Powered By Blogger

ہفتہ, اگست 06, 2022

روئیں وہ جو منکر ہیں شہادت حسین کے ۔شمشیر عالم مظاہری دربھنگویامام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار

روئیں وہ جو منکر ہیں شہادت حسین کے ۔
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار 
(اردو دنیا نیوز۷۲)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے نواسے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ و حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے چھوٹے صاحبزے حضرت حسین کی ولادت شعبان چار (4) ہجری میں ہوئی رسولِ خدا ﷺ نے ہی ان کا نام حسین رکھا ،ان کو شہد چٹایا، ان کے منہ میں اپنی زبان مبارک داخل کرکے لعاب مبارک عطا فرمایا اور ان کا عقیقہ کرنے اور بالوں کے 
 ہم وزن چاندی صدقہ کرنے کا حکم دیا ۔ حضرت فاطمہ نے ان کے عقیقہ کے بالوں کے برابر چاندی صدقہ کی اپنے بڑے بھائی حضرت حسن کی طرح حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ بھی رسول اللہ ﷺ کے مشابہ تھے اور آپ ﷺ کو ان سے بھی غیر معمولی محبت اور تعلق تھا جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو حضرت حسین کی عمر صرف چھ یا سات سال تھی لیکن یہ چھ سات سال آپ کی صحبت اور محبت و شفقت میں گزرے رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے خاص لطف و کرم اور محبت کا برتاؤ کیا حضرت عمر کے آخری زمانۂ خلافت میں آپ نے جہاد میں شرکت شروع کی ہے اور پھر بہت سے معرکوں میں شریک رہے حضرت عثمان غنی کے زمانہ میں جب باغیوں نے ان کے گھر کا محاصرہ کر لیا تھا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے دونوں بیٹوں حسن اور حسین کو ان کے گھر کی حفاظت کے لیے مقرر کر دیا تھا حضرت علی کی شہادت کے بعد حضرت حسن نے جب حضرت معاویہ سے مصالحت کرکے خلافت سے دستبرداری کے ارادہ کا اظہار کیا تو حضرت حسین نے بھائی کی رائے سے اختلاف کیا لیکن بڑے بھائی کے احترام میں ان کے فیصلہ کو تسلیم کر لیا البتہ جب حضرت حسن کی وفات کے بعد حضرت معاویہ نے یزید کی خلافت کی بیعت لی تو حضرت حسین اس کو کسی طرح برداشت نہ کرسکے اور یزید کے خلیفہ بن جانے کے بعد آپ نے بہت سے مخلصین کی رائے ومشورہ کو نظر انداز کرکے جہاد کے ارادہ سے مدینہ طیبہ سے کوفہ کے لیے تشریف لے چلے ابھی مقام کر بلاء ہی تک پہنچے تھے کہ واقعہ کربلا کا پیش آیا اور آپ وہاں شہید کر دیئے گئے رضی اللہ عنہ، وارضاہ۔  تاریخ وفات دس (10)محرم اکسٹھ (61) ہجری ہے اس وقت عمر شریف تقریباً پچپن (55) سال تھی
امام ترمذی نے حضرت یعلی بن مرہ کی روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا ۔  حسین  منی و انا من حسین احب اللہ من احب حسینا حسین سبط من الاسباط (جامع ترمذی) 
 ترجمہ۔ حسین میرے ہیں اور میں حسین کا، جو حسین سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کرے حسین میرے ایک نوا سے ہیں ۔
حسین زندہ ہیں جنت میں چین کرتے ہیں ،
حسد ہے ان کو جو شور شین کرتے ہیں ۔
شہادت تو ایسی چیز نہیں کہ اس پر رنج و غم کا اظہار کیا جائے ماتم کیا جائے یا انگاروں پر رقص بسمل کیا جائے ۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ لشکرِ کفار کو خطاب کرکے کہا کرتے تھے ظالمو تمہیں شراب ا تنی محبوب نہیں جتنی ہمیں اللہ کے راستے میں موت محبوب ہے ۔
شہید کی موت 
ایک شہید کی موت پر ذرا غور کیجئے ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ایک مردِ مجاہد میدان جہاد میں زخم کھا کر گھوڑے سے گر پڑا اور اس کی روح پرواز کر گئی ہم نے اس کی موت کا یقین کر لیا اس کی نمازِ جنازہ پڑھی گئی اور وہ قبر میں دفن کردیاگیا ساری دنیا نے مان لیا اور اعلان کردیا کہ وہ مر گیا ‌۔  لیکن عالم الغیب والشہادہ  کا اس کے بارے میں یہ اعلان اور فرمان ہے ۔
مفہوم ! راہ خدا کے شہیدوں کو یہ نہ سمجھ لو کہ وہ مر گئے فنا ہو گئے نہیں بلکہ وہ خدا کے پاس ایک بہترین زندگی میں جی رہے ہیں اور یہی نہیں کہ وہ دل بہلاوے کی برائے نام زندگی ہو نہیں بلکہ وہ وہاں روزیاں دیئے جا رہے ہیں اور وہ بھی خدا کی طرف سے۔  سنو جو فضل خدا انہیں وہاں حاصل ہے اس پر وہ خوشیاں منا رہے ہیں بلکہ اس راہ کے اور رہروؤں کو بھی وہ وہیں سے یہ خوشخبریاں پہنچا رہے ہیں کہ وہ بھی نہ ترساں ہوں نہ ہراساں ہوں بے خوف رہیں بے غم رہیں یہ شہداء خود بھی خوشیوں میں ہیں اور آنے والے شہداء کو بھی خوشیاں پہنچا رہے ہیں کہ اللہ تعالی کا فضل اور اللہ کی نعمت انہیں ملنے والی ہے۔  یہ تو یقینی بات ہے کہ کسی ایماندار کے کسی عمل کا اجر خداوند ذوالجلال ضائع نہیں کرتا پھر شہداء جو اپنے خون میں راہ للہ نہا چکے ان کے اجر وہ ارحم الراحمین خدا کیسے کھودے گا ؟ 
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ  نے ایک دن صحابہ کے مجمع کے سامنے بیان فرمایا کہ جس دن جنگ احد کے موقع پر تمہارے ساتھی شہید ہوئے جنابِ باری تبارک و تعالی نے ان کی روحوں کو سبز رنگ کے پرندوں کے جسموں میں کردیا جنت کی نہروں کا وہ پانی پئیں اور جنت کے میوے اور پھل پھول کھائیں اور راتوں کو عرش تلے کی سونے کی قندیلوں میں رہیں سہیں جب ایسی بہترین جگہ اور اتنی نفیس غذا انہیں ملی تو یہ آپس میں کہنے لگے کہ کیا اچھا ہوتا جو کوئی یہ خبر ہمارے زندہ بھائیوں کو بھی پہنچا دیتا کہ ہم یہاں زندہ ہیں اور اس عیش و عشرت میں چین کر رہے ہیں تاکہ وہ بھی یہاں پہنچنے کی کوشش کریں لڑائی میں سست نہ پڑجائیں اور جنت کی طمع میں بڑھ جائیں ان کی اس آرزو کو دیکھ کر جناب باری تعالیٰ نے فرمایا میں تمہاری اس خواہش کو پوری کردیتا ہوں اسی وقت حضرت جبریلِ امیں کو یہ آیتیں دے کر بھیجا (و لا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء عند ربھم یرزقون) (ابو داؤد)
شہادت کی موت کا جو عظیم رتبہ اور بلند مرتبہ ہے ہماری دنیا کی زندگی اس عظمت نشان موت کے مقابلے میں بھلا کیا حقیقت رکھتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تمام مقبولان بارگاہ الہی میں ہمیشہ شہادت کی تمنا کرتے رہے بلکہ خود دونوں عالم کے تاجدار محبوب پروردگار ﷺ  نے بار بار اس کی تمنا کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا ۔ مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضۂ  قدرت میں میری جان ہے کہ یہ میری تمنا ہے کہ میں خدا کی راہ میں قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں، (مشکوٰۃ)
رحمتِ عالم ﷺ یہ تمنا  فرما رہے ہیں کہ مجھے شہادت کی موت نصیب ہو پھر اس کے بعد مجھے نئی نئی زندگی ملے اور ہر زندگی کے بعد میں خدا کی راہ میں قتل کیا جاؤں یہ میری آرزو ہے ۔
روئیں وہ جو منکر ہیں شہادت حسین کے ۔
ہم زندہ جاوید کا ماتم نہیں کرتے

