صاحب کی علمی صلاحیت کے قدر داں ہیں ۔ 
" پیش گفتار "  میں مصنف نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا ہے :  
" ڈاکٹر امام اعظم اردو کے پاسدار ،  ہندی کے تاجدار ،  انگریزی کے رازدار ، شعر و صحافت کے ذی وقار اور شخص  طرحدار  ہیں ۔  ان کی تحریروں میں ایہام نہیں وضاحت ہے ،  ابہام نہیں صباحت  ہے ، ان کی شاعری میں زندگی کی جستجو ہے ،  وہ زندگی جو ماضی ، حال ،  مستقبل تینوں سے عبارت ہے،  جس  میں ماضی کا طرب ،  حال کا کرب اور مستقبل کی بشارت تینوں کی عکاسی و نقاشی اپنی بہار دکھاتی ہے ۔ 
اس تحریر میں اردو کے موجودہ حالات اور مستقبل میں اردو کے نتائج کے تعلق سے مصنف کے درد کو محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں : 
"  آج اردو دنیا میں انتشار ، افتراق اور  اشتہار کا ماحول ہے ‌۔  ہر شخص اپنی خودستائی ،  خود نمائی اور خود توصیفی نیز "  ہم چنیں دیگرے نیست "  کی ڈفلی بجا رہا ہے ۔ کسی کو یہ فکر نہیں کہ اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی نیز اشاعت و ترسیل کی راہ میں حائل مشکلات و معاملات کو کیسے دور کیا جائے ،  کون سی ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے جو اردو کی فلاح و بقا کے لیے مفید اور کار آمد ہو ۔ اس کے برخلاف اردو والوں کو فکر ہے تو صرف اور صرف اپنے ذاتی مفاد کی 
" جہان ادب کے سیاح ڈاکٹر امام اعظم" (صفحہ 7) 
" جہان ادب کے سیاہ : ڈاکٹر امام اعظم "کے عنوان سے اپنی تحریر میں ڈاکٹر خالد صاحب نے موجودہ و آنے والی نسلوں کے لیے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ  : 
" وہ لوگ جو اردو سے انحراف کر رہے ہیں گویا وہ اپنے اسلاف و آباء کی تاریخ و تہذیب سے انحراف کر رہے ہیں، گرچہ اردو اسلامی زبان نہیں ہے تاہم ہندوستان میں اسلامی امور اور تہزیبی و ثقافتی مزہبی ، دینی و ادبی شعور پر ساری کتابیں اردو زبان میں ہی ہیں ۔ اس لیے ہمیں اپنی نسل نو کو اردو زبان سے آشنا رکھنا ہی ہوگا تاکہ ہماری اولادیں ہماری صحیح تاریخ، تہزیب ، ثقافت ، اور ادب سے واقف ہو سکیں اور سچائیوں کے چور اور زعفرانی سیاست کے تلخ امور انہیں گمراہ نہ کر سکیں ۔ (صفحہ 11)
" تمثیل نو " کے تعلق سے مصنف کے خیالات ملاحظہ فرمائیں : 
" تمثیل نو " کا اولین شمارہ مارچ 2001 میں مطلع ادب پر طلوع ہوا تھا اور تواتر کے ساتھ تقریباً 20برسوں سے شائع ہو رہا ہے ۔ تمثیل نو کے مختلف گوشے اس حقیقت کے غماز ہیں کہ اس کا دائرہ تنگ نہیں آفاقی  ہے اور اردو کے معمر و معتبر فعال و فہمیدہ تخلیق کاروں کے علاوہ نو وارد قلمکاروں کے لیے بھی ایک وسیع و عریض،  کھلا آسمان اور زمین ان کے ادبی چوکڑیوں کے لیے موجود ہے جس میں وہ نڈر ہو کر زرقندیں بھر سکتے ہیں ۔ (صفحہ 18)
