Powered By Blogger

منگل, جولائی 26, 2022

مولانا خورشید عالم ؒ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ

مولانا خورشید عالم ؒ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
(اردو دنیا نیوز ۷۲)
مولانا خورشید عالم بن حافظ عبد السبحان (م۱۹۸۵) بن محمد اسحاق بن شجاعت علی ساکن بوکھرا ضلع سیتامڑھی نے یکم شعبان ۱۴۴۳ھ مطابق ۴؍ مارچ ۲۰۲۲ء منگل دن گذار کر پونے نو بجے شب میں اس دنیا کو الوداع کہا، وہ مختلف امراض کے شکار تھے، طبیعت میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا تھا، طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو انہیں پرساد ہوسپیٹل مظفر پور لایا گیا، لیکن وقت موعود آگیاتھا، اس لیے جاں برنہ ہو سکے، جنازہ آبائی گاؤں بوکھرا لے جایا گیا، جہاں ۵؍ مارچ کو بعد نماز عصر جنازہ کی نماز ان کے چھوٹے صاحب زادہ مولانا محمد انوار عالم فیاضی ندوی نے پڑھائی، کم وبیش چھ سو سوگواروں اور متعلقین کی موجودگی میں مولانا کا آخری سفر مقامی قبرستان تک ہوا، اور وہیں سپرد خاک کیے گیے، پس ماندگان میں تین لڑکی ،دو لڑکے ناتی، نتنی اور پوتے پوتیوں سے بھرا پُرا خاندان کو چھوڑا، ایک لڑکی میرے چھوٹے بھائی ماسٹر محمد فداء الہدیٰ کے نکاح میں ہے، اہلیہ پہلے ہی فوت ہو چکی تھیں، ان کی جدائی کے صدمہ نے ان کے جسم کے دفاعی نظام کو نقصان پہونچا یا تھا، یہ حادثہ ان کے لیے سوہان روح تھا، جس کی وجہ سے بھی وہ کمزور ہوتے چلے گیے تھے۔
 مولانا کی پیدائش ان کے آبائی گاؤں بوکھرا موجودہ ضلع سیتامڑھی میں اسناد کے مطابق یکم فروری ۱۹۴۵ء کو ہوئی، مولانا کی نانی ہال چکنا ٹولہ پنڈول ضلع سیتامڑھی تھی، نانا کا نام محمد دانیال تھا۔ ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد ان کا داخلہ مدرسہ نور الہدیٰ پوکھریرا موجودہ ضلع سیتامڑھی میں کرایا گیا، یہاں کے استاذ مولانا مطیع الرحمن صاحب کی سر پرستی میں انہوں نے تعلیم حاصل کرنی شروع کی، مولانا موصوف آپ کے استاذ بھی تھے اور اتالیق بھی، بعد میں سسرالی رشتہ دار بھی ہو گیے کیوں کہ وہ مولانا کی اہلیہ کے پھوپھا تھے، مدرسہ نو رالہدیٰ کے بعد تعلیمی سفر کا ایک پڑاؤ مدرسہ امدادیہ دربھنگہ ہوا اور اگلا پڑاؤ مدرسہ عالیہ کولکاتہ ، کولکاتہ جانے کے قبل ہی مولانا کی شادی پوکھریرا ہی میں حافظ حمید الرحمن کی دختر نیک اختر سے ہو گئی، حافظ حمید الرحمن کولکاتہ کیلا بگان کی ایک مسجد میں امام تھے، ان کے ساتھ مولانا بھی کیلا بگان کی ایک دوسری مسجد میں امامت سے لگ گیے اور چند سال یہاں امامت کرتے رہے، علم کی تشنگی باقی تھی ، اس لیے مولانا نے اس وقت کے مدرسہ عالیہ میں (جو اب عالیہ یونیورسٹی کے نام سے جانا جاتا ہے) داخلہ لے لیا اور وہیں سے ممتاز المحدثین کی سند حاصل کی، کولکاتہ سے وہ گھر آئے تو پھر واپس نہیں گیے، موضع شاہ میاں رہوا، وایا بھگوان پور ضلع ویشالی میں امامت اور مکتب میں معلم کی جگہ خالی تھی، ۱۹۶۵ء میںیہاں امامت اور مکتب میں خدمت انجام دینے لگے، قسمت نے یاوری کی، قریب کی بستی سرسارام راج میں سری مہاراج سنگھ کے نام سے ایک ہائی اسکول کا قیام عمل میں آیا وہاں اردو پڑھانے کے لیے ایک استاذ کی ضرورت تھی، آپ نے عرضی گذاری اور آپ کی بحالی ۱۹۶۴ء کو ایک سو پندرہ روپے ماہانہ پرعمل میں آگئی، ملازمت ہائی اسکول میں ہونے کے باوجود ان کا قیام شاہ میاں رہوا میں ہی رہا، مختلف اوقات میں حاجی نیاز احمد، ذکی حسن مرحوم اور جناب محمد اصغر صاحب کے یہاں ان کا قیام رہا، ملازمت کے بیشتر روز شب یہیں گذرے ، پھر جب سرکار نے تبادلہ کی پالیسی بنائی تو آپ کا تبادلہ۱۰؍ جنوری ۱۹۹۶ء کو مظفر پور کے نواح میں واقع نیشنل ہائی اسکول کھرونا میں ہو گیا، اور یہیں سے ۳۱؍ جنوری۲۰۰۵ء میں مدت ملازمت پوری کرکے سبکدوش ہو ئے، سبکدوشی کے بعد اپنے گاؤں بوکھرا لوٹ گیے اور وہاں کی ملی سر گرمیوں اور گھریلو ضروریات پر اوقات صرف کرتے رہے ۔
 مولانا بڑے سنجیدہ، بردبار ، مخلص ، خوش اخلاق اور صائب الرائے انسان تھے، میری نانی ہال بھی شاہ میاں رہوا ہے، اس لیے والد صاحب ماسٹر محمد نور الہدیٰ (م ۲۰۱۷) سے ان کی بہت بنتی تھی، والد صاحب جب رہوا رہنے لگے تو ان کی محفلیں خوب جمتی تھیں، میرے والد صاحب کم گو تھے، بولتے کم، سنتے زیادہ تھے، لیکن جب میرے ماما محمد عمر آزاد (م ۱۹۸۳) اور مولانا خورشید صاحب کے ساتھ بیٹھتے تو گفتگو میں رات کا بیش تر حصہ گذر جاتا اورکھانے پینے کا بھی ہوش نہیں رہتا، اس سے ان دونوں کی ذہنی ہم آہنگی کا پتہ چلتا ہے، اسی ذہنی ہم آہنگی اور قربت کی وجہ سے میرے ایک بھائی کا رشتہ بھی ان کی صاحب زادی سے ہوا اور ہم لوگ رشتہ کی ڈور میں بندھ گیے۔
 مولانا ہم لوگوں پر انتہائی شفیق تھے، خرد نوازی کا کا مزاج تھا، اس لیے ہم لوگوں کے چھوٹے چھوٹے کاموں کو بھی سراہتے اور حوصلہ افزائی کرتے،مولانا کے ایک بھائی مولانا خلیق الزماں صاحب دا رالعلوم دیو بند میں ہمارے ہم عصروں میں تھے، اب بھی بقید حیات ہیں، لیکن بیمار چل رہے ہیں، اللہ انہیں لمبی عمر دے، وہ قاضی بہیرہ جالے کے مدرسہ میں صدر مدرس ہیں اور ان کی تعلیمی خدمت کا دائرہ بھی وسیع ہے۔
 مولانا خورشید عالم صاحب مرحوم جہاں بھی رہے اپنے اخلاق اور کردار سے لوگوں میں محبوب رہے، انہوں نے اردو کی ترویج واشاعت کے لیے بھی کام کیا، اپنے پیچھے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد چھوڑی، ایک دو سرا وصف ان کا یہ تھا کہ وہ اپنی شرطوں پر جیتے تھے، قیام کسی کے یہاں رہے وہ جی حضوری کے عادی نہیں تھے،صاف بولتے تھے اور کھری کھری سناتے تھے، حاضر جواب تھے اس لیے دوسروں کو لاجواب کرنے کا فن انہیں خوب آتا تھا، وہ اپنے مخالفین سے نمٹنا بھی جانتے تھے اور ان کو چاروں شانے چت کردیا کرتے تھے، اس کے لیے انہوں نے کبھی لاٹھی ڈنڈا نہیں اٹھایا ، حکمت عملی اور تدبیر ان کے کامیاب ہتھیار تھے اور وہ ان سے کام لینا خوب جانتے تھے، جب تک ان کی چلتی رہی اپنے عزیز واقرباء پر دادودہش کا سلسلہ جاری رکھا، اہلیہ کے انتقال سے ذہنی طور پر اس قدر متاثر ہوئے کہ اس کا خیال ہی جاتا رہا، لیکن ان کی محبوبیت ومقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی۔
اب مولانا ہمارے درمیان نہیں ہیں وہ اس مالک کے پاس چلے گیے جو ارحم الراحمین ہے، غفار الذنوب اور ستار العیوب ہے، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ان کے اعمال صالحہ کو قبول فرمائے، سیئات سے در گذر کرے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین

آدھار کارڈ کو ووٹر کارڈ سے جوڑنے کے فیصلے کے خلاف دائر عرضی پر سماعت سے سپریم کورٹ کا انکار

آدھار کارڈ کو ووٹر کارڈ سے جوڑنے کے فیصلے کے خلاف دائر عرضی پر سماعت سے سپریم کورٹ کا انکار
(اردو دنیا نیوز۷۲)
نئی دہلی _ 26 جولائی ( اردولیکس ) سپریم کورٹ نے پیر کو کانگریس کے جنرل سکریٹری اور ترجمان رندیپ سنگھسرجے والا کی طرف سے شہریوں کے آدھار نمبر کے ساتھ ووٹر شناختی کارڈ کو جوڑنے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی عرضی پر سماعت کرنے سے انکار کر دیا۔
جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس اے ایس بوپنا کی بینچ نے کہا کہ ہائی کورٹ میں اس عرضی پر سماعت کا ایک مؤثر متبادل ہے اس کے باوجو د سپریم کورٹ میں عرضی داخل ہونے کی وجہ سے اس کی ساعت کرنے سے انکار کر دیا۔بنچ نے درخواست گزار کو ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی اجازت دے دی ہے۔

پیر, جولائی 25, 2022

سپریم کورٹ کے تبصرے__

سپریم کورٹ کے تبصرے__
 (اردو دنیا نیوز ۷۲)
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
نوپور شرما نے ایک ٹی وی مباحثہ میں ۲۷؍ مئی ۲۰۲۲ء کو ناموس رسالت پر حملہ کیا تھا، اس کے نازیباکلمات کی وجہ سے پورے ملک میں نفرت کی عام فضا میں اضافہ ہوا تھا، کان پور اور رانچی میں مظاہروں کے درمیان درجنوں لوگ گھائل ہوئے تھے اور کئی کی موت ہو گئی تھی، نوپور شرما کے خلاف بنگال میں دس، بستی میں دو، دہلی ، حیدر آباد اور شری نگرمیں ایک ایک اف آئی درج ہوئے، لیکن پولیس اسے گرفتار نہیں کر سکی، بار بار سمن بھیجنے کے بعد وہ حاضر نہیں ہوئی، تو بنگال پولیس نے اس پر لک آؤٹ سمن جاری کیاہے، ان حالات سے نمٹنے کے لیے نو پور شرما نے سپریم کورٹ میں درخواست دی تھی کہ سارے مقدمہ کو دہلی منتقل کیا جائے اور اس کی سُنوائی سپریم کورٹ کرے،لیکن سپریم کورٹ نے اسے خارج کر دیا، اور کہا کہ اس عرضی سے غرور جھلکتا ہے، نوپور شرما کونچلی عدالت چھوٹی معلوم ہوتی ہے، اس معاملہ کو وہ چاہیں تو ہائی کورٹ لے جا سکتی ہیں۔ابھی حال میں عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کے بعد نوپور شرما کی گرفتاری پر روک لگا دی ہے البتہ اپنے تبصروں سے دباءو کے باوجود رجوع نہیں کیا ہے
پہلے فیصلہ کے وقت جو تبصرے اور رولنگ سپریم کورٹ نے دیے، ان کی قانونی حیثیت نہ ہونے کے با وجود بڑی اہمیت ہے، اس لیے کہ اس کی وجہ سے عدالت کا رخ پورے ملک کے سامنے آیا، سپریم کورٹ کے فاضل جج نے کہا کہ خطرہ نو پور شرما کو نہیں، بلکہ وہ پورے ملک کے لیے خطرہ بن گئی ہیں، عدالت نے ادے پور میں درزی کے قتل ہونے کا ذمہ دار بھی اسی کو ٹھہرایا اور کہا کہ ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی ذمہ دار بھی وہی ہیں، عدالت نے دہلی پولیس سے یہ بھی پوچھا کہ آخر اس کو گرفتار کیوں نہیں کیا جا رہا ہے صرف اس لیے کہ وہ ایک پارٹی کی ترجمان ہیں، ترجمان کا مطلب یہ تو نہیں ہوتا کہ اس کو اول فول بکنے کا لا ئسنس مل جاتاہے، ان کی طرف سے کوئی مقدمہ درج ہو تو مدعا علیہ کو گرفتار کر لیا جائے اور ان کے خلاف دس مقدمات ہیں تو ان کی گرفتاری نہ ہو، نوپور شرما کے وکیل نے جب ارنب گوسوامی مقدمہ کا حوالہ دے کر سارے مقدمات سپریم کورٹ منتقل کرنے کی بات کہی تو عدالت نے کہا کہ اس واقعہ کا تعلق صحافت سے تھا، یہ تو سیاسی پارٹی کی ترجمان ہیں اور نتیجوں کو جانے بغیر اپنے بیان سے نفرت پھیلا رہی ہیں،ا س لیے ان کے معاملہ میں ایسا نہیں کیا جا سکتا۔
 عدالت کے اس تبصرہ سے نوپور شرما اور اس کے ذریعہ پھیلائی گئی نفرت کے خلاف ایک ماحول پورے ملک میں بنا ہے اور اس کا فائدہ سماج کو یقینا پہونچے گا، لیکن یہ سوال پھر بھی اپنی جگہ باقی ہے کہ مجرم کو سزا دینے کا کوئی اعلان اس فیصلہ میں نہیں ہے، اور پورے ملک سے سے ٹی وی پر آکر معافی مانگنے کی جو بات کہی گئی ہے وہ اس کے جرم کی سزا نہیں ہے، ہو سکتا ہے، ہائی کورٹ اس کو یہی سزا سنا دے کہ پورے ملک کی عوام سے ٹی وی پر آکر معافی مانگو، اور بلا شرط مانگو،لیکن اس سزا سے اس قسم کے واقعات پر روک نہیں لگ سکے گی، جہاں تک ادے پور کانڈ کی بات ہے تو اب یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ وہ دونوں بی جے پی کے کیڈر تھے، اگر ایسا ہے تو راجستھان میں آگ لگانے کی جو سازش کی گئی تھی ، اس کی حقیقت پر سے پردہ اٹھتے ہی اس معاملہ میںبی جے پی کے کردار سے بھی پردہ اٹھے گا، حالاں کہ اس قسم کے معاملات میں بی جے پی توپہلے ہی سے بے نقاب ہے۔ اس تبصرہ کے بعد فرقہ پرست طاقتوں نے ججوں کی ذاتیات پر حملے شروع کر دیے ہیں، بلکہ ایک صاحب نے تو ان تبصروں کو واپس لینے کے لیے عرضی بھی سپریم کورٹ میں داخل کر دی ہے، اس صورت حال سے عدالت عالیہ کے معزز ججوں کو سخت ذہنی کرب کا سامنا ہے، یہ درد وکرب گذشتہ دنوں سی این فاؤنڈیشن کے ذریعہ منعقد ایک پروگرام میں چھلک آیا جب جسٹس پار دیولا نے شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت پر تنقید قابل قبول ہے، مگر ججوں پر ذاتی حملے بالکل بر داشت نہیں، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا پر کنٹرول رکھنے کے لیے کوئی طریقہ کار طے کرنا چاہیے، ایسے حساس معاملوں میں پارلیامنٹ کو بھی اقدام کرنے چاہیے، انہوں نے کہا کہ اس قسم کے ذاتی حملے سے انصاف کا عمل متاثر ہوتا ہے، کیوں کہ عدالت کی توجہ صرف اس بات پر ہوتی ہے کہ قانون کیا کہہ رہا ہے، لیکن جب میڈیا ٹرائل شروع کرتا ہے تو لوگ یہ سوچنے لگتے ہیں کہ میڈیا کیا کہتا ہے؟ حالاں کہ اس کے پاس آدھا سچ ہوتا ہے، اس طرح دیکھا جائے تو یہ عدالت کے کاموں میں غیر ضروری مداخلت ہے، جس سے خطرناک منظر نامہ سامنے آتا ہے اور عدالت کے فیصلے اس کے ریمارکس پر عوام تذبذب کے شکار ہو جاتے ہیں۔