اسلام اور مسلمان (جلد دوم)

اسلام اور مسلمان (جلد دوم)
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند
=========================
( اردو دنیانیوز۷۲)
چند ماہ قبل امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے ہاتھوں امارت شرعیہ کی میٹنگ روم میں پروفیسر ڈاکٹر محمد یونس حسین حکیم (ولادت ۲۲؍جولائی ۱۹۴۳ئ؁) بن سخاوت علی کی کتاب’’ اسلام اور مسلمان حصہ دوم‘‘ کا اجراء عمل میں آیا، جو عقیدۂ رسالت مع سیرۃ النبی کے موضوع پر ہے، اس کتاب کی اشاعت دینی تعلیمی مرکز گرین دھرم پورسمستی پور سے ہوئی ہے، کمپوزنگ سیف اللہ ندوی علی گڑھ کی ہے، جس میں سلیقگی ہے، ٹائٹل پر گنبد خضرا مع مسجد نبوی کے مینار کی شمولیت نے اسے دیدہ زیب بنا دیا ہے، تین سو اٹھائیس(۳۲۸) صفحہ کا ہدیہ تین سو روپے ہے، ہدیہ اجباری نہیں ہوتا، لیکن جب یہ قیمت کے معنی میں آتا ہے تو اس کے حقیقی معنی متروک ہوجاتے ہیں، تین سو روپے دیجئے اور کتاب حاصل کیجئے، کتاب حاصل کرنے کا پتہ گرین لینڈ اسکول ہے اور پتہ ناشر کے ذیل میں اوپر درج کیا گیا ہے، رابطہ نمبر 9661754509 پر رابطہ کرلینے سے شاید مفت ملنے کی شکل بھی نکل آئے، طلب کی دونوں قسم ہے، ہدیۃً بھی اور مجاناً بھی، آپ طلب کرکے تو دیکھئے۔
’’عقیدہ رسالت اور مضامین سیرۃ النبی‘‘ سے پہلے آپ کو نصف درجن ان علماء کے تاثرات بھی پڑھنے ہوںگے، جو کتاب کی قدر وقیمت کو واضح کرنے کے لئے ابتداء کتاب میں شامل کیے گیے ہیں، حرف آغاز جو خود مؤلف کتاب کی طرف سے ہے، اس کو شامل کرلیں تو یہ تعداد سات ہوجاتی ہے، حرف آغاز کے بعد مقدمہ مولانا انیس الرحمن قاسمی سابق ناظم امارت شرعیہ، تقریظ پروفیسر شمیم الدین احمد منعمی، کلمات تحسین مولانا ڈاکٹر ابو الکلام قاسمی شمسی تأثرات پروفیسر فاروق احمد صدیقی، اظہار رحمانی، جناب امتیاز احمد کریمی اور تعارف مولانا محمد خالد ضیا صدیقی ندوی کا ہے، ان حضرات نے اپنی تحریروں میں کتاب کے خصائص اور صاحب کتاب کے وسعت مطالعہ کی د ا دی ہے، بعض نے کتاب کے اقتباس نقل کرکے اپنی تحریر کو طویل کیا ہے، مولانا انیس الرحمن قاسمی لکھتے ہیں: ’’یہ کتاب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بہتر مرقع پیش کرتی ہے۔۔۔ ہمیں امید ہے کہ یہ کتاب عند اللہ بھی مقبول ہوگی اور عند الناس بھی (صفحہ ۲۴) پروفیسر سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی نے اس اقرار کے بعد کہ وہ عدیم الفرصتی کی وجہ سے پوری کتاب کا مطالعہ خاطر خواہ طورپر نہ کرسکے، لکھا ہے کہ ’’ایک سرسری نظر میں ان کی کاوش صحت مند محسوس ہوئی، لب ولہجہ آسان اور گفتگو واضح ہے، جس سنجیدگی اور توجہ کے ساتھ انہوں نے سیرت کے مطالعے اور پھر حاصل مطالعہ کے اس قدر ضخیم اظہار کے لیے اپنی علمی وسیاسی مصروفیت کے باوجود وقت نکالا وہ قابل حیرت بھی ہے اور لائق آفریں بھی، (صفحہ۲۷) مولانا ڈاکٹر ابو الکلام قاسمی کی رائے کہ ’’عقیدہ رسالت مع سیرۃ النبیؐ نہایت ہی اہم کتاب ہے، کتاب کی زبان سادہ اور سلیس ہے، یہ کتاب اپنے موضوع پر محیط ہے (صفحہ۲۹) پروفیسر فاروق احمد صدیقی لکھتے ہیں ’’ہر مقام پر ان کا قلم بے حد محتاط اور مؤید من اللہ رہا ہے (صفحہ۳۱) امتیاز احمد کریمی لکھتے ہیں: ’’یہ کتاب سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر طویل کوششوں کا سرمایہ ہے اور سیرت نبوی کے سلسلے میں مفصل رہنمائی کرتی ہے، مولانا محمد خالد ضیا صدیقی ندوی نے اس کتاب کا تعارف پیش کیا ہے، ان کا خیال ہے کہ ’’کتاب جہاں مواد ومباحث اور حسن ترتیب کے لحاظ سے امتیازی شان وشوکت رکھتی ہے، وہیں اپنے اسلوب بیان کے لحاظ سے بھی منفرد مقام رکھتی ہے، پوری کتاب انتہائی سہل، عام فہم، مگر شگفتہ وشائستہ اسلوب کی نمائندگی کرتی ہے، ہر خاص وعام آسانی سے استفادہ کر سکتا ہے، انہوں نے اس کتاب میں پوری دیانت داری کے ساتھ حوالہ کا بھی اہتمام کیا ہے‘‘۔
ان اساطین علم وادب کی تحریروں کے بعد لکھنے کو بچ ہی کیا جاتا ہے، یقینا ڈاکٹریونس حکیم صاحب کی دلچسپی اسلامیات ودینیات سے قابل رشک ہے، وہ سائنس کے طالب علم رہے ہیں اور ایک زمانہ تک اسے پڑھایا بھی ہے، اس لیے ان کے انداز بیان میں حشو وزوائد کا گذر نہیں ہے، انہیں دو اور دو چار کی طرح اپنی بات رکھنے کا فن آتا ہے، اس لیے مشکل مباحث بھی ان کی تحریروں سے قاری کی ذہنی گرفت سے گریزاں نہیں ہوتے، بات عقیدۂ رسالت کی ہو یا سیرت کے واقعات کی وہ بہت سادہ لفظوں میں حقیقت بیان کردیتے ہیں، وہ اسلوب اور تعبیر میں اس کا خیال رکھتے ہیں کہ بات متنازع امور کے دائرے میں نہ جائے، جو متفقہ امور، عقائداور سیرت پاک کے صحیح اور سچے واقعات ہیں، ان کا انتخاب انہوں نے اس کتاب میں پیش کیا ہے اور بہت سارے رطب ویابس سے دامن کشاں گذر گئے ہیں انتخاب واقعات اور عقیدہ کے اس طریقہ کی وجہ سے یہ کتاب سب کے لئے قابل قبول بن گئی ہے، کتاب کے آخر میں حدیث وسیرت کے جن حوالہ جاتی کتب کا ذکر ہے ان میں عربی واردو دونوں زبانوں کی کتابیں ہیں، غالب گمان یہ ہے کہ انہوں نے عربی کتب کے اردو تراجم سے استفادہ کیا ہوگا، حالاں کہ پروفیسر صاحب قرآن کی تفسیر بھی ہر ہفتہ بیان کرتے ہیں، جن میں ان کے مریدین متوسلین اور معتقدین کثرت سے شریک ہوتے ہیں، پروفیسر یونس حسین حکیم صاحب صوفی شہباز علی قادری چشتی کے خلیفہ ہیں، جنہیں سید نور الدین احمد قادری جیلانی سے خلافت ملی تھی، اس حوالہ سے بھی کالج واسکول کے طلبہ اور شاگردوں کی اصلاح کا کام کرتے ہیں، وہ ایک فعال اور متحرک شخص ہیں، عمر کی اس منزل میں جب ان کی زندگی کا سفینہ اسی(۸۰) کی دہائی کراس کرنے والا ہے، وہ انتہائی مستعد اور چاق وچوبند نظر آتے ہیں، وہ چیرمین بہار اسٹیٹ مدرسہ بورڈ بھی رہے ہیں اور ابھی حال ہی میں بہار ریاستی اقلیتی کمیشن کے چیرمین کے عہدے سے سبکدوش ہوئے ہیں اور دونوں عہدے پر رہتے ہوئے جو کچھ ان سے بن پڑا کرنے سے دریغ نہیں کیا، ماضی قریب میں جو مدارس ملحقہ باتنخواہ ہوئے اور جو بقیہ کے لئے کوشش ہورہی ہے، اس کی داغ بیل بھی انہوں نے اپنے وقت میں ہی ڈالی تھی، گذشتہ کئی برسوں سے درس قرآن دینا، دینی کتابوں کا مطالعہ کرنا اور مذہبی جلسوں میں تقریر کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہے، اللہ سے ان کی کتاب کی مقبولیت کے ساتھ موصوف کی محبوبیت اور اخروی زندگی میں مغفرت کی بھی دعا کرنی چاہئے، ہماری خواہش تو یہی ہے کہ وہ اپنے عمر کی سنچری لگا لیں اور جب تک رہیں صحت وعافیت کے ساتھ رہیں۔

