Powered By Blogger

ہفتہ, جون 25, 2022

اُردو یونیورسٹی میں جلد شروع ہوگی سیول سروسس کی کوچنگ

اُردو یونیورسٹی میں جلد شروع ہوگی سیول سروسس کی کوچنگ

اردو دنیا نیوز۷۲ حیدرآباد

کووڈ 19 کے باعث یونیورسٹی کی مسابقتی امتحانات کی اکیڈیمی کا کام رک گیا تھا۔ لیکن اب مرکزی وزارتِ اقلیتی امور کی جانب سے مالیہ کی فراہمی کے سلسلے میں پیشرفت ہوئی ہے اور بہت جلد اقلیتوں کے لیے مسابقتی امتحانات کی کوچنگ اکیڈیمی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں قائم ہوجائے گی۔ اس سلسلے میں ایک مرکزی ٹیم بہت جلد یونیورسٹی کا دورہ کرے گی۔

کرکٹ گراﺅنڈ کے سلسلے میں بھی جناب محمد اظہر الدین، صدر حیدرآباد کرکٹ اسوسی ایشن سے بات ہوئی ہے۔ بہت جلد اس سلسلے میں یادداشت مفاہمت کا امکان ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر نے آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی طلبہ یونین کے پروگرام جشنِ بہاراں 2022 کے افتتاحی اجلاس کے دوران کیا۔

جشن کے تحت مختلف ادبی، ثقافتی اور کھیل کود مقابلوں کا اہتمام کیا جائے گا جو 28 جون تک جاری رہیں گے۔ 5 جولائی کو ایک جاب فیسٹ کا بھی انعقاد عمل میں آئے گا۔

پروفیسر عین الحسن نے کہا کہ "میں نے ہندوستان میں بھی اور ملک کے باہر بھی بہت سے کیمپس دیکھے لیکن مانو میں ایک خاص بات دیکھی۔

یہاں کے طلبہ میں جو انکساری ہے وہ کہیں اور نظر نہیں آتی۔ مانو کے طلبہ جب اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اپنے مقالے پیش کرتے ہیں وہ دیگر سے بہتر نظر آتے ہیں۔"انہوں نے مانو کیمپس کو صحت کے تئیں حساس قرار دیا اور کہا کہ کیمپس میں سگریٹ نوشی بھی نہیں کی جاتی۔

پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، پرو وائس چانسلر نے کہا کہ تعلیم کے ساتھ زائد نصابی سرگرمیاں بھی ضروری ہیں۔ جشنِ بہاراں ہمیں اس کا موقع فراہم کرتا ہے ۔ طلبہ جہاں اس موقع کا فائدہ اٹھائیں وہیں اس بات کو ذہن نشین رکھیں کہ کچھ بھی غلط کرنے پر دنیا میں اور دنیا کے بعد اس کا حساب ہوگا۔

انہوں نے طلبہ یونین کے صدر محمد مرسلین کی ستائش کی جنہوں نے اپنی تقریر میں جشن بہاراں کے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے حالات کے پیش نظر تیار کیے گئے شیڈول کا تذکرہ کیا۔

پروفیسر علیم اشرف جائسی، ڈین بہبودیِ طلبہ نے خیر مقدمی خطاب میں طلبہ اور ڈی ایس ڈبلیو ٹیم کی گذشتہ دنوں کی کارکردگی کا ذکر کیا۔ پروفیسر محمد عبدالسمیع صدیقی، صدر نشین، مانو طلبہ یونین مشاورتی کمیٹی و ڈائرکٹر سی پی ڈی یو ایم ٹی نے جشنِ بہارا ں کے متعلق تفصیلات فراہم کیں۔ محمد مرسلین، صدر طلبہ یونین نے بھی خطاب کیا۔

ڈاکٹر محمد یوسف خان، کنوینر، طلبہ یونین مشاورتی کمیٹی و پرنسپل پالی ٹیکنیک نے شکریہ ادا کیا۔ مظہر سبحانی، بی ایس سی نے کاروائی چلائی۔ فاروق اعظم، ایم ایڈ کی قرأت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا۔ شہہ نشین پر پروفیسر اشتیاق احمد، رجسٹرار؛ طلبہ یونین عہدیداران ابو حمزہ ، نائب صدر؛ انعم جہاں، جوائنٹ سکریٹری اور وقار احمد ، خازن بھی موجود تھے۔

