Powered By Blogger

بدھ, جولائی 20, 2022

ساون کا پہلا پیر

ساون کا پہلا پیر
(اردو دنیا نیوز ۷۲)

سوموار کے دن کو برادران وطن کے نزدیک بڑی اہمیت حاصل ہے،خاص پوجا ارچنا کا یہ دن ہوا کرتا ہے،شیوا کو خوش کرنے کے لئے اس دن برت رکھا جاتا ہے، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایسا کرنے سے بدحالی دور ہوتی ہے، زندگی میں خوشیاں آتی ہیں ،خوشحالی ودولت مندی کا دور شروع ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے ایک دوسرے کو اس کی مبارکبادی بھی دیتے ہیں، شوشل میڈیا پر ایسا کہتے ہوئے میں نےسنا ہے اور آپ بھی سنتے ہی رہتے ہیں، گزشتہ سوموار کے دن کو یادگار بنانے کی کوشش کی گئی ہے،روزنامہ اردو اخبار انقلاب میں بھی محکمہ موسمیات کی طرف سے پیش گوئی کی گئی کہ ساون کے پہلے پیر سے جھماجھم بارش ہونے جارہی ہے، ۱۵/اضلاع میں الرٹ کیا گیا ہے، شمالی بہار کے دواضلاع ارریہ اور کشن گنج میں موسلادھار بارش ہونےکی خبردی گئی،ساون کا پہلا پیر آکر چلا گیا ہے، آج منگل کا دن بھی گزر گیا ہے، تاہنوز کوئی بارش نہیں ہوئی ہے،فضا کچھ ابر آلود رہی مگر ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے بارش اٹک گئی ہے اور برسنے کا نام نہیں لے رہی ہے، کہیں ضرورت سے زیادہ اس پیش گوئی پر یقین کو لیکر خدا ناراض تو نہیں ہوگیا ہے، 
موبائل پر تکیہ کرنے والے بھی عاجز آگئے ہیں، بارش کے تعلق سے موبائل ایپ پر روزانہ بارش ہورہی ہے، اس کی مقدار بھی بتلائی جارہی ہے مگر سرزمین پر کچھ بھی نہیں ہے،دھان کی کاشت کو لیکر یہ علاقہ مشہور رہا ہے، آج یہاں خشک سالی ہے،کھیتاں دھوپ میں جل رہی ہیں اور انمیں دراڑیں پڑ رہی ہیں، کسان پریشان حال ہیں ،سیمانچل کایہ نشیبی علاقہ جو سیلاب زدہ کہلاتا ہے آج خشک سالی کا شکارہوگیا ہے،قدرت نےمحکمہ موسمیات کا دعوی بھی خارج کردیاہے اور موبائل ایپ بھی فیل ہوگیا ہے،
اس تعلق ساری پیش گوئیاں بیکار گئی ہیں اور قرآن وحدیث کی بات ہی ہرزمانے میں صادق وغالب آئی ہے، بارش جب آتی ہوئی معلوم ہوتی ہے تو پیش گوئی کردی جاتی ہے، ان مشینوں سے اس وقت بھی یہی ہورہا ہے، مگر کہاں بارش ہونی ہے،کتنی مقدار میں ہونی ہے اور کب ہونی ہے اس کا صحیح علم خدا ہی کو ہے۔
بخاری شریف کی حدیث میں لکھا ہوا ہے کہ بارش کب ہوگی اس کی صحیح خبر اللہ رب العزت ہی جانتا ہے، اللہ کے سواکوئی اس کا حتمی علم نہیں رکھتا ہے،سیٹلائٹ بھی زبان حال سے یہی اعلان کررہا ہے۔
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ یہ پانچ چیزیں غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اللہ کے علاوہ کوئی نہیں رکھتا ہے، ماں کے حمل میں کیا ہے؟آئندہ کل کیا واقع ہونے جارہا ہے، بارش کب ہونے جارہی ہے، زمین کے کس خطہ میں کس کی موت واقع ہونے والی ہےاور قیامت کب قائم ہونے جارہی ہے، (بخاری )
غیب کی صرف یہی پانچ باتیں نہیں ہیں بلکہ غیب  کا سارا علم یہ خدا کے لئے خاص ہے،اہل مکہ کاہنوں کے ذریعہ ان باتوں کو بالخصوص معلوم کیا کرتے اور اس راستے سے خود گمراہ ہوتے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا کرتے تھے،اس لئے بطور خاص اس کا ذکر قرآن وحدیث میں کیا گیا ہے، 
آج ان کاہنوں کی جگہ مشینوں نے لے رکھی ہے، ہم اس کو آخری تحقیق اور آخری بات سمجھنے لگے ہیں اور اس کے ذریعہ گمراہی کے دہانےپر پہونچ رہے ہیں،سب سے سنگین مسئلہ شوشل میڈیا اور اخبارات کے ذریعہ ان امور میں بھی بڑی جرات وجسارت دیکھنے میں آرہی ہے، ساتھ خاص فکر کی اشاعت وترویج بھی کی جارہی ہے اس کا خیال ہمارے ذہن ودماغ نہیں آرہا ہے۔
مسلم شریف کی حدیث میں اس تعلق سے بڑی سخت بات کہی گئی ہے کہ جو یہ کہتا ہے کہ فلاں نچھتر کی وجہ سے بارش ہوئی ہے، ایسا شخص اسی پر ایمان رکھنے والا ہے، اللہ ہماری اور ہماری ایمان کی حفاظت فرمائے، آمین 
آج جب مخلوق پریشان ہےاور علاقہ خشک سالی کا شکار ہے،یہ موقع قرآن وحدیث کے علم کو عام کرنے کا ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ رہی ہے کہ پریشانی اور مصیبت کی گھڑی  نماز ودعا کے ذریعہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدائی مددکےطلب گاراورحق دار ہوئے ہیں، خشک سالی میں آپ نے پانی کے لئے دعائیں بھی کی ہےاور نماز بھی پڑھی ہے، اسی لئے بارش کےلئے پڑھی جانے والی نماز کو نماز استسقاء اور اس کے لئے کی جانے والی دعا کو بھی استسقاء کہتے ہیں، آج نہ ہماری زندگی میں یہ نماز استسقاء ہے اور نہ ہی اس کے خاص دعا کا اھتمام ہے، بخاری شریف کی حدیث میں جمعہ کےدن خطبہ میں بارش کی دعا کی تعلیم کی گئی ہے،اس جانب ہمارے ائمہ کرام کو متوجہ کرنے کی بھی ضرورت ہے، اپنے گناہوں سے ہم توبہ کریں، صدقہ کا خاص اھتمام کریں،اور اس دعا کو پڑھتے رہیں، اللهم اسقنا غيثا مغيثا، مريءا مريعا،نافعاغيرضار،عاجلاغيراجل (ابوداؤد )
ترجمہ:ہمیں بھرپور،خوشگوار، شادابی لانے والی،نفع بخش غیر نقصان دہ، جلدی نہ کہ تاخیر والی بارش عطا فرما،( آمین )

