Powered By Blogger

ہفتہ, جولائی 02, 2022

واٹس ایپ اور فون کالز کے نئے مواصلاتی اصول کل سے لاگو ہوں گے:-*

*واٹس ایپ اور فون کالز کے نئے مواصلاتی اصول کل سے لاگو ہوں گے:-*
(اردو دنیا نیوز۷۲)
  01. تمام کالیں ریکارڈ کی جائیں گی۔
  02. تمام کال ریکارڈنگ محفوظ ہو جائیں گی۔
  03. واٹس ایپ، فیس بک، ٹویٹر اور تمام سوشل میڈیا کی نگرانی کی جائے گی۔
  04. جو نہیں جانتے ان کو بتائیں۔
  05. آپ کے آلات منسٹری سسٹم سے منسلک ہوں گے۔
  06. محتاط رہیں کہ کسی کو غلط پیغام نہ بھیجیں۔
  07. اپنے بچوں، بھائیوں، رشتہ داروں، دوستوں، جاننے والوں کو بتائیں کہ آپ ان کا خیال رکھیں اور سوشل سائٹیں شاذ و نادر ہی چلائیں۔
  08. سیاست یا موجودہ حالات پر حکومت یا وزیر اعظم کے سامنے اپنی کوئی پوسٹ یا ویڈیو نہ بھیجیں۔
  09. فی الحال کسی سیاسی یا مذہبی موضوع پر پیغام لکھنا یا بھیجنا جرم ہے... ایسا کرنے سے بغیر وارنٹ گرفتاری ہو سکتی ہے۔
  10. پولیس نوٹیفکیشن جاری کرے گی... پھر سائبر کرائم... پھر کارروائی ہوگی، یہ بہت سنگین ہے۔
  1  آپ سب، گروپ ممبرز، ایڈمنسٹریٹر،... برائے مہربانی اس معاملے پر غور کریں۔
  12. محتاط رہیں کہ غلط پیغام نہ بھیجیں اور سب کو بتائیں اور موضوع پر توجہ دیں۔
  13. براہ کرم اسے شیئر کریں۔

  گروپوں کو زیادہ ہوشیار اور چوکنا ہونا چاہیے۔

   *گروپ ممبران کے لیے واٹس ایپ کے بارے میں اہم معلومات...*
 
  *واٹس ایپ پر معلومات:*
  *1۔  ✔ = پیغام بھیجا گیا*
  *2۔  ✔✔ = پیغام پہنچ گیا*
  *3۔  دو نیلے ✔✔ = پیغام پڑھیں*
  *4۔  تھری بلیو = حکومت نے پیغام کا نوٹس لے لیا*
  *5۔  دو نیلے اور ایک سرخ - گورننس + حکومت آپ کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے*
  *6۔  ایک نیلا اور دو سرخ = حکومت تحقیقات کر رہی ہے، آپ کی معلومات*
  *7۔  کشور لال ✔✔✔ = حکومت نے آپ کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے، اور آپ کو جلد ہی عدالتی سمن موصول ہوں گے۔*
  *ذمہ دار شہری بنیں اور اپنے دوستوں کے ساتھ شئیر کریں* ..
  *اہم بات یہ ہے کہ اگلے گروپ کو جلدی بھیجیں...*

