Powered By Blogger

ہفتہ, جولائی 23, 2022

امارت شرعیہ کی تعلیمی مہم

امارت شرعیہ کی تعلیمی مہم __
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
(اردو دنیانیوز۷۲)
امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم نے پورے بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ او رمغربی بنگال میں تعلیمی بیداری اور ملت کے بچوں کو اس میدان میں آگے بڑھانے کا جو فیصلہ لیا تھا، وہ اب تیزی سے برگ وبار لانے لگا ہے، ساٹھ سے زائد خود کفیل مکاتب اب تک کھل چکے ہیں، ترانوے مکاتب پہلے سے کام کر رہے تھے، حضرت امیر شریعت نے آئندہ پانچ سالوں میں ہر صوبہ میں بڑی تعداد میں مکاتب کے قیام پر زور دیا ہے، وفاق المدارس اور اسکولوں کے نصاب تعلیم پر بھی کام ہو رہا ہے، نصابی کمیٹی کی ایک میٹنگ بھی ہو چکی ہے، امارت شرعیہ کے چار اسکول پہلے سے کام کر رہے تھے، حضرت نے چند مہینوں کے اندر ہی کٹیہار، پورنیہ ، کٹک اور گڈا میں نئے امارت پبلک اسکول کے قیام کی منظوری دی اور گڈا کے علاوہ سبھی جگہ کے افتتاحی پروگرام میں بہ نفس نفیس تشریف لے گئے اور اسلامی ماحول میں بنیادی دینی تعلیم کے ساتھ معیاری عصری تعلیم کے لیے اسے ماڈل اور معیاری بنانے پر زور دیا، پسکا نگری رانچی میں ایک امارت پبلک اسکول پہلے سے چل رہا تھا ، اربا میں امیر شریعت سابع حضرت مولانا محمد ولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ نے انٹر نیشنل اسکول کی بنیاد ڈالی تھی، وہاں بھی تعلیم کا کام شروع ہوا، رانچی کے ہند پیڑھی میں تعلیمی نظام شروع کرنے کا آپ نے حکم دیا اور اس کے معائنہ کے لیے خود تشریف لے گیے۔وہاں بھی جلد ہی تعلیمی سلسلہ شروع ہوجائے گا۔
 ایک بڑا کام جو حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم کے حکم سے پھلواری شریف میں کیا گیا وہ جونیر اسکولی بچوں کے لیے کوچنگ کا تھا، جسے کریش کورس کا نام دیا گیا تھا،تین ماہ کی محنت سے اس کوچنگ کے بچے صد فی صد میٹرک میں کامیاب قرار پائے اور ان میں سے بائیس بچوں نے رحمانی ۳۰ کے تحت داخلہ امتحان میں کامیابی حاصل کرکے ایک تاریخ بنائی، جوطلبہ وطالبات ان تین ماہ میں پنچانوے فی صد سے زائد حاضر رہے ان کی فیس کی رقم ۲؍ جولائی ۲۲ ء کو ایک تقریب میں لوٹا دی گئی، تاکہ دوسرے طلبہ وطالبات بھی اس سے حوصلہ پا کر صد فی صد حاضری کو یقینی بنا سکیں، اس پورے پروگرام کو کامیابی سے ہم کنار کرنے میں رحمانی ۳۰ کے ڈائرکٹر انجینئر فہد رحمانی کی مسلسل اور مر بوط خدمت کا بڑا عمل دخل رہا۔اس کامیابی کا سہرا در اصل انہیں کے سر ہے، انہوں نے اس ہدف کو پانے کے لیے اساتذہ اور منتظمین کو اس طرح جوڑ کر رکھا کہ انہوں نے جہد مسلسل اور عمل پیہم کرکے اس ہدف کو پالیا۔
 اس موقع سے منعقد تقریب میں اہل علم ، اسکول کے ذمہ داران اور سیاسی حضرات کی بھی شرکت ہوئی، محکمہ اقلیتی فلاح کے وزیر جناب زماں خان، ایم ال سی، غلام غوث ، ایم ایل اے اختر الاسلام شاہین، شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیر مین ارشاد علی آزاد ، بہار مدرسہ بورڈ کے سابق چیر مین مولانا اعجاز احمد ، ہولی ویزن پبلک اسکول سمن پورہ کے ڈائرکٹر محمد صابر، بے بی لینڈ کے ڈائرکٹر شمیم اقبال وغیرہ نے شرکت کی اور تعلیمی میدان میں امارت شرعیہ کی جد وجہد کو سراہا، اور ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔حضرت امیر شریعت اور نائب امیر شریعت نے جو قیمتی پیغامات دیے اس میں فرمایا کہ تعلیم کے بغیر صحت مند اور ترقی یافتہ معاشرہ کی تشکیل نہیں ہو سکتی ، حضرت امیر شریعت کا یہ فرمانا بہت با معنی ہے کہ کامیابی ایک عادت ہے جسے لگانی پڑتی ہے، انہوں نے طلبہ وطالبات کو نصیحت کی کہ یہ دور مقابلہ کا ہے جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ اعلیٰ مقام کے حصول کے دور میں بچھڑ جائے گا۔
 امارت شرعیہ کی تعلیمی مہم نے اب ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی ہے، کام اور مسلسل کام امارت شرعیہ کا منصوبہ ہے اور اس کو کامیاب کرنے کے لیے امارت شرعیہ کے خدام ہمہ وقت مصروف عمل ہیں۔