جشن کے پہلے دن آج بیت بازی اور تحریری مقابلے منعقد ہوئے۔ ڈاکٹر بی بی رضا خاتون بیت بازی اور ڈاکٹر پٹھان رحیم خان، تحریری مقابلوں کے کوآرڈینیٹرس تھے۔ اسپورٹس کی سرگرمیاں بھی شروع ہوگئی ہیں۔

جمعہ, جون 24, 2022

نماز جمعہ کے موقع پر الرٹ رہی رانچی پولیس

نماز جمعہ کے موقع پر الرٹ رہی رانچی پولیسرانچی، 24 جون (اردو دنیا نیوز۷۲)۔ رانچی پولیس جمعہ کے روز نماز جمعہ کو لے کر خاصی مستعد رہی۔ گذشتہ 10 جون کو ہونے والے تشدد کے پیش نظر احتیاطی اقدام کے طور پر شہر کی تمام مساجد میں پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ شہر کے لوئر بازار، ڈیلی مارکیٹ، تھانہ کوتوالی، ہندپیڑھی، ارگوڑہ اور ڈورانڈا تھانوں کے انچارج اپنے اپنے علاقوں میں گشت کرتے رہے۔اس کے علاوہ تمام ڈی ایس پی بھی اپنے اپنے علاقوں میں مستعد رہے۔ سٹی کنٹرول روم سے شہر کی سرگرمیوں اور لوگوں پر کڑی نظر رکھی جا رہی تھی۔ اس سے قبل جمعہ کے روز شہر کے کئی علاقوں میں پولیس اہلکار وں کوتعینات کیا گیاتھا۔ پولیس شہر میں امن کا ماحول بنانے میں مصروف ہے۔ اس کے علاوہ چوک ۔چوراہوں پر تعینات جوان اور پی سی آر میں تعینات سپاہی بھی نماز کے دوران خاصے متحرک نظر آئے۔ نماز کے بعد کہیں سے کسی ناخوشگوار واقعے کی اطلاع نہیں ملی۔

جسم فروشی پر عدالت کا فیصلہ____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ

جسم فروشی پر عدالت کا فیصلہ____
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
 جسم فروشی پر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے ملک کے باشندوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے، یہ فیصلہ ۲۶؍ مئی۲۰۲۲ء کو سپریم کورٹ کی سہ نفری بینچ نے جس میں جسٹس ایل ناگیشور راؤ، جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس اے ایس لونیا شامل تھے، سنایا ہے، اس فیصلہ میں معزز جج صاحبان نے جسم فروشی کو ایک پیشہ تسلیم کیا ہے، اور طوائف بننے کو غیر قانونی نہیں قرار دیا ہے،بلکہ انہیں جنسی کارکن( سیکس ورکر) مان کر ان کے حقوق کے تحفظ اوران کو پریشان نہ کرنے کا فیصلہ سنایا ہے اس کے ساتھ چھ ہدایات بھی دی ہیں، عدالت نے صرف کوٹھا چلانے کو جرم مانا ہے، اگر کوئی اپنی مرضی سے اپنے گھر میں یا ہوٹل میں جسم فروشی کرتا یاکرتی ہے تو یہ قابل گرفت جرم نہیں ہے۔کیوں کہ دستور کی دفعہ ۲۱؍ کے تحت با عزت زندگی گذارنے کا اختیار اس کو ہے، عدالت کی نظر میں طوائف اور گیگولو(GIGOLO) سے جڑے لوگوں کو بھی با عزت زندگی گذارنے میں کسی کو رکاوٹ نہیں بننا چاہیے،کیوں کہ  سیکس ورکر بھی عزت اور تحفظ کے حق دار ہیں۔ 
 عدالت نے ذرائع ابلاغ کو بھی ہدایت دی ہے کہ وہ کوٹھوں پر چھاپہ مارتے وقت گرفتار(جنسی کارکن) سیکس ورکروں کی تصویریں شائع نہ کریں، پولیس کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ طوائفوں سے با عزت طور پر پیش آئیں، اور ان کا جنسی استحصال نہ کریں، عدالت کو دفعہ ۱۴۲؍ کے تحت جو خصوصی اختیارات حاصل ہیں، اس کے تحت یہ فیصلہ سنایا گیاہے۔
ذہن میں یہ بات بھی رہنی چاہیے کہ ایک سروے کے مطابق پورے ہندوستان میں گیارہ سو کے قریب طوائفوں کی منڈی (ریڈ لائٹ ایریا) ہے جن میں اٹھائیس (۲۸) لاکھ عورتیں جنسی کارکن کے طور پر کام کر تی ہیں، گیلولو (مرد طوائف) کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔
 اس سے قبل ایک فیصلے میں عدالت نے بیوی کی مرضی کے بغیر جنسی تعلق کوزنا بالجبر کے درجہ میں رکھ دیا تھا، یعنی کوئی شوہر اپنی بیوی سے بغیر اس کی مرضی کے جسمانی تعلق قائم نہیں کر سکتا۔اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کا یہ عمل قابل مواخذہ ہوگا۔
 بہت پہلے سے طوائفوں کا یہ مطالبہ تھا کہ جسم پر میری مرضی چلے گی، کسی دوسرے کی نہیں، اس کے لیے جلوس نکالے گیے تھے اور مظاہرے بھی ہوئے تھے،سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ ان کے اس مطالبہ کو تسلیم کر لینے کے مترادف ہے، سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے برسوں سے چلی آرہی تہذیبی اقدار اور مذہبی فکر کو سخت نقصان پہونچا ہے۔
اس سلسلہ میں اسلام کی سوچ بہت واضح ہے کہ ہمارا جسم ہمارا نہیں اللہ کی طرف سے امانت ہے، اس لیے ہمارے جسم پر صرف اللہ کے بنائے ہوئے قوانین ہی نافذ ہوں گے، جنسی تعلق قائم کرنے کے جو اصول شریعت اسلامیہ نے ہمیں دیے ہیں، وہ مرد کی ضرورت اور عورت کی عفت وعصمت کی حفاظت کے لیے انتہائی ضروری ہیں، اس کے خلاف اٹھایا گیا کوئی قدم سماج کو غلاظت کے ڈھیر میں دھکیلنے جیسا ہوگا۔