مولانامحمدعلی مونگیری کے تعلیمی نظریات ' کاتجزیاتی مطالعہ - شاہ عمران حسن


مولانامحمدعلی مونگیری کے تعلیمی نظریات ' کاتجزیاتی مطالعہ - شاہ عمران حسن
(اردو دنیا نیوز۷۲)
اردو زبان کے وہ صحافی جو حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھتے ہیں اورمستقل لکھتے رہتے ہیں، ان میں ایک اہم نام مولاناشارب ضیاء رحمانی کاہے۔مولانا شارب ضیاء رحمانی نے جامعہ رحمانی مونگیر کے زمانہ طالب علمی سے ہی تحریری زندگی کی ابتدا کر دی تھی، بعد کو وہ قومی درالحکومت نئی دہلی منتقل ہوئے تو پیشہ ورانہ طور پر انہوں نے اس میدان میں قدم رکھا۔ اور اس میں وہ بہت کامیاب بھی دکھائی دیتے ہیں۔ مولاناشارب ضیاء رحمانی کو نہ صرف لکھنے سے دل چسپی ہے بلکہ وہ پڑھنا اور تحقیق کرنابھی جانتے ہیں۔انھوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے باضابطہ جرنلزم کاکورس کیاہے جس میں انھیں گولڈ میڈل ملا تھا۔وہ مفکراسلام حضرت مولانامحمدولی رحمانی ؒ کے تربیت یافتہ عزیزوںمیں ہیں۔مولانا نے ان کی تحریر کو جلا بخشی اورحوصلہ افزائی کرتے رہے۔ خود مولانا شارب ضیاء رحمانی نے اپنے مضمون ''امیرشریعت مولانامحمدولی رحمانی کی صحافتی اورادبی خدمات'' میں لکھاہے : ''آپ برابرتاکیدکرتے کہ لگاتارلکھیے، زیادہ فاصلہ ہو جاتا ہے۔ ہر ہفتہ یاکم ازکم دوہفتے پرمضمون لکھیے۔مضامین کی اشاعت پرفون پر رائے دیتے اورحوصلہ افزائی کرتے ۔آپ نے راقم الحروف کے ایک مضمون کی اصلاح کرتے ہوئے تحریرفرمایا؛سہل مت لکھیے،آسان لکھیے، عربی کے فلاں فلاں الفاظ عام طورپرلوگ نہیں سمجھ پاتے،جملے مختصرہوں،کلمات حصرکااستعمال کم سے کم ہوناچاہیے ،جوکچھ آپ لکھیں،ان کے اعدادوشمارواضح طور پر لکھیں،سینکڑوں،ہزاروں کی بات نہ ہو۔بات اگرمکمل اعدادکہی جائے گی تومستندہوگی۔'' مولاناشارب ضیا ء رحمانی نے گذشتہ برس ایک تحقیقی کتاب ''مولانامحمد علی مونگیری اور تعلیمی اصلاحات'' شائع کی، جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کتاب کے اندر انہوں نے مولانا محمد علی مونگیری کے نظریۂ تعلیم و ترجیحات پر بحث کی ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اگر مولانا محمد علی مونگیری کے نظریۂ تعلیم کو اپنایا جاتا تو اس کے دور رس نتائج سامنے آتے۔ اس کتاب میں انہوں نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ مولانا سید محمد علی مونگیری جہاں دین کی تعلیم کو ضروری سمجھتے تھے وہیں وہ عصری تعلیم اور انگریزی تعلیم کے حصول کی اہمیت کے بھی معترف ہیں تاکہ اشاعت دین کا کام مزید وسعت کے ساتھ کیا جا سکے۔بعد کے دنوں میں مولانا محمد علی مونگیری کے خانوادے نے ان کے نظریۂ تعلیم کو نہ صرف آگے بڑھایا بلکہ عصری تقاضوں کے پیش نظر اس میں جدت بھی لائی۔ کتاب کے نام کے اعتبار سے ایسا لگتا ہے کہ اس کتاب میں مولانا شارب ضیا ء رحمانی نے صرف مولاناسید محمد علی مونگیری کے تعلیمی نظریات پر گفتگو کی ہے مگر انہوں نے گذشتہ صدی کی کئی اہم شخصیات کے تعلیمی نظریات کاتجزیاتی مطالعہ کیاہے۔انھوں نے اس میں سرسید احمد خان، علامہ شبلی نعمانی، مولانا ابوالکلام آزاد،مولانا مناظر احسن گیلانی اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی رحمھم اللہ کے تعلیمی تصورات نیزمولانامحمدعلی مونگیریؒ کی اولادواحفادمیںمولانامنت اللہ رحمانی ومولانامحمدولی رحمانی رحمتہ اللہ علیھما کی تعلیمی اصلاحات اورعملی اقدامات پر تجزیاتی گفتگو کرکے نئی بحث کاآغازکیا ہے، جو کہ دل چسپ بھی ہے اور قارئین کو دعوت فکر بھی ہے کہ اس پہلو پر مفید گفتگو کی جا سکتی ہے۔ یہ کتاب پہلی اشاعت میں ۱۰۶صفحات پرمشتمل تھی،اب وہ جلداس کااضافہ شدہ ایڈیشن لارہے ہیں،جوتقریباََڈیڑھ سوصفحات پرمشتمل ہوگی۔ان شاء اللہ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ کتاب نہ صرف طلبا کے لیے اہم ہے بلکہ ذمہ داران مدارس اورتعلیمی اصلاحات کی فکررکھنے والے بھی اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