جمعہ, جولائی 22, 2022

بارش کے پانی میں پھنس گئی اسکول بس ، تلنگانہ کے محبوب آباد میں بچوں کوبچالیا گیا

بارش کے پانی میں پھنس گئی اسکول بس ، تلنگانہ کے محبوب آباد میں بچوں کوبچالیا گیا
(اردو دنیانیوز۷۲)
حیدرآباد:ریاست تلنگانہ کے ضلع محبوب آباد میں زبردست بارش کا سلسلہ جاری ہے۔بارش کی وجہہ سے ندیاں نالے ابل پڑے، نرسمہلو پیٹ منڈل کے کومالہ ونچا نئے تالاب کے پاس بارش کے پانی کا زبردست بہاو تھا، جس کی وجہہ سے ایک خانگی اسکول بس پانی میں پھنس گئی۔ اسکول بس میں بچے موجود تھے جو خوفزدہ ہوگئے۔ فوری طورپرمقامی افراد نے چوکسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے طلباء کو وہاں سے محفوظ مقام پرمنتقل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ بڑا خطرہ ٹل جانے پرطلباء اوراولیائے طلباء نے راحت کی سانس لی۔

حادثۀ فاجعہ

حادثۀ فاجعہ
(اردو دنیانیوز۷۲)
ابھی ابھی برادر عزیز مفتی سیدمحمدعزیرسنسارپوری کے فون سے یہ جگرپاش خبرملی ہے کہ شیخ ومرشد عارف باللہ حضرت مولاناحکیم سیدمکرم حسین کاظمی سنسارپوری خلیفۀ ارشد حضرت مولاناشاہ عبدالقادر راۓ پوری قدس سرہ بھی منزل فردوس کو سدھارگۓ ہیں اناللہ واناالیہ راجعون ۔
نمازجنازہ کی حتمی اطلاع بعد میں دی جاۓ گی۔
تمام احباب سے دعاۓ مغفرت اور ایصال ثواب کی درخواست ہے 
محمدساجدکھجناوری
مدرس جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ
۲۲ذوالحجہ ۱۴۴۳
22جولائی 2022
بروز جمعہ  پونے دوبجے دن