امام اعظم کی دینداری ، خاکساری عاجزی اور اردو دوستی کے تعلق سے مصنف یوں رقم طراز ہیں : 
" ڈاکٹر امام اعظم باشعور ہونے کے ساتھ ساتھ باعمل بھی ہیں ۔ صرف دین اسلام کے داعی نہیں دیندار مسلمان بھی ہیں ۔ اردو کے راہی نہیں پختہ حامی بھی ہیں ۔ وہ ایک ممتاز و متمول خاندان کے چشم وچراغ ہیں لیکن ان کو اپنے خاندان پر غرور  بالکل نہیں ہے ۔ ان کا مطمح نظر ابتداۓ عمر سے یہ رہا ہے کہ پڑھو اور بڑھو ۔ تمثیل نو میں ان کا یہی موقوف و منشا کار فرما ہے ۔ وقت کی پابندی پر وہ ہمیشہ گامزن رہتے ہیں ۔ (صفحہ 28)
"سہرے کی ادبی معنویت " کے تعلق سے ڈاکٹر خالد صاحب کے خیالات کو ملاحظہ فرمائیں : 
" ڈاکٹر امام اعظم میرے محب پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کی روش و راہ پر گامزن نظر آتے ہیں جس کا واضح ثبوت ان کی مرتبہ کتاب بعنوان " سہرے کی  ادبی معنویت " سے ہویدا  ہے ۔  جس طرح کرسٹو فرکولمبس  نے امریکہ دریافت کر کے دنیا کو محو حیرت  کر دیا تھا اور تاریخ کائنات میں سدا کے لیے اپنا نام و کام ثبت کرا  دیا ۔ کچھ  اسی طرح ڈاکٹر امام اعظم نے بھی دنیاۓ شعر و ادب میں اکیلا انوکھا اور ان ہونا  کارنامہ سر کیا ہے۔  یعنی موصوف نے  صنف" سہرا " کے ذیل میں پہلی بار اس کی تاریخ ، تعریف تفسیر، توضیح اور تشریح کے باوصف اس میدان میں اولیت کا سہرا بھی اپنے سر باندھ لیا ہے ، ان کا یہ کام تاریخ سہرا میں یقیناً کارنامہ شمار ہوگا " 
(صفحہ 31)
" ڈاکٹر امام اعظم بحیثیت شاعر " کا تجزیہ کرتے ہوۓ مصنف لکھتے ہیں کہ : 
ڈاکٹر امام اعظم کی سیرت و کردار کی طہارت ، نفاست ، شرافت ، وراست اور صلاحیت کے سبب ان کی شخصیت کی طرح ان کی شاعری بھی شفافیت،  طہاریت ،صالحیت اور اخلاقیات کی غماز ہے ۔ موصوف اپنی نظم و نثر دونوں میں میزان عدل کا دامن کہیں نہیں چھوڑتے۔ (صفحہ57)
 موصوف اسی ضمن میں آگے لکھتے ہیں کہ : 
"  ڈاکٹر امام اعظم  کے شعری مجموعوں  ("قربتوں کی دھوپ" اور" نیلم کی آواز ") میں محبت کے گہر ، عقیدت کے ثمر ، عاشق کے شرر اور شاعری کے ہنر سبھی دیدنی و دادنی ہیں ۔ انہوں‌نے اپنے ذہن و  ذات کے دروازے بیرونی ہواؤں کے لئے ہمیشہ کھلے رکھے اور ان کا فراخ دلی سے استقبال کیا نیز ان کی تازگی و سادگی کو محسوس اور تسلیم بھی کیا ہے " (صفحہ 59)

