Powered By Blogger

ہفتہ, جون 25, 2022

آدھی ملاقات ‘‘ ایک مطالعہ ایک تأثر انوارالحسن وسطوی

’’آدھی ملاقات ‘‘ ایک مطالعہ ایک تأثر
  انوارالحسن وسطوی 
 زیر نظر کتاب ’’آدھی ملاقات‘‘ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کے ان خطوط کا مجموعہ ہے جنہیں انہوں نے اکابرین، معاصرین اور متعلقین کے نام وقتا فوقتا ارسال کیے تھے، اس سے قبل مفتی صاحب موصوف اپنے نام آئے خطوط کا مجموعہ ’’نامے میرے نام‘‘(جلد اول) مطبوعہ ۲۰۱۶ء ) نذر قارئین کر چکے ہیں، خطوط کو سنجوگ کر رکھنا مکتوب نگار اور مکتوب الیہ دونوں کے لئے مشکل کام ہے ، لیکن اس موبائل او رانٹرنیٹ کے دور میں بھی کچھ ایسے با ذوق مل جائیں گے جو خطوط کی اہمیت کے معترف بھی ہیں اوراس کی حفاظت بھی کرتے ہیں، ایسی ہی نادر روزگار شخصیتوں میں ایک نام مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کا بھی ہے ۔ تقریبا چار درجن کتابوں کے مصنف مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں، ان کے تعلق سے میرے لیے کھ کہنایا لکھنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے، انہوں نے مضمون نگاری، تنقید نگاری، سوانح نگاری، صحافت نگاری کے ساتھ ساتھ مکتوب نگاری کے میدان میں بھی اپنا کمال دکھایا ہے جس کا اندازہ ان کی پیش نظر کتاب ’’آدھی ملاقات‘‘ کے مطالعہ سے لگایا جا سکتاہے ۔
’’آدھی ملاقات‘‘ تین ابواب پر مشتمل ہے، باب اول میں وہ خطوط شامل ہیں جو مکتوب نگار کے ذریعہ اکابرین کے نام ارسال کیے گئے تھے، اس فہرست میں کل تیرہ نام شامل ہیں، جو اس طرح ہیں: مولانا سید محمدرابع حسنی ندوی، مولانا سید نظام الدین ؒ، مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ مولانا مفتی سعید احمد پالن پوریؒ ، مولانا سعید الرحمن اعظمی، مولانا سید محمد ولی رحمانیؒ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مولانا سید جلال الدین عمری، مولانا سید محمد شمس الحق ؒ، مولانا سید سلمان الحسینی ندوی، مولانا عمید الزماں کیرانویؒ قاری مشتاق احمد ؒ اور ڈاکٹر منظور عالم (جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل) 
اکابرین کے نام لکھے گئے ان خطوط میں سب سے زیادہ نو (۹) خطوط حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ؒ امیر شریعت سادس کے نام ہیں، اس کے بعد حضرت مولانا محمد ولی رحمانیؒ امیر شریعت سابع کے نام خطوط ہیں، جن کی تعداد آٹھ (۸) ہے، ان خطوط کے مطالعہ سے مفتی محمدثناء الہدیٰ قاسمی کی علمی، دینی ، فلاحی اور ملی خدمات اور اکابرین کی نظر میں ان کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ باب دوم میں خطوط کی تعداد کل اڑسٹھ (۶۸)ہے ۔ یہ خطوط وہ ہیں جنہیں مکتوب نگار نے اپنے معاصرین کے نام ارسال کیے ہیں، ان معاصرین میں علمائ، ادبائ، اساتذہ، دانشور، سیاست داں اور صحافی سب شامل ہیں، ہر خط کا مزہ اور لہجہ جداگانہ ہے، جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے ، یہ خطوط ذاتی نوعیت کے بھی ہیں اور کچھ کا تعلق علمی، ادبی، لسانی اور ملی سر گرمیوں سے  ہے، اس فہرست میں راقم السطور کے نام بھی مفتی صاحب کے پانچ (۵) خطوط شامل ہیں۔
 باب سوم کے خطوط اہل خانہ او رمتعلقین کے نام ہیں، جن میں مکتوب نگار کے والد ، والدہ، بڑے بھائی، چھوٹے بھائی، اہلیہ، بیٹی اور دیگر رشتہ دار شامل ہیں، اس فہرست میں ان کے ابا جان ماسٹر محمد نور الہدیٰ رحمانیؒ کے نام بھیجے گئے خطوط کی تعداد تیس (۳۰) ہے، اس کے بعد چھوٹے بھائی ماسٹر رضاء الہدیٰ کے نام بھیجے گئے خطوط ہیں جن کی تعداد انیس (۱۹) ہے، خطوط کے اس ہجوم میں اہلیہ (عشرت خاتون) کے نام ارسال کیے گئے بھی دو (۲) خطوط شامل ہیں، جن کی نوعیت ذاتی ہوتے ہوئے بھی آفاقی ہے، ایک خط کی افادیت کے پیش نظر اسے یہاں نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہر شوہر اپنی شریک حیات سے اس کے وفادار ہونے کی توقع رکھتا ہے، تاکہ ازدواجی زندگی خوش وخرم گزرے، مختصر سے اس خط میں ڈھیرساری نصیحتیں موجود ہیں، جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اس خط کا مطالعہ قاری کے لیے سود مند ہوگا۔
’’زندگی کی پریشانی اور الجھنوں کو ہنس ہنس کر جھیلنا سیکھو، یاد رکھو! زندگی ایک امتحان ہے اور اس میں وہی کامیاب ہوتا ہے جو اپنی انانیت اور کبر کو ختم کرنے کے لیے تیار رہے، جو دوسروں کی بڑائی کو تسلیم کرکے چلے ، یہاں جیتے جی اپنے کو ہلاک کرنا پڑتا ہے اور کبھی تو اپنے ہاتھوں قبر بنا کر اس میں لیٹ جانا پڑتا ہے، جب زندگی اس ایثار کی عادی ہوجائے تب جا کر آدمی کامیاب ہوتا ہے، خصوصا عورت کی تو پوری زندگی ایثار وقربانی سے عبارت ہوتی ہے، زندگی بھر وہ گھر لگاتی رہتی ہے، اور پگڑی کسی اور کی اونچی ہوتی ہے، لیکن یقین جانو، اسی ایثار سے گھر بنتا ہے ، اونچے اونچے گنبد اور فلک بوس عمارتیں جب ہی کھڑی ہو سکتی ہیںجب کچھ اینٹیں اپنے کو زمین میں دفن کرنے کو تیار ہو سکیں، وہ اینٹ کسی کو نظر نہیں آتی ، لیکن صحیح او رسچی بات یہ ہے کہ اسی پر ساری عمارت اور گنبد کھڑا ہوتا ہے، اس لیے میری جان ! قربانی یہ نہیں ہے کہ آدمی لڑکر مرجائے، گھریلو جھگڑوں سے عاجز ہو کر خود سوزی اور خود کشی کرلے، اختلاف کی وجہ سے الگ دنیا آباد کرے، قربانی یہ ہے کہ آدمی ان تمام کو انگیز کرکے ایک ایسے نتیجہ خیز عمل کا آغاز کردے جس میں وہ غیر مشہور ہوکر خود چاہے دفن ہوجائے لیکن اپنے خاندان کی پگڑی کو اوپر رکھے۔‘‘ (صفحہ ۲۱۸)
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کا ایک خط اپنی بیٹی حافظہ رضیہ عشرت کے نام بھی ہے ، وہ خط بھی بہت خوب اور قابل مطالعہ ہے، بیٹی کی جدائی ہر باپ پر کس قدر شاق گزرتی ہے، یہ وہی محسوس کر سکتا ہے جو اس مرحلہ سے گزرا ہو، جدائی پر بیٹی کو باپ کی جانب سے کیا نصیحت ملنی چاہیے اس کی عکاسی مکتوب نگار کے اس خط سے ہوتی ہے، لاحظہ ہو مذکورہ خط کا ایک اقتباس:
’’… یہ تو سسرال والوں کی باتیں تھیں، اس علاقے میں تمہارا پالا ایک اور شخص سے پڑے گا جسے عورتیں سرتاج کے نام سے تعبیر کرتی ہیں، وہ واقعی سرتاج ہوتا بھی ہے، جسے عام اصطلاح میں شوہر کہتے ہیں یہ کچھ زیادہ ہی نازک مزاج ہوتے ہیں، ذرا سی بات کا بُرا مان جاتے ہیں اور پھر نوبت کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے، ان کے معاملات میں لچک پیدا کرنا، اتنی لچک کہ تم خود کو ان کی مرضی کے مطابق ڈھال سکو، ان کے پسندیدہ رہن سہن ، طور طریقے ، نظریات وخیالات کو اپنانے کی کوشش کرنا، باہمی اختلافات، نرمی اور آپس کی بات چیت سے سلجھا لینا کہ کامیاب زندگی کے لیے یہ نیک شگون ہے، خدا کرے کہ تمہاری پوری زندگی پھولوں کی سیج کی طرح خوشگوار گزرے، تم زندگی کی مسافر ہو اور تمہارا غریب باپ رہنمائی کے لیے یہ ہدایات دے رہا ہے۔‘‘(صفحہ ۲۲۱-۲۲۲)
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ایک جید عالم دین اور کہنہ مشق صھافی کے ساتھ ساتھ ایک معروف انشا پرداز بھی ہیں، ان کی انشاء پردازی کا ایک عمدہ نمونہ ان کی دیگر کتابوں کی طرح یہ کتاب بھی ہے۔ ’’ آدھی ملاقات‘‘ کا علمی وادبی رنگ وآہنگ مسلم ہے، چنانچہ قاری کو اس سے محظوظ اور مستفیض ہونے کے لیے ایک بار اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے، مفتی صاحب نے اپنی اس کتاب کے ذریعہ موبائل اور انٹر نیٹ کے اس دور میں خطوط کی اہمیت سے نئی نسل کو روسناش کرانے اور اس ورثہ کو نئی نسل کو منتقل کرنے کی ایک عمدہ کاوش کی ہے، جس کے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں، مفتی صاحب نے اپنی اس کتاب کے تعلق سے اپنے ’’حرف چند ‘‘میں بجا تحریر فرمایا ہے:
’’گویا آدھی ملاقات سے موسوم خطوط کا یہ مجموعہ قوس قزح کی طرح ہے، جس کا ہر رنگ آنکھوں میں نور اور دل میں سرور پیدا کرتا ہے، بعض خطوط کے مندرجات سے ادارے کی اس دور کی سرگرمیوں اور افراد کی مشغولیت کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، کم وبیش پچاس سال کے دورانیہ میں لکھے گئے یہ خطوط میری انداز نگارش اور بدلتے ہوئے اسلوب سے بھی آپ کو واقف کراتے ہیں۔‘‘ (صفحہ ۱۰)
۲۳۶ صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت صرف ایک سو پچیس روپے ہے، جسے مکتبہ امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ، نور اردو لائبریری ، حسن پور گنگھٹی، بکساما، ویشالی، بہار، الہدیٰ ایجوکیشنل اینڈ ویفیر ٹرسٹ آشیانہ کالونی روڈ نمبر ۶، باغ ملی حاجی پور اور بک امپوریم اردو بازار ، سبزی باغ، پٹنہ ۴ سے حاصل کیا جا سکتا ہے، مصنف سے براہ راست رابطہ کا نمبر ہے9431003131