ترنگا ہماری شان اور پہچان ہے ۔پروفیسر اخترالوسع

ترنگا ہماری شان اور پہچان ہے ۔پروفیسر اخترالوسع


(منصور الدین فریدی : اردو دنیانیو۷۲)

ترنگا ہماری شان ہے،ترنگا ہماری آن ہے اور ترنگا ہماری پہچان ہے۔ یہی نہیں ترنگا ہمیں جوڑتا ہے بلکہ دنیا میں ہماری پہچان ہے ترنگا۔ جشن آزادی کے موقع پر ترنگا لہرانا چاہیے ،یہ تو تہوار سے بڑھ کر ہے۔دو تین دن کیا ہر ہندوستانی کو اپنے گھر پر لہراتا رہنا چاہیے ترنگا۔

ان تاثرات کا اظہار ممتاز اسلامی اسکالر اور خسرو فاونڈیشن کے ڈائریکٹر پروفیسر اختر الوسع نے کیا۔

ملک آزادی کے تاریخی جشن کی آہٹ ہے ،ملک اپنی آزادی کے 75 سال پورے کررہا ہے۔ بلاشبہ ہر کسی میں ایک غیر معمولی جوش اور جذبہ ہے۔آزادی کے جشن کے ساتھ ساتھ آزادی کی جدوجہد کرنے والے مجاہدین کو یاد کرنے اور خراج عقیدت پیش کرنے کا بھی موقع ہوتا ہے۔ بہرحال یہ جشن کسی ایک برادری یا طبقہ کا نہیں بلکہ یہ ہر ہندوستانی کے لیے ایک بڑے جشن کا موقع ہے۔ فخر کرنے کا موقع ہے۔ کیونکہ اس ملک کی آزادی کی جنگ میں ہر کسی نے برابر کا حصہ لیا تھا۔اس لیے جشن آزادی سب کے لیے فرض ہے۔

پروفیسر اختر الوسع نے کہا کہ آزادی کا جشن کسی ایک فرقے کا نہیں بلکہ ہر کسی کا ہے۔ اس آزادی کے لیے کیا ہندو ، کیا مسلمان ،کیا سکھ اور کیا عیسائی سب نے قربایاں دی ہیں ۔ ہم کو نہیں بھولنا چاہیے کہ 1757 بمیں سراج الدولہ پلاسی میں شہادت پائی اس کے بعد 1857 میں ٹیپو سلطان کی شہادت اور پھر 1857 میں بہادر شاہ ظفرکی قیادت میں بغاوت ۔ اس میں ہر ہندوستانی کی شرکت نے اتحاد کی بہترین مثال قائم کی تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہاس کے ساتھ1806 میں ولور میں انگریزوں کے خلاف اندولن میں جہاں مسلمان فقیروں نے حصہ لیا تھا تو ہندووں کی جانب سے لنگر سنیاسی میدان میں تھے۔یہی نہیں جھانسی کی رانی کے ساتھ حضرت محل کا نام آتا ہے جو جواں مردی سے انگریزوں کے خلاف لڑیں ۔جس کے سبب ہم اس جنگ میں خواتین کی حصہ داری سے انکار نہیں کرسکتے۔

پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ علما نے اس نامک وقت میں انگریزوں کے خلاف جنگ کا فتوی دیا۔ اس کی قیمت اپنی گردنیں کٹوا کر ادا کی لیکن پیچھے نہیں ہٹے۔اگر بات کالا پانی کی کریں تو ہندووں کے ساتھ مسلمان بھی کالا پانی گئے۔ یہی نہیں جب افغانستان میں 1915 میں پہلی جلا وطن حکومت قائم ہوئی تو اس کے صدر اور وزیر اعظم برکت اللہ بھوپالی بنا ئے گئے تھے۔ اس کے وزیر خارجہ مولانا عبداللہ سندھی بنائے گئے تھے۔

پروفیسر اختر الوسع نے کہا کہ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ مہاتما گاندھی کی قیادت میں کانگریس نے جنگ آزادی کی کمان سنبھالی تھی۔کانگریس گاندھی کے ظہور سے قبل ہی آزادی کی جدوجہد کررہی تھی۔اس کے ساتھ ہم مولانا ابولکلام آزاد کے کردار بھی نہیں بھول سکتے ہیں جن کے الہلال البلاغ نے زبردست بیداری پیدا کی تھی۔ وہ 1923 میں کانگریس کے سب سے کم عمر صدر بھی بنے تھے اور سب سے لمبی مدت تک اس عہدے پر فائز رہے تھے۔

ان کے ساتھ بدر الدین طیب جی ،حکیم اجمل خان ،ڈاکٹر مختار احمد انصاری ،محمد علی جوہر جیسے ناموں کو کون بھول سکتا ہے۔اس لیے ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ ہم جشن آزادی کو تاریخی بنائیں ۔اس موقع کو اپنے بزرگوں کی قربانیوں کے بارے میں دنیا کا آگاہ کرنے کے لیے استعمال کریں ۔