آج بھی ہو جو ابراہیم سا ایماں پیداشمشیر عالم مظاہری دربھنگوی

آج بھی ہو جو ابراہیم سا ایماں پیدا
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار 
قارئینِ کرام
(اردو دنیا نیوز۷۲)
بقرہ عید کی قربانیوں کی نسبت آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔اسی مناسبت سے 
زیر نظر واقعہ بالتفصیل ملاحظہ فرمائیں ۔
خلیل الرحمن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خدا کا حکم ہوتا ہے، اور آپ اپنی بیوی حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا کے دودھ پیتے اکلوتے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ملک شام سے سرزمین عرب میں لے  کر جاتے ہیں۔ اور ایک لق و دق سنسان بیابان میں بیٹھا دیتے ہیں۔ایک چھاگل میں تھوڑا سا پانی اور کچھ چھوارے دے کر بغیر کچھ کہے سنے پیٹھ پھیر کر چل دیتے ہیں حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا متعجب اور بیتاب ہو کر دریافت فرماتی ہیں خلیل اللہ آپ ہمیں تنہا چھوڑ کر کہاں چلے؟مگر جواب تو کجا آپ نے مڑ کر دیکھا بھی نہیں پکڑنے کو اٹھیں مگر آپ دوڑنے لگے نا چار ہوکر فرمایا اچھا یہ تو فرمائیے کہ کیا ہم سے ناراضگی ہے یا خدا کا اس طرح کا آپ کو حکم ہوا ہے ؟ فرمایا ہاں مجھے میرے رب کا یہی حکم ہوا ہے حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو تسکین ہو گئی اور فرمانے لگیں شوق سے تشریف لے جائیے جب ہم اس کے فرمان پر کاربند ہیں تووہ ہمیں ہرگز ضائع نہیں کرے گا الٹے پاؤں واپس چلی آئیں اور صبر و شکر کے ساتھ اطاعتِ خداوندی میں اپنے ننھے سے گود کے بچے کے ساتھ دل بہلانے لگیں یہاں تک کہ وہ ناکافی تو شہ چند کھجوریں اور چند گھونٹ پانی ختم ہوگیا۔ بھوک پیاس کا غلبہ ہوا ہائے بے بسی اور کسم پرسی،  چٹیل میدان کی تنہائی، جہاں کوسوں دور تک آدمی چھوڑ جانور کا بھی نام و نشان نہیں حد نظر تک کوئی سایہ دار درخت تک نہیں سوائے ریت کے تودوں اور غیر مسلسل ناہموار پہاڑیوں کے کچھ دکھائی نہیں دیتا پانی تو کہاں دور دور تک تری بھی نہیں ۔ ہو کا عالم ہے ،غضب کا سناٹا ہے ،نہ کوئی مونس ہے نہ غمخوار ، نہ یار و مددگار ، جان سے زیادہ عزیز بچے کا برا حال ہے ، اس کا پھول سا چہرہ مر جھا رہا ہے ، ہونٹوں پر پیڑیاں جم گئ ہیں ، سانس رک رک کر چل رہا ہے ، نبضیں چھوٹی ہوئی ہیں ، زبان اینٹھ رہی ہے ، حلق خشک ہو رہا ہے ، گلے میں کانٹے پڑ رہے ہیں ، ٹانگیں رگڑ رہا ہے ، دم توڑ رہا ہے ، مامتا بھری ماں سامنے بیٹھی منہ تک رہی ہے ، ٹکٹکی لگائے ہوئے ہے، دنیا ساری آنکھوں تلے اندھیری ہو رہی ہے ، خاوند کی دوری ، وطن کی مہجوری ، بچہ کی جان کنی اور بے بسی ، بھوک ، اور پیاس ، ریت اور دھوپ ، تنہائی اور بیابان ، آہ اس ننھی سی جان کا، اپنی بھولی بھالی بولی میں اماں اماں پکارنا اور بے بس اور دکھیا اماں کا صدقے اور نثار ہونا ، بچے کا پانی مانگنا اور ماں کی آنکھوں سے موسلادھار آنسو بہانا اور کلیجہ مسوس کر رہ جانا عجیب عبرت ناک منظر تھا ۔ اپنے کلیجے کے ٹکڑے اپنی آنکھوں کے نور،  اپنے دل کے سرور،  معصوم لاڈلے اور اکلوتے پیارے فرزند کی یہ حالت دیکھی نہیں جاتی، بیتاب ہو کر کھڑی ہو جاتی ہیں اور آس پاس نظریں دوڑاتی ہیں کہ کہیں پانی دیکھ لوں، یا کوئی ہم جنس نظر آ جائے مگر سوائے مایوسی کے کچھ نہیں۔ صفا پہاڑی پر چڑھتی ہیں،  پھر وہاں سے اتر کر مروہ پہاڑی پر چڑھتی ہیں مگر بے سود۔  تھک کر آسمان کی طرف دیکھتی ہیں اتنے میں ایک غیبی آواز آتی ہے تم کون ہو؟  جواب دیتی ہیں میں ابراہیم کے صاحبزادے اسماعیل کی والدہ ہوں فرشتہ پوچھتا ہے ابراہیم اس بے پناہ جنگل میں تمہیں کس کے سپرد کر گئے ہیں ؟ فرماتی ہیں وہ ہمیں خدا کو سونپ گئے ہیں جبرئیل علیہ السلام فرماتے ہیں پھر کوئی حرج نہیں خدا کافی ہے اسے سونپی ہوئی چیز برباد نہیں ہوتی وہیں جبرئیل علیہ السلام بحکم خداوندی اپنی ایڑی زمین پر رگڑتے ہیں اور صاف شفاف پانی کا چشمہ ابلنے لگتا ہے یہی چاہ زمزم ہے جس کا پانی بہت مبارک اور متبرک ہے حضرت ہاجرہ خدا کا شکر بجا لاتی ہیں یہ پانی انہیں غذا کا کام بھی دیتا ہے اور پانی کا بھی بچے کی جان بھی بچ جاتی ہے! 
تازہ ہے چمن عبد خداۓ دوجہاں کا ؛ کچھ دخل نہیں گلشنِ قدرت میں خزاں کا ۔