بچے کو ڈسنے کے بعد زہریلا سانپ مرگیا ، عجیب وغریب واقعہ پر لوگ حیرت زدہ رہ

بچے کو ڈسنے کے بعد زہریلا سانپ مرگیا ، عجیب وغریب واقعہ پر لوگ حیرت زدہ رہنئی دہلی: اکثرآپ نے سنا یا دیکھا ہوگا کہ زہریلے سانپ کے ڈسنے سے انسان کی موت ہوجاتی ہے لیکن ریاست بہارمیں ایک عجیب وغریب واقعہ پیش آیا۔ ایک سانپ نے بچہ کو ڈس لیا اوربچہ کو ڈسنےکے بعد سانپ ہی مرگیا۔ بہار کے گوپال گنج میں 4 سالہ بچے کوایک سانپ نے ڈس لیا۔ پہلے تو بچے کے گھر والے ڈر گئے کہ اب کیا ہو گا؟ لیکن تھوڑی ہی دیر میں انھوں نے دیکھا کہ بچہ کو تو کچھ نہیں ہوا البتہ زہریلا سانپ تڑپ تڑپ کرمر گیا۔ جب بچے کے گھر والے اس بچہ کو لے کر ڈاکٹرس کے پاس گئے تو وہ بھی یہ واقعہ سن کر حیران رہ گئے لیکن بعد میں انہوں نے بتایا کہ ایسا بھی ممکن ہے۔ اگر بچے کی قوت مدافعت زیادہ ہو تو یہ بھی ممکن ہے۔
دراصل یہ معاملہ بہار کے گوپال گنج کا ہے جہاں ایک 4 سالہ بچہ اپنے گھر کے باہر کھیل رہا تھا کہ اس دوران بچے کو سانپ نے ڈس لیا اور سانپ کی موت ہو گئی۔ اس واقعہ کے بارے میں بچے کی والدہ نے بتایا کہ وہاں بہت سے دوسرے لوگ بھی موجود تھے جنہوں نے اس واقعہ کو دیکھا۔ سانپ کے ڈسنے کے بعد بچہ روتا ہوا گھر آیا تو اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ بچے کی والدہ نے بتایا کہ جب اس کے ماموں نے مردہ سانپ کو باہر دیکھا تو انہیں یقین نہیں آیا کہ ایسا ہو سکتا ہے۔