الحمدللہ تحفظ شریعت کی طرف سے مسلسل ماہ محرامحرام ۱۴۴۴ھ پروگرام سلسہ وار ابھی تک چل رہا ہے

الحمدللہ تحفظ شریعت کی طرف سے مسلسل ماہ محرامحرام ۱۴۴۴ھ پروگرام سلسہ وار ابھی تک چل رہا ہے 

(اُردو دنیانیوز۷۲)
ماشاءاللہ مسجد قباء موڑ والی مسجد مصوریہ کا پروگرام کامیاب رہا زیرصدارت مولانا عبدالرقیب صاحب قاسمی سابق ناظم دارالعلوم مدنی مصوریہ تلاوت قاری مظفر صباء انجم اور نعت پاک ماسٹر ابو البشر صاحب ڈہٹی و شاعر مولانا فیاض احمد راہی صاحب سونا پور نے کی مقرر خصوصی حضرت مولانا عبدالسلام عادل ندوی صاحب ڈاریکٹر سر سید ایکڈمی جوکی ہاٹ ، حضرت مولانا واصف صاحب قاسمی ، حضرت مولانا عبداللہ سالم قمر صاحب قاسمی چترویدی ، عبدالوارث مظاہری سکریٹری تحفظ شریعت ، حضرت مولانا قاضی وصی احمد صاحب قاسمی امارات شرعیہ ٹیڑھا گاچھ ، پروگرام میں شریک رہے قاری محمد عبدالقدوس ، حافظ محمد مبارک ، حافظ محمد احمد ، طارق انور ، عبدالقدوس صاحب راہی پریس بھیبھرا چوک ، مولانا محمد معاذ ،حافظ مسرور ،عاطف حسین ، مولانا محفوظ صاحب مولانا اعجاز حافظ محمد رمضان وغیرہ موجود رہے اور علاقے کے بہت سارے احباب شریک ہوئے 
اور نگرانی حافظ توصیف صاحب بنارس سے نگرانی کررہے تھے

جمعہ, اگست 05, 2022

ہدف تک رسائی کے بنیادی اصول__مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ہدف تک رسائی کے بنیادی اصول__
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی  نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ (943100313)
(اردودنیانیوز٧٢)
 ہم جہاں کہیں بھی کام کرتے ہیں وہاں مقاصد کے اعتبار سے ہدف طے کیا جاتا ہے، یہ ہدف مختصر مدت کے لیے بھی ہوتے ہیں اور طویل مدتی بھی ، آپ کو ہدف تک پہونچنے کے لیے جو کچھ کرنا ہے اور جو دشواریاں اور مشکلات (Pain point)ہیں اس کی واقفیت لازما ہونی چاہیے، پھر ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ذہنی اور نفسیاتی طور پر تیار رہنا چاہیے، اس لیے کہ ذمہ داران آپ کی پریشانیاں سننے کے بجائے آپ کی کامیابیاں سننا زیادہ پسند کرتے ہیں اور آپ کو ہر حال میں اس کسوٹی پر پورا اترنا ہے، اگر آپ ہدف تک نہیں پہونچ سکے تو یہ آپ کی صلاحیت کی کمی سمجھی جائے گی ، اس لیے رکاوٹوں سے قطع نظر ہدف تک رسائی کے لیے کامیاب منصوبہ بندی کیجئے، اگر آپ کو ہدف سالانہ دیا گیا ہے تو اس کو مہینہ؛ بلکہ ہفتہ پر تقسیم کریں ، بلیک یا سفید بورڈ جیسا دستیاب ہو اس پر ہر روز کم از کم اس دن کا ہدف لکھیے، شام کو جائزہ لیجئے کہ سالانہ ہدف تک پہونچنے کے لیے آج جتنا کام ہم کر سکتے تھے، جن لوگوں سے مل سکتے تھے، وہ ہم کر پا ئے یا نہیں، اس بورڈ کے استعمال کا بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ آپ کی نگاہ ہر وقت ہدف پر ٹکی رہے گی ، لوگوں کی بھیڑ کام کی کثرت اور قضایا منتشرہ کو حل کرنے میں جو وقت آپ کا لگتا ہے اس سے کبھی کبھی ذہنی خاکوں میں ذہول ہوجاتا ہے، اور ہدف تک پہونچنے کے اعتبار سے وہ دن ایسے ہی گذر جاتا ہے ۔
 ہدف تک رسائی کے لیے صحیح لگن اور ذاتی دلچسپی کو بڑا دخل ہے، آپ کے ذمہ کوئی ایسا کام کر دیا گیا جس سے آپ کی دلچسپی نہیں ہے تو ہدف تک پہونچنے کے لیے دل میں لگن نہیں پیدا ہوگی اور لگن نہیں ہوئی تو ہدف تک پہونچنا دشوار ہوگا۔
 دلچسپی اور لگن کے باوجود اگر اپنے رفقاء سے کام لینے کی صلاحیت آپ میں نہیں ہے تو آپ اجتماعی طور پر ہدف تک پہونچنے کے لیے کام نہیں کر سکتے، آج کل کام تنہا نہیں ہوتا، ٹیم ورک ہوتا ہے؛ اس لیے ٹیم کے افراد کو جوڑ کر چلنا اور ان کی صلاحیتوں کا استعمال، ہدف تک رسائی کے لیے آپ کی ضرورت ہے، اگر آپ جماعت کے لیڈر ہیں تو آپ کو اپنے رفقاء کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا ہوگا، آپ کسی کی خودی اور خودداری کو ٹھیس پہونچا کر اس سے کام نہیں لے سکتے ،کام ’’مزدور بد دل‘‘ سے نہیں ’’خوش دل‘‘ سے نکلتا ہے، اگر آپ اچھا رویہ نہیں رکھتے ہیں تومزدوروں او راپنے رفقاء کار سے آپ کواچھے سلوک کی امید نہیں رکھنی چاہیے، ہر انسان محبت اور تعریف کا بھوکا ہوتا ہے، اگر آپ کسی کی تعریف کرتے ہیں تو یقینی طور پر اس کی تصویر لوگوں میں خوش نما بنتی ہے اور اس کا دل کام میں لگتا ہے اور آپ کے رفقاء کار کا رویہ بھی آپ کے ساتھ خوش گوار ہوتا ہے۔
 کم وبیش ہر ادارہ میں بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو دوسرے کے ذریعہ کیے گیے کام کو ذمہ داروں کے سامنے اس طرح بیان کرتے ہیں کہ جیسے سب کچھ انہوں نے ہی کیا ہے اور جس کے ذمہ وہ کام کیا گیا تھا وہ تو نا لائق ، نکما اور کاہل ہے، اس منفی سوچ کو بڑوں تک پہونچادینے سے بھی کارکنوں میں بد دلی پیدا ہوجاتی ہے ، ہدف تک پہونچنے کے لیے ضروری ہے کہ کارکنوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے ،انہیں بُرا بھلا کہنے سے گریز کیا جائے، بہت ضروری ہو تو سلیقہ کے ساتھ تنہائی میں سمجھایا جائے، کارکنوں کی عزت نفس اور ان کی ضروریات کو نظر انداز نہ کیا جائے، اور ہر حال میں نیوٹن کے اس فارمولے کو یاد رکھا جائے کہ جس قوت سے کسی چیز کو پھینکا جاتا ہے اس کے اندر اسی قوت سے لوٹنے کی بھی صلاحیت ہوا کرتی ہے، آپ نے گنبد کی آواز تو سنی ہوگی ، جیسا بولتے ہیں گونج کر وہی چیز واپس ہوتی ہے، مثل مشہور ہے’’ہے یہ گنبد کی صدا جیسی کہو ویسی سنو‘‘ ہمارا ماننا ہے کہ خاندان، سماج ، ادارے، تنظیموں کے بڑے اور ذمہ داروں کو ترکی بترکی جواب دینا غیر مناسب عمل ہے، لیکن کبھی خاموش رہ جائیے تو لوگ بولنے کی حدیں بھول جاتے ہیں۔
 ہدف تک رسائی کے لیے لگن کے ساتھ تجربات بھی کرنے چاہیے، ہو سکتا ہے بندھے ٹکے اصولوں پر چلنے کے بجائے آپ اپنے تجربہ سے کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ راستہ نکالنے میں کامیاب ہوجائیں۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ جو لوگ اپنے اوپر بیماری یا مختلف کاموں کی فکر کواوڑھ لیتے ہیں دھیرے دھیرے وہ بیمار ہوجاتے ہیں اور ان کی فکر انہیں لاغر اور کبھی کبھی تو مایوسی کی انتہا تک پہونچادیتی ہے ، ایسا شخص خود کشی تک کی بات سوچنے لگتا ہے، اس لیے کام لگن سے کیجئے، حوصلے سے کیجئے، اپنی صلاحیت کا پورا پورا استعمال کیجئے، لیکن اپنے اوپر اس قدر کام کو طاری نہ کر لیجئے کہ آپ ہنسنا اور مسکرانا بھول جائیں، ہنسیے مسکرائیے، فاضل وقت کا استعمال بچوں کے ساتھ سیر وتفریح میں لگائیے، آپ دیکھیں گے کہ اگلے دن آپ کا م کے لیے بالکل تر وتازہ اور ہشاش بشاش ہیں، اگر آپ کامیابی کے تئیں شک وشبہ میں پڑ گیے تو آپ کی کام کی صلاحیت کمزور ہو گی اور آپ کے لیے ہدف تک پہونچنا دشوار ہو جائے گا۔
 آپ اپنے رفقاء کار میں نرم روی، خوش نما الفاظ اور شاباشی کے ذریعہ کام کے تئیں اور ہدف تک رسائی کے لیے جوش وولولہ بھرنے کا کام کریں ، آپ اپنے رویہ سے لوگوں کے ذہن میں ڈالیں کہ آپ عہدے پر ہونے کی وجہ سے دوسروں کو حقیر نہیں سمجھ رہے ہیں، آپ کے جملے لوگوں کا دل توڑ بھی سکتے ہیں اور جوڑ بھی، کسی نا خوش گوار واقعات کا اثر اس قدر نہ لیں کہ آپ کا چہرہ بولنے لگے کہ آپ مخالف مزاج حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔اس سے آپ کی انفعالی کیفیت یعنی جلد متاثر ہونے کا پتہ چلتا ہے، جسے نفسیاتی کمزوری کے ذیل میں رکھا جاتا ہے۔
 اگر آپ ہدف تک پہونچنا اور رفقاء کار کو پہونچانا چاہتے ہیں تو آپ کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ آپ بھی عام انسانوں کی طرح ایک انسان ہیں، برطانیہ کی بادشاہت آپ کے ذمہ نہیں ہے، جس کے بارے میں مشہور ہے کہ ملکہ سے غلطیاں نہیں ہو سکتیں، اس لیے اپنی غلطیوں کو بھی مان لیجئے اس سے آپ چھوٹے نہیں ہو جائیں گے ، اور اپنی غلطیوں کی بے جاتاویلات کرکے جو آپ دامن کش ہوتے ہیں اسے نفسیات کی اصطلاح میں خود سے فرار اختیار کرنا کہا جاتا ہے، اگر آپ ٹیم لیڈر ہیں اور خود سے فرار اختیار کررہے ہیں تو اس ہدف کا کیا ہوگا جو ادارہ کی طرف سے آپ کو ملا ہے، آپ چاہے جس قدر باتیں بنالیں، لیکن آپ کا شمار ناکام انسانوں میں ہوگا، اور آپ اپنی کار کردگی سے کبھی مطمئن نہیں ہو پائیں گے، خوش نہیں رہ پائیں گے، خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ دولت اور زبان عہدہ اور زبان کسی کو بھی جانچنے اور پرکھنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ آپ کی اصلیت اور آپ کے خاندان کا پتہ اس سے لوگوں کو چل جاتا ہے ۔زندگی میں نشیب وفراز اور اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں،’’ تلک الایام نداولھا بین الناس‘‘ کا یہی مطلب ہے ۔ اتار چڑھاؤ سے اگر آپ گھبراگیے تو ہدف پیچھے رہ جائے گا، اس لئے اتار چڑھاؤ ، مد وجزر کے دور میں بھی خود پر قابو رکھیے او رہدف کو آنکھوں سے اوجھل نہیں ہو نے دیجئے۔
 ہدف تک رسائی کے لیے ان طریقوں پر بھی نگاہ رکھنا ضروری ہے، جس کے ذریعہ ہمیں ہدف تک پہونچنا ہے، ہر ادارے کے کام کا ایک طریقہ ہوتا ہے، اور سر براہ کا ایک وزن ہوتا ہے، اپنے سر براہ کے وزن اور نظریہ کے مطابق کام کرنا شروع کیجئے، ممکن ہو تو راستے کی دشواریوں کو بھی ان سے بیان کیجئے ،ان کے صلاح اور مشوروں سے کام کو آگے بڑھائیں، یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہمارے یہاں ہدف تک رسائی ہی ضروری نہیں؛ بلکہ اس کا طریقۂ کار بھی کمپنی یا ادارے کے نظریات کے مطابق ہی ہونا چاہیے، لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ راستے میں کنکر پتھر کتنے تھے اور یہ کنکر پتھر سڑک پر تھے یا آپ کے موزے میں گھُس کر آپ کو چلنے سے روک رہے تھے اور آپ کے پاؤں لہو لہان ہوا ٹھے تھے ، لوگ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ آپ اپنے مقصد کو پانے اورمقررہ ہدف تک پہونچنے میں کس قدر کامیاب ہوئے، اگر مذکورہ بالا امور کو سامنے رکھ کر منصوبہ بند انداز میں کام کیا جائے تو ہدف تک پہونچنا دشوار نہیں ہوگا۔
ایک بڑا مسئلہ ہدف تک پہونچنے کے لیے وسائل کا ہوتا ہے، مثل مشہور ہے’’چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائیے‘‘ اگر آپ نے وسائل کو نظر انداز کرکے مقاصد اور ہدف طے کیے تو وسائل کی قلت ہی آپ کے راستے کا روڑہ بن سکتی ہے، ہدف تک پہونچنا خواب نہیں، نتائج پر مشتمل عمل کا نام ہے، اور عمل کے لیے آپ کے پاس وسائل ہی نہیں ہیں، یا وسائل سے زیادہ کام شروع کر دیا تو پھر ناکامی ہی آپ کا مقدر ہو گی، اس لیے ہدف کا تعیین خوابوں کی دنیا میں رہ کر نہیں، حقیقت کی سنگلاخ زمین کو سامنے رکھ کر کیجئے، آپ اپنی صلاحیتوں کا بھی جائزہ لیجئے کہ اس ہدف تک پہونچنے کے لیے جس سرمایہ کی ضرورت ہے اس کی فراہمی آپ اپنے طور پر کر سکتے ہیں، یا آپ کو اس کے لیے کسی دوسرے کی طرف دیکھنا ہوگا، اگر آپ اپنے طور پر کر سکتے ہیں تو بسم اللہ، ہدف کا آغاز کر دیجئے اللہ کی نصرت ومدد آپ کے ساتھ ہے، اور اگر کام آپ کوکرنا ہے اور وسائل دوسری طرف سے لینے ہیں تو پہلے وسائل کی منظوری لیجئے پھر قدم آگے بڑھائیے، اپنا تجربہ تو یہی ہے کہ جب تک آپ وسائل کے لیے دوسروں کی طرف دیکھتے رہیں گے ہیں آپ ہدف کے لیے وسائل جٹانے میں کمزور رہیں گے، اس لیے دوسروں کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے طور پر سوچیے، میری دادی کہا کرتی تھیں’’جب تک کریہو بابو بابو، تب تک کر لو اپنا قابو‘‘۔

