Powered By Blogger

بدھ, اگست 03, 2022

مسلسل بارش سے شمالی بہار میں سیلاب کا خطره

مسلسل بارش سے شمالی بہار میں سیلاب کا خطره
پٹنہ۔ ٣؍اگست: (ارددنیانیوز٧٢)مسلسل بارش کی وجہ سے شمالی بہار کی ندیوں میں طغیانی ہے۔ گنڈک، بوڑھی گنڈک، باگمتی اور کوسی سمیت بیشتر ندیوں کی پانی کی سطح کئی مقامات پر خطرے کے نشان سے اوپر ہے۔ اس دوران موسمیاتی مرکز نے منگل کے روز بہار میں ایلو الرٹ جاری کیا ہے۔ محکمہ موسمیات نے آئندہ 24 گھنٹوں کے لیے الرٹ جاری کر دیا ہے۔نیپال کے کئی علاقوں میں گزشتہ دو دنوں سے ہونے والی شدید بارشوں کی وجہ سے ندیوں میں پانی کی سطح خطرے کے نشان سے اوپر بڑھ گئی ہے۔ ندیوں میں طغیانی کے باعث کئی علاقوں میں سیلاب کا خدشہ مزید بڑھ گیا ہے۔ ندیوں کے پانی کی سطح میں اضافہ کے پیش نظر آبی وسائل کے وزیر سنجے کمار جھا نے ہیڈ کوارٹر سے فیلڈ میں تمام افسران اور انجینئروں کوالرٹ رہنے کی ہدایت دی ہے۔مظفر پور ضلع کے کٹوجھا میں باگمتی ندی خطرے کے نشان کو عبور کر گئی ہے۔ پانی کی سطح میں اضافہ جاری ہے۔ سکندر پور میں بڑی ندیوں بوڑھی گنڈک اور ریوا گھاٹ پر نارائنی گنڈک کی پانی کی سطح مظفر پور کے راستے مسلسل بڑھ رہی ہے۔گزشتہ شام مغربی چمپارن ضلع کے والمیکی نگر بیراج سے گنڈک ندی کے بہاو میں 2 لاکھ 86 ہزار 800 کیوسک پانی کے اخراج کے بعد مشرقی چمپارن ضلع کے ڈومریا گھاٹ میں گنڈک کا پانی منگل کے روز خطرے کے نشان سے 62.02 میٹر اوپر بہہ رہا تھا۔ کیسریا بلاک کے نشیبی علاقوں میں پانی بھرنا شروع ہوگیا ہے۔ یہی صورتحال بوڑھی گنڈک، باگمتی اور لال باکیہ ندیوں میں دیکھی جارہی ہے۔ضلع ڈیزاسٹر کنٹرول روم کے پروگرام افسر گووند کمار اور ضلع اطلاعات اور تعلقات عامہ کے افسر گپتیشور کمار سے موصولہ اطلاع کے مطابق لال بیگیا ندی گوباری میں 70.90 میٹر کے خطرے کے نشان سے 71.12 میٹر اوپر بہہ رہی ہے ۔ بوڑھی گنڈک لال بیگیا میں 63.195 میٹر کے خطرے کے نشان سے 60.82 میٹر نیچے بہہ رہی ہ ۔ اہیرولیا میں یہ 59.62 کے خطرے کے نشان سے 56.12 میٹر نیچے بہہ رہی ہے ۔بوڑھی گنڈک ندی خطرے کے نشان سے نیچے بہہ رہی ہے، لیکن اس نے گوڈیگاوا، ضلع کے سوگولی بلاک میں سکل پاکڈ ، بنجاریہ بلاک میں گوبری سیسوانی اور سندر پور میں کٹاؤ تیز کر دیا ہے۔ ڈیزاسٹر کنٹرول روم کے مطابق باگمتی ندی بھی 61.20 میٹر کے خطرے کے نشان کے مقابلے میں 61.20 میٹر پر بہہ رہی ہے۔ موتیہاری شیوہر سڑک کو مکمل طور پربلاک کر دیا گیا ہے۔ کئی علاقوں میں سیلابی پانی تیزی سے پھیلنے لگا ہے۔ضلع ڈیزاسٹر کلکٹر انل کمار اور ڈیزاسٹر انچارج امرتا کماری نے کہا کہ ضلع کے تمام سیلاب زدہ علاقوں کے افسران کو ندیوں کی حالت پر نظر رکھنے کو کہا گیا ہے۔ ضلع میں این ڈی آر ایف اور ایس ڈی آر ایف کی ٹیمیں تعینات کی گئی ہیں۔ اس کے ساتھ پانی کے اخراج اور آبی وسائل کے محکمے کے انجینئروں، مقامی انتظامیہ کے ہوم گارڈ کے اہلکاروں اور چوکیداروں کو پشتوں کی حفاظت کو لیکر الرٹ رہنے کو کہا گیا ہے۔