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۱۹/جولائی ۲۰۲۲ء

ہفتہ, جولائی 09, 2022

تعصب - مہلک نفسیاتی بیماری __

تعصب - مہلک نفسیاتی بیماری __
(اردو دنیا نیوز۷۲)
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ، پھلواری شریف پٹنہ
اللہ رب العزت نے انسان کو ایک مرد وعورت سے پیدا کیا اور تعارف کے لیے خاندان اور قبائل بنائے، لیکن برتری اورعظمت کا معیار تقویٰ کو قرار دیا، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرما دیا کہ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر ، کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے ، سوائے تقویٰ کے ، یعنی تقویٰ معیار فضیلت ہے، دوسری کوئی چیز قابل اعتنا نہیں ہے ،  اللہ رب العزت نے اکرام بنی آدم کا اعلان کیا  اور انسانوں کی تخلیق کو’’ احسن تقویم‘‘ یعنی تمام مخلوقات میں سب سے اچھی شکل وصورت والا،سے تعبیر کیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنائے گیے تھے، یعنی انسانی معاملات میں کسی اور بنیاد پر تفریق کی گنجائش نہیں ہے، مساوات کی اسی بنیاد پر حضرت بلال حبشی ؒ مؤذن رسول بن گیے، اور فاطمہ بنت قیس سے چوری کا عمل سر زد ہوا تو آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر فاطمہ بنت محمد ؐ  بھی ہوتی تو اس کا بھی ہاتھ کاٹا جاتا، بعض موقعوں پر جب اپنے اپنے قبیلے کو لوگ آواز دینے لگے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جاہلی پُکار قرار دیا اور اس پر نکیر فرمائی، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ قرآن میں مذکور ہے، جس میں انہوں نے اسے شیطان کے عمل سے تعبیر کیا ہے ۔ اللہ رب العزت نے اس قسم کے تعصب پر قابو رکھنے کے لیے اعلان کر دیا کہ تمام ایمان والے بھائی بھائی ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت کے بعد جو مواخاۃ کو رواج دیا اور مہاجر وانصار کے درمیان مثالی اخوت قائم فرمائی، وہ انہیں احکام کا عملی مظہر تھا۔تمام قسم کی عصبیت کو ختم کرنے کے لیے ہی اسلام نے یہ واضح کیا کہ اس کائنات کا رب، رب العالمین اور الٰہ العٰلمین ہے، اس کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو رحمۃ للعالمین ہیں اور اللہ رب العزت کی آخری کتاب قرآن کریم ہے جو ھُدی للعٰلمین ہے، یعنی ذات، برادری، علاقائیت کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں جو کچھ ہے سارے جہاں کے لیے ہے، اور سب کے لیے ہے۔
تعصب  ایک نفسیاتی بیماری ہے، جس کی وجہ سے انسان کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت محدود ہوجاتی ہے، اور وہ اپنے خول سے باہر نہیں نکل پاتا ہے۔اس کے باوجود مسلم سماج میں تعصب نے اس قدر جگہ بنالی ہے کہ ہم اس سے باہر نکلنے کو تیار نہیں ہوتے، اپنے خاندان، اپنے علاقے، اپنی برادری، اپنی زبان ، اپنی مادر علمی وغیرہ سے محبت فطری ہے اور یہ محبت مذموم بھی نہیں ہے، مکہ اور کعبۃ اللہ سے جو محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تھی ، اسی وجہ سے تو تحویل قبلہ کے لیے بار بار آسمان کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھا کرتے تھے، معلوم ہوا کہ اس طرح کی فطری بنیاد کو ختم نہیں کیا جا سکتا،اسی لیے اپنے قوم کو عزیز رکھنے کوعصبیت نہیں قرار دیا گیا، عصبیت اپنے قوم کی بے جا طرفداری اور بے جا حمایت کا نام ہے۔ ابن ماجہ کی روایت ہے کہ عصبیت یہ ہے کہ آدمی اپنے قوم وجماعت کی ظلم وزیادتی کے معاملہ میں مدد کرے، صرف اپنے خاندان ، قبیلے ، ذات برادری ، علاقے کو فیصلے کی بنیاد بنانا، اپنے لوگ ظالم پر ہوں اس کے باوجود ان کا تعاون کرنا،بے جا رعایت ، طرفداری، بے جا حمایت، حقیقت ظاہر ہوجانے کے بعد بھی حق بات سے انکار اور صرف اس بنیاد پر عہدے تفویض کرنا ، ترقی دینا یہ تعصب ہے اور شریعت کی نظر میں مذموم اور نا پسندیدہ عمل ہے اور اس قدر نا پسندیدہ ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو تعصب پر مر گیا وہ جاہلیت کی موت مرا،اور وہ ہم میں سے نہیں ہے ، ارشاد فرمایا ؛ وہ ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی طرف بلائے، وہ ہم میں سے نہیں جو عصبیت پر جنگ کرے اور نہ وہ ہم میں سے ہے جو عصبیت پر مرے، اس وعید کا تقاضہ ہے کہ ہم لازما ان بنیادوں پر کوئی فیصلے نہ لیں، بلکہ انصاف کریں، خواہ وہ اپنی ذات، اپنے والدین ، اپنے عزیز واقرباء کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کسی قوم کی دشمنی تم کو نا انصافی پر نہ ابھارے، انصاف کیا کرو، کیوں کہ یہ تقویٰ سے قریب ہے۔
 ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم نے دوسرے احکام شرعیہ کی طرح اس حکم کو بھی فراموش کر دیا، اب ہمارے تعلق اور فیصلہ کی بنیاد میرا بھائی، میرا خاندان ، میرا ضلع، میرے لوگ ، میرا علاقہ، میرے معتقدین ، میرے فدائین ہیں، صلاحیتوں کا اعتبار نہیں، تعلقات کا اعتبار ہے، جس کی وجہ سے ملکی سیاست سے لے کر ادارے، تنظیموں، جماعتوں اور جمیعتوں تک میں بہت سارے فیصلے تعصب کی بنیاد پر ہو رہے ہیں، وہ لوگ آگے بڑھ جاتے ہیں، جنہوں نے ملک وملت کے لیے کچھ نہیں کیا ہوتا ہے، بس ان کی صلاحیت یہ ہوتی ہے کہ وہ متعلقہ ذمہ دار کے علاقے کے ہیں، یا ان کے بھائی اور رشتہ دار ہیں، اس کے نتیجہ میں ہوتا یہ ہے کہ اسپ تازی تو پالان سے مجروح ہوجاتا ہے اور طوق زریں گدھوں کے گلے کی زینت بن جاتا ہے۔بے ساختہ یہاں پر حافظ شیرازی یاد آگیے۔
ابلہاں را ہمہ شربت زگلاب وقنداست
قوت ِدانا ہمہ از خون جگر می بینم
اسپ تازی شدہ مجروح بہ زیر پالان
طوق ’’زریں‘‘ ہمہ بر گردن ’’خر‘‘ می بینم
خاندانی اور علاقائی تعصب کے علاوہ لسانی تعصب نے بھی ہمارے درمیان جگہ بنالیا ہے، اس حوالہ سے بھی مختلف علاقوںمیں جنگ وجدل کا بازار گرم رہا ہے،مادر علمی کے حوالہ سے بھی تعصب بڑھتا جارہا ہے، مختلف اداروں کے فارغین نے الگ الگ تنظیمیں قائم کر رکھی ہیں، ان میں بھی دوسرے اداروں پر طنز وتعریض کا بازار گرم ہوتا ہے اور ایک دوسرے پر اپنی اہمیت اور بر تری ثابت کرنے کے لیے وہ سب کر گذراجاتا ہے، جس سے اسلام نے منع کیا ہے ، یہی حال برادرانہ تعصب کا ہے، چھوٹی ذات، بڑی ذات کے جھگڑے عام ہیں، حالاں کہ اسلام نے جو مساوات کا سبق ہمیں پڑھایا ہے اس کی روشنی میں نہ کوئی طبقہ اشراف سے ہے اور نہ کوئی طبقہ ارذال ۔ یہ انتہائی بیہودہ تقسیم ہے جو اسلام کے لیے کسی بھی حال میں قابل قبول نہیں ہے، یہاں پر کچھ لوگوں کا ذہن شادی بیاہ میں کفائت کی طرف منتقل ہوتا ہے، شریعت دین داری میں کفائت کا مطالبہ کرتی ہے، بقیہ شادی کرنے والی لڑکی اورعورت کو اختیار دیتی ہے کہ وہ زندگی صحیح ڈھنگ سے گذارنے کے لیے میچنگ دیکھ لیں تاکہ زن وشو کے درمیان محبت والفت کا تعلق بر قرار رہے، کفائت کی بنیاد اشراف وارذال نہیں ہے، اور یہ کسی طرح بھی شریعت کی منشا ئِ مساوات کے خلاف نہیں ہے ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اب تو مسجدوں کے نام بھی ذات برادری کے نام پر رکھے جانے لگے اور بعض علاقوں میں خود میرا مشاہدہ ہے کہ قبرستان تک میں تعصب برتا جاتا ہے، اور بڑی ذات کے لوگوں کے قبرستان الگ اورجنہیں چھوٹی ذات کہا جاتا ہے اس کے قبرستان الگ ہیں، ایک شہر میں دیکھا کہ جو مقامی آبادی ہے اس کا قبرستان الگ ہے اور جو لوگ اس شہر میں باہر سے آکر بسے، ان کا قبرستان الگ ہے، یہ باہر کے لوگ مقامی آبادی والے قبرستان میں دفن نہیں ہو سکتے۔
 عصبیت چاہے جس قسم کی بھی ہو اس کے بڑے مضر اثرات سامنے آتے ہیں، بندوں کے جو حقوق ہیں اس کی ادائیگی میں قصدا کوتاہی ہونے لگتی ہے، ظلم کا دروازہ کھلتا ہے اور نا انصافی عام ہوجاتی ہے، بڑوں کو چھوٹا اور اپنے کو حقدار ثابت کرنے کے لئے دوسرے سے حسد، بغض، ایک دوسرے کی ٹوہ اور غیبت کی ایسی گرم بازاری ہوتی ہے کہ الامان والحفیظ ، غیبت کی اس مجلس میں دوسرے پر الزام تراشی، بہتان وغیرہ لگا کر اپنے کو برتر اور دوسرے کو ارذل، ناکارہ اور نکما ثابت کرنے پر توانائی لگائی جاتی ہے؛ کیوں کہ اس کے بغیر وہ اپنے کو مطلوبہ عہدہ کا حق دار ثابت نہیں کر سکتا، تعصب کے شکار ایسے شخص کو اگر کسی کے لاشے سے گذر کر اپنی برتری ثابت کرنی ہو تو وہ اس سے بھی دریغ نہیں کرتا، غیبت تو خود ہی اپنے مرے ہوئے بھائی کے گوشت کھانے کی طرح ہے، مرے ہوئے بھائی کا مطلب تو لاشہ ہی ہوتا ہے، اوچھی اور گھنونی حرکت کے نتیجے میں بڑے چھوٹے کی تفریق ختم ہوجاتی ہے، اور ظاہر ہے یہ فتنہ وفساد کے نئے دروازے کھولتا ہے۔
تعصب کی جو قسمیں ہمارے یہاں رائج ہیں ان میں ایک مسلکی تعصب ہے، فروعی مسائل میں جزوی اختلافات کو بنیاد بنا کر جو تعصب پیدا کیا گیا ہے اس نے ہمارے کلمہ کی بنیاد پر اتحاد کو سخت نقصان پہونچا یا ہے مسلمان فرقوں میں تقسیم ہو کر رہ گیے ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کو ایک امت بنایا تھا، لیکن ہم تقسیم ہوتے چلے گیے، ملکی اور سماجی منظر نامہ میں سیاسی تعصب نے بھی انسانوں کو بانٹنے کا کام کیا ہے اور اب جب کہ سیاست میں کرسی کی اہمیت زیادہ ہو گئی اور نظریات پس پشت چلے گیے ہیںتو ہندو توا کے تعصب نے رواج پا لیا او رآج جو پورے ہندوستان میں نفرت کی کاشت ہو رہی ہے وہ اسی تعصب کا نتیجہ ہے۔ علاقائی تعصب بھی ، عصبیت کی بد ترین قسم ہے، کون کس علاقہ کا ہے اس بنیاد پر بھی فیصلے ہمارے یہاں عام ہیں، علاقائی تعصب کا دائرہ ریاست سے شروع  ہو کر ، ضلع، بلاک ، گاؤں اور خاندان تک پہونچ جاتا ہے، اب تو اس تعصب کا دائرہ دریا کے اُس پار، اِس پار تک پھیل گیا ہے ۔ عصبیت جس قسم کی بھی ہو، نسلی ہو یا لسانی، طبقاتی ہو یا مذہبی ، علاقائی ہو یا جماعتی مہلک نفسیاتی بیماری ہے جس شخص میں ایسا تعصب پیدا ہوجاتا ہے اس کی جسمانی موت چاہے نہ ہو، لیکن روحانی ، ایمانی اور اخلاقی موت ہوجاتی ہے، وہ اس زمین پر چلتا پھر تا ہنستا ، بولتا ہے، لیکن حقیقتا وہ ایک لاش ہوتا ہے، جس سے عصبیت کی بدبو آتی رہتی ہے۔اسی لیے میں نے اسے مہلک نفسیاتی بیماری کہاہے ۔

جمعہ, جولائی 08, 2022

قربانی اور ہماری سماجی ذمہ داری

قربانی اور ہماری سماجی ذمہ داری
(اردو دنیا نیوز۷۲)
  علاقہ کی مشہور و معروف تنظیم "تنظیم تحفظ شریعت  ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ" کے زیراہتمام  میں ایک اہم اجلاس منعقد ہوا، جس میں قربانی اور اس کے متعلقات کے بارے میں معلومات فراہم کی گئیں۔
  تنظیم کے ترجمان جناب عبدالسلام عادل ندوی نے اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اجلاس لوگوں میں بیداری پیدا کرنے کے لیے بلایا گیا ہے کہ لوگ قربانی کے ایام میں صفائی پر خصوصی توجہ دیں اور اپنے ہم وطن بھائیوں کا خیال رکھیں کہ وہ کوئی نہیں ہے. چوٹ مت   تنظیم کے سکریٹری مولانا عبدالوارث نے کہا کہ زمانہ قدیم سے تمام مذاہب کے ماننے والوں پر قربانی فرض ہے، ایسا نہیں ہے کہ قربانی کا رواج صرف اسلام میں ہے۔  قربانی کے شواہد تمام مذاہب میں پائے جاتے ہیں، آج بھی لوگ خدا کے نام پر قربانیاں پیش کرتے ہیں، اگرچہ مختلف انداز کے ساتھ۔
  معروف مذہبی اسکالر جناب عبداللہ سلیم چترویدی نے کہا کہ قربانی کا ذکر تمام مذہبی کتابوں میں موجود ہے۔  حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے بھی انبیاء اور اوتار اس زمین پر پیدا ہوئے ان کے پیروکاروں کو قربانی کرنے کا حکم دیا گیا۔  انہوں نے مسلم کمیٹی کے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ ان جانوروں کی قربانی نہ کریں جن سے ہمارے بھائیوں کا ایمان وابستہ ہے۔
  اجلاس میں علاقہ کی سرکردہ شخصیات مفتی سلیمان نوا ننکر، قاری امتیاز صاحب، قاری منظور صاحب، مولانا طلحہ، عبدالقدوس راہی، ماسٹر خالد صبا، ماسٹر شمشاد صاحب وغیرہ نے شرکت کی