اس واقعہ کی اطلاع ملتے ہی لوگوں کا ہجوم یہ جاننے کے لیے جمع ہوگیا کہ اس کے پیچھے کیا وجہ ہے؟ مقامی ڈاکٹر منموہن نے بتایا کہ ہر انسان کے اندر قوت مدافعت ہوتی ہے، ہوسکتا ہے اس بچے کے اندر قوت مدافعت بہت زیادہ تھی جس کی وجہہ سے سانپ مرگیا۔ تاہم ابھی تک اس بارے میں کوئی سرکاری تصدیق نہیں ہوئی ہے اور پورے علاقے میں طرح طرح کی باتیں ہو رہی ہیں۔

جمعیۃ علما ء تین دن میں حلف نامہ داخل کرے گی : مولانا مدنی

جمعیۃ علما ء تین دن میں حلف نامہ داخل کرے گی : مولانا مدنی

عدالت میں اُن سب حقائق کو پیش کیا جائے گا جسے یوپی حکومت نے جان بوجھ کر اپنے حلف نامہ میں شامل نہیں کیا
یوپی میں بلڈوزر کارروائی

نئی دہلی : یوپی کے مختلف اضلاع میں مسلمانوں کی املاک کی غیر قانونی انہدامی کارروائی کے خلاف صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشدمدنی کی جانب سے داخل عرضی پرسپریم کورٹ میں آج ہونے والی سماعت کے دوران جمعیۃ علمائے ہند نے یو پی حکومت کے داخل کردہ حلف نامہ پر اعتراض کرتے ہوئے جواب دینے کے لئے تین دن کی مہلت طلب کی جسے کورٹ نے منظور کرلیا۔اترپردیش میں بغیر عدالتی حکم کے غیر ْقانونی انہدامی کارروائی پر آج سپریم کورٹ میں سماعت عمل میں آئی، جس کے دوران جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے سینئر ایڈووکیٹ نتیا راما کرشنن نے عدالت سے یو پی حکومت کی جانب سے داخل کردہ حلف نامہ کا جواب داخل کرنے کے لیے وقت طلب کیا جسے عدالت نے منظور کرلیا۔سپریم کورٹ کی تعطیلاتی بینچ کے جسٹس سی ٹی روی کمار اور جسٹس سدھانشو دھولیہ کو ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن نے بتایا کہ یو پی حکومت کی جانب سے داخل کردہ حلف نامہ پر انہیں اعتراض ہے ۔لہٰذا وہ جوابی حلف نامہ داخل کرنا چاہتے ہیں جس پر سالیسٹر جنرل آف انڈیا نے بھی اعتراض نہیں کیا ۔ سالیسٹرجنر ل کی جانب سے اعتراض نہیں کیے جانے کے بعدعدالت نے سماعت چہارشنبہ 29 جون تک ملتوی کردی اور جمعیۃ علماء ہند کو اجازت دی کہ وہ اس درمیان جوابی حلف نامہ داخل کرے ۔جمعیۃ علماء ہند نے کہا کہ یوپی کے مختلف شہروں میں انہدامی کاررائی انجام دی گئی ،خاص طور پر سہارنپور میں مسلمانوں کی املاک پر بلڈوزر چلائے گئے ۔جبکہ حلف نامہ میں صرف تین جگہوں کا ہی ذکر کیا گیاہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یو پی حکومت عدالت سے حقائق کو چھپا رہی ہے ۔جمعیۃ علماء ہند نے کہا کہ ہمارے وکلاء یو پی حکومت کی جانب سے داخل کردہ حلف نامہ کا جواب دیں گے اور عدالت کے روبرو ان سب حقائق کو پیش کیا جائے گا جسے جان بوجھ کر یوپی حکومت نے اپنے حلف نامہ میں شامل نہیں کیاہے ۔ اس سے قبل کی سماعت پر جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وکرم ناتھ کے روبرو جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر وکلاء نتیا راما کرشنن اور سی یو سنگھ پیش ہوئے تھے جنہوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے گزشتہ کارروائی پر عدالت نے غیر قانونی بلڈوزر انہدامی کارروائی پر نوٹس جاری کیے جانے کے بعد بھی یوپی میں غیر قانونی طریقے سے انہدامی کارروائی کی جارہی ہے ، جس پر روک لگانا ضروری ہے ۔ نیز ان افسران کے خلاف کارروائی کرنا بھی ضروری ہے جنہوں نے قانون کی دھجیاں اڑاکر مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچایا ہے ۔سینئر وکلاء نے عدالت کو بتایا کہ ایمرجنسی کے دوران بھی ایسی بربریت نہیں ہوئی تھی جیسی آج یو پی میں کی جارہی ہے ۔