جمعرات, جولائی 21, 2022

محرم الحرام کے موقع سے سلسلہ وار پروگرام کی ترتیب

محرم الحرام کے موقع سے سلسلہ وار پروگرام کی ترتیب 
(اردو دنیانیوز۷۲)
بعنوان . ماه محرم الحرام حقاق ، فضائل اور خرافات و بدعات بوقت بعد نماز عصت تاعشاء پپرا - حاجی ابراہیم والی مسجد کرسیل ۔ مرکزی جامع مسجد کمہیا - نوری مسجد مولانا محمد مسرور صاحب قاری ارشد جمال صاحب مفتاحی مولانا محمد ارشد صاحب مظاہری بتاريخ 24/07/2022 بتاريخ 25/07/2022 بتاريخ 26/07/2022 دھنپورہ- جامع مسجد مفتی محمد ارشد صاحب قاسمی بردار مدرسه والی مسجد نگورا- باحاطه مدرسه قاری محمد ابو ذرصاحب حافظ محمد شاہد صاحب بتاریخ 27/07/2022 بتاریخ 28/07/2022 بتاريخ 29/07/2022 کاشی باڑی ٹولہ کر بلا- جامع مسجد کامت بات- مدرسه دریتیم بارالتمبرار- مرکز جامع مسجد قاری عبدالقدوس صاحب مولانامحل محمد صاحب مظاہری مولانا محمد توحید صاحب مظاہری بتاریخ 30/07/2022 بتاريخ 31/07/2022 بتاريخ 01/08/2022 کجلینا - چوک والی مسجد پتھراباڑی - شاہی جامع مسجد بگڈ ہرا ۔ مرکزی جامع مسجد مولانا اسحاق منا ومولانا نعیم الدین منا مولانا نظام الدین صاحب قاسمی قاری تنزیل الرحمن صاحب عرفانی بتاريخ 02/08/2022 بتاريخ 03/08/2022 بتاريخ 04/08/2022 کنوینر پروگرام : عبدالوارث مظاہر کی سکریٹری تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی ، جو کی ہاٹ و پلاسی ضلع اور یہ ( بہار ) ) موبائل نمبر 8235091350 / 9686759181 منجانب : تحفظاشرلعت وویلفیئرسوسائی نوکیا و پلاسی ضلع ارریہ بہار )