چٹھی آئی ہے کا تجزیہ بھی مصنف نے بہت ہی عمدہ انداز میں کیا ہے ۔  مصنف کا یہ انداز بیاں مجھے بہت ہی پسند آیا کہ  وہ بہت ہی محبت و خلوص کے ساتھ لفظوں کا جادو چلاتے ہوئے تنقیدی باتوں کو بھی  محبت کے لڑیوں میں پیڑو دیتے ہیں۔ پہلے شاہد اقبال کے لیے چند تعریفی کلمات جو کہ مصنف نے "چٹھی آئ ہے " کہ  حوالے سے کی ہے ملاحظہ فرمائیں : 
 " شاہد اقبال کا اختصاص یہ بھی  ہے کہ انہوں نے اپنی ادبی سفر کی سیاحی  میں سند باد جہازی کی طرح ایسا تنقیدی ، تدوینی اور قدرے تحقیقی و تاریخی کام انجام دے ڈالا ہے جسے کرنے  میں دوسروں کو برسہا برس  لگ جاتے ہیں ۔ شاہد اقبال کا یہ  ترتیبی ،  تدوینی، مکتوباتی ادب میں "کارنامہ "  کہا جا سکتا ہے ۔ " ( صفحہ 65 )
اب مصنف کے تنقیدی پہلو کا جائزہ لیں جس میں انہوں نے خط کے حوالہ نمبر ( 5 )پانچ کا ذکر کیا ہے جو کہ (مکتوب گوپی چند نارنگ کے صفحہ 33 ) کا حوالہ ہے ۔ اور پھر اس کا تجزیہ کچھ اس انداز میں کیا ہے اقتباس ملاحضہ فرمائیں : 
" مزکورہ خط میں ( ایک اچھا اقدام ) محل نظر ہے کیونکہ " ایک "( واحد ) ہے اور " اقدام " (جمع ) یہاں یوں لکھا جاتا تو راقم کی نظر میں زیادہ مناسب و موزوں رہتا ۔ "ایک اچھا قدم اٹھایا ہے" 
یا جملہ اس طرح لکھا جاتا " ان پر مباحثہ قائم کر کے ایک اچھا فیصلہ کیا ہے " ( صفحہ 76 )
اس کتاب کا سب سے آخری موضوع "  دربھنکہ کا ادبی منظر نامہ :  ڈاکٹر امام اعظم کی ادبی و صحافتی خدمات کے حوالے سے "  مصنف نے اپنے خیالات کو کچھ اس انداز میں ظاہر کیا ہے : 
" سرزمین  بہار کا نسبتاً چھوٹا ضلع دربھنکہ دیار  درخشاں ، مہر تاباں اور قابل بیاں شہر ہے ۔ اس شہر رنگ و نور میں سدا سے ہی دانشور، سخنور، ہنرور ، اور علماء ، فصحا  ، شرفاء اور  ادباء نے آنکھیں کھولیں اور حسب توفیق اس گلشن ادب کی سیرابی کی ہے ۔ جس طرح غالب کو غالب دوراں بنانے اور منوانے میں حالی اور عبدالرحمن بجنوری جیسے لائق و فائق شیدائی میسر آۓ نیز عبدالحلیم شرر کو مناظر عاشق ہرگانوی جیسا عاشق صادق اردو ملا جس نے شرر کے ادبی و شعری شراروں کو اپنے ریسرچ کے وسیلے سے شعلہ جوالہ بنا دیا اسی طرح ڈاکٹر امام اعظم کو سرور کریم جیسا دانش مند  ، ہوش مند اور درد مند کرم فرما محب ملا ۔   صفحہ (101)
مصنف آگے امام اعظم کے حوالے سے یوں رقم طراز ہیں ملاحظہ فرمائیں : 
" جس طرح سرزمین ہند نے دو عظیم المرتبت اکبر پیدا کیے ایک مغل شہنشاہ اکبر اعظم اور دوسرا اکبر الہ آبادی اسی مانند دربھنگہ نے  امام اعظم نامی و گرامی قلمکار و فنکار ، صحافی و مدیر  کو جنم دیا جو اکبر اعظم کی طرح مملکت اردو کا  امام اعظم قرار دیا جا سکتا ہے ۔ " صفحہ (102)
اخیر میں صفحہ 104 سے 105 تک مصنف نے شناس نامہ لکھا ہے اس کے بعد صفحہ 106 سے 112 تک کوائف درج ہے ۔  یہ کتاب امام اعظم اور ادب کے حوالے سے ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ادب کی دنیا میں یہ کتاب قدر کی نگاہوں سے دیکھی جایے گی اور رسرچ اسکالر کے لیے کافی مفید ثابت ہوگی ۔ 112صفحات پر مشتمل یہ کتاب بہت ہی معیاری و دلکش ہے ۔ مصنف نے اپنی اس کتاب کا انتساب اپنے والدین کے نام کیا ہے ۔ اس کتاب کی قیمت 150روپیہ ہے جسے بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ ، ناولٹی بکس دربھنگہ ، شمسی بک سینٹر سمستی پور ، اور عثمانیہ بک ڈپو کولکاتا سے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ مزید معلومات کے لیے9358285859 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مولانا حفیظ الرحمن اعظمی عمری مدنیؒ____ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مولانا حفیظ الرحمن اعظمی عمری مدنیؒ____