وراثت میں لڑکیوں کا حصہ

وراثت میں لڑکیوں کا حصہ 

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی،نئی دہلی

سوال : میرے والد نے وراثت میں رہائش کے مکانات ، کاشت کی زمینیں اور باغات چھوڑے ہیں ۔ میرے بھائی ملکی قانون کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ تمہیں صرف رہائشی مکانات میں حصہ ملے گا ، کاشت کی زمینوں اور باغات میں نہیں ۔ کیا اسلامی شریعت میں بھی ایساہی ہے؟

اگر تقسیمِ وراثت کے معاملے میں ملکی قانون اور اسلامی قانون میں فرق ہو اورکوئی مسلمان اسلامی قانون پر عمل نہ کرے تو اس کے لیے کیاوعید ہے؟ یہ بھی بتادیں ۔

جواب: وراثت کے احکام قرآن مجید میں بہت صریح اور دوٹوک ہیں اور ان میں عورتوں کا بھی حصہ متعین کیاگیاہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

لِلرِّجَالِ نَصیِبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءنَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ أَوْ کَثُرَ نَصِیْباً مَّفْرُوضاً۔ (النساء:07)

''مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑاہو اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑاہو ، خواہ تھوڑاہو یا بہت اور یہ حصہ(اللہ کی طرف سے)مقرر ہے ۔'' اس آیت سے کئی باتیں معلوم ہوتی ہیں ۔

ان میں سے درج ذیل اہم ہیں :

1 ۔ مالِ وراثت میں صرف مردوں کا ہی حصہ نہیں ، بلکہ عورتوں کا بھی حصہ ہے ۔

2 ۔ مالِ وراثت کی مقدار چاہے جتنی ہو ، (کم سے کم یازیادہ سے زیادہ) ، ہر حال میں اسے تقسیم ہوناچاہیے ۔

3 ۔ قانونِ وراثت کا اطلاق ہر قسم کے اموال پر ہوگا ، چاہے وہ منقولہ ہو ں یا غیر منقولہ ، زرعی ہوں یا صنعتی ، مکانات ہوں یا زمینیں یا باغات ۔ آگے قرآن نے مستحقین کے حصوں کی صراحت کردی ہے ۔ ان میں مردوں اور خواتین دونوں کا تذکرہ کیاہے ۔ چنانچہ باپ ، بھائی اور شوہر کے ساتھ ماں ، بہن اور بیوی کے حصے بھی بتائے ہیں اور یہ بھی ذکر کردیاہے کہ اولاد میں لڑکے کا حصہ دولڑکیوں کے برابر ہوگا۔ (النساء :11)