اب پانی کی وجہ سے کچھ اور لوگ یہاں آبسے اور ایک چھوٹی موٹی سی آبادی ہوگئی (اسی بستی کا نام مکہ مکرمہ ہے جو آج مسلمانوں کا قبلہ ہے) 
بہرحال حضرت ابراہیم علیہ السلام خواب میں دیکھتے ہیں کہ گویا اپنے لختِ جگر پیارے بچے کو راہِ خدا میں قربان کر رہے ہیں تعمیل  ارشاد کے لئے فوراً تیار ہو جاتے ہیں بیٹے سے کہتے ہیں،  بچے سیر کو  چلو، رسی اور چھری بھی لے لو،  جنگل سے لکڑیاں بھی کاٹ لائیں گے، ماں خوشی خوشی بچے کو نہلا دھلا کر اچھے کپڑے پہنا کر باپ کے ساتھ کر دیتی ہیں،  بچہ ہنسی خوشی کھیلتا کودتا میٹھی میٹھی باتیں کرتا ہوا چلا جا رہا ہے۔  شیطان لعین ایک بھلے مانس کی شکل میں ماں کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے نیک بخت تمہارا بچہ کہاں گیا ؟جواب دیتی ہیں کہ وہ اپنے باپ کے ساتھ سیر کو گیا ہے شیطان کہتا ہے اے بھولی عورت کہاں کی سیر وہ تو اسے ذبح کرنے کے لئے لے گئے ہیں آپ فرماتی ہیں سبحان اللہ آج تک کسی باپ نے بھی بیٹے کو ذبح کیا ہے؟  وہ ایسا کیوں کرنے لگے؟ شیطان نے کہا وہ یوں کہتے ہیں کہ خدا کا انہیں یہی حکم ہوا ہے جواب دیتی ہیں اگر خدا کا یہ حکم ہے تو ایک بیٹا کیا ہزاروں بیٹے تصدق ہیں یہاں سے مایوس و نامراد ہو کر شیطان بچہ کے پاس آتا ہے کہتا ہے  صاحبزادے کہاں جا رہے ہو؟جواب دیتے ہیں اباجی کے ساتھ تفریح کے لئے جا رہا ہوں لعین کہتا ہے کیسی تفریح وہ تو تمہیں ذبح کرنے کے لئے لے جارہے ہیں فرماتے ہیں کیوں کہا اس لئے کہ خدا کا انہیں حکم ہے فرمایا پھر کیا ہے ایک کیا ہزاروں جانیں بھی اس کے پاک نام پر قربان ہیں اب باپ کے پاس آکر کہتا ہے ابراہیم یہ بے رحمی تم اپنے چاند سے بیٹے کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے کے لیے کون سا جگر لاؤ گے کیا تمہارا خون سفید ہوگیا ہے آپ فرماتے ہیں بھلا میں اسے کیوں ذبح کرنے لگا کہتا ہے تمہیں خیال ہے کہ خدا کا یہ حکم ہے آپ فرماتے ہیں پھر کیا حکم خداوندی سے بیٹا زیادہ عزیز ہے اسی کا عطیہ ہے اسی کے نام پر قربان ہوگا اب ناکام ہو کر ملعون خائب و خاسر لوٹتا ہے ۔
منی میں پہنچ کر باپ بیٹے میں گفتگو شروع ہوتی ہے ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں میرے لاڈلے مجھے تمہیں قربان کرنے کا حکم ہوا ہے تم کیا کہتے ہو
حضرت اسماعیل علیہ السلام فرماتے ہیں والد محترم فوراً تعمیل ارشاد کیجئے (چھری لیجیۓ گردن حاضر ہے) انشاءاللہ صبر و شکر کے ساتھ خالق کی اطاعت بجا لاؤں گا ہاں میرے مہربان باپ میرے ہاتھ پاؤں باندھ دیجئے کہیں ایسا نہ ہو کہ تڑپوں اور خدا کے ہاں بے صبر گنا جاؤں یا آپ کے کپڑوں پر خون کے چھینٹیں اڑیں اور میری امان جان انہیں دیکھ کر بے قرار ہوں مجھے الٹے منہ زمین پر گرانا کہیں ایسا نہ ہو کہ وقتِ ذبح میری صورت دیکھ کر آپ کو محبت آجائے چھری تیز کر لیجئے کہ فوراً مالک کو جان سونپ دو ہاں میرے پیارے ابا گھر جاکر میری امی جان سے میرا آخری سلام کہہ دینا انہیں تسلی و تشفی دینا کہیں ان کے دل پر صدمہ نہ گزرے یہ میرا کپڑا بطور نشانی کے  دے دینا۔ ابا جی رخصت بسم اللہ کیجئے ۔ باپ اپنے پیارے فرزند کو گلے سے لگا لیتے ہیں اور آخری پیار کرکے فرماتے ہیں۔ جان پدر میں بہت خوش ہوں کہ تم اپنے مالک کے نام پر  سر فروشی کے لیے تیار ہو بیٹا تمہیں خدا کو سونپا اپنے سینے پر صبر کی سل رکھ کر اپنے کلیجے پر داغ جدائی دے کر اپنے نور نظر کے ساتھ وہ کرتا ہوں جو کسی نے نہ کیا ہو پھر ہاتھ پاؤں باندھتے ہیں کرتا اتار لیتے ہیں پھر ذبیح اللہ  کو منہ کے بل زمین پر گرا کر تیز چھری حلق پر پھیرنے لگتے ہیں رحمت ایزدی جوش میں آتی ہے دریائے کرم لہریں مارنے لگتا ہے اور رب العالمین  آواز دیتا ہے اے میرے ا براہیم بس امتحان ہو چکا تم میرے حکم کی تعمیل کر چکے تمہارا اجر ثابت ہوگیا میں تم دونوں باپ بیٹوں سے خوش ہو گیا جبرئیل علیہ السلام نے حکم خداوندی سے نبی زادے کو اٹھا لیا اور ان کے بدلے میں ایک بہشتی دنبہ رکھ دیا جو ذبح ہوا
محترم بھائیو ۔ جانوروں کی قربانیاں بھی کرو اور ان سے بھی بڑھ کر یہ ہے کہ خواہشاتِ نفس کی قربانیاں کرو اپنے مال،  جان، عزت، آبرو سب کو راہِ خدا میں قربان کرنے کا حوصلہ اپنے اندر پیدا کرو
آج بھی ہو جو ابراہیم سا ایماں پیدا
 آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا

مناسک حج وعمرہ مع چہل احادیث__

مناسک حج وعمرہ مع چہل احادیث__
(اردو دنیا نیوز۷۲)
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ، پھلواری شریف پٹنہ
مناسک حج وعمرہ اور اس سے متعلق آیات واحادیث پر مشتمل کتابیں سینکڑوں کی تعداد میں موجود ہیں، ہر مصنف اور مؤلف نے اپنے اپنے انداز میں کتاب کے خد وخال بنانے اور اس کے مطابق کتاب میں رنگ بھرنے کا کام کیاہے،حج کے مسائل پر جو کتابیں اب تک تصنیف کی گئی ہیں، ان کی تفصیل بیان کروں تو بات لمبی ہوجائے گی ، احادیث وفقہ کی تمام کتابوں میں ’’کتاب الحج‘‘ موجود ہے، ہمارے دور میں جو چند کتابیں رہنمائی کے لئے موجود ہیں، اور مقبول ہیں ان میں مولانا قاری مولانا سعید احمد مظاہری کی ’’معلم الحجاج‘‘، مولانا مرغوب احمد لاجپوری کی ’’تحفۂ حجاج‘‘ ، مولانا رفعت قاسمی کی ’’مکمل ومدلل مسائل حج وعمرہ‘‘، مفتی شبیر احمد قاسمی کی ’’انوار مناسک‘‘، مفتی عبد الحئی قاسمی کی ’’رہبر حج‘‘، حاجی محمود عالم کی ’’رہنمائے حج وزیارت ‘‘اور راقم الحروف (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی) کی کتاب ’’عمرہ حج وزیارت ، سفر محبت وعبادت‘‘ وغیرہ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔
 اسی سلسۃ الذھب کی ایک کڑی ، مولانا پروفیسر آفتاب عالم صاحب قاسمی (ولادت یکم اپریل ۱۹۶۶ئ) بن طفیل احمد (م ۱۶؍ جولائی ۲۰۱۰ئ) بن ایوب علی بن عبد الغفار ساکن بیل پکونہ ضلع مظفر پور حال مقام مدنی نگر مہوا ویشالی کی تصنیف ’’مناسک حج وعمرہ مع چہل احادیث‘‘ ہے۔
مولانا آفتاب عالم صاحب دا رالعلوم دیو بند سے فارغ ہیں، حج وعمرہ کے مسائل پر ان کی نظر ہے، جزئیات کااستحضار ہے، فراغت کے بعد انہوں نے یونیورسٹی سے ایم اے ،فارسی واردو میں کیا ہے اور معاصرین میں ممتاز رہے، مختلف اوقات میں مکتب کی معلمی ، مدرسہ کی تدریس ونظامت اور کالج میں لکچرر ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے مہوا میں تجارت شروع کیا اور ظروف کی خرید وفروخت کو اپنا یا، اللہ نے اس کام میں برکت دی اور اب ان کا شمار مہوا کے کامیاب تاجروں میں ہوتا ہے، ان دنوں وہ مدنی مسجد مہوا کے صدر بھی ہیں۔اس حوالہ سے بھی ان کی محنت قابل ستائش ہے۔
 مولانا موصوف نے اس کتاب میں قرآن واحادیث کے حوالہ سے حج وعمرہ کے طریقے اور دعاؤں کا ذخیرہ جمع کیا ہے اور بڑی حد تک حج وعمرہ اور اس کی ادائیگی کے طریقے کی جزئیات کا احاطہ کیا ہے، کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے، جن کی تفصیلات کتاب کے شروع میں مؤلف کے قلم سے ہے اور کافی وشافی ہے۔
کتاب کے اخیر میں ’’میرے شب وروز‘‘ کے عنوان سے مولانا کی آپ بیتی، اس میں انہوں نے اپنی زندگی کے واقعات ، مخلصین، محبین اور اپنے اہل خانہ کا تذکرہ داستانی انداز میں کیا ہے، یہ ’’لذیذ بود حکایت درازترگفتم‘‘ کے مصداق طویل ہو گیا ہے، اس مضمون میں جن لوگوں کا شکریہ ادا کیا  ہے ان کی تعداد ایک درجن سے کم نہیں ہے، من لم یشکر النساس لم یشکر اللہ کہ جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر گذار بھی نہیں ہو سکتا کی وجہ سے یہ ضروری بھی تھا۔
انتساب کے بعد اس  کتاب پر ’’حرف چند‘‘ راقم الحروف (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی) ’’کلمات تحسین ‘‘  مولانا ڈاکٹر ابو الکلام قاسمی شمسی اور’’ نگاہ اولیں‘‘ مولانا محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری کا ہے، اس کے بعد مولانا نے’’ آئینۂ کتاب‘‘ کے عنوان سے تفصیلی طور پر اس کتاب کا خلاصہ قاری کے سامنے رکھ دیا ہے ، یہ طویل ہے، لیکن کتاب میں کیا کچھ ہے اس سے ابتدائی اور اجمالی واقفیت کے لیے اس کا مطالعہ ضروری ہے۔ اس باب کے اخیر میں مولانا نے داستانی انداز میں اپنی آپ بیتی شروع کر دی ہے اور بہت سارے لوگوںکا نام ذکر کرکے اس باب کو اختتام تک پہونچایا ہے، یقینا بہت سارے کام ’’بمد خوش کرنی‘‘ کرنے ہوتے ہیں،نہ کیجئے تو آدمی خود بھی دخیل ہو کے کر، کرا لیتا ہے، کبھی کبھی تو یہ دخیل ہونے والے لووگ اس قدر جری ہوتے ہیں کہ اپنی مدح وستائش کا پورا پورا پیراگراف بڑھادیتے ہیں، کبھی معاملہ اس سے آگے بڑھ جاتا ہے اور ٹائٹل تک پر تصرف سے باز نہیں آتے، صاحب کتاب کا قصور صرف اتنا ہوتا ہے کہ اس نے کسی صاحب پر اعتماد کرکے طباعت کا کام اس کے حوالہ کر دیا، یہ ایک اوچھی گھنونی حرکت ہے، اور صاحب کتاب کے اعتماد کو ٹھیس پہونچانے والی بات ہے، ناموں کی بھیڑ میں یہ تمیز کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ اس طویل فہرست میں کون کون خارج سے داخل ہو گیا۔ اس غیر ضروری دخول کی وجہ سے بعض ناموں میں تکرار ہوجاتا ہے، حالاںکہ اس میں تکرار سے بچنا ضروری ہوتا ہے،سہرے او رمضامین میں ناموں کی لمبی فہرست سے قاری کوبوریت محسوس  ہوتی ہے، اگر وہ شروع میں ہی بور ہو گیا تو بغیر پڑھے کتاب رکھ دے گا۔جو یقینا بڑا نقصان ہے۔
 اس باب میں داستان کا دوسرا حصہ ’’زیارت حرمین اور دل کی باتیں ‘‘ ہیں، یہ مختصر ہے،اوراصلاً سفر نامۂ عمرہ ہے۔جس میں مولانا نے واردات قلبی کو الفاظ کا پیرہن بخشا ہے،یہ داستان دل پذیر ہے اور قارئین کے شوقِ حج وزیارت کو مہمیز کرنے والی ہے۔
 کتاب کا پہلا باب حج کے بیان میں ہے، اس میں مولانا نے قرآن کریم میں جتنی آیات میں حج کا لفظ آیا ہے اس کا احاطہ کیا ہے اور احادیث کی روشنی میں حج کی فضیلت بیان کی ہے، اس کے بعد فرائض وواجبات حج پر روشنی ڈالی ہے اور مختلف عمل کے کرتے وقت جو دعائیں احادیث میں آئی ہیں اس کا ذکر کیا ہے۔ عمرہ کا بیان مولانا نے دوسرے باب میں حج کے بعد رکھا ہے، ہندوستان کے جو عازمین ہوتے ہیں وہ تمتع کرتے ہیں اور تمتع میں پہلے عمرہ ہوتا ہے اس لیے عمرہ کا ذکر پہلے ہونا چاہیے تھا، اس سے ایک دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ احرام ، طواف، سعی اور حلق کے مسائل سے پہلے مرحلہ میں واقفیت بہم پہونچ جاتی ہے اور حج کے بیان میں مصنف ان امور کے ذکر کا حوالہ دے کر وقوف منی، عرفہ، مزدلفہ، رمیٔ جمرات اور طواف زیارت کے ذکر پر تفصیلی گفتگو کرپاتا ہے، باتوں کو رکھنے اور سمجھانے کے لیے یہ طریقہ شاٹ کٹ ہے، اس کی وجہ سے یہاں بھی تکرار کا امکان کم رہتا ہے۔
 اس کتاب کے مختلف حصے اور ابواب میں مولانا نے مقامات مقدسہ مکہ مکرمہ او ر مدینہ طیبہ کا ذکر کیا ہے، جس کے پڑھنے سے شوق دید ابھر آتا ہے، طواف کی مختلف قسموں اور بعض جنایات کے سلسلے میں بھی تفصیلی کلام کیا ہے۔
 مولانا نے اس کتاب کے آخر میں حج وعمرہ سے متعلق چالیس احادیث کو جمع کر دیا ہے، اعراب اور ترجمہ کرکے عام قاری کے لیے اسے نفع بخش بنا دیا ہے، کسی کو یاد کرنا ہو تو بآسانی کر سکتا ہے اور ترجمہ کے ذریعہ اس کے معنی ومطالب کو سمجھ سکتا ہے۔ یہ ایک مفید اضافہ ہے جو مولانا نے کیا ہے ، عموما حج وزیارت سے متعلق کتابوں میں متعلقہ احادیث کو جمع کرنے کا اہتمام نہیں کیا جا تا ، مولانا نے شروع کتاب میں ان آیات قرآنی کو جمع کر دیا ہے، جس میں حج کا ذکر ہے اور آخر میں احادیث کا ذکر کیا ہے اور وہ بھی چالیس کی تعداد میں، ان احادیث کو یاد کرکے وہ فضیلت حاصل کی جا سکتی ہے، جن کا ذکر مذکور ومنقول ہے، کہنا چاہیے کہ یہ کتاب کا ’’مسک الختام ‘‘ ہے۔ زبان صاف ستھری اور باتیں واضح انداز میں رکھی گئی ہیں، جس سے کم پڑھا لکھا بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
۲۰۸؍ صفحات کی یہ کتاب مفت دستیاب ہے، آپ اسے نور اردو لائبریری حسن پور گھنگھٹی ، بکساما، ویشالی، قاسمی منزل وارڈ نمبر ۲۳، مدنی نگر مہوا ویشالی اور امارت شرعیہ سے حاصل کر سکتے ہیں۔
 کتاب عازمین کے لیے مفید ہے، نہ بہت طویل ہے اور نہ بہت ہی مختصر، اس کی وجہ سے کتاب کا مطالعہ آسان اور اس پر عمل آسان تر ہے، اللہ کرے مولانا کی دوسری خدمات کی طرح یہ خدمت بھی قبول عام وتام پائے، مولانا کا سفر حج بھی شروع ہے، حج مبرور کی دعا پر اپنی بات ختم کرتا ہوں

