Powered By Blogger

ہفتہ, اگست 13, 2022

تحریک آزادی اور امارت شرعیہ

تحریک آزادی اور امارت شرعیہ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
(اردو دنیا نیوز٧٢)
امارت شرعیہ کے اکابر نے غلام ہندوستان کو آزاد کرانے کے لئے جو جہد کی، وہ تاریخ کا روشن باب ہے،ترک موالات، خلافت تحریک اورانڈی پینڈینٹ پارٹی کا قیام تحریک آزادی کو ہی کمک پہونچانے کی ایک کوشش تھی، بانی امارت شرعیہ حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد علیہ الرحمہ(ولادت ۱۳۰۱ھ۔وفات ۱۳۵۹ھ)حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار تھے اور ان کے متعلقین ومتوسلین مختلف انداز میں جدوجہدآزادی میں شریک رہے،کامریڈتقی رحیم لکھتے ہیں: ’’امارت کے تمام رہنما اور اہم کارکن مذہبی اثر ورسوخ کے حامل ہونے کے ساتھ جانے ہوئے کٹر سامراج مخالف سیاہی رہنما بھی تھے، مولانا مشہود احمدندوی قادری موجودہ پرنسپل مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ ،امیر شریعت اول مولانا سید شاہ بدرالدین قادری ؒ پر لکھے گئے ایک مضمون میں مولانا محمد سجادؒ کا تعارف ان الفاظ میں کراتے ہیں:’’ایک مرد مجاہد اورآزادی کے سرخیل وعلم بردار حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ جو قت اور زمانہ کے حالات کو دیکھ رہے تھے اورحالات کے صحیح نباض تھے‘‘۔(ہمارے امیر۸،مرتبہ مولانا رضوان احمد ندوی)
مولانانورالحق رحمانی رقم طراز ہیں:’’آپ مجاہد اعظم اور جنرل سپاہی بھی تھے، جب پہلی جنگ کی تیزوتند ہوا چلی اورزبردست طوفان اٹھا تو بہت سی قدآور شخصیت پستہ ہوگئیں ،لیکن آپ مستحکم چٹان کی طرح جمے رہے، آپ حضرت شیخ الہند اورحضرت شیخ الاسلام کے ساتھ جنگ آزادی میںشریک رہے، جب حضرت شیخ الہندؒنے ۱۹؍جولائی ۱۹۲۰ء کو ترک موالات کا فتویٰ دیا تواس کو مرتب کرکے ۴۸۴ دستخطوں کے ساتھ شائع کرنے والی آپ ہی کی شخصیت تھی(ہمارے امیر۳۹)مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد ؒ نے خطبۂ صدارت اجلاس مرادآباد میں آزادی کی لڑائی کے لئے ہندو مسلم کو متحد کرنے کی بات کہی، مولانا نے فرمایاکہ گھر کے غیر مسلم قوموں سے پہلے مصالحت وموادعت کی جائے، پھر بیرونی دشمنوں سے گھر کی حفاظت کی جائے،مولانامحمد سجاد ؒ محمد علی جناح کو اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں:’’اصلی فساد ہلاکت کا سرچشمہ برٹش حکومت کا دستور حکومت ہے یہ روگ بمنزلہ سل ودق کے ہے اور فرقہ وارانہ فسادات یانوکریوں یا وزارتوں میں حق تلفی بمنزلہ پھوڑا پھنسی کے ہے‘‘(مکاتب سجاد۲۵)آگے لکھتے ہیں:’’جناب کو معلوم ہے کہ اس کا علاج بجز اس کے کیاہوسکتا ہے کہ حکومت کے موجودہ سسٹم میں کلیۃ انقلاب برپا کیاجاجائے،لیکن یہ انقلاب صرف تحریروں، تقریروں،جلسوں اور جلوسوں سے حاصل نہیں ہوسکتا اورنہ صرف ظالموں کو برا کہنے سے، اس کے لئے ہمیشہ صرف ایک اصول ہے کہ ظالموں اور جابروں کے استبداد کو ختم کرنے کے لئے اور اقامت عدل وانصاف ورضائے الہی کے لئے مظلوم قوم اپنے جان ومال کی قربانی پیش کرے اور اس اصول پر عمل کرنے کے لئے دو طریقے امتداد تاریخ عالم انسانی سے رائج ہیں، ایک طریقہ جہاد بالسیف ہے اور دوسرا طریقہ بغیر مدافعت جہاد اعلان حق اور تسلیم باطل سے قولاوعملاانکار ،جس کو حرب سلمی بھی کہتے ہیں اور عرف عام میں عدم تشدد کے ساتھ سول نافرمانی‘‘(مکاتب سجاد۲۷)
مسلم لیگ نے آپ کے حرب سلمی کے مشورے کو نہیں مانا تو مولانا کو اس کا بہت افسوس ہوا، محمد علی جناح کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں’’مجھے افسوس ہے کہ مسلم لیگ نے اصل مقصد کو پیش نظر رکھ کر برٹش شہنشایت کے خلاف حرب سلمی کے ذریعہ محاذ جنگ میں قدم رکھنے کا فیصلہ نہیں کیا، معلوم ہوتاہیکہ مسلم لیگ کی رہنمائی جن ہاتھوں میں ہے ان کی اکثریت آج بھی انگریزوں پر اعتماد رکھتی ہے(مکاتب سجاد ۳۲)مولانا نے گانگریس کے ترک موالات کی تجویز کی حمایت میں ایک فتویٰ بھی لکھ کر شائع کیا،سری کرشنا سنگھ اپنے تحقیقی مقالہ ۱۶۸ پر لکھتے ہیں:ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق وہ بہار میں علماء کی تحریک کو جنم دینے والے ایسے خطرناک اور کٹر انتہاپسند تھے  جس نے ابوالکلام آزاد اورپان اسلامزم کے دوسرے بڑے داعیوں سے مل کر یہاں سب سے پہلے ایجی ٹیشن شروع کیا(بحوالہ جدوجہد آزادی میں بہار کے مسلمانوں کا حصہ ص۲۳۳)
امارت شرعیہ کے پہلے امیر شریعت حضرت مولانا سید شاہ بدرالدین قادری ؒ (ولادت ۱۸۵۲ء ،وفات ۱۹۲۴ئ) اس معاملہ میں اس قدر حساس تھے کہ ۱۹۱۵ء مطابق ۱۳۳۳ھ میں آپ کی علمی خدمات اور بااثر شخصیت ہونے کی وجہ سے انگریزوں نے انہیں شمس العلماء کا خطاب اور تمغہ دیا تھا، جسے بعض وقتی مصالح کی وجہ سے آپ نے قبول بھی کرلیا تھا،یکم اگست ۱۹۱۹ء مطابق ۱۳۳۸ھ میں خلعت وتمغہ دونوں کمشنر کو واپس کردیا اورلکھاکہ:’’میں اپنے دلی رنج وغم کا اظہار اس میں سمجھتاہوں کہ اپنے خطاب شمس العلماء ،خلعت وتمغہ وعطیہ سلطنت برطانیہ کو واپس کردوں؛ تاکہ اراکین سلطنت ہم لوگوں کے اس بے انتہا رنج وغم کا اس سے اندازہ کرلیں (ہمارے امیر ص ۷)مولانا کا یہ ردعمل برطانوی حکومت کے ذریعہ ہند وبیرون ملک پر ان ظالمانہ رویہ اور غیر منصفانہ اقدام کے نتیجہ میں سامنے آیا جو انگریزوں نے روا رکھا تھا، اس کی وجہ سے حضرت امیر شریعت اول انگریزوں سے سخت نفرت کرتے تھے اور وہ ان شرائط کو بھی ماننے کو تیار نہیں تھے جو انگریزوں نے ترک   مسلمانوں کو ذلیل کرنے کے لئے لگائے تھے،امیر شریعت اول نے تحریک خلافت اور تحریک موالات میں بھی حصہ لیا اور اپنے حلقہ کو اس پر آمادہ کیاکہ وہ ملک کی آزادی کے لئے کام کریں۔کامریڈتقی رحیم لکھتے ہیں:’’بہار میں عدم تعاون کا افتتاح بہاری مسلمانوں کے سب سے بڑے مذہبی رہنما مولانا شاہ بدرالدین قادری پھلواری شریف نے اپنے خطاب شمس العلماء کی واپسی سے کیا‘‘( جدوجہد آزادی میں بہار کے مسلمانوں کا حصہ ص۱۸۹)
 امیر شریعت ثانی مولانا محی الدین قادری اورمولانا سید شاہ قمرالدین رحمھما للہ نے تحریک ترک موالات اور تحریک خلافت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، کامریڈ تقی رحیم لکھتے ہیں:’’امارت شرعیہ کے اثر میں آکر بہار کے مسلمان اپنے امیر کی ہدایت کے بموجب آزادی کی جدوجہد میں کانگریس کی مدد کرنے کو اپنا ضروری مذہبی فرض ماننے لگے تھے۔
امیر شریعت رابع حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانیؒ (ولادت ۱۹۱۲،وفات ۱۹۹۱ئ)شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے انتہائی معتمد اور چہیتے شاگرد تھے، جب حضرت مدنی جیل میں تھے توآپ نے بھی آزادی کی لڑائی کو تیز کرنے کے لئے جیل کی صعوبتیںبرداشت کیں،دوبار جیل گئے اور جدوجہدآزادی میں اپنا حصہ ادا کیا،مولانا منت اللہ رحمانیؒ نے جدوجہد آزادی میں جو عملی اقدامات کئے اس کی وجہ سے وہ میرٹھ، مظفرنگر، سہارن پور ضلع میں تحریک آزادی کے ذمہ دار(ڈکٹیٹر)بنائے گئے، آزادی کے لئے بڑے مصائب جھیلے۔۱۹۳۶ء میں مسلم انڈپینڈنٹ پارٹی کے ٹکٹ پر آپ کامیاب بھی ہوئے، لیکن ۱۹۴۰ء میں پارلیمانی سیاست سے آپ کنارہ کش ہوگئے، حافظ امتیاز رحمانی اپنے مضمون ’’جنگ آزادی اور حضرت امیر شریعتؒ میں لکھتے ہیں:’’پارلیمانی سیاست سے علحدگی کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت نے تحریک آزادی سے اپنے آپ کو الگ کرلیا تھا یا خانقاہ رحمانی کے مریدین ،مخلصین اور متوسلین کو یہ ہدایت دی کہ وہ تحریک آزادی سے اپنے آپ کو الگ کرلیں، حضرت نے ملک وملت کے وسیع تر مفاد کے پیش نظر سرگرمی کے ساتھ جدوجہد جاری رکھی اورتحریک آزادی کی جدوجہد میں جو خفیہ سرکلر،پوسٹر اور پمفلٹ شائع ہوکر بہار کے بڑے حصے میں تقسیم ہوا کرتے تھے ،ان کی طباعت کا سب سے بڑا مرکز خانقاہ رحمانی تھا(امیر شریعت حضرت مولانا منت اللہ رحمانی،مرتبہ مولانا عمیدالزماں قاسمی ص ۴۷۹)