منگل, اگست 02, 2022

کیرالہ:کینسر متاثرہ حنا کے لیے مندر ومسجد نے اکٹھا کیا فنڈ

کیرالہ:کینسر متاثرہ حنا کے لیے مندر ومسجد نے اکٹھا کیا فنڈ


اردودنیانیوز۷۲کوزی کوڈ

جہاں ملک کے اندر غیر سماجی عناصرملک کے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہیں ہمارے ملک میں مذہبی ہم آہنگی، اتحاد اور خیر سگالی کا منظر کشمیر سے کنیاکماری تک دیکھنے کو ملتا ہے۔ اییسی ہی ایک مثال ریاست کیرالہ سے سامنےآرہی ہےجب کہ کینسرمتاثرہ ایک مسلم لڑکی حنا کےعلاج کے لیے مندر اور مسجد نے فنڈز جمع کئے۔

ریاست کیرالہ میں مذہبی ہم آہنگی کی ایک منفرد مثال دیکھنے کو ملی ہے۔ ملاپورم ضلع کے کوٹکل میں دو مندر کمیٹیوں نے ایک 18 سالہ مسلم لڑکی حنا کےعلاج کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کی کوششوں میں مسجد کمیٹی کی مدد فراہم کی۔

جب کہ کٹی پورتھوک بھگوتی مندرکمیٹی نے50,000 روپےسےزیادہ رقم دیا۔نرسمہامورتی مندرکمیٹی نے کینسر متاثرہ مسلم لڑکی حنا کی مدد کے لیے الوککل جامع مسجد کو27000 روپے فراہم کئے۔مسجدکمیٹی نےاب تک کوٹکل کےرہائشیوں کے لیے1.5 کروڑ روپے سےزیادہ رقم اکٹھی کی ہے جو کوزی کوڈ کے ایک نجی اسپتال میں زیرعلاج ہیں۔

مندرکمیٹی کےارکان کٹی پورتھوک بھاگوتی نے بھی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی برادری کے ارکان کو حنا کی مدد کے لیے فنڈز جمع کرنے میں مسجد کمیٹی کی حمایت کی ہے۔ مندرکمیٹی کے سکریٹری اجیت کمار نے کہا کےہمیں خوشی ہے کہ ہم مسجد کمیٹی والوں کےلی یہ رقم جمع کر پائے ہیں۔

یہ اچھی بات ہے کہ دو برادریوں کے لوگ مختلف سرگرمیوں میں متحد ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ پہلاواقعہ نہیں ہے جہاں کٹی پورتھوک بھگوتی مندر کمیٹی نے اس طرح کے کاموں کے لیے فنڈز جمع کئے ہو۔

مندرکے ذمہ دارنےکہا کہ اس کے علاوہ جب مندر کی تزئین کاری کے دوران مسجدکمیٹی کے ذمہ داران نے ہماری مدد کی تھی۔انہوں نے کہا کہ ہم لوگ ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں۔ہم لوگ مذہب کی بنیاد پر ایک دوسرے میں فرق نہیں کرتے۔

مسجد کمیٹی کےارکان نے کہا کہ یہ ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہم صدیوں سے خیر سگالی کا منظر پیش کرتے رہے ہیں۔ ہماری برادری کےافراد مندرمیں منعقد ہونی تقریبات میں ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔

مسجد کمیٹی کےایک رکن نے کہا کہ سب لوگوں کےتعاون سے کینسرمتاثرہ حنا کے علاج کے لیے ایک بڑی رقم اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

مندر کمیٹی کے صدرکٹی پورتھوک بھگوتی کے ایم ایس بھٹا تھرپیڈ نے فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے بنائی گئی دیکھ بھال کی کمیٹی کے اراکین کو رقم حوالے کی۔ اس موقع پر خزانچی بہولیان اور نائب صدر اروموکھن بھی موجود تھے۔

کنگارو کورٹ ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند=========================ے

کنگارو کورٹ ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند
=========================
(اردو دنیانیوز۷۲)
 چیف جسٹس این  وی رمنا نے الیکٹرونک میڈیا کے ذریعہ اہم اور حساس موضوعات پر میڈیا ٹرائل کو کنگارو کورٹ سے تعبیر کیا ہے، جوڈیشیل اکیڈمی رانچی میں نیشنل یونیورسیٹی آف اسٹدی اینڈ ریسرچ ان لا (این ، یو ، ایس، آر ایل) کے تحت منعقد ’’ججز کی زندگی‘‘ کے موضوع پر ایک پروگرام میں ان کا درد وکرب چھلک کر باہر آگیا، انہوں نے کہا کہ میڈیا ٹرائل کی وجہ سے تجربہ کار ججوں کو بھی فیصلہ کرنے میں دشواری پیش آتی ہے، میڈیا کے اس عمل سے ہماری جمہوریت دو قدم پیچھے چلی جا رہی ہے، انصاف کی فراہمی سے متعلق مسائل پر غلط اور ایجنڈے پر مبنی مباحثے جمہوریت کی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں۔ پرنٹ میڈیا کسی حد تک ذمہ دار ہے، لیکن الکٹرونک اور سوشل میڈیا  بے لگام ہے، جس کی اس کو قطعا اجازت نہیں ملنی چاہیے، کثیر تعداد میں مقدمات کے التوا ہونے کی وجہ انہوں نے عدالتی آسامیوں کو پُر نہ کرنا اور عدالتی ڈھانچوں کو بہتر نہیں بنانا قرار دیا۔
کنگارو ایک جانور ہے، جس کے پیٹ کے باہری حصہ میں ایک تھیلی ہوتی ہے، کنگارو کا بچہ اسی تھیلے میں پل کر  بڑا ہوتا ہے، یہ چھوٹا بچہ جس طرح کنگارو کے تھیلے کو استعمال کرتا ہے، میڈیا اسی طرح ٹرائل کرکے اپنے تھیلے میں موجود چھوٹی چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑا کرکے سماج کے سامنے پیش کرتا ہے، جس سے مقدمات کے سلسلے میں رائے عامہ غلط رخ کی طرف چلی جاتی ہے،ا ور جج صاحبان بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے، وہ معاملات وواقعات کی صحت وصداقت کے سلسلہ میں کنفیوز اور مشکوک ہوجاتے ہیں ، جس کی وجہ سے انہیں فیصلہ کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، میڈیا کا یہ عمل انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے، اس پر پابندی لگانے کے لیے سرکار کو پارلیامنٹ میں کوئی نیا بل لانا چاہیے، اظہار رائے کی آزادی کا مطلب قطعا یہ نہیں ہے کہ آپ فیک نیوز اور جھوٹی بحثیں کراکر انصاف کے عمل کو متاثر کریں ، میڈیا کا یہ طریقہ کار اس قدر جھوٹ اور فریب پر مبنی ہوتا ہے کہ بقول فیض :
وہ بات جس کا سارے فسانے میں ذکر نہیں وہ بات ان کو بہت ناگوار گذری ہے