سی،ایم،بی کالج میں دس روزہ تعلیمی وثقافتی پروگرام کا افتتاح

سی،ایم،بی کالج میں دس روزہ تعلیمی وثقافتی پروگرام کا افتتاح 
(اردو دنیانیوز۷۲)
آ ج بتاریخ 21جولائی 2022ء کو ایل این ایم یو کے زیر اہتمام چل رہے سی ایم بی کالج میں دس روزہ مختلف قسم کے تعلیمی وثقافتی پروگرام کا باضابطہ افتتاح کالج کے پرنسپل ڈاکٹر کیرتن ساہو و ڈاکٹر عبدالودود قاسمی (برسر کالج) اور دیگر اساتذہ کے ہاتھوں شمع جلاکر کیا گیا پروگرام کی نظامت ڈاکٹر ہری شنکر رائے (بڑا بابو)نے بحسن وخوبی انجام دیا۔ پروگرام کا آ غاز کرتے ہوئے ڈاکٹر قاسمی نے دس روزہ پروگرام کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے لئے بڑی خوشی کی بات ہے کہ ہماری یونیورسٹی گولڈن جوبلی تقریب منارہی ہے جس کی آ خری تقریب بہت بڑے پیمانے پر 5اگست 2022ء کو منایا جائے گا اس موقع پر یونیورسٹی انتظامیہ بہتر کار کردگی کرنے والے ادارے ان کے ذمہ داروں سمیت طلباو طالبات کو اعزاز واکرام اور توصیفی سند سے بھی نوازے گی۔عالی جناب وائس چانسلر صاحب اور جناب ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب (رجسٹرار ایل این ایم یو) کے حکم وہدایات پر عمل کرتے ہوئے سی ایم بی کالج میں بھی دس روزہ متعدد تعلیمی وثقافتی پروگرام منعقد کئے گئے ہیں جس کا افتتاح ابھی آپ نے دیکھا ۔افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر کیرتن ساہو (پرنسپل کالج) نے سب سے پہلے یونیورسٹی انتظامیہ کا بصد خلوص شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم وی سی سر اور رجسٹرار صاحب کے بے حد ممنون ہیں کہ ان لوگوں نے بیک وقت کالج میں متعدد مضامین کے گیارہ گیسٹ فیکلٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر وں کو بھیج کر اساتذہ کے قحط کو دور کردئے مجھے امید ہے کہ آپ تمام اساتذہ کے آنے سے تعلیم وتدریس کا سلسلہ اب مزید بہتر ہوجائے میں تمام نو منتخب پروفیسروں کا والہانہ استقبال کرتا پوں۔ افتتاحی سیشن کے بعد کوئز مقابلہ کا آ غاز کیا گیا واضح رہے کالج کانام دو اہم شخصیات پر مشتمل ہے چندر مکھی اور بھولا اس کو سامنے رکھتے ہوئے کوئز مقابلہ کے لئے دوگروپ بنائے گئے لڑکی والے گروپ کام نام چندر مکھی گروپ تو لڑکے والے گروپ کا نام بھولا گروپ رکھا گیا ۔جس میں کثیر تعداد میں طلباء وطالبات نے بڑھ چڑھ کر ذوق و شوق سے حصہ لیا ۔کوئز مقابلہ کے انچارج جناب ڈاکٹر جیتندر کمار اور ڈاکٹر آ لوک کمار کی قیادت میں یہ پروگرام بہت اچھے انداز میں انجام تک پہونچا کا فی اتار چڑھاؤ کے بعد لڑکیوں کی چندر مکھی گروپ نے آ خر بازی مار ہی لی اور اپنی جیت درج کرانے میں کامیاب ہوگئی ۔پروگرام کو کامیاب کرنے میں کالج تمام اساتذہ کے ساتھ کالج کے غیر تدریسی ملازمین بھی پیش پیش رہے۔ بالخصوص نو منتخب اساتذہ کرام ڈاکٹر بھگت کمار منڈل (شعبہ میتھلی)،ڈاکٹر رتن کماری (شعبہ میتھلی) ڈاکٹر آ لوک کمار (شعبہ کامرس) ڈاکٹر پروین کمار (شعبہ شوسیولوجی) ڈاکٹر پریم سندر پرساد (شعبہ فلسفہ) ڈاکٹر ویریندر کمار( شعبہ کیمسٹری) ڈاکٹر جیتندر کمار سنگھ (شعبہ کامرس )ڈاکٹر اوپیندر کمار (شعبہ فزکس )ڈاکٹر دھر میندر کمار( شعبہ زو لوجی) ڈاکٹر محمد نوشاد عالم (شعبہ پولیٹیکل سائنس) ڈاکٹر اوماشنکر کمار(شعبہ کامرس) ڈاکٹر نریش کمار(شعبہ انگریزی) ڈاکٹر سنجے کمار (شعبہ ہندی) ڈاکٹر پر بھاکر کمار (شعبہ اکانو مکس) وغیرہ کے ساتھ اسٹوڈینٹ یونین کے ذمہ داران طلباء جیتندرکماریا دو پپو یادو پروگرام کو کامیاب بنانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔کل بتاریخ 22جولائی 2022ءکو اسی کڑی کے تحت بحث ومباحثہ کا پروگرام بعنوان اگنی پتھ یوجنا منعقد کیا جائے گا ۔