پانچویں امیر شریعت حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب(ولادت۱۹۰۳، وفات ۱۹۹۸) بھی سچے محب وطن اور جدوجہد آزادی میں اکابرامارت کے شانہ بشانہ رہے، مولانا انیس الرحمن قاسمی سابق ناظم امارت شرعیہ لکھتے ہیں:’’آپ سچے محب وطن اور مجاہدآزادی بھی تھے، جنگ آزادی میں بے لوث حصہ لیا تھا، ڈاکٹر سید محمود ،ڈاکٹر راجندر پرساد سابق صدر جمہوریہ کی قیادت میں چھپرہ شہر میں کام کیا، حق منزل جو اس زمانہ میں سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھا، وہاں قیام کرتے(ہمارے امیر ۲۵)
چھٹے امیر شریعت حضرت مولانا سید نظام الدین صاحبؒ (۱۹۲۷،وفات ۲۰۱۵ئ)آزادی کی تحریک کے وقت بالکل جوان تھے اور دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ کے ذریعہ چلائی جارہی تحریک کے دست وبازو تھے۔مولانا شاہ فیاض عالم ولی اللہی جدجہد آزادی میں اپنے اور مولانا سید نظام الدین کے رول کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ہم دونوں دیہاتوں میں نکل جاتے اورلوگوں کو انگریزوں کے خلاف بھڑکاتے ،راستہ میں کھانے کے لئے جھولے میں بھنے ہوئے چنے او رگڑ رکھ لیتے تھے، کھانا ملاتو کھالیانہیں تو چنے اور گڑکھاکر پانی پی لیا، (باتیں میر کارواں کی، از عارف اقبال ۱۶۶)
ان کے علاوہ قاضی حسین احمد صاحب جو امارت شرعیہ کے ایک زمانہ میں ناظم تھے، آزادی کے لئے ان کی محنت قابل رشک تھی،ترک موالات کے مسئلہ سے دوسرے قائدین کی طرح قاضی احمد حسین بھی متفق تھے، انہوں نے اس سلسلے میں گاندھی جی سے ملاقات کی، اور ملک کی آزادی میں روس اور افغانستان کے تعاون سے انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کی تجویز رکھی، گاندھی جی نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا،ان کی سوچ تھی کہ دوسروں کے بل پر اگر ہم آزادی حاصل کریں گے تو برطانیہ سے نکل کر دوسرے معاون ملکوں کے رحم وکرم پرہو جائیں گے، انہوں نے واضح لفظوں میں قاضی احمد حسین صاحب کو کہاکہ ’’ہندوستان میں خود اتنی طاقت ہونی چاہئے کہ وہ بلابیرونی مدد کے آزاد ہو اور تب وہ اپنی آزادی کی حفاظت کرسکے گا‘‘۔
گاندھی جی سے ان کی یہ ملاقات چھپی نہیں رہ سکی ،انگریزحکومت کے جاسوس ان کے پیچھے لگ گئے اوران کی گرفتاری کا فیصلہ ہوا، چنانچہ ۱۹۲۱ء میں خلافت کانفرنس گیا کے دفتر سے قاضی صاحب کی گرفتاری عمل میں آئی، شاہ محمد عثمانؒ لکھتے ہیں:’’قاضی صاحب کو دفعہ ۱۲۴ الف بغاوت کے الزام میں چھ ماہ کی سزائے قید بامشقت دی گئی تھی، وہ جب گرفتار ہوئے تو شہر میں دکانین احتجاج کے طور پر بند ہوگئیں، اسکول بند کردئے گئے، سرکاری دفاتر میں بھی بہت سے لوگ نہیں گئے گھے، وہ رہاہوئے تو اسٹیشن پر ان کے استقبال کو آدمیوں کا ہجوم جمع تھا، پلیٹ فارم اور اسٹیشن کا کمپائونڈ اوراس سے باہر سڑکوں پر لوگ جمع تھے اور نعرے لگارہے تھے(حسن حیات ۶۰۰۶۱)
 ان کے علاوہ بہت سارے امارت شرعیہ کے نامور لوگوں نے بھی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کیا، مثال کے طورپر مولانا مفتی ظفیرالدین صاحب مفتاحی، شیخ عدالت حسین، حافظ محمد ثانی وغیرہ کا نام لیا جاسکتاہے۔ڈاکٹر ابولکلام قاسمی شمسی لکھتے ہیں:’’جنگ آزادی میں امارت شرعیہ نے اہم رول ادا کیا، اس سے منسلک ،دانشوران اور عوام نے تحریک آزادی میں بھرپور حصہ لیا، ان میں سے مولانا محمد سجاد،مولانا سید شاہ محی الدین امیر شریعت مولانا شاہ محمد قمرالدین، مولانا سید منت اللہ رحمانی ،قاضی احمد حسین، مولانا عبدالوہاب، مولانا حافظ محمد عثمان، مولانا عثمان غنی، شیخ عدالت حسین، سعیدالحق وکیل،ڈاکٹر سیدعبدالحفیظ فردوسی، مسٹر محمد یونس بیرسٹر، مولانا عبدالصمدرحمانی، مسٹر محمد محمود بیرسٹر،مسٹرخلیل احمد ایڈوکیٹ کے علاوہ سیکڑوں علماء ہیں(تحریک آزادی میں علماء کرام کا حصہ ۳۰۲)
امارت شرعیہ کے پہلے ناظم،مفتی اور امارت شرعیہ کے ترجمان جریدہ امارت اور نقیب کے مدیر محترم مولانا محمد عثمان غنیؒ نے جدوجہد آزادی میں اپنے قلم کے ذریعہ مجاہدین میں جوش وجذبہ اور حوصلہ پیدا کیا، آپ کی تحریروں نے انگریزوں کو بے حد پریشان کیا، جس کے نتیجہ میں امارت کے پرچے ضبط ہوئے، ضمانت طلب کی گئی،مولانا محمد عثمان غنیؒ کو جیل کے اندر ڈالا گیا، لیکن یہ مرد مجاہد اس قدر حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار تھاکہ قید وبند کی صعوبتیں بھی اس کے قلم کو روک نہیں سکیں اور ’’امارت‘‘ کو بالآخر بند کردینا پڑا، اس کے بعد’’ نقیب‘‘ کے نام سے امارت کا ترجمان نکلناشروع ہوا،جوآج تک نکل رہاہے، آزادی سے قبل تک اس نے انگریزوں کے خلاف قلمی جہاد کیا،اورآزادی کے بعد مسلمانوں کو متحد ومتفق کرنے ،اصلاح معاشرہ اوراہم موضوعات پر اس کے مضامین ومقالات آج بھی موثر کردار ادا کررہے ہیں۔
میں نے اپنے ایک مضمون ’’بے باک صحافی۔ مولانا مفتی محمد عثمان غنی‘‘ میں لکھاتھا:’’آپ کی تحریروں میں حکومت برطانیہ پر جارحانہ تنقید ہواکرتی تھی، اوریہ تنقید حکومت لئے ناقابل برداشت تھی، کئی بار مقدمہ چلا، ۸؍مئی ۱۹۲۶ء کے ایک اداریہ پر حکومت نے اس شمارہ کو ضبط کرلیا اور سرکار انگلیشہ نے بغاوت کا مقدمہ کردیا،۲؍نومبر ۱۹۲۶ء کو نچلی عدالت سے ایک سال قید اور پانچ سو روپے جرمانہ کا حکم دیا تھا، ایک ماہ جیل میں رہنے کے بعد ۲۷؍دسمبر ۱۹۲۶ء کو عدالت عالیہ سے ضمانت منظور ہوئی، قید کی سزا ختم ہوگئی، مگر جرمانہ بحال رکھا گیا۔
۱۹۲۷ء اگست میں بتیا فساد کے موقع سے ۲۰؍صفر ۱۳۴۶ھ مطابق ۱۹؍اگست ۱۹۲۷ء کا ایک اداریہ پھر حکومت کی جبین اقتدار پر شکن کا سبب بن گیا، دفعہ ۱۵۳(ایف) کے تحت مقدمہ چلا، ایک سال قید ،ڈھائی سو روپے جرمانہ کی ادائیگی کا حکم ہوا، سرعلی امام نے مولانا کی طرف سے اس مقدمہ میں پیروی کی، ایک روز جیل میں رہنے کے بعد ضمانت ملی، ڈسٹرکٹ جج کے یہاں سے ۳۰؍اپریل ۱۹۲۸ء کو مولانا کو انصاف ملا اور وہ بری کردئے گئے، تیسری بار پھر ایک اداریہ کی وجہ سے ۱۳۵۲ھ میں حکومت بہار نے ایک ہزار روپے کی ضمانت طلب کی، امارت شرعیہ کے ذریعہ اس جرمانہ کی ادائیگی ممکن نہیں ہوئی اور ’’امارت‘‘کو بند کردینا پڑا۔مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی لکھتے ہیں:’’امارت شرعیہ کے پندرہ روزہ جریدہ’’امارت ‘‘نے اپنے انقلابی مضامین کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں جوش آزادی پیدا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا، اس کے باغیانہ وانقلابی مضامین کی وجہ سے انگریزوں نے اس پر مقدمہ چلایا اورجرمانہ عائد کیا، بالآخر اس کو بند کردیناپڑا(تحریک آزادی میں علماء کا حصہ ۲۰۳)شاہ محمد عثمان ؒ کے ان جملوں پر اپنی بات کو ختم کرتاہوں ،لکھتے ہیں:’’امارت شرعیہ  اورجمعیۃ علماء کے لوگ تو جنگ آزادی میں کود جانے کے حامی تھے اور وہ کود گئے(ان کے لئے) جہاد جہاد حریت میں شرکت محض قومی نظریہ نہیں بلکہ اسلامی مفادات کا تقاضہ تھا(حسن حیات ۸۶)