ہرمسلمان کے اندر یہ جذبہ ہونا چاہیے کہ وہ زندگی کے تمام معاملات میں اللہ اور اس کے رسول کے حکموں پر عمل کرے گا ۔ خاص طور پر تقسیمِ وراثت کے معاملے میں اسے شرعی احکام پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔

ملکی قانون چاہے کسی کو محروم کرتا ہو ، لیکن اگر اسلامی شریعت نے اس کا حق متعین کیا ہو تو اسے ضرور اداکرناچاہیے اور اس سے راہِ فرار اختیار کرنے کے لیے ملکی قانون کا سہارا نہیں لینا چاہیے ۔ قرآن مجید میں اس کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔ جو لوگ احکامِ وراثت پر عمل نہیں کرتے ، مستحقین کو ان کے حصے نہیں دیتے اور پورا مال ہڑپ کرلیتے ہیں ان کواللہ تعالیٰ کی طرف سے سخت وعید سنائی گئی ہے ۔ مستحقین کے حصوں کی تفصیل بیان کرنے سے قبل کہا گیا ہے:

إِنَّ الَّذِیْنَ یَأْکُلُونَ أَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْماً إِنَّمَا یَأْکُلُونَ فِیْ بُطُونِہِمْ نَاراً وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْراً ۔ (النساء : 10)

''جولوگ ظلم کے ساتھ یتیموں کے مال کھاتے ہیں درحقیقت وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں اور وہ ضرور جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے ۔ '' اور حصوں کی تفصیل (النساء: 11-12) بیان کرنے کے بعد ایک بارپھر دھمکی کے انداز میں کہا گیا ہے:

وَمَن یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ وَیَتَعَدَّ حُدُودَہُ یُدْخِلْہُ نَاراً خَالِداً فِیْہَا وَلَہُ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ(النساء:14)

''اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کرجائے گا اسے اللہ آگ میں ڈالے گا ، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسواکن سزاہے ۔'' مسلم سماج میں تقسیمِ وراثت کے معاملے میں بہت زیادہ غفلت پائی جاتی ہے ۔ اس کی تقسیم صحیح طریقے پر نہیں ہوتی اور لڑکیوں اور بہنوں کو عام طور پر محروم رکھا جاتا ہے ۔

جولوگ وراثت تقسیم نہیں کرتے اور خواتین کو اس سے محروم رکھتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کی معصیت سے بچنا اور اس کی دردناک سزاسے ڈرناچاہیے ۔مال و دولت صرف دنیا کی چند روزہ زندگی تک ہی ہے ۔ مرنے کے بعد کی زندگی میں اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا ۔ ہر ایک کو اس کی فکر کرنی چاہیے ۔

جمعرات, جون 23, 2022

پٹنہ ہائی کورٹ: تمام ججوں کے لیے خریدا جائے گاایپل آئی فون

پٹنہ ہائی کورٹ: تمام ججوں کے لیے خریدا جائے گاایپل آئی فون پٹنہ ہائی کورٹ نےتمام ججوں کوApple iPhone 13 Pro فراہم کرنے کے لیے سپلائرز یا مجاز ڈیلروں کو مدعو کرتے ہوئے ٹینڈر جاری کیا ہے۔ اس سلسلے میں پٹنہ ہائی کورٹ کے آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی کے دفتر سے21 جون2022 کو ایک خط جاری کیا گیا۔

ٹینڈر کے مطابق، معروف فرم، مجاز ڈیلرز، سپلائرز اور سروس فراہم کرنے والے افسر خصوصی ڈیوٹی کے دفتر کے سامنے سیل بند لفافے میں کوٹیشن فائل کر سکتے ہیں۔

بولی دہندگان اپنا آدھار کارڈ، پین کارڈ، جی ایس ٹی نمبر، رجسٹرڈ موبائل نمبر اور دیگر ضروری دستاویزات بھی جمع کرا سکتے ہیں۔

پٹنہ ہائی کورٹ شرائط و ضوابط کے مطابق کسی بھی فراہم کنندہ کمپنی کو پیشگی ادائیگی نہیں کرے گی۔