سیلاب کی آمد مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ

سیلاب کی آمد 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
(اردو دنیانیوز۷۲)
موسم باراں شروع ہو گیا ہے ، سخت اُمَس اور تمازت کے بعد بارش کے ہونے سے جسم وجاں کو سکون ملا ہے، فصلوں کے بہتر ہونے کے امکانات بھی بڑھے ہیں، خشک ندی اور تالاب میں پانی جمع ہونے کی وجہ سے پانی کی قلت دو ر ہوئی ہے، اور چرند وپرند نے بھی راحت کی سانس لی ہے ، گھنگھور گھٹائیں، رم جھم بارش، مرطوب ہوائیں دل میں بھی ایک کیف وسرور پیدا کرتی ہیں اور ہر شئی کو زندگی مل جاتی ہے ، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے ۔ وجعلنا من الماء کل شی حی ہم نے ہر جاندار چیز کو پانی سے بنایا، لیکن یہ پانی جب حد سے بڑھ جائے تو یہ زندگی کے ساتھ موت کا رقص بھی شروع کر دیتا ہے، اس کی کثرت سے کچے مکان گرجاتے ہیں، آب ودانہ اور غذائی اجناس کی قلت ہوجاتی ہے، آمد ورفت کے ذرائع مسدود ہونے کی وجہ سے جانوروں اور چھوٹے بچوں کی غذائی ضرورتوں کے پوری کرنے میں بھی دشواری ہوجاتی ہے ، لوگ یا تو کھلے آسمان کے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہو تے ہیں یا پھر اونچے مکان کی چھت پر پناہ گزیں ہوجاتے ہیں، یہ منظر بڑا درد ناک ہوتا ہے ، موسم باراں کا سارا کیف وسرور کافور ہوجاتا ہے اور آدمی اپنی ضروریات کے لیے دوسروں کی طرف تکتا اور دیکھتا رہتاہے ۔
 بد قسمتی سے بہار اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ امسال سیلاب کی قہر سامانی کا سامنا آسام پہلے سے کر رہا ہے ، بہار میں نیپال کے ذریعہ چھوڑا ہوا پانی بے قابو ہو جاتا ہے اور کئی اضلاع کو متاثر کرجاتا ہے، نیپال کی پریشانی یہ ہے کہ اس کے یہاں پہاڑ ی ندیاں ہیں، جن میں گہرائی نہیں ہوتی، وہ اُتھلی ہوتی ہیں، ان کے اندر پانی کی لہروں اور روانی کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی ، ڈیم کے ذریعہ روک کر پانی کام میں لایا جاتا ہے اور بہت بڑھ جائے تو گیٹ کھول کر سرحدی اضلاع میں چھوڑ دیا جاتا ہے ۔
 بہار کی حکومت یقین دہانی کراتی ہے کہ امسال سیلاب پر قابو پانے کی کارگر ترکیبیں کی گئی ہیں، لیکن جب بارش ہونے لگتی ہے تو کار گر ترکیبیں حکومتی سطح کی دوسری ترکیبیوں کی طرح ناکام ہوجاتی ہیں، اور عوام کو مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بچاؤ کی تدابیر اور ضروری سامانوں کی سپلائی کا بڑا حصہ ان سوراخوں کے ذریعہ جواب اس ملک کا مقدر بن گیے ہیں، ضرورت مندوں کے بجائے دوسروں تک پہونچ جاتے ہیں، اور ضرورت مند منہہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔
 امسال ابھی بارش شروع ہی ہوئی ہے کہ سیمانچل کے کئی اضلاع میں سیلاب کا پانی بھر گیا ہے، اورلوگ پریشان ہو رہے ہیں، یہ پریشانی اور بڑھے گی ، متھلانچل کے علاقہ میں بھی سیلاب کی تباہ کاری کے امکانات ہیں، اس موقع سے امداد وتعاون کے لیے قریب کی ان آبادیوں کو جن کو اللہ رب العزت نے اس پریشانی سے محفوظ رکھا ہے دست تعاون دراز کرنا چاہیے تاکہ فوری طور پر امداد رسانی کا کام ممکن ہو سکے ، ایسے موقع سے بعض تنظیمیں بھی آگے آتی ہیں، خصوصا امارت شرعیہ جس کا امتیاز ایسے موقع پر بڑے پیمانے پر راحت رسانی کا رہا ہے اور اس کے امداد بہم پہونچانے کی ایک روشن تاریخ رہی ہے ، یہ سب اہل خیر کی توجہ سے ہی انجام پاتا ہے ، اس موقع سے امارت شرعیہ کے ضلع اور بلاک کے صدر سکریٹری ، نقیب اور ارکان کے ساتھ عام مسلمانوں کو بھی تعاون کرنا چاہیے، کیوں کہ زمانے کی گردش سڑک پر چلنے کی طرح سیدھی سیدھی نہیں ہوتی، اس کی گردش دائرے کی شکل میں ہوتی ہے، جو لوگ ابھی بچے ہوئے ہیں اور گردش میں وہ دائرے کے اوپر والے حصے میں ہیں، اگر انہوں نے نیچے جانے والے پریشان حال لوگوں کا ہاتھ پکڑے نہیں رکھا تو اگلی گردش میں وہ نیچے ہوں گے اور چونکہ انہوں نے خود اوپر ہونے کے وقت نیچے والے کا ہاتھ نہیں پکڑے رکھا تھا، اس لیے اب جو مصیبت ان پر آئے گی، اس میں ان کا پرسان حال کوئی نہیں ہوگا، اس لیے ایسے موقعوں پر دست تعاون دراز کرنے کا مزاج بنائیے۔تعاون کا اصل اجر تو اللہ ہی کے پاس ہے ۔

اسلامو فوبیا ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ، پھلواری شریف پٹنہ

اسلامو فوبیا ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ، پھلواری شریف پٹنہ
(اردو دنیانیوز۷۲)
چودہویں صدی ہجری میں عالم اسلام نے مغربی دنیا سے شدیدعلمی وفکری مزاحمت کے بعد جو بر تری ثابت کی اور جس کے نتیجے میں بہت سے علاقوں میں اسلام نے پھر سے اپنے قدم جمائے ،وہاں اسلامی تہذیب وثقافت ، اسلامی اقدار اور زندگی کے ہر شعبہ میں اسلام کی واضح اور عمد ہ تعلیمات نے لوگوں کو متاثر کرناشروع کیا ، عیسائیت کی سمٹتی طنابیں اور یہودیت کی مادیت سے قربت اور مذہب سے دوری کی وجہ سے اسلام لوگوں کے دلوں میں گھر کرنے لگا ، جس سے مغربی استعمار کو خطرہ لاحق ہوا ،اور ایسا انہیں محسوس ہونے لگا کہ اسلام دنیا کی بڑی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے ۔ اس احساس نے انکے اندر اسلام سے خوف پیدا کردیا اور وہ اسے ہوّا بنا کر فوبیا کے شکار ہو گئے، فوبیا نارمل حالت کو نہیں کہتے، یہ Abnormel fearہوتا ہے ، یہ لفظ انگریزی سے منتقل ہو کرا ن دنوں عربی میں بھی اسی معنی میں استعمال ہو رہا ہے۔ چنانچہ عربی میں اس کے معنی’’ ھلع مرض من شی معین ‘‘ مریضانہ انداز میں کسی معین چیز کا ہوّا کھڑا کر دیناکے ہیں ، یہ ہوّا  اُدبائ، شعرائ، مفکرین، میڈیا، دانشور ، سیاست داں وحکمراں سبھی طبقہ کی طرف سے کھڑا کیا گیا  اور ایسا ماحول بنا یا گیا کہ سبھی تہذیب وثقافت اور سبھی آئیڈیا لوجی کے لوگ اسلام سے خطرہ محسوس کرنے لگے ، اس خطرہ کے پیش نظر انہوں نے ایسی پالیسیاں بنائیں اور ایسے اقدام کئے، جس نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف انکے دلوں میں نفرت کی آگ بھر دی ،مستشرقین یورپ نے غلط پروپگنڈہ کرکے نفرت کی اس آگ کوخوب خوب ہوا دیا ، اور شکوک وشبہات اور غلط فہمیوں کے پھیلا نے کا کام منصوبہ بند انداز میں کیاگیا ،جس کی وجہ سے غیر مسلم دنیا یقین کرنے لگی کہ اسلام، تشدد ، زبردستی ، بے لوچ کٹر پن، تعصب اور تنگ نظری کا مذہب ہے ۔انہوں نے اپنے منصوبہ کی بنیاد جن اصول ودفعات پر رکھی ،ا س میں ایک اصول یہ طے کیا کہ اسلامی معاشرہ سے ایسے طریقے سے نفرت دلائی جائے ، جس سے ہماری دشمنی طشت ازبام نہ ہو اور ہم دینی وروحانی اقدار میں عیوب ونقائص نکال کر اسے تہہ وبالا کرنے میں کامیاب ہو جائیں ( (کلمۃ الحق ماہ محرم ۱۳۸۷ھ؁ مطابق اپریل ۱۹۶۴ئ؁)۔
اس مہم میں بڑا حصہ یہودیوں کا رہا ، یہودیوں کی انٹر نیشنل کانفرنس منعقدہ ۱۹۰۰ئ؁ نے قرارداد پاس کیا کہ ’’ ہم صرف اس پر اکتفا نہیں کریں گے کہ دین داروں پر فتح حاصل کریں ، انکی عبادت گاہوں پر غلبہ حاصل کرلیں؛ بلکہ ہمارا بنیادی اور اصل مقصد ان لوگوں کے وجود کو ختم کرنا ہے۔ ماسونی مجلۂ کاسیا کے ذریعہ۱۹۰۳ء ؁ میں اس بات کا اعلان کیا گیا کہ ہمیں دین کو حکومت سے جدا کرنا ہے، اور ایسی جد وجہد کرنی ہے کہ ماسونیت دین کی جگہ لے لے اور اس کی محفلیں عبادت گاہوں کی جگہ لے لیں ، ماسونی مشرق اعظم نے ۱۹۱۳ئ؁ میں انسانوں کو مقصود بنانے اور خدا کو چھوڑ نے کی تجاویز پاس کیں اور بلغراد کی ماسونی کانفرنس۱۹۲۲ئ؁نے اس بات کا اعلان کیا کہ ہمیں ہر گز نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم ماسونی، دین کے دشمن ہیں اورہمیں دین کے آثار اور علامات کے خاتمہ کی کوشش میں کوتاہی نہیں کرنی چاہے ۔عیسائی دنیا نے بھی اس جد وجہد میں حصہ لیا اور ساری توجہ مسلمانوں سے اسلامی فکر کے خاتمہ اور خدا سے ان کے تعلق کو منقطع کرنے پر صرف کر دیا ، ان کی جد وجہد کا مرکزی محور مسلمانوں کی وحدت کو ختم کرنا اورپارہ پارہ کرنا رہا ؛تا کہ مسلمان کمزور ذلیل اور بے سہارا ہو جائیں ۔ ان کے یہ منصوبے وقتاً فوقتاً کامیاب بھی ہوتے رہے ، خلافت اسلامیہ کا خاتمہ ، ترکی کے دستور سے اسلامی اساس کو نکال باہر کرنا ، عراق وافغانستان میں مسلمانوں کی قوت وطاقت کا زوال اورعراق کے مسلمانوں کوٹکڑے ٹکرے کرنا، اسی منصوبے کے نتائج ہیں، جس سے اسلام اور مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ جولوگ کچھ اور نہیں کر سکے وہ تنگ نظری کے سبب ، سبّ وشتم پر اتر آئے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی، چاہے وہ مضامین ومقالات کی شکل میں ہو ،یا کارٹونوں کی شکل میں، اس کی تہہ میں یہی جذبہ کار فر مارہاہے ،اس کی بھی کوشش کی گئی کہ مسلمانوں کو ان کے مذہبی فرائض سے روکا جائے اور ثقافتی تقریبات منعقد نہ ہو سکیں ، بعض نام کے مسلم لوگوں سے ایسے کام کروائے گئے، جس سے اسلام کے طور طریقوں اور عبادات کا مذاق اڑایا جاسکے ، میڈیا نے بڑے پیمانے پر اس کی تشہیر کی ، جیسے سب کچھ بدل رہا ہے ۔ اس طرح اسلام فوبیا کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہو تا چلا گیا ، بنیادی حقوق کی ساری دفعات کتابوں میں بند ہو کر رہ گئیں ۔ اور ان کے خلاف اظہار رائے کی آزادی کا ہتھیار استعمال کیا گیا ،اور ان لوگوں نے کیا ، جنہوں نے دوسروں سے آزادی کے حقوق چھینے اور سلب کئے، اس صورت حال سے مسلمانوں کو ذہنی اور کبھی کبھی جسمانی اذیتیں بھی اٹھا نی پڑیں ، اس کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ مسلمانوں ہی میں سے کچھ لوگ مغرب کے سامنے سپر انداز ہوگئے اور انہوں نے مغربی تہذیب وثقافت کو اپنا نے میں خیر وشر کی تمیز کے بغیر تیزی دکھا ئی اور اسلامی تہذیب وثقافت کو عقیدہ ،عبادات اور پرسنل لا تک محدود کرکے رکھ دیا ، تدریجا ان شعبوں میں بھی انہوں نے اسلام سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور پورے طور پر مغرب کے ہم نوا ہو گئے ، اس طرح اسلام فوبیا کا دائرہ مسلمانوں تک پہونچ گیا۔ اور وہ بھی مغرب کے غلط پروپیگنڈے کے شکار ہو گئے ، یہ دائرہ دھیرے دھیرے بڑھتا جا رہا ہے۔ 