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
مفسرقرآن جامعہ دار السلام عمرآباد تامل ناڈو کے ناظم اعلیٰ، استاذ الاساتذہ، نامور عالم دین، اچھے شاعر، بہترین نثرنگار، کئی کتابوں کے مصنف ومولف مولانا حفیظ الرحمن عمری مدنی کا ۲۴؍مئی ۲۰۲۲ئ؁ مطابق۲۲؍شوال ۱۴۴۳ھ؁ بروزمنگل دوپہر انتقال ہوگیا اور اسی دن بعد نماز عشاء دس بجے شب جنازہ کی نماز ادا کی گئی اور عمرآباد میں ہی تدفین عمل میں آئی، اہلیہ کا انتقال برسوں پہلے ہوچکا تھا، پس ماندگان میں تین بیٹیاں ہیں، مولانا حفیظ الرحمن اعظمی بن مولانا محمد نعمان اعظمی (م۲۸؍ دسمبر ۱۹۵۱ئ) بن عبد الرحمن شہید کی پیدائش ۳؍اپریل ۱۹۴۱ئ؁ تامل ناڈو کے شہر عمرآباد میں ہوئی، دس سال کی عمر میں ہی والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، تربیت کی ذمہ داری والدہ نے سنبھالی اور تنگ دستی کے باوجود اپنے بچوں کو عالم بنایا، مولانا کے والد جامعہ دار السلام عمرآباد میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز تھے اور ان کا شمار میاں نذیر حسین محدث دہلویؒ کے نامور شاگردوں میں ہوتا تھا، مولانا کی ابتدائی تعلیم ناظرہ قرآن تک کی گھر پر ہوئی، حفظ قرآن کے لئے مولانا قاری عبد اللہ عمری کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کی ، پھر جلد ہی دار العلوم پرنامیٹ منتقل ہوگئے اور حفظ قرآن کی تکمیل مولانا محمود الحسن سے ہوئی، ۱۹۵۳ئ؁ میں جامعہ دارالسلام عمرآباد میں عربی کے ابتدائی درجہ میں داخل ہوئے، ۲۹؍جنوری۱۹۶۱ئ؁ کومروجہ ومتداولہ نصاب کی تکمیل کرکے سندفراغ حاصل کیا یہاں کی سند مولوی فاضل کے نام سے متعارف ہے، یہاں مولانا نے علامہ شاکر اعظمی، مولانا عبد الواحد عمری رحمانی، مولانا عبد السبحان، مولانا سید امین عمری اور مولانا ابو البیان حماد عمری سے کسب فیض کیا، مدراس یونیورسیٹی سے افضل العلماء کی سند بھی حاصل کی، نومبر ۱۹۶۱ئ؁ میں کلیۃ الشریعۃ جامعہ اسلامیہ مدینۃ المنورہ میں داخلہ لیا اور یہاں سے بی اے کے مساوی سند ملی، یہاں کے اساتذہ میں شیخ بن باز، شیخ ناصر الدین البانی، شیخ محمد امین شفقیطی، شیخ عبد الحسن بن عباد، حافظ محمد گوندلوی، شیخ عبد الغفار رحمہم اللہ کے اسماء گرامی خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔۱۹۶۵ئ؁ میں مدینہ منورہ سے واپسی کے بعد سہ روزہ مدینہ بجنور میں کچھ دن اور روزنامہ دعوت دہلی میں چند ماہ نائب مدیر کی حیثیت سے کام کیا، پھر مادر علی جامعہ دارالسلام عمرآباد تشریف لے آئے اور ۱۱؍فروری ۱۹۶۶ئ؁ سے جامعہ دارالسلام عمرا ٓباد سے منسلک ہوگئے اور تادم  واپسیں اس ادارہ کی خدمت کرتے رہے، وہ جامعہ کے ترجمان ’’راہ اعتدال‘‘ کے مدیر اعزازی بھی تھے، جامعہ دا رالسلام عمر آباد سے متعلق رہنے کے درمیان آپ نے نائجریا اور ملیشیا کا بھی سفر کیا اور کم وبیش آٹھ سال ۱۹۷۶ سے ۱۹۷۸ء تک نائیجیریا اور ۱۹۸۲ء سے ۱۹۸۶ء تک ملیشیا میں قیام پذیر رہے، اور وہاں درس وتدیس وعظ وتذکیر کے فرائض انجام دیے۔