ذوالحجہ کا پہلا جمعہ ، حر م مکی میں عازمین حج کا کثیر اجتماع

ذوالحجہ کا پہلا جمعہ ، حر م مکی میں عازمین حج کا کثیر اجتماع
(اردو دنیا نیوز۷۲)
ریاض: حرمین شریفین کے انتظام و انصرام سے متعلق عمومی صدارت نے اعلان کیا ہے کہ مسجد حرام عازمین حج کے استقبال کے لئے پوری طرح تیار ہے۔واضح رہیکہ جمعہ کا یہ دن ایام حج کے دوران مسجد حرام میں عازمین حج کے پہنچنے اور موجودگی کے اعتبار سے مصروف ترین دن ہوتا ہے اور عازمین حج مسجد حرام میں بڑی تعداد میں پہنچ چکے ہیں۔ عازمین حج کی بہت بڑی تعداد پہلے ہی مکہ پہنچ چکی تھی تاکہ 8 ذوالحجہ سے مناسک حج کی ادائیگی شروع کر سکے۔ مسجد حرام میں ان عازمین حج کے استقبال اور دیگر انتظامی امور کے لئے 400 خدام کو مامور کیا ہے۔ انہیں حرم کے اندر اور باہر مامور کیا گیا ہے۔یہ خدام عازمین کے استقبال کے علاوہ انہیں مطاف اور دوسری مختلف جگہوں کے بارے میں رہنمائی کریں گے۔ نیز عازمین حج کی بیت اللہ شریف میں آمد اور روانگی کے امور کی نگرانی کریں گے۔ اس سلسلے میں بیت اللہ شریف میں تمام تر انتظامات کو پہلے ہی حتمی شکل دی جا چکی تھی۔ ان انتظامات کے تحت چار ہزار ملازمین مسجد حرام کی صفائی ستھرائی کے معاملات کو دیکھ رہے ہیں۔ دن میں دس مرتبہ حرم شریف میں صفائی کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ ماحول کو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق صاف رکھنے لئے 13000 لیٹر جراثیم کش مادہ استعمال کیا جارہا ہے جبکہ حجاج کو آب زمزم کی سہولت بہم پہنچانے کے لئے 25000 واٹرکولر پورے حرم میں رکھے گئے ہیں۔ عازمین حج کے لئے خوشخبری، سفر حج سے متعلق 14زبانوں میں 13 رہنماکتابچے سعودی عرب کی وزارت حج وعمرہ نے عمومی مقتدرہ اوقاف کے ساتھ کلیدی شراکت داری کے تحت رواں سال کے حج کے لئے دنیا بھر کے تمام عازمین جج وعمرہ کے لئے نیا آگاہی پروگرام شروع کیا ہے۔اس آگاہی پروگرام میں 13 تفصیلی رہنما کتابچے ہیں جو عازمین کی دلچسپی کے موضوعات کے بارے میں آسان طریقے سے حج کے تمام مراحل اور مناسک کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں۔ یہ معلومات آن لائن پورٹل کے ذریعے 14 عالمی زبانوں میں دی گئی ہیں۔ ویب سائیٹ https://guide.haj.gov.sa سے عازمین و صارفین استفادہ کر سکتے ہیں۔یہ آگاہی کتابچے سعودی ویژن 2030ء کے مقاصد کے عین مطابق ہیں جن کا مقصد حجاج کرام کو بیت اللہ کے سفر میں سہولت فراہم کرنا اور ان کے تمام سوالوں کے جوابات 14سے زیادہ زبانوں میں تسلی بخش انداز میں دے کر انہیں حج کے بارے میں آگاہی دینا ہے۔یہ سہولت اردو کے علاوہ عربی، انگریزی، فرانسیسی، بنگالی، انڈونیشین، ملے ،باھاسا، امہاری، فارسی، اسپانوی، ترکیہ، روسی اور سنہالی میں دستیاب ہیں۔ وزارت حج وعمرہ نے بتایا ہے کہ اپنے تمام تراجم کے ساتھ 182گائیڈز مختلف زبانوں میں پیش ہیں۔ ان میں حج کے حوالے سے قانونی امور، صحت کے معاملات، شرعی رہنمائی، قواعد کی معلومات اور تنظیمی نوعیت کی ہدایات آسان زبان میں تصاویر اور تفصیلی انفو گرافکس کے ذریعے فراہم کی گئی ہیں تاکہ قاری کو پڑھنے اور انہیں سمجھنے میں آسانی ہو۔اس اقدام کے ذریعے حج وعمرہ کی وزارت عازمین حج کی خدمت بجا لانے کی کوشش کرتی ہے کہ ضیوف الرحمن ان معلومات کے حصول کے بعد زیادہ سے زیادہ عبادات بجا لا سکیں۔ یہ معلومات 24 گھنٹے اسمارٹ ڈیوائسز پر مفت دستیاب ہیں۔ آن لائن پورٹل پر اس حوالے سے 10,178 صفحات پر مشتمل معلومات استفادے کیلئے موجود ہیں۔