اتوار, جولائی 24, 2022

بھارت میں فیس بک کے لیے چیلنج : عریانیت ، خواتین کو لاحق خوف

بھارت میں فیس بک کے لیے چیلنج : عریانیت ، خواتین کو لاحق خوف
(اردو دنیا نیوز۷۲)
فیس بک کے لیے دنیا کی سب سے بڑی منڈی بھارت میں اس پلیٹ فارم کی ترقی سست رفتار ہوتی جا رہی ہے۔ اس کمپنی کی اپنی ریسرچ کے مطابق فیس بک پر پھیلتی عریانیت اور خواتین کو اپنی سلامتی کے حوالے سے لاحق خوف اس کی اہم وجوہات ہیں۔دو فروری کو جب پہلی مرتبہ فیس بک کے پلیٹ فارم پر صارفین کی تعداد بہت کم نظر آئی، تو اس کے مالیاتی شعبے کے سربراہ نے کہا کہ بھارت میں چونکہ موبائل ڈیٹا بہت مہنگا ہوگیا ہے، اس لیے دنیا کی اس بہت بڑی مارکیٹ میں اس کمپنی کی ترقی کی رفتار سست پڑ رہی ہے۔ لیکن اسی روز اس امریکی ٹیکنالوجی گروپ نے بھارت میں فیس بک کے بزنس کے حوالے سے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ بھی اپنے اسٹاف کے سامنے پیش کی۔ سن دو ہزار انیس سے دو ہزار اکیس کے درمیان دو برسوں تک کی گئی اس تحقیق میں فیس بک کو درپیش چیلنجز اور مسائل کی نشاندہی کی گئی تھی۔ اس تحقیق کے مطابق بہت سی خواتین نے فیس بک کو مسترد کر دیا ہے کیونکہ اس پر مردوں کا غلبہ ہے اور وہ اپنی سلامتی اور پرائیویسی کے حوالے سے فکر مند تھیں۔ اس پہلو پر پہلے کبھی توجہ نہیں دی گئی تھی۔ فیس بک کی تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ مواد کے تحفظ کا فکر اور اپنے اکاونٹ پر غیر مطلوبہ افراد کی بھیڑ خواتین کے فیس بک استعمال کرنے کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں جبکہ ''خواتین کو الگ کر کے بھارت میں کامیابی نہیں مل سکتی۔‘‘ اس تحقیقاتی رپورٹ میں جن دیگر رکاوٹوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں عریانیت سے پُر مواد،ایپ ڈیزائن کی پیچیدگی، مقامی زبان اور شرح خواندگی بھی شامل ہیں۔ یہ رپورٹ دسیوں ہزار افراد کے ساتھ بات چیت اور انٹرنیٹ سے حاصل کردہ اعداد و شمار کی بنیاد پر تیار کی گئی تھی۔ فیس بک کی ترقی میں مسلسل کمی فیس بک کی ترقی کی رفتار گزشتہ برس سست پڑنے لگی تھی۔ ایک ارب چالیس کروڑ کی آبادی والے ملک بھارت میں چھ ماہ کے دوران فیس بک صارفین کی تعداد میں صرف چند لاکھ کا اضافہ ہوا۔ دوسری طرف واٹس ایپ اور انسٹاگرام جیسی ایپس استعمال کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ رپورٹ کے مطابق، ''انٹرنیٹ اور دیگر ایپس کے مقابلے میں فیس بک کی ترقی کی رفتار سست ہے۔‘‘ اس رپورٹ کے حوالے سے جب فیس بک سے رابطہ کیا گیا، تو ایک ترجمان نے بتایا کہ کمپنی اپنی پروڈکٹس کو سمجھنے کے لیے مسلسل ریسرچ کرتی ہے تاکہ انہیں بہتر سے بہتر بنایا جا سکے۔ ترجمان نے کہا، ''سات ماہ پرانی تحقیق کو بھارت میں ہمارے بزنس کا پیمانہ قرار دینا گمراہ کن ہو گا۔‘‘ صنفی عدم مساوات بھی باعث تشویش فیس بک کی اپنی تحقیقات میں یہ بات واضح طور پر کہی گئی ہے کہ صنفی عدم مساوات فیس بک کے لیے بھارت میں ایک بڑا چیلنج ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے حل کرنے کی کوشش فیس بک پچھلے کئی سال سے کر رہا ہے لیکن اسے زیادہ کامیابی نہیں مل سکی۔ تحقیقات کے مطابق، ''یوں تو بھارت میں انٹرنیٹ پر بالعموم صنفی عدم مساوات ہے، لیکن فیس بک کے صارفین میں یہ عدم مساوات اور بھی زیادہ ہے۔‘‘ رپورٹ میں اس کی وجہ آن لائن سکیورٹی کے حوالے سے تشویش اور سماجی دباو بتائی گئی ہے۔ محققین نے دیکھا کہ فیس بک استعمال کرنے والی 79 فیصد خواتین نے اپنی تصویر یا دیگر مواد کے غلط استعمال کے متعلق تشویش ظاہر کی۔ اس کے علاوہ 20 تا30 فیصد نے بتایا کہ سروے کے سات دنوں کے اندر انہوں نے فیس بک پر عریانیت دیکھی تھی۔ فیس بک پر عریانیت کے معاملے میں بھارت دیگر ملکوں سے کافی اوپر ہے۔ امریکہ اور برازیل میں دس فیصد صارفین کے سامنے ایسی پوسٹس آئیں جن میں عریانیت تھی۔ ایک دوسرے سروے کے مطابق انڈونیشیا میں ایسے لوگوں کی تعداد 20 فیصد تھی۔ خاندان کا دباؤ اور منفی سوچ اس تحقیقاتی رپورٹ میں بھارت کے پس منظر میں دیگر دو باتوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ بالخصوص خواتین کے لیے فیس بک استعمال نہ کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے: ''خاندان اجازت نہیں دیتا۔‘‘ اس کے علاوہ، ''دیگر ملکوں کے مقابلے میں منفی سو چ کہیں زیادہ ہے۔‘‘ فیس بک کے ترجمان کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ پر صنفی عدم مساوات صرف ان کے پلیٹ فارم کا نہیں بلکہ پوری انڈسٹری کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سن 2016 کے بعد فیس بک نے سلامتی اور تحفظ کے لیے کام کرنے والی عالمی ٹیم کی تعداد چار گنا بڑھا کر 40 ہزار سے زائد کر دی ہے۔ اور رواں برس جنوری سے اپریل کے درمیان عریانیت اور جنسی سرگرمیوں سے متعلق97 فیصد مواد کو کوئی شکایت کیے جانے سے پہلے ہی ہٹا دیا گیا تھا۔ خواتین کے ہراساں کیے جانے اور انہیں دھمکیوں سے محفوظ رکھنے کی خاطر کافی اقدامات نہ کرنے کے سبب بھی فیس بک کو دنیا بھر میں تنقید کا شکار ہونا پڑا ہے۔ سن 2019 میں اس نے بتایا تھا کہ اس کی ایک ٹیم اس بات کو یقینی بنانے پر کام کر رہی ہے کہ خواتین کو کیسے محفوظ رکھا جائے اور ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے ایسے مواد کو ہٹا دیا جائے جو غیر محفوظ دکھائی دیتا ہو۔ فیس بک کے ترجمان کے مطابق بھارت میں خواتین صارفین کی مدد کے لیے 'ویمنز سیفٹی ہب‘ اور دیگر پرائیویسی فیچر بھی شروع کیے گئے ہیں۔ تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے، ''بھارت میں فیس بک استعمال کرنے والے صارفین دیگر کسی بھی ملک سے زیادہ ہیں اور کمپنی کی ٹیموں کو بھارت میں ترقی اور اپنی اسٹریٹیجک پوزیشن کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کیونکہ بھارت میں کمپنی کے لیے نتائج عالمی نتائج کو متاثر کر سکتے ہیں۔‘‘ ج ا / م م (روئٹرز)

ہفتہ, جولائی 23, 2022

سلیمان الراجحی انتقال کرگئےانکا شمار دنیا کے 20 سخی / فیاض ترین افراد میں شمار ہوتا ہے۔۔۔