اُردو یونیورسٹی میں جلد شروع ہوگی سیول سروسس کی کوچنگ

اُردو یونیورسٹی میں جلد شروع ہوگی سیول سروسس کی کوچنگ

اردو دنیا نیوز۷۲ حیدرآباد

کووڈ 19 کے باعث یونیورسٹی کی مسابقتی امتحانات کی اکیڈیمی کا کام رک گیا تھا۔ لیکن اب مرکزی وزارتِ اقلیتی امور کی جانب سے مالیہ کی فراہمی کے سلسلے میں پیشرفت ہوئی ہے اور بہت جلد اقلیتوں کے لیے مسابقتی امتحانات کی کوچنگ اکیڈیمی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں قائم ہوجائے گی۔ اس سلسلے میں ایک مرکزی ٹیم بہت جلد یونیورسٹی کا دورہ کرے گی۔

کرکٹ گراﺅنڈ کے سلسلے میں بھی جناب محمد اظہر الدین، صدر حیدرآباد کرکٹ اسوسی ایشن سے بات ہوئی ہے۔ بہت جلد اس سلسلے میں یادداشت مفاہمت کا امکان ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر نے آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی طلبہ یونین کے پروگرام جشنِ بہاراں 2022 کے افتتاحی اجلاس کے دوران کیا۔

جشن کے تحت مختلف ادبی، ثقافتی اور کھیل کود مقابلوں کا اہتمام کیا جائے گا جو 28 جون تک جاری رہیں گے۔ 5 جولائی کو ایک جاب فیسٹ کا بھی انعقاد عمل میں آئے گا۔

پروفیسر عین الحسن نے کہا کہ "میں نے ہندوستان میں بھی اور ملک کے باہر بھی بہت سے کیمپس دیکھے لیکن مانو میں ایک خاص بات دیکھی۔

یہاں کے طلبہ میں جو انکساری ہے وہ کہیں اور نظر نہیں آتی۔ مانو کے طلبہ جب اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اپنے مقالے پیش کرتے ہیں وہ دیگر سے بہتر نظر آتے ہیں۔"انہوں نے مانو کیمپس کو صحت کے تئیں حساس قرار دیا اور کہا کہ کیمپس میں سگریٹ نوشی بھی نہیں کی جاتی۔

پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، پرو وائس چانسلر نے کہا کہ تعلیم کے ساتھ زائد نصابی سرگرمیاں بھی ضروری ہیں۔ جشنِ بہاراں ہمیں اس کا موقع فراہم کرتا ہے ۔ طلبہ جہاں اس موقع کا فائدہ اٹھائیں وہیں اس بات کو ذہن نشین رکھیں کہ کچھ بھی غلط کرنے پر دنیا میں اور دنیا کے بعد اس کا حساب ہوگا۔

انہوں نے طلبہ یونین کے صدر محمد مرسلین کی ستائش کی جنہوں نے اپنی تقریر میں جشن بہاراں کے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے حالات کے پیش نظر تیار کیے گئے شیڈول کا تذکرہ کیا۔

