محمد مظاہر عرف ہیرا بابو ؒ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ، پھلواری شریف پٹنہ
جناب محمد مظاہر صاحب عرف ہیرا بابو بھی چل بسے، بڑی سرگرم زندگی انہوں نے گذاری ، کچھ دنوں سے صاحب فراش تھے، تشخیص کینسر کی ہوئی ، پھر رو بصحت ہونے لگے، مرنے سے چند دن قبل طبیعت بگڑی تو پارس ہوسپیٹل میں داخل کرایا گیا، وہاں سے وارثین مطمئن نہیں ہوئے تو راجہ بازار کے نیو روہوسپیٹل میں منتقل کیا گیا، ۸؍ جون ۲۰۲۲ء کو دن کے ۲؍ بجے دل کا دورہ پڑا اور تین بجکر پندرہ منٹ پر اس دنیا سے رخت سفر باندھ لیا، جنازہ کی نماز ۹؍ جون کودن کے دس بجے دانش اپارٹمنٹ سمن پورہ ، راجہ بازار پٹنہ میں امارت شرعیہ کے قائم مقام ناظم مولانا محمد شبلی قاسمی نے پڑھائی، اور سینکڑوں سو گواروں کی موجودگی میں ویٹنری کالج قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ ، دو لڑکی اور ایک لڑکے کو چھوڑا۔
محمد مظاہر بن وافق حسین (م ۱۹۸۵) کا آبائی وطن بھاگرت پور پنڈول موجودہ ضلع مدھوبنی تھا، یہیں وہ ۱۶؍ جون ۱۹۴۳ء کو پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد پنڈول ہائی اسکول سے میٹرک تک کی تعلیم پائی، وہاں سے پٹنہ منتقل ہو گیے اور آئی کام اور بی کام کی تعلیم کامرس کالج پٹنہ سے حاصل کی ، ۱۹۶۲ء میں بی کام کیا، اور پھرمگدھ یونیورسیٹی کے لا کالج میں داخل ہوئے اور ۱۹۶۷ء میں وکالت کی تعلیم مکمل کی لیکن انہوں نے اسے کسی بھی مرحلہ میں ذریعہ معاش نہیں بنایا۔
محمد مظاہر صاحب اپنے علاقہ میں ہیرا بابو کے نام سے مشہور تھے، ان کی نانی ہال سوبھن ضلع دربھنگہ تھی، شادی تاج پور موجودہ ضلع سمستی پور میں عبد الوہاب (م۱۹۸۸) بن عبد اللہ مختار کی دختر نیک اختر سے ہوئی تھی، معاشی تگ ودو کا آغاز انہوں نے ایل آئی سی کے ذریعہ کیا، لیکن علماء سے تعلق خصوصا مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی قاضی القضاۃ امارت شرعیہ سے رابطہ کی وجہ سے دو تین سال سے زائد اس کام سے جڑے نہ رہ سکے، اس وقت اسلامک فقہ اکیڈمی کا فیصلہ دفع ضرر ، رفع حرج کی وجہ سے ال آئی سی کرانے کی گنجائش کا نہیں آیا تھا اور اس کام کو منکرات کا ہی ایک حصہ سمجھاجاتا تھا، اس سے الگ ہو کر انہوں نے بہار اسکول اکزامنیشن بورڈ میں ملازمت اختیار کرلی، یہ ۱۹۷۵ء کا سال تھا، مسلسل وہاں کام کرتے رہے اور سبکدوشی کی عمر کو پہونچ کر ۲۰۰۱ء میں اس ملازمت سے رشتہ توڑا، پہلے تعلیم اور پھر ملازمت کی وجہ سے انہوں نے پٹنہ کو اپنا وطن ثانی بنایا، سبکدوشی کے بعد سے وہ حسن پیلیس سمن پورہ راجا بازار، پٹنہ میں قیام پذیر تھے۔
محمد مظاہر صاحب کا رشتہ امارت شرعیہ سے بڑا مضبوط اور مستحکم تھا، واقعہ یہ ہے کہ امارت شرعیہ کے بے غرض اور بے لوث فدائین کی کوئی مختصر سی فہرست تیار کی جائے گی تو اس میں محمد مظاہر صاحب کا نام ضرور آئے گا، وہ امارت شرعیہ کے اکابر اور امراء شریعت سے عقیدت مندانہ تعلق رکھتے تھے، انہوں نے چار امراء شریعت کے دور میںامارت شرعیہ کے اغراض ومقاصد کو زمین پر اتارنے اور ان کے احکام کو عوام تک پہونچانے کے لیے سر گرام جد وجہد کی۔ عرصہ دراز سے امارت شرعیہ کی مجلس شوریٰ کے رکن تھے، وہ ۲۰۱۰ء سے ۲۰۱۳ء تک مولانا منت اللہ رحمانی ٹیکنیکل انسٹی چیوٹ کی مجلس منتظمہ کے سکریٹری رہے اور اپنی توانائی سے جس قدر وہ اس ادارہ کو مضبوط کر سکتے تھے کیا، وہ عمر کے آخری دن تک امارت شرعیہ کی مجلس شوریٰ کے رکن بھی رہے،وہ آل انڈیا ملی کونسل کے قیام کے وقت سے ہی بحیثیت رکن اس سے جڑ گئے تھے اور بہار میں جناب راغب احسن ایڈوکیٹ ، مفتی نسیم احمد قاسمی، راقم الحروف (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی) اور مولانا مشہود احمد قادری ندوی کے دور سکریٹری شپ میں بھر پور حصہ داری نبھائی، بعد میں وہ ایڈہاک کمیٹی ملی کونسل کے کنوینر بنے اوربہار انتخاب کے بعد ملی کونسل کے لیے بھی کام کرتے رہے ۔