ڈاکٹرمولانا محمدعالم قاسمی کی کتاب ’’نقوش تابند‘‘— ایک مطالعہڈاکٹر نورالسلام ندوی

ڈاکٹرمولانا محمدعالم قاسمی کی کتاب ’’نقوش تابند‘‘— ایک مطالعہ
ڈاکٹر نورالسلام ندوی
(اردودنیانیوز٧٢)
ڈاکٹرمولانامحمدعالم قاسمی علمی،ادبی،مذہبی اورسماجی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں،ان کانام جاناپہچانااورمشہورومعروف ہے، یوں تو مولاناایک مستندعالم دین اورباوزن امام وخطیب کی حیثیت سے خاصے مشہورہیں،لیکن قلمی اورتحریری دنیامیں بھی کم مشہورنہیں ہیں۔ تقریباًایک درجن کتابیں ان کے گہربارقلم سے نکل کراوراشاعت پذیرہوکرمقبول ہوچکی ہیں۔ان کی تازہ تصنیف ’’نقوش تابندہ ‘‘ منتخب مضامین ومقالات اورتبصرے کامجموعہ ہے۔248صفحے پرمشتمل یہ کتاب بنیادی طورپردوحصوں میں منقسم ہے۔پہلے حصہ میں اٹھارہ مضامین ہیں،ان میں پانچ متفرق مضامین ہیں،اور بقیہ شخصیات پرہیں۔پہلے مضمون کاعنوان ہے ’’قرآن کریم اوراس کے اردو تراجم‘‘اس مضمون میں قرآن کریم کے اردو تراجم کے آغازوارتقاء کااختصارسے جائزہ لیاگیاہے اوراہم تراجم اوراس کی خصوصیات پرروشنی ڈالی گئی ہے۔ دوسرامضمون بھی اسی سے ملتاجلتاہے۔ اس مضمون میں علماء دیوبندکے قرآن کریم کے مشہور اردو تراجم کے حوالے سے گفتگوکی گئی ہے۔مضمون کی قرأت سے اس بات کااندازہ ہوتاہے کہ قرآن پاک کے اردوتراجم کے بارے میں علماء دیوبندکے کیاکارنامے ہیں اس مضمون میں مولانامحترم نے بہارسے تعلق رکھنے والے دوفاضل دیوبندکے ترجمے کابطورخاص ذکرکیاہے۔ ایک مولاناخالد سیف اللہ رحمانی اوردوسرے مولاناڈاکٹرابوالکلام قاسمی شمسی ،مصنف مولاناقاسمی  کے ترجمہ قرآن تسہیل القرآن کے بارے میں تحریرکرتے ہیں:
’’اردوزبان میں ترجمہ کی کثرت کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک تغیرپذیرزبان ہے اورہرنصف صدی میں اس کاایک نیاقالب تیارہوتاہے۔ پھرایک ہی موضوع پرکئی اہل علم قلم اٹھاتے ہیں توسب کی تحریروں میں الگ الگ خوبیاں محسوس ہوتی ہیں کہ صاحب تحریر کاذوق ،ان کا مطالعہ اور ان کی فکریں ان میں جھلکتی ہیں۔اس اعتبار سے یہ ترجمہ صرف شرف سعادت کے لیے نہیں بلکہ ایک ضرورت کی تکمیل ہے۔جس میں لسانی ارتقا کا لحاظ رکھتے ہوئے نئی تعبیرات کے ساتھ تفہیم و ترجمانی کی گئی ہے۔‘‘
ایک اہم مضمون ’’بہار میں اردو صحافت‘‘کے عنوان سے ہے۔یہ مضمون بہت جامع اور عمدہ ہے ۔اس میں صحافت کی اہمیت و افادیت اور ملک و معاشرہ پر اس کے اثر ونفوذپر روشنی ڈالتے ہوئے صحافت کی تعریف اوربہارمیں اردوصحافت کے آغازوارتقاء کاجائزہ پیش کیاگیاہے۔بہارکی اردوصحافت پرتقسیم ہند کے کیااثرات مرتب ہوئے؟اورآزادی کے بعداردوصحافت کاکیارخ رہا؟اورآج کس مقام میں ہے! ان تمام باتوں کوتحریرمیں لاگئی ہیں۔جس سے یہ اندازہ لگانامشکل نہیں کہ مولاناکی نظراردوصحافت پربھی گہری ہے۔ حالانکہ بہت سے اخبارات ورسائل کاذکراس مضمون میں آنے سے رہ گیاہے۔مضمون میں ادبی صحافت پربھی گفتگوکی گئی ہے بلکہ ادبی صحافت کاحصہ قدرطویل ہے۔ انہوں نے آزادی کے بعدجاری ہونے والے ادبی رسائل میں ندیم ،سہیل،معیاراورمعاصرکا ذکرکیاہے۔ جبکہ یہ وہ رسائل ہیں جوآزادی سے قبل جاری ہوئے۔ندیم کی اشاعت گیاسے جون1931میں ہوئی اس کے ایڈیٹرمشہورطنزومزاح نگارانجم مان پوری تھے۔ اس کے معاون مدیرعبدالقدوس ہاشمی تھے۔دسمبر1948میں یہ رسالہ بندہوگیا۔معیار1936میں جاری ہوا۔ اس کے ایڈیٹرقاضی عبدالودودتھے، اس کے صرف چھ شمارے ہی شائع ہوئے اور رسالہ بندہوگیا۔ سہیل1939میں گیاسے منصہ شہود پرآیا، اسے حافظ مولوی عبدالرحمن بسمل نے جاری کیاتھا۔ معاصر1940میں منظرعام پرآیااس کے ایڈیٹرعظیم الدین تھے۔ 1983تک یہ رسالہ جاری رہا۔ پروفیسرکلیم الدین احمداورقاضی عبدالودودبھی اس رسالہ سے وابستہ تھے۔
اس حصہ کے دیگرمضامین میں مناظراحسن گیلانی اوران کے تصنیفی کارنامے،مولانامنت اللہ رحمانی کی دینی خدمات ،کلیم عاجزکی شاعری کامتنوع پہلو، ظہیرصدیقی ایک روشن ضمیرشاعر ،صف اول کا نقاد کلیم الدین احمد اپنی تلاش ہیں،قومی یکجہتی کے علمبردار مولانا ابو الکلام آزاد، امیر شریعت سابع مولانا محمد ولی رحمانی ایک عبقری شخصیت وغیرہ بے حد اہم اور قابل مطالعہ ہیں ۔ان مضامین و مقالات کے مطالعہ سے نمائندہ علمی شخصیات ، ان کے احوال و آثار اور نقو ش حیات سے واقفیت ہوتا ہے۔
دوسرے حصے میں 19تبصرے ہیں جو مختلف کتابوں پر تحریر کئے گئے ہیں۔ان تبصروں کے پڑھنے سے بہت سی کتابوں اور اس کے مصنفین سے آشنا ئی ہوتی ہے۔یہ تبصرے مولانا ڈاکٹر محمد عالم قاسمی کی تنقیدی و تجزیاتی شعور کے آئینہ دار ہیں۔ان میں مولانا کے تنقیدی جو ہر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ تبصروں میں خوبیوں اورخامیوں دونوں پر نظر رکھی گئی ہے۔ گوکہ خامیوں پر نظر کم ہی گئی ہے۔آج کل عموماًتبصرے میں تعارف اور تعریف کاپہلونمایاں ہوتاہے، انہوں نے اپنے تبصرے میں اعتدال وتوازن کوراہ دی ہے، مولاناکے تبصرے میں ایسے اشارے اورجملے ملتے ہیں جن سے ان کی تنقیدی خوبی کاپتہ چلتاہے۔ اس سے یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے کہ مولاناکوتنقیدوتبصرہ سے خاصالگاوہے اورتبصرے وتجزیئے کااچھاذہن انہوں نے پایاہے، زبان وبیان پربھی اچھی پکڑہے، البتہ ان کامزاج کریدکرکسی کی خامی اورعیب تلاش کرنانہیں ہے، دوران مطالعہ جوخوبی نظرآئی اس کااعتراف دل کھول کرکیاہے اوراگرکچھ خامی دکھائی دی ہے تواسے بھی خوبصورتی کے ساتھ بیان کردیاہے کہ کہیں ٹھیس نہ لگ جائے ان آبگینوں کو،اس لئے خامیوں پرنظرڈالتے ہوئے ایسااندازاسلوب اختیارکئے ہیں جودل کوگھائل نہ کرے۔
مصنف نے بارہ صفحات پرمشتمل ’’عرض مصنف‘‘ کے عنوان سے تحریرکیاہے۔اس میں انہوں نے اردوادب کی تاریخ پرروشنی ڈالی ہے۔ خاص طورپراردوادب کی تاریخ رقم کرنے میں علماء کرام کے کردارکوواضح کیاہے، کتاب کایہ حصہ بھی اہم اورمعلوماتی ہے۔ کتاب کے شمولات اورمضامین متنوع ہیں، یہ اس بات کاواضح اشارہ ہے کہ ان کے مطالعہ کاکینوس کافی وسیع ہے،اورمصنف کومتنوع موضوعات پرلکھنے کی قدرت حاصل ہے۔صفحہ نمبر223اور224پرایک ایک غزل شامل ہے اس سے پہلی مرتبہ ادبی حلقے کومولاناڈاکٹرمحمدعالم قاسمی کی شعری صلاحیت کاعلم ہوا۔غزل کامطالعہ اس بات کاغمازہے کہ مولانا اپنے اندرکافی عرصہ سے شعری جوہرچھپائے ہوئے تھے جوبالآخرباہرنکل آیاہے۔ہمیں امیدہے کہ آئندہ مولانااس فن میں بھی اپنی جولانی طبع کاخوب خوب مظاہرہ کریں گے اورشعری سرمایہ میںاپنی تخلیقات کے ذریعہ اضافہ کریں گے۔
من حیث المجموع یہ کتاب عمدہ اورقابل مطالعہ ہے۔ زبان وبیان شگفتہ ،رواں اورسلیس ہے ،البتہ جگہ جگہ کمپوزنگ کی غلطیاںراہ پاگئی ہیں۔ خاص طورپرمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی تحریر’’حرف چند‘‘میں بے شمارغلطیاں ہیں۔کتاب کے آغاز میں حضرت مولانامحمدمفتی ثناء الہدیٰ قاسمی،حضرت مولاناانیس الرحمن قاسمی،حضرت مولاناسیدشاہ تقی الدین احمدفردوسی ندوی،مولاناابونصرفاروق صارم عظیم آبادی، پروفیسر محمد عابدحسین،مولانامفتی محمدنافع عارفی قاسمی نے اپنے تاثرات میں مولاناڈاکٹرمحمدعالم قاسمی اورکتاب کے بارے میں جن خیالات اور تاثرات کااظہارکیا ہے۔اس سے کتاب کی اہمیت اورصاحب کتاب کے علم وفضل اورمقام ومرتبہ کااندازہ لگانامشکل نہیں۔دینی اور عصری علوم کے امتزاج نے مولانا ڈاکٹر محمد عالم قاسمی کے قلم و تحریر میں عصری شگفتگی اور تازگی پیدا کر دیا ہے۔میں اس کتا ب کی اشاعت پر ان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کر تا ہوں کہ مولانا کا قلم آئندہ بھی اسی طرح تعب و تھکن سے نا آشنا رواں دواں رہے گا۔