پروفیسر علیم اشرف جائسی، ڈین بہبودیِ طلبہ نے خیر مقدمی خطاب میں طلبہ اور ڈی ایس ڈبلیو ٹیم کی گذشتہ دنوں کی کارکردگی کا ذکر کیا۔ پروفیسر محمد عبدالسمیع صدیقی، صدر نشین، مانو طلبہ یونین مشاورتی کمیٹی و ڈائرکٹر سی پی ڈی یو ایم ٹی نے جشنِ بہارا ں کے متعلق تفصیلات فراہم کیں۔ محمد مرسلین، صدر طلبہ یونین نے بھی خطاب کیا۔

ڈاکٹر محمد یوسف خان، کنوینر، طلبہ یونین مشاورتی کمیٹی و پرنسپل پالی ٹیکنیک نے شکریہ ادا کیا۔ مظہر سبحانی، بی ایس سی نے کاروائی چلائی۔ فاروق اعظم، ایم ایڈ کی قرأت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا۔ شہہ نشین پر پروفیسر اشتیاق احمد، رجسٹرار؛ طلبہ یونین عہدیداران ابو حمزہ ، نائب صدر؛ انعم جہاں، جوائنٹ سکریٹری اور وقار احمد ، خازن بھی موجود تھے۔

جشن کے پہلے دن آج بیت بازی اور تحریری مقابلے منعقد ہوئے۔ ڈاکٹر بی بی رضا خاتون بیت بازی اور ڈاکٹر پٹھان رحیم خان، تحریری مقابلوں کے کوآرڈینیٹرس تھے۔ اسپورٹس کی سرگرمیاں بھی شروع ہوگئی ہیں۔

جمعہ, جون 24, 2022

نماز جمعہ کے موقع پر الرٹ رہی رانچی پولیس

نماز جمعہ کے موقع پر الرٹ رہی رانچی پولیسرانچی، 24 جون (اردو دنیا نیوز۷۲)۔ رانچی پولیس جمعہ کے روز نماز جمعہ کو لے کر خاصی مستعد رہی۔ گذشتہ 10 جون کو ہونے والے تشدد کے پیش نظر احتیاطی اقدام کے طور پر شہر کی تمام مساجد میں پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ شہر کے لوئر بازار، ڈیلی مارکیٹ، تھانہ کوتوالی، ہندپیڑھی، ارگوڑہ اور ڈورانڈا تھانوں کے انچارج اپنے اپنے علاقوں میں گشت کرتے رہے۔اس کے علاوہ تمام ڈی ایس پی بھی اپنے اپنے علاقوں میں مستعد رہے۔ سٹی کنٹرول روم سے شہر کی سرگرمیوں اور لوگوں پر کڑی نظر رکھی جا رہی تھی۔ اس سے قبل جمعہ کے روز شہر کے کئی علاقوں میں پولیس اہلکار وں کوتعینات کیا گیاتھا۔ پولیس شہر میں امن کا ماحول بنانے میں مصروف ہے۔ اس کے علاوہ چوک ۔چوراہوں پر تعینات جوان اور پی سی آر میں تعینات سپاہی بھی نماز کے دوران خاصے متحرک نظر آئے۔ نماز کے بعد کہیں سے کسی ناخوشگوار واقعے کی اطلاع نہیں ملی۔

جسم فروشی پر عدالت کا فیصلہ____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ

جسم فروشی پر عدالت کا فیصلہ____
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
 جسم فروشی پر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے ملک کے باشندوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے، یہ فیصلہ ۲۶؍ مئی۲۰۲۲ء کو سپریم کورٹ کی سہ نفری بینچ نے جس میں جسٹس ایل ناگیشور راؤ، جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس اے ایس لونیا شامل تھے، سنایا ہے، اس فیصلہ میں معزز جج صاحبان نے جسم فروشی کو ایک پیشہ تسلیم کیا ہے، اور طوائف بننے کو غیر قانونی نہیں قرار دیا ہے،بلکہ انہیں جنسی کارکن( سیکس ورکر) مان کر ان کے حقوق کے تحفظ اوران کو پریشان نہ کرنے کا فیصلہ سنایا ہے اس کے ساتھ چھ ہدایات بھی دی ہیں، عدالت نے صرف کوٹھا چلانے کو جرم مانا ہے، اگر کوئی اپنی مرضی سے اپنے گھر میں یا ہوٹل میں جسم فروشی کرتا یاکرتی ہے تو یہ قابل گرفت جرم نہیں ہے۔کیوں کہ دستور کی دفعہ ۲۱؍ کے تحت با عزت زندگی گذارنے کا اختیار اس کو ہے، عدالت کی نظر میں طوائف اور گیگولو(GIGOLO) سے جڑے لوگوں کو بھی با عزت زندگی گذارنے میں کسی کو رکاوٹ نہیں بننا چاہیے،کیوں کہ  سیکس ورکر بھی عزت اور تحفظ کے حق دار ہیں۔ 
 عدالت نے ذرائع ابلاغ کو بھی ہدایت دی ہے کہ وہ کوٹھوں پر چھاپہ مارتے وقت گرفتار(جنسی کارکن) سیکس ورکروں کی تصویریں شائع نہ کریں، پولیس کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ طوائفوں سے با عزت طور پر پیش آئیں، اور ان کا جنسی استحصال نہ کریں، عدالت کو دفعہ ۱۴۲؍ کے تحت جو خصوصی اختیارات حاصل ہیں، اس کے تحت یہ فیصلہ سنایا گیاہے۔
ذہن میں یہ بات بھی رہنی چاہیے کہ ایک سروے کے مطابق پورے ہندوستان میں گیارہ سو کے قریب طوائفوں کی منڈی (ریڈ لائٹ ایریا) ہے جن میں اٹھائیس (۲۸) لاکھ عورتیں جنسی کارکن کے طور پر کام کر تی ہیں، گیلولو (مرد طوائف) کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔
 اس سے قبل ایک فیصلے میں عدالت نے بیوی کی مرضی کے بغیر جنسی تعلق کوزنا بالجبر کے درجہ میں رکھ دیا تھا، یعنی کوئی شوہر اپنی بیوی سے بغیر اس کی مرضی کے جسمانی تعلق قائم نہیں کر سکتا۔اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کا یہ عمل قابل مواخذہ ہوگا۔
 بہت پہلے سے طوائفوں کا یہ مطالبہ تھا کہ جسم پر میری مرضی چلے گی، کسی دوسرے کی نہیں، اس کے لیے جلوس نکالے گیے تھے اور مظاہرے بھی ہوئے تھے،سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ ان کے اس مطالبہ کو تسلیم کر لینے کے مترادف ہے، سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے برسوں سے چلی آرہی تہذیبی اقدار اور مذہبی فکر کو سخت نقصان پہونچا ہے۔
اس سلسلہ میں اسلام کی سوچ بہت واضح ہے کہ ہمارا جسم ہمارا نہیں اللہ کی طرف سے امانت ہے، اس لیے ہمارے جسم پر صرف اللہ کے بنائے ہوئے قوانین ہی نافذ ہوں گے، جنسی تعلق قائم کرنے کے جو اصول شریعت اسلامیہ نے ہمیں دیے ہیں، وہ مرد کی ضرورت اور عورت کی عفت وعصمت کی حفاظت کے لیے انتہائی ضروری ہیں، اس کے خلاف اٹھایا گیا کوئی قدم سماج کو غلاظت کے ڈھیر میں دھکیلنے جیسا ہوگا۔

وراثت میں لڑکیوں کا حصہ

وراثت میں لڑکیوں کا حصہ 

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی،نئی دہلی

سوال : میرے والد نے وراثت میں رہائش کے مکانات ، کاشت کی زمینیں اور باغات چھوڑے ہیں ۔ میرے بھائی ملکی قانون کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ تمہیں صرف رہائشی مکانات میں حصہ ملے گا ، کاشت کی زمینوں اور باغات میں نہیں ۔ کیا اسلامی شریعت میں بھی ایساہی ہے؟

اگر تقسیمِ وراثت کے معاملے میں ملکی قانون اور اسلامی قانون میں فرق ہو اورکوئی مسلمان اسلامی قانون پر عمل نہ کرے تو اس کے لیے کیاوعید ہے؟ یہ بھی بتادیں ۔

جواب: وراثت کے احکام قرآن مجید میں بہت صریح اور دوٹوک ہیں اور ان میں عورتوں کا بھی حصہ متعین کیاگیاہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