مولانا مفتی سید مکرم حسین سنسار پوریؒ

مولانا مفتی سید مکرم حسین سنسار پوریؒ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند

=========================
(اردو دنیا نیوز٧٢)
بافیض عالم دین، حاذق حکیم، حضرت مولانا شاہ عبد القادری رائے پوری ؒ کے خلیفہ ومجاز صحبت، خانقاہ قادریہ شفائیہ کے بانی وسجادہ نشیں، مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور کی مجلس شوریٰ کے رکن ،بزم عرفان وحدت اور بزم صحبائے وحدت کے رمز شناش، عظیم مصلح ، ظاہری طور پر مکمل مرداں حسن کے شاہکار، خوبصورت اور نفیس رکھ رکھاؤ والے حضرت مولانا حکیم سید مکرم حسین سنسار پوری ؒ ۲۲؍ جولائی ۲۰۲۲ء ۲ذی الحجہ ۱۴۴۳ھ کو نوے برس کی عمر میں بروز جمعہ نماز جمعہ سے قبل آخرت کے سفر پر روانہ ہو گیے، جنازہ کی نماز بعد مغرب حضرت مولانا محمد عاقل صاحب دامت برکاتہم ناظم مدرسہ مظاہر علوم نے پڑھائی اور مقامی قبرستان سنسار پور میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں پانچ بیٹے اور دو بیٹیوں کو چھوڑا۔
 مولانا حکیم سید مکرم حسین بن مولانا حکیم سید اسحاق بن حکیم سید حسن کی ولادت قصبہ سنسار پور ، مظفر آباد بلاک ضلع سہارن پور ،اتر پردیش میں نواسی سال قبل ہوئی ،آپ کے دادا حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ اور حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوری ؒ کے خلیفہ مجاز تھے، آپ کے جد امجد مولانا حکیم سید فیض الحسن صاحب اور صوفی سید کرم حسین رحمہما اللہ نے حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ کے چشمۂ صافی سے تصوف وسلوک کی تشنگی بجھائی تھی اور حضرت گنگوہی ؒ نے انہیں خلافت دی تھی، ’’ایں خانہ ہمہ آفتاب است ‘‘ اسی کو کہتے ہیں۔
اسی قصبہ میں واقع مدرسہ فیض رحمانی سے آپ نے ابتدائی تعلیم سے عربی چہارم تک تعلیم پائی، حفظ قرآن کی تکمیل بھی یہیں سے کی، یہاں حضرت کے والد درس وتدریس سے وابستہ تھے اس لیے شرح جامی تک کی بیش تر کتابیں خود اپنے والد یا ان کی نگرانی میں دوسرے اساتذہ سے پڑھیں، پھر جامعہ مظاہر العلوم سہارن پور تشریف لے گیے اور ۱۳۶۹ھ مطابق ۱۹۴۹ء میں اکابر علماء کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرکے سند فراغت حاصل کی۔
 علوم وفنون میں کامل دسترس کے بعد آپ تصوف وسلوک کی طرف متوجہ ہوئے، حالاں کہ آپ کا پورا خاندان اس معاملہ میں آگے تھا اور سوزومستی، جذب وشوق ، عشق الٰہی ونبوی سے پوراگھرانا سرشار تھا، اس کے با وجود آپ نے خانقاہ رائے پور کا انتخاب کیا اور حضرت مولانا عبد القادر ؒ رائے پوری ؒ جو محبت رسول اور عبدیت کی شمع فروزاں کرنے میں ممتاز ہی نہیں، ممتاز ترین تھے کے دست با فیض سے اپنے کو منسلک کر لیا، حضرت رائے پوری نے اپنے اس مرید پر خصوصی توجہ فرمائی؛ جس سے مولانا کا قلب جو پہلے ہی خاندانی ماحول اور ذکر وفکر کی وجہ سے مصفیٰ تھا ، مجلّٰی ہوگیا، حضرت نے خلافت عطا فرمائی تو لوگوں کا رجوع آپ کی طرف ہونے لگا آپ متبع سنت اور اپنے مرشد کی تعلیمات پر پوری طرح عامل تھے، بعد میں خواب میں مرشد کے اشارے کو پاکر آپ نے سنسار پور میں ہی خانقاہ قادریہ شفائیہ کی بنیاد ڈالی اور متوسلین کی اصلاح اور تزکیہ نفس کا فریضہ پوری زندگی انجام دیتے رہے۔
 آپ نے زندگی کے کسی مرحلہ میں علوم دینیہ اور تصوف کو معاش کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا ، معاش کے لیے آپ نے خاندانی پیشہ طبابت وحکمت کو اپنایا، آپ اپنے وقت کے طبیب حاذق اور کامیاب معالج تھے، نبض دیکھ کر نہ صرف جسمانی امراض سے واقف ہوجاتے؛بلکہ روحانی اعراض وامراض کی بھی نشاندہی فرماتے، دونوں کا علاج بتاتے، اللہ تعالیٰ نے دست شفا عطا فرمایا تھا ، آپ کا مطب دوائے جسمانی اور روحانی دونوں کا مرکز تھا اور مخلوق خدا آپ کی دونوں صلاحیت سے بقدر ظرف مستفید ہوا کرتی تھی، حضرت مولانا عبد القادر رائے پوری ؒ کے آپ آخری خلیفہ تھے، جو حیات تھے ، مولانا کی وفات سے اس سلسلۃ الذھب کی آخری کڑی بھی ٹوٹ گئی۔
 مولانا مرحوم خلقی طور پر وجیہ اور خوش رو واقع ہوتے تھے، ذکر الٰہی کی روشنی ان کے چہرے پر کھلی آنکھوں دیکھی جا سکتی تھی۔ علوم وسلوک میں منتہی درجہ پر پہونچنے کے باوجود آپ کے اندر تواضع اور انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، لہجہ سبک، الفاظ نرم اور اصلاح کی قلبی تڑپ سے جو آتا اسیر ہو کر رہ جاتا، نظروں سے بجلی گرانے کا محاورہ تو عام ہے، لیکن وہ جو اقبال نے کہا ہے کہ ’’نگاہِ مرد مؤمن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں‘‘ اس کے صحیح مصداق اور مظہر اتم آپ تھے۔
 آپ کا سلوک ہر ایک کے ساتھ عالمانہ ، داعیانہ اور مشفقانہ ہوا کرتا تھا، منفی باتوں کو مثبت رخ دینے کا ہنر آپ کو خوب آتا تھا، وہ گالیاں سن کر دعائیں دینے کے نبوی طریقہ پر کار بند تھے، اس لیے آپ کے مخالفین بھی آپ کے چشم عنایت اور دست با برکت سے فائدہ اٹھا لے جاتے تھے، جس طرح سورج کی روشنی ہرکہہ ومہہ کو منور کر دیتی ہے ویسے ہی آپ کی محبت وشفقت اور عشق الٰہی کی روشنی سے سبھی فائدہ اٹھاتے اور سبھی بہرہ ور ہوا کرتے تھے۔
 واقعہ یہ ہے کہ مولانا کی حیثیت خدا بیزار اور دین سے دوری کے اس دور میں قندیل رہبانی کی تھی جس سے ظلمتیں دور ہوتی تھیں، قندیل رہبانی ایک لفظ ہے جس سے بات کو سمجھایا جاتا ہے، ورنہ مولانا کے یہاں رہبانیت کا کوئی تصور نہیں تھا، وہ عوام کے درمیان رہ کر’’ خلوت در انجمن‘‘ کا مزہ لیا کرتے تھے، اس کے لیے صحرا نوردی نہ اسلام میں جائز ہے اورنہ مولانا اس کو پسند کرتے تھے، اسلام نے رہبانیت سے منع کیا ہے، اس لیے وہ قندیل رہبانی بن بھی نہیں سکتے تھے، وہ عوام کے درمیان رہا کرتے تھے، خویش واقارب بیوی بچے سب کے ساتھ ہوتے تھے، اور سب کی تربیت میں لگے رہتے تھے، اس کی وجہ سے اللہ رب العزت نے انہیں محبوبیت اور مقبولیت دونوں عطا کی تھی، مولانا کی وفات سے ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا، اور کہنا چاہیے کہ ایک چراغ اور بجھا، روشنی اور گھٹی۔
 اللہ رب العزت مولانا کی مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے اور خانقاہ قادریہ شفائیہ سنسار پور کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے، پس ماندگان کو صبر جمیل دے خانوادے کے ساتھ ملک وبیرون ملک میں پھیلے ان کے مریدین، متوسلین اور معتقدین کو بھی۔ مولانا سے میری ذاتی ملاقات تو کبھی نہیں ہوئی تھی، لیکن مشک کی خوشبو دور تک پھیلتی ہے اور نادیدہ لوگوں کے مشام جاں کو بھی معطر کرتی ہے، یہ حقیر ایسے ہی لوگوں میں سے ایک ہے۔