 مولانا کو اللہ تعالیٰ نے تصنیف وتالیف کا خصوصی ملکہ عطا فرمایا تھا، آپ کی تصنیفات میں متاع قرآن ، فکری یلغار، میری زندگی کا حاصل، اسلام میں اختلاف کے آداب، ارض حرم میں پہلا قدم (سفر نامہ حج وعمرہ) اور خطبات کا مجموعہ صدائے دل مشہور ومعروف ہیں۔
 میری ان سے برسوں پہلے اسلامک فقہ اکیڈمی کے سمینار منعقدہ جامعہ دار السلام عمر آباد میں ملاقات ہوئی تھی ، وہ انتہائی چاق وچوبند اور مثالی قسم کے انسان تھے، ظاہری شکل وصورت او روضع وقطع متاثر کن نہیں تھی، لیکن جب زبان کھولتے اورقلم چلتا تو علم کا سمندر ابلتا، وہ اپنے مسلک پر عامل ہوتے بھی دوسرے مسالک کی قدر کرتے اور ان کے واجبی اکرام واحترام میں کمی نہیں آنے دیتے، ان کی فکر انتہائی معتدل تھی اس اعتدال کی ترویج واشاعت کو انہوں نے اپنی زندگی کا نصب العین بنا رکھا تھا، شاید اسی لیے جامعہ کے ترجمان کا نام ’’راہ اعتدال‘‘ رکھا گیا تھا، اس سفر میں میری ملاقات مولانا ابو البیان حماد ساحب سے بھی ہوئی تھی ، انہوں نے راہ اعتدال کے کئی شمارے میرے حوالہ کیا تھا ، میں ا ن دنوں مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور میں تھا،جو انی کا جوش تھا اس لیے فکر میں اعتدال کی کمی تھی ، جن فرقوں کو صراط مستقیم سے ہٹاپاتا تو اس کے خلاف بولتا اور لکھتا بھی، بلکہ ایک انجمن تھی جس میں ویشالی ضلع کے بڑے علماء فرقۂ ضالہ منحرفہ پر اپنی تحقیقات پیش کرتے، کئی مقالے جن کو میں نے امارت شرعیہ آنے کے بعد اپنی فہرست سے نکال دیا ہے،اسی زمانہ میں لکھے گیے، ایسے میں راہ اعتدال کے شماروں سے فکر کو معتدل کرنے اور جارحانہ لب ولہجہ کے بجائے سنجیدہ اسلوب اختیار کرنے میں بڑی مدد ملی، پھر جب امارت شرعیہ آگیا تو یہاں اس کا کوئی موقع ہی نہیں تھا، یہاں کلمہ کی بنیاد پر اتحاد کی دعوت دی جاتی ہے اس لیے مسلک اور فرقوں پر گفتگو کا سلسلہ ہی بند ہو گیا، لیکن فکری اعتدال پیدا کرنے میں راہ اعتدال نے اپنا کردار ادا کیا، مولانا حفیظ الرحمن صاحب جیسا کہ پہلے مذکور ہوا، اس رسالہ کے مدیر اعزازی تھے۔
 مولانا کی ذات میں تواضع وانکساری بدرجہ اتم تھی، جامعہ میں بڑے عہدے پر فائز تھے، علم پختہ تھا، جس میں گہرائی بھی تھی اور گیرائی بھی ، نظامت سے وابستہ تھے، اس لیے مختلف مزاج کارکنوں سے ہر روز واسطہ پڑتا تھا، جنہیں برتنا اور ڈیل کرنا آسان کام نہیں ہوتا ، لیکن مولانا کا مزاج ایسا تھا کہ سب کو برت لیتے اور ان کی ضروریات کی تکمیل کرتے ، ضرورت پڑنے پر داروگیر اور تنبیہ سے بھی بازنہیں آتے، لیکن اندازہر حال میں مشفقانہ ہی رہتا، اس لیے لوگ ان کی قدر کرتے تھے، او راعلیٰ عہدے پر فائز ہونے کے باوجود ان سے بات کرتے اوراپنی بات رکھتے ججھک نہیں محسوس کرتے تھے۔
 مولانا ہمارے درمیان نہیں رہے ، ان کے ہزاروں شاگرد اور ان کی تصنیف کردہ کتابیں ان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں، عالم برزخ میں انہیں ان کی نیکیوں کا صلہ مل رہا ہوگا اور اللہ رب العزت نے ان کے سیات سے در گذر کرکے فرشتوں کے ذریعہ ’’نم کنومۃ العروس‘‘کا مزدہ سنا دیا ہوگا اور وادخلی جنتی سن کر زندگی بھر کی تکان دور ہو گئی ہوگی۔