سلیمان الراجحی انتقال کرگئے
انکا شمار دنیا کے 20 سخی / فیاض ترین افراد میں شمار ہوتا ہے۔۔۔
(اردو دنیانیوز۷۲)
سعودی عرب کے شہر "القصیم" میں واقع  کھجوروں کے ایک باغ  میں کم و بیش کھجور کے 2 لاکھ درخت ھیں اور یہ باغ راہِ اللہ میں وقف ھے..
اِس باغ میں 45 قِسم کی کھجوریں ھوتی ھیں ، یہاں کی سالانہ پیداوار 10 ھزار ٹن کھجور ھے..
یہ باغ روئے زمین میں پایا جانے والا سب سے بڑا وقف ھے..
اِس باغ کی آمدنی سے دُنیا کے مختلف ممالک میں مساجد کی تعمیر ، خیراتی کام اور حرمین شریفین میں افطاری کے 
دسترخوان لگائے جاتے ھیں..
یہ باغ سعودی عرب کے امیر ترین شخص "سلیمان الراجحي" نے اللہ کی راہ میں وقف کِیا ھے..
سلیمان الراجحي نے غُربت میں آنکھ کھولی ، وہ اسکول میں پڑھ رھے تھے کہ ایک دن اسکول اِنتظامیہ نے تفریحی ٹُوور تشکیل دِیا اور ھر طالب علم سے ایک ایک ریال جمع کروانے کو کہا ، یہ گھر میں جاتے ھیں مگر والدین کے پاس ایک ریال تک نہیں ھوتا ، یہ بہت روتا ھے ، ٹُوور کے لِئے جانے کی تاریخ قریب آتی ھے ، اِدھر اِن کے سہ ماھی اِمتحانات کا رزلٹ آتا ھے ، یہ کلاس میں پوزیشن لیتے ھیں اور ایک فلسطینی اُستاد بطورِ اِنعام اِنہیں 1 ریال دیتا ھے..
یہ دوڑتے ھوئے تفریحی پروگرام کے مسئول کے پاس جاتے ھیں اور 1 ریال جمع کراتے ھیں..
وقت کو جیسے پر لگ جاتے ھیں ، یہ اپنی تعلیم مکمل کر کے جدہ شہر میں ایک کمرے کو بنک کا نام دے کر کام شروع کرتے ھیں ، مختصر عرصے میں الراجحي کے نام سے بنکوں کا ایک جال پورے سعودی عرب میں پھیل جاتا ھے..
سلیمان الراجحي اپنے اِس فلسطینی اُستاد کی تلاش میں نِکلتے ھیں ، اُستاد سے ملاقات ھوتی ھے ، وہ ریٹائرڈ ھو چُکے ھیں ، معاشی حالات ایسے کہ گھر کا چولہا جلانا مُشکل ھوا پڑا ھے ، راجحی اپنے فلسطینی اُستاد کو گاڑی میں بِٹھاتے ھیں اور اُن سے کہتے ھیں کہ میرے اُوپر آپ کا قرض ھے..
اُستاد آگے سے کہتا ھے کہ مجھ مسکین کا کِس پر قرض ھو سکتا ھے ، راجحی اپنے اُستاد کو یاد کراتے ھیں کہ سالوں پہلے آپ نے مجھے 1 ریال اِنعام دِیا تھا ، اُستاد مُسکراتا ھے کہ آپ اب وہ ایک ریال مجھے واپس کرنا چاھتے ھیں؟..
راجحی ایک بنگلے کے سامنے گاڑی کھڑی کرتا ھے جِس کے سامنے ایک بیش قیمت گاڑی بھی کھڑی ھے ، راجحی اپنے اُستاد سے کہتا ھے یہ بنگلہ اور گاڑی اب سے آپ کے ھیں ، مزید آپ کے تمام اخراجات ھمارے ذِمہ ھوں گے..
فلسطینی اُستاد کی آنکھوں میں آنسو آتے ھیں اور کہتا ھے کہ یہ عالی شان بنگلہ یہ مہنگی گاڑی یہ تو بہت زیادہ ھے..
راجحی کہتا ھے اِس وقت آپ کی جو خوشی ھے اِس سے بڑھ کر میری خوشی کا عالم تھا جب آپ نے مجھے 1 ریال اِنعام دِیا تھا..
ایسے محسن شناس اِنسان کو اللہ ضائع نہیں کرتا..
سلیمان الراجحی نے 2010 میں اپنے بچوں ، بیگمات اور عزیز و اقارب کو بُلا کر اپنی دولت اُن سب میں تقسیم کر دی اور اپنے حِصے میں جو کچھ آیا وہ سب وقف کر دِیا..
اِس وقت سلیمان الراجحي کے وقف کی مالیت 60 ارب ریال سے زیادہ ھے..
یہ سعودی الوطنیہ کمپنی اور الراجحی بینک کے مالک ہیں، جنہوں نے کورونا وائرس کیلئے 170/ ملین ریال امداد کے طور پر دیا ہے، اور مکہ مکرمہ کے اندر دو ہوٹل وزارت صحت کے حوالے کردیا ہے۔
گنیز بک میں اب تک سب سے بڑے وقف کے طور پر یہ باغ ریکارڈ کے طور پر درج ہے۔۔
فوربس میگزین نے انہیں دنیا کے بیس عظیم فیاض لوگوں میں شمار کیا ہے۔ ان کی سوانح حیات پڑھنے کے لائق ہے۔ شاید سعودی عرب کا کوئی شہر ایسا نہیں ملے گا، جہاں الراجحی فیملی کی طرف سے مسجدیں نہ تعمیر کی گئی ہو، نیز دعوتی سینٹرز، مقراۃ قرانيۃ خیراتی جمعیت وغیرہ میں آپ کا بھر پور تعاون رہتا ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ اپنے ملازمین کو ماہ ختم ہونے سے پہلے ان کی اجرت دے دیتے ہیں جن ملازمین کی تعداد ۱۵۰,۰۰۰ ڈیڑہ لاکھ سے ذیادہ ہے۔