کورٹلہ ٹاون میں بھاری ترنگا ریالی _ مسلمانوں کی كثير تعداد بھی شریک

کورٹلہ ٹاون میں بھاری ترنگا ریالی _ مسلمانوں کی كثير تعداد بھی شریک
کورٹلہ _13 اگست ( اردودنیانیوز٧٢) تلنگانہ کے کورٹلہ ٹاون میں یوم آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی تقاریب کے پیش نظر بھاری ترنگا ریالی نکالی گئی۔جس میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے قائدین و کارکن کے علاوہ مجلس بلدیہ کی چیئرپرسن، کونسلرس، اسکول اور کالج کے طلبہ کی کثیر تعداد موجود تھی ترنگا ریالی کنگ گارڈن سے شروع ہو کر گودام روڈ نندی پر اختتام کو پہنچی۔ریالی میں مسلمانوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی جو مجاہدین آزادی کی تصاویر پر مشتمل بیانرس ہاتھوں میں رکھے تھے جس مولانا ابوالکلام آزاد ، ڈاکٹر ذاکر حسین اور دیگر مسلم مجاہدین آزادی کی تصاویر بھی شامل تھے

جمعرات, اگست 11, 2022

تنظیم تحفظِ شریعت وویلفیئر سوسائٹی گروپ کے سبھی ممبران حضرات سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ تنظیم کو ماہانہ کم از کم 30 / تیس روپے مرحمت فرماکرتعاون فرمائیں

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
گرامی قدر!
اردودنیانیوز۷۲
تنظیم تحفظِ شریعت وویلفیئر سوسائٹی گروپ کے سبھی ممبران حضرات سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ تنظیم کو ماہانہ کم از کم 30 / تیس روپے مرحمت فرماکرتعاون فرمائیں. آپ کے تعاون سے علاقے میں نادار، مفلس، بےروزگار، بیوہ اور یتیم جو مستحق ہیں ان کی مدد کی جاتی ہے مزید نا خواندگی کو دور کرنے اور تعلیم کی شرح کو بلند کرنے کے لئے علاقے میں مکتب وغیرہ کا نظام چلانے کا عزم ہے. نیزسیلاب زدہ علاقوں میں لوگوں تک راحت رسانی، اور ان کی ضروریات کی فراہمی کے لئے بھی تنظیم کام کرتی ہے. ان امور میں آپ کا تعاون قابلِ ستائش اور عنداللہ قابلِ قبول ہوگا.
جزاک اللہ احسن الجزا
ایم رحمانی ممبر تحفظ شریعت رابطہ نمبر/7275144672
مولانا فیاض احمد راہی نائب صدر تحفظ شریعتِ رابطہ نمبر/ 9801989153
مولانا عبد الوارث صاحب مظاہری سکریٹری تحفظ شریعتِ رابطہ نمبر/9686759181

بی جے پی کی " کھیر " کو " بلی " کھاگی

بی جے پی کی " کھیر " کو " بلی " کھاگی
(اردودنیانیوش۷۲)
نے دہلی میں نتیش کے بی جے پی سے اتحاد توڑنے سے پہلے اور 2017 میں دوبارہ اتحاد کے بعد، بہار کے بی جے پی لیڈروں کے ذہنوں میں سیاسی خواہش پیدا ہو گئی تھی کہ ریاست میں وزیر اعلیٰ اب بی جے پی سے ہونا چاہیے نہ کہ جے ڈی یو سے۔ کئی لیڈروں نے بھی عزائم کو کھلے عام پیش کیا۔ لیکن بی جے پی کی مرکزی قیادت جانتی تھی کہ نتیش کمار کے بغیر ریاست میں حکومت بنانا بہت مشکل ہے، جب 2020 کے اسمبلی انتخابات میں نتیش کی سیٹیں خاصی کم ہوئیں تو بی جے پی لیڈروں کے سیاسی عزائم ایک بار پھر بھڑکنے لگے۔ انہیں امید تھی کہ اب ریاست میں بی جے پی کاوزیر اعلیٰ بنے گا لیکن ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوئی۔ تاہم مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ بہار میں بی جے پی کو وزیر اعلیٰ بنانے کے لیے مسلسل سرگرم تھے۔ اسی سلسلے میں مکیش ساہنی کے وی آئی پی کے 3 ایم ایل اے بھی بی جے پی میں شامل ہو گئے۔ سیاسی ماہرین کے مطابق نتیش کمار یہ سمجھ چکے تھے کہ شیوسینا کے ساتھ طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے والی بی جے پی جب ان کے گھر میں گھس سکتی ہے تو وہ جے ڈی یو میں ایسا کرنے سے نہیں ہچکچائیں گے۔ ایسے میں شاید نتیش کمار نے جے ڈی یو کی سیاست کو بچانے کے لیے بی جے پی سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ویسے بھی لوگ کہتے ہیں نتیش کو سمجھنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے اب معاملہ یہیں نہیں رکے گا اپوزیشن میں نے جان آجاے گی اور ایک دمدار چہرہ مل گیا ہے دیکھا جاے تو یہ قدم شیر کے منھ سے نوالہ چھیننے جیسا ہے امت شاہ کے بہار سیاست پر بڑھتے کنٹرول سے وہ ناراض تھے اور انہوں نے مستقبل کے خطرات کو بھانپ لیا تھا ۔