یوپی میں نماز جمعہ کے پیش نظر سخت حفاظتی انتظامات ، کانپور اور لکھنؤ میں دفعہ 144 نافذ

یوپی میں نماز جمعہ کے پیش نظر سخت حفاظتی انتظامات ، کانپور اور لکھنؤ میں دفعہ 144 نافذ

اترپردیش کے ضلع کانپور میں گزشتہ 3 جون کو دو گروپوں کے درمیان ہوئی پرتشدد جھڑپوں کے بعد پولیس نے سیکورٹی کے پیش نظر جمعرات کی دیر شام کو شہر میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 144 کے تحت حکم امتناعی نافذ کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ راجدھانی لکھنؤ میں بھی حکم امتناعی نافذ کیا گیا ہے اور ریاست بھر میں چوکسی برتی جائے گی۔

کانپور کے جوائنٹ پولیس کمشنر آنند پرکاش تیواری نے یہ جانکاری دیتے ہوئے بتایا کہ شہر میں حکم امتنازعی نافذ کئے جانے کے بعد پولیس کی ٹیمیں ہائی الرٹ پر رہیں گی۔ تیواری نے بتایا کہ آئندہ جمعہ اور امتحانات کو دیکھتے ہوئے شہر میں دفعہ 144 نافذ کی گئی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ بی جے پی کے لیڈروں کے متنازع بیان کے مسئلے پر گزشتہ ہفتے بیکن گنج علاقے میں جمعہ کی نماز کے بعد دو گروپوں کے درمیان تشدد پھوٹ پڑا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ شہر میں دفعہ 144 نافذ کرنے کے بعد نظم و نسق بنائے رکھنے کے لئے اس دفعہ کی سبھی شرطوں کو سختی سے نافذ کیا جائے گا۔ کانپور میں پی اے سی کی 12 کمپنیوں، تین اضافی آئی پی ایس افسران اور ریپڈ ایکشن فورس کی دو کمپنیوں کی تعیناتی کے ساتھ سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔

یو پی کے ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل آف پولیس (اے ڈی جی ) لا اینڈ آرڈر پرشانت کمار نے کہا کہ حساس علاقوں اور عبادت گاہوں میں پولیس کو حکمت عملی کے ساتھ تعینات کیا گیا ہے۔ پرشانت کمار نے کہا کہ پولیس افسران امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے علما اور گروپ کے دیگر رہنماؤں سے رابطے میں ہیں۔

اے ڈی جی نے کہا کہ فیروز آباد، شاملی، سہارنپور، مراد آباد، آگرہ، ایودھیا، وارانسی، گورکھپور، کانپور اور لکھنؤ سمیت حساس اضلاع میں خصوصی تعیناتی کی گئی ہے۔ اے ڈی جی نے کہا کہ پراونشل آرمڈ کانسٹیبلری (پی اے سی) کی 12 کمپنیاں پہلے ہی کانپور میں کیمپ کر رہی ہیں، جب کہ کچھ کمپنیوں کو حساس اضلاع میں بھیجا گیا ہے۔