कुर्बानी और हमारी सामाजिक दायित्व

कुर्बानी और हमारी सामाजिक दायित्व
क्षेत्र की प्रसिद्ध एवं लोकप्रिय संगठन "तंजीम तहफफुजे शरीअत व वेल्फेयर सोसाइटी जोकीहाट" के बैनर तले एक महत्वपूर्ण बैठक नववा नंकार में बुलाई गई जिसमें कुर्बानी और उसके संबंध में जानकारियां दी गई। 
संगठन के प्रवक्ता श्री अब्दुस सलाम आदिल नदवी ने संवाददाताओं से बात करते हुए कहा कि यह बैठक लोगों में जागरूकता लाने के लिए बुलाई गई है कि लोग कुर्बानी के दिनों में विशेष तौर पर सफाई का ध्यान दें और अपने हमवतन भाइयों का खयाल रखें कि उनको कोई तकलीफ ना पहुंचे। संगठन के सचिव मौलाना अब्दुल वारिस ने कहा कि प्राचीन काल से ही सभी धर्म के मानने वालों पर बलिदान अनिवार्य रहा है, ऐसा नहीं है कि केवल इस्लाम धर्म में ही कुर्बानी की प्रथा प्रचलित है। बलिदान के प्रमाण सभी धर्मों में मिलते हैं।आज भी लोग भगवान के नाम पर बलिदान चढ़ाते हैं, भले ही उनकी शैली अलग हो।
प्रसिद्ध धार्मिक विद्वान श्री अब्दुल्ला सालिम चतुर्वेदी ने कहा कि तमाम धार्मिक ग्रंथों में बलिदान का उल्लेख है। आदम अलैहिससलाम से लेकर हजरत मोहम्मद तक जितने नबी और अवतार ने इस धरती पर जन्म लिया सब के समर्थकों को बलिदान करने का आदेश दिया गया था। उन्होंने मुस्लिम समुदाय के लोगों से अपील की के कहा वह उन जानवरों की कुर्बानी ना दें जिन से हमारे भाइयों का आस्था जुड़ी हुई है। 
बैठक में  क्षेत्र की प्रसिद्ध शख्सियतें मुफ्ती सुलेमान नंववा नंकार, कारी इम्तियाज साहेब, कारी मंजूर साहेब, मौलाना तलहा, अब्दुल कुददूस राही, मास्टर खालिद सबा, मास्टर शमशाद साहब, इत्यादि ने मौजूद थे।

قربانی کریں ، غریبوں کا خیال رکھیں اور ریاکاری سے بچیں

قربانی کریں ، غریبوں کا خیال رکھیں اور ریاکاری سے بچیں

(جاوید بھارتی اردو دنیا نیوز۷۲)

 تو ہر قوم اور ہر امت میں ایک مخصوص ایام میں

 قربانی متعین کی گئی ہے اس کے نام الگ الگ ہیں، طریقے و نظریات اور مقاصد الگ الگ ہیی

لیکن سب سے مشہور قربانی امت محمدیہ میں جو ساڑھے چودہ سو سال پہلے سے چلی آ رہی ہے وہ قربانی کی اصل شناخت ہے،، اور کیوں نہ ہو جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے اعلان کردیا کہ اے میرے محبوب اب صبحِ قیامت تک تمہارے ہی دین کا ڈنکا بجے گا ہم نے تمہیں جو دعوت و تبلیغ کا کام دیکر دنیا میں بھیجا تو تم نے وہ پورا کردیا اب میرے نزدیک سب سے پسندیدہ دین،، دین اسلام ہے- آپ سے پہلے جتنے بھی انبیاء کرام دنیا میں ہم نے بھیجا سب کی شریعتیں منسوخ اب جسے کامیابی حاصل کرنا ہے تو اسے آپ کی شریعت پر عمل کرنا ہوگا،، اب آپ کا کلمہ پڑھنے والا ہی راہ نجات پاسکے گا آپ کے اسوۂ حسنہ کو اب ہم نے نمونہ عمل بنادیا ہے اس لئے اب کوئی دوسرا نمونہ لے کر ہمارے پاس کوئی پاور فل، بڑے سے بڑا امراء، رؤساء اور چودھری بھی آئے گا تو ہم اس نمونے کو ریجکٹ کر دیں گے- اب نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، قربانی سمیت دوسری تمام عبادتوں پر آپ کی مہر کا لگنا ضروری ہے کسی دوسرے کی مہر لگی ہوئی عبادت ہرگز قابل قبول نہیں ہوگی،، اس موقع پر کچھ لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ قربانی تو نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہیں ہے بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے تو اس پر عمل کیوں؟

انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ قربانی کو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت نہیں کہا ہے بلکہ واضح طور پر فرمایا ہے وہ بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کہ قربانی تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے اور اس سنت پر عمل کرنا تم سب کے لئے اور میری امت کے لئے ضروری ہے حضرت آدم علیہ السلام تو بلا تفریق مذہب و ملت پوری انسانیت کے لئے باپ ہیں ان کے بعد کسی نبی کو سب کے لئے باپ نہیں کہا ہے صحابہ کرام کو مخاطب کرکے جن کے بارے میں یہ کہا ہے کہ تمہارے باپ تو وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں کیونکہ جب حضرت ابراہیم کو نار نمرود میں ڈالا گیا تھا تو جبرئیل علیہ السلام نے ابراہیم علیہ السلام سے خواہش پوچھی تھی کہ بتاؤ میں اللہ کی بارگاہ میں پیش کروں گا تو ابراہیم علیہ السلام نے آگ کو ٹھنڈی کرنے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا تھا بلکہ یہ کہا تھا کہ ہاں میری خواہش ہے اے جبرئیل رب کریم سے کہنا کہ تیرے خلیل کی خواہش یہ ہے کہ تو جسے

خاتم الانبیاء بناکر دنیا میں بھیجے تو وہ میری خاندان کا ہو،، بس یہی میری خواہش ہے تو جس طرح خاتم الانبیاء پوری امت کے لئے روحانی باپ ہیں،

مجازی باپ ہیں تو ان کا شجرہ نسب ابراہیم علیہ السلام سے ہے اسی وجہ سے ابراہیم علیہ السلام کی بلند ترین مقدس خواہش اللہ نے پسند بھی کیا اور پورا بھی کیا اور ابراہیم و حاجرہ علیہم السلام کی اداؤں کو بھی اللہ نے اتنا پسند کیا کہ حج کے ارکان میں شامل کرکے صبحِ قیامت تک کے لئے مقدس و بلند ترین بنا دیا صفا و مروہ کی سعی کرنا ، شیطان کو کنکریاں مارنا یہ ابراہیم و حاجرہ علیہم السلام کی ادا ہی تو ہے جن کو کئے بغیر حج مکمل نہیں ہو سکتا-

اب اب رہ گئی بات خود ہمارے طور طریقوں کی تو ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کے یہاں گوشت، ہڈیاں، بوٹیاں نہیں پہنچتیں بلکہ نیت پہنچتی ہے، خلوص اور تقویٰ پہنچتا ہے اس لئے نیت صاف ہوناچاہیے قرب خداوندی مقصد ہوناچاہیے نام و نمود، شہرت، پرچار پرسار والی قربانی منہ پر ماردی جائے گی،، یہاں تو عجیب حال ہے ایک دوسرے کا قربانی کا جانور مضبوط اور کمزور ہے تو طنز کسا جاتا ہے مہنگے جانوروں کا خوب پرچار کیا جاتاہے،