بدھ, اگست 10, 2022

اولاد نہ ہونا بانجھ پن**بانچھ پن کا مطلب**بانجھ پن یا عقر کا مطلب : بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت میں کمی یا بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کا نہ ہونا*

*اولاد نہ ہونا بانجھ پن*

*بانچھ پن کا مطلب*
*بانجھ پن یا عقر کا مطلب : بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت میں کمی یا بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کا نہ ہونا*
(اُردو دنیانیوز۷۲)
*تعریف :*
*بانجھ پن کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے کہ 1سال کے عرصے تک نارمل مباشرت ہوتے رہنے کے باوجود اور مانع حمل ادویات استعمال کئے بغیرحمل قرار نہ پانا ہے، بانجھ پن کا شکار مرد بھی ہو سکتا ہے اور عورت بھی اس مرض میں مبتلا ہو سکتی ہے۔*

*بانجھ پن کی اقسام :*
*بانجھ پن ابتدائی اور ثانوی دو طرح کا ہوتا ہے۔*

*عمرانیہ پن (PrimaryInfertility)*
*عمرانیہ پن سے مراد وہ مریض ہیں جن میں پہلے کبھی حمل نہیں ہوا*

*ثانوی بانجھ پن*
*(Secondary Infertility)*
 *ثانوی بانجھ پن سے مراد وہ مریض جن کے ہاں پہلے حمل واقع ہو چکا ہو جبکہ ایک اور اصطلاح سٹرلٹی (Sterility) سے مراد بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کا مرد یا عورت میں مکمل طور پر ختم ہو جانا ہے، ماضی میں بانجھ پن کے شکار جوڑوں میں بچہ پیدا ہونے کی صلاحیت کم ہوتی تھی ، مگر آج جدید دور میں مناسب تشخیص اور علاج سے 85 فیصد جوڑے بچہ پیدا ہونے کی اُمید کر سکتے ہیں۔*

*بانچھ پن میں مبتلا جوڑوں کو بہت زیادہ پریشانی اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔*
*عورت کے لیے تو بانچھ گالی بن جاتی ہے، ایسے جوڑے جن کے ہاں بچہ پیدا نہ ہوا ہو سارے کا سارا قصور عورت کا ہی بن جاتا ہے، بچہ نہ پیداکرنے پرطعنے ملتے رہتے ہیں اور لعنت ملامت ہوتی رہتی ہے،* *حالانکہ بانجھ پن کا شکار مرد بھی ہو سکتے ہیں، بانجھ پن کی 40 فیصد وجوہات مردوں میں پائی جاتی ہیں، آج کل تو بہت جلد اس کی تشخیص ہو سکتی ہے کہ بانجھ پن کی شکار کون ہے مرد یا عورت*

*حمل کے لیے شرائط*
*Pregnancy Conditions For* 
*مرد اور عورت دونوں کا تندرست ہونا بہت ضروری ہے۔*
*مرد کو سرعت انزال اور ضعف باہ کا مریض نہیں ہونا چاہئے ۔*

*مرد کی طرف سے اس کے مادہ منویہ نارمل اور مناسب جرثومہ منویہ (Spermatozoon) پیدا ہونے کی ضرورت ہوتی ہے*
 *سپرمز کی صورت حال  :*
 *سپرم کی صورت حال کچھ اس طرح سے ہونی چاہئے کہ کم ازکم 72 گھنٹے کے پرہیز کے بعد مرد میں (حاصل ہونے والے) مادہ منویہ کا تجزیہ کرنے پر مادہ منویہ کی مقدار 1.5ملی لیٹر سے 5 ملی لٹر تک ، ایک ملی لٹر مادہ منویہ میں 20 ملین یا اس سے زائد سپرم 50 سے 60 فیصد تک حرکت کرنے والے (Motile) اور 60 فیصد سے زائد نارمل شکل و صورت والے سپرم ہونے چاہئیں ۔*

*مرد کو سپرم کی تعداد میں کمی (Oligospermia) یعنی سپرم کی تعداد کا ایک ملی لیٹر میں 20ملین سے کم ہونا یا مادہ منویہ میں سپرم کا موجود نہ ہونا (Azoospermia) کا مریض نہیں ہونا چاہئیے۔*

*عورت :*
*عورت کو بھی صحت مند اور توانا ہونا چاہئیے عورت کو  ورم رحم، سیلان الرحم، ماہواری کی بے قاعدگی، ہارمونز کے توازن میں خرابی، ماہواری یا حیض کی بندش، حیض کی تنگی وغیرہ کا شکار نہ ہونا چاہئیے۔*
*عورت کی طرف سے اس کی میض یا اووری (Ovary) سے ایک مکمل نمو یافتہ اور صحت مند بیضہ (Oocyte) پیدا ہو کر اسے قاذف نالی (Uterine Tube) میں پہنچنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ عورت میں بیضہ خارج ہونے کے عمل کو عمل تبویض کہتے ہیں۔*

*ہر ماہ بیضہ ایک یا دوسری اووری سے خارج ہو کر قاذف نالیوں (Fallopian Tubes) میں پہنچتا ہے۔*
*بیضہ خارج ہونے پر عورت کچھ اس طرح کے احساسات کا تجربہ کرتی ہے۔*
*جسم کا درجہ حرارت 1 تک بڑھ جاتا ہے۔*
*اگر حمل قرار نہ پائے تو ماہواری آنے تک) 13 سے 14دن تک( بڑھتا رہتا ہے۔*
*چھاتیوں میں بھراؤ اور وزنی پن محسوس کرتی ہے۔*
*مہبلی (Vaginal) رطوبت کم ہو جاتی ہیں۔*
*معمولی سا محیطی اوذیما (Peripheral Odema) جسکے ساتھ وزن میں معمولی سا اضافہ محسوس ہوتا ہے۔*
*ایسی علامات ان عورتوں میں نہیں پائی جاتی جوبیضہ خارج نہیں کرتی ہیں۔*
*بیضہ خارج ہونے پر عورت کے رحم کے منہ میں لگے ہونے بلغم کا پلگ پروجیسٹرون (Progesteron) ہارمون کے اثر سے چمکدار اور نرم مخاط میں تبدیل ہوجاتا ہے، ایسا ہونا ضروری ہوتا ہے تاکہ سپرم آسانی سے رحم کے منہ میں داخل ہو سکے، حمل ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ صحبت اس وقت کی جائے جب بیضہ خارج ہو چکا ہو پھر سپرم اور بیضہ کا کامیابی سے ملاپ ہونا چاہئیے۔*
*سپرم کو اس قابل ہو نا چاہئے کہ وہ بیضہ کی بیرونی جھلی کو اپنے خامروں سے توڑ کر بیضہ میں داخل ہو سکے جب بیضہ بار آور (Fertilize) ہو چکا ہو تو اسی دوران نسوانی جنسی ہارمونز ایسٹروجن (Estrogen) اور پروجیسٹرون کے زیر اثر رحم کی اندرونی جھلی بطانہ رحم (Endometrium) کی لائنگ مکمل ہو چکی ہو، تاکہ بار آور بیضہ رحم میں پہنچ کر آسانی سے دھنس (Implant) ہو سکے اور یہاں تقریباف 9ماہ اور دس دن اپنی نشوونما جاری رکھے بیضہ کا رحم کے اندر صحیح طرح امپلانٹ نہ ہونے سے ضائع ہو جاتے ہیں۔* 