ادھر، کانپور تشددمعاملے میں متعدد افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ ذرائع کے مطابق گرفتار حیات کے خلاف درج پرانے کچھ مقدمامت کے چارج شیٹ سے اس کا نام ہٹائے جانے کے معاملے کی جانچ کرنے اور متعلقہ پولیس افسران کے خلاف محکمہ جاتی کاروائی کا حکم دیا گیا ہے۔

مانا جاتا ہے کہ حیات ظفر کے خلاف کئی سال پہلے سے چل رہے مجرمانہ معاملوں میں جانچ افسران نے لیپا پوتی کر اس کا نا چارج شیٹ سے ہٹا دیا تھا۔ اس درمیان کانپور تشدد کے سلسلے میں سوشل میڈیا پر قابل اعتراض پوسٹ ڈالنے والے ایک شخص کو پولیس نے جمعرات کو گرفتار کیا ہے۔

پولیس نے ویب میڈیا سے وابستہ ایک شخص کو سوشل میڈیا پر قابل اعتراض پوسٹ ڈالنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ کانپور مغربی علاقے کے پولیس کمشنر بی بی جی ٹی ایس مورتی نے بتایا کہ شہری کے شاستری نگری علاقہ باشندہ گورو راجپوت کو گرفتار کیا گیا ہے۔ وہ کانپور اسٹارٹ ٹائم نام سے ایک ویب پورٹل چلاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گورو نے اپنی فیس بک پوسٹ پر ایک مخصوص مذہب کے سلسلے میں قابل اعتراض تبصرہ کیا تھا۔ اس کی جانکاری ملتے ہی پولیس نے اس کے خلا ف مذہبی جذبات مبینہ بھڑکانے کا مقدمہ درج کر کے اسے گرفتار کرلیا۔ پولیس نے قابل اعتراض پوسٹ بھی ڈلیٹ کرا دی ہے۔

مورتی نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ شہر میں قیام امن و امان میں اپنا تعاون پیش کریں۔ انٹر نیٹ میڈیا پر کسی بھی قسم کا قابل اعتراض ویڈیو یا پوسٹ نہ ڈالیں جس سے شہر کا ماحول خراب ہو۔

یوپی کے گاؤں میں مسلم فقیروں سے مار پیٹ سادھو کے کپڑے پہنتے ہیں لیکن اس پیسے سے بریانی کھائیں گے '

یوپی کے گاؤں میں مسلم فقیروں سے مار پیٹ سادھو کے کپڑے پہنتے ہیں لیکن اس پیسے سے بریانی کھائیں گے 'گونڈا: اتر پردیش کے گونڈا ضلع کے ایک گاؤں کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے، جس میں کچھ مقامی لوگ بھیک مانگنے والے تین مسلم فقیروں کو گالیاں دیتے اور پریشان کرتے نظر آ رہے ہیں۔ آئی اے این ایس کی خبر کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ ایک ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔گونڈا علاقہ کے گاؤں دیگور میں موبائل فون سے بنائی گئی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لڑکے بھیک مانگنے والے تین افراد کا تعاقب کر رہے ہیں، انہیں مذہبی شناخت کی گالیاں دے رہے ہیں اور نازیبا تبصرے کر رہے ہیں۔ویڈیو میں ایک شخص کو کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے ''وہ سادھوؤں کے کپڑے پہنتے ہیں لیکن اس پیسے سے بریانی کھائیں گے۔''دریں اثنا، ایک لاٹھی سے لیس نوجوان نے ان لوگوں کو گھیر لیا اور ان سے شناختی کارڈ کا مطالبہ کرنے لگا۔ یہ سن کر کہ ان کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے، وہ انہیں جہادی اور دہشت گرد قرار دیتا ہے۔ ایک شخص مداخلت کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اسے یہ شرپسند دھکا دے دیتے ہیں۔پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ پولیس عہدیداروں کو معاملہ سے آگاہ کرا دیا گیا ہے اور ویڈیو میں نظر آ رہے ملزمین کی شناخت کرنے کے لئے کارروائی کی جا رہی ہے۔بعد میں پولیس نے اس معاملہ میں ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاملہ میں مقدمہ درج کیا گیا ہے اور ایک ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...