کنگارو کورٹ ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند

کنگارو کورٹ ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند
=========================
(اردو دینانیوز۷۲)
 چیف جسٹس این  وی رمنا نے الیکٹرونک میڈیا کے ذریعہ اہم اور حساس موضوعات پر میڈیا ٹرائل کو کنگارو کورٹ سے تعبیر کیا ہے، جوڈیشیل اکیڈمی رانچی میں نیشنل یونیورسیٹی آف اسٹدی اینڈ ریسرچ ان لا (این ، یو ، ایس، آر ایل) کے تحت منعقد ’’ججز کی زندگی‘‘ کے موضوع پر ایک پروگرام میں ان کا درد وکرب چھلک کر باہر آگیا، انہوں نے کہا کہ میڈیا ٹرائل کی وجہ سے تجربہ کار ججوں کو بھی فیصلہ کرنے میں دشواری پیش آتی ہے، میڈیا کے اس عمل سے ہماری جمہوریت دو قدم پیچھے چلی جا رہی ہے، انصاف کی فراہمی سے متعلق مسائل پر غلط اور ایجنڈے پر مبنی مباحثے جمہوریت کی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں۔ پرنٹ میڈیا کسی حد تک ذمہ دار ہے، لیکن الکٹرونک اور سوشل میڈیا  بے لگام ہے، جس کی اس کو قطعا اجازت نہیں ملنی چاہیے، کثیر تعداد میں مقدمات کے التوا ہونے کی وجہ انہوں نے عدالتی آسامیوں کو پُر نہ کرنا اور عدالتی ڈھانچوں کو بہتر نہیں بنانا قرار دیا۔
کنگارو ایک جانور ہے، جس کے پیٹ کے باہری حصہ میں ایک تھیلی ہوتی ہے، کنگارو کا بچہ اسی تھیلے میں پل کر  بڑا ہوتا ہے، یہ چھوٹا بچہ جس طرح کنگارو کے تھیلے کو استعمال کرتا ہے، میڈیا اسی طرح ٹرائل کرکے اپنے تھیلے میں موجود چھوٹی چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑا کرکے سماج کے سامنے پیش کرتا ہے، جس سے مقدمات کے سلسلے میں رائے عامہ غلط رخ کی طرف چلی جاتی ہے،ا ور جج صاحبان بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے، وہ معاملات وواقعات کی صحت وصداقت کے سلسلہ میں کنفیوز اور مشکوک ہوجاتے ہیں ، جس کی وجہ سے انہیں فیصلہ کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، میڈیا کا یہ عمل انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے، اس پر پابندی لگانے کے لیے سرکار کو پارلیامنٹ میں کوئی نیا بل لانا چاہیے، اظہار رائے کی آزادی کا مطلب قطعا یہ نہیں ہے کہ آپ فیک نیوز اور جھوٹی بحثیں کراکر انصاف کے عمل کو متاثر کریں ، میڈیا کا یہ طریقہ کار اس قدر جھوٹ اور فریب پر مبنی ہوتا ہے کہ بقول فیض :
وہ بات جس کا سارے فسانے میں ذکر نہیں وہ بات ان کو بہت ناگوار گذری ہے

سعو دی عرب : عدالت نے لڑکی کو مرضی سے شادی کا اختیار دیا

سعو دی عرب : عدالت نے لڑکی کو مرضی سے شادی کا اختیار دیا


(ریاض اردو دنیا نیوز ۷۲)

ریاض : سعودی عرب کے صوبے قصیم کے شہرعنیزہ کی ایک لڑکی کو قصیم اپیل کورٹ نے اپنی مرضی سے شادی کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔ عنیزہ شہر کی لڑکی کا مسئلہ اس وقت خبروں کی زینت بنا جب پرائمری کورٹ نے اس کی شادی کا اختیار عدالت سے رجوع کرنے کے باوجود اس کے بھائیوں کے پاس برقرار رکھا۔ لڑکی کے بھائی اس کی شادی میں مختلف حیلوں بہانوں سے رکاوٹیں ڈال رہے تھے۔

اپیل کورٹ نے اس مسئلے کو نمٹاتے ہوئے واضح کیا کہ پرائمری کورٹ کا فیصلہ خلاف قانون اور خلاف شرع تھا۔ لڑکی کا دعویٰ تھا کہ 'بھائی جان بوجھ کر شادی کے لیے آنے والے لڑکے میں کوئی نہ کوئی خامی نکال کر رشتہ مسترد کردیتے ہیں۔ آخری بار ایک ایسے لڑکے کا رشتہ یہ کہہ کر مسترد کردیا تھا کہ وہ گٹار بجاتا ہے اور دینی اعتبار سے ہماری بہن کے لیے موزوں نہیں۔ رشتہ قبول نہ کرنے کا ایک سبب بھائیوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ ہمارے خاندان کے ہم پلہ نہیں۔

اپیل کورٹ نے بھائیوں کی جانب سے پیش کردہ یہ اعتراضات مسترد کردیے اوربھائیوں سے بہن کی شادی کا اختیار سلب کرتے ہوئے کہا کہ یہ خاتون اپنی مرضی سے شادی کرسکتی ہے۔ یاد رہے کہ سعودی عرب میں بیٹیوں اور بہنوں کو شادی سے روکنے کا رواج ہے۔ اسے ' العضل یا الحجر' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بیٹی یا بہن کو خاندانی جائیداد باہر جانے سے روکنے یا خاندان کے کسی فرد سے بیٹی یا بہن کو منسوب کرنے کے لیے یہ طریقہ کار اپنایا جاتا ہے۔