روزانہ محفل لگاکر اپنی اپنی قربانیوں کی گنتی کرائی جاتی ہے، گھما گھما کر دیکھایا جاتا ہے، خود اپنے جانوروں کی قیمت بتا بتاکر داد و تحسین حاصل کرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے،، ایک طرف زید،، کی بیوی کہتی ہے کہ تم اتنا کمزور بکرا لائے ہو،، دیکھو ہمارا پڑوسی بکر،، خوب مہنگا بکرا لایا ہے تمہارا بکرا کمزور ہے اگر تم بھی مہنگا بکرا لاتے تو بکر،، کی طرح میں بھی باہر باندھ تی تم بھی باہر بیٹھے رہتے جو آتا اسے دکھلاتے، قیمت بتاتے تو اسے معلوم ہوتا پھر وہ بھی کسی کو بتاتا تو ہمارا کتنا نام ہوتا زید،، بولتا ہے کہ اپنی زبان بند رکھو کسی کو دکھانے کے لیے قربانی نہیں کی جاتی اللہ کی رضا کے لئے قربانی کی جاتی ہے دکھاوے کی قربانی سے کوئی فائدہ نہیں ہے،، ابھی میاں بیوی میں تکرار ہوہی رہی تھی کہ بکر بھی آجاتاہے اور کہتا ہے کہ یار تمہارا جانور بہت ہلکا ہے دیکھو میرا جانور کتنا بڑا ہے، کتنا مضبوط ہے ہر شخص تعریف کرنے کے لئے مجبور ہے آخر ہم دونوں دوست ہیں تو کام ایک جیسا کرنا چاہیے سنتے سنتے جب رہا نہیں گیا تو زید کا بیٹا بولتا ہے کہ تمہاری بات الگ ہے تم بڑے آدمی ہو ہمارے سامنے مجبوری ہے ہم اتنا ہی پاؤں پھیلا سکتے ہیں

جتنی بڑی ہماری چادر ہے اور دوسری بات کہ شائد تمہیں معلوم نہیں کہ صرف حج کے لیے نہیں بلکہ قربانی کے لیے بھی لین دین کا معاملہ صاف ہوناچاہیے، حساب کتاب آنا پائی چکتا ہوناچاہیے مگر تمہارا تو سارا معاملہ ہی الٹا ہے مزدوروں کی مزدوری روکے ہوئے ہو، حساب کرنے کے بعد بھی جو پیسہ نکلتا ہے وہ بھی نہیں دیتے ہو اور نصف درجن بکرا کی قربانی کرنے جارہے ہو رسول کائنات نے فرمایا ہے کہ مزدور کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو اور تمہارا حال یہ ہے کہ مزدوروں کا خون چوس لینے کے بعد بھی مزدوری ادا نہیں کرتے ہو جب دو سگے بھائیوں کے درمیان دشمنی کی وجہ سے قربانی قبول نہیں ہوسکتی تو مزدوروں کی مزدوری روکنے کی وجہ سے قربانی کیسے قبول ہوسکتی ہے،، خدارا جھوٹ بولنا بند کرئیے تجارت میں جھوٹ بول بول کر تم نے آبادی کی رونق تک ختم کرڈالی خلوص کے ساتھ قربانی کرئیے، نیک نیتی کے ساتھ قربانی کرئیے بہت ہوگیا دکھاوا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے سے باز آجائیے خود تم قربانی کا جانور خریدتے ہو تو اسے چلاکر، دوڑاکر، منہ کھول کر، اس کے بدن کے مختلف حصوں پر ہاتھ رکھ کر اور دباکر دیکھتے ہو کبھی کبھی وہ قربانی کا جانور بھی نظریں اٹھاکر تمہاری طرف دیکھتا ہے تو ذرا محسوس کرو کہیں وہ بھی یہ تو نہیں نہ کہہ رہا ہے کہ او مجھے دباکر دیکھنے والے، دوڑاکر دیکھنے والے تو میرے اندر تو عیب تلاش کررہا ہے ذرا اپنے عیبوں کو بھی دیکھ ، اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھ تو کتنا پاک صاف ہے اور تو کتنا رب کے قرآن اور نبی کے فرمان کا پابند ہے؟

آج کا مسلمان قربانی کے لئے جانوروں کو خریدنے کے بعد اسے سوشل میڈیا پر فیس بک پر،واٹس ایپ پر اپلوڈ کرتا ہے آخر اس کا مطلب اور مقصد کیا ہے نام و نمود و نمائش اور شہرت حاصل کرنا نہیں تو اور کیا ہے خدارا اپنے اندر خلوص اور نیک نیتی و للہت کا جذبہ پیدا کریں تاکہ ہماری آپ کی قربانی بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہوسکے- حضرات ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام کے واقعات کے ایک ایک پہلو پر غور کرئیے اپنے اندر تقویٰ پیدا کیجئے تاکہ ہماری قربانی کامیاب قربانی ہو اس کے لئے دنیا میں نمبر حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ وہ نمبر جسے خدا کا قرب کہا جاتا ہے،، وہ نمبر حاصل کریں اور وہی نمبر نجات کا ذریعہ ہے ورنہ اس کے برعکس تو پرانی کہاوت ہے کہ نیکی کر دریا میں ڈال

محمد مظاہر عرف ہیرا بابو ؒمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ، پھلواری شریف پٹنہ