*بانجھ پن کے اسباب*
*بانجھ پن کے مردوں اور عورتوں میں علیحدہ علیحدہ اسباب ہوتے ہیں۔*
*عورتوں میں بانجھ پن کے اسباب*
*عورتوں میں 60 فیصد اسباب بانجھ پن کا سبب بنتے ہیں۔جس میں سے 30 فیصد اسباب عمل تبویض نہ ہونا یعنی بیضہ خارج نہ ہونا (Anovulation) اور 30فیصد عورت کے تو لیدی اعضاء کی ساختی / تشریحی خرابیاں (Anatomic Defects) شامل ہیں۔*
*بیضہ کی خارج ہونے کی سب سے عام وجہ پیچوٹری گلینڈ (Pitutary Gland) کے اگلے حصے (Adenohypophsis) سے گونیڈوٹرافک (Gonadotrophic) ہارمونز کا کم خارج ہونا ہے*
*ایسی ماہواری جس میں بیضہ نہ ہو (Anovulatory Cycle) کی شناخت عورت میں پیشاب میں (Pregnanedoil) کی شناخت سے ہوسکتی ہے جو کہ پروجیسٹرون میٹا بولزم کی پیدا وارہوتی ہے۔*
*عام طور پر بیضہ خارج ہو نے کے وقت عورت کے خون میں پروجیسٹرون کے ارتکاز میں اضافہ ہو جاتا ہے۔*
*حیضی دور کے بعد کے حصے میں پیشاب میں پریگنے نی ڈول کا اضافہ نہ ہونا بیضہ خارج نہ ہونے کو ظاہر کرتا ہے، اس کے بعد زنانہ بانچھ پن کی ایک اور عام وجہ ورم درون رحم (Endometriosis) ہے اور اس کے بعد پیدا ہونے والی تبدیلیاں عورت کے تولیدی اعضاء کی تشریحی ساخت میں خرابی پیدا کرتی ہیں،*
 *اینڈومیٹری اوسس میں رحم کے اندر کی طرح کی ساخت جہاں سے حیض خارج ہوتا ہے، رحم کے باہر پیٹرو میں بھی پیدا ہو جاتی ہے، حیض کے دوران رحم کی اندرونی اینڈومیٹریم کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے قاذف نالیوں سے گذر کر پیٹرومیں آسکتے ہیں، پیٹرو میں اس ساخت پر نسوانی جنسی ہارمونز کے وہی اثرا ت ہوتے ہیں۔ جو رحم کی اندر کی ساخت پر ہوتے، رحم میں تو حیض جاری ہونے کا ایک قدرتی راستہ ہوتا ہے۔ مگر پیٹرو میں چونکہ خون خارج ہونے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا اس لئے خون اندرہی جمع ہوتا رہتا ہے، پیٹرو میں جریان خون درد کا سبب بنتا ہے۔*
*اس سے پیٹرو کے اعضاء میں لیفی ساخت (Fibrosis) بننے کو تحریک ملتی ہے۔*
*یہ اوریزکا مکمل (encase) بندکرتا ہے اور بیضہ خارج نہیں ہونے دیتا اینڈو میٹری اوسس کے نتیجے میں پیٹرو کے اعضاء میں باہمی چپکاؤ (Adhesion) واقع ہو جاتا ہے اور قاذف نالیاں بند ہو جاتی ہیں، بعض عورتوں میں کسی پیلوک انفلے میٹری ڈزیز (PID) یا سوزاک وغیرہ کے نتیجے میں قاذف نالیاں بند ہو جاتی ہیں انفکشن رحم کے منہ میں لگے ہوئے لیسدار بلغم کی پیدائش کو بھی تحریک دیتا ہے جس کے نتیجے میں سپرم رحم کے منہ میں داخل نہیں ہو پاتے یہ بھی قابل غور بات ہے کہ بہت زیادہ کم عمر اور بہت زیادہ عمر والی خواتین میں بھی حمل قرار نہیں پاتا اگر ویجائنہ کی پی ایچ (PH) بہت کم ہو تو بھی سپرم ایسے ماحول میں زندہ نہیں رہ پاتے اور حمل قرار نہیں پاتا  اسکے علاوہ ایسی کریمیں، جیلی اور لبریکنٹس جو سپرم کو ہلاک کردیں، ورم رحم (Metritis) یا رحم کی لیفی رسولیاں (Fibroids) کی موجودگی مبیضی کیسے (Ovarian cyst) کی وجہ سے ایک یا دونوں اووریز متاثر ہو سکتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ ہارمونز کا توازن برقرار نہیں رکھ پاتی جو کہ ایک فولیکل کے میچور ہونے اور رحم کی اندرونی لائنگ کے لیے ضروری ہوتے ہیں اور ایک متاثرہ اووری ایک صحت مند بیضے کو قاذف نالی میں خارج کرنے میں ناکام رہتی ہے۔*
*اسکے علاوہ دباؤ (Stress)غذا کی کمی ،وزن کی کمی، وزن کی زیادتی کی وجہ سے ہارمونز کا توازن قائم نہیں رہتا جس سے رحم کی اندرونی لائنگ اور فم رحم کی بلغم متاثر ہوتی ہے۔ مانع حمل (Contracepives) بھی ہارمون کے قدرتی توازن کو غیر متوازن کردیتی ہیں۔ اور ماہواری کو بے قاعدہ کردیتی ہیں۔ ان ادویات کو چھوڑنے کے کافی عرصے بعد تک بھی ماہواری بے قاعدہ رہ سکتی ہے۔*
*انٹرایوٹرائن ڈیواسز (IUDs) رحم اور قاذف نالیوں میں سوزش اور سیلان الرحم کا سبب بنتی ہیں ۔*
*جسکے نتیجے میں ورم کے ٹھیک ہونے کے بعد سکارنگ (Scarring) کی وجہ سے نالیاں بند ہوسکتی ہیں۔*
*سگریٹ نوشی بھی تولیدی نظام کے نارمل فعل کو خراب کر سکتی ہے۔*
*اس سے تولیدی اعضاء میں خون کی سپلائی کی کمی اور قاذف نالیوں کے اندر لگے ہوئے بال نما ابھار (Cilia) کی حرکت متاثر ہوتی ہے ان بال نما ابھاروں کی حرکت سے بیضہ کو قاذف نالیوں میں حرکت کرنے اور آگے جانے میں مدد ملتی ہے۔ بواسیر الرحم (Polyps) یاکسی جراحی کے نتیجے میں رحم کی خرابی، رحم نہ ہونا، رحم کا میلان خلفی(Retoversion) بھی بانجھ کا سبب بنتے ہیں۔ کیفین کا لگا تار استعمال تھائرائیڈ گلینڈ کے فعل میں کمی غذائی اجزاء مثلاً وٹامن B12, E, A, B2, B6 زنک (Zinc) فولک ایسڈ ضروری امینوترشے میگنیشیم کی کمی جو فرٹیلٹی کے لیے ضروری ہیں۔ دباؤ نہ صرف ہارمونز کے توازن کو خراب کرتا ہے بلکہ قاذف نالیوں کے سکڑنے کا سبب بھی بنتا ہے جس سے بیضے کو ان نالیوں سے گذرنے میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور پیٹرو میں خون کی سپلائی کی وجہ سے رحم کی اندرونی لائنگ بھی متاثر ہوتی ہے اور ویجائنہ کے سکڑنے سے سیکس کاعمل بھی متاثر ہوتا ہے۔*



*نسخہ الشفاء :*
*مغز فندق 10 گرام،*
 *بہمن سرخ 20 گرام،*
 *سعد کوفی 10 گرام،*
 *تخم پیازسفید 30 گرام،*
*زنجبیل 10 گرام،* 
*دارچینی 30 گرام،*
*عاقرقرحا 10 گرام،*
*جائفل 10 گرام،*
*لونگ 30 گرام،*
*مصطگی رومی 3گرام،*
*بسبابہ 10 گرام،*
*خصیتہ الثعلب 20 گرام،*
 *مغزبادام 10 گرام،*
 *مغزپستہ 10 گرام،*
 *جڑاس گندھ کا چھلکا 20 گرام،*
*زعفران 2 گرام*
*ابریشم مقرض 30 گرام،* 
*مروارید ناسفتہ 3 گرام،*
 *ورق نقرہ 10عدد،*
 *ورق طلا 10 عدد،*
 *مغز چڑا 10 گرام،*
 *مشک خالص 4رتی،*
*عنبر اشہب 4 رتی،*
*سفوف جواہر 3 گرام،* 
*مایہ شتر اعرابی 10 گرام ،*
*شہد تین گنا تمام ادویہ* 


*ترکیب تیاری :*
*تمام ادویہ کو باریک کریں چھان کر شہد خالص مذکورہ بالا ملا کرقوام کر کے بطریق معجون تیار کر لیں۔*


*مقدار خوراک :*
*ایک چھوٹا چمچ چائے والا صبح و شام ہمراہ نیم گرم دودھ کے ساتھ چار ماہ استعمال کریں۔*