Dr. Noorus Salam Nadvi
Vill+Post Jamalpur
District Darbhanga
Bihar, 847203
E-mail : nsnadvi@gmail.com

حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی صاحب مدظلہ کا جیل سے اپنے بیٹے کے نام خط !

حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی صاحب مدظلہ کا جیل سے اپنے بیٹے کے نام خط(()
(اردودنیانیوز٧٢)
(جو ہر پڑھنے والے کے لئے بہت مفید اور نصیحت و عبرت کا خزانہ ہے
 ضرور پڑھا جائے اور شکر میں ڈوب کر کچھ کر گزرنے کے عزائم کئے جائیں) 

پیارے بیٹے! 
السلامُ علیکم و رحمۃ الله وبرکاتہ
محبت نامہ جس کے لفظ لفظ سے بے لوث محبت ، خلوص اور والہانہ تعلق جھلک رہا تھا ملا، پڑھ کر اپنے رب کے شکر کی توفیق ہوئی اور اندر سے فخر بھی کہ آپ جیسے دوست میرے رب نے عطاء فرمائے، مگر ساتھ میں آپ کے اضطراب سے حیرت بھی ہوئی! 
میرے پیارے، 
کافی زمانہ پہلے کہیں پڑھا تھا کہ ایک چڑیا نے دوسری چڑیا سے سوال کیا نہ جانے کیوں یہ انسان پریشان رہتے ہیں،؟ 
دوسری چڑیا نے معصومیت سے جواب دیا کہ شاید ان کے، الله، نہیں ہوتے ہوں گے،