محمد مظاہر عرف ہیرا بابو ؒ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ، پھلواری شریف پٹنہ
(اردو دنیا نیوز۷۲)
جناب محمد مظاہر صاحب عرف ہیرا بابو بھی چل بسے، بڑی سرگرم زندگی انہوں نے گذاری ، کچھ دنوں سے صاحب فراش تھے، تشخیص کینسر کی ہوئی ، پھر رو بصحت ہونے لگے، مرنے سے چند دن قبل طبیعت بگڑی تو پارس ہوسپیٹل میں داخل کرایا گیا، وہاں سے وارثین مطمئن نہیں ہوئے تو راجہ بازار کے نیو روہوسپیٹل میں منتقل کیا گیا، ۸؍ جون ۲۰۲۲ء کو دن کے ۲؍ بجے دل کا دورہ پڑا اور تین بجکر پندرہ منٹ پر اس دنیا سے رخت سفر باندھ لیا، جنازہ کی نماز ۹؍ جون کودن کے دس بجے دانش اپارٹمنٹ سمن پورہ ، راجہ بازار پٹنہ میں امارت شرعیہ کے قائم مقام ناظم مولانا محمد شبلی قاسمی نے پڑھائی، اور سینکڑوں سو گواروں کی موجودگی میں ویٹنری کالج قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ ، دو لڑکی اور ایک لڑکے کو چھوڑا۔
 محمد مظاہر بن وافق حسین (م ۱۹۸۵) کا آبائی وطن بھاگرت پور پنڈول موجودہ ضلع مدھوبنی تھا، یہیں وہ ۱۶؍ جون ۱۹۴۳ء کو پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد پنڈول ہائی اسکول سے میٹرک تک کی تعلیم پائی، وہاں سے پٹنہ منتقل ہو گیے اور آئی کام اور بی کام کی تعلیم کامرس کالج پٹنہ سے حاصل کی ، ۱۹۶۲ء میں بی کام کیا، اور پھرمگدھ یونیورسیٹی کے لا کالج میں داخل ہوئے اور ۱۹۶۷ء میں وکالت کی تعلیم مکمل کی لیکن انہوں نے اسے کسی بھی مرحلہ میں ذریعہ معاش نہیں بنایا۔
 محمد مظاہر صاحب اپنے علاقہ میں ہیرا بابو کے نام سے مشہور تھے، ان کی نانی ہال سوبھن ضلع دربھنگہ تھی، شادی تاج پور موجودہ ضلع سمستی پور میں عبد الوہاب (م۱۹۸۸) بن عبد اللہ مختار کی دختر نیک اختر سے ہوئی تھی، معاشی تگ ودو کا آغاز انہوں نے ایل آئی سی کے ذریعہ کیا، لیکن علماء سے تعلق خصوصا مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی قاضی القضاۃ امارت شرعیہ سے رابطہ کی وجہ سے دو تین سال سے زائد اس کام سے جڑے نہ رہ سکے، اس وقت اسلامک فقہ اکیڈمی کا فیصلہ دفع ضرر ، رفع حرج کی وجہ سے ال آئی سی کرانے کی گنجائش کا نہیں آیا تھا اور اس کام کو منکرات کا ہی ایک حصہ سمجھاجاتا تھا، اس سے الگ ہو کر انہوں نے بہار اسکول اکزامنیشن بورڈ میں ملازمت اختیار کرلی، یہ ۱۹۷۵ء کا سال تھا، مسلسل وہاں کام کرتے رہے اور سبکدوشی کی عمر کو پہونچ کر ۲۰۰۱ء میں اس ملازمت سے رشتہ توڑا، پہلے تعلیم اور پھر ملازمت کی وجہ سے انہوں نے پٹنہ کو اپنا وطن ثانی بنایا، سبکدوشی کے بعد سے وہ حسن پیلیس سمن پورہ راجا بازار، پٹنہ میں قیام پذیر تھے۔
 محمد مظاہر صاحب کا رشتہ امارت شرعیہ سے بڑا مضبوط اور مستحکم تھا، واقعہ یہ ہے کہ امارت شرعیہ کے بے غرض اور بے لوث فدائین کی کوئی مختصر سی فہرست تیار کی جائے گی تو اس میں محمد مظاہر صاحب کا نام ضرور آئے گا، وہ امارت شرعیہ کے اکابر اور امراء شریعت سے عقیدت مندانہ تعلق رکھتے تھے، انہوں نے چار امراء شریعت کے دور میںامارت شرعیہ کے اغراض ومقاصد کو زمین پر اتارنے اور ان کے احکام کو عوام تک پہونچانے کے لیے سر گرام جد وجہد کی۔ عرصہ دراز سے امارت شرعیہ کی مجلس شوریٰ کے رکن تھے، وہ ۲۰۱۰ء سے ۲۰۱۳ء تک  مولانا منت اللہ رحمانی ٹیکنیکل انسٹی چیوٹ کی مجلس منتظمہ کے سکریٹری رہے اور اپنی توانائی سے جس قدر وہ اس ادارہ کو مضبوط کر سکتے تھے کیا، وہ عمر کے آخری دن تک امارت شرعیہ کی مجلس شوریٰ کے رکن بھی رہے،وہ آل انڈیا ملی کونسل کے قیام کے وقت سے ہی بحیثیت رکن اس سے جڑ گئے تھے اور بہار میں جناب راغب احسن ایڈوکیٹ ، مفتی نسیم احمد قاسمی، راقم الحروف (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی) اور مولانا مشہود احمد قادری ندوی کے دور سکریٹری شپ میں بھر پور حصہ داری نبھائی، بعد میں وہ ایڈہاک کمیٹی ملی کونسل کے کنوینر بنے اوربہار انتخاب کے بعد ملی کونسل کے لیے بھی کام کرتے رہے ۔
 محمد مظاہر صاحب کی خدمت کا ایک بڑا میدان عازمین حج کی خدمت کا تھا، سبکدوشی سے قبل جز وقتی اور سبکدوشی کے بعد کل وقتی طور پر عازمین کو سفر حج پر روانہ کرنے سے قبل ان کے مسائل ومشکلات اور کاغذات کی تیاری میں کم از کم چار چیرمین کے دور میں پوری تندہی سے کام کرتے میں نے ان کو دیکھا ہے ، کبر سنی کے باوجود وہ بڑے چاق وچوبند رہتے اور اس قدر خدمت کرتے کہ نوجوان خادم الحجاج بھی پسینے پسینے ہوجاتے، کم از کم ایک ماہ وہ دن رات حج ہاؤس میں قیام پذیر ہوجاتے اور جو کام بھی انہیں دیا جاتا اس میں جی جان سے لگ جاتے۔
 تعلیم کے میدان میں بھی محمد مظاہر صاحب کی خدمات بڑی وقیع تھیں وہ ۱۹۸۵ء سے تا حال عبد الصمد اردوگرلس ہائی اسکول کے سکریٹری تھے ، لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ میں اس اسکول کی بڑی اہمیت رہی ہے، اس کے علاوہ انہوں نے ایک مدرسہ سلیم العلوم کے نام سے اپنے گاؤں بھاگرت پور پنڈول میں کھولا تھا، اسے انہوں نے مدرسہ بورڈ سے ملحق بھی کروالیا تھا، البتہ ابھی گرانٹ نہیں مل پائی تھی۔
 محمد مظاہر صاحب ان لوگوں میں تھے جن کا دل مسجد میں لٹکا ہوتا ہے، احادیث میں ایسے لوگوں کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے، وہ ۱۹۸۵ء سے ۲۰۰۹ء تک پٹنہ جنکشن مسجد کے سکریٹری رہے، ۲۰۲۱ء میں انہیں دوبارہ سکریٹری بنایا گیا، لیکن انہوں نے اپنی علالت طبع اور کبر سنی کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا، عام طور سے پٹنہ جنکشن مسجد کے ایک کمرہ میںنیچے محمد مظاہر صاحب، جناب ہارون رشید  مرحوم سابق چیرمین اقلیتی کمیشن اور صغیر احمد صاحب کی مجلس لگتی ، جیب خاص سے چائے وغیرہ کا دور چلتا، امارت شرعیہ کا کوئی کارکن یاذمہ دار پہونچتا تو اس کی بھر پور پذیرائی کرتے، انہوں نے مولانا اکرام صاحب جو ان کے وقت میں پٹنہ جنکشن مسجد کے امام تھے، کہہ رکھا تھا کہ امارت شرعیہ کی طرف سے کوئی اعلان آئے یا کوئی خطیب بھیجا جائے تو مجھ سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے ، اعلان کیجئے اور موقع دیجیے، چنانچہ جب کبھی ہم لوگ گیے، پٹنہ جنکشن کے منبر ومحراب ہم لوگوں کے حوالے ہوجاتے۔
میرا ان سے ذاتی تعلق امارت شرعیہ آنے کے قبل سے تھا، ہم لوگوں کا انتخاب ایک ساتھ حج ٹرینر کی حیثیت سے ہوا تھا، اور دہلی میں بچوں کے گھر میں ٹریننگ کے درمیان ہم لوگ ساتھ ساتھ رہے تھے، اس ملاقات اور تعلق کو وہ بہت اہمیت دیتے تھے، پھر جب ۳۰۰۳ء میں نائب ناظم کی حیثیت سے حضرت امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین کے خصوصی حکم سے میں یہاں کام کرنے لگا تو گھنٹوں مختلف امور پر ہم لوگوں کا تبادلہ خیال ہوتا رہتا تھا، اور وہ ملی مسائل اور تعلیمی امور پر کھل کر اظہار خیال کیا کرتے تھے۔
محمد مظاہر صاحب چلے گیے، بڑی صداقت یہی ہے کہ جو آیا ہے اسے اس دنیا سے جانا ہے، اس حقیقت کو جاننے کے باوجود جدائی کا غم تو فطری ہے ، ہم سب ان کی جدائی سے غمگین ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، پس ماندگان کو صبرجمیل دے اور جن اداروں سے وہ متعلق تھے انہیں ان کا نعم البدل مل جائے، ہم سب کو اس کی دعا کرنی چاہیے۔ آمین یا رب العالمین وصلی اللہ علی النبی الکریم وعلیٰ آلہ وصحبہ اجمعین۔