پیر, اگست 01, 2022

مولانا ڈاکٹر محمد عالم قاسمی کی تصنیف "نقوش تابندہ" کا رسم اجرا

مولانا ڈاکٹر محمد عالم قاسمی کی تصنیف "نقوش تابندہ" کا رسم اجرا
پٹنہ یکم اگست (پریس اعلانیہ اردودنیانیوز۷۲) گزشتہ دنوں مولانا ڈاکٹر محمد عالم قاسمی، جنرل سیکریٹری آل انڈیا ملی کونسل بہار کی تازہ ترین تصنیف "نقوش تابندہ" کے رسم اجرا کی تقریب آل انڈیا ملی کونسل بہار کی آفس پھلواری شریف پٹنہ میں منعقد ہو ئ، جس میں معززین شہر، اراکین ملی کونسل و دیگر حضرات شریک ہوئے،
 مفکر اسلام حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی قومی نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل نے فرمایا کہ یہ کتاب عمدہ مضامین و قیمتی مقالات کا مجموعہ ہے، جس سے دینی رہنمائی اوربہت سے موضوعات پر وقیع معلومات میں اضافہ ہوتا ہے، دعا ہے کہ مولانا کی دیگر تصانیف کی طرح اس کو بھی قبولیت عامہ حاصل ہو، ڈاکٹر مولانا عتیق الرحمن قاسمی صدر آل انڈیا ملی کونسل بہار نے اس عمدہ تصنیف پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ مولانا محمد عالم قاسمی کو لکھنے پڑھنے کا عمدہ ذوق ہے اس لیے انکے قلم گہر بار سے معیاری کتابیں منصہء شہودپر آتی رہتی ہیں، اللہ تعالیٰ اسے شرف قبولیت بخشے،
جبکہ مولانا ڈاکٹر نور السلام ندوی نے تفصیل سے اس کتاب پر اپنا تبصرہ پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ ڈاکٹر مولانا محمد عالم قاسمی بہار کے ان ممتاز علماء کرام میں سے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے تحریر و تقریر کا عظیم ملکہ عطا فر مایا ہے، اس کتاب میں مضامین بہت عمدہ اور معلوماتی ہیں، دینی و ادبی ودیگر معلومات کا یہ بہترین گلدستہ ہے، خاص طور پر اس کتاب کے عرض مصنف میں اردو ادب کے حوالے سے مختصر لفظوں میں ادبی تاریخ پر عمدہ روشنی ڈالی گئی ہے، اسی طرح قرآن مجید کے اردو تراجم پر بہت سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اور اردو صحافت پر بھی گرانقدر مبسوط مقالہ ہے اس طرح بہت سے اہم مضامین اس میں شامل ہیں اس عمدہ تصنیف پر مولانا موصوف کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں، انکے علاوہ اس تقریب میں شرکت والے حضرات کے اسمائے گرامی ہیں جناب ڈاکٹر عارف الاسلام، گورنمنٹ طبی کالج پٹنہ، جناب اعجاز شعیب، مولانا ڈاکٹر سجاد احمد ندوی، مولانا محمد اکرم قاسمی پتونا، مدھوبنی ،مولانا فاروق قاسمی گیا، مولانا مفتی جمال الدین قاسمی پٹنہ، اور ظفر عالم پٹنہ وغیرہ قابل ذکر ہیں.

شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
(اردو دنیا نیوز ۷۲)