جمعہ, جولائی 01, 2022

قربانی: رسم سے آگےکامران غنی صباؔ

قربانی: رسم سے آگے
کامران غنی صباؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(اردو دنیا نیوز۷۲)
اسلام کی کوئی بھی عبادت صرف رسم نہیں ہے۔ قربانی بھی ایک عظیم عبادت ہے جس میں بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ افسوس کہ ہم میں سے بیشتر لوگ یا تو ان حکمتوں کو سمجھتے نہیں یا سمجھتے بھی ہیں تو انہیں اپنی زندگی میں اتارنے کی کوشش نہیں کرتے۔
قربانی دراصل کسی کی رضا و خوشنودی کے لیے اپنی رضا و خوشنودی کو ترک کر دینے کا نام ہے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے اللہ کی رضا کے لیے اپنے نور نظر، لخت جگر اسماعیل علیہ السلام کو راہِ خدا میں قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کی ابتدا حضرت آدمؑ کے بیٹے قابیل اور ہابیل کی قربانیوں سے ہی ہو چکی تھی۔
وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ م اِذْقَرَّ بَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ“۔المائدہ:۱۸۳
ترجمہ:۔”اور آپ اہلِ کتاب کو آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ صحیح طور پر پڑھ کر سنا دیجیے، جب ان میں سے ہرایک نے اللہ کے لیے کچھ نیاز پیش کی تو ان میں سے ایک کی نیاز مقبول ہوگئی، اور دُوسرے کی قبول نہیں کی گئی“۔
قربانی کا مادہ "قرب" ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قربانی کا اصل مقصد کسی کا قرب حاصل کرنے کے لیے اپنی خوشی کو چھوڑ دینا ہے۔ کسی انگریز مفکر کا قول ہے :
The greatest sacrifice is when you sacrifice your own happiness for the sake off someone else. 
قربانی رشتوں کو مستحکم کرتی ہے۔ اگر قربانی کسی فرد یا سماج کے لیے پیش کی جائے گی تو ہمارا رشتہ اُس فرد اور سماج سے مستحکم ہوگا۔ اسی طرح خدا کے لیے پیش کی جانے والی قربانی خدا سے ہمارے رشتوں کو مستحکم کرے گی۔ 
کسی نے بالکل صحیح کہا ہے :
A strong relationship starts with two brave people who are ready to sacrifice anything for one another.
جان کی قربانی تو قربانی کی معراج ہے۔ اگر ہم کسی کی محبت میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا سعادت سمجھتے ہیں خواہ وہ محبت خدا کی ہو، وطن کی ہو یا کسی اور کی تو پھر یقیناً چھوٹی موٹی قربانی ہمارے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ 
قربانی کا تیوہار ہمیں یہی پیغام دیتا ہے کہ ہم خدا اور بندگان خدا کے لیے اپنے تن، من، دھن کی قربانی پیش کرنے کو ہمہ وقت تیار رہیں۔ اگر ہمیں اللہ نے دولت سے نوازا ہے تو ہم خدا کی رضا و خوشنودی کے لیے اپنی دولت کا کچھ حصہ بندگان خدا کے لیے قربان کریں۔ اگر ہمیں علم کی دولت عطا کی گئی ہے تو ہم اپنے علم سے دوسروں کو فیضیاب کریں۔ اگر قوم و ملت کی فلاح و بہبود کے لیے ہمیں اپنے عہدے و منصب سے دست بردار ہونے کی نوبت پیش آئے تو ہم اپنے مفاد پر قوم و ملت کے مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے عہدے و منصب سے دست بردار ہو جائیں۔ یہی قربانی کی اصل روح اور پیغام ہے۔
اللہ ہمیں قربانی کی اصل روح اور پیغام کو سمجھنے اور انہیں اپنی زندگی میں اتارنے کی توفیق عطا فرمائے۔