میرے پیارے آپ پریشان کیوں ہیں، الحمدللہ، الحمدللہ ،ہمارے تو الله ہیں، اور وہ الله جو ساری ماؤں کو مامتا دینے والے، رحمن ورحیم ہیں اور جنکی شان یہ ہے کہ، ( *ورحمتی وسعت کل شئ* ) کریم رحیم رب کے اور اس ذات عالی کے قربان جائیں کہ ساری حرام کاریوں اور حرام خور یوں کے باوجود عفو میں چھپا کر ہمیشہ ستاری فرماکر ہمیشہ ہمیشہ، پیدا ہونے سے لیکر آج تک ہر لمحہ شکر کی زندگی عطاء فرمائی ، اور صبر کا موقع ہی نہیں عطاء فرمایا بلکہ بلا استحقاق اور بلا طلب ہمیں انسان یعنی اشرف المخلوقات بناکر پیدا فرمایا اور پہلے نمبر پر رکھا اس کے بعد نہ صرف اسلام و ایمان جیسی نعمت عظمیٰ بھی بلا استحقاق وبلا طلب عطاء فرمائی، بلکہ امت محمدیہ کا فرد بناکر بلا اہلیت ایک نمبر پر رکھا، سارے نبیوں کے سردار اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم، کو ہمارا مقتدا نبی بناکر اول نمبر پر عطا فرمایا، ساری آسمانی کتابوں میں قرآن مجید جیسی اول نمبر کی کتاب کا حامل بناکر اول نمبر کی نعمت عظمیٰ بھی ہماری طلب اور اہلیت کے بغیر عطاء فرمائی،
 پوری دنیا کے ملکوں میں آب وہوا اور جغرافیہ کے علاوہ قرآن وسنت سے والہانہ تعلق رکھنے کے لحاظ سے بھی ایسے پیارے ملک میں پیدا فرمایا اور ہندوستان کے بھی دینی اور دنیاوی سب سے زرخیز علاقے، دو آبہ میں پیدا فرمایا، چاروں ائمہ میں سب سے معتدل اور آسان مسلک حنفی سے وابستہ فرمایا ساتھ میں، (تمسک بالکتاب والسنہ) مسلک کا فکر اور علم وعمل میں کمال اعتدال پر فائز، علم دین میں گیرائی اور وسعت کا تقویٰ، زہد، خودداری، استغنا ، اور تعلق مع الله، میں بہت ذمہ داری کے ساتھ ساری دنیا کے علماء سے ملاقات اور انکے حالات کے مطالعہ کی روشنی میں عرض کر رہا ہوں، پوری دنیا کے علماء میں امتیازی شان رکھنے والے حقیقی وارث انبیاء، علماء دیوبند، فکر ولی اللہی رکھنے والے مشاہیر سے وابستہ کیا، اسکے علاوہ پورے عالم کے سب سے شفیق اور پورے عالم کے مشائخ اور اکابر علماء کے سرخیل،  مرشد حضرت مولانا سید ابو الحسن علی، نوراللہ مرقدہ، کے قدموں سے نسبت عطاء فرمائی، اسی پر بس نہیں، ایسے گنوار اور نااہل گھس کھدوں کو جنکو گھانس کھودنے کی تمییز نہیں محض اپنے فضل سے، پورے عالم کے ماحول کے خلاف پورے دین کے سب سے محترم اور میرے نبی صل اللہ علیہ وسلم کی *سنت مقصودہ،دعوت*  کے لئے منتخب کیا،
 دل پر ہاتھ رکھ کر سوچو کیا ان سب انعامات میں ہماری کسی کی طلب واستحقاق تو دور کی بات ہے، خواب وخیال کو بھی کوئی دخل نہیں، اسکے علاوہ اگر اللہ تعالیٰ ہوش وحواس دیں تو ساری زندگی بس خصوصی انعامات کو شمار کرنے میں لگ جائیگی، شکر تو کیا کر پائینگے، وہ جو اس قدر کرم فرمائی کرنے والے ہیں اور اس قدر انعامات کے لحاظ سےvvvip
مقام پر رکھا۔ 
الله ہمارے پالنے والے، ساری غلطیوں پر ہمیشہ ستاری کا معاملہ فرمانے والے ہیں اور وہ *فعال لمایرید، علی کلی شئ قدیر* بھی ہیں اور اس دنیا میں کوئی پتہ میرے اللہ کی مرضی کے بغیر نہیں ہلتا اور ان کی شان، *اذا ارادا شیئا ان یقول لہ کن فیکون* ہو پھر چند روز دعوت جیسی سارے انبیاء اور مدینہ والے نبی صل اللہ علیہ وسلم کی سنت مقصودہ کیلئے چند روز کیلئے اپنے خاص الخاص کرم اور اپنی نعمتوں کے دوسرے رنگ دکھانے کیلئے اگر یہاں بھیج دیا ہے تو پھر شکر کے بجائے اضطراب کے کیا معنی؟ اس لئے میرے پیارے پریشان مت ہوں، اللہ کی رحمت پر بھروسہ وشکر کیجئے وقت گزرجائے گا تو پتہ لگے گا کہ یہ ایام، اتنے انعام اور رحمت کے ہیں، ابھی شاید آپ کو سمجھ میں نہیں آرہا ہے تو انشاءاللہ آجائے گا، اگر سمجھ میں نہ آئے تو زندگی بھر کی بلا طلب اور بلا استحقاق نعمتوں کا خیال کرئیے جو ہمیشہ،vvvip
بناکر کریم رب نے عطاء فرمائی، ایمان بالغیب کے طور پر دل کی گہرائیوں سے کمال تشکر کے جزبہ کے ساتھ، *الحمدللہ، حمدا کثیرا کثیرا* ،کا ورد کیجئے نعرے لگائیے، اور مست رہئیے، مستی کیجیئے، یہ خط میرے گھر والوں کو یا کسی خاص رفیق کو بھی پڑھا سکتے ہیں،

اچھا آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے ہم جیسے ظاہر باطن کے گندوں اور بے حس سے، جنکو *دعوت* کی الف با، بھی کبھی نہیں آتی تھی میرے کریم رب نے بغیر کسی طلب واستحقاق بلا اہلیت اور کوشش، وسائل اور افراد کی کمی کے باوجود *دعوت* جو کار نبوت اور پیارے نبی صل اللہ علیہ وسلم، کی سنت مقصودہ اور جسکا نام بھی امت کیلئے اجنبی ہوگیا تھا، اس دعوت کی آواز کو ہم گندوں کی پہچان بناکر پورے عالم کے کونے کونے تک پہونچا کر ایک انقلاب برپا کروانا میرے رب کاایک نمبر کا vvvip کرم ہے کہ نہیں، جب ایسی عنایات ہیں تو اضطراب بے معنی،
پیارے بیٹے، میرے رب کا کرم ہے کہ اللہ نے ہر طرح کی ایک نمبر کی، vvvip نعمتوں سے ہمیں آپ کو نوازا ہے، اس میں ایمان بھی ہے اور اسلام بھی ہے، اور مسلمان ہونا تو اپنی چاہت سے دستبردار ہونے کا نام ہے اور *مسلمان ہونے کا مزہ اپنی چاہت کو اپنے پیارے رب کی چاہت میں فنا کردینے میں ہے*
 کسی نے بہلول دانا رحمۃ الله علیہ، سے سوال کیا کہ کیا حال ہے، انہوں نے جواب دیا اس شخص کا کیا حال پوچھتے ہو، زمین وآسمان کا نظام جسکی مرضی سے چلتا ہو، سوال کرنے والا بہت شرمندہ ہوا، اس نے اپنے منھ پر ہاتھ رکھا، بہلول، توبہ کرو خدائی کا دعویٰ کررہے ہو، بہلول دانا، نے جواب دیا کہ خدائی کا دعویٰ نہیں، بندگی کا اقرار کر رہا ہوں، میں نے اپنی مرضی کو اپنے رب کی مرضی میں فنا کردیا ہے، تو اب کائنات میں کچھ ہورہا ہے میری مرضی سے ہورہا ہے، وہ الله جو ساری کائنات پر رحیم وکریم ہے، اور ہمارے ساتھ اسکا بے نہایت اخص الخواص کرم ہے اس پیارے رب کی طرف سے جو بھی فیصلہ ہمارے لئے ہے وہ سراسر کرم ہے پھر اضطراب اور بے چینی کیسی؟
 کیس اور پیروی- اسکا رخ بھی میرے رب کی مرضی سے چل رہا ہے، اس لئیے خوش اور مست رہیئے، بس مزہ لیجیئے تفویض کا
 کیا ہم اشرف المخلوقات ہوکر اس معصوم چڑیا سے بھی گئے گزرے ہوگئے ہیں، بس نعرہ لگائیے

راضی ہوں میں اسی میں جس میں ہوں آپ راضی
میری خوشی وہی ہے جو آپ کی خوشی ہے

*والسلام...............آپ کا محمد کلیم*

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...