محمد مظاہر صاحب کی خدمت کا ایک بڑا میدان عازمین حج کی خدمت کا تھا، سبکدوشی سے قبل جز وقتی اور سبکدوشی کے بعد کل وقتی طور پر عازمین کو سفر حج پر روانہ کرنے سے قبل ان کے مسائل ومشکلات اور کاغذات کی تیاری میں کم از کم چار چیرمین کے دور میں پوری تندہی سے کام کرتے میں نے ان کو دیکھا ہے ، کبر سنی کے باوجود وہ بڑے چاق وچوبند رہتے اور اس قدر خدمت کرتے کہ نوجوان خادم الحجاج بھی پسینے پسینے ہوجاتے، کم از کم ایک ماہ وہ دن رات حج ہاؤس میں قیام پذیر ہوجاتے اور جو کام بھی انہیں دیا جاتا اس میں جی جان سے لگ جاتے۔
تعلیم کے میدان میں بھی محمد مظاہر صاحب کی خدمات بڑی وقیع تھیں وہ ۱۹۸۵ء سے تا حال عبد الصمد اردوگرلس ہائی اسکول کے سکریٹری تھے ، لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ میں اس اسکول کی بڑی اہمیت رہی ہے، اس کے علاوہ انہوں نے ایک مدرسہ سلیم العلوم کے نام سے اپنے گاؤں بھاگرت پور پنڈول میں کھولا تھا، اسے انہوں نے مدرسہ بورڈ سے ملحق بھی کروالیا تھا، البتہ ابھی گرانٹ نہیں مل پائی تھی۔
محمد مظاہر صاحب ان لوگوں میں تھے جن کا دل مسجد میں لٹکا ہوتا ہے، احادیث میں ایسے لوگوں کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے، وہ ۱۹۸۵ء سے ۲۰۰۹ء تک پٹنہ جنکشن مسجد کے سکریٹری رہے، ۲۰۲۱ء میں انہیں دوبارہ سکریٹری بنایا گیا، لیکن انہوں نے اپنی علالت طبع اور کبر سنی کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا، عام طور سے پٹنہ جنکشن مسجد کے ایک کمرہ میںنیچے محمد مظاہر صاحب، جناب ہارون رشید مرحوم سابق چیرمین اقلیتی کمیشن اور صغیر احمد صاحب کی مجلس لگتی ، جیب خاص سے چائے وغیرہ کا دور چلتا، امارت شرعیہ کا کوئی کارکن یاذمہ دار پہونچتا تو اس کی بھر پور پذیرائی کرتے، انہوں نے مولانا اکرام صاحب جو ان کے وقت میں پٹنہ جنکشن مسجد کے امام تھے، کہہ رکھا تھا کہ امارت شرعیہ کی طرف سے کوئی اعلان آئے یا کوئی خطیب بھیجا جائے تو مجھ سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے ، اعلان کیجئے اور موقع دیجیے، چنانچہ جب کبھی ہم لوگ گیے، پٹنہ جنکشن کے منبر ومحراب ہم لوگوں کے حوالے ہوجاتے۔
میرا ان سے ذاتی تعلق امارت شرعیہ آنے کے قبل سے تھا، ہم لوگوں کا انتخاب ایک ساتھ حج ٹرینر کی حیثیت سے ہوا تھا، اور دہلی میں بچوں کے گھر میں ٹریننگ کے درمیان ہم لوگ ساتھ ساتھ رہے تھے، اس ملاقات اور تعلق کو وہ بہت اہمیت دیتے تھے، پھر جب ۳۰۰۳ء میں نائب ناظم کی حیثیت سے حضرت امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین کے خصوصی حکم سے میں یہاں کام کرنے لگا تو گھنٹوں مختلف امور پر ہم لوگوں کا تبادلہ خیال ہوتا رہتا تھا، اور وہ ملی مسائل اور تعلیمی امور پر کھل کر اظہار خیال کیا کرتے تھے۔
محمد مظاہر صاحب چلے گیے، بڑی صداقت یہی ہے کہ جو آیا ہے اسے اس دنیا سے جانا ہے، اس حقیقت کو جاننے کے باوجود جدائی کا غم تو فطری ہے ، ہم سب ان کی جدائی سے غمگین ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، پس ماندگان کو صبرجمیل دے اور جن اداروں سے وہ متعلق تھے انہیں ان کا نعم البدل مل جائے، ہم سب کو اس کی دعا کرنی چاہیے۔ آمین یا رب العالمین وصلی اللہ علی النبی الکریم وعلیٰ آلہ وصحبہ اجمعین۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں