Powered By Blogger

بدھ, جولائی 27, 2022

سونیا گاندھی آج پھر ای ڈی دفتر میں درج کرائیں گی بیان ، عوامی مسائل پر کانگریس کا ستیہ گرہ جاری

سونیا گاندھی آج پھر ای ڈی دفتر میں درج کرائیں گی بیان ، عوامی مسائل پر کانگریس کا ستیہ گرہ جاری
(اُردو دنیانیوز۷۲)
نئی دہلی: کانگریس صدر سونیا گاندھی آج لگاتار دوسری مرتبہ ای ڈی کے دفتر میں پہنچ کر اپنا بیان درج کرائیں گی۔ نیشنل ہیرالڈ معاملہ میں سونیا گاندھی آج تیسری مرتبہ ای ڈی دفتر میں پیش ہونے جا رہی ہیں۔ ادھر، عوام کو درپیش مختلف مسائل کو لے کر کانگریس پارٹی کا ملک گیر ستیہ گرہ جاری رہے گا۔کانگریس لیڈر اجے ماکن نے کہا ''ہم ملک بھر میں اپنا ستیہ گرہ جاری رکھیں گے اور لوگوں کے مسائل کو اٹھائیں گے۔ دہلی میں ہم اپنے مرکزی دفتر میں احتجاج کریں گے۔'' کانگریس پارٹی کی جانب سے گزشتہ روز بھی احتجاج کیا گیا تھا۔ دہلی میں کانگریس لیڈر راہل گاندھی سمیت متعدد پارٹی لیڈران کو اس وقت حراست میں لے لیا گیا تھا جب وہ راجیو چوک پر دھرنا دے رہے تھے۔

کانگریس پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ راجیو چوک سے صدارتی محل تک مارچ نکالنے جا رہے تھے، جسے دہلی پولیس نے ناکام بنا دیا۔ دہلی پولیس نے احتجاج و مظاہرہ کرنے کی پاداش میں راہل گاندھی سمیت کانگریس کے 50 ارکان پارلیمنٹ کو حراست میں لیا تھا۔ تقریباً 7 گھنٹے کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا۔

ادھر، کانگریس لیڈر جے رام رمیش نے منگل کی شب مودی حکومت پر حملہ بولتے ہوئے کہا کہ کانگریس کے ارکان پارلیمنٹ کو 7 گھنٹے حراست میں رکھنے کے بعد شام 6.45 پر اس خبر کے ساتھ رہا کیا گیا کہ سونیا گاندھی سے کل تیسرے دن بھی ای ڈی پوچھ گچھ کرے گی۔ یہ 'وش گرو' کا سیاسی انتقام ہے۔ اس صورت حال کو بیان کرنے کے لئے 'گھناؤنا' بھی ہلکا لفظ ہے۔

منگل, جولائی 26, 2022

حمل کے نہ ٹہرنے کی وجوہات اور ان کا علاج

مچھرگانواں جوگاپٹی یونانی دوا خانہ
*موبائل نمبر8298377755
*🧕حمل کے نہ ٹہرنے کی وجوہات اور ان کا *
(اردو دنیا نیوز۷۲)
*عورتوں کے اندر حمل نہ ٹہرنے کے اسباب*

*یاد رکھیں*

عام طور سے شادی کے فورا بعد سے تمام عزیزو اقارب کو اس بات کا انتظار شروع ہو جاتا ہے کہ کب کوئی خوشخبری سننے کو ملے گی اور ان کے بار بار کے تقاضے نۓ شادی شدہ جوڑے کو ایک ذہنی دباؤ کا شکار کر دیتے ہیں ۔ مگر یاد رکھیں کہ شادی کے ایک سال تک اگر آپ امید سے نہیں ہوتے تو یہ کسی بھی قسم کی پریشانی کی بات نہیں ہے کیوں کہ ہر انسان دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اس وجہ سے اس کے حمل کے ٹہرنے میں بھی وقت لگ سکتا ہے تاہم ایک سال کے بعد اگر حمل نہ ٹہرے تو اس حوالے سے ڈاکٹر سے معائنہ کروانا ایک ضروری امر ہے
*حکیم خوش محمد رابطہ کریں
* 8298377755*

اگر آپ کی شادی کوایک سال ہو گیا ہے اور حمل نہیں ٹہر رہا تو اس صورت میں میاں بیوی دونوں کو اپنا معائنہ لازمی طور پر کروانا ضروری ہے صرف عورت کا معائنہ کروانا اس مسلے کا حل نہیں ہو سکتا ہے

*مردوں کا ٹیسٹ*

حمل نہ ٹہرنے کی صورت میں مردوں کا ایک ٹیسٹ کروایا جاتا ہے جس کو سیمنز اینا لائسس semen analysisکہتے ہیں اس ٹیسٹ کے ذریعے مردوں کے اسپرم کی کاونٹ اور ان کی کوالٹی پتہ چلتی ہے اگر مرد کا یہ ٹیسٹ نارمل ہو تو اس کا مطلب ہے کہ حمل کے نہ ٹہرنے کا ذمہ دار مرد نہیں ہے


*ایسی بہت سی بہن بیٹیاں جو اولاد جیسی نعمت کو ترس رہی تھی اور بے اولادی کی وجہ سےساس نند اور  نہ جانے کس کس کے طعنے سن سن کر پریشان ہو گئی تھی لیکن آج وہ الحمدللہ الیاسی دواخانہ کے تیار کردہ بانجھپن کورس  کو استعمال کرکے صاحب اولاد ہیں اور اپنی زندگی میں خوش ہیں  اللہ کا شکر کے ساتھ ساتھ خوش محمد بھی شکر گزار ہیں کہ انکی یہ محنت رنگ لائی اور انکو خوشی میسر ہوئی*


اگر آپ کے علاقے میں بھی کوئی بہن بیٹی ایسی ہے تو ضرور رابطہ کریں
*8298377755*


*زنانہ بانجھپن کورس*


*رپورٹ کو دیکھ کر  100% گارنٹی سے علاج*

*جو بھی بے اولاد ہیں  کافی علاج کرایا چکے ہیں پیسہ لگا کر تھک چکے ہیں  ایک بار خدمت کا موقع ضرور دیں انشاءاللہ* 

*کافی لوگوں کا علاج کیا ہے شاندار رزیلٹ ہیں اللہ کے فضل سے*
 
*بانجھ پن کے بارے میں اور اسکا علاج کیا ہے* 


*شادی کے بعد ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اسکو  اولاد ہو  شادی کے بعد انسان چاہتا ہے کہ باپ کا درجہ مل جائے اولاد اللہ کی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے جب کسی کے اولاد نہیں ہوتی تو وہ کتنا پریشان ہوتا ہے* 


*ڈاکٹروں اور حکیموں کے چکر لگاتے تھک جاتے ہیں پیسہ خوب لگاتے ہیں پھر بھی اولاد نہیں ہوتی    تو پھر مایوسی ہو کر بیٹھ جاتے ہیں*۔۔۔


 *آج ہم اسکا علاج بتاتے ہیں  اور اولاد نہ ہونے کے وجوہات بھی بتاتے ہیں*


*🧕عورتوں کے اندر حمل نہ ٹہرنے کے اسباب🧕*
*عورتوں کے اندر حمل نہ ٹہرنے کے اسباب*

*خواتین کے اندر حمل نہ ٹہرنے کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں جن مین سے کچھ یہ ہیں*

 *عورت کی  ماہواری بالکل  نہ آ نا* 


*عورت کو سفید پانی کی شکایت کا ہونا*
 
*عورت کی ماہواری کے وقت پیٹ میں درد ہونا*

*ٹیوب کا بند ہونا*

*بچے دانی میں خون یا پانی کی رسولی کا ہونا*

 *بچے دانی میں سوجن کا ہونا* 

*بچے دانی کا چھوٹا ہونا* 

*بچے دانی کا کمزور ہونا*  

*بچے میں انفیکشن ہونا* 

*بچے دانی میں نکس ہونا*  

*انڈ ے کا نہ بن پانا*

*انڈے دانی میں خون کی کمی ہونا* 

*ان سب وجوہات کی بنا پر اولاد نہیں ہو پاتی ہے لیکن اس کا صحیح وقت پر صحیح علاج ہوجائے تو   ان سب بیماری سے  نجات مل سکتی ہے اور    100%   اولاد ہوسکتی ہے*


*ان سب کا علاج  ہے لیکن کچھ مہینے لگاتار دوا لینا ہوگی   پرہیز کے ساتھ مکمل کورس مکمل علاج کرائیں* 


*آپ جہاں بھی علاج کراتیں  کہیں نہ کہیں ہم پرہیز نہیں کرتے یا پھر پورا کورس نہیں کرتے  یا پھر صحیح ڈاکٹر یا حکیم نہیں  منتخب کرتے ہیں اور پیسے برباد کرتے ہیں* ۔۔

*یا ہم پرہیز نہیں کرتے ہیں اور*
 *غلطی ڈاکٹر یا حکیم کی بتاتے ہیں* ۔۔۔۔

*ہمارے پاس چار ماہ کا مکمل علاج ہے ان سب بیماری کا جو اوپر بیان کی گئی ہے*  


*واٹسپ پر اپنی رپورٹ بیجھے رپورٹ کو دیکھ کر ہی علاج کیا جائےگا  بغیر رپورٹ کے علاج ممکن ہے لیکن تھوڑا مشکل ہے*

*جانکاری کے لئے رابطہ کریں*

*حکیم خوش محمد صاحب مچھڑگانواں مغربی چمپارن*
*8298377755

خواب میں عذاب قبر دیکھتی تھی۔ ثنا خان

خواب میں عذاب قبر دیکھتی تھی۔ ثنا خان


(اردو دنیا نیوز ۷و)

بالی وڈ انڈسٹری کو خیرباد کہنے والی سابق اداکارہ ثنا خان کا کہنا ہے کہ ٹی وی اور فلموں میں کامیابی کے بعد بھی وہ ذہنی دباؤ کا شکار رہیں، جس کے بعد انہوں نے حجاب پہننے کا ارادہ کیا۔ ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ میں ثنا خان کی اس ویڈیو کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں انہوں نے مذہب کی طرف آنے پر بات کی ہے۔ ثنا خان کئی فلموں میں کام کر چکی ہیں جن میں سلمان خان کی 'جے ہو' بھی شامل ہے جبکہ وہ بگ باس سکس کا حصہ بھی رہیں۔

2020 میں سابق اداکارہ نے مفتی سید انس سے شادی کی جس کے بعد انہوں نے حجاب پہننا شروع کر دیا تھا۔ ویڈیو میں پہلی بار انہوں نے اس راز سے پردہ اٹھایا ہے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا۔ ویڈیو میں وہ کالا برقع پہنے ہوئے بات کر رہی ہیں اور ان کے ہاتھوں پر مہندی کا رنگ بھی دکھائی دے رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں 'ماضی میں میرے پاس سب کچھ تھا، پیسہ، نام، شہرت، اور میں اپنی مرضی کے مطابق سب کچھ کر سکتی تھی، مگر ایک چیز کی کمی تھی۔' ان کے مطابق 'میرے دل کو سکون نہیں مل رہا تھا، میرا حال یہ تھا، میں خوش نہیں تھی، مجھے سخت ذہنی دباؤ سے گزرنا پڑا۔' ثنا خان کا کہنا تھا 'یہ وہی دن تھے جب میں نے اللہ کے پیغام کو اس کی علامات میں دیکھنا شروع کیا۔' انہوں نے 2019 کو وہ سال قرار دیا جس میں ان کی زندگی یکسر بدل گئی۔ 'مجھے ابھی تک یاد ہے، رمضان کے مہینے میں مجھے خواب میں قبر دکھائی دیتی رہی، جس میں آگ ہوتی اور میں خود کو اس قبر میں پاتی۔'

ثنا خان کا کہنا تھا 'میں نے محسوس کیا کہ اللہ مجھے دکھا رہا ہے کہ اگر میں نے اپنی زندگی کو تبدیل نہیں کیا تو میرا یہی انجام ہو گا۔ اس کے بعد میں بے قرار رہنے لگی۔' انہوں نے اپنی زندگی میں آنے والی پہلی تبدیلی کے بارے میں بتایا کہ 'میں نے اسلامی سکالرز کو سننا شروع کیا اور ایک رات میں نے ایک متاثرکن چیز پڑھی۔ پیغام میں کہا گیا تھا کہ 'آپ نہیں چاہتیں کہ آپ کا آخری دن، حجاب پہننے کا پہلا دن ہو۔' ویڈیو میں وہ کہتی ہیں کہ 'اس بات نے میرے دل کو چھو لیا۔' اس کے ساتھ ہی وہ رونا شروع کر دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں 'اس کے بعد میں نے پوری زندگی حجاب پہننے کا ارادہ کیا۔' ثنا خان کے بقول 'اگلی صبح میری سالگرہ تھی، میں نے سکارف خریدا اور اوڑھ کر خود سے کہا، اب اس کو کبھی نہیں اتاروں گی۔' ثنا خان حال ہی میں اپنے شوہر مفتی انس سید کے ہمراہ حج کر کے لوٹی ہیں۔

مولانا خورشید عالم ؒ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ

مولانا خورشید عالم ؒ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
(اردو دنیا نیوز ۷۲)
مولانا خورشید عالم بن حافظ عبد السبحان (م۱۹۸۵) بن محمد اسحاق بن شجاعت علی ساکن بوکھرا ضلع سیتامڑھی نے یکم شعبان ۱۴۴۳ھ مطابق ۴؍ مارچ ۲۰۲۲ء منگل دن گذار کر پونے نو بجے شب میں اس دنیا کو الوداع کہا، وہ مختلف امراض کے شکار تھے، طبیعت میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا تھا، طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو انہیں پرساد ہوسپیٹل مظفر پور لایا گیا، لیکن وقت موعود آگیاتھا، اس لیے جاں برنہ ہو سکے، جنازہ آبائی گاؤں بوکھرا لے جایا گیا، جہاں ۵؍ مارچ کو بعد نماز عصر جنازہ کی نماز ان کے چھوٹے صاحب زادہ مولانا محمد انوار عالم فیاضی ندوی نے پڑھائی، کم وبیش چھ سو سوگواروں اور متعلقین کی موجودگی میں مولانا کا آخری سفر مقامی قبرستان تک ہوا، اور وہیں سپرد خاک کیے گیے، پس ماندگان میں تین لڑکی ،دو لڑکے ناتی، نتنی اور پوتے پوتیوں سے بھرا پُرا خاندان کو چھوڑا، ایک لڑکی میرے چھوٹے بھائی ماسٹر محمد فداء الہدیٰ کے نکاح میں ہے، اہلیہ پہلے ہی فوت ہو چکی تھیں، ان کی جدائی کے صدمہ نے ان کے جسم کے دفاعی نظام کو نقصان پہونچا یا تھا، یہ حادثہ ان کے لیے سوہان روح تھا، جس کی وجہ سے بھی وہ کمزور ہوتے چلے گیے تھے۔
 مولانا کی پیدائش ان کے آبائی گاؤں بوکھرا موجودہ ضلع سیتامڑھی میں اسناد کے مطابق یکم فروری ۱۹۴۵ء کو ہوئی، مولانا کی نانی ہال چکنا ٹولہ پنڈول ضلع سیتامڑھی تھی، نانا کا نام محمد دانیال تھا۔ ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد ان کا داخلہ مدرسہ نور الہدیٰ پوکھریرا موجودہ ضلع سیتامڑھی میں کرایا گیا، یہاں کے استاذ مولانا مطیع الرحمن صاحب کی سر پرستی میں انہوں نے تعلیم حاصل کرنی شروع کی، مولانا موصوف آپ کے استاذ بھی تھے اور اتالیق بھی، بعد میں سسرالی رشتہ دار بھی ہو گیے کیوں کہ وہ مولانا کی اہلیہ کے پھوپھا تھے، مدرسہ نو رالہدیٰ کے بعد تعلیمی سفر کا ایک پڑاؤ مدرسہ امدادیہ دربھنگہ ہوا اور اگلا پڑاؤ مدرسہ عالیہ کولکاتہ ، کولکاتہ جانے کے قبل ہی مولانا کی شادی پوکھریرا ہی میں حافظ حمید الرحمن کی دختر نیک اختر سے ہو گئی، حافظ حمید الرحمن کولکاتہ کیلا بگان کی ایک مسجد میں امام تھے، ان کے ساتھ مولانا بھی کیلا بگان کی ایک دوسری مسجد میں امامت سے لگ گیے اور چند سال یہاں امامت کرتے رہے، علم کی تشنگی باقی تھی ، اس لیے مولانا نے اس وقت کے مدرسہ عالیہ میں (جو اب عالیہ یونیورسٹی کے نام سے جانا جاتا ہے) داخلہ لے لیا اور وہیں سے ممتاز المحدثین کی سند حاصل کی، کولکاتہ سے وہ گھر آئے تو پھر واپس نہیں گیے، موضع شاہ میاں رہوا، وایا بھگوان پور ضلع ویشالی میں امامت اور مکتب میں معلم کی جگہ خالی تھی، ۱۹۶۵ء میںیہاں امامت اور مکتب میں خدمت انجام دینے لگے، قسمت نے یاوری کی، قریب کی بستی سرسارام راج میں سری مہاراج سنگھ کے نام سے ایک ہائی اسکول کا قیام عمل میں آیا وہاں اردو پڑھانے کے لیے ایک استاذ کی ضرورت تھی، آپ نے عرضی گذاری اور آپ کی بحالی ۱۹۶۴ء کو ایک سو پندرہ روپے ماہانہ پرعمل میں آگئی، ملازمت ہائی اسکول میں ہونے کے باوجود ان کا قیام شاہ میاں رہوا میں ہی رہا، مختلف اوقات میں حاجی نیاز احمد، ذکی حسن مرحوم اور جناب محمد اصغر صاحب کے یہاں ان کا قیام رہا، ملازمت کے بیشتر روز شب یہیں گذرے ، پھر جب سرکار نے تبادلہ کی پالیسی بنائی تو آپ کا تبادلہ۱۰؍ جنوری ۱۹۹۶ء کو مظفر پور کے نواح میں واقع نیشنل ہائی اسکول کھرونا میں ہو گیا، اور یہیں سے ۳۱؍ جنوری۲۰۰۵ء میں مدت ملازمت پوری کرکے سبکدوش ہو ئے، سبکدوشی کے بعد اپنے گاؤں بوکھرا لوٹ گیے اور وہاں کی ملی سر گرمیوں اور گھریلو ضروریات پر اوقات صرف کرتے رہے ۔
 مولانا بڑے سنجیدہ، بردبار ، مخلص ، خوش اخلاق اور صائب الرائے انسان تھے، میری نانی ہال بھی شاہ میاں رہوا ہے، اس لیے والد صاحب ماسٹر محمد نور الہدیٰ (م ۲۰۱۷) سے ان کی بہت بنتی تھی، والد صاحب جب رہوا رہنے لگے تو ان کی محفلیں خوب جمتی تھیں، میرے والد صاحب کم گو تھے، بولتے کم، سنتے زیادہ تھے، لیکن جب میرے ماما محمد عمر آزاد (م ۱۹۸۳) اور مولانا خورشید صاحب کے ساتھ بیٹھتے تو گفتگو میں رات کا بیش تر حصہ گذر جاتا اورکھانے پینے کا بھی ہوش نہیں رہتا، اس سے ان دونوں کی ذہنی ہم آہنگی کا پتہ چلتا ہے، اسی ذہنی ہم آہنگی اور قربت کی وجہ سے میرے ایک بھائی کا رشتہ بھی ان کی صاحب زادی سے ہوا اور ہم لوگ رشتہ کی ڈور میں بندھ گیے۔
 مولانا ہم لوگوں پر انتہائی شفیق تھے، خرد نوازی کا کا مزاج تھا، اس لیے ہم لوگوں کے چھوٹے چھوٹے کاموں کو بھی سراہتے اور حوصلہ افزائی کرتے،مولانا کے ایک بھائی مولانا خلیق الزماں صاحب دا رالعلوم دیو بند میں ہمارے ہم عصروں میں تھے، اب بھی بقید حیات ہیں، لیکن بیمار چل رہے ہیں، اللہ انہیں لمبی عمر دے، وہ قاضی بہیرہ جالے کے مدرسہ میں صدر مدرس ہیں اور ان کی تعلیمی خدمت کا دائرہ بھی وسیع ہے۔
 مولانا خورشید عالم صاحب مرحوم جہاں بھی رہے اپنے اخلاق اور کردار سے لوگوں میں محبوب رہے، انہوں نے اردو کی ترویج واشاعت کے لیے بھی کام کیا، اپنے پیچھے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد چھوڑی، ایک دو سرا وصف ان کا یہ تھا کہ وہ اپنی شرطوں پر جیتے تھے، قیام کسی کے یہاں رہے وہ جی حضوری کے عادی نہیں تھے،صاف بولتے تھے اور کھری کھری سناتے تھے، حاضر جواب تھے اس لیے دوسروں کو لاجواب کرنے کا فن انہیں خوب آتا تھا، وہ اپنے مخالفین سے نمٹنا بھی جانتے تھے اور ان کو چاروں شانے چت کردیا کرتے تھے، اس کے لیے انہوں نے کبھی لاٹھی ڈنڈا نہیں اٹھایا ، حکمت عملی اور تدبیر ان کے کامیاب ہتھیار تھے اور وہ ان سے کام لینا خوب جانتے تھے، جب تک ان کی چلتی رہی اپنے عزیز واقرباء پر دادودہش کا سلسلہ جاری رکھا، اہلیہ کے انتقال سے ذہنی طور پر اس قدر متاثر ہوئے کہ اس کا خیال ہی جاتا رہا، لیکن ان کی محبوبیت ومقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی۔
اب مولانا ہمارے درمیان نہیں ہیں وہ اس مالک کے پاس چلے گیے جو ارحم الراحمین ہے، غفار الذنوب اور ستار العیوب ہے، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ان کے اعمال صالحہ کو قبول فرمائے، سیئات سے در گذر کرے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین

آدھار کارڈ کو ووٹر کارڈ سے جوڑنے کے فیصلے کے خلاف دائر عرضی پر سماعت سے سپریم کورٹ کا انکار

آدھار کارڈ کو ووٹر کارڈ سے جوڑنے کے فیصلے کے خلاف دائر عرضی پر سماعت سے سپریم کورٹ کا انکار
(اردو دنیا نیوز۷۲)
نئی دہلی _ 26 جولائی ( اردولیکس ) سپریم کورٹ نے پیر کو کانگریس کے جنرل سکریٹری اور ترجمان رندیپ سنگھسرجے والا کی طرف سے شہریوں کے آدھار نمبر کے ساتھ ووٹر شناختی کارڈ کو جوڑنے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی عرضی پر سماعت کرنے سے انکار کر دیا۔
جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس اے ایس بوپنا کی بینچ نے کہا کہ ہائی کورٹ میں اس عرضی پر سماعت کا ایک مؤثر متبادل ہے اس کے باوجو د سپریم کورٹ میں عرضی داخل ہونے کی وجہ سے اس کی ساعت کرنے سے انکار کر دیا۔بنچ نے درخواست گزار کو ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی اجازت دے دی ہے۔

پیر, جولائی 25, 2022

سپریم کورٹ کے تبصرے__

سپریم کورٹ کے تبصرے__
 (اردو دنیا نیوز ۷۲)
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
نوپور شرما نے ایک ٹی وی مباحثہ میں ۲۷؍ مئی ۲۰۲۲ء کو ناموس رسالت پر حملہ کیا تھا، اس کے نازیباکلمات کی وجہ سے پورے ملک میں نفرت کی عام فضا میں اضافہ ہوا تھا، کان پور اور رانچی میں مظاہروں کے درمیان درجنوں لوگ گھائل ہوئے تھے اور کئی کی موت ہو گئی تھی، نوپور شرما کے خلاف بنگال میں دس، بستی میں دو، دہلی ، حیدر آباد اور شری نگرمیں ایک ایک اف آئی درج ہوئے، لیکن پولیس اسے گرفتار نہیں کر سکی، بار بار سمن بھیجنے کے بعد وہ حاضر نہیں ہوئی، تو بنگال پولیس نے اس پر لک آؤٹ سمن جاری کیاہے، ان حالات سے نمٹنے کے لیے نو پور شرما نے سپریم کورٹ میں درخواست دی تھی کہ سارے مقدمہ کو دہلی منتقل کیا جائے اور اس کی سُنوائی سپریم کورٹ کرے،لیکن سپریم کورٹ نے اسے خارج کر دیا، اور کہا کہ اس عرضی سے غرور جھلکتا ہے، نوپور شرما کونچلی عدالت چھوٹی معلوم ہوتی ہے، اس معاملہ کو وہ چاہیں تو ہائی کورٹ لے جا سکتی ہیں۔ابھی حال میں عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کے بعد نوپور شرما کی گرفتاری پر روک لگا دی ہے البتہ اپنے تبصروں سے دباءو کے باوجود رجوع نہیں کیا ہے
پہلے فیصلہ کے وقت جو تبصرے اور رولنگ سپریم کورٹ نے دیے، ان کی قانونی حیثیت نہ ہونے کے با وجود بڑی اہمیت ہے، اس لیے کہ اس کی وجہ سے عدالت کا رخ پورے ملک کے سامنے آیا، سپریم کورٹ کے فاضل جج نے کہا کہ خطرہ نو پور شرما کو نہیں، بلکہ وہ پورے ملک کے لیے خطرہ بن گئی ہیں، عدالت نے ادے پور میں درزی کے قتل ہونے کا ذمہ دار بھی اسی کو ٹھہرایا اور کہا کہ ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی ذمہ دار بھی وہی ہیں، عدالت نے دہلی پولیس سے یہ بھی پوچھا کہ آخر اس کو گرفتار کیوں نہیں کیا جا رہا ہے صرف اس لیے کہ وہ ایک پارٹی کی ترجمان ہیں، ترجمان کا مطلب یہ تو نہیں ہوتا کہ اس کو اول فول بکنے کا لا ئسنس مل جاتاہے، ان کی طرف سے کوئی مقدمہ درج ہو تو مدعا علیہ کو گرفتار کر لیا جائے اور ان کے خلاف دس مقدمات ہیں تو ان کی گرفتاری نہ ہو، نوپور شرما کے وکیل نے جب ارنب گوسوامی مقدمہ کا حوالہ دے کر سارے مقدمات سپریم کورٹ منتقل کرنے کی بات کہی تو عدالت نے کہا کہ اس واقعہ کا تعلق صحافت سے تھا، یہ تو سیاسی پارٹی کی ترجمان ہیں اور نتیجوں کو جانے بغیر اپنے بیان سے نفرت پھیلا رہی ہیں،ا س لیے ان کے معاملہ میں ایسا نہیں کیا جا سکتا۔
 عدالت کے اس تبصرہ سے نوپور شرما اور اس کے ذریعہ پھیلائی گئی نفرت کے خلاف ایک ماحول پورے ملک میں بنا ہے اور اس کا فائدہ سماج کو یقینا پہونچے گا، لیکن یہ سوال پھر بھی اپنی جگہ باقی ہے کہ مجرم کو سزا دینے کا کوئی اعلان اس فیصلہ میں نہیں ہے، اور پورے ملک سے سے ٹی وی پر آکر معافی مانگنے کی جو بات کہی گئی ہے وہ اس کے جرم کی سزا نہیں ہے، ہو سکتا ہے، ہائی کورٹ اس کو یہی سزا سنا دے کہ پورے ملک کی عوام سے ٹی وی پر آکر معافی مانگو، اور بلا شرط مانگو،لیکن اس سزا سے اس قسم کے واقعات پر روک نہیں لگ سکے گی، جہاں تک ادے پور کانڈ کی بات ہے تو اب یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ وہ دونوں بی جے پی کے کیڈر تھے، اگر ایسا ہے تو راجستھان میں آگ لگانے کی جو سازش کی گئی تھی ، اس کی حقیقت پر سے پردہ اٹھتے ہی اس معاملہ میںبی جے پی کے کردار سے بھی پردہ اٹھے گا، حالاں کہ اس قسم کے معاملات میں بی جے پی توپہلے ہی سے بے نقاب ہے۔ اس تبصرہ کے بعد فرقہ پرست طاقتوں نے ججوں کی ذاتیات پر حملے شروع کر دیے ہیں، بلکہ ایک صاحب نے تو ان تبصروں کو واپس لینے کے لیے عرضی بھی سپریم کورٹ میں داخل کر دی ہے، اس صورت حال سے عدالت عالیہ کے معزز ججوں کو سخت ذہنی کرب کا سامنا ہے، یہ درد وکرب گذشتہ دنوں سی این فاؤنڈیشن کے ذریعہ منعقد ایک پروگرام میں چھلک آیا جب جسٹس پار دیولا نے شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت پر تنقید قابل قبول ہے، مگر ججوں پر ذاتی حملے بالکل بر داشت نہیں، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا پر کنٹرول رکھنے کے لیے کوئی طریقہ کار طے کرنا چاہیے، ایسے حساس معاملوں میں پارلیامنٹ کو بھی اقدام کرنے چاہیے، انہوں نے کہا کہ اس قسم کے ذاتی حملے سے انصاف کا عمل متاثر ہوتا ہے، کیوں کہ عدالت کی توجہ صرف اس بات پر ہوتی ہے کہ قانون کیا کہہ رہا ہے، لیکن جب میڈیا ٹرائل شروع کرتا ہے تو لوگ یہ سوچنے لگتے ہیں کہ میڈیا کیا کہتا ہے؟ حالاں کہ اس کے پاس آدھا سچ ہوتا ہے، اس طرح دیکھا جائے تو یہ عدالت کے کاموں میں غیر ضروری مداخلت ہے، جس سے خطرناک منظر نامہ سامنے آتا ہے اور عدالت کے فیصلے اس کے ریمارکس پر عوام تذبذب کے شکار ہو جاتے ہیں۔