*پوسٹ اگرپسندآئےتو شیئر ضرور کریں*

*زنانہ و مردانہ کمزوری اور دیگر بیماریوں کے علاج کے لئے ہم سے رابطہ کریں اور ہمارے گروپ کو جوئن کریں شکریہ*

*دوا خود بنالیں یا ہم سے بنی ہوئی منگوا سکتے ہیں پورے انڈیا میں مکمل رازداری کے ساتھ  بذریعہ کوریئر اور ڈاک سے پارسل بھیجا جاتا ہے*

*کسی بھی قسم کی طبی رہنمائی و مشورہ کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں*

Helpline & Whatsapp Number5*

رابطہ نمبر 8298377755
*حکیم خوش محمد صاحب مچھڑگاواں بتیا مغربی چمپارن

جنگ آزادی میں اردوصحافیوں کی لازوال قربانیاں

جنگ آزادی میں اردوصحافیوں کی لازوال قربانیاں


(اردودنیانیو۷۲)

معصوم مرادآبادی

آج جب ہم اپنی آزادی کی طلائی سالگرہ منارہے ہیں تو ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اپنے ان سورماؤں کو بھی یاد کریں جنھوں نے بے مثال قربانیاں دے کر اس ملک کو انگریزوں کے پنجوں سے آزاد کرایا۔ یوں تو ہر برس یوم آزادی کے موقع پر ہم ان مجاہدین آزادی کو یاد کرتے ہیں، لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ آزادی کی جدوجہد میں اردو صحافیوں کی لازوال قربانیوں کو بھی یاد کیا جائے۔اس برس ہم چونکہ آزادی کی 75/ویں سالگرہ کا جشن منانے کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں اردو صحافت کے دوسوسال مکمل ہونے کا جشن بھی منارہے ہیں، اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم اردو کے ان جیالے صحافیوں قربانیوں کو بھی یاد کریں جنھوں نے اپنے قلم سے تلوار کاکام لیا۔انگریزوں نے ان میں سے کئی صحافیوں کو حق گوئی اور جرات مندی کی پاداش میں سزائے موت بھی دی، لیکن انھوں نے سرنگوں نہیں کیا۔

آزادی کی پہلی لڑائی 1857سے لے کر آزادی کے حصول تک اردو اخبارات ہی اس کام میں پیش پیش رہے۔بزرگ صحافی رئیس الدین فریدی کے لفظوں میں 1857 سے لے کر 35۔1930 تک ملک گیر پیمانے پر آزادی اور قومی اتحاد کے لیے جنگ کرنے کا سہرا زیادہ تراردو اخبارات کے سررہا، کیونکہ ہندی کے اخباراس زمانے میں برائے نام ہی تھے۔ انگریزی کے اکثر اخبار انگریزوں کے ہم نوا تھے اور علاقائی زبانوں کے اخباروں کا حلقہ اثر محدود تھا۔"(بحوالہ ماہنامہ 'آجکل'نومبر، دسمبر 1983)

اس اقتباس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اردو اخبارات نے آزادی کی جنگ میں ہراول دستے کا کام کیا، لیکن بدقسمتی سے ہمارے مورخین نے ان صحافیوں اور اخبارات کو وہ اہمیت نہیں دی، جو دیگر مجاہدین آزادی کو دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر لوگ ان کی لازوال قربانیوں سے ناواقف ہیں۔

ہم یہاں آپ کو کچھ ایسے جیالے صحافیوں سے روبرو کریں گے جنھوں نے وطن کی آزادی کے لیے قید وبند کی صعوبتیں ہی برداشت نہیں کیں بلکہ خوشی سے تختہ دار کو بوسہ بھی دیا۔ان میں سب سے اہم نام 'دہلی اردو اخبار'کے ایڈیٹر مولوی محمدباقر کا ہے جنھیں 74 سال کی عمر میں انگریزوں نے توپ کے دہانے پر رکھ کر اڑادیا تھا۔

قصور یہ تھا کہ انھوں نے اپنے اخبار میں 1857کی جنگ آزادی کے دوران باغی سپاہیوں کا ساتھ دیا تھا۔وہ آخری مغل شہنشاہ اور پہلی جنگ آزادی کے قائد بہادرشاہ ظفر کے قریب تھے اور انھیں ان کا اعتماد حاصل تھا۔

انگریزوں کے مظالم کی کہانی


یہی حال انگریزوں نے اخبار'پیام آزادی' کے مدیر مرزابیدار بخت کا بھی کیا، جو بہادر شاہ ظفر کے پوتے تھے اور ان ہی کے حکم پر انھوں نے یہ اخبار جاری کیا تھا۔ انگریزوں نے پہلی جنگ آزادی کے بعد جب دوبارہ دہلی پر قبضہ کیا تو جن اولین لوگوں کو سزائے موت دی گئی، ان میں مولوی محمدباقر کے علاوہ مرزا بیدار بخت بھی شامل تھے۔اس دور کا ایک اور اخبار 'صادق الاخبار' بھی تھا جو بہادرشاہ ظفر کے مقدمہ میں زیربحث آیا۔اردواخبارات کے جرات مندانہ کردار کی وجہ سے ہی وکیل استغاثہ نے اردو صحافت پر قلعہ معلی سے سازش کا الزام عائد کیا۔

پہلی جنگ آزادی میں اردو اخبارات نے نہایت بے باکی کے ساتھ مجاہدین کا ساتھ دیا اور قلم کو انگریز سامراج کے خاتمہ کے لیے ایک دھاردار ہتھیار کے طورپر استعمال کیا۔ایک طرف جہاں 'دہلی اردو اخبار'،'صادق الاخبار'اور 'فتح الاخبار' وغیرہ نے مجاہدانہ کردار ادا کیا تو وہیں 'کوہ نور' اور 'نورالابصار' وغیرہ سرکار پرست اخبار تھے، لیکن مجموعی طورپر اردو صحافت کا کردار قوم پرستانہ تھا۔پہلی جنگ آزادی کی ناکامی نے اردو صحافت کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگادیا۔

اردو صحافت کے اہم مراکزدہلی،لکھنؤ، میرٹھ اور کانپور جیسے شہر جو انقلاب کے بھی مراکز تھے، ان شہروں سے اردو صحافت کا صفایا ہوگیا۔اس طرح پہلی جنگ آزادی سے اردو صحافت کو زبردست صدمہ پہنچا۔1857کی جنگ چھڑتے ہی شمالی مغربی صوبہ جات کے بیشتر اردو اخبارات بند ہوگئے۔

اردو اخبارات کی اشاعت اور توسیع کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا کہ1853میں اردواخبارات کی تعداد 35تھی جو گھٹ کر صرف12رہ گئی۔1857 کی بغاوت کے بعد غیرملکی حکومت نے دیسی اخبارات پر نت نئی پابندیاں لگائیں۔ قانون زباں بندی (گیگنگ ایکٹ)کے تحت زیادہ تر کارروائی فارسی اور اردو اخبارات کے خلاف ہوئی۔ دیگر دیسی زبانوں میں کوئی اخبار زیرعتاب نہیں آیا کیونکہ انقلاب کو کامیاب بنانے میں قلعہ معلی اور اردو صحافت کے درمیان غیرمعمولی ہم آہنگی قایم تھی۔

دراصل سنہ 1857کی ناکامی کے بعد انیسویں صدی میں کسی اہم اخبار کا کوئی سراغ نہیں ملتا تاہم بیسویں صدی کے آغازمیں شائع ہونے والے شانتی نارائن بھٹناگر کے اخبار 'سوراجیہ' کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے، جو1907 میں الہ آباد سے نکلا تھا۔ یہ ایک ہفتہ واری اخبار تھا اور اس نے قربانیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔اس اخبار نے انگریز سامراج کے خلاف پوری جرات کے ساتھ آواز بلند کی اور یکے بعد دیگرے اس کے مدیروں کو پابند سلاسل کیا گیا۔

ڈھائی سال کے عرصہ میں اس کے آٹھ مدیر مقرر کئے گئے اور سبھی کو قیدوبند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا۔اس اخبار کے مدیران نے اپنے اداریوں سے ہندوستانی عوام کے دلوں میں آزادی کے جذبہ کو بیدار کیا۔جس کی وجہ سے 'سوراجیہ' اخبار کے مدیران کو حکومت نے کالاپانی کی سزا سنائی۔انگریز حکومت اس اخبار سے اس حد تک خائف تھی کہ 'سوراجیہ' اخبار کے سات مدیران کومجموعی طور پر 94 سال سے زیادہ کی سزا سنائی گئی اور انھیں کالا پانی بھیجا گیا لیکن اخبار نے اپنی پالیسی تبدیل نہیں کی۔