اس عظیم ہستی کا  انتقال ہوگیا ہے۔
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون

کانپور: بزرگ نے کی خودکشی،مل منیجر پر تشدد کا الزام

کانپور: بزرگ نے کی خودکشی،مل منیجر پر تشدد کا الزام


اردو دنیانیوز۷۲ کانپور

ریاست اترپردیش کے صنعتی شہرکانپور کے کملا کلب کے رہنے والے دل کے مریض ہردے نارائن سریواستو (72) کی خودکشی کے معاملے میں فاضل گنج پولیس نے جے کے کاٹن کے منیجر سنجے دوبے اور سیکورٹی افسر رویندر سنگھ کے خلاف خودکشی کے لیے اکسانے کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ مقدمہ درج ہوتے ہی ملزمین گھر سےفرار بتائے جا رہے ہیں۔

اوریا کے چپولی کے رہنے والے ہردی نارائن سری واستواپنی بیوی ارمیلا اور دو بیٹوں، بہوؤں اور پوتوں کے ساتھ کملا کلب میں واقع بنگلے نمبر 43 میں رہتے تھے۔ چھوٹے بیٹے امیت سوربھ نے بتایا کہ ان کے والد اب بھی مل میں تینوں شفٹوں کے انچارج تھے۔ تیس سال سے انتظامیہ نے تیس لاکھ روپے تنخواہ کے طور پر ادا نہیں کی۔

الٹا گھر خالی کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے۔ کبھی بجلی،پانی کےکنکشن کاٹ دیے جاتے اور کبھی سڑکیں کھودی جاتیں۔جس کی وجہ سے پورا خاندان بہت پریشان تھا۔ بدھ کی صبح گھر سے نکلنے کے بعد والد ہردی نارائن نے غریب چوکی ریلوے کراسنگ پر ٹرین سے کٹ کر خودکشی کرلی۔

پولیس کو ملے سوسائڈ نوٹ میں بزرگ نے مل مینیجر اور سیکورٹی افسر کی ہراسانی کے بارے میں لکھا تھا۔ اسٹیشن انچارج نے بتایا کہ مقتول کے بیٹے کی تحریر پر رپورٹ درج کرکے ملزمان کی تلاش کی جارہی ہے۔

امیت نے بتایا کہ منیجر اور سیکورٹی افسر کی طرف سے ہراساں کیے جانے سے اس کی ماں ڈپریشن کا شکار ہو گئی ہے۔ والد کی خودکشی کی خبر ملتے ہی انتظامیہ نے گھر کی بجلی اور پانی کے کنکشن جوڑ دیے، تاکہ ان پر کوئی نقصان نہ ہو۔

بزرگ نے لکھا تھا کہ بجلی اور پانی کا کنکشن منقطع ہے، جینا مشکل ہوگیا، اسی لیے میں مر رہا ہوں۔

بتا دیں کہ کانپور کے کملا کلب کے رہنے والے ایک بزرگ نے بدھ کو غریب چوکی کراسنگ پر ٹرین سے کٹ کر خودکشی کر لی۔ لاش کی شناخت جمعرات کو ہوئی تھی اور ایک خودکشی نوٹ بھی ملا تھا۔

اس میں بزرگ نے جے کے کاٹن مل کے منیجر اور سیکورٹی افسر پر تشدد کا الزام لگایا اور خودکشی کا الزام لگایا۔ فی الحال جی آر پی معاملے کی جانچ کر رہی ہے۔ جمعہ کو پوسٹ مارٹم کے بعد سیسماؤ پولیس پورے معاملے کی جانچ کرے گی۔

بدھ کی صبح گھر سے نکلتے وقت ہردے نارائن نے یہ لفافہ ایک جین صاحب کو دیا تھا جو ان کے ایک جاننے والے تھے۔ کہا کہ کچھ دیر بعد آئے گا تو لے جائے گا۔ جب وہ واپس نہ آئے تو جین صاحب نے لفافہ محفوظ کر رکھا تھا۔ جمعرات کو جب یہ معلوم ہوا کہ ہردے نارائن نے خودکشی کر لی ہے تو جین صاحب نے لفافہ کھولا جس میں وزیر اعلیٰ کے نام ایک خودکشی نوٹ تھا۔

اس میں لکھا تھا کہ مل کے منیجر سنجے دوبے اور سیکورٹی آفیسر رویندر سنگھ نے ہراساں کیا۔ اس لیے میں خودکشی کر رہا ہوں۔ بنگلے کی بجلی اور پانی کا کنکشن 3 دسمبر 2021 سے کاٹ دیا گیا تھا۔ چند روز قبل دوبارہ شروع ہوا تھا لیکن 14 جولائی سے دوبارہ رابطہ منقطع کر دیا گیا۔ جینا مشکل ہو رہا تھا۔ اس لیے میں خودکشی کرنے جا رہا ہوں۔ ان سب پر ایکشن لیا جائے۔

امارت شرعیہ کی تعلیمی مہم

امارت شرعیہ کی تعلیمی مہم __
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
(اردو دنیانیوز۷۲)
امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم نے پورے بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ او رمغربی بنگال میں تعلیمی بیداری اور ملت کے بچوں کو اس میدان میں آگے بڑھانے کا جو فیصلہ لیا تھا، وہ اب تیزی سے برگ وبار لانے لگا ہے، ساٹھ سے زائد خود کفیل مکاتب اب تک کھل چکے ہیں، ترانوے مکاتب پہلے سے کام کر رہے تھے، حضرت امیر شریعت نے آئندہ پانچ سالوں میں ہر صوبہ میں بڑی تعداد میں مکاتب کے قیام پر زور دیا ہے، وفاق المدارس اور اسکولوں کے نصاب تعلیم پر بھی کام ہو رہا ہے، نصابی کمیٹی کی ایک میٹنگ بھی ہو چکی ہے، امارت شرعیہ کے چار اسکول پہلے سے کام کر رہے تھے، حضرت نے چند مہینوں کے اندر ہی کٹیہار، پورنیہ ، کٹک اور گڈا میں نئے امارت پبلک اسکول کے قیام کی منظوری دی اور گڈا کے علاوہ سبھی جگہ کے افتتاحی پروگرام میں بہ نفس نفیس تشریف لے گئے اور اسلامی ماحول میں بنیادی دینی تعلیم کے ساتھ معیاری عصری تعلیم کے لیے اسے ماڈل اور معیاری بنانے پر زور دیا، پسکا نگری رانچی میں ایک امارت پبلک اسکول پہلے سے چل رہا تھا ، اربا میں امیر شریعت سابع حضرت مولانا محمد ولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ نے انٹر نیشنل اسکول کی بنیاد ڈالی تھی، وہاں بھی تعلیم کا کام شروع ہوا، رانچی کے ہند پیڑھی میں تعلیمی نظام شروع کرنے کا آپ نے حکم دیا اور اس کے معائنہ کے لیے خود تشریف لے گیے۔وہاں بھی جلد ہی تعلیمی سلسلہ شروع ہوجائے گا۔
 ایک بڑا کام جو حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم کے حکم سے پھلواری شریف میں کیا گیا وہ جونیر اسکولی بچوں کے لیے کوچنگ کا تھا، جسے کریش کورس کا نام دیا گیا تھا،تین ماہ کی محنت سے اس کوچنگ کے بچے صد فی صد میٹرک میں کامیاب قرار پائے اور ان میں سے بائیس بچوں نے رحمانی ۳۰ کے تحت داخلہ امتحان میں کامیابی حاصل کرکے ایک تاریخ بنائی، جوطلبہ وطالبات ان تین ماہ میں پنچانوے فی صد سے زائد حاضر رہے ان کی فیس کی رقم ۲؍ جولائی ۲۲ ء کو ایک تقریب میں لوٹا دی گئی، تاکہ دوسرے طلبہ وطالبات بھی اس سے حوصلہ پا کر صد فی صد حاضری کو یقینی بنا سکیں، اس پورے پروگرام کو کامیابی سے ہم کنار کرنے میں رحمانی ۳۰ کے ڈائرکٹر انجینئر فہد رحمانی کی مسلسل اور مر بوط خدمت کا بڑا عمل دخل رہا۔اس کامیابی کا سہرا در اصل انہیں کے سر ہے، انہوں نے اس ہدف کو پانے کے لیے اساتذہ اور منتظمین کو اس طرح جوڑ کر رکھا کہ انہوں نے جہد مسلسل اور عمل پیہم کرکے اس ہدف کو پالیا۔
 اس موقع سے منعقد تقریب میں اہل علم ، اسکول کے ذمہ داران اور سیاسی حضرات کی بھی شرکت ہوئی، محکمہ اقلیتی فلاح کے وزیر جناب زماں خان، ایم ال سی، غلام غوث ، ایم ایل اے اختر الاسلام شاہین، شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیر مین ارشاد علی آزاد ، بہار مدرسہ بورڈ کے سابق چیر مین مولانا اعجاز احمد ، ہولی ویزن پبلک اسکول سمن پورہ کے ڈائرکٹر محمد صابر، بے بی لینڈ کے ڈائرکٹر شمیم اقبال وغیرہ نے شرکت کی اور تعلیمی میدان میں امارت شرعیہ کی جد وجہد کو سراہا، اور ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔حضرت امیر شریعت اور نائب امیر شریعت نے جو قیمتی پیغامات دیے اس میں فرمایا کہ تعلیم کے بغیر صحت مند اور ترقی یافتہ معاشرہ کی تشکیل نہیں ہو سکتی ، حضرت امیر شریعت کا یہ فرمانا بہت با معنی ہے کہ کامیابی ایک عادت ہے جسے لگانی پڑتی ہے، انہوں نے طلبہ وطالبات کو نصیحت کی کہ یہ دور مقابلہ کا ہے جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ اعلیٰ مقام کے حصول کے دور میں بچھڑ جائے گا۔
 امارت شرعیہ کی تعلیمی مہم نے اب ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی ہے، کام اور مسلسل کام امارت شرعیہ کا منصوبہ ہے اور اس کو کامیاب کرنے کے لیے امارت شرعیہ کے خدام ہمہ وقت مصروف عمل ہیں۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...