 حافظ ، قاری ، مولانا اقبال حیدر ندوی بن سید سلیم الدین حیدر (ولادت ۲۶؍ جنوری ۱۹۷۹ء ساکن سید ٹولہ استھانواں ضلع نالندہ بہار امام وخطیب مسجد سید ٹولہ استھانواں کثرت سے لکھتے ہیں ان کے مضامین ملک کے مؤقر ماہنامے، روزنامے اور ہفتہ وار جرائد ورسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں،  زیر مطالعہ کتاب ان کے منتخب مضامین کا مجموعہ ہے، کتاب پانچ ابواب اسلامیات، اخلاقیات، شخصیات، سائنسی علوم اور صحت وتندرستی پر مشتمل ہے، باب کی سرخی نہیں لگائی گئی ہے ، لیکن مضامین کی درجہ بندی ابواب کی طرح ہی کی گئی ہے،جس سے قاری بآسانی اپنے مطلب کے مضامین تک رسائی حاصل کر سکتا ہے، یہ کل پچپن (۵۵)مضامین ہیں، جو مختلف عنوانات پر مشتمل ہیں، اپنی تحریری خدمات کی وجہ سے مولانا موصوف کم از کم نو ایوارڈ واعزازات اپنے نام کر چکے ہیں۔
 مضامین کی درجہ بندی کے ساتھ سات افراد کی تحریریں مصنف اور اس کے مندرجات کی علمی قدر وقیمت کی تعیین کے لیے شامل کتاب ہیں ، اول نمبر پر تعارفی خاکہ ہے جس کے مرتب کا نام درج نہیں ہے، اس لیے غالب گمان یہ ہے کہ ’’بقلم خود‘‘ ہے، مقدمہ حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی، پیش لفظ مولانا انیس الرحمن قاسمی سابق ناظم امارت شرعیہ ، کچھ باتیں اس کتاب کے بارے میں پروفیسر شہزاد انجم، تفکرات ڈاکٹر آفتاب احمد منیری ، حرف ادراک شاہ نواز حیدر شمسی اور عرضِ مؤلف خود مولانا اقبال حیدر ندوی کے قلم سے ہے ، کتاب کا انتساب مصنف نے اپنے نانا مشہور عالم دین مولانا قاری سید فصیح احمد صاحب اور نانی سیدۃ بازغۃ النہار کے نام کیا ہے جو ان دونوں شخصیات سے ان کے قلبی تعلق اور وارفتگی کی غماز ہے، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے چھپی یہ کتاب دو سو چھپن (۲۵۶)صفحات پر مشتمل ہے اور صرف ڈھائی سو کی تعداد میں چھپی ہے، قیمت دو سو روپے ہے، ملنے کے پتے کتاب پر نصف درجن سے زائد درج ہیں، اگر آپ پٹنہ میں ہیں تو بُک امپوریم سبزی باغ، نالندہ میں ہیں تو مصنف کے پتے سے حاصل کر سکتے ہیں۔ 
جہاں تک کتاب کے مندرجات کا سوال ہے تو اس کے بارے میں شاہنواز حیدر شمسی نے لکھا ہے کہ ’’موضوعات ومضامین کی نوعیت ، مواد کی جاذبیت، اسلوب کی دلکشی، زبان وبیان کی برجستگی وبے ساختگی ، اصول وعزائم کی پابندی ، دور اندیشی ومعاملہ فہمی کی پیوستگی کے باعث با معنی اور پُر معیار ہے‘‘ (صفحہ ۲۹) آفتاب احمد منیری لکھتے ہیں، ’’اس کتاب کی ایک اور نمایاں خوبی مصنف کا اسلوب نگارش ہے، انہوں نے دین کے بنیادی شعائر سے لے کر اصلاحی مضامین کی پیش کش میں پے چیدہ الفاظ سے گریز کرتے ہوئے عام فہم زبان استعمال کی ہے‘‘ (صفحہ ۲۲) شہزاد انجم صاحب لکھتے ہیں ’’اس کتاب کی نثر سادہ، زبان سلیس اور عام فہم ہے، جسے کوئی بھی شخص آسانی سے پڑھ کر سمجھ سکتا ہے ، مولانا اقبال حیدر اپنی باتوں کو آسان لفظوں میں بیان کرنے کا ہنر جانتے ہیں (صفحہ ۱۷) مولانا انیس الرحمن قاسمی سابق ناظم امارت شرعیہ لکھتے ہیں’’اپنی تحریری صلاحیت کو بھی قوم وملت کے نفع کے لیے استعمال کرکے یہ ثابت کر دیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جو علم وفن دیا ہے وہ اس کا شکر ادا کرتے اور اس کو برتنے کے فن سے واقف ہیں (صفحہ ۱۲) مرشد امت حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی دامت برکاتہم نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ لوگوں کو ان کے مضامین سے نفع پہونچے گا۔
 کتاب کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا کامطالعہ وسیع ہے اور ان میں گہرائی وگیرائی ہے ، انہوں نے جن موضوعات پر بات کی ہے، سلیقہ سے کی ہے ، ان مضامین میں انہوں نے رطب ویابس سے پر ہیز کیا ہے ، صارفیت اور مشغولیت کے اس دور میں طویل مضامین اور ضخیم کتابوں کو پڑھنے کی فرصت کسے ہے؟ اس لیے اب لوگ مجموعہ مضامین کو ہی کتابی شکل دینے لگے ہیں، ہر مضمون ایک اکائی ہے ، فرصت کے مطابق پڑھیے اور قسطوں میں کتاب ختم کیجئے، ’’شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات‘‘ کی ترتیب بھی مصنف نے اسی نقطہ نظر سے کی ہے اور اس میں وہ کامیاب ہیں، مولانا اقبال حیدر ندوی نے جتنا لکھا ہے یہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے ، ایسی کئی جلدیں ان کے مضامین کی اور تیار ہو سکتی ہیں، اللہ کرے وہ اس کام کو آگے بڑھاسکیں۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...