اس اخبار کے بانی شانتی نرائن بھٹناگر نے اپنی تمام زمین و جائدادفروخت کرکے 'سوراجیہ' کی اشاعت شروع کی تھی۔اجراء کے کچھ عرصہ بعدہی انھیں بغاوت کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا اور دوسال کی سزا اور پانچ سو روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔جرمانہ ادا نہ کرنے کی وجہ سے شانتی نرائن بھٹناگر کی قید مزید 9 ماہ بڑھا دی گئی۔

اس کے بعد موتی لال ورما اس اخبار کے مدیر بنائے گئے، جنھیں دس سال کی سزا ہوئی۔ بعدازاں بابو ہری رام 'سوراجیہ' اخبار کے مدیر مقرر ہوئے۔ انھوں نے اس کے گیارہ شمارے نکالے۔ انگریزی حکومت نے انھیں 21 سال کی سزا سنائی۔بعدازاں رام سیوک اس اخبار کے مدیر مقرر کئے گئے، لیکن جوں ہی وہ کلکٹر کو اپنا تقرری نامہ دینے گئے تو انھیں وہیں قید کر لیا گیا۔ اس کے بعد نند گوپال چوپڑا اس انقلابی اخبار کے مدیر بنائے گئے اور انھوں نے 12 شمارے بحسن و خوبی شائع کئے لیکن انگریزوں نے انھیں بھی قید کر لیا اور تیس سال کی سزا سنائی۔

اس کے بعد لدھا رام کپور نے مدیرکی ذمہ داریاں سنبھالیں اور 'سوراجیہ' کے تین شماروں میں تین اداریے تحریر کیے۔ ہر اداریئے کے عوض انھیں دس سال کی سزا ہوئی یعنی مجموعی طور پر لالہ لدھا رام کو 30سال کی سزا سنائی گئی۔ اس اخبار کی ایک اہم بات یہ تھی کہ مدیر کے جیل جانے کے بعد ایک'مدیر کی ضرورت' کا اشتہار اخبار میں مسلسل شائع ہوتا تھاجس کی شرطیں یہ تھیں:

"ایک جو کی روٹی اور ایک پیالہ پانی۔ یہ شرح تنخواہ ہے جس پر سوراجیہ الہ آباد کے واسطے ایک ایڈیٹرمطلوب ہے۔ یہ وہ اخبار ہے جس کے دو اڈیٹر بغاوت آمیز مضامین کی جھپٹ میں گرفتار ہو چکے ہیں۔اب.. ایسا ایڈیٹر درکار ہے جو اپنے عیش و آرام پر جیل میں رہ کر جو کی روٹی اور ایک پیالہ پانی کو ترجیح دے۔"

(بحوالہ 'ذوالقرنین'، بدایوں،فروری 1909)

بیسویں صدی کے دوسرے دہے میں چار بڑے اخبارات شائع ہوئے، جنھوں نے آزادی کی تحریک پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ کلکتہ سے 'الہلال'(مولانا ابوالکلام آزاد)، 'لاہور سے 'زمیندار'(مولانا ظفرعلی خاں)، دہلی سے 'ہمدرد'(مولانا محمدعلی جوہر)اور بجنور سے 'مدینہ'(مولوی مجید حسن)۔ان چاروں ہی اخباروں نے جنگ آزادی میں ہراول دستہ کا کام کیا۔ 

مولانا ابوالکلام آزادنے 'الہلال' جولائی 1912میں جاری کیا تھا، جس نے قومی جذبات اور انقلابی سوچ کو پروان چڑھایا۔یہ اخبار مولانا آزاد کی گہری سوچ وفکر کا نتیجہ تھا۔کچھ ہی عرصے میں اس کی اشاعت پچیس ہزار تک پہنچ گئی، جو اس زمانے میں غیرمعمولی سرکولیشن تھا۔اس کی مقبولیت سے انگریزحکومت پریشان تھی،لہٰذا16/نومبر 1914کو حکومت نے 'الہلال پریس کی دوہزارروپے کی پہلی ضمانت ضبط کرلی اور 14و21/اکتوبر کا مشترکہ شمارہ بھی ضبط کرلیا۔

قلم سے جدوجہد


مجموعی طورپر 17/بار 'الہلال'کی ضمانت ضبط ہوئی۔ بعدازاں 8/نومبر کو 'الہلال' کا آخری شمارہ شائع ہوا۔ اس سے دس ہزار کی ضمانت طلب کئی گئی اور جمع نہ کرانے کی صورت میں اخبار بند ہوگیا۔اخبار 1927میں دوبارہ شائع ہوا لیکن مولانا آزاد کی سیاسی مصروفیات اس میں مانع آئیں اور یہ چھ ماہ بعد اس کی اشاعت بند ہوگئی۔اردو کی سرفروشانہ صحافت میں 'الہلال' کا جو کردار ہے، وہ آج تک کسی اور کو حاصل نہیں ہوسکا۔ یہ اپنے معیار کے اعتبار سے بھی ایک منفرد اخبار تھا۔

'الہلال' کے اجراء کے سات ماہ بعد فروری 1913میں مولانا محمدعلی جوہر نے دہلی سے 'نقیب ہمدرد'کے نام سے ایک روزنامہ جاری کیا۔ 13/جون کو اس کا نام 'ہمدرد' کردیا گیا۔ ان دنوں جنگ بلقان شباب پر تھی۔ مولانا محمدعلی نے اس موقع پر 'ہمدرد' میں مغربی سامراجی طاقتوں کی سازشوں کو بے نقاب کیا اور ہندوستان پر فرنگی استبداد کی زوردار مخالفت کی۔

اخبار کے معیار اور جرات مندی کے سبب اس کی شاعت دس ہزار تک جاپہنچی۔ حکومت کو یہ بے باکی گوارا نہیں ہوئی۔ اس کے بعد 16/مئی 1915کو مولانا محمدعلی اور ان کے بھائی مولانا شوکت علی نظربند کردیا گیا اور اس کے ایک ماہ بعد 'ہمدرد' پر سنسر شپ نافذکردی گئی۔9/نومبر1924کو اس کی اشاعت دوبارہ شروع ہوئی لیکن مولانا محمدعلی کی بڑھتی ہوئی سیاسی مصروفیات، صحت کی خرابی اور سرمائے کی قلت کے سبب اخبار جاری نہیں رہ سکا۔ اس اخبار نے آزادی کے حصول کے لیے زبردست مجاہدانہ کردار ادا کیا۔

'زمیندار' کے بانی ایڈیٹر میاں سراج الدین احمد تھے۔ 1909میں ان کے انتقال کے بعد اس کی کمان ان کے نوجوان بیٹے مولانا ظفرعلی خاں نے سنبھالی۔ مولانا زبردست جوش وخروش کے آدمی تھے۔ تحریروتقریر دونوں کے دھنی تھے اور شاعری میں بھی طاق تھے۔انھوں نے سیاسی نظموں اور معرکہ خیزخبروں سے دھوم مچادی۔اخبار کی مانگ میں زبردست اضافہ ہوا۔

جنگ طرابلس شروع ہونے کے قریب 'زمیندار'ہفتہ وار سے روزنامہ ہوگیا۔دیکھتے ہی دیکھتے یہ اخبار شعلہ جوالہ بن گیا۔حکومت اس کی تاب نہ لاسکی اور پہ درپہ اس سے ضمانتیں طلب کی گئیں۔شروع میں 'زمیندار' کو 22/ہزار روپے بطور ضمانت جمع کرانے پڑے۔پہلی جنگ عظیم کے دوران مولانا ظفرعلی خاں کو نظربند کردیا گیا اور اس طرح اس کی اشاعت بند ہوگئی۔

بجنور کا قوم پرست اخبار'مدینہ' بھی اپنی بے باکی اور جرات مندی کے لیے مشہور تھا۔ اس کے مدیروں میں اپنے عہد کے بڑے نامی گرامی لوگ شامل تھے۔ یہ اخبار برطانوی حکومت کی پھوٹ ڈالو او ر راج کرو کی پالیسی کا سخت مخالف تھا۔ اس نے دیسی ریاستوں کے مصنوعی نظام کے بارے میں جو پیشین گوئیاں کی تھیں، وہ حرف بہ حرف درست ثابت ہوئیں۔

ان تفصیلات سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ اردو صحافت نے آزادی کی پوری تحریک کے دوران ہراول دستہ کا کام کیا اور وطن کی خاطر جو قربانیاں پیش کیں، انہیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...