عدالت صرف مناسب بینکنگ سسٹم موڈ کے ذریعے ادائیگی کرے گی۔

عدالت کسی بھی وقت بولی دہندگان کی درخواست کو مسترد کرنے کی حقدار ہوگی۔

فراہم کنندہ کمپنی کے منتخب ہونے کے بعد، اسے ججوں کی فراہمی کے لیے فون کے ساتھ تیار رہنا ہوگا۔

خیال رہے کہ ایکApple iPhone 13 Pro 256 GB فون کی قیمت 1.38 لاکھ روپے ہے۔

پٹنہ ہائی کورٹ میں چیف جسٹس سنجے کرول سمیت 31 جج ہیں۔

Huffazul Quran Gets Honor قرآن مجید حفظ کرنے والے طلبہ کو اعزاز سے نوازا گیا

Huffazul Quran Gets Honor قرآن مجید حفظ کرنے والے طلبہ کو اعزاز سے نوازا گیامدرسہ صدیقیہ تحفیظ القرآن میں ایک اعزازی نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں حفاظ کرام کی گلپوشی کی گئی اور انھیں انعامات سے نوازا کیا گیا۔ اس موقع پر بچوں کے والدین، اساتذہ کرام اور علاقے کے لوگوں نے مسرت کا اظہار کیا۔ Huffazul Quran Gets Honor
اس خوشی کے موقع پر مدرسہ میں ایک اعزازی نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں حفاظ کرام کی گلپوشی کی گئی اور انھیں انعامات سے نوازا کیا گیا۔ اس موقع پر بچوں کے والدین، اساتذہ کرام اور علاقے کے لوگوں نے مسرت کا اظہار کیا۔

قرآن مجید حفظ کرنے والے طلبہ کو اعزاز سے نوازا گیا
جن پانچ بچوں نے ایک ہی وقت میں صبح سے شام تک قرآن کو مکمل سنایا تھا ان کے قرآن کے حفظ کو سننے کے لیے کئی مفتیان کرام نے وقت دے کر ان کا قرآن کو سنا، یعنی مفتیان کرام ایک ایک دو دو گھنٹے پر بدلتے رہے مگر بچے قرآن کو تسلسل کے ساتھ سناتے رہے۔