لِلرِّجَالِ نَصیِبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءنَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ أَوْ کَثُرَ نَصِیْباً مَّفْرُوضاً۔ (النساء:07)

''مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑاہو اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑاہو ، خواہ تھوڑاہو یا بہت اور یہ حصہ(اللہ کی طرف سے)مقرر ہے ۔'' اس آیت سے کئی باتیں معلوم ہوتی ہیں ۔

ان میں سے درج ذیل اہم ہیں :

1 ۔ مالِ وراثت میں صرف مردوں کا ہی حصہ نہیں ، بلکہ عورتوں کا بھی حصہ ہے ۔

2 ۔ مالِ وراثت کی مقدار چاہے جتنی ہو ، (کم سے کم یازیادہ سے زیادہ) ، ہر حال میں اسے تقسیم ہوناچاہیے ۔

3 ۔ قانونِ وراثت کا اطلاق ہر قسم کے اموال پر ہوگا ، چاہے وہ منقولہ ہو ں یا غیر منقولہ ، زرعی ہوں یا صنعتی ، مکانات ہوں یا زمینیں یا باغات ۔ آگے قرآن نے مستحقین کے حصوں کی صراحت کردی ہے ۔ ان میں مردوں اور خواتین دونوں کا تذکرہ کیاہے ۔ چنانچہ باپ ، بھائی اور شوہر کے ساتھ ماں ، بہن اور بیوی کے حصے بھی بتائے ہیں اور یہ بھی ذکر کردیاہے کہ اولاد میں لڑکے کا حصہ دولڑکیوں کے برابر ہوگا۔ (النساء :11)

ہرمسلمان کے اندر یہ جذبہ ہونا چاہیے کہ وہ زندگی کے تمام معاملات میں اللہ اور اس کے رسول کے حکموں پر عمل کرے گا ۔ خاص طور پر تقسیمِ وراثت کے معاملے میں اسے شرعی احکام پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔

ملکی قانون چاہے کسی کو محروم کرتا ہو ، لیکن اگر اسلامی شریعت نے اس کا حق متعین کیا ہو تو اسے ضرور اداکرناچاہیے اور اس سے راہِ فرار اختیار کرنے کے لیے ملکی قانون کا سہارا نہیں لینا چاہیے ۔ قرآن مجید میں اس کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔ جو لوگ احکامِ وراثت پر عمل نہیں کرتے ، مستحقین کو ان کے حصے نہیں دیتے اور پورا مال ہڑپ کرلیتے ہیں ان کواللہ تعالیٰ کی طرف سے سخت وعید سنائی گئی ہے ۔ مستحقین کے حصوں کی تفصیل بیان کرنے سے قبل کہا گیا ہے:

إِنَّ الَّذِیْنَ یَأْکُلُونَ أَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْماً إِنَّمَا یَأْکُلُونَ فِیْ بُطُونِہِمْ نَاراً وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْراً ۔ (النساء : 10)

''جولوگ ظلم کے ساتھ یتیموں کے مال کھاتے ہیں درحقیقت وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں اور وہ ضرور جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے ۔ '' اور حصوں کی تفصیل (النساء: 11-12) بیان کرنے کے بعد ایک بارپھر دھمکی کے انداز میں کہا گیا ہے:

وَمَن یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ وَیَتَعَدَّ حُدُودَہُ یُدْخِلْہُ نَاراً خَالِداً فِیْہَا وَلَہُ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ(النساء:14)

''اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کرجائے گا اسے اللہ آگ میں ڈالے گا ، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسواکن سزاہے ۔'' مسلم سماج میں تقسیمِ وراثت کے معاملے میں بہت زیادہ غفلت پائی جاتی ہے ۔ اس کی تقسیم صحیح طریقے پر نہیں ہوتی اور لڑکیوں اور بہنوں کو عام طور پر محروم رکھا جاتا ہے ۔

جولوگ وراثت تقسیم نہیں کرتے اور خواتین کو اس سے محروم رکھتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کی معصیت سے بچنا اور اس کی دردناک سزاسے ڈرناچاہیے ۔مال و دولت صرف دنیا کی چند روزہ زندگی تک ہی ہے ۔ مرنے کے بعد کی زندگی میں اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا ۔ ہر ایک کو اس کی فکر کرنی چاہیے ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...