 لیکن اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ دوسرے مذاہب کے لوگوں نے اسلام کو جاننا اور پڑھنا شروع کیا ، ان میں اس مذہب کے تئیں ایک قسم کا تجسس پیدا ہو گیا ، اور اسلام کی صداقت نے ان کے دلوں میں گھر کر لیا ، یہی وجہ ہے کہ آج بڑی تیزی سے دوسرے مذاہب کے لوگ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں ۔
واقعہ یہ ہے کہ اسلام فوبیا کے ازالہ کی شکل صرف یہ ہے کہ ہم اسلام کی واضح اور صحیح تعلیمات کو لوگوں میں پھیلا ئیں، مغرب میں جن کتابوں کو اسلام کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ وہ بیش تر مستشرقین کی لکھی ہوئی ہیں اور وہ قاری کو گمراہ کرتی ہیں، ضرورت ہے کہ مغرب اور یورپ کی مروجہ زبانوں میں وہاں کے معیارومزاج کو سامنے رکھ کر اسلام کی بنیادی تعلیمات ، نبی رحمت کی رحمت ومحبت سے پُر احکام وہدایات کے مختلف پہلوؤں پر کتابیں لکھی جائیں اوران سے مغرب کو روشناس کرایا جائے ۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ کام نہیں کیا جا رہا ہے، مقصد صرف یہ ہے کہ جس بڑے پیمانے پر ہونا چاہسے، نہیں ہو رہا ہے۔ اس کے لئے احمد دیدات جیسے مین ٹومشن(MAN TO MITION) کی ضرورت ہے ، اس کے بغیر اسلام فوبیا کا ازالہ ممکن نہیں معلوم ہوتا ۔ 
دعوت دین کاکام حکمت کے ساتھ ہم نے کم کیا ہے ؛ حالانکہ دعوت دین کے کاموں میں اس کو اولیت حاصل ہے ۔جس کاپتہ حکم خدا وندی  ُادْعُ اِلیٰ سَبِیْلِ رَبِّک بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنْ سے چلتاہے اور جس میں ’’دعوت بالحکمۃ‘‘ کو مقدم رکھا گیا ہے۔
یہاں مجھے ا س حقیقت کا بھی اعتراف کرنا چاہئے کہ خود ہمارے بہت سارے اعمال ’’اسلام فوبیا ‘‘کا سبب بن جاتے ہیں، تلواروں سے ٹپکتے خون کے اشتہارات ، بابری مسجد کی تصویر کے ساتھ ، الہی بھیج دے محمود کوئی کااشتہار ، اور انتہا ئی پُر امن کارواں میں تلوار کو تحفے میں پیش کرنے،جیسا عمل دیکھنے میں جتنا بھلا معلوم ہو، دوسرے مذاہب والے اسے دہشت اور تشدد کا اشاریہ سمجھتے ہیں، اور خود مسلم سماج کو ایسے اشتہارات سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ، اس قسم کی حرکتوں سے دوسرے مذاہب والے اسلامو فوبیا کے شکار ہوجاتے ہیں۔ہماری بے عملی اور بد عملی سے بھی اسلام فوبیا کا پیغام دوسروں تک پہونچا ہے، اس لئے ہمیں اپنے اعمال کا بھی محاسبہ کر نا چاہئے ،کہ کہیں ہم دانستہ یا نا دانستہ ، اسلام کونقصان تو نہیں پہونچا رہے ہیں ۔ 
اسلام فوبیا کے ازالہ کے لئے کرنے کا ایک کام یہ بھی ہے، اسلام کے محاسن کے اظہار کے ساتھ ساتھ اسلام دشمنوں کی جانب سے مخالفانہ فکری یلغارکا علمی جواب دیاجائے، اس سے اسلامی تہذیب وثقافت پر مسلمانوں کا اعتماد بحال ہوگا ، اور اسلام مخالف اعتراضات کا دفاع کیا جا سکے گا۔اگرہم ان امور پر توجہ دے سکے اور لوگوں کو صحیح اسلامی تعلیمات سے روشناش کرا سکے ، تو اگلی صدی انشاء اللہ اسلام کی صدی ہوگی_

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...