صدارتی انتخاب ___

صدارتی انتخاب ___
( اردو دنیا نیوز۷۲)
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ، پھلواری شریف پٹنہ
 صدر رام ناتھ کووند کی مدت کار ختم ہو رہی ہے، چنانچہ انتخابی کمیشن نے نئے صدر کے انتخاب کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا ہے ، اور سیاسی پارٹیوں میں سر گرمیاں تیز ہو گئی ہیں، ممتا بنرجی حزب مخالف کو متحد کرنے میں لگی ہوئی ہیں، ان کی دعوت پر سترہ چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیاں میٹنگ میں شریک ہوئیں اور شرد پوار ، فاروق عبد اللہ اورگوپال کرشن گاندھی میں سے کسی ایک کو متحدہ امیدوار بنانے کی تجویز آئی، شرد پوار نے تو مجلس میں ہی انکار کر دیا، فاروق عبد اللہ نے غور وفکر کرکے انکار کردیا، اور کشمیر کو ابھی ان کی ضرورت ہے کہہ کر اپنے کو امیدواری سے الگ کر لیا، یعنی وہ ابھی سر گرم سیاست سے کنارہ کش نہیں ہوناچاہتے، آخر میں گوپال کرشن گاندھی نے بھی صدارتی امیدوار بننے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہم سے بہت اچھے لوگ اس عہدہ کے لیے دستیاب ہیں، شرد پوار نے اس پر دوبارہ میٹنگ بلائی جس میں حزب مخالف نے یشونت سنہا کے نام پر اتفاق کر لیا، انہوں نے ۱۹۶۲ء میں یوپی اس سی امتحان میں بارہوا رینک حاصل کیا تھا اور ڈی ایم بن گیے تھے، مہا مایا پرشاد کے زمانہ میں ان کے ایک وزیر کی بد تمیزی اور وزیر اعلیٰ کے بگڑ جانے پر انہوں نے یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا تھا کہ وزیر اعلیٰ تو آئی اے ایس نہیں بن سکتے، لیکن میں وزیر اعلیٰ بن سکتا ہوں، پھر انہوں نے سیاست شروع کی ،یشونت سنہا بھاجپا کے سابق ترجمان بھی رہے ہیں، ۱۹۹۶ء میں ان کو یہ عہدہ پارٹی نے دیا تھا، وہ ۱۹۹۸ء سے ۲۰۰۲ء تک باجپئی حکومت میں وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔ بھاجپا سے ناطہ توڑ کر انہوں نے ترنمول کانگریس میں شمولیت اختیار کی تھی، حزب مخالف کے مشترکہ امیدوار بنے کے بعد انہوں نے ترنمول کانگریس سے استعفا دیا ، انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ دروپدی سے میرا کوئی ذاتی اختلاف اور لڑائی نہیں ہے، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ صدر جمہوریہ کی حیثیت سے ان سے زیادہ دستور کی حفاظت کر سکتا ہوں،یشونت سنہا کے نام کے اعلان کے بعد بھاجپا نے بھی اڈیشہ کی آدی باسی قبائلی خاتون دروپدی مرمو کو اپنی طرف سے صدارتی امیدوار نامزد کیا ہے ، دروپدی مرمو نے اپنی زندگی کی شروعات کلرک کے طور پر کیا تھا، بعد میں وہ میور بھنج کی وارڈ کونسلر ، پھر وہاں کی نائب میئر بنیں، اڈیشہ حکومت میں وزیر کے طور پر بھی دو بار خدمت انجام دیا، شوہر اور دو بیٹیوں کے انتقال کے بعد ان کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا سماجی خدمت ہی رہا،وہ جھارکھنڈ میں پہلی آدیواسی گورنر کی حیثیت سے کام کر چکی ہیں، وزیر اعظم نریندر مودی نے بہت سوچ سمجھ کر یہ نام پیش کیا ہے ، بیجو جنتا دل کے نوین پٹنایک کہہ چکے تھے کہ کسی آدی واسی امیدوار کو ہی ہم سپورٹ کریں گے ، اس طرح درویدی مرمو کے حق میں بیجو جنتا دل کا جانا طے ہے ، نتیش کمار کی جدیو عاب، وائی اس آر کانگریس اور دوسری علاقائی پارٹیوں نے بھاجپا امیدوار کے ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے، مرکزی حکومت نے جیت کے یقین کی وجہ سے ہی انہیں زیڈ سیکوریٹی بھی فراہم کر دی ہے، انصاف کا تقاضہ تھا کہ یشونت سنہاکو بھی سیکوریٹی فراہم کی جاتی، لیکن ایسا نہیں ہوا، وزیر اعظم نریندر مودی نے یہ ذمہ داری راج ناتھ سنگھ کو سونپی ہے کہ وہ اپنے امیدوار کے حق میں دوسری پارٹیوں کی آرا ہموار کریں، بظاہر یہ بہت مشکل بھی نہیں ہے، لیکن مشہور ہے کہ سیاست اور کرکٹ میں کچھ بھی نا ممکن نہیں ہوتا، مہاراشٹرا کی مخلوط حکومت کا حشر ہمارے سامنے ہے، یقین تو یہی ہے کہ این ڈی اے امیدوار دروپدی مرمو جیت جائیں گی، وہ خاتون ہیں ، آدی باسی ہیں اور پارٹیاں ۲۰۲۴ء کے انتخاب کے پیش نظر ان کو نظر انداز نہیں کر سکیںگے گی، بھاجپا اور این ڈی اے کی حلیف پارٹیوں کے ذریعہ دروپدی مرمو کا انتخاب یہ بتاتا ہے کہ آزادی کے پچھہتر سال کے بعد بھی ہمارے یہاں علاقائی اور طبقاتی ترجیحات دور غلامی کی طرح ہی ہے، تبھی تو بھاجپا کے صدر جے پی نڈا نے اس نام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ان کا انتخاب تین وجہ سے ہوا، وہ پورب کے علاقہ سے آتی ہیں، عورت ہیں اور آدی باسی ہیں، یعنی اس انتخاب میں علاقہ، قبیلہ اور صنفی جنس کا دھیان رکھا گیا ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...