اتوار, جولائی 24, 2022

بھارت میں فیس بک کے لیے چیلنج : عریانیت ، خواتین کو لاحق خوف

بھارت میں فیس بک کے لیے چیلنج : عریانیت ، خواتین کو لاحق خوف
(اردو دنیا نیوز۷۲)
فیس بک کے لیے دنیا کی سب سے بڑی منڈی بھارت میں اس پلیٹ فارم کی ترقی سست رفتار ہوتی جا رہی ہے۔ اس کمپنی کی اپنی ریسرچ کے مطابق فیس بک پر پھیلتی عریانیت اور خواتین کو اپنی سلامتی کے حوالے سے لاحق خوف اس کی اہم وجوہات ہیں۔دو فروری کو جب پہلی مرتبہ فیس بک کے پلیٹ فارم پر صارفین کی تعداد بہت کم نظر آئی، تو اس کے مالیاتی شعبے کے سربراہ نے کہا کہ بھارت میں چونکہ موبائل ڈیٹا بہت مہنگا ہوگیا ہے، اس لیے دنیا کی اس بہت بڑی مارکیٹ میں اس کمپنی کی ترقی کی رفتار سست پڑ رہی ہے۔ لیکن اسی روز اس امریکی ٹیکنالوجی گروپ نے بھارت میں فیس بک کے بزنس کے حوالے سے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ بھی اپنے اسٹاف کے سامنے پیش کی۔ سن دو ہزار انیس سے دو ہزار اکیس کے درمیان دو برسوں تک کی گئی اس تحقیق میں فیس بک کو درپیش چیلنجز اور مسائل کی نشاندہی کی گئی تھی۔ اس تحقیق کے مطابق بہت سی خواتین نے فیس بک کو مسترد کر دیا ہے کیونکہ اس پر مردوں کا غلبہ ہے اور وہ اپنی سلامتی اور پرائیویسی کے حوالے سے فکر مند تھیں۔ اس پہلو پر پہلے کبھی توجہ نہیں دی گئی تھی۔ فیس بک کی تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ مواد کے تحفظ کا فکر اور اپنے اکاونٹ پر غیر مطلوبہ افراد کی بھیڑ خواتین کے فیس بک استعمال کرنے کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں جبکہ ''خواتین کو الگ کر کے بھارت میں کامیابی نہیں مل سکتی۔‘‘ اس تحقیقاتی رپورٹ میں جن دیگر رکاوٹوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں عریانیت سے پُر مواد،ایپ ڈیزائن کی پیچیدگی، مقامی زبان اور شرح خواندگی بھی شامل ہیں۔ یہ رپورٹ دسیوں ہزار افراد کے ساتھ بات چیت اور انٹرنیٹ سے حاصل کردہ اعداد و شمار کی بنیاد پر تیار کی گئی تھی۔ فیس بک کی ترقی میں مسلسل کمی فیس بک کی ترقی کی رفتار گزشتہ برس سست پڑنے لگی تھی۔ ایک ارب چالیس کروڑ کی آبادی والے ملک بھارت میں چھ ماہ کے دوران فیس بک صارفین کی تعداد میں صرف چند لاکھ کا اضافہ ہوا۔ دوسری طرف واٹس ایپ اور انسٹاگرام جیسی ایپس استعمال کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ رپورٹ کے مطابق، ''انٹرنیٹ اور دیگر ایپس کے مقابلے میں فیس بک کی ترقی کی رفتار سست ہے۔‘‘ اس رپورٹ کے حوالے سے جب فیس بک سے رابطہ کیا گیا، تو ایک ترجمان نے بتایا کہ کمپنی اپنی پروڈکٹس کو سمجھنے کے لیے مسلسل ریسرچ کرتی ہے تاکہ انہیں بہتر سے بہتر بنایا جا سکے۔ ترجمان نے کہا، ''سات ماہ پرانی تحقیق کو بھارت میں ہمارے بزنس کا پیمانہ قرار دینا گمراہ کن ہو گا۔‘‘ صنفی عدم مساوات بھی باعث تشویش فیس بک کی اپنی تحقیقات میں یہ بات واضح طور پر کہی گئی ہے کہ صنفی عدم مساوات فیس بک کے لیے بھارت میں ایک بڑا چیلنج ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے حل کرنے کی کوشش فیس بک پچھلے کئی سال سے کر رہا ہے لیکن اسے زیادہ کامیابی نہیں مل سکی۔ تحقیقات کے مطابق، ''یوں تو بھارت میں انٹرنیٹ پر بالعموم صنفی عدم مساوات ہے، لیکن فیس بک کے صارفین میں یہ عدم مساوات اور بھی زیادہ ہے۔‘‘ رپورٹ میں اس کی وجہ آن لائن سکیورٹی کے حوالے سے تشویش اور سماجی دباو بتائی گئی ہے۔ محققین نے دیکھا کہ فیس بک استعمال کرنے والی 79 فیصد خواتین نے اپنی تصویر یا دیگر مواد کے غلط استعمال کے متعلق تشویش ظاہر کی۔ اس کے علاوہ 20 تا30 فیصد نے بتایا کہ سروے کے سات دنوں کے اندر انہوں نے فیس بک پر عریانیت دیکھی تھی۔ فیس بک پر عریانیت کے معاملے میں بھارت دیگر ملکوں سے کافی اوپر ہے۔ امریکہ اور برازیل میں دس فیصد صارفین کے سامنے ایسی پوسٹس آئیں جن میں عریانیت تھی۔ ایک دوسرے سروے کے مطابق انڈونیشیا میں ایسے لوگوں کی تعداد 20 فیصد تھی۔ خاندان کا دباؤ اور منفی سوچ اس تحقیقاتی رپورٹ میں بھارت کے پس منظر میں دیگر دو باتوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ بالخصوص خواتین کے لیے فیس بک استعمال نہ کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے: ''خاندان اجازت نہیں دیتا۔‘‘ اس کے علاوہ، ''دیگر ملکوں کے مقابلے میں منفی سو چ کہیں زیادہ ہے۔‘‘ فیس بک کے ترجمان کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ پر صنفی عدم مساوات صرف ان کے پلیٹ فارم کا نہیں بلکہ پوری انڈسٹری کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سن 2016 کے بعد فیس بک نے سلامتی اور تحفظ کے لیے کام کرنے والی عالمی ٹیم کی تعداد چار گنا بڑھا کر 40 ہزار سے زائد کر دی ہے۔ اور رواں برس جنوری سے اپریل کے درمیان عریانیت اور جنسی سرگرمیوں سے متعلق97 فیصد مواد کو کوئی شکایت کیے جانے سے پہلے ہی ہٹا دیا گیا تھا۔ خواتین کے ہراساں کیے جانے اور انہیں دھمکیوں سے محفوظ رکھنے کی خاطر کافی اقدامات نہ کرنے کے سبب بھی فیس بک کو دنیا بھر میں تنقید کا شکار ہونا پڑا ہے۔ سن 2019 میں اس نے بتایا تھا کہ اس کی ایک ٹیم اس بات کو یقینی بنانے پر کام کر رہی ہے کہ خواتین کو کیسے محفوظ رکھا جائے اور ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے ایسے مواد کو ہٹا دیا جائے جو غیر محفوظ دکھائی دیتا ہو۔ فیس بک کے ترجمان کے مطابق بھارت میں خواتین صارفین کی مدد کے لیے 'ویمنز سیفٹی ہب‘ اور دیگر پرائیویسی فیچر بھی شروع کیے گئے ہیں۔ تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے، ''بھارت میں فیس بک استعمال کرنے والے صارفین دیگر کسی بھی ملک سے زیادہ ہیں اور کمپنی کی ٹیموں کو بھارت میں ترقی اور اپنی اسٹریٹیجک پوزیشن کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کیونکہ بھارت میں کمپنی کے لیے نتائج عالمی نتائج کو متاثر کر سکتے ہیں۔‘‘ ج ا / م م (روئٹرز)

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...