جمعرات, جولائی 07, 2022

صاحب استطاعت مسلمانوں پر قربانی کرنا واجب ہے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارے عمل سے کسی کو تکلیف نہ ہو

صاحب استطاعت مسلمانوں پر قربانی کرنا واجب ہے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارے عمل سے کسی کو تکلیف نہ ہو
نئی دہلی: ۷؍جولائی ( پریس ریلیز اردو دنیا نیوز۷۲) ل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے اپنے صحافتی بیان میں کہا ہے کہ عید قرباں مسلمانوں کا نہایت اہم تہوار ہے، جو اللہ کے دو پیغمبروں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی یاد دلاتا ہے اور ہمیں اس جانب متوجہ کرتا ہے کہ ہم اللہ کی رضا کی خاطر ہر طرح کی قربانی کے لئے تیار رہیں اور عقیدۂ توحید پر ثابت قدم رہیں، اس موقع پر جانوروں کی قربانی بھی کی جاتی ہے، شریعت کا یہ حکم مالدار مسلمانوں سے متعلق ہے اور دنیا کے دوسرے مذاہب میں بھی اس کا تصور موجود ہے؛ لیکن قربانی کرتے ہوئے یہ بات ضروری ہے کہ ہم کوئی ایسا عمل نہ کریں جو دوسرے بھائیوں کے لئے دلآزاری کا سبب ہو، امن کو نقصان پہنچے، گندگی پھیلے، تعفن پیدا ہو، جانور کا متعفن حصہ سرِ راہ اور آبادیوں کے اندر پھینک دیا جائے، یہ ساری باتیں شریعت کے بھی خلاف ہیں اخلاق کے بھی اور قانون کے بھی، صحت کی حفاظت اور سماج کو بیماریوں سے بچانا سبھوں کی ذمہ داری ہے؛ اس لئے حکومت نے غلاظتوں کے پھینکنے کے لئے جو جگہ مقرر کی ہے، ان کو وہیں پھینکنا چاہئے، صفائی ستھرائی اور بھائی چارے کی برقراری کا خیال رکھنا چاہئے

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...