تحفظ دین - وقت کی بڑی ضرورت___

تحفظ دین - وقت کی بڑی ضرورت___
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
ہندوستانی مسلمان تاریخ کے بد ترین دور سے گذر رہے ہیں، ان کی جان ومال ، عزت وآبرو پر حملے اس کثرت سے ہونے لگے ہیں کہ یقین ہی نہیں آتا کہ یہ وہی ملک ہے، جہاں سارے مذاہب کے لوگوں کو یکساں حقوق دیے گیے تھے اور مختلف مذاہب وتہذیب کے لوگ جہاں شیر وشکر ہو کر رہتے تھے، ایک دوسرے کے دکھ درد کے شریک اور ایک دوسرے کی خوشیوں سے خوش ہوا کرتے تھے، زمانہ بدلا، وہ لوگ چلے گیے ، جنہوں نے اس ملک کو انگریزوں سے آزاد کرانے کے لیے ہر طرح کی قربانی دی تھی اور زندگی کا بڑا حصہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گذار دیا تھا ، انہوں نے صرف ایک خواب دیکھا تھا کہ اس ملک میں ذات، برادری ، مذہب او رعلاقائیت کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں ہوگی، یہاں کی گنگا جمنی تہذیب میں ہر مکتب فکر اور مذاہب کے لیے آزادی ہوگی، یہ وہ ملک تھا جسے جنت نشان اور سارے جہاں سے اچھا کہا جاتا تھا۔ 
 زمانہ بدلا ، حالات نے کروٹ لی ، پارٹیوں کے نظریات تبدیل ہوئے او راقلیتوں پر مسائل ومصائب کے پہاڑ توڑے جانے لگے ، دھیرے دھیرے انہیں خصوصا مسلمانوں کو اس سطح پر لا کھڑا کیا گیا کہ وہ ہریجن اوردلتوں سے بھی نیچے چلے گیے، ہریجن اور دلتوں کو اوپر اٹھا نے کے لیے انہیں رزرویشن دیا گیا تھا ، مسلمان کو اس سے بھی محروم رکھا گیا ، تمام وہ برادریاں جو دوسرے مذاہب کی ہیں اور معاشی طور پرپس ماندہ ہیں، ان کو رزرویشن کا فائدہ ملا، لیکن وہی کام کرنے والا مسلمان اس سے محروم کر دیے گئے، صرف اس لیے کہ وہ محمد رسول اللہ کا کلمہ پڑھتے ہیں، اور اسلام میں برادری کا وہ تصور نہیں ہے جو دوسرے مذاہب میں پایا جاتا ہے ۔مسلمانوں کے اس سطح تک پہونچ جانے کے بعد دستور میں دیے گیے حقوق سے انہیں محروم کرنے کی سازش رچی گئی ، مختلف بہانوں سے انہیں ملازمتوں سے دور رکھا گیا ، ان کی مسجدوں پر حملے کیے گئے ، بابری مسجد توڑ دی گئی،اور عدالت نے غیر مسلموں کے حوالہ اس کی زمین کر دیا،ائمہ ومؤذن کو شہید کیا گیا، ہجومی تشدد کے ذریعہ کبھی لو جہاد ، کبھی گئو کشی اور کبھی بغیر کسی سبب کے مسلمانوں کو قتل کرنے کا سلسلہ دراز ہوا ، تعلیمی نظام کے بھگوا کرن کی تحریک چلائی گئی ، بعض ریاستوں میں یوگا اورسورج نمسکار کو اسکولوں میں لازم قرار دیا گیا ،اذان پر پابندی کی بات کی گئی اور مساجد سے مائک کے استعمال تک کے لیے پر میشن اور اجازت لینے کا حکم جاری کیا گیا، ہماری مذہبی شناخت چھین لینے کی مسلسل اور منظم کوشش اب بھی جاری ہے ، کبھی ڈاڑھی منڈوانے کا حکم دیا جا رہا ہے ، کبھی نقاب اور حجاب پر سوالات اٹھائے جا رہے، طلاق کے نظام کو ختم کیا جا رہا ہے، ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے جنہوں نے مذہب کا قلادہ اپنی گردن سے اتار پھینکا ہے ، اس طرح اب مسلمانوں کو ان حالات کا سامنا ہے، جس میں ان کے دینی عقائد ونظریات پر ضرب لگائی جا رہی ہے او ریہ سب کچھ حکومت کی نگرانی اور سایے میں ہو رہا ہے،اس طرح دین اسلام کو دیش نکالا دینے کی تحریک زوروں پر چل رہی ہے، اور کہا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کو ہندوستان چھوڑدینا چاہیے ، ان کی جگہ قبرستان یا پاکستان ہے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ مسلمان ہندوستان میں اکابر امت کے مشورہ سے ایسی جد وجہد اور تحریک کا آغاز کریں جس سے حکومتی سطح سے دین میں کی جانے والی مداخلت کا سد باب کیا جا سکے، اور بتایا جا ئے کہ مسلمان یہاں کی دوسری بڑی اکثریت ہے، اس لیے دستور میں اسے جو تحفظات دیے گیے ہیں ، اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا اور اس کام کے لیے ہم ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔
 یہاں پر یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ دین بچانے کے لیے حکمرانوں کے فیصلے کی مخالفت کے ساتھ ، دین کو اپنی زندگی میں اتارنے کی بھی ضرورت ہے، دین بچانے اور اس کے تحفظ کے لیے پہلا کام خود کرنے کا ہے اور وہ ہے کہ ہم بد عملی اور بے عملی سے دور رہیں، اسلام نے جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے، اسے بجالائیں، جن کا موں سے روکا ہے، اس سے رک جائیں ، ہرپل ہمیں اس کا خیال رہے کہ ہماری نگرانی ہو رہی ہے، اللہ دیکھ رہا ہے ، اور اگر ہم نے دین سے دوری اختیار کی تو اس کی سزا ہمیں ملے گی ،یہ احساس جس قدر غالب ہوگا، دین ہمارے کیرکٹر، کردار، اعمال وافعال میں محفوظ ہوجائے گا، جب ذاتی زندگی میں ہم شریعت پر عمل پیرا ہوں گے تو ہمیں نئی طاقت وتوانائی ملے گی اور دین میں مداخلت کرنے والوں کے خلاف ہمارے جذبے اور حوصلے جواں ہوں گے اور بقول علامہ اقبال   ؎
جوانو! یہ صدائیں آ رہی ہیں آبشاروں سے
چٹانیں چو رہو جائیں جو ہو عزم سفر پیدا

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...